نہرو پر تنقید بھی کرتےہیں اور نہرو بھی بننا چاہتے ہیں وزیراعظم مودی
Wednesday, 27 September 2023
Modi criticizes Nehru and also wants to be Nehru/ Qutbuddin Shahid
Monday, 18 September 2023
By-election results and prospects for 'INDIA' alliance / Qutbuddin Shahid
ضمنی انتخابات کے نتائج اور اس میں
’انڈیا‘ اتحاد کیلئے امکانات
shahid.qutbuddin@mid-day.com
گزشتہ دنوں گھوسی اسمبلی حلقہ سمیت ۶؍ ریاستوں کے ۷؍ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے۔عام طور پر ہمارےیہاں ضمنی انتخابات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ کب آتے ہیں اور کب چلے جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا لیکن ان نتائج پرپورے ملک کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس الیکشن کو سیاسی جماعتوں کیلئے ایک ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پردیکھا گیا،اسلئے اس پر دورانِ انتخابات خوب باتیں ہوئیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ ضمنی انتخابات کی یہ نشستیں اُترپردیش، اُتراکھنڈ، جھارکھنڈ، کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملک گیرحیثیت ہوگئی تھی،اس لئےیہ بات بھی کہی گئی کہ ان نتائج سے شمالی ہند، جنوبی ہند اور شمال مشرق کی ریاستوںکے عوام کی سوچ ظاہر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر اس سے ملک کے سیاسی رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے.... اور جب ہم اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا تو اس کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش کی گھوسی سیٹ پر بھگوا لہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہ سیٹ جیتنا چاہتی تھی۔ وہ قطعی نہیں چاہتی تھی کہ اس ایک سیٹ کی وجہ سے ’مودی، امیت شاہ اور یوگی‘ کی طاقت کو چیلنج کیا جائے اور قومی سطح پر ’این ڈی اے‘ پر ’انڈیا‘کی بالادستی نظر آئے.... لیکن گھوسی کے عوام نے ثابت کیاکہ کسی اور کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، ہوگا وہی جو عوام چاہیں گے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ جب تک ملک میں جمہوری نظام قائم ہے، عوام کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔۷؍ اسمبلی حلقوں میں سے۴؍ سیٹیں ’انڈیا‘ اتحاد نے حاصل کیں جبکہ این ڈی اے کے حصے میں صرف ۳؍ سیٹیں آئیں۔ سیٹوں کے اُلٹ پھیر کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے دونوں محاذ کی سیٹیںبرقرار رہیں۔مغربی بنگال میں ٹی ایم سی سے بی جے پی اپنی سیٹ ہار گئی لیکن تریپورہ میں سی پی ایم کو ہرا کر اس نے سیٹوں کی تعداد برابر کرلی۔ آئیے ! دیکھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے یہ نتائج کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ۶؍ ریاستوں کے عوام نے ملک کو کیا پیغام دیا ہے؟ اور یہ کہ ان نتائج سے ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کس طرح کے امکانات پیدا ہوتے ہیں؟گھوسی ،اترپردیشضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ اہمیت یوپی کی گھوسی سیٹ کو حاصل تھی ۔ بی جے پی نے اسے اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور محض اس ایک سیٹ پرمودی،امیت شاہ ،یوگی اور اوم پرکاش راج بھر کی ساکھ داؤ پر لگا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہی راج بھر کو ’اتحاد‘ میں شامل کیا گیاتھا کہ گھوسی کی سیٹ جیتنی ہے۔ اس کیلئےحکومت کی جانب سے ’سام دام دنڈ بھید‘ کے سارے حربے استعمال کئے گئے۔ الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی لیڈروں نے گھوسی کا چپہ چپہ چھان مارا اور ایک ایک ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کی۔ وہاں پرنہ صرف وزیراعلیٰ یوگی نے انتخابی ریلیاں کیں بلکہ ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ کیشوپرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کے ساتھ تقریباً ۲؍ درجن وزراء اور چار درجن ایم ایل ایز ہفتوں خیمہ زن رہے ۔اراکین پارلیمان نے بھی اپنی طاقت دکھائی۔ ضلع انتظامیہ پر بھی الزام عائد ہوا کہ اس نےبی جے پی کے امیدوار کی کامیابی کیلئے ہر ممکن مدد کی۔ یہ بات بار بار کہی گئی کہ رام پور اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی طرح انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ تمام رائے دہندگان جن پر بی جےپی کے خلاف ووٹ دینے کا شبہ ہو، انہیں بوتھ تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اس کے اثرات نظر بھی آئے۔ دونوں جانب سے دھواں دھار انتخابی مہم چلنے کے باوجود ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے ۳۸؍ ہزار ۸۳۵؍ ووٹ کم پڑے، جبکہ اس مرتبہ پہلے کے مقابلے زیادہ پولنگ کی امید تھی۔ اپوزیشن کاالزام ہے کہ ایسا اسلئے ہوا کہ مسلم علاقوں میں پولنگ نہیں ہونے دی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان کیلئے رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی ہوتی تو ہارجیت کا فرق اورزیادہ ہوتا۔ بعض کا کہنا ہے کہ مایاوتی کی اپیل پر دلتوں نے پولنگ کم کی۔ اگر ایسا ہے تب بھی یہ نتیجہ بی جے پی لیڈروں کی نیند حرام کرنے کیلئے کافی ہے۔ ایک سال قبل ہونیوالے الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار کو ۸۶؍ ہزار۲۱۴؍ ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ اسے ۸۱؍ ہزار ۶۶۸؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا جبکہ اس نے سماجوادی پارٹی کا امیدوار بھی ’چُرا‘ لیا تھا۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ دارا سنگھ چوہان کی وجہ سے اسے پسماندہ طبقات کے ووٹ بڑی تعداد میں ملیں گے لیکن ووٹوں کی گنتی ہوئی تو اس کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔اس نتیجے میں بی جے پی کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی اور ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے بھی پیغام ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہندو مسلم کرکے، نفرت کا بازار گرم کرکے اورآمریت کا مظاہرہ کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہے گی تو اسے اب اپنی سوچ تبدیل کرلینی چاہئے۔ گھوسی کے نتائج نے اکھلیش یادو کو پیغام دیا ہے کہ اگر انہیں عوامی حمایت چاہئے توانہیں اے سی سے باہر نکل کر عوام کے درمیان جانا ہوگا اوران کے دکھ درد میں ان کے ساتھ رہنا ہوگا۔اس نتیجے نے یہ بھی ثابت کیا کہ رام پور اور اعظم گڑھ میں سماجوادی کی شکست کی وجہ اکھلیش کی لاپروائی تھی۔اسی کے ساتھ ایک پیغام اور ہے کہ یہ جیت صرف سماجوادی کی جیت نہیں ہے بلکہ یہ ’انڈیا‘کی جیت ہے،اسلئے اس کامیابی کاخمار اُن کے سر نہیں چڑھنا چاہئےبلکہ آئندہ متحدہ طاقت کے ساتھ ہی میدان میں اُترنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے۔ڈمری ،جھارکھنڈیہاں بھی مقابلہ ’این ڈی اے‘ بنام ’انڈیا‘اتحاد تھا۔ ’انڈیا‘ کی طرف سے ’جے ایم ایم‘کا امیدوار تھا جبکہ ’این ڈی اے‘کی طرف سے ’اے جے ایس یو‘ کا امیدوار تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بھی جے ایم ایم ہی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا لیکن اس مرتبہ اسے پہلے کے مقابلے کافی زیادہ ووٹ ملے ۔ ضمنی الیکشن میں جے ایم ایم کی امیدوار بے بی دیوی کو ایک لاکھ ۳۱۷؍ ووٹ ملے جبکہ ’اے جے ایس یو‘ کی امیدوار یشودا دیوی کو ۸۳؍ ہزار۱۶۴؍ ووٹ ملے ۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی اور اے جے ایس یو کے درمیان اتحاد نہیں تھا لیکن اس مرتبہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر بھی الیکشن نہیں جیت پائیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر ووٹوں نے بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ’انڈیا‘ کو پیغام دیا کہ اتحاد ہی میں طاقت ہے۔ ۲۰۱۹ء کے اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم کو یہاں پر۲۴؍ ہزار ۱۳۲؍ ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اس کے امیدوار کو صرف ۳؍ ہزار ۴۷۲؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔باگیشور ،اُتراکھنڈیہاں پر بی جے پی اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہی لیکن اس کی کامیابی کا سہرا کانگریس کے سر باندھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے امیدوار کو یہاں پر۳۳؍ ہزار ۲۴۷؍ ووٹ ملے جبکہ کانگریس کے امیدوار کو ۳۰؍ ہزار ۸۴۲؍ ووٹ ملے۔اس طرح ۲۴۰۵؍ ووٹوں سےکانگریس کو شکست ہوگئی۔یہاں پرکانگریس کے کسی بڑے لیڈر نے انتخابی مہم نہیںچلائی۔دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے علاوہ اتراکھنڈ پریورتن پارٹی اوراتراکھنڈ کرانتی دل کی صورت میں کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی یہاں میدان میں تھے جنہیںآسانی سے رام کیا جاسکتا تھا لیکن کہا جاتاہے کہ کانگریس نے یہاں پہلے ہی سے شکست تسلیم کرلی تھی،اسلئے زیادہ محنت نہیں کی۔۲۰۲۲ء کے الیکشن میں باگیشور میں بی جے پی کو ۳۲؍ ہزار اور کانگریس کو محض ۲۰؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے جس امیدوار کو ۱۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے ،وہ اس مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہا تھا۔دھوپ گڑی ،مغربی بنگالدھوپ گڑی کی یہ سیٹ ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی ۔ یہ ریاست میں ٹی ایم سی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ سیٹ بی جے پی کے امیدوارکی موت کی وجہ سےخالی ہوئی تھی۔ زعفرانی پارٹی نے یہاں پر پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے ایک فوجی کی بیوہ کو ٹکٹ دے کر عوام کا جذباتی استحصال کرنے کی کوشش کی تھی،اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی۔ لیکن اگرممتا بنرجی نے اپنی ’انا‘ کو قربان نہیں کیاتو کامیابی کا یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ممتا بنرجی کے اسی رویے کی وجہ سے رائے دہندگان میں سردمہری پائی جارہی تھی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی الیکشن میں ۲؍ لاکھ ۲۹؍ ہزار ۳۲۳؍ ووٹ پڑے تھے لیکن اس مرتبہ ۲؍ لاکھ ۱۰؍ ہزار ۹۳۵؍ افراد ہی ووٹ دینے کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ یہاں پر سی پی ایم کو دونوں مرتبہ ۱۳؍ ہزار سے کچھ زائد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے ووٹوں میں واضح کمی دکھائی دی۔ ٹی ایم سی تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے اگر ’انڈیا‘ اتحاد کے بینر تلے الیکشن لڑتی تو اس کی کامیابی یقیناً بڑی ہوتی۔یہ ایک طرح سے ممتا بنرجی کیلئے رائے دہندگان کا انتباہ ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اس پیغام کو کتنا سمجھتی ہیں اور اس پر آئندہ کس حد تک عمل کرتی ہیں۔دیگر اسمبلی نشستیںکیرالا میں کانگریس جیتی اوربڑے فرق سے جیتی۔ وہاں دوسری پوزیشن پر سی پی ایم کا امیدوار تھا جسے ۴۲؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوار کو صرف ۶؍ ہزار ووٹ ملے۔تریپورہ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی نے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ وہاں پر ایک سیٹ بی جے پی کی اور ایک سی پی ایم کی تھی۔دونوں جگہ پر سی پی ایم کو پہلے کے مقابلے ووٹ کم ملے۔ ایسےمیں سی پی ایم کوسر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اس کی عوامی طاقت مسلسل کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کا کیڈرکمزور کیوں ہورہا ہے؟ کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ میں برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود نئی نسل میں اس کیلئے جگہ کیوں نہیں بن پارہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اسے کھلے دل سے غور کرنا ہوگا۔مجموعی طور پرضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک کا ماحول تبدیل ہورہا ہے جس میں ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کافی امکانات ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لیڈران عوام کے درمیان رہ کر عوام کی نمائندگی کرتے رہیں۔ n
Saturday, 16 September 2023
Corrections of documents and responsibility of schools/ Qutbuddin Shahid / Roznaamcha
دستاویزات کی درستگی میں اسکولوں کا اہم کردار
Monday, 11 September 2023
Special session of Parliament and Sonia Gandhi's letter to the Prime Minister/ Qutbuddin Shahid
پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور سونیا گاندھی کا وزیراعظم کے نام خط
Monday, 4 September 2023
Afsos! Medical students also started committing suicide/ Qutbuddin Shahid
دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے والے ، اپنی ہی جان لینے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ معاملہ سنگین ہے
shahid.qutbuddin@mid-day.com
نیشنلکرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں یومیہ ۳۶؍ طلبہ خود کشی کرتے ہیں یعنی ہر گھنٹے ایک سے زائد گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد اُن طلبہ کی ہوتی ہے جو دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی تگ و دو میں اس انجام کو پہنچتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو راجستھان کے شہر’ کوٹا‘ میںجسے ملک میں ’ایجوکیشن ہب‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، دو طلبہ نے خود کشی کرلی۔ یہ دونوں ڈاکٹربن کرملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ان میں سے ایک کا تعلق مہاراشٹر کے لاتور ضلع سے اور دوسرے کا تعلق بہار کے روہتاس ضلع سے تھا۔ سوچئے! اس سانحہ کے بعد ان دونوں کے گھروں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کتنے ارمان سے اُن دونوں نے ’نیٹ‘ کی کوچنگ جوائن کی ہوگی تاکہ میڈیکل میں داخلہ لے کر ڈاکٹر بن سکیں۔ان کے گھر والوں نے کیا کیا جتن کرکے انہیں وہاں بھیجا ہوگا؟ اور ان کے والدین نے اپنے بچوں کے تعلق سے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے؟
ایک جھٹکے میں نہ صرف ان کے خواب چکنا چور ہوگئےبلکہ ان کی زندگی ہی تاریک ہوگئی۔ کوٹا میں اتوار کو پیش آنے والا وہ سانحہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔یہ ایک طرح سے وہاں کا معمول بن چکا ہے۔صرف اگست ماہ میں ۷؍ اور امسال جنوری سے اب تک میڈیکل میں داخلہ پانے کے خواہش مند ۲۴؍طلبہ اپنی جان لے چکے ہیں۔ ملک کی مجموعی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ملک بھر میں ۱۳۰۸۹؍ طلبہ خود کشی کرچکے ہیں۔ان میں سے بیشتر کا تعلق اُن ریاستوں سے ہے جنہیںہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔اس معاملے میں مہاراشٹر سرفہرست ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے ۱۸۳۴؍ طلبہ کی خود کشی کے معاملات درج کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش اور تمل ناڈو کا نمبر آتا ہے۔ کرناٹک اور اترپردیش کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے توخود کشی کرنے والے۴۴؍ فیصد طلبہ کا تعلق انہیں ۵؍ ریاستوں سے ہے۔مطلب صاف ہے کہ خود کشی کی وجہ غریبی اور معاشی کسمپرسی کم اور دوسری وجوہات زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ وجوہات کیا ہیں؟ اور اس افسوس ناک اور درد ناک صورتحال کا حل کیا ہے؟
کسی کی جان لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس کیلئے مزاجاً سفاک ہوناضروری ہے۔ کسی اور کی جان لینے سے کہیں زیادہ مشکل اپنی جان لینا ہے۔ہم سوچ سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے، اس کی کوشش کرنے والے اور اس کے بارے میں سوچنے والے کسی شخص کوکس حد تک سفاک ہونا پڑتا ہوگا۔خود کشی کرنے والا صرف اپنی جان نہیں لیتا بلکہ اس سے پہلے وہ ان تمام رشتوں کا خون کرتا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں، اس کی خوشی میں اپنی خوشی دیکھتے ہیں او ر اس کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔اپنی خود کشی سے قبل وہ اپنے والدین کے ارمانوں کا گلا گھونٹتا ہے اور بڑھاپے میں تڑپ تڑپ کرمرجانے کیلئے انہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں سے ان کے خواب نوچ لیتا ہے۔ کچھ طلبہ شادی شدہ بھی ہوتے ہیں یا پھران کے رشتے طے ہوچکے ہوتے ہیں۔خود کشی کرنے والے یہ طلبہ انہیں بھی اپنی سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصومیت کی عمر سے تھوڑا آگے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے والے ان طلبہ میں آخر اتنی سفاکیت آتی کہاں سے ہے؟وہ اس حد تک کیوں چلے جاتے ہیں؟وہ کیوں نہیں سوچ پاتے کہ ان کے جان دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے؟دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنی جان بچانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ اور اتنا بڑاقدم اٹھانے سے پہلے وہ اس پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ان کے بعد ان کے متعلقین کا کیا ہوگا؟
درحقیقت ان معصوموں کو سفاک ہمارے تعلیمی نظام نے بنایا ہے ، جس میں سیکھنے اور سمجھنے سے زیادہ نمبرات کے حصول کو اہمیت دی جاتی ہے۔اس نظام میں کامیابی کی پیش گوئی صرف اُن طلبہ کیلئے کی جاتی ہے جو نتائج کی فہرست میں بلندی پر ہوتے ہیں، باقی طلبہ کو ناکارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس نظام نے ہمارے طلبہ کو مارکس حاصل کرنے کی مشین بنا دیا ہے اور انہیں کوچنگ کلاسیز کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ ملک میں ایم بی بی ایس میں داخلے کیلئے صرف ایک لاکھ ایک ہزار نشستیں ہیں جبکہ ’نیٹ‘ کے امتحان میں ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار سے زائد طلبہ نے شرکت کی تھی۔ کچھ کہے بغیر ہمارا تعلیمی نظام ان ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار میں سے ۱۹؍ لاکھ سے زائد طلبہ کو ناکارہ قرار دے دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ طلبہ محض اس وجہ سے اپنے والدین کا سامنا نہیں کر پاتے کہ اُن کی وجہ سے سماج میں ان کے والدین کی ’ناک نیچی‘ ہو جائے گی جبکہ کچھ طلبہ اس وجہ سے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے زمین، زیور بیچ کر اور اپنی بنیادی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی فیس ادا کی تھی۔ سفاکیت اور بے رحمی اس تعلیمی نظام ہی میں ہے، یہی سبب ہے کہ کامیاب ہونے اورڈاکٹر بن جانے والوں میں بھی صلہ رحمی کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔