Saturday, 20 October 2012

dictator democracy

جمہوری تاناشاہی

کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کیلئے خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
قطب الدین شاہد

    آگے بڑھنے سے قبل آئیے چند رپورٹس اور بیانات ملاحظہ کریں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ ہمارا ملک کس طرح جمہوریت سے تانا شاہی کی طرف رواں  دواںہے اور وطن عزیز میں عوام کی کتنی فکر کی جاتی ہے؟
     ہندوستان میں وہ لوگ غریب کہلانے کا حق نہیں رکھتے ، جن کی آمدنی شہری علاقوں میں ۲۸؍ روپے اور دیہی علاقوں میں ۲۲؍ روپے یومیہ سے زائد ہو۔
منصوبہ بندی کمیشن کی  ایک رپورٹ
    ملک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے زائد یعنی تقریباً ۵۰؍ کروڑ ہے۔
ایک سروے رپورٹ
    ۷۱؍ لاکھ روپے کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ ایک مرکزی وزیر کیلئے یہ بہت معمولی رقم ہے۔ بلا وجہ ہنگامہ مچا رکھا ہے۔
بینی پرساد ورما(مرکزی وزیر)
    ملک کے اخراجات کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سبسیڈی ختم کرنا ضروری ہے۔پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ (وزیراعظم)
    کیجریوال فرخ آباد آتو جائیںگے مگر کیا وہ یہاںسے جا بھی سکیں گے؟  میں قلم کے کام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں لیکن ضرورت پڑی تو خون سے بھی گریز نہیں کروں گا۔
سلمان خورشید (وزیرقانون)
    کیجریوال کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دو، ایک دن چلاچلا کرخاموش ہوجائے گا۔
ملائم سنگھ یادو (کانگریس کے اتحادی)
    یہاں چند ایسے بیانات نقل کئے گئے ہیں جو گزشتہ ایک ہفتے میں حکومت یا حکومت سے وابستہ شخصیتوں کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ان بیانات سےحکومت کی رعونت پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس نے جموریت کو تاناشاہی کی شکل عطا کردی ہے جہاں اختلاف کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے انتخابی وعدے میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  حکومت تشکیل پانے کے بعد  وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے تمام وزراء کو یہ ’حکم‘ دیا تھا کہ وہ تین مہینوں میں رپورٹ جاری کریں اور بتائیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں؟ اور ان کے کام کرنے کاطریقہ کیا ہوگا؟ اس حکم کے بدولت کانگریس کو مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میںبھی دوبارہ حکمرانی کا موقع مل گیا..... مگر افسوس کہ گزشتہ تین برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی اور نہ وزراء کے  احوال جاری ہوئے۔ا س کے برعکس اس دوران مہنگائی اوریوپی اے کے وزرا ء دونوں بے لگام ہوگئے۔
    یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۲؍ روپے یومیہ کمانے والے کو غریب نہیںسمجھاجاتا یعنی اسے سبسیڈی  کے فائدے سے محروم کردیا جاتاہے، اسی ملک کا ایک وزیریہ کہتا ہے کہ ۷۲۔۷۱؍ لاکھ روپے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک مرکزی وزیرکے شایان شان نہیں ہے۔  بینی پرساد ورما کے اس بیان میں کہیں نہ کہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ مرکزی وزراء چھوٹی موٹی رقمیں نہیں ہڑپتے  بلکہ وہ کروڑوں اور اربوں کے گھوٹالے کرتے ہیں۔   وزیراعظم بلا شبہ ایک نرم دل اور سلجھے ہوئے مزاج کے حامل شخص ہیں لیکن گزشتہ دنوں سبسیڈی ختم کرنے کااعلان کرتے ہوئے انہوں نے جو بیان دیا، اس سے ان کا ایک نیارخ سامنے آیا۔ ایسا محسوس ہواکہ ’ضرورت ‘ پڑی تو وہ سفاک بھی ہوسکتے ہیں۔ قیمتیں بڑھانے اور سبسیڈی ختم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا کہ پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا، کچھ اچھا نہیں لگا۔وہ اسی بات کو کسی اور انداز سے بھی کہہ سکتے تھے لیکن ...... جمہوریت جب تانا شاہی کی جانب گامزن ہو تو اس کے اثرات سے وہ بھلا کب تک محفوظ رہ سکتے تھے؟
    یوپی اے حکومت کی تاناشاہی کا سب سے کریہہ چہرہ اس وقت سامنے آیا جب کیجریوال نے سلمان خورشید کی جانب انگشت نمائی کی۔کیجریوال کتنے سچے ہیںاور کتنے جھوٹے؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں، ہم یہ بھی جانتے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، اس میں ان کی اپنی مرضی شامل ہے یا ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی نیت کیا ہے؟ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں ایک عام آدمی کو سوال کرنے کا حق ہے، جس کا جواب دینا عوامی نمائندوں پر لازم  ہے۔ سلمان خورشید سے اگر کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو انہیں اپنا آپااس طرح  بالکل نہیں کھونا چاہئے تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ میں سڑک پر پڑے ہوئے لوگوں کا جواب نہیں دینا چاہتا، ہندوستانی عوام کی توہین ہے۔  وزیرموصوف کو بہرحال یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہندوستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہی رہتی ہے اور انہیں  عام لوگوں کے ووٹوں کی بدولت کانگریس کو حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ملائم سنگھ جن کے تعلق سے یہ خوش گمانی تھی کہ وہ ’عوام‘ کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ کہنا کہ’ ’وہ چلّا چلّا کر ایک دن خاموش ہوجائے گا‘‘ .... جمہوری قدروں کے منافی اور مطلق العنانیت کی دلیل ہے۔
    دراصل ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ عوام نے واقعی اپنےنمائندوں کااحتساب کرنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح انہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔  ایسے میں اگر کوئی احتساب  کی بات کرتا ہے تو اسے اسی طرح کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں کانگریس کے یہ تیور نہیں تھے۔
    کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کی خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
    تو کیا ہمیں یہ فرمان قبول ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے ووٹوں کی اہمیت کو محسوس کریں۔ ہمیں اور کچھ اختیارات تو حاصل نہیں ہیں لیکن ....... جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں، ان ہاتھوں کو ہم نے ہی مضبوط کیا ہے اور  انہیں صرف ہم ہی کمزور کرسکتے ہیں۔

Saturday, 6 October 2012

secular parties and gujrat

گجرات الیکشن سے سیکولر جماعتیں خوفزدہ کیوں ہیں؟

کیا گجرات ہندوستان سے باہر کی کوئی ریاست ہے؟ کیا گجرات کے عوام کی سوچ کچھ مختلف ہے؟ کیاگجرات کےعوامی مسائل ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے الگ ہیں؟  آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر جماعتیں انتخابات سےقبل ہی گجرات میں شکست تسلیم کرلیتی ہیں؟ وہ ڈٹ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا گاندھی نگرسے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے؟....... نہیں ایساقطعی نہیں ہے..... اوراس کے باوجود اگر ایسا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کیلئے سیکولر جماعتیں بالخصوص کانگریس سنجیدہ نہیں ہے..... وہ چاہتی ہی نہیں کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہو....

قطب الدین شاہد

ایک بہت مشہور فلمی ڈائیلاگ ہے ’’جو ڈر گیا، وہ مرگیا‘‘....گجرات انتخابات کے  پس منظر میں اگر سیکولر جماعتوں کی تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔  ظاہر ہے کہ جب ڈری سہمی یہ جماعتیں مقابلے میں جائیں گی، تو شکست سے انہیں کون بچا سکے گا۔ حالانکہ دفاعی پوزیشن میں مودی حکومت کو ہونا چاہئے مگرصاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر بداعمالیوں کے باوجود مرکز کی یوپی اے حکومت پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے سامنے سونیا گاندھی کی قیادت والا مرکزی لاؤ لشکر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ کانگریس کی یہ حالت دیکھ کر ہی شاید بال ٹھاکرے نے یہ بیان دیا ہے کہ ’ گجرات الیکشن میںمودی کے وجے رتھ کو روکنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا‘....
    تو کیا گجرات میں بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے کہ کانگریس یا دیگر سیکولر جماعتیں اس پر قابو نہیں پاسکتیں؟ اسے زیر نہیں کیا جاسکتا؟ اس قلع پر فتح پانا ممکن نہیں ہے؟....... ایسا بالکل نہیں ہے..... اوراگر اس کے باوجود ایسا ہے ... یعنی مودی کو ہٹانا مشکل لگ رہا ہے تو صرف اس لئے کہ کانگریس کی یہی منشاء ہے۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ مودی کی حکومت قائم ود ائم رہے۔اس کیلئے کسی اور سیکولر جماعت پر الزام اس لئے عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گجرات کی حد تک کسی اور جماعت میں وہ دم خم نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو اکھا ڑ پھینکے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کسی جماعت میں مودی سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے تو وہ وہاں انتخابی میدان میں کود کر کانگریس بمعنی سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب کیوں بنتی ہیں؟ ایک دو فیصد ووٹ لے کر یہ جماعتیں مودی کی جیت کا راستہ کیوں ہموار کرتی ہیں؟ ...... تو اس کا بھی جواب یہی ہوگا کہ کانگریس یہی چاہتی ہے۔ 
    دراصل کانگریس یہ سمجھتی ہے کہ مرکز میں اسے باقی رہنے کیلئے گجرات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کا قائم رہنا ضروری ہے۔مودی سے ڈرادھمکا کر کانگریس سیکولر ووٹوں کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ کانگریس یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ جب چوری نہیںہوگی تو چوکیدا ر کی ملازمت کیوںکر بحال رہ سکتی ہے؟ دہشت گردانہ واقعات نہیں ہوںگے تو  بڑی بڑی تفتیشی ایجنسیوں کی ضرورت کیوں کر محسوس کی جائے گی؟
    کانگریس پر یہ الزام بے بنیاد نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو بچائے رکھنا چاہتی ہے، لیکن ..... اس پر ہم گفتگو تھوڑی دیر بعد کریں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گجرات کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اور وہاں کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ کیا وہاں  بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے؟  یا پھر کانگریس اتنی ہی کمزور ہے، جتنی وہ ظاہر کرتی ہے؟
    ۲۰۰۲ء میں گجرات فساد کے بعد مودی حکومت اکثریت میں  آئی تھی۔  اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ مظلومین حالات سے خوف زدہ تھے لہٰذا وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لےسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں رہائش پذیرتھی، یعنی وہ  ووٹ دینے کے قابل نہیں تھے.... اور جو ووٹ دے سکتے تھے، ان کے سامنے مرحوم احسان جعفری کاانجام تھا، جنہیں بچانے کی کانگریس نے کوئی کوشش نہیں کی، اسلئےانہوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کے بجائے گھروں میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ دوم یہ کہ..... مجرمین اور ان کے حامی اپنے تحفظ کی خاطر مودی حکومت کی واپسی چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر پولنگ میں حصہ لیا۔ اس طرح مودی اکثریت سے منتخب ہوکر گجرات کے اقتدار پردوبارہ قابض ہوئے۔ اس الیکشن میں ۶۱ء۵۴؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی جس میں یقیناً مودی کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس الیکشن میں بی جے پی کو ۴۹ء۸۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۱۸۲؍ میں ۱۲۷؍ نشستیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو ۳۹ء۲۸؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵۱؍ نشستوں پراکتفا کرنا پڑاتھا۔
    ۲۰۰۴ء تک آتے آتے حالات تبدیل ہوئے۔ گجرات کا زخم  رِستا ہی رہا، جس کا کرب پورے ملک نے محسوس کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے خلاف پورے ملک میں ایک لہر چل پڑی۔ انڈیا شائننگ پر گجرات فساد کا دھبہ حاوی رہا۔ اورا س طرح بی جے پی کو اس کے گناہوں کی سزا ملی اور وہ مرکز سے بے دخل ہوگئی۔گجرات میں بھی بی جے پی مسترد کی گئی۔ ۲۶؍ پارلیمانی نشستوں میں بی جے پی کو ۱۴؍ اور کانگریس کو ۱۲؍ نشستیں ملیں۔ یعنی دونوں کی کارکردگی تقریباً برابر رہی۔ تقریباً ۹۲؍ اسمبلی نشستوں پر کانگریس بی جے پی سے آگے تھی۔ مطلب صاف تھا کہ تھوڑی سی کوشش میں کانگریس گجرات کا قلعہ فتح کرسکتی تھی۔ یہاں یہ بات واضح تھی کہ وہ تمام لوگ جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ  تھے، مودی کو  واپس لانے  کیلئے جان کی بازی لگانا چاہتے تھے ، مگر کانگریس کے حامیوں  بالخصوص سیکولر رائے دہندگان میں وہ جوش و خروش نہیں تھا کیونکہ یہ بات سب جانتے تھے کہ کانگریس کو ان مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیکولر رائے دہندگان کی یہ بے حسی ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں نظر آئی۔کہاں تو ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں کانگریس ۹۲؍  اسمبلی نشستوں پر بی جے پی سے آگے تھی، کہاں ۲۰۰۷ء میں اسے صرف ۵۹؍سیٹیں ہی مل سکیں۔  بی جے پی کو اس مرتبہ ۱۱۷؍ سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی الیکشن ہوا تو  بی جے پی کو ۱۵؍ اور کانگریس کو ۱۱؍ نشستیں ملیں۔ یہاں بھی زیادہ فرق نہیں تھا.... کانگریس اگرچاہتی توگزشتہ۳؍ برسوں میں سیکولر رائے دہندگان کا اعتماد بحال کرسکتی تھی، مگر افسوس کہ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
    یہ ہیں وہ زمینی حقائق، جو بہت واضح ہیں کہ بی جے پی گجرات میں بہت مضبوط نہیں  تھی اور نہ ہے....  یعنی اسے ناقابل تسخیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اگر اس کے باوجود بی جے پی کی حکومت وہاں قائم و دائم ہے، تو اس کی وجہ سمجھنی ہوگی۔ دراصل کانگریس اسی میں اپنی بھلائی سمجھتی ہے کہ ملک میں موت کا ایک سوداگر ہو، جس کا خوف دلا کر وہ باقی ماندہ ہندوستان کے سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان کو اپنے پالے میں رکھ سکے۔ کانگریس ، بی جے پی کے مقابلے سیکولر طاقتوں کو توڑنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتی ہے۔  ہم سب دیکھتے ہیں کہ مقابلہ اگر بائیں محاذ سے ہو، لالو کی آر جے ڈی سے ہو یاملائم کی سماجوادی سے ہو تو کانگریس کے تیور کیسے ہوتے ہیں اور جب بی جے پی سے ہو تو اس کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ شکست کے بعد کانگریس یہ الزام عائد کرتی ہے کہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے سیکولرووٹوں کو تقسیم کردیا، جس کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں، اس کیلئے کانگریس نے کیا کیا؟ کیا  ان چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی اس کی جانب سے کوئی پہل ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا تھا، تواس کیلئے ایک بڑی کوشش ہونی چاہئے تھی۔ یہ ذمہ داری صرف چھوٹی جماعتوں پر توعائد نہیں ہوتی کہ سیکولر ووٹوں کے اتحاد کا سبب وہی بنیں۔ کانگریس اُن ریاستوں میں اُن جماعتوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی، جہاں وہ بی جے پی سے مقابلہ کرتی ہیں اور کانگریس کی حیثیت ووٹ تقسیم کرنے کی ہوتی ہے۔
    کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بی جے پی اپنے عروج میں سب سے زیادہ  اترپردیش میں مضبوط تھی۔  ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب بی جے پی  ۸۰؍ پارلیمانی نشستوں میں سے تقریباً ۶۰؍ پر قابض ہوگئی تھی۔  اس نے کانگریس کو شکست دے کر وہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہاں بھی کانگریس نے گجرات جیسی ہی پالیسی اپنا رکھی تھی، جس کے نتیجے میں عوام نے ان دونوں کو اکھاڑ پھینکا اور پھر  سماجوادی اور بی ایس پی کی شکل میں تیسری اور چوتھی قوت کو اقتدار تک پہنچایا۔ گجرات میںاگر کانگریس کا یہی رویہ رہا، تو ایک دو انتخابات کے بعد وہاں بھی تیسری اورچوتھی قوت کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ پرست نہیں ہے۔

Saturday, 11 August 2012

Har haath men mobile phone

ملک کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے حکومت کا نیا نعرہ
روٹی نہیں، موبائل لو

مرکزی حکومت نے ایک منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت  ۷؍ ہزار کروڑ روپے خرچ کرکے وہ ملک کے غریبوں کو موبائل فون دے گی۔کیا یہ ان غریبوں کے ساتھ بیہودہ مذاق نہیں ہے جو  دو وقت کی روٹی، پینے کے صاف پانی اور بیماری میں دواؤں کیلئے بھی ترستے  ہیں؟

قطب الدین شاہد
 
چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا........ ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہےگا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے، چنئی جا....‘‘۔
    کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت کا  ہے۔ عوام کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’ روٹی کیوں؟ یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں ، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلیٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔ عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتے ہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ، یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیر بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال ۶۲؍ ہزار کے مقابلے امسال ایسے لوگوں کی تعداد ۸۱؍ ہزار ہوگئی ہے، جن کی ملکیت  ۲۵؍ روپوںسے زائد ہے‘‘۔
    ہماری حکومت اعداد و شمار کے بل پرچلتی ہے۔حقیقت کچھ بھی ہو، کاغذ پر ترقی نظر آنی چاہئے۔یہ بیہودہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنےوالوں کو غریب تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے، اسی ملک میں حکومت ۲۰۰؍  روپے مہینے کے ٹاک ٹائم کے ساتھ مفت موبائل فراہم کرنے پر غور کررہی ہے۔ آخرحکومت کو کس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ بھوک سے روتے بلکتے بچے موبائل کے رِنگ ٹون سن کر خاموش ہوجائیں گے  اوراطمینان سے نیند کی آغوش میں چلے جائیںگے۔اس ملک میں جہاں کی ۳۷؍ فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے  زندگی گزارتی ہے یعنی ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی ، اس ملک میں موبائل فون عام کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ موبائل کمپنیوں کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔عوام کی فلاح کے نام پر عوام کے خزانے سے یہ ۷؍ ہزار کروڑ روپے بڑی آسانی سے موبائل کمپنیوں کی جیب میں چلے جائیںگے۔ بالکل اسی طرح جیسے پینے کے پانی کی فراہمی اور بیماریوںسے نجات کیلئے دواؤں کے چھڑکاؤ کے بجائے مقامی و بلدیاتی انتظامیہ فلائی اوور اور فوٹ اوور بریج کے منصوبے بناتی ہیں اور اسےبآسانی منظورکرالیتی ہیں۔ دراصل ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس طرح کے منصوبوں کی تکمیل میں وارے نیارے کرنے کے  مواقع  زیادہ رہتے ہیں۔
      دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ موبائل ’غریبوں‘ کو فراہم کئے جائیں گے..........اُن غریبوں کو جو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ اگرانہیں موبائل مل بھی جائے تو ان کیلئے اسے چارج کرنا مشکل ہوجائے گا۔شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کو پسند کررہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب  رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصد کسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہیں کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ۱۳؍ برسوں میں قرض کے بوجھ تلے دبے تقریباً ڈھائی  لاکھ کسان خود کشی کرچکے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب  ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے۔ حکومت کوفکرہے تو۱۲۳؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ۸۱؍ ہزار افراد کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہاںبدعنوانی کا پرچم اتنا بلند ہے۔ بدعنوانی کے معاملے میں ۱۸۳؍ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۹۵؍ویں پوزیشن پر ہے۔ ملک کے وسائل سے فیضیاب ہونے کے معاملے میں یہاں عدم مساوات بھی کافی ہے۔ ۱۸۷؍ ممالک کی اس فہرست میں ہمارا مقام ۱۳۴؍ واں ہے۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہم تمام ہندوستانیوں کیلئے روٹی ، کپڑا ، مکان، صحت اور تعلیم کاانتظام کرنا چاہتے ہیں یا شرح نمو، سنسیکس ، کرکٹ ریکارڈاور اولمپک میڈل کے سہارے خود کوترقی یافتہ بتانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کرکہ ریاست بہار کی ایک خاتون دو وقت کی روٹی کیلئے اپنے بچے کو ایک غیر اوراجنبی شخص کے ہاتھوں فروخت کر نے پر مجبور ہوتی  ہے، جبکہ اسی ملک میں اولمپک میڈل جیتنے کیلئے ملک کے خزانے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لندن اولمپکس کی تیاری پر حکومت نے ۵۵؍ کروڑ ۲۲؍ لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔ گزشتہ دنوںبی سی سی آئی نے کپل دیو کو ڈیڑھ کروڑ کا چیک دیا اور ماہانہ ۳۵؍ ہزار روپے کی پنشن جاری کی۔
    دراصل یہ سب اسلئے ہے کہ ہم خاموش  ہیں۔ہم اپنی حکومت اور اپنے نمائندوں کا احتساب نہیں کرتے، ہم انہیں یہ باور نہیں کراتے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔یقین جانئے یہ لوٹ کھسوٹ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم اپنی بیداری کا اعلان نہیں کریںگے۔

Saturday, 16 June 2012

An open letter to politician

عوامی نمائندوں کے نام ایک شہری کا کھلا خط
 
ملک کے پہلے شہری کے انتخاب میں
 شہریوں کی بھی تو کچھ رائے  لیجئے جناب

مکرم و محترم، معزز عوامی نمائندوں کی خدمت میں حقیر و پُر تقصیر ایک ناچیز شہری کا آداب!
    یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ یعنی عوامی نمائندے، ہم یعنی عوام کی باتوں کو کم ہی خاطر میں لاتے ہیں،ہمارے جذبات و احساسات پر متوجہ ہونے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں.... پھر بھی کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ’شایدکہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات‘.....
     اور کچھ  نہ کہوں تو کیسے؟ خاموشی جہاں ہمارے نزدیک بے ایمانی کی علامت ہے، وہیں طبی نقطہ نظر سے یہ ہاضمے کی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے۔ویسے یہ مسئلہ صرف عوام کا ہے، آپ جیسے خواص کا نہیں، کہ خاموشی  ہی آپ کا خاصّہ ہے۔ آپ تب تک خاموشی میں یقین رکھتے ہیں جب تک کہ آپ کے ذاتی مفاد پر کوئی ضرب نہ پڑے..... اور آپ کے ہاضمے کی تو خیر دنیا قائل ہے.... توپ اور تابوت تک کا پتہ نہیں چلتا۔
    اب جبکہ پرنب مکھرجی کا رائے سینا ہل پہنچنا تقریباً یقینی ہوچکا ہے، کیونکہ تادم  ِ تحریر پی اے سنگما کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار میدان میں نظر نہیں آرہا ہے..... ذرا ۲؍ منٹ کیلئے ٹھہرجائیں، سینے پر ہاتھ رکھیں، ضمیر سویا ہوا ہو، تو  دو چار جھٹکے (تھپکی نہیں) دیں.... اور پھر غورکریں کہ جو کچھ بھی ہوا، یا ہونے جارہا ہے، اس میں عوامی جذبات و احساسات کا کتنا خیال رکھا گیا ہے؟ آپ کے فیصلے کو کتنے فیصد عوام کی تائید حاصل ہے؟  اور یہ کہ جب آپ   دوبارہ ہمارے رو برو آئیںگےتو ہمیں کس طرح  قائل کریںگے؟ یقین جانئے! ان سوالوں پر غور کریں گے تو ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں ہونے کے باوجود بھی پسینے میں نہا جائیںگے اور بے حسی کی عینک لگائے بغیر آپ ہم سے نظریں نہیں ملا سکیںگے۔
    پرنب داد ا کی امیدواری پر ہمیں قطعاًاعتراض نہیں، وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک ہیں، قابل ہیں، باصلاحیت بھی ہیں، مگر جس عہدے کیلئے ان کا انتخاب ہونےجارہا ہے، اس کیلئے ان کے مقابلے دیگر دونوں امیدوار یعنی ڈاکٹر عبدالکلام اور سومناتھ چٹرجی زیادہ موزوں ہیں۔یہ عوام کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ درست بھی ہو، اور آپ خواص کی سوچ و فکر سے میل بھی کھائے..... کیونکہ آپ کی فہم و ادراک اور عوام کے شعور میں زمین و آسمان کا فرق ہے... عوام کنوئیں کے مینڈک ہیں، وہ صرف ملک کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ آپ کی فکر کا دائرہ وسیع ہے، آپ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، اپنی پارٹی کے بارے میں سوچتے ہیں، دور اندیش ہوتے ہیں، نرم گرم سب سمجھتے ہیں اور کبھی کبھار ملک کے بارے میں بھی سوچ لیتے ہیں۔
    برا مت مانئے!  ہم پرنب دادا کی ایمانداری پر شبہ نہیں کررہے ہیں  اور کرنا بھی نہیں چاہئے....لیکن کانگریس کی ’ دادا گیری‘ پر ضرور شبہ ہورہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ کانگریس کے ایک بہترین ناخدا رہے ہیں۔ جب بھی اس کی کشتی منجدھار میں پھنستی ہے تو پرنب دادا  ہی اسے پار لگاتے ہیں، اور وہ وہی کرتے ہیں جو اُن سے توقع کی جاتی ہے۔ ان حالات میں شبہ پیدا ہونا لازمی ہے کہ کہیں اس باوقار عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی ......
    اس کے برعکس سومنا تھ چٹرجی اور ڈاکٹر عبدالکلام اپنی غیر جانب داری سے ہم عوام کا دل جیت چکے ہیں.... شاید اسی لئے وہ آپ کے ناپسندیدہ بھی ہیں۔ آپ بھلا یہ کیونکر چاہیںگے کہ جس عہدے کو ربراسٹامپ کے طور پر آپ نے شہرت بخشی ہو، کوئی اسے بااختیار ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ آپ نے ان دونوں کی ناقدری کرکے عوام کا دل دکھایا ہے۔
    یقین جانئے! آج اگر  صدر کےانتخاب کی ’آزادی‘  ہمیںمل جائے تو آپ کو پتہ چل جائےگا کہ آپ عوام میں کتنے مقبول ہیں؟ لیکن یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ آج نہیں تو کل آپ کو ایک بار پھر ہمارے سامنے آنا    ہے، تب آپ کو ان سوالوںکا جواب دینا ہوگا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ الیکٹورل کالج کا رکن ہوجانے کی وجہ سے آپ کومن مانی کااختیار مل گیا ہے، نہیں جناب! آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے ووٹوں کی قیمت بھی ہماری بدولت ہے۔یعنی جہاں کی جتنی آبادی ہے، وہاں کے عوامی نمائندے کے ووٹ کی  قدراُتنی  ہی ہے۔ ایسے میں کیا آپ کو ہمیں اس طرح نظر انداز کرنا چاہئے۔ 
    کہاں گئے وہ جو کہتے تھے کہ اس مرتبہ اس عہدے پر کوئی سیاست داں نہیں آنا چاہئے، کہاں گئے وہ جونائب صدر کو صدر بنانے کی وکالت کررہے تھے، اور کہاں گئے وہ جو کسی مسلم کو صدر بنانے کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کوبیوقوف بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ پرنب جی تو اس معیار پر کسی طرح پورے نہیں اُترتے۔ پھر ان کی حمایت کیوں؟ کیا اس پر کوئی بحث ہوئی ہے؟ اگر ہوئی ہے تو وہ ہم سے شیئر کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ ہماری بے چینی کو دور کیوں نہیں کیاجارہاہے؟ یا پھر سودے بازی کا معاملہ ہے؟
    جو بھی ہو.... جو ہونا تھا ، ہو چکا! یعنی اب وہی ہوگا جو طے پاچکا ہے،  ضمیر جاگنے یا کسی انقلاب کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی... البتہ اب جو کرنا ہے، وہ  ہمیں یعنی عوام کو کرنا ہے۔ بہرحال ہمیں وہ موقع ملے گا اور جلد ہی ملے گا، بالکل اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ملا تھا۔ یاد ہے نا! کچھ لوگ کہتے تھے کہ بنے گی تو ہماری حکومت، ورنہ صدر راج ہوگا..... پھر کیا ہوا، وہ ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی۔

احقر       
قطب الدین شاہد

Monday, 21 May 2012

The three years of UPA IInd Govt.

 یوپی اے  حکومت کی دوسری میقات کے تین سال
عروج سے زوال کی داستان

یکے بعد دیگرے کئی گھوٹالوں نے گزشتہ تین برسوں میں یوپی اے حکومت کی شبیہ بری طرح خراب کی ہے۔  بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے...... مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔

قطب الدین شاہد

یوپی اے حکومت آئندہ دو دنوں میں اپنی  دوسری میقات کے تین سال مکمل کرلے گی۔ ۲۲؍مئی ۲۰۰۹ء کو وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ حلف لیا تھا۔ اس حلف برداری کے ساتھ ہی انہوں نے ایک تاریخ مرتب کی تھی۔ وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ایسے دوسرے وزیراعظم بن چکے تھے ، جو ۵؍ سال کی میعاد مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدے پر پہنچے ہوں۔اسی کے ساتھ اور بھی کئی ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن.....اس کے بعد اس پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا......  دراصل یہیں سے ان کااوران کی حکومت کا زوال  شروع ہوتا ہے۔
    وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اپنی شبیہ اس دوران کتنی خراب ہوچکی ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء کی انتخابی مہم میں جب بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے انہیں کمزور وزیراعظم کہہ دیا تھا تو خواص کے ساتھ عوام نے بھی ناراضگی کااظہار کیا تھا۔لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری تھی کہ شریف النفس قسم کے وزیراعظم کو کمزور کہا جائے...لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی سوچ میںخاصی تبدیلی آئی ہے۔ شرافت کا بھرم تو ہنوز قائم ہے لیکن اس دوران مضبوط وزیراعظم کا تصور پاش پاش ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی اس کمزوری کی تشہیر اپوزیشن سے تعلق رکھنےوالی جماعتیں اور اراکین ہی نہیں بلکہ خودکانگریسی بھی کرتے پھر رہے ہیں۔
    اس تعلق سے ایک لطیفہ سن لیجئے۔کہاجاتا ہے کہ ایک شاہراہ پر ایک شخص زور زور سے چلارہا تھا کہ’ ’وزیراعظم نکمّا ہے..... وزیراعظم نکما ہے....‘‘ اُدھر سے ایک وزیر کا گزر ہوا، اس نے اس شخص کو گرفتار کروادیا، کہا: تم وزیراعظم کو نکماکہتے ہو۔ اس نے کہا : حضور ہم اپنے نہیں برطانوی وزیراعظم کو نکما کہہ رہے ہیں۔ وزیرنے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، کیا میں نہیں جانتا ہوں کہ کون وزیراعظم نکما ہے۔‘‘ یہ بہرحال ایک تخلیقی لطیفہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے اپنے کابینی رفقا ہی ان کی ناکامی کی تشہیر بنے ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں اس کی ایک  مثال  اُس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب دگ وجے سنگھ اور پی چدمبرم بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے پر لن ترانی کررہے تھے ۔اس معاملے پر وزیراعظم کی خاموشی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ ان کا بس اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں ہے۔ 
    یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں بھی سرخاب کے پر نہیں لگے تھے، لیکن حال  اتنا برا بھی نہیں تھا جتنا اَب ہے۔کچھ کوششیں بہرحال اچھی تھیں،جس کی وجہ سے ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں کانگریس کو ۲۰۰۴ء کے مقابلے ۶۱؍ نشستیں زائد مل گئی تھیں۔   کانگریس نے اسے اپنی کارکردگی کاانعام سمجھا اور پھر یہیں سے کانگریس میں خود سری  بھی آنی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے نہ صرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں شروع کردیں بلکہ اس کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب حکومت نے عوام اوران کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔
    بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔
    بڑے بزرگوں نے بالکل درست ہی کہا ہے کہ کسی غافل کو بیدار کرنا آسان ہے لیکن اس شخص کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے جو بیدار ہے مگر غفلت کا مظاہر ہ کررہا ہے۔  یہ بات موجودہ یو پی اے حکومت پرصادق آتی ہے۔ اسے ملک کی بدقسمی سے ہی تعبیر کریںگے کہ اس وقت وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی، وزیرداخلہ پی چدمبرم، وزیر شہری ترقیات جے رام رمیش، منصوبہ بندی کمیشن کے چیئر مین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ اور وزیراعظم کے معاشی مشاورتی کونسل کے چیئر مین سی رنگ راجن   جیسے ماہر ین معاشیات ملک کو کنٹرول کررہے ہیں اور ملک کی حالت یہ ہے کہ ایک تہائی سے زائد آبادی بھوکی اور ننگی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک بیماری کا احساس نہیں ہوگا، اس کے علاج کی کوششیں نہیں ہوںگی اور جب علاج نہیں ہوگا تو شفا کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
    یہ تو ہے یوپی اے کی کارکردگی کا مجموعی تاثر۔ اگر ایک مسلم کی حیثیت سے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مزیدمایوسی کااحساس ہوتا ہے۔یوپی اے نے سچر کمیٹی کی رپورٹ تو طشت از بام کردی .. اور پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کی اوقات بتادی کہ ان کی حالت دلتوںسے بھی بدتر ہے لیکن ..... اس کیلئے بہتری کی کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وقت بہت جلد آئے گا، جب ہندوستانی شہریوں کو  یو پی اے حکومت کا گریبان پکڑ کر یہ پوچھنے کا موقع ملے گا کہ اقتدار پانے کے بعد تم نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اوراب ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں؟

Saturday, 12 May 2012

President election 2

صدر جمہوریہ کے انتخاب  میں
اتنی خاموشی کیوں، اتنی رازداری کیوں؟

  ۱۲۱؍کروڑ کی آبادی والے ہندوستان کیلئے آئندہ ماہ ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جانا ہے مگر ہم  ہندوستانیوں کو  ہنوزیہ بھی پتہ نہیں کہ اس باوقار عہدے کیلئے  امیدوارکون کون ہیں؟  سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں غیرمعمولی رازداری برتی جارہی ہے۔بلاشبہ اس عہدے کیلئے عوام کو براہ راست ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہے لیکن ان خواص کو جنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ وہ کتنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔  ان حالات میں اس عمل سے عوام کو بالکل بے خبر رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ او ر اگر پھر بھی بے خبررکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنے نمائندوں سے جواب طلب کریں۔ 

قطب الدین شاہد

    ۲۴؍ جولائی کو ملک کی ۱۲؍ ویں صدرجمہوریہ پرتیبھا تائی پاٹل کے عہدے کی میعاد ختم ہورہی ہے۔اس سے قبل نئے صدر کا انتخاب ہوجانا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ جون کے آخری یا جولائی کے پہلے ہفتے تک اس باوقار اور آئینی عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت کاانتخاب کرلیا جائے گا....
    یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ یعنی وقت رہتے صدرکاانتخاب کرلیا جائے گا، کسی قسم کا کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا لیکن.... اس معاملے میںجس طرح کی پیش رفت ہے، کیا مناسب ہے؟  ایک ماہ کا قلیل عرصہ باقی بچا ہے لیکن ابھی تک ہم ہندوستانیوں کے سامنے مطلع صاف نہیں ہے کہ اس عہدہ ٔجلیلہ پر کون فائز ہوگا؟ ہندوستان کی دو بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی  اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے گریز کررہی ہیں۔ چھوٹی جماعتیں بھی کانا پھوسی سے کام چلارہی ہیں۔ کوئی کھل کر نہیں کہہ رہا ہے کہ ان کی جانب سے اس عہدے کیلئے کون امیدوار ہے اور وہ کیوں ہے؟ اس پر بحث کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا گیا ہے۔کھلے عام اس موضوع پر گفتگو کو گناہ تصور کرلیا گیا ہے۔ تحریک تو چل رہی ہے اور بہت زور شور سے چل رہی ہے لیکن نہایت خاموشی سے.... رازداری کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ شطرنج کی بساط بچھادی گئی ہے، چالیں چلی جارہی ہیں،سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہورہی ہیں،شہ اور مات کا کھیل  جاری ہے مگر عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگ پارہی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اُتنی ہی باتیں ’لیک‘ ہوتی ہیں، جتنی کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔اس پورے عمل میں عوام کو کہیں سے شریک کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ کیا یہ عوام کے ساتھ فریب نہیں ہے؟
     بلاشبہ ملک کے پہلے شہری کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اس عہدے کاانتخاب بالراست عوام ہی کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ووٹ دینے والے عوامی نمائندگان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پرطے ہوتی ہے کہ وہ کتنے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ اس پورے عمل میں عوام کو شریک کیا جائے، ان سے مشورے طلب کیے جائیں، ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائےاور اس کی بنیاد پر ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جائے؟ مگر افسوس کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب سے عوام کو کوسوں دور رکھاجاتا ہے، ان سے رائے مشورہ طلب کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، ان کی پسند نا پسند کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ وقت رہتے کسی امیدوار  کے نام کااعلان اسی لئے نہیں کیا جاتا کہ کہیںانہیںعوام کی ناراضگی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔اندر ہی اندر کھچڑی پکائی جاتی ہے اور پھر ایک دن  ۱۲۱؍ کروڑ ہندوستانیوںکو بتادیا جاتا ہے کہ یہ ہیں تمہارے نئے صدر، ان کااحترام کرو، ان کی تکریم کرو۔ کیا سیاسی جماعتوں کا یہ عمل جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟کیا یہ ہم عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟ کیا اس پر ہمیں سیاسی جماعتوںسے جواب طلب کرنے کا حق نہیں ہے؟
      دراصل  وطن عزیز میں اس عہدۂ صدارت کو نمائشی عہدہ بناکررکھ دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس اہم اور آئینی عہدے پر کوئی ایسا شخص آ جائے جو انہیں اس بات کا احساس دلانے لگے کہ وہ ۱۲۱؍کروڑ ہندوستانیوں کا نمائندہ ہے، ملک کی افواج کا کمانڈر ہے ، مخصوص حالات میں کسی بھی حکومت کو برخاست کرنےاور کسی نئی حکومت کو حلف دلانے کااختیار رکھتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اس عہدے پر کوئی ایسا شخص ہی بیٹھے جو اُن کے حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کرے، اپوزیشن کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے، جہاں تک ممکن ہو آنکھیں بند رکھے اور ضرورت پڑے تو ان کا دفاع بھی کرے۔
     ہونا تو یہ چاہئے کہ وقت رہتے سیاسی جماعتیں اس عہدے کیلئے  اپنے  اپنےامیدواروں کا اعلان کردیں اور یہ بتائیں بھی ....کہ انہوں نے کن بنیادوںپر یہ فیصلہ کیا ہے، تاکہ عوام میں اس پر بحث ہوسکے اور ملک کو ایک بہتر صدر مل سکے، لیکن .... کیا ہماری سیاسی جماعتیں ایسا کریںگی؟

Saturday, 5 May 2012

President election

صدر جمہوریہ کے انتخاب کا معاملہ
اتفاق رائےکے شوشے کے ساتھ ہی سیاسی
جوڑ توڑ بھی جاری

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے اس مرتبہ عجیب و غریب کوششیں ہورہی ہیں۔ان کوششوں کو سیاسی جماعتوں نے  ’اتفاق رائے‘ کا نام دے رکھا ہے۔بلا شبہ اتفاق رائے کی اپنی اہمیت ہے اور اس میں  برکت بھی ہے ، مگرا س کے لئے اخلاص شرط ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے ہونے والی کوششوں میں اخلاص کم، سیاسی سودے بازی زیادہ نظر آرہی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار کی اہلیت و قابلیت  پر کسی جماعت کا اصرار نہیں ہے بلکہ سبھی کی کوشش یہی ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے پر بیٹھنے والی شخصیت ان کی پسندیدہ ہو، باالفاظ دیگر اُن کی سننے والی ہو...... کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟

قطب الدین شاہد

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کی آوازیں آرہی ہیں۔ عام حالات میں کانگریس جو اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتی، اتفاق رائے کا راگ الاپ رہی ہے، اوراس کیلئے اس نےاپوزیشن کی جماعتوںسے بھی گفتگو کرنے کاعندیہ ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی جسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، صدر کے امیدوار کے طور پر ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی حمایت کااعلان کیا ہے۔ بایاں محاذ جس نے اس سے قبل بطور صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے اس عہدے کیلئے کسی سیاسی شخصیت کی وکالت کی تھی، اس مرتبہ کسی غیر سیاسی شخص کو صدر بنانے کی تحریک چلا رہا ہے۔ ممتا بنرجی،کروناندھی، مایاوتی اور ملائم سنگھ بھی ’اتفاق رائے‘کی بات کررہے ہیں لیکن سیاسی حلقوں سے جس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں، اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ جماعتیں اتفاق رائے کے نام پر سیاسی سودے بازی کررہی ہیں۔ کانگریس کے امیدوار کی حمایت کی قیمت  پر ممتا بنرجی بنگال کےلئے اقتصادی پیکیج لینا چاہتی ہیں تو کرونا ندھی مختلف الزامات میں گھرے اپنے اعزہ کیلئے سیاسی پشت پناہی اور مایاوتی تاج کاریڈور معاملے میںاپنے لئے  راحت کی متمنی ہیں جبکہ ملائم سنگھ کے تعلق سے کہاجارہا ہے کہ وہ نائب صدر کا عہدہ اپنے بھائی کو دینا چاہتےہیں۔مطلب صاف ہے کہ یہ تمام جماعتیں کسی اصول اور کسی پیمانے کی بنیاد پر صدر کا انتخاب نہیں کررہی ہیں بلکہ ان تمام کا واحد اصول یہی ہے کہ اس عہدے پر  براجمان کوئی بھی ہو، فائدہ ان کا  ہونا چاہئے۔
      اب تک اس عہدے کیلئے کئی نام سامنے آچکے ہیں، جس میں حامد انصاری اور پرنب مکھرجی کا نام سرفہرست ہے۔   دراصل کانگریس کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آئندہ  ہونے والے عام انتخابات میں اُسے اتنی نشستیں نہیں مل سکیںگی کہ وہ آسانی سے حکومت سازی کا دعویٰ کرسکے۔ اس صورت  میں صدر کا رول کافی اہم ہوگا۔ وہ قطعی نہیں چاہے گی کہ اس عہدے پرکسی ایسی شخصیت کاانتخاب ہو، جو کانگریس کو ’اہمیت‘ نہ دے... .... یا یہ کہ کانگریس کو ’فوقیت‘ نہ دے۔ یہی خدشہ بی جے پی کو بھی ستارہا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں بلکہ دونوں اتحادوں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا صدر منتخب کرسکیں۔ ان حالات میںبی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ امیدوار  اگر اس کا پسندیدہ نہیں تو کم از کم   اس کا ناپسندیدہ بھی نہ ہو۔ اس کیلئے وہ بادل نخواستہ ہی سہی تیسرے محاذ کے کسی امیدوار کی حمایت پر راضی ہوجائے گی۔   ان حالات میں کانگریس کی کوشش یہی ہے کہ ’کچھ بھی کرکے‘ وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔  اطلاعات کے مطابق پرنب مکھر جی  کے نام پر  بایاں محاذ کے ساتھ ممتا، کرونا ندھی اورمایا وتی بھی تیار ہوسکتی ہیں اور کچھ ’جواز‘ پیدا کرکے ملائم سنگھ بھی حامی بھر سکتے ہیں۔ ملائم سنگھ کے سامنے مسئلہ صرف ایک ہے کہ ان کی جانب سے براہ راست نہ سہی مگر بالراست یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہ اس عہدے پرکسی مسلم کو بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایسی کوئی بات نہیں کہ اس کیلئے وہ کوئی ’جواز‘ نہ پید ا کرسکیں۔ یہ تصویر حالانکہ کچھ دنوں میں واضح ہوجائے گی لیکن سیاسی جماعتوں کی اب تک جو ’کسرت‘ چل رہی ہے، اس سے بہرحال یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے کیلئے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ رہی ہے۔ویسے موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوںسے اس طرح کی کوئی امیدکی بھی نہیں جانی چاہئے۔ یہاں جب ایک سرپنچ کے عہدے کیلئے  سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرگزرنے کی کوشش کرڈالتی ہیں، تو پھر یہ تو وطن عزیز کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔
    دیکھاجائے تو اس عہدے کیلئے کوئی ایسی ہی شخصیت ہونی چاہئے جو سیاسی جماعتوں کے دھونس میں نہ آئے، سب کے ساتھ انصاف کرے اور  ضرورت آن پڑے تو آئین کی حفاظت کرتے ہوئے حکومت کو من مانی کرنے سے روک  سکے۔  یہ عہدہ ابھی تک کسی بھی ایسی شخصیت کا انتظار کررہا ہے۔ بلاشبہ راجندر پرساد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، کے آر نارائنن اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے صدور گزرے ہیں جنہوں نے وقتِ ضرورت اپنی اہلیت ثابت کی ہے لیکن...... یہاں ٹی این سیشن اور جسٹس احمدی جیسا کوئی کردار چاہئے جو عوام و خواص کی اس غلط فہمی کود ور کرسکے کہ یہ عہدہ نمائشی نہیں بلکہ آئینی اور بااختیار ہے۔ ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی این سیشن سے قبل الیکشن کمیشن کے عہدے کو اور جسٹس احمد ی سے قبل چیف جسٹس کی اہمیت کو بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ 
    یہ بات درست ہے کہ بیشتر معاملات میں صدر کابینی فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب صدر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کئی معاملات میں وہ خصوصی اختیار رکھتا ہے اور اس کے اطلاق کیلئے وہ وزیراعظم یا اس کی کابینہ کے مشورے کا محتاج نہیںہوتا۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس عہدے کو کوئی ایسا شخص رونق بخشے جو اِن اختیارات  کے مناسب استعمال  سے واقف ہو۔
     اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر عبدالکلام ایک موزوں امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت پوری دنیا کے سامنے ہے، ان کی سوچ ، فکر اور ان کی سادگی کی دنیا قائل ہے۔ وہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار دیئے جاسکتے ہیں  اور اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ گزشتہ میقات میں انہوں نے اسے ثابت بھی کیا تھا۔  ہم سب کو یاد ہے کہ ملائم سنگھ کی سفارش پر بی جے پی نے انہیں نامزد کیا تھا اور اس کے بدلے بھیروں سنگھ شیخاوت کو نائب صدر کی کرسی دلائی تھی، لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے بی جے پی کو خاطر میں نہیں لایا۔ ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۲ء کوجب ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا، گجرات میں خونیں فساد جاری تھا ، جو۵؍ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔  ڈاکٹر عبدالکلام نے اس موضوع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ یہ وزیراعظم کااختیار ہے کہ وہ جوائنٹ  سیشن بلائے یا نہ بلائے، لہٰذا واجپئی نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد صدر نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے گجرات دورے کا اعلان کردیا۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ۱۲؍ اگست ۲۰۰۲ء کے اس دورے کے بعد ہی گجرات میں فساد پر ’قابو‘ پایا گیا تھا۔ اس دورےسے بی جے پی  نے کافی پیچ و تاب کھایا تھا لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتی تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی وہ کلام کو صدر بنانا چاہتی ہے تو صرف اسلئے کہ اس عہدے پر کوئی کانگریس حامی شخص نہ متمکن ہو جائے ۔
    ضروری نہیں کہ اس عہدے پر کوئی مسلم ہی فائز ہو جیسا کہ سماجوادی پارٹی نے اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے جاتی ہیں لیکن کم از کم ملائم سنگھ کو تو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ کھلونوںسے مسلمانوں کو بہلایا نہیں جاسکتا ۔ مسلم رائے دہندگان اب کافی باشعور ہوگئے ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر ، نائب صدر اور اسپیکر جیسے عہدوں سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے بلکہ انہیں عزت کی دو روٹی کیلئے مناسب ملازمتیں چاہئیں۔ ان حالات پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے کہ وطن عزیز میں کسی مسلم کو صدر بنانا آسان ہے لیکن کسی مسلم کو چپراسی کی ملازمت دلانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں کم از کم اس طرح مسلمانوں کااستحصال نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ سماجوادی پارٹی اگر واقعی مسلمانوں کا بھلاچاہتی ہے تواسے چاہئے کہ صدر کے عہدے پرکسی بھی  مناسب مسلم یا غیرمسلم  امیدوار کی حمایت کردے اور اس کے بدلے میں یوپی اے حکومت سے مسلمانوں کیلئے کوئی پیکیج طلب کرلے ، جس طرح ممتا بنرجی بنگال کیلئے کوشاں ہیں۔
    یہ بات اس لئے بھی کہی جارہی ہے کہ موجودہ الیکٹورل کالج کے لحاظ سے سماجوادی پارٹی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ صدر کے انتخاب میں جسے چاہے کامیاب کروادے۔ کانگریس اور بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ اسی کے پاس ہیں۔فی الحال اس کے پاس دونوں ایوانوں میں ۳۰؍اراکین پارلیمان اور ۲۲۴؍ اراکین اسمبلی ہیں۔  اس طرح اس کے پاس۲۳؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار ۲۳۵؍ ووٹوں میں ایک لاکھ ۵۷؍ ہزار ۱۷۰؍ یعنی ۶ء۵۶؍فیصد ووٹ ہیں۔اب دیکھنا  ہے کہ ملائم سنگھ کس طرح اس موقع  سےمسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟

الیکٹورل کالج کیا ہے؟
    صدر کے انتخاب کیلئے دونوں ایوانوں کے اراکین پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے منتخب نمائندے ووٹ دیتے ہیں۔ ان کےووٹوں کی قیمت مختلف ہے، جیسے اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت جہاں ۴۹۵؍ ہے وہیںسکم اور اروناچل پردیش کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت بالترتیب ۱۹؍ اور ۲۳؍ ہے۔ ان کے ووٹوں کی قیمت کا تعین ریاست کی آبادی سے کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی ریاست کی مجموعی آبادی  کو اراکین اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیاجاتا ہے اور پھر اسے ایک ہزا ر سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح تمام ریاستوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد کو اراکین پارلیمان کی تعداد سے تقسیم کرکے ان کے ووٹوں کا تعین کیا جاتا ہے۔  اس وقت ایک ایم پی کے ووٹ کی قیمت ۱۵۴۳؍ ہے۔  دیگرریاستوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت کچھ اس طرح ہے۔ بہار (۴۲۷)،مہاراشٹر (۳۹۰)، راجستھان (۳۴۳)، گجرات (۳۳۲)، مدھیہ پردیش (۳۱۶)، مغربی بنگال (۳۱۱)، تمل ناڈو (۳۰۸)، آندھرا پردیش (۲۸۸)، اڑیسہ (۲۸۵)، چھتیس گڑھ (۲۸۴)، ہریانہ (۲۸۲) اور کرناٹک (۲۷۳)... وغیرہ     (بشکریہ : وکی پیڈیا
)