Friday, 13 November 2015

Roznaamcha_Imam aur Khateeb


 امام اور خطیب
 
گزشتہ دنوں وہاٹس ایپ کے ایک گروپ میں جس کے زیادہ تر اراکین علم دوست ہیں، ایک صاحب نے گروپ ممبران سے کہا کہ’’کبھی ہمارے علاقے میں جمعہ کی نماز پڑھنے آئیں، ہمیں امید ہے کہ آپ دوبارہ وہاں نماز پڑھنے کی زحمت نہیں کریںگے۔‘‘ یہ سن کر بہت عجیب سا لگا۔ پہلے تو  ذہن میں یہی سوال آیا کہ کیا ہمیں اس طرح کا اظہار خیال کرنا چاہئے؟ لیکن جب ان کے الفاظ پر غور کیا تو  اُن کے کرب کا اندازہ ہوا۔ بلاشبہ یہ بات یوں ہی سرسری طور پر نہیں کہہ دی گئی ہوگی بلکہ یہ کہنے سے قبل ان کا دل خون کے آنسو رویا ہوگا۔کئی جگہوں پر ہمیں بھی  اس کا اندازہ ہوا ہے اور ہم نے بھی یہی بات محسوس کی ہے اور بسا اوقات اس طرح کا فیصلہ کرنے پر مجبور بھی ہوئے ہیں کہ آئندہ کہیں اور نماز پڑھیں گے ۔
    نمازجمعہ میں خطبہ کا سننا واجب ہے۔ خطبے کے ساتھ ہی ہمارے یہاں تقریر اوربیان بھی ہوتے ہیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں اس طرح کے مواقع میسر ہیں۔ نماز جمعہ ہی کے بہانے ہمیں ہر ہفتے ایک ساتھ مل بیٹھنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اسلام میں کوئی حکم، کوئی رکن اور کوئی عبادت حکمت سے خالی نہیں۔ بلاشبہ نماز جمعہ میں ہونے والے ’بیان‘کی بھی  بہت ساری حکمتیں ہیں جن میں ایک اہم حکمت یہ ہے کہ اس موقع پر ضروری پیغامات کو سماج تک آسانی سے پہنچادیا جائے۔
     لیکن بہت افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم مساجد میں ’بیان‘ کا مثبت استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ تر مساجد میں دوسرے مسالک کی خامیاں اجاگر کی جاتی ہیں اور  اس قدر اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں کہ بسا اوقات فساد کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسا قصداً کرتے ہیں تو کچھ جہالت کی بنا پر کرتے ہیں۔  قصداً وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے مذہب کو تجارت بنا لیا  ہے اوراس کی وجہ سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں جو مال بکتا ہے، وہاں وہی بیچا جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد یہی کچھ سننا چاہتی ہو۔ اسی طرح کچھ ’عالم‘ اپنی جہالت کی بنا پر خطیب کے منصب کا غلط استعمال کرتے ہوئے ’اوٹ پٹانگ‘ بکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ نماز جمعہ میں خطبہ اور بیان سننے کیلئے بہت کم مقتدی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ۲؍رکعت پڑھنے کیلئے ہی آتے ہیں۔ ہم سب انہیں کوستے  ہیں اور طنز بھی کستے ہیں کہ یہ۲؍ رکعت کے نمازی ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے کہ یہاں  خطبے کی سماعت میں مقتدیوں کی تعداد کم کیوں ہوتی ہے؟  مساجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ داران اگر تھوڑا سا بھی نظر گھما کر اور بلا لحاظ مسلک  ان مساجد کی جانب دیکھیں جہاں خطبہ سننے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جہاں پڑھے لکھے اور صاحب شعور افراد جمع ہوتے ہیں ، تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں کے خطیب کیاکہتے ہیں؟ مساجد میں مسالک سے متعلق تعصب کی باتوں کو بیشتر غلط سمجھتے ہیں لیکن یہ سلسلہ اسلئے جاری رہتا ہے کیونکہ اس پر وہ خاموش رہتے ہیں    ۔

Wednesday, 4 November 2015

بِہار میں موسم بَہار کی دستک، سیکولر محاذ کیلئے راستہ آسان

بہار میں انتخابی نتائج بھلے ہی ۸؍ نومبر کو ظاہر ہوں لیکن اس سے قبل ہی خوشگوار نتائج کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ موسم کی طرح بہار کا سیاسی موسم بھی معتدل انداز میں رواں دواں ہے اور اب بس بہار آنے ہی والی ہے۔ ایک جانب جہاں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی خود اعتمادی ہے وہیں دوسری جانب امیت شاہ اور نریندر مودی کی بوکھلاہٹ ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہار کے انتخابی نتائج سے ملک کی سیاسی فضا میں ایک خوشگوار تبدیلی آنےوالی ہے
 
   قطب الدین شاہد
 
حالات کا اپنے طور پر جائزہ لینے سے قبل آئیے  ایک سینئر صحافی کا تجزیہ دیکھتے چلیںجس کی ملک اور ریاستوں کی سیاست بالخصوص بہار کے  سیاسی حالات  پر گہری نظر ہے ۔ مشہور محقق اور صحافی اجے بوس جنہوں نے مایاوتی کی سوانح حیات قلمبند کی ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ملک بھر میں ریاستی انتخابات کا احاطہ کرنے کے اپنے۴۰؍ سالہ تجربے اور مشاہدے کے دوران میں نے شاید ہی کبھی کسی حکمراں وزیر اعلیٰ کے تئیںعوام کا اس قدرمثبت رویہ دیکھا ہو۔ بہار میں انتخابی ماحول گرمانے کے ساتھ میں نے حال ہی میں پٹنہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں کا دورہ کیا۔ حکومت کی بے حسی اور غلط حکمرانی سے متعلق  رائے دہندگان میں انتخابات کے وقت عموماً جو ناراضگی پائی جاتی ہے، وہ یہاںقطعی نظر نہیں آئی۔ اس کے بجائے دھول بھرے گاؤں میں عورت  اورمرد، نوجوان اور بوڑھے، ہندو اورمسلم، اعلیٰ ذات اوردلت نتیش حکومت کی کامیابیاں گناتے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا معاملہ ہو، اسکولوں اوراسپتالوں  پر گفتگو ہو یا پھر گاؤں میں بجلی پہنچنے کی باتیں ہوں، نتیش راج میں ترقی کا پیمانہ بننےوالی یہ کامیابیاں لاکھوں بہاریوں کی زبان پر ہیں۔‘‘
    لوک سبھا الیکشن میں ہزیمت کے فوراً بعدلالو، نتیش اور کانگریس نے جس طرح بروقت ہوش کے ناخن لینےکا مظاہرہ کیا، اس نے عوام کا تذبذب اسی وقت ختم کردیا تھا۔ اسی دن سے بہار کےانتخابی نتائج کااندازہ ہوگیا تھا لیکن مودی کے حواری پروپیگنڈے کی طاقت سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ بھگوا محاذ نہ صرف مقابلے میں ہے بلکہ اسے سبقت بھی میسر ہے۔ حالانکہ یہ بات کسی بھی طرح ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ آخر کن بنیادوں پر اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں؟  لوک سبھا الیکشن میں جب مختلف وجوہات کی بنیاد پر مودی کی لہر چل رہی تھی، بی جے پی اوراس کی اتحادی جماعتوں کو مجموعی طور پر ۳۸؍ فیصد ہی ووٹ مل پائے تھے، پھر آج جبکہ اس مقبولیت میں کافی کمی آچکی ہے، کس طرح انتخابی سرویز میں اسے پہلے سے بھی زیادہ ووٹ ملنے کی بات کی جارہی ہے۔ دوسری طرف اُس الیکشن میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کو مجموعی طور پر     ۴۵؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے تھے۔ ظاہر ہے کہ لوک سبھا کے بعد سے اب تک ان تینوں جماعتوں کی مقبولیت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بات نتیش کے مخالفین بھی جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف سرویز میں جن میں بی جے پی کو سبقت دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی نتیش کو بہتر وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کرنے کیلئے مجبور ہیں، ایسے میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ سیکولر محاذ کو لوک سبھا  سے کم یعنی ۴۵؍ فیصد سے بھی کم ووٹ ملیںگے؟
    سچ تو یہ ہے کہ اتحاد کے بعد ہی یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوگی لہٰذا ان کی جیت یقینی ہے۔لالو اور نتیش کی اپنی اپنی مقبولیت ہے۔ سماج پر دونوں کے اپنے اثرات ہیں اور بہت مضبوط ہیں۔ ایسے میں کانگریس کے ساتھ نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اس کی وجہ سے عوام کا تذبذب ختم ہوگیا تھا۔ میڈیا اپنے طور پر لالو کی کتنی بھی برائی کیوں نہ کرلے، عوام کے دلوں سے ان کی محبت ختم کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی انتخابات میں ایک موقع ایسا آیاتھا جب   لالو کو بہت کم یعنی ۱۸ء۸۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے ، ورنہ  ۲۰۰۰ء سے اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں لالو کی پارٹی ہی کو ریاست میں سب سے  زیادہ ووٹ ملتے رہے ہیں۔۲۰۱۰ء میں لالو کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی گئی تھی جس میں کانگریس بھی شامل تھی۔
      بی جے پی نے اِس مرتبہ۳؍ محاذ پر اپنی  پوری توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ اول یہ کہ نتیش کو کسی طرح لالو سے متنفر کیا جائے تاکہ یہ اتحاد ختم ہوجائے، دوم یہ کہ لالو کے خلاف ایک بار پھر جنگل راج کی ترکیب استعمال کی جائے تاکہ عوام متنفر ہوں اور سوم یہ کہ اہل بہار کو بتایا جائے کہ وہ قابل حکمراں ثابت ہوںگے لیکن یہ تینوں باتیں اس کے خلاف ہی گئیں۔ لالو اور نتیش کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ اسی طرح جنگل راج کا پروپیگنڈہ بھی پوری طرح سے بے اثر رہا۔  بہار کے عوام یہ بات اچھی طرح جاننے لگے ہیں کہ جس پارٹی کا سربراہ ہی تڑی پار ہواورمجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے جیل کی ہوا کھا چکا ہو، وہ دوسروں کی برائی کرنے کا حق بھلا کس طرح رکھتا ہے؟ ویسے یہ بات بھی درست ہے کہ بہار اور اترپردیش کے عوام معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن ان کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا تسلیم کرتی ہے۔ بطور وزیر ریلوے لالو کی کارکردگی کا جادو آج بھی عوام کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور لوگ ان سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب لالو ریلوے وزیر تھے۔ اسی طرح نتیش کی حکمرانی کی تعریف ان کے ناقد بھی کرنے  پر مجبور ہیں۔
    ایک جانب جہاں بہار میں لالو اور نتیش کی اپنی مقبولیت ہے، وہیں دوسری جانب مودی اینڈ کمپنی کے تئیں عوام میں بے اعتباری اور ناراضگی بھی ہے۔ مودی حکومت کی ڈیڑھ سالہ حکمرانی  سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ سرکار صرف بیان بازیوں پر یقین رکھتی ہے۔ اچھے دنوں کا وعدہ کیاتھا لیکن ملک کے حالات مزید خراب کردیئے۔ مہنگائی پوری طرح بے لگام ہوگئی ہے،دال کو ڈرائے فروٹ بنادیا گیا ہے۔ عوام کے منہ سے نوالے چھینے جانے لگے ہیں۔غریبوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف امیروں اور کارپوریٹ گھرانوں کیلئے کام کئے جارہے ہیں۔ یہ صرف الزام نہیں ہے بلکہ بی جے پی نے خود ہی اپنی ایسی شناخت   بنائی ہے۔ تحویل اراضی بل کے تئیں بی جے پی کی ہٹ دھرمی نے اس پہچان کو استحکام بخشا ہے۔مودی میں انانیت اور خود سری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ دوسروں کو اہمیت نہ دینے کا مزاج پہلے بھی تھا لیکن اب  اس میں مزید سختی آگئی ہے۔ پورے ملک میں ادیبوں اور دانشوروں کے احتجاج کو اہمیت نہ دے کر بی جے پی سرکار   یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح انتخابی فائدے کیلئے بی جے پی نے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو بھی مسموم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ دادری سانحہ تو ملک کی پیشانی پر ایک داغ تھا ہی، اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے اس طرح کے کئی واقعات ہوئے لیکن بی جے پی نے ایک حکمراں جماعت کی طرح سے ان سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم کی طرح ہی کام کرتی رہی۔ اس کے اراکین آگ میں گھی ڈالنے اور ملک میں انارکی پیدا کرنے کی کوشش نہایت  بے خوفی سے کرتے رہے اور اس پر ناز بھی کرتے رہے۔
    اہل بہار کو  بی جے پی سے ناراضگی اس لئے بھی ہے کہ وہ بہار کو گجرات بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ گجرات کتنی بھی ترقی یافتہ ریاست کیوں نہ ہو لیکن اہل بہار یہ بات کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کی تہذیب کا مذاق اڑایا جائے اور گجراتی تہذیب کو بہار کی تہذیب سےبرتر ٹھہرایا جائے۔مودی اور امیت شاہ پتہ نہیں کس زعم میں تھے کہ الیکشن کے دوران باربار اس بات کو دہراتے رہے کہ انہیں اقتدار ملا تو وہ بہار کو گجرات بناد یںگے۔یہ بات اہل بہار کی خود داری کو ٹھیس پہنچانےوالی تھی۔اسی طرح انتخابی ذمہ داریوں کے معاملےمیں امیت شاہ اور نریندر مودی نے بہاری کارکنوں پر گجراتی کارکنوں کو ترجیح دے کر بھی بہاریوں کے وقار کو مجروح کیاتھا۔ بہار کے مقامی لیڈر اس بات سے بہت برہم تھے کہ انتظامی سطح کی تمام کلیدی ذمہ داریاں گجراتی لیڈروں کو سونپ دی گئی ہیں۔شتروگھن سنہا نے جو کچھ کہا ہے، وہ صرف اُن کی آواز نہیں ہے بلکہ بی  جے پی کے ایک بڑے حلقے کی ترجمانی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ سب ایک خوف اور مصلحت کے تحت خاموش ہیں لیکن یہ بات ووٹر اچھی طرح محسوس کررہے ہیں۔  مودی اور امیت شاہ کی خود سری کی وجہ سے بی جے پی میں اندر ہی اندر کافی انتشار ہے۔ سشما، جیٹلی، گڈکری اور راج ناتھ کی خاموشی سے یہ بات پوری طرح واضح ہورہی ہے۔
     ریزرویشن کے موضوع پر آر ایس ایس کے مؤقف نے بھی بی جے پی کو بیک فٹ پر کھڑا کردیا ہے۔ بی جے پی اس موضوع پر کتنی بھی صفائی کیوں نہ دے لیکن وہ یہ بات کھل کر نہیں کہہ سکتی کہ وہ ریزرویشن کی حامی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو بہار میں اس کا اپنا ووٹ بینک بھی کھسک جائے گا جس پر فی الحال پوری طرح سے اس کی اجارہ داری ہے۔ یہی سبب ہے کہ مانجھی اور پاسوان کی موجودگی کے بعد بھی ریزرویشن پانےوالا طبقہ بی جے پی کے قریب جانے سے جھجھک رہا ہے۔ یہ طبقہ اس  بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مانجھی اور پاسوان اپنے لئے بھلے ہی کچھ حاصل کرلیں، ان کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔ مودی کو ایسا لگا تھا کہ بہار کیلئے ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار کروڑ کے پیکیج کے اعلان سے وہ بہار کو فتح کرلیںگے لیکن اہل بہار جانتے تھے کہ یہ اعلان وہی شخص کررہا ہے جو لوک سبھا الیکشن سے قبل ہندوستان کے ہرشہری کے اکاؤنٹ میں ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن الیکشن کے بعد اسی کی  پارٹی کے صدر نے اس اعلان کو انتخابی جملہ کہہ کر عوام کی سادہ لوحی کا مذاق اڑایا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ اس اعلان میں کافی کچھ فریب ہےاوراس کے ذریعہ اہل بہار کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پر بی جے پی کی اس دھمکی نے زخم پر نمک کا کام کیا کہ یہ پیکیج بہار کواسی صورت میں ملے گا جب یہاں  اس کی حکومت بنے گی۔
    کل ملا کر بہار میں سیکولر محاذ کیلئے راستہ پوری طرح آسان ہے۔   ماحول مکمل طور پر آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کے حق میں ہے۔ ۲؍ ابتدائی مرحلوں میں ہی بی جے پی کے حواس ٹھکانے لگ گئے تھے جس کی وجہ سے تیسرے مرحلے کیلئے اسے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ بی جے پی کو جو کچھ فائدہ مل سکتا تھا، وہ شروع کے ۲؍ مرحلوں میں ہی مل پاتا۔ آخری کے تینوں مرحلوں میں ہونےوالے انتخابی حلقوں میں سیکولر محاذ کا بول بالا پہلے سے ہی تھا۔ تیسرے مرحلے میں جن ۵۰؍ اسمبلی حلقوں میں الیکشن ہوا، لوک سبھا الیکشن میں تقریباً تمام سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں لیکن اس صورت میں جبکہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے ووٹ تقسیم ہوئے تھے بصورت دیگر نالندہ، پاٹلی پتر، ویشالی، سارن اور بکسر لوک سبھا حلقوں میں بی جے پی کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔’پٹنہ صاحب‘ میں شترو گھن سنہا کی اپنی مقبولیت تھی، جس کی وجہ سے بی جے پی کو کامیابی مل گئی تھی مگر اس مرتبہ ان کے مداحوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اسمبلی الیکشن میں  ان کے اپنے انتخابی حلقے میں ان کی ناراضگی کا کچھ تو اثر ہوا ہوگا۔ اسی طرح آخری کے دو مرحلوں میں جن ۱۱۲؍ اسمبلی حلقوں میں پولنگ ہونےوالی ہے، وہاں بھی لو ک سبھا انتخابات میں سیکولر محاذ کو کافی کم سیٹیں ملی تھیں لیکن  دونوں کے ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو ۱۸؍میں سے ۱۱؍ پارلیمانی حلقوں میں سیکولر محاذ کو برتری حاصل تھی۔ مطلب صاف ہے کہ ماحول کے ساتھ ہی اعداد وشمار بھی گواہی دیتے ہیں کہ بہار کے ودھان بھون پر بھگوا لہرانے کا بی جے پی کا خواب کسی صورت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔
    بلاشبہ بی جے پی نے اس مرتبہ بھی کافی محنت کی ہے لیکن اس محاذ پر نہیں کی جہاں اسے کرنا چاہئے تھا۔ لالو نے بالکل درست کہا کہ اگر ڈیڑھ برسوں میں مودی  جی کچھ کام بھی کرلئے ہوتے توانہیں پرچار منتری نہیں بننا پڑتا۔ ایک جائزے کے مطابق بی جے پی نے انتخابات کے اعلان سے کئی ماہ قبل ہی ایک ایک بوتھ کے ذمہ داران طے کردیئے تھے اوراس طرح پورے بہار میں ۳؍ لاکھ کارکنان مقرر کر رکھے تھے لیکن کاش ! بی جے پی کے ذمہ داران سمجھتے کہ کامیابی کیلئے یہ باتیں صرف جزوی اہمیت کی حامل   ہیں۔  بہرحال بہار کے انتخابی نتائج دور رَس ہوںگے۔ اس کے اثرات جہاں آئندہ سال ہونے والے مغربی بنگال  کے اسمبلی الیکشن پر پڑیںگے وہیںاس کے بعد  ہونےوالے یوپی کے انتخابی رجحان پر بھی نظر آئیںگے اور ان سب سے زیادہ مرکزی حکومت کے تیوروں پر پڑے گا جو لوک سبھا میں اکثریت مل جانے کے سبب مطلق العنان ہوگئی ہے۔ اب تو ہر کسی کو بس ۸؍ نومبر کا انتظار ہے۔

Friday, 30 October 2015

Roznaamcha_ Hamare Maamlat

ہمارے  معاملات
!
بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان معاملات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ چوری، بے ایمانی،فریب دہی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے  کے عمل کو برا تو سمجھتے ہیں لیکن یہی کام بڑی ہنرمندی سے کرتے ہیںاور اپنے طور پر اپنے عمل کو ’جائز‘ بھی ٹھہراتے ہیں۔حاجی اور نمازی کے طور پر اپنی شناخت کو مشتہر کرنےوالے بعض لوگ اتنی چھوٹی سی بات نہیں سمجھتے کہ حرام کمائی سے بننےوالا خون جب رگوں میں دوڑے گا، تواس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوںگے۔  یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب یہ لوگ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ’’ایمانداری سے کاروبار کیا ہی نہیں جاسکتا۔‘‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ تجارت حضور اکرمؐ کی سنت ہے۔ ایسا کہہ کر یہ نہ صرف سنت نبویؐ کی توہین کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو ایمانداری سے کاروبار کرتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں، ان کی جانب انگشت نمائی کرتے ہیں اور بلا سبب ان کے تئیں بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
     مسلم دکانداروں اور غیر مسلم دکانداروں میں ایک واضح فرق ہے کہ صارفین کا غیرمسلم دکانداروں پر بھروسہ زیادہ ہوتا ہے۔ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکثر یہ بات محسوس کی گئی ہے مسلم دکانداروں کے یہاں ناقص مال ملتا ہے، وزن کم ہوتا ہے اور قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔  ہمارا اپنا ذاتی مشاہدہ کہ مسلم دکاندار سامان کو سونے کی  طرح تولتے ہیں۔ کیا مجال کہ ایک کلو سامان لینےوالے ۳۔۲؍گرام زیادہ چلا جائے جبکہ غیر مسلم دکاندار وزن برابر کرنے کے بعد ۱۵۔۱۰؍ گرام سامان یونہی ڈال دیتے ہیں۔ اس سے صارف کو اطمینان ہوتا ہے۔ چلو یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن کچھ لوگ مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے سامان کم بھی تولتے ہیں۔ بالخصوص بھنگار کا کاروبار کرنے والے اس طرح کی فریب دہی کو ہنر سمجھتے ہیں۔ اس پر پشیمانی اور شرمندگی  کے بجائے نہایت شان سے کھلے عام اظہار بھی کرتے ہیں۔
     ہم جس پیٹرول پمپ سے پیٹرول لیتے ہیں، وہ ایک نامی گرامی مسلمان کا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اس کی براہ راست آمدنی ان تک پہنچتی ہے یا کرائے پر دے رکھا ہے لیکن نام بہرحال انہیں کا چلتا ہے۔ ہم ایک عرصے سے دیکھتے  آرہے ہیں کہ وہاں پر ۱۰۰؍ روپے کا پیٹرول لیا جائے تو ۹۹؍ روپے اورکچھ پیسے کا پیٹرول ملتا ہے۔ شروع میں ہمیں لگا کہ اگر ہمیں کچھ کم ملتا ہے تو ممکن ہے بعض کو کچھ زیادہ بھی مل جاتا ہو لیکن بار بار کے مشاہدے کے بعد ایک بار میں ہم نے ملازم سے پوچھ ہی لیا تو پتہ چلا کہ وہ مشین اتنے پر سیٹ کی ہوئی ہے۔   ظاہر ہے کہ ۴۰۔۳۵؍ پیسے کیلئے صارف تکرار نہیں کرتا لیکن یہ بات  قابل غور ہے کہ اس طرح ایک پیٹرول پمپ پر دن بھر میں کتنا ’زائد‘ پیسہ جمع ہوجاتا ہوگا؟ اگر وہ رقم ’خیرات‘ بھی کردی جاتی ہو تو وہ حق ادا ہوجائے گا؟ کاش ! ہم سمجھ سکتے کہ حقوق العباد کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ اور یہ کہ ہم اپنے عمل سے اسلام کو کتنا بدنام کررہے ہیں؟

Roznaamcha_ Miss Use facebook

فیس بک کا غلط استعمال

ہم پر یہ الزام ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر کسی سے لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی اگر کچھ دنوں کیلئے موقوف رہے تو لڑائی کے نئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان الزامات کے مطابق مسلمان صرف ہندوؤں سے نہیں لڑتے بلکہ آپس میں بھی خوب لڑتے ہیں۔ کہیں مسلکی لڑائی ہوتی ہے تو کہیں علاقائی۔ یہ چین سے نہیں بیٹھتے۔
     بلاشبہ یہ ہم پر الزام  ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ الزام تراشی اس لئے کہ مسلمانوں کو جھگڑالو ثابت کیا جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ وطن عزیز میں جو سالانہ ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے ہیں، اس کیلئے فرقہ پرست عناصر نہیں بلکہ مسلمان ہی ذمہ دار  ہیں..... لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ان الزامات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ نادان ہیں۔اس نادانی کے سبب وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ملت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قوم کو اُن کی اِن حرکتوں کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف مٹھی بھر ہے لیکن ان مٹھی بھرعناصر کی وجہ سے یہ الزام پوری کمیونٹی کے سر تھوپا جارہا ہے اورحالات ایسے ہیں کہ ہم اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ  اب تحریری صورت اختیار کرگیا ہے۔
     ان دنوںفیس بک پر غلط تربیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے یہ عناصر سرگرم ہیں اور اپنے فاسد خیالات سے معاشرے کی فضا کو مسموم کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔مسلکی اختلافات کو یہ اس قدر بڑھا چڑھا کر اور اتنے تضحیک آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اور ان کے مخالفین دونوں طیش میں آجائیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کا تعلق کسی خاص جماعت یامسلک سے نہیں ہے بلکہ اس حمام میں  بیشتر ننگے نظر آتے ہیں۔
        سوال یہ ہے کہ کیا ان اختلافات کو ابھارے اور دوسرے مسالک پر تنقید کئے بغیر ہم اپنے  مسلک پر قائم نہیں رہ سکتے؟ اپنے راستے پر نہیں چل سکتے؟ اپنی بات نہیں کہہ سکتے؟ آخروہ کون سا جنون ہے جو انہیں اس پر آمادہ کرتا ہے ؟ کیا وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں؟
        فیس بک اگر کوئی بہت اچھی چیز نہیں تو بری بھی نہیں ہے، اس کے بہتر استعمال سے بہتر نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ آپسی میل جول اور پیغام رسانی کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ ہے۔ ایک بڑا طبقہ ہے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا قائل ہے اوراس کی مدد   سے قوم اور سماج کو فیض پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
         مسلکی اختلافات کو کرید کرسماج میں انتشار پیدا کرکے ذہنی تسکین حاصل کرنیوالے یہ نوجوان کافی باصلاحیت  ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کامنفی استعمال ہورہا ہے حالانکہ اس کامثبت استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ کاش ایسا ہو! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟

Roznaamcha_ Khushamad aur urdu

خوشامد اوراردو داں
 
ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایمان کی تین قسمیں ہیں۔ کسی غلط عمل کو طاقت سے روکنے کو اول، زبان سے منع کرنے کو دوم اور دل سے برا سمجھنے کو تیسرا درجہ دیا گیا ہے۔
    آج کی صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ   بیشتراردو والے ایمان کے اس تیسرے درجے میں بھی نہیں رہنا چاہتے۔ یہ صرف دوسروں پر تنقید کرنا جانتے  ہیں ۔ہمیں یاد ہے کہ جب دہلی میںاردو اکیڈمی کےنئے سربراہ کا اعلان ہوا تھا تو ممبئی کے اُردو والوں نے خوب ناک بھوں چڑھایا تھا۔  اس موقع پر بعض نے تو یہاں تک کہاتھا کہ دہلی کے اردو والوں کو اکیڈمی کا بائیکاٹ کرنا چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب مہاراشٹر میں اس سے بھی بدترین صورتحال پیدا ہوئی تو انہی میں سے بعض آگے بڑھ کر کار گزار صد ر کا خیر مقدم کرنے لگے۔
    ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں لہٰذا کسی غلط عمل کو طاقت سے روکنے کی بات نہیں کرسکتے لیکن کیا ہم کسی غلط عمل کو غلط بھی نہیں کہہ سکتے؟کیا ہم خود کو اتنا مجبور و بے بس پاتے ہیں؟کیا ایسا کرکے ہم نان شبینہ کے محتاج ہوجائیںگے؟ کیا ہمارا ضمیر اتنا مردہ ہوگیا ہے کہ ہم میں خودداری کی رمق بھی باقی نہیں رہی۔  
    ایک بات یہاں واضح ہوجانی چاہئے کہ مرکز میں مودی یا ریاست میں فرنویس سرکار کی مخالفت کی بات نہیں کی جارہی ہے کیونکہ اس کا انتخاب جمہوری انداز میں ہوا ہے۔ ایک جمہوری ملک کے شہری ہونے کی وجہ سے کسی بھی منتخب سرکار کو تسلیم کرنا ہماری مجبوری ہے لیکن اس سرکار کے تمام فیصلوں کو من و عن تسلیم کرلینا قطعی ہماری مجبوری نہیں ہے ۔ہم سے بھلے تو وہ ہیں جو ’ایمان‘ کا  دعویٰ نہیں کرتے۔ گجیندر چوہان کی مخالفت کی تو اسے آج تک دفتر نہیں آنے دیا۔ ہم اردو والوں کو موقع ملا تو اب تک نہ جانے اس کے اعزاز میں کتنے پروگرام کر چکے ہوتے اور اس کے کتنے قصیدے لکھ چکے ہوتے؟   دادری سانحہ کے بعد یکے بعد دیگرے ساہتیہ اکیڈمی کے ۱۷؍ ایوارڈ یافتگان بطور احتجاج اپنا ایوارڈ واپس کرچکے ہیں اور بعض نے اکیڈمی کی رکنیت سےاستعفیٰ تک دے دیا ہے لیکن ہم میں ایک مراسلہ لکھنے کی جرأت تک نظر نہیں آتی ہے کہ کہیںہم نظرمیں نہ آجائیں۔ اردو کے شاعر و ادیب بھی حساس ہونے دعویٰ کرتے ہیں لیکن افسوس کہ کبھی اس کا اظہار نہیں ہوپاتا۔  اس کے برعکس ان کے عمل سے نظیر اکبر آبادی کے اس شعر کی ترجمانی   ہوتی ہے کہ :
گر بھلا ہو تو  بھلے کی بھی خوشامد کیجئے
اور بر ا ہو تو برے کی بھی خوشامد کیجئے
پاک ناپاک سڑے کی بھی خوشامد کیجئے
کتّے، بلی و گدھے کی بھی خوشامد کیجئے
     ضروری نہیں کہ ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈ یافتگان کی طرح ہم بھی اپنے ایوارڈ واپس کردیں۔شاید ہم اس ’نقصان‘ کے متحمل نہیں ہیں لیکن اظہاررائے کی جرأت تو باقی رکھنی چاہئے۔غلط کو غلط سمجھنے کی ہمت تو ہونی چاہئے۔  کاش! کہ ایسا ہو، اب سے کچھ ایسا ہو۔

Wednesday, 7 October 2015

Teachers, students and parents

اساتذہ، طلبہ اور والدین

کسی بھی سماج میں تعلیمی ترقی کا راز عام طور پر اساتذہ، طلبہ اوروالدین  کے باہمی ربط میں تلاش کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ یہ تینوں زاویئے کافی اہم ہیں لیکن موجودہ دور میں صرف ان تین زاویوں کے متحرک ہونے سے کسی سماج کی کایا پلٹ نہیں ہوسکتی جب تک کہ تعلیمی اداروں کا انتظامیہ اور سماج بھی ان کے ساتھ معاونت نہ کرے۔   والدین اپنی بساط بھراپنے بچوں کو مواقع اور ماحول فراہم کرسکتے ہیں ، طلبہ جی جان لگا کر پڑھائی کر سکتے ہیں اور اساتذہ بھی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکتے ہیں لیکن صرف ا ن تینوں کی کوششوں سے انقلابی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کیلئے اسکول انتظامیہ بھی سر جوڑ کر بیٹھے اور سماج نہ صرف ان کی سرپرستی کرے بلکہ ان پر سخت نگرانی بھی رکھے۔ 
    اس کا شدیداحساس  اُس وقت ہوا  جب ایچ ایس سی کا رزلٹ ظاہر ہوا۔ ہمارے دفتر میں رپورٹ کی اشاعت کیلئے ۱۰۰؍ فیصد رزلٹ کا ڈھنڈورہ پیٹنےوالے تعلیمی اداروں کی ایک طویل لائن لگ گئی۔دیکھ کر ہم سب بہت خوش ہوئے کہ ہمارا تعلیمی گراف بلند ہورہا ہے۔ رپورٹس کی صورت میں ان تعلیمی اداروں کے قصیدے ایک ماہ تک شائع ہوتے رہے لیکن جب میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلوں کیلئے ضروری امتحان ’سی ای ٹی ‘ اور ’جے ای ای‘ کے نتائج ظاہر ہوئے تو میرٹ لسٹ میں ان تعلیمی اداروں کے بچے بہت پیچھے نظر آئے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ایم بی بی ایس  اور انجینئرنگ کے اچھے اداروں میں ان کالجز کے طلبہ کا تناسب کیا ہے؟ لیکن جہاں تک ہم تلاش کرسکے، جہاں تک ہماری نظر گئی، ہمیں ایک بھی طالب علم ایسا نہیں مل سکا جواس بات کا دعویٰ کرسکتا کہ پرائیویٹ کوچنگ کے بغیر اس کاکسی اچھے کالج میں داخلہ ہوا ہے۔ 
     ہم پرائیویٹ کوچنگ کی وکالت نہیں کرتے اور نہ ہی اس طرح کی کسی کوشش کی تائید و حمایت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں جب بارہویں کے رزلٹ کی اہمیت تقریباً ختم کردی گئی ہے اور اس کی جگہ انٹرنس امتحانات نے لے  رکھی ہے تو کیوں نہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس پر زیادہ فوکس کریں۔ ظاہر  ہے کہ یہ کام طلبہ، والدین اور اساتذہ نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے انتظامیہ اور سماج کو آگے آنا ہوگا اورانہیں وسائل  فراہم کرنے ہوںگے۔ 
    ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر جونیئر کالجوںکی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں ہے۔ طلبہ کو بارہویں پاس کرا دینا ہی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ بعض کالجزمیں ہے بھی تو وہ پروفیشنلزم نہیں ہے جس کا وقت تقاضا کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرائیویٹ کوچنگ کلاسیز کے پاس  ہمارے کالجز کے مقابلے زیادہ وسائل ہیں کہ ان میں کوچنگ کرنےوالے طلبہ بارہویں میں اچھے مارکس لاتے ہیں اور انٹرنس میں بھی۔اس پر غور کیا جانا چاہئے کہ جب وہ کرسکتے ہیں،تو ہم کیوں نہیں؟

Modi k lahaasil daure

وزیراعظم کے بین الاقوامی دورے ملک کیلئے نہیں، ذاتی شبیہ بہتر بنانے کیلئے ہیں
!
بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی اپنی ۱۶؍ ماہ کی مدت میں ۲۹؍ بین الاقوامی دورے کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ مزید ۶؍ دورے کرنے والے ہیں۔  وہ  لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن  ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس محسوس یہ ہوتا ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں  کے ذریعہ وہ اپنی شیبہ بہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں
 
قطب الدین شاہد

 چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا.... ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہے گا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے اور چل چنئی جا۔‘‘
        کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت اور ہمارے وزیراعظم کا ہے۔ ملک کو قحط سالی کا سامنا ہے اور وہ  ملک کو ڈیجیٹل انڈیا بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے ایک بڑے حصے میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہے اور وہ سلامتی کونسل میں ہندوستان کو مستقل رکنیت دلانے  کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ ملک میں مسلسل فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں اور وہ سرمایہ کاروں کو ہندوستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
    عوام سے اچھے دنوں کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنےوالے وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پوری توانائی بین الاقوامی دوروں اور انتخابی ریلیوں میں صرف کررہے ہیں۔ عوام شکایت کرتے ہیں تو وہ مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ ہماری حالت زار دیکھو، ہمیںاس سے باہر نکالو، ملک میں اچھے دن لاؤ، تو جواب ملتا ہے کہ ’’صبر کرو، عام انتخابات میں ابھی چار سال باقی ہیں۔‘‘لوگ کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’روٹی کیوں؟  یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔   عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتےہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ کالا دھن واپس لاؤ۔ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ،یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیروں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ صرف ایک سال میں۴۲؍ ہزارکروڑ پتیوں کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘  لوگ کہتے ہیں کہ سرکار! ہمارے ملک میں ۸۰۔۷۰؍ کروڑ افراد ایسے بھی ہیں جن کی فی کس آمدنی یومیہ ۱۰۰؍ روپے بھی نہیں تو جواب ملتا ہے کہ ’’ یہ بھی تو دیکھو ! وطن عزیز  میں ۱۰۰؍ ایسے امیر ہیں جن کی دولت     ۳۴۵؍ بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ عوام کہتے ہیں کہ یہ توخواص کی بات ہوئی توسرکار کہتی ہے کہ ’’ ہماری ذمہ داری صرف کاہلوں اور جاہلوں کی حالت بہتر بنانے کی نہیں ہے۔ ہمیں اڈانی اور امبانی کیلئے بھی تو کام کرنے ہیں۔‘‘ عوام کہتے ہیں کہ ملک قحط سالی سے دو چار ہے، کسان خود کشی کررہے ہیں، تو حکومت کہتی ہے کہ’’فکر مت کرو، سرکار کے پاس اناج کا خوب ذخیرہ ہے اور ضرورت پڑی تو درآمد بھی کرلیا جائے گا۔‘‘کہا جاتا ہے کہ لوگ گاؤں خالی کررہے ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ’’ کوئی بات نہیں، ہم ۱۰۰؍ اسمارٹ سٹی بنانے کا کانٹریکٹ تیار کررہے ہیں۔‘‘ غرض یہ کہ  ہر سوال کا قولاً اور عملاً’ مارو گھٹنا، پھوٹے آنکھ‘ والا جواب مل رہا ہے۔
    کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ملک  قحط سالی سے دوچار ہے اور ہمارے وزیراعظم دوروں پر دورے کئے جارہے ہیں۔ دنیادیکھ رہے ہیں، سیاسی سربراہان اور کارپوریٹ دنیا کے ’سی ای اوز‘ سے مل رہے ہیں، تصویریںکھنچوا رہے ہیں اور اس عمل میں اُتاولے پن کا مظاہرہ کرکے ملک کا وقار بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی۳۸؍ فیصد زمین بارش کی  شدید کمی کا شکار ہے اور  یہ عام خشک سالی بھی نہیں ہے بلکہ ملک کومسلسل دوسرے سال قحط سالی کا سامنا  ہے ۔ اعداد و شمار  کے ماہرین بتاتے ہیں کہ گزشتہ سو سال میںیہ تیسرا موقع  ہے کہ جب لگاتار دو سال تک پورا ملک خشک سالی کی زد پر رہا ہو۔  رپورٹ کے مطابق ملک کے ۶۴۱؍ میں سے۲۸۷؍ اضلاع  خشک سالی  کے شکار ہیں۔ کئی سو اضلاع  ایسے ہیں جہاں گزشتہ ۶؍ برسوں سے مسلسل بارش کی کمی کی شکایت رہی ہے۔اس کی وجہ سے کسان خود کشی کررہے ہیں لیکن وزیراعظم کو ملک کے کسانوں کی اور ان پر انحصار کرنے والے ۵۰؍ کروڑ افراد کی فکر نہیں ہے،  ان کے نزدیک سندر پچائی اور مارک زکربرگ کے ساتھ سیلفی زیادہ  اہم ہے۔
    مودی حامی ان کے دوروں کو ضروری قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ملک کو ’سپر پاور‘ بنانے کیلئے اس طرح کی لابئینگ  ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے بعد ہی ملک کی تصویر بدل سکےگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے دوروں اور سودوں سے ملک  سپر پاور بن سکے گا؟ بھوکے پیٹ سرحدوں کی حفاظت ہوسکے گی؟جنگی طیارے خریدکر غریب بچوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنایا جاسکے گا؟
      چلو یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ملک کی طاقت میں اضافے کیلئے اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت ضروری ہے اوراس کیلئے مختلف ممالک کو ہموار کرنا بھی ناگزیر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کن ممالک کو اپناہم خیال اور اپنا ہمنوا بنانا ہے اورکن کے سامنے دست تعاون دراز کرنا ہے ۔ ماریشس، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، منگولیا، جنوبی کوریا،  آئر لینڈ، فجی  اور  میانمار جیسے ممالک بھلا ہندوستان کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بات تو سیاست کاادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی فیصلہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کو ہموار  کئے بغیر نہیں ہوسکتا پھر ان تمام ملکوں کی رضامندی اورخوشنودی کی ضرورت کہاں آن پڑی جبکہ ابھی یہ ۵؍ ممالک ہی راضی نہیں۔  دوسروں کو ہموار کرنے کی ضرورت تو دوسرے مرحلے میں پڑے گی۔ گزشتہ دنوں جاپان، جرمنی اوربرازیل کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کرکے پتہ نہیں کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ سچائی یہ ہے کہ یہ تینوں ممالک  سیاسی اعتبار سے ہندوستان سے زیادہ مجبور اور بےبس ہیں۔ فی الوقت ہندوستان کی مستقل رکنیت کے دعوے کی واضح مخالفت صرف پاکستان کررہا ہے جبکہ ان تینوں ممالک کی مخالفت کرنےوالے درجنوں ممالک ہیں۔ اس لئے ان کی حمایت سے  فائدے کے بجائے نقصان کا  زیادہ خدشہ ہے۔
     مودی جی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کی خاطر در در بھٹک رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے اس دعوے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔سچائی یہ ہے کہ ابھی تک ملک میں  سرمایہ کاری کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں آئی ،اس کے برعکس امریکہ جانے سے قبل  ہندوستان نے واشنگٹن سے ۲۰؍ ہزار کروڑ روپوں میں ہیلی کاپٹر خریدا یعنی پیسہ ملک میں آنے کے بجائے ملک سے باہر جارہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ۱۶؍ مہینوں میں مودی ۲۹؍ ملکوں کا دور ہ کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ یعنی نومبر تک اسرائیل سمیت مزید ۶؍ ملکوں کے دوروں کا پروگرام ترتیب پاچکا ہے۔ ان دوروں پر عوامی خزانے کو نہایت  بے دردی کے ساتھ لٹایا جارہا ہے۔ آر ٹی آئی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شروع کے صرف ۱۶؍ ملکوں کے دوروں پر وزیراعظم ۳۷؍کروڑ روپوں کو دریا برد کرچکے تھے، جن میں سب سے مہنگا دورہ آسٹریلیا کاثابت ہوا تھا جہاں محض ٹیکسی کے کرائے پر ہی ڈھائی کروڑ روپے   پانی کی طرح بہا دیئےگئے تھے۔
     دعویٰ کچھ بھی کریں لیکن مودی نوازبھی یہ  بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر مودی کی واہ واہی اس لئے نہیں ہورہی ہے کہ وہ بہت ذہین اور مقبول ہیں بلکہ اس لئے ہورہی ہے کہ وہ ہندوستان کے وزیراعظم ہیں، جہاں کی آبادی ۱۵۰؍ کروڑ کے آس پاس ہے،جن میں نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ایک نوجوان ملک ہونے کی وجہ سے آج   یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی  ہے۔  یہی سبب ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں وطن عزیز کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہیںکیونکہ ان کیلئے یہاں بزنس کے بھرپور مواقع ہیں۔ ویسے مودی کیلئے یہ بات باعث شرم ہونی چاہئے کہ ان کمپنیوں نے ان کے منہ پر ہی یہ بات کہہ دی کہ سرمایہ کاری کیلئے ہندوستان کا ماحول سازگار نہیں۔مطلب صاف تھا کہ آپ پہلے ملک کی حالت بہتر کیجئے۔ ملک کے نوجوان وزیراعلیٰ اروند کیجریوال  نے بھی مودی جی کو کچھ اسی طرح کا  مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے  چین کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اس نے پہلے خود کو مضبوط کیا اور اس کے بعد دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانے سرمایہ کاری کیلئے خود چل کراس کے دروازے پر پہنچے۔ اسلئے ہمیں بھی پہلے ہندوستان کو مضبوط بنانا ہوگا۔‘‘خیال رہے کہ کیجریوال نے  اُس سے قبل ایک ٹوئٹ  میں مودی حکومت پر طنز کیا  تھا کہ ’ میک اِن انڈیا‘ کے بجائے ہمیں ’میک انڈیا‘ پر توجہ دینی ہوگی۔
    ملک کو سپر پاور بنانے اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے ساتھ ہی ایک اور دعویٰ کیا جارہاہے کہ وطن عزیز کو عالمی سطح پر باوقار بنانے کیلئے ملک کو ڈیجیٹل انڈیا میں تبدیل کرنا ہے، اس کیلئے بھی دنیا بھر کے کارپوریٹ سربراہوں سے ملاقات ضروری ہے۔ دعویٰ کیا جا رہاہے کہ امریکہ میں زکربرگ (فیس بک)، ستیہ ناڈیلا (مائیکرو سافٹ)، سندر پچائی (گوگل)،   سلمان خان (خان اکیڈمی) اور  دیگر عالمی سطح کی کمپنیوں کے سی ای اوز سے اس لئے ملاقات کی گئی کہ ان کے توسط سے ہندوستان کے پانچ لاکھ گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم ہوجائے ، ۵۰۰؍ ریلوے اسٹیشنوں پر وائی فائی لگ جائے،  کروڑوں ہندوستانیوں کو موبائل فون مل جائیں اورشمسی توانائی گھر گھر پہنچ جائے گی تاکہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ہوجائے...... لیکن کیا یہ اتنا آسان  ہے؟ کیا ہم  اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ یہ کمپنیاں خالص منافع کیلئے کام کرتی ہیں، خیرات ان کا اصول نہیں۔
    اس طرح کی باتیں کرکے مودی آخر کسے بیوقوف بنارہے ہیں، ان کو جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے یا انہیں جن پر اُن کی حقیقت  اول دن سے عیاں ہے۔ غریبی، بدعنوانی اور عدم مساوات کے خلاف اعلان جنگ کا ڈھونگ رچنے اور’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘  کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آنےوالی مودی حکومت سمجھتی ہے کہ ملک آج بھی اس کے طلسم میں گرفتار ہے۔  دہلی اسمبلی کےا نتخابی نتائج کو وہ محض اتفاق سمجھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہار کے اسمبلی الیکشن میںنئے وعدوں اور نئے انتخابی جملوں کےساتھ ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  
    شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔ اس کی کارستانیاں عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔  سچ  یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کی پالیسیوں کو پسند کر رہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب  رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصدکسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہ کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب  ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے،فکرہے تو۱۲۷؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ایک لاکھ ۹۸؍ ہزار کروڑ پتیوں کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔
          مودی لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس سچائی یہ ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں  کے ذریعہ وہ اپنی اُس خراب شیبہ کوبہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔