Saturday, 10 August 2013

firing on border.....

سرحد پر فائرنگ:  محض اشتعال انگیزی یا
 ہند پاک تعلقات کو خراب کرنے کی سازش؟
 
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جموںکشمیر میں ہند پاک سرحد پر بلا وجہ کی فائرنگ میں ۵؍ ہندوستانی فوجی شہید ہوگئے۔  اس واقعے نے ایک بار پھر امن پسندوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا یہ صرف اشتعال انگیزی ہے یا اس کے پس پشت کچھ اور معاملہ ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیں، جو ہند پاک تعلقات کو معمول پر نہیں آنے دینا چاہتیں۔جیسے ہی حالات کچھ سازگار ہونے لگتے  ہیں، دونوں جانب کی ان طاقتوں میں بے چینی پائی جانےلگتی ہےاور پھر کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ تعلقات کی یہ گاڑی پٹری سے  اترجاتی ہے..... کئی بار تو بھیانک حادثے بھی رونما ہوچکے ہیں جس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے۔
       پاکستان میں نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کا عمل ایک بار پھر شروع ہوجائے گا۔  ہوا بھی ایسا۔ نواز شریف نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جسے منموہن سنگھ نے خوش دلی سے قبول بھی کرلیا۔ سیکریٹریز اوروزارتی سطح پر گفتگو کی تاریخیں بھی متعین ہوگئیں اور ستمبر میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات بھی طے ہوگئی۔ حالات کو معمول  پر آتا دیکھ کر ان طاقتوں کا بے چین ہونا فطری ہی تھا ، ایسے میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف  کے اس مشورے نے اس بے چینی میں مزید اضافہ کردیا کہ دونوں ملک اپنے دفاعی اخراجات میں تخفیف کرکے اس رقم کو ملک کی ترقی میں صرف کریں۔   اس بیان کا جہاں دونوں ملکوں کے امن پسندوں نے خیر مقدم کیا وہیں  اس کی وجہ سے تخریب پسند قوتوں   کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔
    یاد کیجئے ..... ۱۹؍ فروری ۱۹۹۹ء کو جب اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر  ہندوستانی وزیراعظم   اٹل بہاری واجپئی نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ   بس کے ذریعے لاہور کا سفر کیا تھا۔دونوں ملکوں میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوگیا تھا....  پوری فضامعطر ہوگئی تھی ۔ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں نے ۲۰؍ فروری کو لاہور اعلامیہ بھی جاری کردیا جس میں دونوں نے جنگ نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔  یہ اُس وقت کی بات ہے جب دونوں ملکوں نے کچھ ہی دنوں قبل نیوکلیائی تجربہ کیا تھا جس کی وجہ سے دونوں  ملکوں  کے درمیان باہمی اعتماد میں ایک بڑی سی خلیج پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی ۳؍ مئی کو جموں کشمیر میں کارگل کے مقام پر پاکستانی فوجیوں کی دراندازی کی خبر آئی  اور ۵؍ مئی کو پیٹرولنگ کرتے ہوئے ۵؍ ہندوستانی فوجیوں کا اغوا، ان پر تشدد کرنے اور بعد میں ہلاک کرنے کی خبریں موصول ہوئیں۔ شرپسندوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی امن کی فضا مسموم ہوکر رہ گئی۔ اس کے بعد تعلقات کو معمول پر آنے میں برسوں لگے۔۲؍ ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں نے جانی و مالی نقصانات کےعلاوہ بھی بہت کچھ گنوایا۔
    ۱۴؍ جولائی ۲۰۰۱ء کو اُس وقت  ایک مرتبہ ماحول پھر سازگار ہوتا نظر آیا  جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا  اور آگرہ اعلامیہ جاری ہوا تھا۔  اس اعلامیے کے اعلان کے وقت تھوڑی سی تلخی ضرور  پیدا ہوئی تھی لیکن بات بگڑی نہیں تھی۔  تعلقات کی یہ گاڑی پٹری پر رواں دواں تھی لیکن اسی سال ۱۳؍ دسمبر کو ہندوستانی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ ہوجاتا ہے  اور اس طرح یہ تیز رفتار گاڑی اچانک پٹری سے اُتر جاتی ہے۔  حالانکہ ہند پاک تعلقات میں بہتری کیلئے سب سے بہتر موقع یہی تھا کیونکہ دونوں جانب ایسی حکومتیں تھیں جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ یہ طاقتیں اتحاد واتفاق کی سب سے بڑی مخالف ہیں۔ ہندوستان میں آر ایس ایس کی زیرسرپرستی بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی جبکہ پاکستان میں فوج کی سرپرستی میں جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھے لیکن یہ تعلقات معمول پر نہیں آسکے۔ ۲۰۰۴ء تک بی جے پی  کااقتدار برقرار رہا تھا جبکہ ۲۰۰۸ء تک پاکستان میں مشرف  برسرِ اقتدار تھے۔  حالات میں بہتری کی امید تب تک نہ نہیں جاسکی جب تک مشرف اقتدار سے بے دخل نہیں ہوئے۔
      ۹؍ ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی عمل میں آئی، وہاں مشرف کی جگہ آصف علی زرداری نے سنبھالی۔  زرداری نے بھی آتے ہی ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی باتیں کیں اوراس پر کچھ حد تک عملی اقدامات بھی ہوئے مگر..... وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ یہاں ہندوستان میں فرقہ پرست جماعتوںنے اور پاکستان میں شدت پسند عناصر نے جن کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ انہیں فوج کی سرپرستی حاصل ہے،   اس پر تنقیدیں شروع کردیں اور ان تعلقات کے خلاف بیانات دینے لگے۔ کچھ ہی دنوں  بعد یعنی ۲۶؍ نومبر کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہوگیا۔ اس حملے میں کئی سینئر پولیس افسروں سمیت ۱۶۶؍ لوگ ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس حملے کی وجہ سےدونوں ملکوں میں  ایک بار پھر جنگ کی سی کیفیت پیدا  ہوگئی تھی۔
    ممبئی پر ہونے والے اُس حملے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں جو تعلقات خراب ہوئے تھے، تو آج تک اس میں بہتری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ ۵؍ جون ۲۰۱۳ء کو جب نواز شریف نے  پاکستان میںاقتدار کی   باگ ڈور سنبھالی تو امن پسندوں نے راحت کا سانس لیا اور امید ہوچلی کہ برف ضرور پگھلے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ نواز شریف نے جہاں ہندوستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، وہیں منموہن سنگھ نے بھی اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ یہ بات اُن لوگوں کو بھلا کہاں پسند آسکتی تھی جن کی بقا کا راز ہی ہند پاک دشمنی میں مضمر ہے۔  یقیناً کوئی سازش ہوئی ہوگئی اور اس میں انہیں اس وقت کامیابی بھی مل گئی جب گزشتہ دنوں پونچھ میں  ۵؍ ہندوستانی فوجیوں کو شہید کردیا گیا۔  یہ حرکت یقیناً دہشت پسندانہ ہے، جس کاسخت جواب دیا جاناچاہئے لیکن..... اُس طرح سے نہیں جس طرح سے ہندوستان کےبعض عناصر چاہتے ہیں۔یہ بات بہت پہلے سے کہی جارہی ہے کہ پاکستانی فوج کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کی فضا پسند نہیں ہے لہٰذا وہ دفاعی اخراجات میں بھی کمی نہیں چاہتی۔ ایسے میں نواز شریف کے دفاعی اخراجات میں کمی کے مشورے سے یقیناً وہ تلملا گئی ہوگی ، جس کے بعد اس نے یہ انتہاپسندانہ حرکت کی۔ ہمارے یہاں بھی بعض ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو پاکستان کی دشمنی  ہی میں آکسیجن پاتی ہیں اور اس کے سہارے آگے بڑھتی ہیں۔ پاکستانی فوج کی اس حرکت کے بعد ان لوگوں نے ایک بار پھر حکومت پر اسلام آباد سے گفتگو کا دور ختم کرنے کیلئے دباؤ بنانا شروع کردیا ہے۔
    لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو ہوتی رہنی چاہئے تاکہ سیاسی اور کاروباری سطح پر تعلقات بہتر سے مزیدبہتر کی جانب گامزن ہوں۔ اس سلسلے میں نواز شریف کا مشورہ بھی قابل قدر ہے کہ دونوں ملکوں کو دفاعی بجٹ میں کمی لاتے ہوئے ملک کی ہمہ جہت ترقی کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف دفاع پر ۱۷ء۶؍ فیصد یعنی ۲؍ لاکھ ۳؍ ہزار ۶۷۲؍ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے جبکہ تعلیم کیلئے اس کاایک چوتھائی یعنی صرف ۶۵؍ ہزار ۸۶۹؍ کروڑ مختص کیا گیا ہے۔
     مبارکباد کی مستحق ہے ہندوستانی حکومت کہ اس نے سرحد کی دونوں جانب آباد ان عناصر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئےگفتگو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جو امن کے دشمن ہیں۔ایسے میں نواز شریف کو بھی چاہئے کہ اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ امن کی راہ ہموار ہو اور یہ تاثر بھی ختم ہوجائے کہ فوج پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔

Saturday, 3 August 2013

دُرگا ناگپال کی معطلی پراتنا واویلہ کیوں؟
اگر انہیں ریت مافیا کے خلاف کارروائی کی سزا دی گئی ہے تو مسجد کے انہدام کا معاملہ کیا ہے؟

قطب الدین شاہد

اُتّرپردیش  میں معطل کی گئی آئی اے ایس افسر کی حمایت میں آل انڈیا آئی اے ایس اسوسی ایشن کا یوں پُرجوش انداز میں سامنے آنا ، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نوکر شاہی میں فرقہ پرستی بہت اندر تک سرایت کرگئی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ۲؍ سال قبل جب گجرات میں سینئر آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو مودی حکومت نے معطل کیا تھا، تب بھی ان کی بحالی کیلئے اسی کی طرح کی کوششیں کی گئی ہوتیں..... لیکن تب ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت سنجیو بھٹ کو اپنا دفاع اور اپنی بحالی کیلئے کوششیں  اپنے طور پر تنہا کرنی پڑی تھیں۔ میڈیا نے بھی اُن کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ ان کے مخالفین کے بیانات کو نمایاں کرکے پیش کیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سنجیو بھٹ اس سزا کے مستحق تھے، اس کے برعکس درگا شکتی کے معاملے میں ریاستی حکومت کے خلاف میڈیا ایک فریق کے طور پر کام کررہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ’ایماندار‘ درگا کو محض اس لئے معطل کیا گیا کیونکہ وہ ریت مافیا کے خلاف کام کررہی تھیں۔
    درگا شکتی کو ریاست میں امن و امان کو خطرے میں ڈالنے کی پاداش میں ان کے عہدے سے معطل کیا گیا ہے لیکن  دور کی کوڑی لاتے ہوئے میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے ریت مافیا کے خلاف ان کی کارروائیوں سے جوڑ دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح درگا کو ایماندار افسر کےطورپر آئی اے ایس اسوسی ایشن ، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا کے ذریعہ پروجیکٹ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سبھی واقعی کرپشن کے بالکل خلاف ہیں اور انہیں بدعنوان حکمراں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کیا یہ سچ ہے؟ اور اگر  یہ سچ ہے تومجموعی طورپرکرپشن کے معاملے میںہمارے ملک کا شمار دنیا کے سرفہرست ملکوں میں کیوں ہوتا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب یعنی نوکر شاہ، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا اگر واقعی بدعنوانی  کے خلاف متحد ہوجائیں تو کیا مجال کہ کہیں کرپشن کا کوئی واقعہ رونما ہو۔   یہ تینوں  بیدار ہو جائیں توحکومت کی سرپرستی میں بھی   بدعنوانوں کی دال نہیں گل سکتی۔
    مطلب صاف ہے کہ ’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘ والا معاملہ ہے۔  اگر یہ الزام درست ہے کہ انہیں ان کی ایما نداری کی سزا دی گئی ہے  یعنی ریت مافیا کے خلاف کارروائی کی بنا پر انہیں معطل کیا گیا ہے تو مسجد  کے انہدام کا معاملہ کیا ہے؟کیا قادل پور گاؤں کی مسجد کے احاطے کی دیوار کے انہدام میں ان کا کوئی رول نہیں ہے؟ ریاستی حکومت پر دُرگا کے حامیوں کاایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف سازش رچی گئی تھی، جس میں وہ پھنس گئیں۔ اس الزام کے مطابق سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی نریندر بھاٹی کا کوئی رشتہ دار غیر قانونی طور پر ریت کی کھدائی کے معاملے میں پکڑاگیا تھا جس کے خلاف درگا شکتی  نے کارروائی کرتے ہوئے معاملہ درج کروایا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ بھاٹی نے درگا سے معاملہ واپس لینے کی بات کی تھی لیکن ’ایماندار‘ ایس ڈ ی ایم نے ان کی ایک نہیں سنی، جس کی وجہ سے ناراض ایم ایل اے نے ان کے خلاف ایک سازش رچی ۔ درگاحامیوں کے مطابق نریندر بھاٹی نے قادل پور کے گاؤںوالوں کو ۵۱؍ ہزار روپے بطور چندہ دے کر غیرقانونی مسجد کی تعمیر کیلئے ’اکسایا‘ اور پھرخود ہی ایس ڈی ایم کو خبر بھی دی کہ یہاں ایک غیرقانونی مسجد کی تعمیر کی جارہی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سازش پوری طرح سے بھاٹی نے رچی تھی جس میں آئی اے ایس افسر بری طرح پھنس گئیں۔
    یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا  ہے کہ جب اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک آئی اےایس  اور آئی پی ایس افسر اس طرح کی معمولی سازشوں کا شکار ہوا کریںگے تو ملک کا کیا ہوگا؟ وہ کس طرح ملک کو سنبھالیںگے؟  ایک سوال اور کہ ایسے افسروں کو اپنے عہدے پر رہنے کا حق کیوں کر باقی رہے جنہیں یہ اندازہ  ہی نہ ہو کہ وہ جو قدم اٹھانے جارہے ہیں، اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے؟
    ہندوستان ایک کثیرمذہبی، کثیر جماعتی اور کثیر تہذیبوں والا رنگا رنگ ملک ہے۔یہاں بہت کچھ دیکھ بھال کر اور بہت کچھ نظر انداز کرکے چلنا پڑتا ہے۔سخت قانون کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس ملک میں تعلیم کی شرح آج بھی تین چوتھائی سے کم ہو اور رائے دہندگان کو اپنے امیدواروں کا نام پڑھ کر نہیں بلکہ ان کی نشانیاں دیکھ کر ووٹ دینا پڑتا ہو، وہاں قانون کی سختی سے بات بننے کا نہیں بلکہ بگڑنے ہی کا اندیشہ رہے گا۔    
    گاؤں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاںرہنے والوں کی مالی حیثیت کیا ہے؟ او ر اُن کی تعلیمی شرح کیا ہوگی؟ایسے میں جب گاؤں والوں نے درگا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ اپیل کی کہ انہیں رمضان تک مہلت دے دی جائے، وہ حکومت اور انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کریںگے تو ایماندار افسر نے انہیں اس کا موقع کیوں نہیں دیا؟کیا وہ نہیں جانتی تھیںکہ مسجدکی دیوار گرانے کا کیا مطلب ہوتا ہے اوراس کے کیا نتائج برآمد ہوںگے؟ اور یہ کہ انہیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے؟
    حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے ایک عرصے بعد کوئی اچھا کام کیا ہے اور پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ صورتحال خراب ہونے سے بچانے کیلئے  بروقت کارروائی کی ہے۔ حکومت اس کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے لیکن حکومت کو بس اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس ڈی ایم کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے جس نے قادل پور کا دورہ کئے بغیر اپنی برادری یعنی آئی اے ایس افسر کا دفاع کیااوراس کیلئے دروغ گوئی کا سہارالیتے ہوئے جھوٹی رپورٹ تیار کی۔ ہوسکے تو آئی اے ایس اسوسی ایشن کی بھی خبر لی جانی چاہئے جس نے آنکھ بند کرکے دُرگا کی حمایت کی اور حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔

Monday, 29 July 2013

Roznaamcha_Facebook and Maslaki tension

فیس بُک اور مسلکی اختلافات

قطب الدین شاہد

ہم مسلمانوں پر یہ الزام ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر کسی سے لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی اگر کچھ دنوں کیلئے موقوف رہے تو لڑائی کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔  الزام کے مطابق  برادران وطن سے ہماری ایک نہیں بنتی،  دونوں میںہمیشہ چھتیس کا آنکڑہ رہتا ہے، کسی وجہ سے اگر کچھ دنوں تک دونوں بڑی قوموں میں امن و چین کا معاملہ رہا تو علاقائی تعصب سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، موقع ملے تو ایک ریاست کےمسلمان دوسری ریاست کے مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں،اگر اس کی نوبت نہیں آئی تو شیعہ اور سنّی برسرِ پیکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی الزام تراشی کرنے والوں کے مطابق شیعہ شیعہ اور سنّی سنّی بھی ایک ساتھ امن و سکون سے نہیں رہتے بلکہ یہاں بھی بہت سارے اختلافات آڑے آتے ہیں جس کی وجہ سے پیہم تکرار ہوتی رہتی ہے، یہ زبانی تکرار بڑھتی ہے تو تصادم کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
    یہ اور ایسی ساری باتیں مسلمانوں پر الزام ہے..... یقینا ً یہ الزام ہی ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ الزام تراشی اس لئے کہ مسلمانوں کو جھگڑالو ثابت کیا جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ وطن عزیز میں جو سالانہ ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے ہیں، اس کیلئے فرقہ پرست عناصر نہیں بلکہ مسلمان ہی ذمہ دار  ہیں..... لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ان الزامات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ نادان ہیں۔اس نادانی کے سبب وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ملت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قوم کو اُن کی اِن حرکتوں کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف مٹھی بھر ہے لیکن ان مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے یہ الزام پوری کمیونٹی کے سر تھوپا جارہا ہے اورحالات ایسے ہیں کہ ہم اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ  اب تحریری صورت اختیار کرگیا ہے۔
    ان دنوں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر غلط تربیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے یہ عناصر سرگرم ہیں اور اپنے فاسد خیالات سے معاشرے کی فضا کو مسموم کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔مسلکی اختلافات کو یہ اس قدر بڑھا چڑھا کر اور اتنے تضحیک آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اور ان کے مخالفین دونوں طیش میں آجائیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کا تعلق کسی ایک خاص جماعت یامسلک سے نہیں ہے بلکہ اس حمام میں  بیشتر ننگے نظر آتے ہیں۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ان اختلافات کو ابھارے اور دوسرے مسالک پر تنقید کئے بغیر ہم اپنے مسلک پر قائم نہیں رہ سکتے؟ اپنے راستے پر نہیں چل سکتے؟ اپنی بات نہیں کہہ سکتے؟ آخروہ کون سا جنون ہے جو انہیں اس پر آمادہ کرتا ہے ؟ کیا وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کیلئے ذمہ دار کون ہے؟
    فیس بک اگر کوئی بہت اچھی چیز نہیں تو بری بھی نہیں ہے، اس کے بہتر استعمال سے بہتر نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ آپسی میل جول اور پیغام رسانی کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ ہے۔مسلکی اختلافات پر اپنی توانائی صرف کرنے والے چاہیں تو اسے مذہبی و مسلکی تبلیغ کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال کرسکتےہیں۔ ایک بڑا طبقہ ہے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا قائل ہے اوراس کی مدد   سے قوم اور سماج کو فیض پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
     مسلکی اختلافات کو کرید کرسماج میں انتشار پیدا کرکے ذہنی تسکین حاصل کرنیوالے یہ نوجوان کافی باصلاحیت  ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کامنفی استعمال ہورہا ہے حالانکہ اس کامثبت استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ کاش ایسا ہو! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟

Roznaamcha_Innocent Muslims

مسلم نوجوانوں کی رہائی

قطب الدین شاہد

    دہشت گردی کے الزامات میںمسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے سبھی ’پریشان‘ ہیں اور ان کی رہائی کیلئے ’کوشاں‘ بھی ہیں۔ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اس پر اظہار افسوس کرچکے ہیں بلکہ اُس وقت جب آسٹریلیا میں ڈاکٹر محمد حنیف کو گرفتار کیا گیا تھا تو بقول وزیراعظم ’’انہیں رات بھر نیند نہیں آئی تھی‘‘۔موجودہ وزیر داخلہ شندے صاحب اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم صاحب کو بھی مسلمانوں سے ’ہمدردی‘ ہے۔ پرکاش کرات، سیتا رام یچوری، اے بی بردھن اوررام ولاس پاسوان اس سلسلے میں وزیراعظم ، صدر جمہوریہ اور وزیرداخلہ سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ لالو پرساد اور ملائم سنگھ یادو نے انتخابی جلسوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی اس موضوع پر آواز بلند کی ہے ۔ مایاوتی اورممتا بنرجی بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر اپنی ’ناراضگی‘ کا اظہار کرچکی ہیں۔ بہار کے ایک نوجوان کی گرفتاری پر نتیش کمار تومرکز سے باقاعدہ لڑجھگڑ بھی چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے بعض لیڈربالخصوص اقلیتی سیل سے تعلق رکھنے والے لیڈروں نے بھی اس پر وقتاً فوقتاً تشویش کااظہار کیا ہے۔مگر افسوس ! صد افسوس.....اس سلسلے میں نتائج صفر ہیں۔
    کانگریس کی اقتدار والی ریاستیں مہاراشٹر، آندھرا پردیش یا راجستھان ہوں ، سماجوادی کی اترپردیش ہو یا پھر حال ہی میں سیکولر ہونے والی جنتادل متحدہ کی بہار... تمام ریاستوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں آج بھی ہو رہی ہیں ۔ ایک سازش کے تحت پوری قوم کو ہراساں کئے جانے، اس بہانے ان کے حوصلوں کو پست کرنے اور انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔
    مسلم نوجوانوں کی رہائی کے سلسلے میں سیاسی سطح پر اس وقت ملک میں۴؍ بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن محمد ادیب کی سربراہی میں ’پی سی پی ٹی ‘ (پیپلز کمپین اگینسٹ پولیٹکس آف ٹیرر) کے پرچم تلے دہلی میں ایک تحریک چل رہی ہے۔ ایڈوکیٹ محمد شعیب کی قیادت میں ’رہائی منچ‘ کے بینر تلے اترپردیش میں گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے دھرناجاری ہے۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی اوران کی تنظیم ’انہد‘ بھی کافی دنوں سے سرگرم عمل ہے۔اسی طرح ممبئی میں مجلس شوریٰ کے بینر تلے ابو عاصم اعظمی نے بھی مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے ریاست گیر مہم چلانے پر زور دیا ہے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی ساری کوششیں ہورہی ہیںاورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوںپر سبھوں کو تشویش ہے تو پھر یہ گرفتاریاں جاری کیوں ہیں؟ اور جو گرفتار ہیں ان کی رہائی میں اتنی دشواریاں کیوں ہیں؟ خواجہ یونس، قتیل صدیقی اور خالد مجاہد جیسے واقعات آخر کیوں رونما ہوتے ہیں؟
     کہاجاتا ہے کہ کوشش.....یعنی ایماندارانہ کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی.... تو کیا یہاں کوششیں نہیں ہو رہی ہیں؟.... ہمارا خیال ہے کہ اس پر کچھ کہنے کے بجائے ان ’کوششوں‘کے نتائج دیکھنے چاہئیں۔
     دراصل یہ باتیں ذہن میں اس لئے آئیں کہ مجلس شوریٰ کی میٹنگ کی رپورٹ پڑھنے کے بعد ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ اگرسماجوادی پارٹی کے ریاستی سربراہ (خیال رہے کہ مجلس شوریٰ کو سماجوادی پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم ہی سمجھا جاتا ہے) یہی کوشش یوپی میں کرتی جہاں وہ اقتدار میں بلا شرکت غیرے مالک ہے،تو یقیناً اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے لیکن اس طرح کی کوشش وہ وہاں کررہی ہے جہاں اس کے صرف ۳؍ اراکین ہیں اور وہ کچھ نہیں کرسکتی۔
    کاش ! یہ باتیں وہ لوگ سمجھ سکتے ..... جنہیں عوام اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔

Modi and American Visa

کیا امریکہ کا ویزا ملنے سے مودی کو کلین چِٹ مِل جائے گی؟

  قطب الدین شاہد

مودی کو امریکہ اپنے یہاں آنے دے گا کہ نہیں؟ کچھ دنوں سے اس سوال کو قومی موضوع کے طو ر پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی ۱۲۵؍ کروڑ کی آبادی کیلئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل یہ ایک سازش ہے، ایک گیم پلان ہے اور اس کا مقصد مودی کی تشہیر ہے۔ مودی کے امریکہ جانے اور نہ جانے کو ان کے ’قبول عام‘ ہونے اور نہ ہونے کا  پیمانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی سازش کرنے والوں کو میڈیا کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش میں امریکہ بھی پوری طرح سے شریک ہے۔
     خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس ’مسئلے‘ کو مزید ابھارا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے ’محافظ‘ امریکہ کو مودی قابل قبول نہیں ہے.... بحث مباحثہ جاری رہے گا اور پھرلوک سبھا انتخابات سے قبل اچانک مودی کا ویزا جاری کردیا جائے گا اور پھرعوام پر یہ جتانے کی کوشش کی جائے گی کہ مودی کے سارے گناہ دُھل گئے۔
    مودی حامیوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے اگر گجرات کے وزیراعلیٰ کو شرف مہمانی بخش دیا تو  ان  کے دامن پر لگے داغ صاف ہوجائیںگے، وہ سبھی کیلئے قابل قبول ہوجائیںگے اور اس طرح ان کا وزیراعظم بننے کا راستہ مزید آسان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نادان دوست بھی اس سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ مودی کو ویزا دینے کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔  انہیں لگتا ہے کہ مودی کا امریکہ جانا ہندوستان کے سیکولرازم کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہاں ذہن میں چند سوالات ابھر رہے ہیں؟
n کیا امریکہ جانے سے مودی کے دامن پر لگے تمام دھبے صاف ہوجائیں گے؟
nکیا ۲۰۰۲ء کے فساد ات کے دوران ان کے کردار کو لوگ بھول جائیں گے؟ 
nکیا ان کے  تعصب اور ان کی تنگ نظری پر پردہ پڑ جائے گا؟
nکیا امریکہ کو انصاف کا علمبردار اور حقوق انسانی کا محافظ سمجھا جا سکتا  ہے کہ محض اس کی میزبانی سے کسی کی شبیہ تبدیل ہوجائے؟
nکیا امریکہ جانے سے مودی سیکولر ہوجائیںگے  اورانہیں کلین چٹ مل جائے گی؟
    ہمیں نہیں لگتا کہ کہیں سے بھی اس کا جواب ’ہاں‘ میں آئے گا؟ ان حالات میں سیکولر طاقتوں کو فکر مند یا خوفزدہ ہونے اور اس  معاملے کو مسئلہ سمجھنے کی  بھلا کیا ضرورت  ہے؟
    مودی کے حامی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر رائے دہندگان کی حمایت کے بغیر مودی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکولر عوام ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔  گجرات فساد میں مودی کا کردار سب پر عیاں ہے۔ کسی عدالت سے ثابت ہونے کے بعد ہی انہیں مجرم سمجھاجائے گا، ایسا نہیں ہے؟   یہی وجہ ہے کہ اب وہ چور دروازہ استعمال کررہے ہیں۔ ہندوستانی عوام  یا ہندوستانی عدالت سے کلین چٹ ملنا آسان نہیں ہے، لہٰذا امریکہ کی مدد لی جارہی ہے۔  امریکہ اور یورپی یونین کو بھی  ہندوستان میںایسا ہی وزیراعظم چاہئے جو کارپوریٹ دنیا کا محافظ بن کر رہے۔ بلا شبہ منموہن سنگھ ان کے اعتماد پر پورے اُتر رہے ہیں لیکن  ان طاقتوں کو اس بات  پر شبہ ہے کہ اس مرتبہ یوپی اے کی کمان  منموہن سنگھ کے ہاتھوں میں رہے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں کام کرتے ہوئے مودی کو دنیا نے دیکھا ہے، اسلئے ان  کیلئے  پورے زور وشور کے ساتھ لابنگ چل رہی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سازش میں بھی  سیکولر  عوام   اورمسلمانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    مودی امریکہ جائیں یا نہ جائیں یا وہ کہیں بھی جائیں، اس سے   سیکولر عوام مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ..... لیکن تاثر یہی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی کے امریکہ نہ جاپانے سے مسلمان بہت خوش ہیں۔ رکن پارلیمان محمد ادیب اوران کے ۶۵؍ ساتھیوں کا اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کرنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جانے انجانے میں وہ بھی اس سازش کا شکار ہو گئے ہیں اور اس تشہیری مہم  میں وہ مودی کا ساتھ دے رہے ہیں ورنہ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ مودی کہاں جاتے ہیں اور کہاں نہیں؟ امریکہ اوراسرائیل کے تعلق سے مسلمان یوں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہر اس عمل کی حمایت کرتے ہیں ، جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے  اور تکلیف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب گجرات فساد کے الزام کے تحت مودی کو ویزا نہ دینے کی بات منظر عام پر آئی تو فوری طور پر یقین نہیں آیا لیکن جب اس پر غور کیا گیا توشبہ ہواکہ یہ ایک گیم پلان کا حصہ ہو سکتا ہے۔  مطلب یہ کہ الیکشن سے قبل کسی بہانے مودی کو امریکہ بلایا جائے گا اور پھر ہندوستانی میڈیا کو یہ شور برپا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ اب امریکہ یعنی پوری دنیا کیلئے مودی قابل قبول ہوگئے ہیں، پھر ہندوستانی عوام کب تک انہیں مجرم سمجھتے رہیںگے؟
     اس سازش میں شریک لوگوں کاخیال ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ مودی کو معاف کردے گا  .....لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا؟ ہمیں نہیں لگتا۔ ہندوستان کی اکثریت آج بھی سیکولر ہے جو کسی بھی صورت میں مودی کو اقتدار تک پہنچنے نہیں دے گی۔ بی جے پی اور اس کی آئیڈیالوجی کو پسند کرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اسے مرکزی اقتدار سونپ سکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کے بعدبھی بی جے پی اپنے بل بوتے پر اقتدار تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ فرقہ پرستی کے چولے کو اتارنے کے بعد ہی اسے مرکز میں اقتدار کا موقع مل سکا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے فساد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو بے دخل کردیا گیا  ۔ وہ دن اور آج کا دن ، بی جے پی ، وہاں پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے لیکن بات کچھ بن نہیں پارہی ہے۔ اس کیلئے اب اس نےنئی  سازش کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔
    بہرحال سیکولر رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا  بھی یہی خیال ہے کہ امریکہ کا ویزا مل جانے سے مودی کو کلین چٹ نہیں مل جائے گی لہٰذا اس موضوع پر مسلمانوں کے حوالے سے کسی کو   دُبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

Saturday, 13 July 2013

Muslim numaindon ki be hisi par musalmano ko sharmindagi

مسلم نمائندوں کی بے حسی پر
عام مسلمانوں کو افسردگی و شرمندگی کا سامنا

قطب الدین شاہد

گزشتہ ۲؍ہفتوں میں ۲؍ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو افسردگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں واقعات تو محض ایک علامت ہیں، ورنہ اس طرح کے واقعات سے عام مسلمانوں کا سابقہ روز پڑتا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر وہ اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔
     پہلا واقعہ انٹیلی جنس بیورو کے چیف آصف ابراہیم صاحب کی اس جدوجہد کا ہے، جس میں وہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں ماخوذ اپنے ایک افسر راجندر کمار کو بچانے کیلئے سی بی آئی کے اعلیٰ افسروں سے لڑرہے تھے۔ اگر ان کا افسرِ مذکور بے قصور ہوتا اوراس کے متعلق ان کے پاس کچھ دلائل ہوتے تو ان کے اس قدم پرکسی کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ ان کے جرأت کی داد دی جاتی کہ وہ ایک مظلوم کا دفاع کر رہے ہیں مگر وہ صرف اور صرف اس لئے انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اس کی وجہ سے آئی بی کی حوصلہ شکنی ہو رہی تھی۔
    کہاجاتا ہے کہ راجندر کمار بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے میں بھی رازدار ہیں۔ آصف ابراہیم صاحب کے اس رویے سے ہندوستانی مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔ کہاں تو ان سے اُمید کی جارہی تھی کہ وہ حصولِ انصاف کی راہیں ہموار کریںگے اور کہاں مسلمانوںکو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پیشتر جب انہیں اس عہدے کے لائق سمجھا گیا تھا اور اس کااعلان ہوا تھا تو مسلمانوں نےخوشی کا اظہار کیاتھا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے.... اس حساس عہدے کی باگ ڈور پہلی مرتبہ کسی مسلم افسر کو سونپی گئی تھی۔ دراصل آئی بی  اور اے ٹی ایس جیسی تنظیموں سےمتعلق مسلمانوں میںکافی بدگمانیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ ان کی تقرری کے بعد عام مسلمانوں نے  یہ سمجھا تھا  اب ایسا کچھ نہیں ہوگا، جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا تھا...... یعنی دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں رُک جائیںگی اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو نے لگے گا۔ آصف ابراہیم صاحب  انٹیلی جنس بیورو کے چیف ہیں لیکن انہیں شاید یہ خبر نہ ہو کہ ان کی تقرری پر سادہ لوح مسلمانوں نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی تھیں۔
    وہ بہت خوش تھے، انہیں اپنا سمجھتے تھے لیکن ایسا سمجھتے ہوئے مسلمان ان سے کسی جانب داری کی توقع نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف انصاف چاہتے تھے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، جس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کی عدالتوں نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے۔
     ان حالات میں مسلمانوں نے ان سے اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیںگے اور یہ سلسلہ اب رُک جائے گا۔ ایسے میں انصاف دلانے کے بجائے جب انہیں مبینہ طور پر انصاف کی راہ میں حائل  ہوتے دیکھا گیا تو مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔
    دوسرا واقعہ نور محمد دوست محمد پٹھان(این ڈی پٹھان) کا ہے  جو اس وقت جیل  کی ہوا کھا رہے ہیں۔ یہ صاحب مہاراشٹر حکومت میں وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تھے۔ ان پر اوقاف کی ملکیت میں لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے  جبکہ ان پر ان زمینات کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کوشرمندہ کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی غیر مسلم افسر ماخوذ ہوتا اور اس کیلئے جیل جاتا تو  اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی این ڈی پٹھان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نمائندوںسے عام مسلمان بہت ساری اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام و خواص کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ اپنے اخلاص اور سادہ لوحی کی وجہ سے عام مسلمان یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ اس جگہ پہنچنے والے افسر ہوں یا وزیر  یا پھر کوئی عہدیدار.... ان میں سے بیشتر کو قوم و ملت کی نہیں، صرف اپنی پروا ہوتی ہے۔ وہ اپنا ’اسٹیٹس‘ بڑھانے اور دولت و شہرت جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں لہٰذااس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی آقاؤں کو خوش کریں۔ اُن کا انجام اِن لوگوں کے سامنے ہوتا ہے جو قوم و ملت کی بات کرنے پر ’ٹھکانے‘ لگادیئے جاتے ہیں۔
    ضروری نہیں کہ سبھی اس معیار پر پورے اُتریں، کچھ مسلم افسر، عہدیدار اور وزیر وں کو اس بات کااحساس رہتا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ علیٰحدہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے لہٰذا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
    انتخابات ہوں یا امتحانات... جب ان کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں تو عام مسلمان سب سے پہلے اس میں اپنے نمائندوں کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ تعداد اگر خاطر خواہ ہے تو اس پر جشن مناتا ہے، بصورت دیگر افسوس کرتا ہے۔ تعداد کی کمی کی وجوہات اگر سیاسی ہوئیں تو اس کیلئے احتجاج بھی کرتا ہے..... ’یوپی ایس سی‘ کے امتحان میں ہر سال ۳؍ساڑھے ۳؍فیصد مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
     اکثر دیکھاگیا ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونےوالوں کے اعزاز میں جلسےہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں اور ان پر فخر کااظہار کیا جاتا ہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پرکسی مسلم افسر کی تقرری ہوتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ شخص اسی گھر کا ایک فرد ہے۔ محمد اظہرالدین، ثانیہ مرزا، محمد کیف، ظہیر خان اور عرفان پٹھان....  ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے اور کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمان  مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
    اسی طرح لوک سبھااور اسمبلیوں کے انتخابات میں عام مسلمان جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا، وہ  صرف اور صرف مسلم ہونے کی وجہ سے کسی اُمیدوار کو ووٹ دیتا ہے اور اس کے جیتنے پر خوشی کااظہار کرتا ہے۔ مرکزاور اسمبلیوں میں جیتنے والے مسلم نمائندے بھلے ہی اس بات کو فراموش کردیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی کامیابی میں عام مسلمانوں کا حصہ ہے لیکن یہ بات   جگ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں ٹکٹ بھی اسی لئے ملتا ہے کہ وہ مسلمان  ہیں اور انہیں ووٹ ملنے کی بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔
    مسلمانوں کونمائندگی دینے کے نام پر عام مسلمان سیاسی جماعتوں سے جھگڑا مول لیتا ہے، مورچہ نکالتا ہے، احتجاج کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر لاٹھیاں اور بندوق کی گولیاں بھی کھاتا ہے لیکن اس کے بدلے اسے کیا ملتا ہے؟ ان کے مطالبے اور احتجاج پر جن صاحب کو مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملتا ہے، تھوڑے ہی دنوں میں وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس مقام تک پہنچنے میں عام مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے؟  وہ اسے اپنی ذاتی محنتوں کا ثمرہ سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ وہ اپنی محنت و صلاحیت سے  اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن ..... کیا ان کی اس کامیابی میں عام مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی عزت افزائی سے اگرعام مسلمان خوش ہوتے ہیں تو ان کی رسوائی سے عام مسلمان شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کسی مسلم طالب علم کے امتحانات میں نمایاں کامیابی پر، کسی مسلم افسر کی ترقی پر یا کسی سیاست داں کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اپنا سمجھنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ افسردگی اور شرمندگی کا سامنا اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ  انہیں  اپنا سمجھتے ہیں؟  دوسرا اور دِقت طلب حل یہ ہے کہ مسلمان کردار سازی پرتوجہ دیں۔ طلبہ پر محنت کریں اور  انہیں بچپن ہی سے اس بات کااحساس دلائیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ مسلمان جنہیں انسانیت کی فلاح کیلئے دُنیا میں امام بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر اس محاذ پر محنت کی گئی تو ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج ضرور برآمد ہوںگے۔n

Saturday, 15 June 2013

Advani hamdardi ke mustahiq nahi

اڈوانی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں
ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا
قطب الدین شاہد

نفرت کی سیاست کرنےوالے اور اس کے سہارے ’ترقی‘کی منزلیں طے کرنےوالے لال کرشن اڈوانی کیلئے یہ ہفتہ بہت ہی کربناک رہا ہوگا۔ بہت جلد وہ اپنے سیاسی انجام کو پہنچ گئے ..... ان کا جو انجام ہوا، یہ تو خیر ہونا ہی تھا  ، انصاف پسند عوام کواس کا انتظار بھی تھا لیکن یہ اتنی جلدی ہوگا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ملک اورعوام کوجو کچھ دیا ہے،  وہ  ایک ایک کرکےانہیںلوٹایا جا رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی  نے اس شعر میں اپنے بارے میں کہا تھا کہ:

 دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
 جو کچھ مجھے دیا ہے، لوٹا رہا ہوں میں

    اس کے مفہوم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اڈوانی اپنے بارے میں یہ کہہ کر تسلی کر سکتے ہیں کہ

دنیا کو فسادات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے میں نے، لوٹا رہی ہے وہ


    ملک کی تقسیم  کے وقت  ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات   سے لے کر بابری مسجد کی شہادت ،پھرگجرات میں مہینوں تک جاری رہنے والےفسادات میں لال کرشن اڈوانی  کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، کمیشن اورعدالتیں بھلے ہی انہیں مجرم ثابت نہ کریں یا نہ کرسکیں لیکن ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت   کے سامنے اڈوانی کا کردار پوری طرح واضح رہا ہے۔اڈوانی کے ساتھ ان کی پارٹی نے جو سلو ک کیا، وہ حق بجانب ہو یا نہ ہو...... لیکن  یہ بات اپنی جگہ پوری طرح درست ہے کہ وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔
     ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے وجود میں آنے والی آر ایس ایس سےایل کے اڈوانی کا تعلق زمانہ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی عمر سے۲؍ سال چھوٹے اڈوانی بہت جلد اپنی’ فعالیت اور سرگرمی‘ کے سبب اس تنظیم کے اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور  ۲۰؍ سال کی عمر میں انہیں کلیدی عہدہ  بھی تفویض کردیا گیا تھا۔  ۱۹۴۷ء کے اوائل میںیہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ، کراچی کے سیکریٹری منتخب ہوئے.... لیکن تنظیم کے منظور نظر اُس وقت ہوئے جب تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نےانہیں   الور،  راجستھان بھیجا۔ اُس وقت  دہلی اور پنجاب کی طرح الور میں بھی بھیانک قسم کا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
    لال کرشن اڈوانی صرف مسلمانوں کے خلاف پیش پیش نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔۲۲؍ جنوری ۱۹۹۹ء کو آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینس اپنے ۶؍ اور ۱۰؍ سالہ دو بچوں کے ساتھ جب اڑیسہ میں زندہ جلاد یئے گئے تھے، تو اس وقت  مرکز میں اڈوانی ہی وزیر داخلہ تھے۔ ۱۹۸۹ء میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تو یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت میں ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور رام مندر کے  نام پرپسماندہ طبقات کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی تھی ۔
    لال کرشن اڈوانی کا کارنامہ صرف  ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژکرنا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جب اور جہاں موقع ملا ہے، انہوں نے ’اپنوں‘ کے ساتھ بھی دغا بازی کی ہے اور ان کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔  شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو اڈوانی کو اپنے ساتھ رکھا۔  بی جے پی، جن سنگھ  اور جن سنگھ، آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ان کے نظریات اور پالیسی میں کسی قسم کا فرق تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن بظاہر اوراعلانیہ پالیسیوں کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سنگھ ، بی جے پی سے کہیں زیادہ سخت گیر تھی۔ اس کے مختلف عہدوں کو’ رونق‘ بخشتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں  اڈوانی اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے جو پہلا کام کیا، وہ جن سنگھ کے بانی رکن بلراج مدھوک کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اڈوانی اپنے علاوہ کسی اور لیڈرکو آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے تھے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے کئی چھوٹے موٹے مہروں کو آگے بڑھایا لیکن جب وہ آگے بڑھنے لگے تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا۔ کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا کسی زمانے میں ان کے معتمد خاص تھے اور انہی کی وجہ سے پارٹی سے نکالے بھی گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طبقے میں کلیان سنگھ ’مقبول ‘ہونے لگے تو اڈوانی کو خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ کلیان کے تعلق سے بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کی سوداگری کی تھی تو ذلیل و خوار ہونا اُن کا بھی مقدر ٹھہرا۔ آج وہ بی جے پی میں ضرور ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا اڈوانی کے دورِ صدارت  ہی میں پارٹی سے باہر کئے گئے تھے۔ اڈوانی  پرتنقید کی پاداش میں ۲۰۰۴ء میں اوما بھارتی کو بی جے پی سے دھتکارا گیاتھا جبکہ گجرات میں خودکو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش میں ۱۹۹۶ء میں واگھیلا اڈوانی کی سازشوں کے شکار ہوئے تھے۔ یہاں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام دودھ کے دھلے تھے اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی بلکہ ان کو بھی وہی ملا جس کے وہ حقدار تھے  اور ان کےساتھ بھی وہی ہوگا جو آج خود کو بہت بااختیار اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔   
     اڈوانی ذلیل ہوئے بھی تو کس کے ہاتھوں؟  وہی جسے دودھ پلا پلا کر انہوں نے توانا کیا تھا۔ گجرات فساد  میں مودی کے کردار پر کسی طرح کی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس فساد کو اتنا طول دینے میں اور اس قدر تباہ کن بنانے میںکس کا رول رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس وقت مودی کی پشت پرکس کا ہاتھ تھا اورانہیں کون شہ دے رہا تھا؟ اُس وقت لال کرشن اڈوانی مرکز میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم تھے۔
      اڈوانی کی اس حالت زار پر بعض حلقوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افسوس کااظہار کرنا غلط نہیں تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں  معصوم بنا کر پیش کرنا بالکل غلط بات ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا، جس کے وہ مستحق تھے۔