Saturday, 10 March 2012

Good decision by Uttar Pardesh voters......

 یوپی کے باشعور رائے دہندگان کا مدبرانہ فیصلہ

 مبارکباد کےمستحق ہیں یوپی کے رائے دہندگان، جنہوں نے اپنے ووٹوں کی طاقت کو محسوس کیا،اس کا بہتر استعمال کیا اور مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مایاوتی کی مطلق العنان حکومت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتائی اورکانگریس کے پنجے کو بھی مروڑ دینے میں کامیابی حاصل کی .....جسے تعمیر سے زیادہ تخریب پر یقین تھا۔ اس مبارک سلامت کے حقدار بلاشبہ تمام رائے دہندگان ہیں لیکن مسلمانوں نے جس شعور و تدبر کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۱۸؍ فیصدمسلم نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچادینا اور بی جے پی کو محض ۱۱؍ فیصد نشستوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ پولنگ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت منظم انداز میں ہوئی ہے۔ سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داری بحسنِ خوبی انجام دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اور نومنتخب نمائندے رائے دہندگان کے معیار اور امیدوں پر کس حد تک پورے اُترتے ہیں؟

قطب الدین شاہد

حالیہ ریاستی انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ شعور و تدبر کے استعمال اور منظم پولنگ کے معاملے میں اترپردیش کے رائے دہندگان بہت اسمارٹ واقع ہوئے ہیں۔ایودھیا تحریک کے ذریعہ پورے ملک کی فضا کو مسموم کردینے والی بی جے پی کو غیر مؤثر کرنے نیز اس کے دانتوںسے زہر نکال کر اسے بے ضرر بنانے کاسہر ا  یوپی   کے عوام کے ہی سر بندھتا ہے۔کسے یقین تھا کہ جس بی جے پی نے  ۱۹۹۸ء  کے عام انتخابات میں  ۳۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸۲؍ میں سے ۵۷؍ سیٹیں ہتھیالینے میں کامیا بی حاصل کی تھی، اسی بی جے پی کو اُسی یوپی میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسمبلی کی محض ۴۷؍ نشستوں تک محدود کردیا جائے گا۔  یہ سیکولر رائے دہندگان کی بالغ نظری کا ثبوت ہی تو ہے جو یہ ممکن ہوسکا۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ملائم سنگھ کو سزا دینے کی بات ہو، مایاوتی کی تاجپوشی کا معاملہ ہو یا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایک موقع اور دیتے ہوئےریاست میں دوسرے نمبر پر پہنچا دینے کا واقعہ ہو یا پھر ابھی اختتام پذیر ہوئے انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی ندامت کو قبول کرتے ہوئے اسے معاف کردینے اور دوبارہ مسند ِ اقتدار تک پہنچا دینے کی بات ہو....... رائے دہندگان نے ہر جگہ اور ہر موقع  پر نہایت ہی سوجھ بوجھ اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
    عام طور پر شمالی ہند کو آر ایس ایس کا مضبوط علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی شمالی ہند کے سب سے مضبوط گڑھ  یوپی میں بی جے پی کو  ۱۱؍ فیصد یعنی ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں صرف ۴۷؍ نشستیں ہی مل سکیں، اس کے برعکس ۸۹؍ فیصد سیٹیں سیکولر طاقتوں کے قبضے میںگئیں۔سوجھ بوجھ کا مظاہرہ یوں توسبھی نے کیا لیکن مسلم رائے دہندگان کی حکمت عملی اپنی مثال آپ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸؍ فیصد ہے ، اس لحاظ سے دیکھیں تو انہوں نےاسمبلی میں (۶۹؍ اراکین کے ساتھ) اپنی( تقریباً)۱۸؍ فیصد نمائندگی اپنے ووٹوں کی طاقت کے بل پر حاصل کرلی ہے۔ یوپی میں یہ اب تک کی ریکارڈ مسلم نمائندگی ہے۔ حالانکہ اس پر افسوس نہیں کیا جاناچاہئے لیکن ....... اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اُن ۶۴؍ اسمبلی حلقوں میں جہاں مسلم نمائندے دوسری پوزیشن پر رہے ہیں، اگربیداری کا مظاہرہ تھوڑا سا اور کیا جاتا تو اس ریکارڈ کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ ان ۶۴؍ حلقوں میں کئی حلقے ایسے تھے، جہاں دو دو اور تین تین مضبوط مسلم امیدوار آپس میں ہی ٹکرا گئے تھے۔ تھوڑی سی محنت سے سکندر آباد سے سلیم اختر (بی ایس پی)،  تھانہ بھون سے اشرف علی خان (آر ایل ڈی)، غوری گنج سے محمد نعیم (کانگریس) ، پھول پور  پوئی سے ابو القیس اعظمی (بی ایس پی) اور رودولی سے عباس علی زیدی (سماجوادی ) کو ہم  آسانی سے کامیاب کرواسکتے تھے۔ (باکس میں دیکھئے  ، چند مسلم امیدواروں کی شکست کا فرق)۔
    کہاجاتا ہے کہ یوپی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی لہر تھی۔ یہ لہر کیوں تھی؟ اور کس نے پیدا کی تھی؟دیانت داری سے اس کا تجزیہ کیا جائے گا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ یہ لہریں مسلمانوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ سماجوادی پارٹی سے ناراضگی کے سبب مسلمانوں نے ۲۰۰۷ء کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کو اور ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کا ہاتھ مضبوط کیا تھا۔  سماجوادی سے مسلمانوں کی ناراضگی کیوں تھی؟  یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے  لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنے سے بہتر ہوگا کہ ’یہ ناراضگی دور کیوں ہوئی؟‘ پر گفتگو کی جائے۔
     آگےبڑھنےسے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد اس کایا پلٹ کا پوراکریڈٹ مسلمانوں کو دینا نہیں ہے .... اس کا اعتراف ہمیں بھی ہے کہ اس کے اور بھی کئی عوامل ہیں، مثلاً بی ایس پی کی بدعنوانی  اور مطلق العنانی  کے ساتھ کانگریس کی ناعاقبت اندیشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کی اس کی پرانی روِش (صدر راج کی دھمکی اس کی واضح مثال ہے)،جس کی وجہ سے عوام نے انہیں رد کردیا...... لیکن ان سب کے باوجود .... مسلمانوں کے جوش و خروش اور  سیاسی شعور کے مظاہرے کے بغیر محض انہی عوامل کی  وجہ سے سماجوادی پارٹی یوں بلا شرکت ِغیرے لکھنؤ کے تخت پر براجمان ہوپاتی،یہ ممکن نہیں تھا۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کی شکست کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں لیکن سماجوادی کی کامیابی کی بنیادی وجہ اسے مسلمانوں کی حمایت کا ملنا ہی ہے۔
    اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ سماجوادی پارٹی کا حق بھی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں سماجوادی پارٹی نے جو کام کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو.....غلطی کس سے نہیں ہوتی؟ غلطیاں کرنا انسان کے بشری تقاضے ہیں ..... لیکن بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں؟ ان پر نادم ہوتے ہیں، معافی تلافی کرتے ہیں اور اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ البتہ جو ایساکرتے ہیں وہ واقعی بڑے ہوتے ہیں اور پھر سرخروئی بھی حاصل کرتے ہیں ..... ملائم سنگھ اور ان کی ٹیم نے بھی غلطیاں کی تھیں لیکن انہوںنے ضد اور انا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی اور کلیان سنگھ کو اپنےساتھ رکھنے پر مسلمانوںسے سرِ عام معافی طلب کی۔ یہ بہت بڑی بات تھی.... اور اگر مسلمان ملائم کو معاف نہیں کرتے تو یقیناً یہ بری بات بھی ہوتی۔
    اب آئیے مسلمانوں کے سیاسی شعور کے ایک اور پہلو پر بھی گفتگو کرتے چلیں۔بلاشبہ مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ترجیح دی لیکن ..... پوری طرح  اس کی آواز پر آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کس طرح بہتر بنائی جائے؟   بھوجی پورہ میں سماجوادی پارٹی کے وریندر سنگھ گنگوار  کے مقابلے اتحاد ملت کونسل کے نمائندےشاذی الاسلام کی جیت ، بلسی میں ایس پی کے امیدوار ومل کرشن اگروال کے مقابلے مسرت علی بتّن،چیل میں بی ایس پی کے محمد آصف جعفری، مئو سے مختار انصاری اور محمد آباد سے صبغت اللہ انصاری اور اس طرح کے بہت سارے امیدواروں کی کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ یقیناً مسلمانوں نے  ایس پی کو ترجیح دی لیکن جہاںجہاں  اس کے مسلم امیدوار نہیں تھے، اور وہاں مسلمان اپنی طاقت کامظاہرہ کرسکتے تھے، انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا اور بہت منظم طریقے سے کیا۔
     الیکشن ہوچکا، نتائج آچکے، جیتنے اور جِتانے والے خوش ہولئے، مبارکبادیوں کا دور چلااور ختم بھی ہونے پر آیا،  ایک دو دن میں حکومت بھی بن جائے گی..... سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا؟ مسلم رائے دہندگان کو جو کرنا تھا، انہوں نے کیا اور پوری ذمہ داری سے کیا۔ اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے نئی حکومت اور نو منتخب نمائندوں پر۔ نئی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ مسلمان کسی پر بھروسہ کرتا ہے تو بہت گہرائی سے کرتا ہے لیکن جب اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ئی جاتی ہےتو وہ نفرت بھی اُتنی ہی شدت سے کرتا ہے۔ سماجوادی پارٹی نےمعافی طلب کی تو اسے معاف کردیا گیا لیکن کانگریس کا حشر ہمارے سامنے ہے جو آج بھی یوپی میں اپنی زمین کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہے۔  اسی کے ساتھ مسلم نمائندوں پر بھی بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح رائے دہندگان نے بلا لحاظ جماعت انہیں اپنے ووٹوں کا حقدار قرار دیا ہے، اسی طرح ان سے اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ مسلم مسائل پراسی طرح متحد ہوکر وہ بھی مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے۔اگر ایسا ہوا تو ایس پی کے ساتھ ہی تمام کامیاب مسلم نمائندوں کے بھی روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر انہیں عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

Tuesday, 6 March 2012

U P men sadar raaj ka shosha..........4 March 2012

یوپی میں صدر راج کا شوشہ........

عوا م کو دھمکی یا شکست کااعتراف

اپنی غیر سنجیدگی کیلئے بدنام کانگریس کے بڑبولے قومی جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ اکثر و بیشترسچی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اگر ان پر اعتبار نہیں آتا  تو صرف اس لئے کہ ان میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اترپردیش انتخابات کے پس منظر میں انہوں نے ایک با ر پھر سچائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر یوپی میں کانگریس شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس کیلئے راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہوںگے۔ دگ وجے سنگھ بالکل درست فرمارہے ہیں، لیکن قدرے انکساری سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کو بخش دیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی کے انتخابی نتائج اگر کانگریس کی توقع کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں تو اس کیلئے دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم بھی ذمہ دار ہوںگے۔

قطب الدین شاہد
 
 یوپی میںووٹنگ کا عمل پورا ہوا۔ ۳؍مارچ کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ریکارڈ پولنگ کے ساتھ کانگریس، بی جے پی ، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے ساتھ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے  امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بیلٹ باکس میں محفوظ ہوگیا ہے۔دو دن بعد نتائج ظاہر ہوںگے۔ ان نتائج پر صرف یوپی کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نتائج حسب توقع برآمد ہوں یا غیر متوقع لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتیں بری طرح بوکھلائی ہوئی ہیں۔ دوران الیکشن یہ بات مشاہدے میں آئی کہ ووٹنگ کے تئیں عوامی جو ش و خروش سیاسی جماعتوں کو راس نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ بدحواسی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں۔گھبراہٹ کا یہ تناسب بعض سیاسی جماعتوں میں کم ہوتا ہے تو بعض میں زیادہ۔
    یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کی جائے تو کانگریس کی بوکھلاہٹ زیادہ نمایاں ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں مل جانے کی وجہ سے کانگریس اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ اترپردیش سے اس کی بے دخلی کا دور ختم ہوچلا ہے اور اس مرتبہ وہ وہاں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔  واضح رہے کہ  ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کو نارائن دت تیواری وزارت اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس کے بعد سے کانگریس وہاں اقتدار کیلئے ترس رہی ہے۔ تب سے اب تک وہ مسلسل کوششیں کررہی ہے لیکن اس کے تمام پینترے بیکار جارہے ہیں۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کو میدان میں اتار کربھی اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں  کانگریس کو ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں۸فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۲۲؍ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۱۸ء۲۵؍  فیصد ووٹ مل گئے جس کی وجہ سے اسے ۲۱؍ پارلیمانی نشستیں مل گئیں اور وہ یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی۔اس کامیابی نے کانگریس کی خوش فہمی میں اضافہ کردیا اوراسے لگنے لگا کہ عوام نے اس کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے۔
    ویسے کانگریس اگر یہ سوچ رہی تھی تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ عوام نے یقیناً اس کی غلطیوںکو معاف کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اترپردیش میں کانگریس کا جو ووٹ بینک رہا ہے، جس کی وجہ سے  وہ وہاں ۴۰؍ برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے، اس میںمسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ اپر کاسٹ کے ہندوؤں کا اہم رول رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے یہ تینوں ووٹ بینک دور ہوتے گئے۔ رام مندر کی تحریک سے اپر کاسٹ بی جے پی کے  خیمہ میں چلا گیا، تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے فاصلہ بنا لیا ۔ اسی طرح بی ایس پی کی آمد نے دلتوں کے دلوں سے کانگریس کا موہ بھنگ کردیا۔اس مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی تینوں کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے...... لیکن ان کے ’بزرگوں‘ نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔   ووٹوں کی کاشت کیلئے راہل نے یوپی کی زمین کو بہت اچھی طرح ہموار کردیا تھا لیکن   دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم  نے ان کا کھیل خراب کردیا اور اس قابل کاشت زمین میں کنکر پتھر ملاکر اسے بنجر بنانے  میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔    
  دلتوں کے گھر جانا اور ان کے گھر کا کھانا کھانا، اپنے آپ میں بڑا قدم تھا، راہل نے یہ کام کیا اورا س طرح دلتوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر بھی کیا۔  یہ اور بات ہے کہ انہیں ووٹ بینک میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ یہ یقینا ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔  راہل گاندھی نے اس برف کو پگھلانے کی ایک اچھی پہل ضرور کی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ہموار کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ ماضی میں کانگریس نے جو غلطیاں کی ہیں، جن کی وجہ سے یوپی کے مسلمانوں نے اسے ریاست سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا، اس میں لچک پیدا ہونے لگی تھی۔ راہل کی معصومیت پر لوگوں کو ترس آنے لگا تھا، اور لوگ یہ ذہن بنانے لگے تھے کہ کانگریس کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا جاسکتا ہے...... لیکن اسی درمیان کانگریس کی جانب سے اترپردیش انتخابات کی کمان سنبھالنے والے دگ وجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس کا تذکرہ چھیڑ کر مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کردیا۔ کانگریس کی کارستانیوں کو مسلمان یقینا ً بھولے نہیں تھے اور بھولنے کا ارادہ بھی نہیں تھا لیکن اس بیان سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتی بلکہ ان کے زخموں کو کرید کر انہیں ہرا بھی رکھنا چاہتی ہے۔ رہی سہی کسر چدمبرم کے فوری ’ری ایکشن‘ نے پوری کردی۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی خاموشی سے بھی مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ کانگریس کی ان بے وفائیوں کو مسلمان کسی طرح بھولنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ سلمان خورشید بھی درمیان میں کود پڑے۔ بٹلہ ہاؤس معاملے کے ساتھ  ہی ریزرویشن کے معاملے پر بھی انہوں نے کئی قلابازیاں کھائیں اور اپنے ساتھ مسلمانوں کو  بھی تذبذب میں مبتلا رکھا۔ان کا یہ کہنا کہ بٹلہ ہاؤس کا واقعہ سننے کے بعد سونیا گاندھی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں، کسی کوبھی ہضم نہیں ہوا ۔ اسی طرح مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے ان کے وعدے پر بھی اعتبار کرنا مشکل لگا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ۴۰؍ برسوں تک یوپی اور ۵۰؍ برسوں تک مرکز میں حکمرانی کی ہے   اور اس درمیان مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ سماجوادی پارٹی سے کانگریس میں آئے بینی پرساد ورما بھی اپنی سنجیدگی کو (جس کیلئے وہ مشہور تھے) بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا ’جرأت مندانہ‘ بیان دے ڈالا..... اور دودن کے بعد ہی ’زبان پھسلنے کی بات کہہ کر‘ اپنا بیان واپس بھی لے لیا۔ اس طرح کے بیانات دے کر کانگریس نے مسلمانوں میں اپنی شبیہ تو خراب کرہی لی تھی ....... ایسے میں رہی سہی کسر پوری کردی دگ وجے سنگھ اور مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال نے۔ ان کا یہ کہنا کہ اترپردیش میں یا تو کانگریس کی حکومت بنے گی یا پھر صدر راج نافذ ہوگا،کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں تھا ..... اور ہونا بھی نہیں چاہئے تھا۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ آپ رائے عامہ کی پروا نہیں کرتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ کی دھمکی دیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کانگریس کو عوام اس قابل نہیں سمجھتے ہیں کہ اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپیں تو وہ کیا وہ عقبی دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کی دھمکی دے گی۔ کانگریس  رہنماؤں کے اس بیان سے کسی اور کونہیں بلکہ صرف اور صرف کانگریس کو ہی نقصان پہنچے گا۔ نتائج تو بہرحال دو دن بعد ظاہر ہوںگے لیکن .... یہ طے ہے کہ کانگریس کو جتنی سیٹیں مل سکتی تھیں، اُتنی تو بہرحال نہیں ملیںگی اور اس کیلئے  بقول د گ وجے سنگھ ’راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ہی ذمہ دار ہوںگے‘۔

Wednesday, 22 February 2012

UP election men record polling

اترپردیش میں ریکارڈ پولنگ

عوام کی بیداری سے سیاسی جماعتوں کی نیند حرام

Tuesday, 7 February 2012

UP election and our responsibility

اترپردیش میں پہلے مرحلے کی پولنگ اور ہماری ذمہ داریاں
ووٹ نہ دینا ، ریاست، سماج اور خود کے ساتھ نا انصافی ہے
ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں  میں سے  ایک ایسی فہرست توبن  ہی سکتی ہے جس  سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا  فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔

قطب الدین شاہد
دو دن بعد  یوپی میں ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے پہلے مرحلے کی پولنگ ہے۔اس مرحلے میں ۵۵؍ امیدواروں کی قسمت کے فیصلے ہوںگے۔ان تمام کی قسمت کے فیصلے کا اختیار آئین و دستور نے جن رائے دہندگان کو سونپا ہے، ان میں  ۲۵؍ سے ۳۰؍ فیصدمسلم ہیں۔ جی ہاں ! سیتا پور، بارہ بنکی، فیض آباد، کانپور دیہات، بہرائچ، شراوستی، بلرام پور، گونڈہ، سدھارتھ نگر اور بستی  کے ان تمام ۵۵؍ اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد خاطر خواہ ہے اور وہ انتخابی نتائج پر پوری طرح سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میں سے بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں وہ، جسے چاہیں ، کامیاب کراسکتے  ہیں اور.... جہاں جِتانے کی طاقت نہیں رکھتے، وہاں بھی، اُن کی حیثیت بادشاہ گر کی ہے،یعنی اگر وہ کسی کو کامیاب نہیں کراسکتے، تو نہ سہی، مگر جسے چاہیں ، اسے شکست سے دوچار کرہی سکتے ہیں۔
    اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنی اس طاقت کو محسوس کرتے ہیں، ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کیلئے گھر سے باہر نکلتے ہیں اوراپنے امیدواروں   نیز سیاسی جماعتوں کا احتساب کرتے ہوئے اسے سزا یا جزا کا حقدار سمجھتے ہیں..... اورکتنے رائےدہندگان ایسے ہیں جو گھروں اور چائے خانوں میں بیٹھ کر سیاست  پر ’بصیر ت افروز‘ تبصروں   پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔  سچ تو یہ ہے کہ ان  آخرالذکر افراد کو ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔
    اگر کوئی کہے کہ آپ سے آپ کا حق رائے دہی چھین لیا گیا ہے،آپ ووٹ نہیںدے سکتے،تو ذرا سوچئے کہ آپ پر کیا گزرے گی؟  احتجاج، مظاہرے  ، دھرنے ، ہڑتال اور بھوک ہڑتال کے ساتھ ساتھ آپ انسانی حقوق کمیشن اورعدالتوں کے چکر لگائیں گے، انصاف کی دہائی دیںگے اور ناانصافیوں کا رونا  روئیں گے، اپنے ساتھ رَوا رکھے جانے والے تعصب کی بات کریںگے اور ووٹ دینے کے حق کی واپسی کا مطالبہ کریںگے...... امریکہ جیسی ریاست ہائے متحدہ میں ایک عرصے تک کالوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ خود ہمارے ملک میں۱۹۹۵ء  کے ایک معاملے میں الیکشن کمیشن نے   شیوسینا سپریموبال ٹھاکرے کو مجرم قرار دے کران سے ۶؍ برسوں تک کیلئے حق رائے دہی چھین لیا تھا......
    جمہوریت ایک نعمت ہے، اس کے ذریعہ عوام کو اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع دیا جاتاہے لیکن اس کی حقیقی اہمیت کا اندازہ انہی کو ہوگا جنہیں یہ نعمت میسر نہیں ہے  اور جو اپنے حکمرانوں کاانتخاب خود نہیں کرتے بلکہ وہ ان پر مسلط کیے جاتے ہیں۔جس طرح بیماری کے بعد صحت، مفلسی کے بعد دولت، پسینے کے بعد ہوا، بھوک کے بعد غذا ، اسیری کے بعد رہائی  اور غلامی کے بعد آزادی کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح   انہیں بھی ووٹوںکی اہمیت کااندازہ شاید اسی دن ہوگا، جس دن یہ حق ان سے چھین لیا جائے گا۔ خدا نہ کرے ہمارے ساتھ  ایسا ہو!!
    آج بحمداللہ ہمیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے مگر.... افسوس کہ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہے.....حالانکہ ہمارے ووٹوں کی قدر وقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام اور بلدیو سنگھ کے ووٹ کی ہوسکتی ہے۔ ووٹوں کی گنتی  کے دوران یہ کہیں نہیںدیکھاجاتاکہ جیتنے والا امیدوار عبداللہ یا عبدالرحمان کے ووٹوںسے فتحیاب ہوا ہے یاکسی اور کے ووٹ سے اور نہ ہی اس کی وجہ سے فاتح کی صحت پر کوئی اچھا یا برا اثر پڑتا ہے۔ یاد کیجئے کہ پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ ایک ووٹ (سیف الدین سوز) نے اٹل جی کی حکومت کی ساری اکڑفوں نکال کر رکھ دی تھی۔
      تین دن بعدیعنی۸؍ فروری کو ہمیں ایک بار پھر ووٹ دینے اور اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ انتخابات بھلے ہی اتر پردیش میں ہو، مگر اس پر نگاہیں پورے ملک کی ہیں اور وہ خواہ ممبئی ہو یا دہلی، وہاں کے اثرات یوپی الیکشن پر  ہمیشہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بیدار رہنا از حد ضروری ہے۔ ہمیشہ کی طرح اگر اس وقت بھی ہم نے خاموشی، غفلت اورتساہلی کا مظاہرہ کیا تو  پچھتانے کیلئے آئندہ پانچ برس ہی نہیںبلکہ بہت ممکن ہے کہ پوری زندگی بھی کم پڑے۔ یقین جانئے یہاںایک ایک ووٹ کی قیمت ہے۔ ایک ووٹ سے آپ کے پسندیدہ امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ہوسکتا ہے، وہ جیت سکتا ہے، ہار سکتا ہے۔اس کےبرعکس آپ کے ایک ووٹ نہ دینے سے آپ کا ناپسندیدہ امیدوار کامیاب ہوکرآپ کے سینے پر مونگ بھی دَل سکتا ہے۔ کُل ملا کر یہ کہ ملک کے عروج و زوال کا فیصلہ اب آپ کے ایک ووٹ پر ہے۔
    پولنگ کے دن ایک ایک ووٹ کی اہمیت  ہوتی ہے۔ آپ یہ قطعی نہ سمجھیں کہ’ بھلامیرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا؟‘قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں اس کا بھی خوب اندازہ ہے کہ ہماری اس گمرہی سے یعنی ہمارے ووٹ نہ دینے کے فیصلے سے خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، ہمارے اہل خانہ اور عزیز و اقارب بھی متاثرہوتے ہیں، اوروہ  ووٹ دینے نہیں جاتے۔
    بعض جگہوں پربوگس ووٹنگ ہوتی ہے اور بعض جگہوں پر ووٹ  خریدے اوربیچے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اچھے اور اہل امیدوار منتخب نہیں ہوپاتے..... اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس  کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ یقین جانئے غیر قانونی کام انجام دینے والے وہ عناصر اور چند سکوں کی خاطر بک جانے والے وہ بے ضمیر افراد بھی ہم میں سے ہی ہوتے ہیں اور ہماری خاموشی سے ہی انہیں شہ ملتی ہے۔  یہ کہہ کرہم خود کو تسلی دینے کی بھلے ہی کوشش لیں کہ’ہونہہ! اس میں میرا کیا؟‘، مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو یقیناً  اس جواب سے مطمئن نہیں ہوںگے کیونکہ ان واقعات سے  براہ راست  ہمارا تعلق ہے۔ وہ عناصر جو ہمارے حق پرڈاکہ ڈالتے ہیں اوراپنی غیر قانونی سرگرمیوں سے ہماری قانونی کوششوں کو زک پہنچاتے ہیں، انہیں بھلاکیسے اور کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ دراصل ہم اس کاحساب نہیں لگاتے کہ بوگس ووٹنگ ،  ہماری جائز ووٹنگ کو سبوتاژ کرنے کی ہی  ایک کوشش ہے۔
    ہمارے ملک کے اس کثیر جماعتی نظام میں چند فیصد ووٹوں کے  اِدھر اُدھر ہوجانے سے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ آئیے اس کاایک سرسری جائزہ لیتے چلیںکہ چند فیصد ووٹوں کے کم یا زیادہ ہوجانے سےپارلیمنٹ یا اسمبلیوں کی تصویریںکس طرح تبدیل ہوجایا کرتی ہیں؟
    ۱۹۹۹ء میں بی جے پی نے چند جماعتوں کی مدد سے ملک کے اقتدار  پر قبضہ کیا تھا  اور یہ قبضہ ۵؍ سال تک برقرار بھی رہا تھا لیکن آئندہ یعنی ۲۰۰۴ء میں اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ تیرہویں لوک سبھا میں اسے ۱۸۲؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ چودہویں لوک سبھا میں ۴۴؍ سیٹیں کم ہوکر محض ۱۳۸؍  رہ گئی تھیں..... حالانکہ اس کے ملنے والے ووٹوں میں زیادہ فرق واقع نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۹۹ء میں جہاں اسے ۸؍ کروڑ ۶۵؍ لاکھ ووٹ ملے تھے ، وہیں ۲۰۰۴ء میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد  ۸؍ کروڑ ۶۳؍ لاکھ تھی ۔  دیکھا آپ نے.... کہ کس طرح ۵۴۳؍ حلقوں میں ملنے والے ووٹوں میں صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کی کمی نےاسے برسراقتدار آنے سے روک دیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کے اقتدار میں آنے کا سبب بھی ووٹوں کی تھوڑی سی ہیر پھیر  ہے۔  ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو ۱۰؍ لاکھ ۳۱؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی۔ چودہویں لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کوصرف۳؍ لاکھ زائد ووٹ ملے تھے مگرحیرت انگیز طور پر اس کے نشستوں کی تعداد میں ۳۱؍ کااضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اوراسے اقتدار میں آنے کاموقع مل گیا تھا۔ کیا یہ حیران کردینے والی بات نہیں کہ بی جے پی نے صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کے خسارے  سے۴۴؍ سیٹیں گنوائیںجبکہ کانگریس کو۳؍ لاکھ ووٹوں کے اضافے سے ۳۱؍  نشستوں کا فائدہ ہوا۔  مزے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو کل پولنگ کا ۲۸ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملا تھا مگر اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی جبکہ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں ۲۸ء۵۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ اس کے نشستوں کی تعداد بڑھ کر ۲۰۶؍ ہوگئی تھی۔ اسی طرح دیکھئے کہ ۲۳ء۷۵؍ فیصد ووٹ لے کر بی جے پی نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا جبکہ۲۰۰۴ء میں ۲۲ء۱۶؍ فیصد ووٹ ملنے کی وجہ سے اسے اپوزیشن کی صف میں بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا۔
     ایسا اسلئے ہے کہ بعض نشستوں پر فتح و شکست بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے ہوا کرتی ہے۔کرناٹک کے اسمبلی حلقے میں سانتھے میراہلّی حلقے میں ہارجیت کے درمیان صرف ایک ووٹ کا فرق تھا۔ اسی طرح ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی انتخابات میںلکش دیپ حلقہ سے جنتادل متحدہ کا امیدوارمحض ۷۱؍ ووٹوں سے کامیاب ہوا تھا۔ کرناٹک کے رائچور حلقے سے کانگریس کے امیدوار وینکٹیش نائیک کو  ۵۰۸؍ اور کیرل کے مواتوپوزھا حلقے سے ایڈوکیٹ پی سی تھومس کو ۵۲۹؍ ووٹوں سے کامیابی ملی تھی۔ کچھ اسی طرح دمن اور دیو میں کانگریس امیدوار دیا بھائی پٹیل ۶۰۷؍ اور یوپی کے چھیل پارلیمانی حلقے سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار شیلندر کمار۶۳۰؍ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ کم ووٹوںسے ہار جیت کے سب سے زیادہ معاملے تمل ناڈو  میں سامنے آئے جس کی وجہ سے وہاں ۲۰۰۴ء  کے پارلیمانی انتخابات کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔جے للیتا کی پارٹی کو کل ۸۵؍ لاکھ ۴۷؍ ہزار ووٹ ملے مگر اسے ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں مل سکی تھی ، اس کے برعکس اس کی حریف جماعت ’ ڈی ایم کے‘ اور ’ ایم ڈی ایم کے‘ کو بالترتیب ۷۰؍ لاکھ ۶۴؍ ہزار اور ۱۶؍ لاکھ ۸۰؍ ہزار ووٹ ملے اور ان دونوں نے ۲۰؍ نشستوں پر قبضہ جمالیا۔ یعنی  بہت معمولی ووٹوں نے فتح و شکست کا راستہ ہموار کیا۔
     ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی  الیکشن میں بارہ بنکی، فیض آباد، امبیڈکر نگر، بہرائچ، قیصر گنج، شراوستی، گونڈہ، ڈومریاگنج، بستی، سنت کبیر نگر اور مہاراج گنج کے پارلیمانی حلقوں میں( جہاں ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے میں الیکشن ہونے جارہا ہے) ۲۵؍ سے ۳۵؍ فیصد ووٹ پانے والے امیدوار کامیاب ہوگئے تھے۔
    مذکورہ دوچار مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا ایک ایک ووٹ کس قدر قیمتی ہے؟ یعنی یہ ایک ووٹ نہ صرف امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر نے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ کا نقشہ بھی ترتیب پاتا ہے۔
    ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ ’’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں  میں سے  ایک ایسی فہرست توبن  ہی سکتی ہے جس  سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا  فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے کہ زیادہ برے شخص کو منتخب ہونے سے روکا جائے...... تو پھر معاف کیجئے ، ہمیں یہ کہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہمارے حکمراں اچھے نہیں ہیں یا  یہ کہ وہ غیر ذمہ دار ہیں۔
      دو دن بعد  پولنگ ہے۔ یعنی ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمارا حکمراں کون ہوگا؟کہنے کو تو یہ دن امیدواروں کے امتحان کا ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ امتحان رائے دہندگان کیلئے ہے۔ امیدوار ہارے یا جیتے،  دو چار دن یا بہت ہواتو ایک دو مہینے اس کا تذکرہ ہوگا لیکن رائے دہندگان کے شعوراور  بے شعوری کی باتیں پورے پانچ برسوںتک ہوتی رہیںگی۔بلاشبہ اس معاملے میں اتر پردیش کے رائے دہندگان کی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹنگ کرتے ہیں، لیکن جس قدر شعور کا مظاہرہ ہونا چاہئے، نہیں ہورہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو  ۴۰۳؍رکنی اسمبلی میں کم از کم ۷۵؍ مسلم اراکین ہوتے۔
    یہاں ایک سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا ووٹ کسے دیں؟ اس سلسلے میں ہمارا خیال ہے کہ سیاسی جماعت کے بجائے ہم امیدوار دیکھ کر ووٹ دیں.... ویسے بھی یوپی کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں آزمائی جاچکی ہیں۔آپ نے کانگریس کا دورِ اقتدار دیکھا ہے، سماجوادی اور بی ایس پی کو بھی مسند ِاقتدار تک پہنچایا ہے ، بی جے پی کا رام راج بھی دیکھ لیا ہے اور ان تمام جماعتوں کے ساتھ اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کو شریک اقتدار دیکھا ہے۔آزادی کے بعد کی گزشتہ ۶۰؍سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو شدیدمایوسی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہمارے حلقے میں جو امیدوار سب سے بہتر ہو،بلا لحاظ سیاسی جماعت اسے اپنا نمائندہ بنائیں۔ یوپی  میں مسلمانوں کی آبادی کم از کم۲۵؍ فیصد ہے لیکن آزادی کے بعد سے آج تک کسی جماعت نے کسی مسلم کو وزیراعلیٰ بنانے  کے بارے میں نہیں سوچا۔ ایسا اسلئے نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہم نے اپنی اہمیت اچھی طرح جتائی ہی نہیں۔
     جیسا کہ بالائی سطروں میں یہ بات آچکی ہے کہ ہمارے ووٹوں کی قدروقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام یا بلدیو سنگھ کی ہوسکتی ہے لیکن .... مگر افسوس کہ بحیثیت ووٹر ہماری وہ حیثیت نہیں ہے جو ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ پولنگ کے دن گھروںسے نکلنے اور پولنگ بوتھ تک جانے میں ہماری تساہلی اور غفلت ہے۔جس دن سیاسی جماعتوں کو ہم نے یہ باور کرادیا کہ آپ کی قسمت ہمارے ہاتھوں میں ہے.....یقین جانئے  وہ ہمارے اشاروں کی محتاج ہوجائیں گی۔ حالات کامشاہدہ کریں تو ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں سکھوں کے ایک اشارے پر کانگریس نے یقینی طور پر منتخب  ہوجانے والے اپنے ۲؍ ا ہم امیدواروں جگدیش ٹائٹلر اور سجن کمار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا ..... اس کے برعکس ہم لاکھ چلاتے رہے اور اپنے مطالبات پیش کرتے رہے لیکن ہمارے ان مطالبوں کو ہماری حکمراں جماعتوں نے جوتوں کی نوک پر ہی رکھا ۔ وہ خواہ مہاراشٹر کی کانگریس این سی پی حکومت ہو، مغربی بنگال کی کمیونسٹ اور ترنمول کی یا پھر بہار اور یوپی کی لالو، نتیش، ملائم اور مایاوتی کی حکومتیں رہی ہوں..... یعنی ہم ابھی تک سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرانے میں ناکام ہی رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ تمہاری فتح و شکست کا ضامن ہے ۔
     یقین جانئے، سیاسی جماعتوں کو ہم بھی اپنے اشاروں کا محتاج بنا سکتے ہیں، لیکن یہ اسی  دن ممکن  ہوگا  جس دن ہم انہیں یہ احساس دلاپانے میں کامیاب ہوںگے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پھر دیر کس بات کی ہے.... جب جاگے تب سویرا کے مصداق، دو دن بعدیعنی۸؍فروری کو  زیادہ سے زیادہ پولنگ کرکے ثابت کردیجئے کہ ہم ایک بیدار قوم ہیں لہٰذا ہمیں نظر انداز نہیں کیا جاناچاہئے ....... اُٹھو، بیدار ہوجاؤ،دیکھو! پولنگ بوتھ آپ کا انتظار کررہا ہے۔

Saturday, 14 January 2012

U P election and political parties......

اترپردیش میں رائے دہندگان کو رِجھانے کی کوششیں شروع

تمام  سیاسی جماعتیں پریشان مگر ووٹر ابھی مٹھی کھولنے کو تیار نہیں،چھوٹی جماعتوں کی موجودگی کے سبب  غیر متوقع  نتائج کی امید

قطب الدین شاہد
 
    ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے ملک کی نگاہیں اتر پردیش الیکشن پرمرکوز دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ اب وہ بات نہیں رہی  جو کسی زمانے میں ضرب المثل کی صورت اختیار کرگئی تھی کہ دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر جاتا ہے..... لیکن یوپی  انتخابات کی اہمیت سے انکار پھر بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لوک سبھا میں پہنچنے والے ہر ۶؍ اراکین پارلیمان میں سے ایک کا تعلق  وہیں سے ہوتا ہے۔
    کُل ۷؍ مرحلوں میں ہونے والےانتخابات کا بگل بج چکا ہے۔  ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے کا الیکشن ہوگا اور اس طرح ۳؍ مارچ کو ساتویں مرحلے کے ساتھ اختتام پذیرہوگا۔ اس دوران ۱۲؍ کروڑ سے زائد رائے دہندگان ۴۰۳؍رکنی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کریںگے۔  پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں، بعض جائزے معلق اسمبلی کی بات کررہے ہیں تو بعض  بی ایس پی پر مہربان ہیں  البتہ کچھ ایسے بھی ہیں جوکانگریس کی مدد سے سماجوادی پارٹی کی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔  ویسے انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پر ۶؍ مارچ سے قبل کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہوگی۔ اس انتخاب میں وہ جماعتیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہےبہت پُرجوش ہیں لیکن وہ جماعتیں جو خود اقتدار میں آنے یاکسی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے کام کررہی ہیں، بہت بری طرح بے چین ہیں۔
     لکھنؤ، گونڈہ، بارہ بنکی، بستی، گورکھپور اوراس سے متصل اضلاع میں   جہاں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی کا زور ہے وہیں اعظم گڑھ، مئو اور اس کے قریب کے علاقوں میں مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل  انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ  باغپت، متھرا اور امروہہ جیسے دہلی کے نواحی علاقوں میں اجیت سنگھ کی زور آزمائی انتخابی نتائج کا رخ موڑ سکتی ہے۔ سونے لال پٹیل کی اپنا دل اور امر سنگھ کی راشٹریہ لوک منچ جیسی جماعتیں بھی سیاسی مساوات بگاڑنے میں اہم رول اد ا کرسکتی ہیں۔  ان تمام جماعتوں میں راشٹریہ لوک دل کے علاوہ کسی کےپاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی میں آر ایل ڈی کے ۱۰؍ اراکین ہیں اوراس مرتبہ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اُتری ہے۔جہاں تک بڑی جماعتوں کی بات ہے، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اقتدار پر قابض ہونے کی بھر پور کوشش کریںگی لیکن کانگریس اور بی جے پی کی ترجیح اپنا پرفارمنس بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسی کو اقتدار  میں آنے سے روکنے کی بھی  ہوگی۔ بی جے پی جہاں سماجواوی پارٹی کو لکھنؤسے دور رکھنے کا لائحہ عمل ترتیب دے گی وہیں کانگریس کی خواہش ہوگی کہ ہوسکے تو وہ  بی ایس پی کے ہاتھی کوراستے میں ہی کہیں روک لے۔
     مضبوط ووٹ بینک کی وجہ سے بلا شبہ اس مرتبہ بھی مایاوتی کا پلڑا بھاری رہنے کاامکان ہے لیکن وہ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوسکیں گی، اس میں شبہ ہے۔ خود اُن کی گھبراہٹ بتارہی ہے کہ وہ بہت ’پُر امید‘ نہیں ہیں۔دلت ووٹ تو خیر اُن کے ساتھ  ہے لیکن ان کا  سوشل انجینئر نگ والا  وہ فارمولہ جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئی تھیں، اب بری طرح فیل ہوچکاہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو اور مسلم ووٹوں کی بدولت  ۲۰۰۷ء کے  الیکشن میں ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں ۲۰۶؍ نشستیں انہوں نے ضرور حاصل کرلی تھیں لیکن یہ طلسم بہت جلد ٹوٹ گیا ، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں ۸۰؍ لوک سبھا سیٹوں میں بی ایس پی کو محض۲۰؍ نشستوں پرہی اکتفا کرنا پڑا۔ بی ایس پی سپریمو کی پیشانی پر آئی شکنیں ۲۰۰۷ء کے الیکشن سے قبل ملائم سنگھ کے خوف زدہ چہرے کی یاد دلا رہی ہیں جب وہ نٹھاری قتل عام کی وجہ سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ملائم سنگھ کرائم کی بڑھتی شرح کی وجہ سے پریشان تھے اوراسی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو مایاوتی کرپشن  کے سبب فکر مند ہیں۔ وزیراعلیٰ کی پریشانیوں کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ۶؍ماہ میں انہوں نے تقریباً ۲۰؍ وزیروں کو باہر کا راستہ دکھایا ہے اور اس طرح اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں جو بدعنوانی کے سبب گزشتہ ۴؍ برسوں میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
    کلیان سنگھ اور امرسنگھ سے چھٹکا راپانے نیز اعظم خان کو دوبارہ اپنے ساتھ لے آنے میں کامیاب ملائم سنگھ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی طرف پُر امید نگاہوںسے دیکھ رہے ہیں..... مختلف دروازوں پر دستک دینے کے بعد ملائم سنگھ کو شاید اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مسلم رائے دہندگان کا اعتماد بحال کئے بغیر وہ لکھنؤ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوسکیںگے۔  یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں نے ہنوز انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے اور یہی بات کانگریس کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہے۔  بی ایس پی سے اقتدار چھیننے میں سماجوادی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب جہاں اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس ہے وہیں پیس پارٹی، علماء کونسل ، اپنا دل اور امرسنگھ کی لوک منچ  بھی اُسے کم نقصان نہیں پہنچائیںگی۔  مشہور سرجن ڈاکٹر ایوب کی پارٹی ابھی نوزائیدہ ہے اور یہ اس کا پہلا اسمبلی الیکشن ہے لیکن ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن اوراس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیس پارٹی نے جس طرح کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۲۱؍ پارلیمانی نشستوں پر پیس پارٹی نے قسمت آزمائی کی تھی، سیٹیں تو ایک بھی ہاتھ نہیں آئیں لیکن ۴ء۵؍ فیصد ووٹ لے کر ۱۸؍ اسمبلی نشستوں پر اپنی برتری درج کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ پیس پارٹی کی جانب سے فی الحال ۲۳۰؍ اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا گیاہے۔ اسی طرح کرمی ووٹوں کی ایک مضبوط دعویدار اپنا دل بھی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں ہے لیکن ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ۱۰ء۴۹؍ فیصد ووٹ لے کر اس نے کئی اہم امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روک دیا تھا، جس میں بیشتر سماجوادی پارٹی کے ہی تھے جبکہ ۲۰۰۲ء کے اسمبلی الیکشن میں اسے ۱۰؍ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
    بدعنوانی کی علامت بن گئے بی ایس پی  کے برطرف وزیر بابو سنگھ کشواہا کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے  بی جے پی کچھ اس بری طرح  سے پھنس گئی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا اُسے کوئی راستہ ہی نہیں سجھائی دے رہاہے۔ کشواہاہندوستانی تاریخ کے شایدایسے واحد لیڈرہیں جنہیں ان کی جماعت (بی جے پی) نے ان کے ’بے گناہ‘ ثابت ہونے تک معطل کررکھا ہے۔ اس طرح کی عجیب و غریب معطلی اس سے قبل   دیکھی گئی تھی، نہ ہی کہیں سنی گئی تھی۔ ان حالات میںبی جے پی کا چوتھے نمبر پر رہنا تقریباً طے مانا جارہا ہے۔کچھ اُلٹ پھیر ہوجائے تو مزید پیچھے جاسکتی ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کی پوری کوشش سماجوادی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی  ہوگی، اس لئے جہاں بھی اسے موقع ملے گا، خاموشی سے بی ایس پی کی مدد کرنا چاہے گی۔
    گزشتہ انتخابات کے مقابلے کانگریس نے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنالی ہے لیکن ۱۹۸۹ء سے قبل کی پوزیشن بحال ہوجائے گی، اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ راہل گاندھی اور دگ وجے سنگھ اپنی بساط بھر کوشش تو کررہے ہیں لیکن اس سے کچھ بہت زیادہ فرق  پڑنے والا نہیں ہے۔ دلتوں سے ہمدردی جتانے کا کام جہاں راہل گاندھی کررہے ہیں وہیں مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کی کمان دگ وجے سنگھ نے سنبھال رکھی ہے ۔لیکن اگریہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپنے اپنے محاذ پر دونوں ناکام ہیں۔ دگ وجے سنگھ سمجھتے ہیں کہ بٹلہ  محض ہاؤس انکاونٹر کو جعلی قرار دے دینےسےمسلمان ان کےساتھ  آجائیں  گے تو راہل کی یہ خام خیالی ہے کہ دلتوں کے گھر جاکر وہ انہیں اپنا ہمنوا بنالیںگے۔حالانکہ کسی نے یہ بات مذاقاً کہی ہے مگر  اس میں پوشیدہ طنز کی نشتریت کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یوپی کے دلت بیچارے اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ بڑی کوششوںسے وہ جو ۲؍ روٹی کا انتظام کرپاتے ہیں، راہل گاندھی کھا کرچلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ  ۲۰۰۹ء  کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اسمبلی میں بھی وہ وہی تاریخ دوہرا پائے گی، اس کی امید کم ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی کوشش  بی ایس پی کواقتدار سے بے دخل کرنے کی ہوگی، اس کیلئے وہ سماجوادی کو سہار ا بھی دے سکتی ہے تاکہ ترنمول پراس کاانحصار کم ہوجائے۔
    ویسے جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آئیںگی، حالات میں مزید تبدیلیوں کاامکان ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

Thursday, 12 January 2012

Lok pal and political parties

سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

لوک پال بل پر لوک سبھااور راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح کی ہنگامہ آرائی کی،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بہت زیادہ خوف زدہ ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہتیں یہ بل منظور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ۴۳؍ برسوںسے یہ بل التوا میں ہے اور پتہ نہیں کب تک رہے؟ 

قطب الدین شاہد
 
  بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک بار پھر لوک پال بل کے ٹھنڈے بستے میں چلے جانے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ لوک سبھا میں بل کی لولی لنگڑی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی اور جس کمال ہوشیاری کے ساتھ اسے ’ٹھکانے‘ لگایاگیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں  ہے۔بظاہر تو سبھی اس کی حمایت میں بول رہی ہیں لیکن ..... عملاً کوئی بھی اس کے حق میں نہیں،سبھی  اس سے نجات پانا چاہتی ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہوا، اس کی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ کی نہیںتھی۔  اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کہیں لوک پال کا انجام بھی خواتین ریزرویشن بل جیسا نہ ہو۔ بل کی آئینی حیثیت نہ ہونے اور راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ کی نوبت نہ آنے کیلئے کانگریس بی جے پی پر الزام لگارہی ہے اور بی جے پی کانگریس پر، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں دونوں کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہیں لیکن.....کیا یہی سچ ہے؟ یا اس بظاہر سچ کے پیچھے کوئی اور سچائی بھی ہے؟ 
    سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے  ایک سرسری نظرلوک پال کی تاریخ پر  بھی ڈالتے چلیں۔لوک پال سنسکرت لفظ سے بنا ہے جس کے لفظی معنی ہوتے ہیں عوام کا محافظ۔  یہ ایک ایسے عہدے کی تشکیل کا معاملہ ہے جسے سویڈن میں ’اومبڈس مین‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔سویڈن نے اسے ۱۸۰۹ء میں متعارف کرایاتھا جس کا کام شکایت موصول ہونے کی صورت  میں بدعنوانوں پر شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بدانتظامی پر بھی نظر رکھنا تھا۔ تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ اومبڈس مین آج دنیا کے مختلف ملکوں میں الگ الگ ناموںسے جاناجاتا ہے۔ سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک  اور ناروے میں اومبڈس مین کی شناخت اسی نام سے ہے جبکہ برطانیہ میں اسےپارلیمنٹری کمشنر کا نام دیا گیا ہے جو صرف اراکین پارلیمان کی جانب سے موصول ہونے والی شکایتوں کی  سماعت کرسکتا ہے۔  
    وہ ۶۰؍ کی دہائی تھی جب وطن عزیز میں کرپشن کی دخل اندازی کی شدت محسوس کی گئی۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے حکومت نے ۱۹۶۶ء میں پہلا ایڈمنسٹریٹیو ریفارمس کمیشن (اے آر سی) تشکیل دیا جس نے ۲؍ سطحی مشینری تشکیل دینے کی سفارش کی۔  اس سفارش کے تحت مرکز میں لوک پال اور ریاستوں میں لوک آیکت کا قیام تھا۔ سفارش منظور کی گئی اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۸ء میں اسے چوتھی لوک سبھا میں پیش کیا گیا،جہاں اُسے  ۱۹۶۹ء میں منظوری بھی مل گئی ..... مگر راجیہ سبھا میں یہ بل پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔ دریں اثنا لوک سبھا تحلیل کردی گئی اور اس طرح لوک پال بل اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس بل نے کئی بار ایوان کا منہ دیکھا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اسے گلے لگا کر اس کا خیر مقدم کرنے کے بجائے افسر شاہوں کی طرح اس بل کو اِس ٹیبل سے اُس ٹیبل تک دوڑانے اور اس بہانے عوام کو الجھائے رکھنے کا کام کیا ۔دوسری بار ۱۹۷۱ء اور پھر بالترتیب ۱۹۷۷ء، ۱۹۸۵ء،۱۹۸۹ء، ۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء ،  ۲۰۰۵ء اور  ۲۰۰۸ء میں اسے ایوان میں پیش کیا گیا۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران ہندوستان کی تقریباً تمام اہم سیاسی  جماعتوں  نے اقتدار کے مزے لوٹے لیکن اس بل کو  پاس نہیں ہونا تھا، نہیں ہوا۔ جب بھی اس بل کو ایوان میں پیش کیا گیا ، اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کردیا گیا یا پھر ’نظر ثانی‘ کے بہانے وزرات داخلہ  کی محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس مرتبہ انا ہزارے کی تحریک کی وجہ سے امید ہوچلی تھی کہ اسے قانونی حیثیت مل جائے گی، مگر افسوس ! کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر سیاسی داؤ پیچ میں عوام کوالجھا دیا گیا۔ قارئین جانتے ہیں کہ کچھ اسی طرح کا حشرخواتین ریزرویشن بل کابھی ہوا تھا۔
    لوک پال بل کا انجام دیکھ کر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کی منظوری اور اس طرح اپنے اوپر کوئی محتسب نہیں چاہتیں۔ ملاحظہ کریں سیاسی جماعتوں کے مطالبات اور اپنا سر دُھنیں۔ بی جے پی کہتی  ہے کہ وہ  لوک پال کی خواہش مند ہے لیکن اس بل کی نہیں جو حکومت نے پیش کیا ہے بلکہ ایک ’ مضبوط‘ لوک پال بل چاہتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا مطالبہ بایاں محاذ، آر جے ڈی ، سماجوادی اور بی ایس پی نے بھی کیا ہے۔ ترنمول بھی لوک پال کی ’مخالف‘ نہیں ہے لیکن موجودہ بل کے تئیں اس کی رائے بھی اچھی نہیں ہے۔ کانگریس نے بی جے پی پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اسے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ اس نے لوک پال کو ’مضبوط‘ نہیں ہونے دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سبھی ’مضبوط‘ لوک پال بل کیلئے ’کوشاں‘ اور اس پر’ متفق‘ ہیں تو لوک پال مضبوط کیوں نہیں ہوپارہا ہے۔ راجیہ سبھا کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کرتے وقت حکومت نے کہا کہ ترمیمات کیلئے اسے ۱۸۷؍ نوٹس موصول ہوئے ہیں، جس کے مطالعہ میںکافی وقت لگے گا۔ اس ’کافی وقت‘ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کی موجودہ میعا د میں یہ کام ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟.... صرف ۴۳؍ سال۔  ملائم سنگھ یادو نے لوک سبھا میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا  بھی کہ ’’ اس بل میں بہت خامیاں ہیں،جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت نے انا کے خوف سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
    ملائم سنگھ کی اس ’جلد بازی‘ سے متعلق ایک لطیفہ سنا کر ہم اپنی بات ختم کرنا چاہیںگے۔ ایک شخص نے اپنی شادی کے موقع پر ایک ٹیلر کو کوٹ کی سلائی کا آرڈر دیا تھا جو وقت پر تیار نہیں ہوسکا۔ شادی کے دن تھوڑی سی ہنگامہ آرائی ہوئی، دولہے کے گھر والے اور ٹیلر کے مابین’ توتو میں میں ‘ ہوئی اور بات ختم ہوگئی۔ وقت نکل گیا تو دونوں بھول گئے۔ ۳؍ سال بعد دولہے کے بعد یہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ ولیمہ میں کوٹ نہیں پہن سکا تو سوچا عقیقے میں پہن لوں، لہٰذا پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا۔ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ ایک ہفتے میں سِل دے گا مگر حسب سابق تیار نہیں ہوسکا۔  فریقین میں ایک بار پھر بحث مباحثہ ہوا.... اور اس طرح  ایک بار پھر بات آئی گئی اور ختم ہوگئی۔ اس شخص کو کوٹ کی یاد اُس وقت آئی جب بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ اس نے سوچا کہ چلو میں نہیں پہن سکا ، تو میرا بیٹا ہی پہن لے۔ وہ ایک بار پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا اور اس مرتبہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لے کر گیا۔ ٹیلر نے پھر وعدہ کرلیا اور کہا کہ اس کے پاس کام تو بہت ہے مگر وہ اس کوٹ کواس بار ضرور سل  دے گا..... مگر وہ وقت آیاتو ایک بار پھر کام ادھورا تھا۔ جب دونوں میں بحث تیز ہوئی تو گھر کے اندر سے ٹیلر کی بہو نے اپنے خسر کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’کتنی بار آپ سے کہا  ہےکہ ارجنٹ کام مت لیا کرو‘‘۔
    کچھ یہی صورتحال ہمارے لوک پال بل کی بھی ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہی ہمیں اس کی یاد آتی ہے ورنہ ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اوراس کی اتحادیوں کو یہ کام ’ارجنٹ‘ لگتا ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں ہماری خاموشی کابھی   دخل ہے۔ دراصل یہ ہماری بے حسی کا مذاق ہے۔کیا ہم اس کا نوٹس لینے کی طاقت رکھتے ہیں؟ n

Saturday, 10 December 2011

compelete justice

مکہ مسجد کے بے قصور مسلم ملزمین کی رِہائی کے بعد انہیں معاوضہ بھی ملا.....
مگر انصاف ہنوز کوسوں دور ہے۔ حصول انصاف کیلئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

گزشتہ دنوں مکہ مسجد دھماکے کے ملزمین کی رہائی کے بعد حکومت نے ہرجانے  کی ادائیگی کااعلان کیا۔ اسے ایک مستحسن قدم تصور کرتے ہوئے اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔مکمل انصاف تو اس وقت ہوگا جب ان تمام پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملے گی جو اِن کی زندگیوں سے کھلواڑ کے مرتکب ہیں ، دوم ان کی بہتر باز آبادکاری ہو جومحض الزام کی وجہ سے اپنا بہت کچھ گنوانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
قطب الدین شاہد
اپنے زمانے کے مشہور انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ ’’رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘..... ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بہت سے لوگوں کی رائے کچھ اسی قسم کی ہے۔ ایسے لوگوں  کا خیال ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت  آزادی کے بعد سے ہی  مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیا جانے لگا ہے،انہیں  ایک ایسی تاریکی میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، ان کی ترقی کے راستے مسددو کردیئے گئے ہیں اور اگر اس کے باوجود بھی وہ کہیں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو فساداور دھماکوں کے ذریعہ ان کے حوصلے توڑے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے........ یقیناً اس میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے تو حوصلہ ملتا ہے۔داناکہتے بھی ہیں کہ صبح کا جنم رات ہی کے بطن سے ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے خوف زدہ ہوئے بغیر صبح کی امید اور اس کی تلاش میں جدوجہد جاری رکھی جائے۔ خود مخدوم نے بھی  اس کا اعتراف کیا ہے:
 رات کے ماتھے پر آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
     بلا شبہ ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بم دھماکوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس میں  زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔فسادات میں لُٹتے پِٹتے بھی مسلمان ہی   ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی انہیں کو جھیلنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح بم دھماکوں میں جانی و مالی تباہی کے بعد الزام بھی انہیں کے سر آتا ہے۔ میرٹھ ، ملیانہ، بھاگلپور، ممبئی، بھیونڈی اور گجرات کے فسادات کے بعد مالیگاؤں، مکہ مسجد،اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس   اور جامع  مسجد دہلی کے  دھماکےاس کی واضح مثالیں ہیں۔دراصل ان حربوں کے ذریعہ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کے پاس اندھیروں کے سواکچھ بھی نہیں ہے...... لیکن  وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ مسلمان  ہی ہیں جوکشتیاں جلا کر آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں۔
    گزشتہ دنوں اس کا ایک اچھا نمونہ دیکھنے میں آیا جب آندھرا پردیش حکومت مکہ مسجد دھماکے کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کو نہ صرف رِہا کرانے پر مجبور ہوئی بلکہ اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے اس نے گرفتار شدگان کو ہرجانہ بھی ادا کرنے کااعلان کیا۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ مکمل انصاف تو نہیں ہے لیکن یہ ایک اچھی کوشش  ضرورہے جس کاخیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اسی کے ساتھ ہمیں مکمل انصاف کے سمت جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہئے۔قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی طاقت آزمائی کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف معاملات کے تحت مسلم نوجوان سنگین جرائم کے نام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ دراصل ان پر قانونی شکنجہ اتنا مضبوط ہوتا ہے اور الزامات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ جلد ان کی رہائی کے اسباب پیدا نہیں ہوپاتےکیونکہ معاملے کوعدالت تک جلد پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ، اس کے باوجود اگرکسی طرح معاملہ عدالت تک پہنچا  اور ان کے حق میں معاملہ فیصل ہوا تو حکومت فوراً ہی اعلیٰ عدالت کا رخ اختیارکرلیتی ہے۔مختلف معاملات میں مسلم نوجوانوں کو کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حیدرآباد حکومت کے فیصلے کی ستائش کی جانی چاہئے، جس نے نہ صرف یہ کہ ذیلی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا بلکہ اقلیتی کمیشن کی ایک سفارش کو قبول کرتے ہوئے ان تمام نوجوانوں کو معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔اس لحاظ سے اسے ایک مستحسن قدم کہا جاسکتا ہے کہ جہاں کچھ نہیں ہورہا ہے، وہاں یہ  ایک اچھی روایت  ہے..... لیکن جیسا کہ بالائی سطو ر میں کہا گیا ہے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے والوں کو مناسب سزا دی جائے اور ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کیلئے باعزت زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
    حکومت کے سامنے بڑی شدت سے ہمیں یہ بات گوش گزار کرنی ہو گی کہ چند ہزار یا چند لاکھ روپوں کی ادائیگی ہی ان کا ہرجانہ نہیں ہے بلکہ ان کی بازآبادکاری ہونی چاہئے۔اس طرح کے معاملات میں جب کوئی نوجوان ماخوذ ہوتا ہے تو صرف وہ تنہا اس کی سزا نہیں بھگتتا بلکہ اس کی سزا میں اس کے اہل خانہ، اس کا پورا خاندان، اس کے عزیز و اقارب، اس کے گاؤںاور محلے والے بلکہ پورا شہر  ، حتیٰ کہ پوری قوم   شریک ہوتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد پڑگھا، مالیگاؤں اور اعظم گڑھ کو  میڈیا نےکس طرح ’ٹیررسٹ علاقے‘ کے طور پر پروجیکٹ کیا تھا۔ جب کسی نوجوان پر اس طرح کا کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو  نہ صرف اس کی ملازمت جاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کی شادی خطرے میں پڑجاتی ہے،  اس کے بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہوپاتا، والدین کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات دانے دانے کو محتاجی کی نوبت آجاتی ہے۔ حالانکہ آئین کہتا ہے کہ ملزم کے ساتھ مجرم جیسا رویہ نہ رکھا جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ صرف پولیس اہلکار بلکہ ہمارا سماج بھی ملزم کو مجرم سمجھ بیٹھتا ہے اور اسے سخت سزائیں دینے لگتا ہے۔ خود ہم بھی  ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیںجن پر الزامات تو سنگین ہیں لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔اندر سے کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ ہمدردی  کے اظہار کی خواہش  ہوتی ہے لیکن حکومت اور پولیس کے خوف سے ایسا نہیں کرپاتے اور اس طرح ان نوجوانوں کو ناکردہ گناہوںسے سزا ہم بھی دیتے ہیں۔
    انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور یہ ہرجانہ حکومت ادا کرے، وہ پولیس اہلکار ادا کریں جنہوں نے بلا وجہ انہیں مجرم بنا کر پیش کیا، وہ میڈیا ادا کرے جس نے رائی کو پربت بنا کران کی شبیہ خراب کی، سماج ادا کرے جس نے اسے یکہ و تنہا کر چھوڑا اور ہم سب ادا کریں جنہوں نے اپنے سماجی فریضے میں کوتاہی برتی۔   اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے ۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے۔ اول تو یہ کہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دلائے ..... ایسی سزا کہ دوبارہ وہ کسی کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہوئے ۱۰۰؍ بار سوچنے پر مجبور ہوں۔دوم یہ کہ ان ملزمین کی مکمل بازآبادکاری کا انتظام کرے، انہیں ملازمت دلائے، ان کے لُٹے پٹے کاروبار کو استحکام بخشنے میں مدد کرے اور سماج میں انہیں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے راستے میں حائل  دشواریوں  کے خاتمے میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔
    یہ تو رہی حکومت کی ذمہ داری۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ حکومت اس تعلق سے کیا کررہی ہے؟ اس کا تعاقب جاری رکھیں اوراسے مجبور کریںکہ وہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور  مظلوموں کو معقول ہرجانہ ادا کرے۔ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہ خاموش بیٹھنے کا حکومت کے نزدیک مطلب ہوگا کہ ’اتنے سے بھی کام ہوسکتا ہے‘۔ اور ہمارے سامنے صرف حیدرآباد کا معاملہ پیش نظر نہ ہو بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی   اس طرح کے معاملات پیش آئے ہیں،ان کا بھی احاطہ کیا جانا ضروری ہے۔ فیض احمد فیض  کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے مکمل انصاف کے حصول کیلئے ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
 ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
   چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی