Monday, 20 May 2013

Nawaz shareef: Nayee subah, nayee ummeeden

نواز شریف کی کامیابی:اک نئی صبح کی دستک
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان  ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں پاکستانی قومی اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے،وہ غیر متوقع نہیں ہیں۔امید یہی تھی کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی البتہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ زرداری اینڈ کمپنی کا انجام اتنا براہوگا۔ ۲۷۲؍رکنی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ۱۲۴؍ نشستیں تنہا حاصل کرلیں جبکہ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اورعمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بالترتیب ۳۱؍ اور ۲۷؍ سیٹیں ہی ملیں۔۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی نے ۷۱؍ اور پاکستان  پیپلز پارٹی نے ۹۴؍سیٹیں حاصل کی تھیں۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس سے یہ اندازہ تو تھا ہی کہ زرداری حکومت کو  بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنا  پڑے گا۔
    اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ پڑوسیوں بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی سمت مثبت قدم بھی اٹھائیںگے۔ نتائج ظاہر ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
    پاکستا ن میں اقتدار کے تین مراکز ہیں، فوج، عدلیہ اورسیاست۔  اقتدار کی تبدیلی میں خفیہ ایجنسیاں بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہیں لیکن عام طو ر پر انہیںفوج کا  وفادارہی سمجھا جاتا ہے۔   نواز شریف کے مراسم ان تینوں مراکز سے کافی اچھے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب وہ فوج کے منظور نظر ہوا کرتے تھے، اسی وقت وہ خفیہ ایجنسیوں  سے بھی رابطے میں آئے۔ اِکا دُکا معاملات کوچھوڑ دیا جائے جن میں ان کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہوا، ورنہ عدلیہ سے بھی ان کے رشتے اچھے ہی رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھے وکیل ہیں، قانون جانتے ہیں لہٰذ عدالتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے ۳۷؍ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے بے پناہ  عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔  وزیراعظم بننے سے قبل وہ پنجاب کے۲؍ بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر انہیں ’شیرِ پنجاب‘ کہاجاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے  ۔ یہ مدت تین سال تک رہی ۔ ۱۹۹۶ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور دوتہائی اکثریت سے  نوازا ۔  اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں حلف برادری کے موقع  پر ۱۳؍ گھنٹے قبل ہی وہ میدان  بھر چکا تھا جہاں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ عزم کے پکے  اور مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔جو سوچتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران کے وقت ایسے ہی کسی  قائد کی ضرورت تھی۔
    پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب اقتدار کی منتقلی کو نئی صبح کیوں کہا جائے؟  اس سوال کا جواب جاننے سے قبل نواز شریف کی زندگی بالخصوص ان کے سیاسی کریئر کا سرسری مطالعہ کرناہوگا۔  یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بطور شوق یا کریئر بنانے کیلئے انہوں نے سیاست کا رخ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت آئے تھے اور اسے انہوں نے حاصل بھی کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ قومیائی گئی اپنی کمپنیوں کو سرکاری تسلط سے آزاد کرانا ۔
    نواز شریف کا تعلق ایک دولت مند گھرانے سے ہے، جس کا شمار موجودہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ملک تقسیم ہوا تو ان کے والد
 محمدشریف امرتسر سے لاہور ہجرت کرگئے جہاں ۱۹۴۹ء میں نواز شریف کی پیدائش ہوئی۔ان کا خاندان ’اتفاق گروپ‘ کا مالک ہے جس کے پاس بے شمار کمپنیاں ہیں، جن میں سے بیشتر اسٹیل کی ہیں۔  ۷۶۔۱۹۷۵ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب کمپنیوں کوقومیانے کا عمل شروع کیا تو ان کی کئی کمپنیاںبھی سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے نواز شریف  سیاست کا رخ کیا۔ اس وقت ان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہی تھا کہ حکومت  کی دستر س سے کس طرح اپنی کمپنیوں کو  آزاد کرایا جائے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل  غلام جیلانی خان گورنر منتخب ہوکر آئے تھے۔  جیلانی خان کوایک نوجوان تیز طرار شہری لیڈر چاہئے تھا جو انہیں نواز شریف کی صورت میں نظر آیا۔ جیلانی خان نے  فوری طور پر انہیں پنجاب کا وزیرمالیات مقرر کردیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ اس کے ایک سال بعد نواز شریف پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بنادیئے گئے، جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ اس طرح انہیں جنرل ضیاء کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اس قربت نے اتنا رنگ دکھایا کہ نہ صرف انہوں نے اپنی کمپنیاں آزاد کروالیں بلکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست بھی بن گئے۔ ضیاء الحق کے ساتھ ہی نواز شریف  اُس وقت کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی  کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے بھی بہت قریب رہے۔ 
    جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہوںنے قومی اسمبلی سمیت تمام ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب صرف اور صرف پنجاب میں نواز کی حکومت باقی رکھی تھی اور اسے مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ بیرون ملک سے بھی نواز شریف کے مراسم کافی اچھے ہیں ۔ ان کی اسٹیل کمپنیوں کا کاروبار سعودی عرب کے ساتھ  دیگر خلیجی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف سے جب ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے تو سعودی عرب کی مداخلت ہی سے نواز شریف کی جاں بخشی  ہوئی تھی ۔
    نواز شریف سے پاکستان کے ساتھ  ہی ساتھ پوری دنیا بالخصوص ہندوستان کو بہت توقعات ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے بلکہ معاشی سطح پر بھی پاکستان کوخوشحال بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اسی طرح  خارجہ پالیسی میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل وہ نواز شریف کا ہی دورِ حکومت تھا جب ۱۹۹۹ ء میں ہندوستان سے وہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا  جسے ’’لاہور اعلانیہ ‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دوران نئی دہلی سے لاہور کی بس سروس بھی شروع ہوئی تھی جس کے افتتاحی سفر میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہوتی اگر کارگل کا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا اور فوج کے ذریعہ نواز شریف کا تختہ نہ پلٹ دیاگیا ہوتا۔ بہرحال اب جب کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ  اس مرتبہ  نہ  صرف یہ کہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گےبلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیارکریں گے۔

Saturday, 4 May 2013

UPA hukumat na ahal ya khud sar?

یوپی اے حکومت نااہل یاخود سر؟

ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے نام ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ مثبت نہ سہی منفی ہی سہی، لیکن اس کے ذریعہ تاریخ میں بہرحال منموہن سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کام کاج کے اعتبار سے یہ سب سے نااہل حکومت ثابت ہوئی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ۹؍ برسوں میں موجودہ حکومت نے اوسطاً سالانہ  صرف ۳۲۱؍ گھنٹے کام کئے جبکہ پہلی لوک سبھا میں کام کرنے کا اوسط سالانہ  ۷۵۷؍ گھنٹے تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومت  واقعی نااہل ہے یا خود سری نے اس کا دماغ خراب رکھا ہے؟

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ موجودہ یوپی اے سرکار نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں سب سے کم کام کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔کم از کم تاریخ میں خود کے یاد رکھے جانے کا منموہن سنگھ حکومت نے ایک معقول انتظام توکر ہی لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی کبھی سب سے زیادہ گھوٹالے اور سب سے کم کام کرنے والی حکومت کی بات آئے گی، تو یوپی اے کا نام آسانی سے لیا جاسکے گا۔یوپی اے حکومت کا پہلا دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن دوسرا دور تو نہایت ہی افسوس ناک رہا جس میں کئی اجلاس ایسے گزرے جب کچھ بھی کام نہیں ہوا۔بلاشبہ اس کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن حزب اختلاف کے اس رویے کیلئے بھی بہرحال حزب اقتدار ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔
    اجلاس کا نہ چلنا،ایوان میں ہنگامہ آرائیوں کا بازار گرم ہونا، کارروائیوں میں بار بار خلل پڑنا،  پارلیمنٹ کا مچھلی بازار میں تبدیل ہونا اور پھر کاروبار سمیٹ کر دوسرے دن تک کیلئے  اجلاس کا معطل کیا جانا.... اور سب سے اہم یہ کہ اجلاس کا طلب ہی نہ کیا جانا......  یہ موجودہ حکومت کی  روایت اورایک شناخت رہی ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی نااہلی  ہے یا اس کی خود سری کی علامت؟ سرسری مطالعے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی خودسری ہے، وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو ضروری ہی نہیں سمجھتی۔  دراصل کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت مشورے میں یقین نہیں رکھتی، کسی مسئلے پر وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی.... حریف جماعتوں کی بات جانے دیں، وہ حلیف جماعتوںکو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح عوام کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہوتی ہے...... حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور یہ حقیقت سے زیادہ قریب لگتا ہے ۔دراصل حکومت کی خود سری نے   اسے ناہل بنا رکھا ہے اور اس کی اہم وجہ عوام کی خاموشی ہے۔اسے یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ عوام کی خاموشی نے حکومت کو خود سر بنا دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئی ہے۔
    دو ہفتے بعد یعنی۲۲؍مئی کویوپی اے دوم اپنی مدت کے۴؍ سال پورے کرلے گی۔اس پوری مدت میں حکومت نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔جمہوریت کے لبادے میں وہ ہر کام غیر جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا رویہ اچھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر حزب اقتدار نااہل، نکما اور خود سر ہے تو حزب اختلاف بھی کمزور، غیرذمہ دار اور موقع پرست ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ملک کے خزانے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی  بیشتر جماعتوں کو ملک  سے زیادہ  اپنی پارٹی کے مفاد کی فکر لاحق رہتی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیںاوراس کیلئے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھتی ہیں۔ مختلف گھوٹالوں کے موضوع پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایوان کی کارروائیوں کوروک کر سرکار کو’ پریشان‘ کرنے کا ڈھونگ کرتی ہیں اوراس طرح عوام کے روبرو خود کو ’ذمہ دار‘ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ باور کراکر کہ اپوزیشن کی ذمہ داری صرف ہنگامہ آرائی ہے، وہ خود کو بیوقوف ثابت کرتی ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوںسے عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور طشت میں سجا کر اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیںگے؟  اہم  اپوزیشن بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں  شاید اسی خوش فہمی  میں مبتلا ہیں لیکن سماجوادی اور آر جے ڈی جیسی جماعتیں بھی،جو اُٹھتے بیٹھتے کانگریس کے قصیدے پڑھتی ہیں، اسی خوش فہمی کی شکار ہیں۔ وہ بھی ’عوام کی حمایت‘ میں ایوان اور ایوان کے باہر کانگریس کی  پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب بات اُن پالیسیوں کے نفاذ کی آتی ہےتو یہ جماعتیں ڈرامائی انداز میں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔
    مطلب واضح ہے کہ اگرحکومت نااہل اور خود سر ہے تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے ۴؍ برسوں کے دوران ایوان کے۱۲؍ سیشن میں صرف  ۱۱۵۷؍ گھنٹے میں کام ہوا۔  اسی طرح گزشتہ لوک سبھا کے ۵؍ برسوں کے دوران بھی ایوان میں صرف۱۷۳۷؍ گھنٹے ہی کام ہوسکا تھا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ یو پی اے حکومت کے گزشتہ ۹؍برسوں کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں سب سے کم کام ہوا یعنی سالانہ صرف ۳۲۱؍ گھنٹے ۔ اس سےبہترتو واجپئی کا دور حکومت تھا جب ۵؍ سال میں ایوان نے۱۹۴۶؍ گھنٹے یعنی۳۸۹؍گھنٹے فی سال کام کیاتھا۔ یہ ۲۲؍ جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت تھی۔ پہلی لوک سبھا نے ۵؍ سال میں۳۷۸۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً ۷۵۷؍ گھنٹے سالانہ کام کیا تھا۔۹؍ویں، ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا جو  ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مستحکم سرکاریں تھیں، کام   کے  لحاظ سے منموہن حکومت سے زیادہ  ذمہ دار ثابت ہوئیں۔ ۹؍ ویں لوک سبھا میں جس میںوی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومتیں تھیں، ۱۶؍ مہینے میں ۷۵۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً سالانہ ۵۶۶؍ گھنٹے کام ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا  جو بالترتیب ۱۹؍ اور ۱۳؍ ماہ چلی تھی،اندر کمار گجرال، دیوے گوڑا اور واجپئی نے اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ ان دونوں لوک سبھا کی مدت میں باالترتیب ۸۱۴؍ اور ۵۷۵؍ گھنٹے یعنی اوسطاً   ۵۱۴؍ اور۵۳۰؍ گھنٹے سالانہ کام کاج ہوا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ مستحکم حکومت سے زیادہ بہتر وہ غیرمستحکم حکومتیں ہی تھیں جن کے دور میں پارلیمنٹ میں نسبتاًسنجیدگی زیادہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار پارلیمنٹ میں اجلاس کے انعقاد کے ہیں، کام کرنے کی نہیں۔ موجودہ حکومت کے ۹؍ برسوں میں  ۲۸۹۴؍ گھنٹوں تک اجلاس  چلا، لیکن ان میں سے کتنے گھنٹے ہنگاموں کے نذر ہوئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ رواں بجٹ اجلاس گزشتہ ۹؍ دنوںسے جاری ہے جس میں ابھی تک ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ٹھیک طرح سے چل نہیں سکی ہے ۔درمیان میں ایک دن اپوزیشن کی ’رضامندی‘ سے ان کے واک آؤٹ کے درمیان بحث کے بغیر حکومت نے چند مالیاتی بل ضرور منظور کرالئے تھے۔
    افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمان اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک آزاد ہونے کے ۶۵؍ سال بعد بھی بالغ نظری کا ثبوت پیش نہیں کرپارہی ہیں۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق پارلیمانی  امور کی کارروائی پر فی گھنٹے تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ معمول کے اخراجات ہیں، ان میں کرسیاں اور مائک توڑنے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
      اس کی وجوہات کیا ہیں؟آخر حکومت اجلاس کا انعقاد کیوں نہیں کرتی؟کیا  وہ اپوزیشن کےہنگاموں سے خوفزدہ ہے یا وہ ان اجلاس کو اہمیت ہی نہیںدینا چاہتی؟   اس کا جواب ہمیں حکومت سے نہیں بلکہ خود سے پوچھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری نمائندہ جماعتیں ہیں۔   اگر ہم اسے غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
n

Saturday, 20 April 2013

Nitish and Modi ka Drama

جنتادل متحدہ اور بی جے پی کی لفظی جنگ
حقیقت کم شعبدہ بازی زیادہ

ان دنوں جنتادل متحدہ اور بی جے پی میں ہائی پروفائل ڈراما جاری ہے۔ مکالمہ بازی زوروں پر ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کرانے پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے خیالات و نظریات سے سمجھوتہ کرنے والی نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کااتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے۔ یہ ڈراماہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
 
قطب الدین شاہد

آئندہ لوک سبھا انتخابات کی آمد میں ابھی ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اس کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے اپنے طورپر تمام قومی و علاقائی جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ کانگریس، بی جے پی، سماجوادی، بی ایس پی، ترنمول، سی پی ایم، سی پی آئی، ڈی ایم کے، اے آئی اے ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس اور جے ڈی یو..... سبھی انتخابی دُھنوں پر رقص میں مصروف ہیں۔ کہیں شدت تھوڑی کم ہے تو کہیں تھوڑی زیادہ۔ ان تمام کےدرمیان عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں جنتادل متحدہ دیگر جماعتوں کےمقابلے زیادہ کامیاب ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر اس نے ایک ہائی پروفائل ڈراما اسٹیج کیا ہے۔ اس میں عوام کی دلچسپی کے بہت سارے لوازمات ہیں۔ مضبوط پلاٹ، دلچسپ کردار اور برجستہ مکالموں کے ساتھ اس ڈرامے میںتجسس بھی ہے کہ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کایہ اتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے، لیکن جو لوگ ان کے ڈراموں کو دیکھتے رہے ہیں اور ان کی سوچ سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا یہ ڈراما ہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔  ان حقائق کے باوجود اگر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا سبب خیالات و نظریات کا تضاد نہیں ہوگا بلکہ اقتدار تک پہنچنے کی کوئی دوسری حکمت عملی ہوگی۔
    دراصل ۲۰۱۰ء میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں یہ فارمولہ بہت کامیاب رہا تھا۔ اس ڈرامے نے عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ جے ڈی یو کے ساتھ بی جے پی کی نشستوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ نتیش کمار اور نریندر مودی ایک بار پھر اسی کامیابی کو دُہرانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ابھی تک عوام کے حافظے میں ہے کہ بہار میں اسمبلی الیکشن کے دوران  انتخابی مہم میں مودی کی شرکت کو بنیاد بناکر ان دونوں(اتحادی) جماعتوں نے کتنی بیان بازیاں کی تھیں اور پھر انتخاب جیتنے  کے بعد کیا ہوا، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
    اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا؟اس پر گفتگو سے قبل آئیے صورتحال دیکھنےکوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی دراصل اس مرتبہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کیلئے وہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میںیہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جنتادل متحدہ کا ساتھ چھوڑنے کی حماقت نہیں کرے گی، کیونکہ اس صورت میں وہ نہ صرف ایک مضبوط اتحادی گنوادے گی، بلکہ بہار میں اس کیلئے موجودہ نشستوں پر دوبارہ فتح  حاصل کرنا بھی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں نے بہار کی ۴۰؍ سیٹوں پر مل کر انتخاب لڑا تھا، جس میں جے ڈی یو نے ۲۰؍ اور بی جے پی نے ۱۲؍ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں ۲۴۳؍  رکنی ایوان میں جے ڈی یو نے ۱۱۵؍ اور بی جے پی نے ۹۱؍ سیٹیں حاصل کی تھیں۔    جے ڈی یو نے ۱۴۱؍ اور بی جے پی نے ۱۰۲؍ نشستوں پرقسمت آزمائی کی تھی جس میںدونوں نے مجموعی طور پر ۳۹؍فیصد ووٹ حاصل کئےتھے۔ ظاہر ہے کہ اگر بی جے پی تنہا  انتخاب میں اُترنے کی کوشش کرے گی تو اس کیلئے ووٹوں کے اس تناسب تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے بمشکل ۱۵؍ سے ۲۰؍فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں اسے کتنی نشستیں ملیںگی،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے ۲۷ء۳۱؍ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، اس کے باوجود اسے صرف۲۲؍ نشستوں پر سمٹ جاناپڑا تھا  جبکہ لوک سبھا میں اسے ۴؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔
     ان حقائق کے باوجود اگر بی جے پی کے تیور قدرے جارحانہ  ہیں تو اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ وہ دراصل اس مرتبہ سخت ہندوتوا  کے تیور کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے بجائے  بی جے پی کو توانا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مودی کو اگر آگے بڑھایا گیا تو اس کے بنیادی رائے دہندگان اس کے ساتھ آئیںگے اور اس  طرح اس کی مجموعی نشستوںمیں اضافہ ہوگا، لیکن وہ مودی کے نام کااعلان اس لئے نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی ذاتی نشستوں کی تعداد اتنی کبھی نہیں ہوگی کہ وہ تنہاحکومت ساز ی کرسکے،  اں لئے  انتخابات کے بعد اسے این ڈی اے کو ’متحد‘ کرنے کی جوڑ توڑ بہرحال شروع کرنی ہوگی۔  بی جے پی کی کوشش ہے کہ مودی کو آگے بڑھاکر سخت ہندوتوا میں یقین رکھنےوالوں کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں اور پھر الیکشن بعد سشما سوراج، اڈوانی، راج ناتھ سنگھ،  یشونت سنہا یا پھر اور کسی نام کو آگے بڑھا کر ناراض این ڈی اے کے اراکین کو ’متحد‘کرلیا جائےگا۔ ہندوستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
    حالات بتارہے ہیں کہ بی جے پی  اپنے طور پر جے ڈی یو سے تعلق ختم نہیں کرے گی لیکن..... اگر جے ڈی یو نے بی جے پی  سے مودی  سے متعلق زیادہ وضاحت پر اصرار کیاتو بی جے پی اس تعلق کو ختم بھی کرسکتی ہے۔   بی جے پی کو اگر محسوس ہوا کہ مودی کو آگے بڑھاکر الیکشن لڑنے میں اسے پورے ملک میں ۲۵؍ سے ۳۰؍ سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ بہارمیں ۴؍ سے ۶؍ سیٹوں کانقصان گوارا کرلے گی،کیونکہ اسے پتہ ہے کہ الیکشن بعد ضرورت محسوس ہوئی تو    جنتادل یو کو این ڈی اے کے بینر تلے لانا کچھ مشکل کام نہیں ہوگا۔
    رہی بات جے ڈی یو کی، تو اس کیلئے بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ تنہاالیکشن لڑنے میںاس کابھی نقصان ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ  جے ڈی یو کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کرکے لوک سبھا الیکشن میں اُترے۔ دراصل یہاں کانگریس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے۔ یعنی  وہ بھی کچھ بھی کرکے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہونا چاہتی ہے۔ اس کی ۲؍وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اقتدار کااپنا مزہ ہے، دوسرے یہ کہ  اگراس مرتبہ شکست کا سامنا ہوا تو راہل گاندھی کا کریئر تباہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں کانگریس بہت کم سیٹیں پاکر بھی  بہار میں جے ڈی یو سے انتخابی مفاہمت کرسکتی ہے۔ اس کی وہاں پارلیمنٹ کی ۲؍ سیٹیں ہیں۔ جے ڈی یو سے انتخابی تال میل کی صورت میں اتنا تو طے ہے کہ اسے نقصان نہیں ہوگا۔ ایسے میں اسے آر جے ڈی سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور کانگریس کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنا فائدہ ہو تو، کسی کی اعتماد شکنی اس کیلئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔
     آثار بتار ہے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے امیدوار کے طورپربی جے پی کسی  کے نام کا باضابطہ اعلان نہیں کرے گی لیکن اپنے رائے دہندگان کو یہ پیغام ضرور دے گی کہ الیکشن بعدمودی ہی اس کے میرکارواں ہوںگے۔ ایسے میں گیند جے ڈی یو کے پالے میں آجاتی ہے کہ وہ کیاقدم اُٹھاتی ہے۔ اس کے سامنے  ۲؍ صورتیں ہوں گی۔ اول یہ کہ کانگریس سے اگر انتخابی مفاہمت ہوجاتی ہے تو وہ بی جے پی سے مودی کے نام پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ناطہ توڑ لینے کااعلان کرے گی۔ دوم یہ کہ اگر کانگریس سے اپنی شرطوں پر سمجھوتہ نہیں ہوا تو بی جے پی کے ساتھ مکالمہ بازی جاری رہے گی اور دونوں ایک دوسرے کے اتحادی بنے رہیں گے۔  تو کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے تھوڑا اور توقف کیجئے اور تب تک اس دلچسپ ڈرامے سے لطف  اندوز ہوئیے۔

Saturday, 6 April 2013

Third front ki dastak se Qaumi partiyon ki neend haram

تیسرے محاذ کی دستک سے قومی پارٹیوں کی نیند حرام
بلاشبہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوںملائم سنگھ یادونےایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تیسرے محاذ کا ذکر کیا چھیڑدیا، بی جے پی اور کانگریس  جیسے حواس باختہ ہوگئیں اور لٹھ لے کر ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اس سے ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آئی کہ بی جے پی کو کانگریس سے یا کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ خطرہ نہیں ہے بلکہ سرے سے خطرہ ہی نہیں ہے.... البتہ ان دونوں کو تیسرے محاذ سے ضرور خطرہ ہے۔یہ دونوںجماعتیں نہیں چاہتیں کہ ان کے متبادل کے طور پر کوئی تیسری طاقت اُبھرسکے۔
     ملک میں کسی تیسرے محاذکی کتنی ضرورت ہے اور اس  کے کیا امکانات ہیں؟ اس کاجائزہ لیا جائے تویہ بات بڑی آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس وقت ملک کو کانگریس اور بی جے پی   کے  ایک مضبوط متبادل کی واقعی سخت ضرورت ہے اور موجودہ صورتحال اس کیلئے نہایت موزوں اور سازگار ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے ملک کے عوام نالاں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں میں جہاں عوام کے سامنے کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کوئی اورمتبادل  ہے، انہیں اقتدار میں آنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے۔  دراصل یہ دونوں جماعتیں عوام کے مفاد پر سرمایہ داروں کے مفاد کو ترجیح دیتی ہیں اور اقتدار ملتا ہے تو آمریت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے اور ایف ڈی آئی کا راستہ ہموار کرنے کے معاملے میں کانگریس  اور گجرات میں لوک آیکت سے متعلق بل کی منظوری کے وقت بی جے پی کی آمریت ہم دیکھ چکے ہیں۔ رہی بات سیکولرازم کی تو یہ محض دکھاوا ہے۔ کانگریس کا اس سے قربت کا اور بی جے پی کا اس سے فاصلےکا اظہار کرنا، ان کی مجبوری ہے، ورنہ دیکھاجائے تو دونوں کے طور طریقوں میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ بی جے پی نے رام مندر کی تحریک چلائی، کانگریس نے اس کا شیلا نیاس کروایا۔ بی جے پی نے بابری مسجد کے انہدام کی بات کی اور کانگریس کے دور اقتدار میں مسجد شہید کی گئی۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میںگجرات میں فساد ہوا تو کانگریس کے دوراقتدار میں ممبئی، بھیونڈی، میرٹھ، ملیانہ اور بھاگل پور جیسے سیکڑوں فساد ہوئے۔ بی جے پی نے اگر فساد کے مجرمین کی پشت پناہی کی تو کانگریس حکومت  میں بھی کبھی کسی فسادی کو سزا پاتے نہیں دیکھا گیا۔
       ان حالات میں عوام کا کسی تیسرے متبادل کی جانب دیکھنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ وہ خواہ ۱۹۷۷ء کی بات ہو، یا  ۱۹۸۹ء کی یا پھر۱۹۹۶ء کی۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔ قومی جماعتوںکے اس خوف سے تیسرے محاذ کی اہمیت و ضرورت اورعوام میںاس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئےمستحکم حکومتوں کی وکالت کرتا ر ہا ہے۔ اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رُکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
    معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ مستحکم حکومت یک جماعتی حکومت ہی دے سکتی ہے یعنی بی جے پی یا کانگریس۔ یہ تو یوپی اے اور این ڈی اے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ا ن کے نزدیک اس طرح کی حکومتیں’مجبور‘ ہوتی ہیں جن کاا نحصارچھوٹی چھوٹی جماعتوں پر ہوتا ہے۔
    ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑ دیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے...  مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
     یہی وجہ ہے کہ جب بھی تیسرے محاذ کی تشکیل کی بات ہوتی ہے یا انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو خاطر خواہ سیٹیں نہیں مل پاتیں  تو یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔ تیسرے محاذکی حکومت کی بات جانے دیں، یہ تو حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کو بھی ملک کی ترقی میں رُکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیں ہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں..... لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے اوروہ من  مانی کرنے لگتی ہیں۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے؟ پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے بے اطمینانی محسوس  ہوگی تو  نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہی دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدےاور ایف ڈی آئی کی منظوری کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی واحد جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ۸۴ء کے بعد سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی واحد جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئی تھیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی تھی۔ اس کے بعد بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ تو مجموعی پولنگ کا فیصد ہے، ویسے دیکھا جائے تو ان دونوں جماعتوں کو۱۲۰؍کروڑ کی آبادی والے ملک میں ۱۹؍کروڑ ۷۵؍ لاکھ  یعنی صرف ۱۵؍ فیصد عوام کی ہی حمایت حاصل ہے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔  ایسے میں اگر کوئی تیسرا محاذ بنتا ہے، تو یقینی طور پر اسے خاطرخواہ عوامی حمایت حاصل ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ تیسرے محاذ کی تشکیل میں علاقائی جماعتیں سنجیدہ ہوں اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔

Saturday, 9 March 2013

One year of Akhilesh Government

اکھلیش حکومت کیلئے یہ جشن کا نہیں احتساب کا موقع ہے

 اترپردیش کے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکے راجہ بھیا کو جیل سے نکال کر جیل منتری بنانا اکھلیش حکومت کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا خمیازہ تو ریاستی حکومت کو بھگتنا  ہی تھا اور وہ بھگت بھی رہی ہے، تاہم اب بھی وقت ہے۔ حکومت چاہے تو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرکے اپنی غلطیوں کاازالہ کرسکتی ہے اور اس طرح عوام کا اعتماد بحال کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کی صرف اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہے۔ ۵؍ دن بعد حکومت کا ایک سال پورا ہوگا حکومت چاہے تو اس  نکتے پر غور کرسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ اکھلیش  حکومت کیلئے   یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے۔

قطب الدین شاہد

اُتَّرپردیش کی سماجوادی حکومت نےاپنے اقتدار کے۳۶۰؍ دن پورے کرلئے۔ گزشتہ سال ۱۵؍ مارچ کواکھلیش یادو نے اپنے چند کابینی رفقاء کے ساتھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اُس وقت جب اکھلیش کے نام کااعلان ہوا تھا،اترپردیش کے عوام بالخصوص مسلمانوں میں ایک عجیب سا جوش و خروش تھا۔ ایسی امید تھی کہ چھوٹے یادو  ایک انقلاب لائیںگےاور ان تمام غلطیوں سےسماجوادی  حکومت کو پاک کرنے کی کوشش کریںگے، جو اخیر اخیر میںاُن کے والد سے منسوب ہوگئی تھیں.... لیکن افسوس کہ ایک سال پورا ہونے کے بعد جب اس کا جائزہ لیا جاتا ہے تو کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔کم از کم غنڈہ راج  والی صورتحال آج بھی وہی ہے۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ۳۰؍ سے زائد چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات اور ڈی ایس پی ضیاء الحق کا بہیمانہ قتل اس بات کے ثبوت ہیں کہ غیر سماجی عناصر پر ان کا کنٹرول نہیں ہوپایا ہے۔
      ان حالات میں سماجوادی حکومت کیلئے یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے بالخصوص  ایسے میں جبکہ آئندہ سال پارلیمانی الیکشن ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادوبھلے ہی اپنے صاحبزادے اور اپنی پارٹی کی حکومت کو ۱۰۰؍ میں سے ۱۰۰؍ نمبر دینے کی بات کریں،اکھلیش یادو اور اعظم خان بھی میڈیا کے روبرو اپنی کارکردگی کے اطمینان بخش ہونے کا دعویٰ کریں لیکن یہ بات کسی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ کسی اور سے کیا،خود وہ بھی تو مطمئن نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جہاں ملائم سنگھ ریاستی حکومت کے وزراء کو متنبہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے، وہیں اکھلیش اور اعظم خان بھی وقتاً فوقتاً مایوسی کااظہار کرتے رہے ہیں۔
    ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کے بعد اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے اعظم خان نے جس کرب کا اظہار کیا تھا، وہ ظاہر کررہا تھا کہ کچھ تو ہے جہاں وہ مجبور و بے بس نظر آتے ہیں۔ آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسروں پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ’’ پولیس کا اقبال کیسے بلند ہو، اس کے بارے میں اعلیٰ پولیس افسروں کو سوچنا ہوگا۔ ایک عجیب غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ منتری تو آتے جاتے رہتے ہیں، ہمیں رہنا ہے۔ ۲۱ ؍برس بعد کوئی پہلا مسلم پی سی ایس ہوا تھا، اسے بھی ختم کردیا گیا۔‘‘یہ صرف اعظم خان کے دل کی آواز نہیں ہے، بلکہ اترپردیش کے ۲؍ کروڑ مسلمان بھی کچھ اسی طرح سوچتے ہیں۔
    اس سے قبل کہ اکھلیش حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، آئیے دیکھتے ہیں کہ سابقہ سماجوادی حکومت کی طاقت کیا رہی ہے اور اس کی غلطیاں اور کمزوریاں کیا رہی ہیں؟ اکھلیش نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ اُس کی طاقت میں اضافہ ہوا کہ نہیں اور اُن غلطیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے میں وہ کس حد تک کامیاب یا ناکام ہیں؟
    ملائم سنگھ ۳؍مرتبہ یوپی کے اقتدار پر قبضہ جما چکے ہیں۔ انہیں مرکز میں بھی آنے کا موقع ملااور دفاع جیسی باوقار وزارت ان کی ماتحتی میں رہی لیکن ان کو جو مقبولیت اور عزت و شہرت ملی، وہ یوپی اوران کی وزارت اعلیٰ کی وجہ سے ملی۔ ملائم سنگھ کو یہ مرتبہ ان کے سوشلسٹ نظریات، لوہیا وادی افکارو خیالات،ان کی جدوجہد، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی کامیاب نمائندگی اور صاف گوئی کی وجہ سے ملا، لیکن یہ بات شاید انہیں راس نہیں آئی۔ لالچ بری بلا ہوتی ہے، پوری کی چکر میں آدھی بھی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ پوپی کو چھوڑ کر پورے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے کا خواب دیکھنے لگے، جس کے نتیجے میں انہیں اپنے سیاسی نظریات اور افکار وخیالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ مشیروں کے غلط مشوروں سے  فائدہ پہنچنا تو دور کی بات، وہ اپنی سابقہ طاقت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک جانب جہاں ان کے قریبی ساتھی راج ببر، بینی پرساد ورما اور اعظم خان سمیت کئی مسلم لیڈر اُن کا ساتھ چھوڑ گئے، وہیں مسلم رائے دہندگان بھی ان سے دور ہوگئے۔ کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج انہیں فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا گئے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایسا محسوس ہونے لگا کہ سماجوادی پارٹی کا سیاسی کریئر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔سماجوادی کیلئے یہ بہت نازک دور تھا۔ یہی وہ وقت تھاجب سخت ڈسپلن والے  راجستھا ن کے ملٹری اسکول راجستھان کے تربیت یافتہ اور آسٹریلیا  سے جدید علوم میں ڈگری لے کر واپس آنے والے انجینئر اکھلیش یادونے پارٹی کو سنبھالا دینے کی کوشش کی اور رفتہ رفتہ اس کا وقار بحال کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ بلاشبہ مسلمانوں نے ایک بار پھر سماجوادی پارٹی پر اعتماد کیا، جس کا نتیجہ اس کی اسمبلی نشستوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ۲۰۰۷ء میں ۹۷؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۱۲ء میں اسے۲۲۴؍ نشستیں ملیں۔ دراصل سماجوادی پارٹی کی ۲؍ بڑی کمزوریاں تھیں۔ اول یہ کہ پارٹی کو غنڈوں کی سرپرستی حاصل تھی، مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے بھلے ہی پارٹی کے کلیدی عہدوں پر نہ رہے ہوں لیکن پارٹی کے فیصلوں میں ان کا عمل دخل بہت زیادہ تھا اور یہ بات پوری طرح سے اظہرمن الشمس تھی۔ دوئم یہ کہ مسلمانوںکااستحصال خوب ہوتا تھا۔ کانگریس پارٹی ہی کی طرح یہاں بھی ان کے مفاد کی باتیں تو کی جاتی تھیں، بیان بازیاں بھی خوب ہوتی تھیں لیکن ان کی فلاح کے کچھ کام نہیں ہوتے تھے۔ شروع شروع میں ایسا محسوس ہوا کہ  اکھلیش  ان دونوں کمزوریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں۔ ڈی پی یادو کی پارٹی میں واپسی کی جب بات چلی تھی تو اس موقع پر ان کا مؤقف کچھ اسی بات کا غماز تھاکہ اب سماجوادی پارٹی میں غنڈوں کا گزر نہیں ہوگا۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے  اکھلیش نے کہا بھی تھا کہ ’’پہلے پارٹی کی شناخت مسل پاور اور لاٹھی سے ہوتی تھی لیکن اب جدید خیالات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہوگی۔‘‘ اسی طرح کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج کے ساتھ جب پارٹی نے امر سنگھ سے بھی چھٹکارا پالیا اور پھر اعظم خان کی پارٹی میں واپسی ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ سماجوادی پارٹی کو اپنی غلطیوں کااحساس ہوچکا ہےاوراب وہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ 
      اکھلیش حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اسے  پوری طرح ناکام نہیں قرار دے سکتے لیکن راجہ بھیا کے معاملے پر حکومت کا رویہ تشویشناک ضرور ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہےکہ بہت ساری اچھائیوں پر ایک برائی حاوی ہو جاتی ہے۔ اس وقت اکھلیش حکومت  کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بلاشبہ ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کی ایماندارانہ جانچ  بہت ضروری ہے لیکن عوام کااعتماد بحال کرنے کیلئے راجہ بھیا کی فوری گرفتاری  اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اترپردیش کے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکے راجہ بھیا کو جیل سے نکال کر جیل منتری بنانا اکھلیش حکومت کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا خمیازہ تو ریاستی حکومت کو بھگتنا  ہی تھا اور وہ بھگت  بھی رہی ہے، تاہم اب بھی وقت ہے۔
     حکومت چاہے تو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرکے اپنی غلطیوں کاازالہ کرسکتی ہے اور اس طرح عوام کا اعتماد بحال کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کی صرف اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہے۔ ۵؍ دن بعد حکومت کا ایک سال پورا ہوگا حکومت چاہے تو اس  نکتے پر غور کرسکتی ہے ۔ مطلب یہ کہ اکھلیش  حکومت کیلئے   یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے

Saturday, 23 February 2013

Tanqeed hi nahi, Tareef bhi kijiye.....

یوپی حکومت کے مناسب و متوازن اور اقلیت نواز بجٹ پر بھی ناراضگی،کیا مسلمان شکایت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں؟
ہمیشہ تنقید ہی نہیں، کبھی کبھار تعریف بھی تو کیجئے
گزشتہ دنوں اترپردیش حکومت نے ۲؍لاکھ کروڑ روپوںسے زائد کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں ۱۱۴۲؍ کروڑ  روپےصرف اقلیتوں کیلئے مخصوص ہیں۔ سابقہ بجٹ کے مقابلے اس مرتبہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ میں ۳۰؍ فیصد کااضافہ کیاگیا ہے۔ یہ اضافہ معمولی نہیں ہے۔ ایسے میںضرورت اس بات کی تھی کہ اس اضافے پر اکھلیش حکومت کی تعریف کی جاتی تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اس سے ان تمام دیگر حکومتوں کو ترغیب بھی ملے جو مسلمانوں کی غمگساری کا دعویٰ تو کرتی ہیں، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ خیال رہے کہ اگر ہم صرف تنقید ہی کر تے ر ہےاور اچھے کاموں پر بھی انگشت نمائی کرنےلگے تو کوئی حکومت اورسیاسی جماعت مسلمانوں سے متعلق مسائل پر غور نہیں کرے گی۔ وہ سوچے گی کہ برا کرو تو برا ہوتا ہی ہے، اچھا کرو تو بھی برا ہوتا ہے، پھر کیوں کچھ کیا جائے؟ لہٰذا ہمیں اپنی روش تبدیل کرنی ہوگی اور تنقید کے ساتھ ساتھ تعریف کی بھی عادت ڈالنی ہوگی۔
  • قطب الدین شاہد

ایک شوہرنامدار تھے جنہیں بیوی کے ہر کام میں نقص نکالنے میں مہارت حاصل تھی۔ جس دن کھانے میں وہ آملیٹ بناتی، وہ کہتے کہ آج انڈا اُبال کربنانا چاہئے تھا۔ جس دن وہ انڈا اُبال کربناتی ، اس دن کہتے کہ آج آملیٹ ہونا چاہئے تھا۔  پریشان بیوی نے ایک دن عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آملیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ انڈا ابال کر بھی رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ شوہر نامدار کو پہلے آملیٹ پیش کروں گی، اگر حسب سابق اعتراض ہوا تو اُبلا ہوا، انڈا بھی لاکررکھ دوںگی۔ مگر ناقد شوہر کے آگے بیوی کی ایک نہ چلی۔ دونوں چیزیں ایک ساتھ دیکھ کرشوہر نے کہا کہ’’یہ کیا کیا تم نے! اس انڈے کو اُبالنا چاہئے تھااور اس کا آملیٹ بنانا چاہئے تھا۔‘‘
    کیاکچھ یہی کیفیت ہماری نہیں ہوگئی ہے۔  بات بات پر ہمیں تنقید کی عادت سی نہیں پڑ گئی ہے؟ گزشتہ دنوں  اترپردیش حکومت نے سالانہ بجٹ پیش کیا ۔ تسلیم کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ اور ہونا چاہئے تھا لیکن جتنا کچھ ہے، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اترپردیش کےسالانہ بجٹ میں ۱۰؍ فیصد کا اضافہ ہو اہے جبکہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ  میں۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ ہوا ہے۔ یہاں اقلیتوں سے مراد مسلمان ہی سمجھئےکیوں کہ یوپی میں سکھ، عیسائی، بدھ اور جین مذہب کے ماننے والوں کی آبادی بہت کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اس بجٹ کا مطالعہ کیا جاتااور اس بجٹ کے مناسب استعمال سے قوم کی پسماندگی کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی.......... مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بجٹ پیش کئے جانے کے فوراً بعد ہی بعض مسلم حلقوں سے اس پر تنقیدیں شروع ہوگئیں کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں ہے۔  بلا شبہ کچھ اورہونا چاہئے تھا۔ کئی  شعبے ایسے رہ گئے ہیں، جنہیں اکھلیش حکومت نے قصداً ، سہواً یا مصلحتاً نظر انداز کیا ہے، اس پرگفتگو ہونی چاہئے۔ انہوںنے اُردو اوراُردو میڈیم اسکولوںکے تعلق سے کچھ نہیں کہا بلکہ پوری طرح انہیں نظرانداز کیا ہے۔ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ اپنا حق طلب کرنے میں ہمیں قطعی پیچھے نہیں رہنا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اچھا ہوا ہے، اسے بھی برا کہا جائے۔ ذرا سوچئے کہ ان حالات میں دوسری حکومتیں مسلم کاز کیلئے کیوںکرسنجیدہ ہوںگی؟
    آگے بڑھنےسےقبل ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں سماجوادی پارٹی کا دفاع مقصود  ہے، نہ ہی ہمیں اکھلیش یادو اورملائم سنگھ سے کوئی ہمدردی ہے۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت  یا سیاسی جماعت ہو، اگر وہ کچھ اچھا کرتی ہے تو اس کا اعتراف کیاجائے، اس کی تعریف  اور پذیرائی کی جائے اور اگر کچھ غلط کرتی ہے تو فوری طور پر اسے ٹوکا بھی جائے۔ اس کے کام پر تنقید ہو، دباؤ ڈالا جائے اوراس پر لگام کسنے کی کوشش کی جائے اور اگر بات تب بھی نہ بنے تو انتخابات کے موقع پر اپنی ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اس عمل کی سزا دی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے عمل کو ہم سیاسی عینک سے ہی دیکھنے کی کوشش کرتےہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت سے کسی طرح کی ہماری  وابستگی ہے تو اس کا ہر عمل محبوب کی اداؤں کی طرح ہمیں اچھا اور پیارا لگتا ہے۔ اس کی خامیوں اور کوتاہیوں میں ہمیں خوبیوں کے کئی پہلو نظر آتے ہیں، اس کے اوٹ پٹانگ بیانات سے بھی طمانیت کااحساس ہوتا ہے، اس کے عیوب میں حسن کی جھلک نظر آتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر سطح پراس کا دفاع کرتے ہیں..... اس کے برعکس اگر ہمارا تعلق اس سیاسی جماعت کی کسی مخالف جماعت سے ہے تو رقیب روسیاہ کی مانند اس کی تمام اچھی باتیں بھی ہمیںبری معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے ہر عمل میں ہمیں فریب کے پہلو دکھائی دیتے ہیں، اس طرح ہم  اس کے ہر قدم پر تنقید کے کچھ نہ کچھ  بہانے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
    آج صورتحال یہ ہے کہ ہم کانگریس، سماجوادی، کمیونسٹ، آر جے ڈی، بی ایس پی، این سی پی، ایم این ایس، جے ڈی یو، تیلگو دیشم اور اس طرح کی دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں میں خود کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہمارے لئے ملت کا مسئلہ کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔  بات ہم ملت  ہی کی کرتے ہیں لیکن لب و لہجہ ہمارا سیاسی ہوتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب یوپی اے کی پہلی میقات میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سچر کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا، بعض حلقوں نے اس پر بھی تنقید کی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک اہم رکن  اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد سے ہم نے وہی سوال دُہرایا تھا کہ ’’اس کمیٹی کی تشکیل کا کیا مطلب؟ کیا اس سے مسلمانوں کو کچھ فائدہ ہوگا؟‘‘ اس کے جواب میںانہوں نے بہت اچھی بات کہی تھی۔انہوں نے کہاتھا کہ’’ کسی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ کمیٹی اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دے گی۔اس پر حکومت کچھ کرے گی یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا اوراس تعلق سے کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتا لیکن اس کمیٹی کی تشکیل سے بہر حال یہ فائدہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس بات کی نشاندہی ہوجائے گی کہ ہمیں کہاں اورکن پہلوؤں پرزیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘ بات بالکل درست ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کی جانب سے اقلیتوں کیلئے اعلان کئے گئے ۱۵؍  نکاتی پروگرام پر بھی تنقید کی گئی۔  اقلیتوں کودیئے جانے والے اسکالرشپ پربھی انگشت نمائی ہوئی۔ کہا گیا کہ کیا اس سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی؟ کیا مسلم طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی؟  اس کا جواب یہی ہے کہ نہ تو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی اور نہ ہی تمام طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی لیکن  اتنا تو ہوگا کہ ایک بڑا طبقہ اس سے ضرور فیضیاب ہوگا.... اورآج  ہوبھی رہا ہے۔
     آئیے ایک بار پھر آتے ہیں  اصل موضوع یعنی یوپی کے بجٹ پر۔ معترضین کا کہنا ہے کہ یوپی حکومت نے اقلیتوں  کے بجٹ میں صرف ۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ پھر کتنے فیصد کا اضافہ کیا جانا چاہئے تھا؟ اس کی توضیح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اقلیتوں کیلئے مخصوص کیاگیا بجٹ مجموعی بجٹ کا صرف ایک فیصد ہے جبکہ اقلیتوں کی آبادی ۱۸؍ سے ۲۰؍ فیصد ہے، لہٰذاآبادی کے تناسب سے ہی ان کیلئے بجٹ مخصوص کیا جاناچاہئے تھا۔  یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجموعی بجٹ سے ہونے والے کاموں سے اقلیتیں مستفیض نہیں ہوںگی؟ مجموعی بجٹ سے لکھنؤمیں اگر میٹرو ریل شروع ہوگی تو کیا اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ سبھی سرکاری اور امداد یافتہ پرائیویٹ ڈگری کالجوں میں طالبات کو گریجویشن تک کی تعلیم مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کیا اس سے مسلم طالبات فائدہ نہیں اٹھائیںگی؟ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے رام پور میں ۲؍ فلائی اووَر تعمیر کئے جائیںگے۔ کیا اس سے رام پور کی مسلم آبادی کا کوئی بھلا نہیں ہوگا؟  اعظم گڑھ میں  اگرڈگری زرعی کالج، مویشی میڈیکل سائنس ڈگری کالج اورپیرامیڈیکل کالج نیز الہ آباد  اورسدھارتھ نگر میں یونیورسٹیاں قائم کی جاتی ہیں تو کیا اس سے مسلم طلبہ کو آسانیاں نہیں ہوںگی؟ بجلی سے محروم  ہزاروں گاؤں میں اگر بجلی سپلائی کی جاتی ہے تو ان روشنیوںسے کیا مسلم گھروں کے اندھیرے دور نہیں ہوںگے؟ لکھنؤ میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی  پارک اور آئی ٹی سٹی قائم کی جاتی ہے کہ تو کیا  مسلم نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا اوران کے گھروں میں خوشحالی نہیں آئے گی؟بنیادی تعلیم کی مختلف اسکیموںکیلئے اگر ۲۱؍ ہزار ۵۲۰؍ کروڑروپے خرچ ہوںگے تو کیا ان سے ہمارے طلبہ کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ ریاست میں ۲۱؍ نئے گورنمنٹ آئی ٹی آئی کالج کھولے جائیںگے۔ کیا اسے ہمارے بچوں کوخود کفیل ہونے کا موقع نہیں ملے گا؟.......... ان تمام اسکیموںسے  یقیناً  ہم مسلمان بھی اتنا ہی  فائدہ اٹھائیںگے جتنا کہ دوسرے لوگ اٹھائیںگے۔ رہی بات اقلیتوں کے بجٹ کی تو وہ صرف ہمارا اپنا ہے۔
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ منظور شدہ بجٹ کو اقلیتوں کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس کیلئے نہ صرف حکومت سے رجوع ہوناچاہئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کے نمائندوں بالخصوص مسلم نمائندوںسے بھی ملاقات کرتے رہنا چاہئے تاکہ سال کے اختتام تک۱۱۴۲؍ کروڑ کی رقم سے کچھ تعمیری کام ہوسکیں۔

Thursday, 7 February 2013

Urdu ki haq talfi ke liye ahl e urdu hi zimmedar

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُردو کے مسائل پر زور دار آواز بلند  ہونے کے بعد بھی اگر مسائل حل نہیں ہوئے تو کہنا پڑے گا کہ:
اُردو کی حق تلفی کیلئے اہل ِ اُردو ہی ذمہ دار ہیں!
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو زبان سے متعلق بڑی مثبت گفتگو ہوئی۔ اُردو کے قصیدے پڑھے گئے،اس کی مرثیہ خوانی بھی ہوئی اورتمام جماعتوں کے اراکین نے مل کر اس کی ترویج و اشاعت کیلئے آواز بھی بلند کی۔ ۲؍سال قبل کچھ اسی طرح کاخوشگوار منظر لوک سبھا میں بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ الزام درست ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میںسنجیدگی کم اور نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کی ’فراخدلی‘ کا مظاہرہ کیا اور اُردو کو اس کا جائز حق دلانے  کی بات پارلیمنٹ  میں کی۔ اب یہاں سے اہل اُردو کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ اُردو والوں کو چاہئے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کریں اور یہ دباؤ تب تک قائم رکھیں جب تک اس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوجائیں۔ اُردو کیلئے ماحول سازگار ہے، لوہا گرم ہے، بس ہتھوڑا مارنے کی دیر ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا تو یقینا اس کیلئے اہل اُردو ہی ذمہ دار اور قصور وار قرار پائیںگے۔

قطب الدین شاہد

اگریہ کہاجاتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت اُردو کو اس کے اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا گیا، تویہ الزام قطعی غلط نہیں ہے۔ بلا شبہ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے، جس کی  پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ یہیں کی گنگا جمنی تہذیب کی گود میں پلی بڑھی اوریہیں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھی۔ امیر خسروسے لے کر منشی پریم چند اور سرسید احمدخاں سے لے کر گوپی چند نارنگ تک  بلا لحاظ مذہب و مسلک اس زبان کی آبیاری میں تمام لوگوں نے خون و جگر ایک کیا، جس کا یہ خوشگوار نتیجہ ہے کہ اُردو زبان صرف  ہندوستان اور بر صغیر  میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک شیریں زبان کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ اس  ہندوستانی زبان کو آزاد ہندوستان میں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جاسکا، جس کی یہ حقدار ہے۔ جس زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے تھی، اس کے ساتھ سرکاری سطح پر کھلا متعصبانہ  رویہ اختیار کیا گیااور کیا  جا رہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسے  خالص مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار سرکاری   اور آئینی ادارے میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کی آواز بلند کی جائے اوراس آواز پر تمام سیاسی جماعتیں آمنّا و صدّقناکہیں تو اس سے بڑی مسرت کی بات اورکیا ہوگی؟
     اس لحاظ سے ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء اور اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء کی تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس  روز بالترتیب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے آواز بلند کی گئی جس کی حمایت بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین  نے کی۔ اس کے باوجود اگر اُردو کے مسائل جوں کے توں ہیں تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم اُردو والے ہی ذمہ دار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی پہلی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب یہاں سے ہم اُردو والوں کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اُردو کے مسائل کا ادراک ہے، جس کااعتراف انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی کیا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اس کا ’فالو اَپ‘ کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ  وہ صرف مسائل پر آواز بلند  کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ  پارلیمنٹ میں  اردو سے جس محبت کا انہوں نے اظہار کیا ہے اس کا حق بھی ادا کریں اور  اس زبان کو اس کا وہ جائز حق دلائیں جس سے یہ  اب  تک محروم ہے۔
     یہ بات درست ہے کہ ہمارے  سیاست داں بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مسائل اوران کے حل کے تئیں بہت کم سنجیدہ ہوتے ہیںبلکہ ان کی ذہنیت تاجرانہ ہے اور یہ   ہر بات میں اپنا نفع  نقصان دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جائے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو جب سماجوادی پارٹی کے رُکن پارلیمان چودھری منور سلیم نے اُردو کو قومی سطح پردوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا، جس کی تائید بی جے پی کے ارون جیٹلی سمیت دیگر تمام جماعتوں کے قائدین نے کی تو ہم میں سے بیشتر نے اسے ایک سیاسی پینترہ بازی ہی تصور کیا۔ اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہمارے قائد بھی ذمہ دار ہیں۔  بلا شبہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتا ہے لیکن ایک بار جل جانے کے بعد دودھ کی افادیت سے ہی انکار کردینا دانشمندی تو نہیں ہے۔  اسے ’کفرانِ نعمت‘ کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
    یہ بات بھی صحیح ہے کہ انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو  لیڈروں کی زنبیل سے وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں جو انتخابات ختم ہوتے ہوتے راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی  ان پھلجھڑیوں کی روشنی میں چند بھٹکے ہوئے مسافرو  ں کو اپنا راستہ نظر آجاتا ہے  اور وہ ان وقتی اور عارضی روشنیوں کی مدد سے اپنا سفر آسان بنا لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب انتخابات کی آمد ہوتی ہے، تو ووٹوں کی لالچ کے خاطر ہی سہی ہمارے سیاست داں کچھ کام کرتے ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اُن سے کچھ کام لیا جاسکتا ہے۔
    ان حالات میں گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو کو دوسری قومی زبان کا درجہ دیئے جانے کا جو مطالبہ ہوا، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور متحرک ہوجانا چاہئے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سر پر ہیں اور اس سے قبل سیاست دانوں سے چند کام کروائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں یہ مطالبہ سماجوادی پارٹی نے کیا۔ اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء میں بھی سماجوادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے اُردو کے حق سے متعلق لوک سبھا میں آواز بلند کی تھی۔ دونوں مرتبہ بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید و حمایت کی۔ خود حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ اُردو کواس کا جائز حق ملنا چاہئے۔ ممکن ہے اُردو کے نام پر سیاست  ہورہی ہو اور سیاست داں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کررہے ہوں، مگر ان منفی پہلوؤں کے علاوہ ہمیں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ یہ گفتگو پارلیمنٹ میں ہورہی ہے، جہاں ایک ایک لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے اورجس کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کوئی سیاسی اسٹیج نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہونے والی گفتگو سیاسی جماعتوں کے  انتخابی منشور جیسی ہے۔ اور پھرسیاست دانوںسے ہماری توقعات بھی کیا ہیں؟ یہی ناکہ وہ ایوان میں ہمارے مسائل پر آواز بلند کریں اورانہیں حل کروائیں۔ اس طرح دیکھیں تو پہلا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔۔۔۔۔۔ یعنی اُردو کے حق میں سبھی متفق نظر آئے۔  اب رہادوسرا مسئلہ ۔۔۔۔ تو یہاں گیند پوری طرح سے حکومت اور اہل اُردو کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی حکومت کو کام کرنا ہے لیکن یہ کام اہل اُردو کو کروانا ہے۔ یوپی اے حکومت تو یہی دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اُردو کیلئے کچھ کرنا ہے لیکن بظاہر وہ بی جے پی سے خوف زدہ  نظر آتی ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ کہیں  ایسا کرتے ہوئے اس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی اور خوشامد پسندی کا الزام عائد نہ ہو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کو یہ یاد دلائیں کہ اب تو وہ خوف بھی نہیں رہا کیونکہ بی جے پی بھی اُردو کو اس کا جائز حق دیئے جانے کے حق میں ہے۔
    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس گفتگو کو یوں سرسری طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ آج اگر اس پر کچھ عمل نہیں بھی ہوا۔۔۔۔۔ تب بھی اس مباحثے کی اہمیت باقی رہے گی۔ آئندہ کچھ دنوں میں اسے ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے گا اوراس کی روشنی میں فیصلے ہوںگے۔ اس گفتگو کی اہمیت اس لئے کم نہیں ہونی چاہئے کہ اس موضوع کو سماجوادی پارٹی کے چودھری منور سلیم نے اُٹھایا ہے  اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام وِلاس پاسوان اور آزاد رُکن پارلیمان محمدادیب نے اس کی حمایت کی ہے بلکہ اسے اس طرح دیکھنا چاہئے کہ اس کی تائیدبی جے پی نے بھی کی ہے جسے ہم اُردو کا دشمن اور اس کی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے رہے ہیں۔  یعنی ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردووالے اس کا ’فالواَپ‘ کریں۔ سیاست دانوں کواس بات کیلئے آمادہ کریںکہ آئندہ پارلیمانی اجلاس میںاس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد ہوں۔ حکومت سے پوچھیں کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ وہ اس کا جائز حق دینے سے کترارہی ہے؟ ملائم سنگھ یادو، ممتا بنرجی  اور فاروق عبداللہ سے سوال کریں کہ ۲۰۱۰ء میں اُردو کی حالت زار پر لوک سبھا میں آپ نے بھی مرثیہ پڑھا تھا، اب کیا کررہے ہیں کہ جبکہ اس دوران  اپنی اپنی ریاستوں میں آپ کی حکومتیں بن چکی ہیں۔یقین جانئے کہ ووٹوں کی لالچ میں سیاست  داں  بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے انہیں مجبور کرنے کی۔ توکیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟n