Wednesday, 17 June 2015

Gaadiyon ka Nasha
گاڑیوں کا نشہ

اپنےاطراف میں نظر دوڑاؤ تو ایسے شرفاء کی تعداد انگلیوں پر شمار کئے جانےاتنی ہی ہوگی جن پر دولت و امارت کا نشہ نہیں چڑھتا ورنہ بیشتر کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار ضروری سمجھتےہیں۔ بالخصوص دولت مندوں کا وہ طبقہ جو مہنگی گاڑیوں سے چلتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہوتی ہے جو پیدل چلنے والوں یااپنی سے چھوٹی گاڑی پر چلنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ راستہ نہ ملنےپرکبھی صرف گھور کردیکھنے پر اکتفا کرتے  ہیں تو کبھی کبھار  اپنی نفرت کا برملا  اظہار بھی کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں ہونےوالی ہنگامہ آرائی پر  صفائی پیش کرتے ہوئے اپنی  شرافت کی دلیل ہی یہی دی تھی کہ میں اتنی مہنگی گاڑی سے چلتا ہوں، میں بھلا اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہوں؟ اس بیان سے اس شخص کی رعونت جھلک رہی تھی۔
        افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم  دولت مندوں میں  یہ رعونت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ تنگ گلیوں میں جب وہ گاڑی لے کر نکلتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لال بتی کی گاڑیوں کی طرح، لوگ ان کی گاڑی کو نکل جانے دیں،انہیںدیکھ کرراہ گیر تتربتر ہوجائیںاور حیرت و استعجاب سے انہیں اور ان کی گاڑی کا نظارہ کریں۔ ایسا سوچنے والوںکی تعداد بہت مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کی وجہ سے دو طبقوں کے درمیان نفرت کا ماحول آج بھی قائم ہے۔
     گزشتہ دنوں بھیونڈی کی ایک تنگ گلی میں ایسی ہی ایک بڑی گاڑی کی’ گھس پیٹھ ‘   سے بد مزگی پیدا ہوئی۔ اول تو یہ کہ راستہ تنگ ہے،  وہاں سے ایک وقت میں ایک ہی بڑی گاڑی گزر سکتی ہے۔ دوم یہ کہ اس راستے پرایک اسکول بھی قائم ہے، جہاں چھٹی کے وقت کافی بھیڑ ہوجاتی ہے۔  بڑی گاڑی کے آجانے سے وہاں کا ٹریفک نظام بری طرح سے درہم برہم ہوگیا۔ ایک طرف سے بچوں سے لدے پھندے رکشوں کی قطار تھی تو دوسری طرف بڑی گاڑی، درمیان میں بائک اور اسکوٹر کے ساتھ پیدل مسافروں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ معاملہ خراب نہ ہوگا اگر ’سیٹھ جی‘ اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے لے لیتے اور رکشوں کونکل جانے دیتے لیکن ایسا کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق یہ کام رکشے والوں کو کرنا تھا  لیکن  سچائی تویہ تھی کہ رکشوں کی اتنی طویل قطار تھی کہ ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد بڑی گاڑی کا بھی پیچھے ہٹنا دشوار ہوگیا۔ دونوں طرف سے راستہ  ایساجام ہوا کہ گھنٹوں تک وہاں سے کوئی نکل نہیں سکا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹریفک کی وجہ سے جز بز ہورہے تھے اور وہ موصوف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نہایت اطمینان سے ایف ایم پر گانے سن رہے تھے۔
    یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور  ان علاقوں میںضرور ہوتا ہے جہاں کی گلیاں تنگ ہوں اور چند مسلم نوجوانوں کے پاس  بڑی گاڑیاں ہوں۔ کیا اب  ہم انہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھیںگے؟
Kitabon k talabgaar
کتابوں کے طلبگار بہت ہیں
 
’اُدھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘کی طرز پر ایک زمانے تک’کتابیں مانگ کر نہ پڑھیں ‘لکھا جاتا رہا ہے۔  چند سال قبل تک بعض رسائل بھی یہ طنزیہ کہ فقرہ ’اردو کے اخبار اوررسائل خرید کر پڑھیں‘ تواتر کے ساتھ لکھتے رہے تھے لیکن اب دونوں باتیں یعنی مانگ کر نہ پڑھنے کی تنبیہ اور خرید کر پڑھنے کا ’مشورہ‘ عموماً نہیں دیا جاتاکیونکہ اب تومفت میں بھی پڑھنے  لالے پڑ گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پڑھنے کیلئے اگر کوئی صاحب کتاب مانگتے ہیں، تو بھی اچھا لگتا ہے۔
    مضامین جمع کرکے اسے کتابی شکل عطا کرنا اور اسے طباعت کے مرحلے سے گزار کر بحسن و خوبی گھر تک لانا، اب زیادہ مشکل نہیں رہا جتنا مشکل اسے پڑھنے والوں تک پہنچانا ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے تو یہ تک دیکھا ہے کہ کچھ لوگ مصنف کو یہ کہہ کر کتاب واپس کر دیتے ہیں کہ ’’بھئی پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے،کسی اور کو دے دینا۔‘‘  ان کا انداز تحقیر آمیز بھی ہوتا ہے، بالکل اسی طرح،جس طرح راستے میں چلتے ہوئے حکیموں کا وزیٹنگ کارڈ لینے سے ہم اور آپ انکار کرتے ہیں۔  ایسے وقت میں مصنف کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ وہ مسکراتا ضرور ہے لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے جو کرب   پوشیدہ ہوتا ہے،اسے وہ  فنکار ہی محسوس کرسکتا ہے جس کے فن کو غیر اہم بتاکر اسے سرِ عام رسوا کیا گیا ہو۔
     ان حالات میں جبکہ لوگ گھر پہنچا کر ملنے والی مفت کتابوں کو لیناگوارہ نہیں کرتے، اگر کہیں یہ دیکھنے میں آئے کہ کتاب کی اجرائی تقریب میں پورا ہال بھر جائے اور اردو والے کھڑے ہوکر صاحب کتاب کی حوصلہ افزائی کریں تو اچھا لگتا ہے، ایک قرار آتا ہے اور اطمینان ہوتا ہے کہ اردو سے محبت کرنے والوں کی آج بھی کمی نہیں ۔ اس وقت انہیں چیلنج کرنے کا دل کہتا ہے جو اُردو کے تئیں مایوسی کی باتیں کرتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں ، دیکھیںاور اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔
    گزشتہ دنوں بھیونڈی میں ۲؍ کتابوں کا اجراء ہوا اور دونوں تقریبات کے حوالے سے یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پہلی کتاب عزیز نبیل کی ادارت میں شائع ہونےوالی ’دستاویز‘ تھی جس میں انہوں نے اردو کے غیرمسلم شعرا ء کا مختصر تعارف اوران کے نمونۂ کلام کو یکجا کیا  ہے جبکہ دوسری کتاب رونق افروز کی تھی جس میںانہوں نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کو شامل کیا ہے۔ دونوں جگہ صاحب کتاب کی بھرپور پزیرائی ہوئی اوران کی کوششوں کو خوب سراہا گیا۔
      مذکورہ اجرائی تقریب سے دو ہفتے قبل بھیونڈی میں مزید ۲؍ کتابوں کی رونمائی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر محمود حسن  کے مضامین کامجموعہ’ مقالات محمود‘ اور محمد رفیع انصاری کے انشائیوں کا مجموعہ’غریب خانہ سجا رہا ہوں ‘کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ایک ماہ میں رونما ہونےوالی یہ چاروں تقریبات  سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُردو کتابوں کے طلبگار آج بھی بہت ہیں، مایوسی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔

Saturday, 21 June 2014

kahan gayi bedaari aur kahan gayi tahreeken?

کہاں گئی ہماری تعلیمی بیداری اور کہاں گئی ہماری تحریکیں؟

۱۹۹۷ء میںتنویرمنیار کی کامیابی کےبعد پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر محسوس کی گئی تھی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے دسویں میں ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔   الماس سید نے بارہویں میں اور  ڈاکٹر  شاہ فیصل نے یوپی ایس سی میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے  اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا ....
لیکن  اب  کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے؟ کیا ہماری تعلیمی تحریک جمود کا شکار ہورہی ہے یاہم نام و نمود کے جال میں پھنس گئے ہیں؟

قطب الدین شاہد

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستانی مسلمان بالکل ٹوٹ کر رہ گئے  تھے۔ قانو ن و عدالت کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے مذہبی جنونیوں کے ایک گروہ نے مرکزاور ریاست کی کانگریس اور بی جے پی حکومتوں کی سرپرستی اور فوج کی موجودگی میں بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیاتھا۔اس کی وجہ سے مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے تھے کیونکہ یہ صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے نام اس گروہ کا یہ پیغام بھی تھا کہ اب تمہیں دستوری تحفظات نہیں بلکہ ہمارے رحم و کرم کا محتاج بن کر رہنا ہوگا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا ٹوٹ جانا اور ان کے حوصلوںکا پست ہوجانا فطری تھا۔
    لیکن وہ مسلمان ہی کیا جو اس طرح کے نامساعد حالات سے گھبراجائے ۔ کشتیاں جلاکر اپنا ہدف طے کرنے والی قوم جب خلوص و ایمان کی طاقت سے کوئی معرکہ سرکرنا چاہتی ہے تو مشکلات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن پاتیں۔ بابری مسجد کی شہادت اوراس کے بعد پورے ملک میں پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بھی یہی ہوا۔ مسلمانوں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ سرخروئی چاہئے تو قوم کی تعلیمی صورتحال کو بدلنا ہوگا اور تعلیمی پسماندگی کے اس دلدل سے باہر نکلنا ہوگا۔ سابق بیوروکریٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد کی قیادت میں نکلنےوالے تعلیمی کارواں   نے پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ۱۹۹۷ء میں مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر شولا پورسے تنویر منیار کی صورت میں روشنی کاایک مینار بلند ہوا۔  اردو میڈیم کے اس طالب علم نے دسویں کے امتحان میں ریاست  کے لاکھوں طلبہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔  یہ کامیابی کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں تھی اور یہ صرف تنویر ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس کامیابی میں پورا شولا پور، پوری ریاست اور پورا ملک شریک تھا۔
     اس کامیابی پرشولا پور کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے مسلمان ناز کررہے تھے۔  اپنی کامیابی کی خوشبو سے انہوںنے پوری فضا کو معطر کردیا تھا اورسبھی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ وہ صرف اپنی امی کے بیٹے نہیں رہ گئے تھے بلکہ ان کی صورت میں تمام ہندوستانی مسلم ماؤں کو اپنے بیٹے کی صورت نظر آنے لگی تھی، سبھی اُن کی بلائیں لیتی تھیں  اور انہیں دعائیں دیتی ہوئی نظر آرہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا بھی انقلاب لائے اور ہندوستانی مسلمانوں کے عزت اور وقار میں اضافے کا باعث بنے۔
    بابری مسجدکی شہادت کے بعد پہلی بار ہندوستانی بالخصوص مہاراشٹر کے مسلمانوں کو خوش ہونے کا موقع ملا تھا۔بلاشبہ تنویر کی کامیابی میں ان کی اپنی اوران کے والدین و اساتذہ کی بے پناہ محنتیں شامل تھیں لیکن اتنی بڑی کامیابی صرف محنتوں سے نہیں ملا کرتی بلکہ اس کامیابی میں پورے ملک کے مسلمانوں کی دعائیں اور نیک تمنائیں بھی شامل تھیں۔ تنویر کی کامیابی کوئی اچانک اورانہونی کامیابی بھی نہیں تھی بلکہ اس کی توقع تھی اورامید کی جارہی تھی کہ اس تعلیمی بیداری کا کوئی تو نتیجہ برآمد ہوگا لیکن یہ تنویر کہاں سے ابھرے گا، اس کا  اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
    ہمیںاچھی طرح یاد ہے، تنویر منیار نے جس سال ایس ایس سی میں مہاراشٹر ٹاپ کیا  تھا، ہم بھیونڈی میں تھے۔ اُس وقت ہمارا تعلق کسی اخبار سے نہیں تھا۔ انٹرنیٹ عام افراد کی پہنچ سے دور تھا، اس وقت اخبارات کے دفتر ہی قبل از وقت خبریں فراہم کرنے کا ذریعہ ہواکرتے تھے، بالخصوص وہ خبریں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح  قوم و ملت سے ہوتاتھا۔ ہم نے بھی  اسی ذریعہ کااستعمال کیا اور’ انقلاب ‘کے دفتر میں فون کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس مرتبہ کیا رزلٹ رہا اور میرٹ میں’ اپنا‘ کوئی ہے کہ نہیں!  اور جب یہ خوشخبری ملی کہ نہ صرف یہ کہ میرٹ میں اپنے کئی طلبہ ہیں بلکہ پوری ریاست کو اردو کے ایک طالب علم نے فتح کرلیا ہے تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ تھوڑی سی تفصیل لے کر اپنے دوستوں کی مدد سے ہم نے اسے شہر کی کئی دیواروں پرلکھ بھی دیا جس کی وجہ سے  تھوڑی ہی دیر میںیہ خوشخبری پورے شہر میں پھیل گئی۔
    دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی حالت دیکھنے جیسی تھی، بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی روتے روتے ہنس پڑا ہو۔ مسرت کے آنسو اُن چہروں پر بھی نظر آرہے تھے جو جانتے بھی نہیں تھے کہ ایس ایس سی امتحان کیا ہوتا ہے اور میرٹ کس چڑیا کا نام ہے، وہ بس اتنا جانتے تھے کہ ایک مسلم بچے نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ممبئی، بھیونڈی، کلیان، مالیگاؤں، پونے، اورنگ آباد، جلگاؤں اور ریاست کے دیگر شہروں میں تنویر منیار کا زبردست استقبال کیا گیا تھا۔ تنویرنے یقیناً پورے ملک کے مسلمانوںمیں خوشی کی لہردوڑادی تھی۔ اس کامیابی کے بعد وہ سب کے اپنے ہوگئے تھے اور سب ان کے اپنے ہوگئے تھے۔ بھیونڈی میں انجمن فروغ تعلیم نے جب انہیں مدعو کیا تو شہر میں عید جیسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ تنویر کے استقبال اور خیر مقدم میں  جگہ جگہ بینر لگے  ہوئےتھے اور کوٹرگیٹ مسجد کے پاس ایک شاندار استقبالیہ گیٹ بھی بنایا گیاتھا۔ ٹھاکرے ہال میں انہیں دیکھنے کیلئے ایک خلقت امڈ پڑی تھی۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، ہال کے باہر بھی بہت سارے لوگ موجود تھے۔  یہ تقسیم انعامات کا پروگرام تھا لیکن  وہ طلبہ بھی جنہیں انعام ملنے والاتھا، حصول انعام سے زیادہ تنویر سے ملاقات کے متمنی تھے۔ ہر کوئی تنویر کو دیکھنے کا تمنائی تھا اوران سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ اپنی ہی جیسی مٹی کا بنا ہوا کوئی انسان ہے یا کوئی اور ہے۔ یہی صورتحال ممبئی، کلیان، جلگاؤں، مالیگاؤں اور پونے میں بھی تھی۔
    اس کامیابی نے ایک راہ ہموار کی۔طلبہ میں جوش بھر گئے تھے۔ والدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ قوم کی سربرآوردہ شخصیتوں نے اخلاص کے ساتھ   اس مشن کو آگے بڑھایا اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔  اس فہرست میںزرین انصاری ، رضوانہ انصاری، بلال مستری، خان صبا شریف اورواجدہ کاریگر کانام لیا جاسکتا ہے۔ کئی دیگر ریاستوں کے بورڈوں میں بھی مسلم طلبہ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔   ۲۰۰۹ء  میں الماس ناظم سید نے اس مشن کو اور آگے بڑھایا جب انہوں نے  بارہویں میں مہاراشٹر ٹاپ کیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں میں مسرت کی یہی کیفیت تھی۔الماس کو دیکھنے اور سننے کیلئے بھیونڈی کے ٹھاکرے ہال میں گنجائش سے زیادہ افراد جمع ہوگئے تھے۔ اس  موقع پر الماس نے ۱۵؍ منٹ کی تقریر کی تھی اور ا س مختصر وقفے میں انہوں نے اتنی  اثر انگیز باتیں کی تھیں جتنی ہمارے خطیب، مقرر اور سیاست داں  برسوں میں بھی نہیں کرپاتے۔گفتگو کے دوران الماس  کے والد نے بھی ایک پتے کی بات کہی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’کل تک الماس کو دیکھ کر لوگ کہاکرتے تھے کہ دیکھو! ناظم کی بیٹی جارہی ہے لیکن آج مجھے دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! الماس کے ابو جارہے ہیں۔ یہ میرے لئے بجاطور پر فخر اور خوشی کی بات ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ الماس جیسی بیٹی پاکر کون باپ خوش نہیں ہوگا؟ اس موقع پر ہم نےہال میں موجود بیشتر بچوں کی آنکھوں کی ایک چمک سی محسوس کی تھی کہ وہ بھی سرخرو ہوکر اپنے والدین کو اسی طرح سر بلندی کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کریںگے۔
    اس کارواں کو مزید آگے بڑھایا ڈاکٹرشاہ فیصل نے۔ ۲۰۱۰ء میںہندوستان کے سب سے سخت اور قابل رشک مقابلہ جاتی امتحان میں۴؍ لاکھ سے زائد طلبہ کے درمیان اول مقام حاصل کرنے والے ڈاکٹر شاہ فیصل نے عزم محکم اور عمل پیہم کو اپنی کامیابی کی کلید قرار دیا۔ کامیابی کے بعد انہوں نے ایک ایسی بات کہی  جسے ہم جیسے اُن تمام لوگوں کو اپنی گرہ میں باندھ لینا چاہئے جو موقع بے موقع جواز اور بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا  تھاکہ ’’۸؍ سال قبل جب چند دہشت پسندوں نے والد صاحب کو قتل کردیاتو میرے سامنے دو ہی راستے تھے ، یا توخود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں یا پھر تن کر کھڑا ہوجاؤں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کروں.... اور پھر میں نے آخرالذکر فیصلہ کیا۔‘‘
    ان کامیابیوں نے بعد کے طلبہ کو کافی حوصلہ بخشا اوراس کے خاطر خواہ نتائج بھی دیکھے گئے۔ ملاحظہ کریں ایک مثال۔  تنویر منیار نے جس سال کامیابی حاصل کی تھی، اس سال یعنی ۱۹۹۷ء میں بھیونڈی میں صرف  ۹؍ طلبہ نے امتیازی اور ۱۱۹؍  نے اول درجے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن تنویر کی کامیابی سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے سال ۳۳؍ طلبہ امتیازی اور ۲۲۳؍ اول درجے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد بلال، زرین اوررضوانہ کی کامیابی سے حوصلہ پانے کے بعد  یعنی ۲۰۰۰ء میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنےوالے طلبہ کی تعداد ۴۳؍ اوراول درجے میں کامیاب ہونےوالوں کی تعداد ۳۹۵؍ ہوگئی۔
     یہ صرف ایک شہر کی مثال ہے،ورنہ یہی کیفیت  پوری ریاست اور پورے ملک کی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس بیداری پر غفلت کا سایہ پڑتا جارہا ہے۔اب کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے  جیسے ہماری تعلیمی تحریکیں جمود کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ اس موقع پر ہم سب یعنی والدین، اساتذہ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، سماجی اداروں کے سربراہ اور قوم کے خیرخواہوں کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خلوص کا دامن ہم سے چھوٹتا جا رہا  ہے اور ہم نام و نمود کے چکر میں اپنے سرمائے کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں؟

Tuesday, 7 January 2014

Roznaamcha_ SMS

ایس ایم ایس فارورڈ کرنے سے قبل غور کرلیں


 قطب الدین شاہد

 کچھ دنوں قبل ’کوبرا پوسٹ‘ نے ایک انکشاف کیا تھا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پیسے لے کر سوشل میڈیا کے  ذریعہ لوگوں کی شبیہ بنانے اور بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔ ۲۲؍ دسمبر کو ’سائنس اور سماج‘ کے کالم میں اسی موضوع پر پروفیسر سید اقبال صاحب نےبھی  ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون تحریر کیا ہےجس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سیاستداں اور کارپوریٹ گھرانے عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں اور سچ پر جھوٹ کا ملمع چڑھا کر  انہیںگمراہ کرتے ہیں۔ خیر یہ ان کا کام ہے، وہ کرتے رہیں گےکیونکہ اس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے مگر افسوس تو یہ جان کر ہوتا ہے کہ نادانستگی میں  ہم بھی ان کا  آلہ کار بنتے ہیں۔  ان دنوں ایس ایم ایس اور ای میل  فارورڈ کرنے کاایک رجحان سا چل پڑا ہے۔ وہاٹس اپ نے اس سلسلے کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ یہ ایک طرح سے ہماری کمزوری بن گئی ہے کہ کہیں سے ہمیں کوئی ’اچھا‘ میسیج موصول ہوا توہم اسے پہلی فرصت میں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ دیکھنے اور غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ اس میں سچائی کتنی ہے ؟سماج اور قوم پراس کےکس طرح کے اثرات مرتب ہوںگے اور یہ کہ کہیں ہم کسی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں؟
       یہ بات ہم بہت دنوںسے سنتے آرہے ہیں کہ بی جے پی نے بڑے پیمانے پرایسے لوگوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو سوشل میڈیا کی مدد سے  اس کی اوراس کے لیڈروں کی شبیہ کو بہتر بنانے نیز مخالف جماعتوں کی شبیہ کو خراب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے لیکن انتخابی دنوں میں اس میں شدت آجاتی ہے۔ان ’شبیہ سازوں‘ کوچونکہ ہماری کمزوری کا پوری طرح سے علم ہے اس لئے وہ اس قدر ’خوبصورت‘ میسیج تخلیق کرتے ہیں کہ جب تک ہم انہیں دوسروں تک  پہنچا  نہ دیں، چین و قرار نہیں آتا۔
    گزشتہ دنوں مجھےکچھ ’پیغامات‘موصول ہوئے جنہیں اسی مہم کا حصہ کہا جاسکتا ہے لیکن جن صاحبان کی طرف سے مجھے  یہ میسیج ملے، ان کے تعلق سے قطعی نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جان بوجھ کر اس مہم کا حصہ بنے ہوں گے ۔ وہ کانگریس سے ناراض تو ہوسکتے ہیں لیکن بی جے پی کی حمایت کسی صور ت میں نہیں کرسکتے۔ملاحظہ کریں وہ ایس ایم ایس۔
    nایک آدمی مچھلی پکڑ کر لایا۔ بیوی دیکھتے ہی برہم ہوگئی، بولی: گھرمیں نہ گیس ہے نہ تیل۔ نہ نمک ہے نہ مسالہ، کیسے بناؤں مچھلی؟ اس شخص نے جھلاہٹ میں مچھلی کو اٹھایا اور جاکر تالاب میںپھینک دیا۔ پانی میں جاتے ہی مچھلی نے نعرہ بلند کیا ’’کانگریس زندہ باد۔‘‘
    nواہ کیا لاجک ہے: رام نے راون کو مارا ( آر  سے آر)، کشن نے کنس کو  (کے سے کے)، گوڈسے نے گاندھی کو (جی سے جی) ، اوبامہ نے اوسامہ کو ( او سے او) کرپشن مارے گا کانگریس کو(سی سے سی) اور مودی مارے گا منموہن کو ( ایم سے ایم )۔
    اس طرح کے ایس ایم ایس چونکہ صوتی اعتبار سے  اچھے لگتے ہیں، اس لئے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف فارورڈ کرتے ہیں بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ وہ بھی دوسروں کو اسے فارورڈ کریں۔
    اسی درمیان ایک اچھا ایس ایم ایس بھی موصول ہوا:
    nکانگریس  نے دس سال قبل جو  وعدہ کیا تھا ، اسے اب پورا کیا یعنی ’’ کانگریس کا ہاتھ ، عام آدمی کے ساتھ۔‘‘    
     اخیر میں بس یہی کہنا ہے کہ ایس ایم ایس اور ای میل ضرور فارورڈ کریں لیکن  اس سے  پہلے  ان پرغور کرلیں ۔

Aap ki hukumat ki tashkeel, tareekhi waqya

کیجریوال کی قیاد ت میں آپ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی اور انقلابی واقعہ
بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری، کانگریس خوش فہمی کا شکار، میڈیا تذبذب میں مبتلا
 
دہلی کے اسمبلی الیکشن میں’آپ‘ کی کارکردگی سے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا بھی حواس باختہ ہوگیا ہے لہٰذا کیجریوال اوران کے ساتھیوں کو گھیرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔ بی جے پی اوٹ پٹانگ بیانات کے ذریعہ جہاں اپنی بوکھلاہٹ ثابت کررہی ہے، وہیں کانگریس اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گر جائے گی اور ایک بار پھر دہلی کے پایۂ تخت پر اس کا قبضہ ہوگا۔ میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے
 
قطب الدین شاہد

دہلی انتخابات کی صورت میںعوام نے سیاسی جماعتوں کونہایت واضح انداز میں اپنا پیغام دے دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتہ ٔ دیوار ہے، اگر وہ اپنی بقا کی متمنی ہوں تو انہیں چاہئے کہ اسے پڑھ لیں، بصورت دیگربوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کرلیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاست داں اور سیاسی جماعتیں آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہیں اور اپنی اسی کج روی کا اظہار کررہی ہیں جو اناہزارے کی قیادت میں عوامی تحریک کے ساتھ کیا تھا۔ بلاشبہ اناہزارے کچھ ’طاقتوں‘ کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے تھے، اس لئے وہ تحریک بری طرح ناکام بھی رہی لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس نے عوامی جذبات کو جس طرح اپنی سیاسی پینترے بازیوں سے کچلنے کی کوشش کی تھی، اسے اس کا خاطر خواہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
    بی جے پی کی ذہنی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ تین ریاستوں میں حکومت بنا لینے اور دہلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرلینے کے باوجود ’آپ‘ کی کامیابی نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا ہے اوراسے اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ہے۔مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا کی مدد سے وہ جس تیزی سے اپنے مہرے کو آگے بڑھارہی تھی اور ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے منصوبے بنارہی تھی، دہلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی وہ مہرہ بری طرح پٹ گیا ہے۔تین ریاستوں میں کامیابی کو بی جے پی مودی کا کرشمہ ثابت کرنا چاہتی تھی اوراس طرح اپنے حامیوں کویہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اب دلی دور نہیں! لیکن کیجریوال کی حقیقی عوامی مقبولیت کے آگے بی جے پی کا طلسم ٹوٹ گیا اوریہ ثابت ہوا کہ عوام کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی سے بھی ناراض ہیں لہٰذا جہاں بھی انہیں کوئی بہتر متبادل ملتا ہے، وہ ان دونوں کوخاک چٹانے میںکسی تکلف  و توقف سے کام نہیں لیتے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار میں واپسی،  راجستھان کو کانگریس سے چھین لینے نیز دہلی میں  پہلے کے۲۳؍ کے مقابلے۳۱؍ نشستیں جیت لینے کے بعد بی جے پی لیڈروں کو جس پزیرائی کی امید تھی، وہ نہیں مل پائی جس کی وجہ سے  وہ بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؟’بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ‘ کے مصداق ارون جیٹلی کچھ کہہ رہے ہیں تو سشما سوراج اور راج ناتھ کچھ اور، اسی طرح وجے گوئل اور ہرش وردھن بھی الگ الگ سُروں میں راگ الاپ رہے ہیں۔
    ایک ہفتہ قبل تک یعنی جب تک کیجریوال کی پارٹی نے حکومت سازی کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے کی بات کہہ رہی تھی، بی جے پی لیڈران اس پر عوام سے فریب دہی کاالزام عائد کررہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ جب کانگریس بلاشرط  حمایت دے رہی ہے، تو وہ حکومت سازی سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟اور یہ کہ اگر دہلی میں دوبارہ انتخابات کی نوبت آئی تو اس صورتحال کی تنہا ذمہ داری ’آپ‘ پر ہوگی۔ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ’آپ‘ کے لیڈروں میں انتظامی صلاحیت نہیں ہے اس لئے وہ ذمہ داری لینے سے کترا رہے ہیں۔کچھ اسی طرح کی باتیں کانگریس کی جانب سے بھی آئیں..... اور اب جبکہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت سازی کا فیصلہ کیا گیا تو بی جے پی کی جانب سے ایک بار پھر عوام کے ساتھ فریب دہی کاالزام عائد کیا جارہاہے۔ کہا جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی بنیادی طورپر کانگریس کے خلاف  الیکشن جیت کر کامیاب ہوئی ہے، ایسے میں اسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ، عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔
     کیجریوال پر بیٹے کی قسم توڑ دینے کا ابھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ انتخابات کے دوران انہوں نے اپنے بیٹے کی قسم کھائی تھی کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیںگے۔  بی جے پی لیڈروں کے یہ تمام الزامات اس لئے بے بنیاد ہیں کہ یہاں ’آپ‘کی کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت سازی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ صرف اور صرف دہلی کو دوبارہ انتخابی اخراجات سے بچانے کی کوشش محض ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس اہم فیصلے کیلئے  کیجریوال نے عوام سے رجوع کیا،  بی جے پی اور کانگریس کی طرح  من مانی نہیں کی۔ ویسے بی جے پی اور کانگریس ہی کیا، دیگر علاقائی سیاسی جماعتیں بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں اوران کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہےکیونکہ یکے بعد دیگرے اپنے فیصلوں سے  کیجریوال ہندوستانی سیاست کو اس جانب لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، جہاں عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، ان کی بات سنی جاتی ہے اور حتی الامکان اس پرعمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  یہ باتیں آمریت پسند سیاسی جماعتوں کو بھلا کیوں کر راس آئیںگی۔؟
ٍ    ایک جانب جہاں بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہے، وہیںدوسری جانب کانگریس خوش فہمی کی شکار ہے۔ شروع شروع میں کانگریس کو لگا تھا کہ حکومت سازی کے اعلان ہی سے ’آپ‘ میں انتشار شروع ہوجائے گا اور وزارتوں کی تقسیم تک پوری پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس سمت میں کچھ کوششیں ہوئیں بھی لیکن ابھی تک ’آپ‘ کی جانب سے استقامت ہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کانگریس کے قدموں تلے سے بھی زمین کھسکنی شروع ہوگئی ہے۔ ’آپ‘ کے بجائے  کانگریس میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔ بہرحال کانگریس کاایک بڑا طبقہ آج بھی خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گرجائے گی، دوبارہ الیکشن ہوںگے اور پھر نتائج ان کے حق میں ہوںگے۔ ممکن ہے کہ یہ حکومت گرجائے اوریہ بھی ممکن ہے کہ  دوبارہ انتخابات ہوں لیکن مستقبل قریب میں کانگریس کی اقتدار میں واپسی کا امکان بہت کم ہے۔اس کیلئے کانگریس کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف مغربی بنگال، اترپردیش اور بہار میں اپنی تاریخ کا سرسری کا مطالعہ کرلے۔ ایک وقت تھا جب ان ریاستوں کی کانگریس بلا شرکت غیر ے مالک ہوا کرتی تھی مگر اب وہ وقت آن پڑا ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے کیلئے ابھی کسی بیساکھی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس کے باوجود وہ ٹھیک سے اپنی موجودگی درج نہیں کراپاتی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ دہلی میں انہی تینوں ریاستوں کے باشندوں کی اکثریت ہے۔  درمیان کے ایک دو سال کو چھوڑ دیا جائے تو مغربی بنگال میں ۱۹۷۷ء تک، اترپردیش میں ۱۹۸۹ء تک اور بہار میں ۱۹۹۰ء تک کانگریس کی حکومت رہی ہے، لیکن اس کے بعد جب عوام کوان ریاستوں میں کانگریس کا کوئی متبادل مل گیا تو آج تک اسے پھر موقع نہیں دیا۔ کانگریس اگر واقعی اقتدار میں واپسی چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے اوران کے انتشار سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرے۔
    ’آپ‘ کی کامیابی سے سیاسی جماعتوں کی بوکھلاہٹ فطری ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ میڈیا بھی اس میں ایک فریق بن کر سامنے آرہا ہے۔انتخابی منشور میں ’آپ‘ نے عوام سے کچھ ایسے وعدے کئے ہیں، جنہیں پورا کرنا قدرے مشکل ہے  (لیکن ناممکن نہیں)۔ میڈیانے ان وعدوںکی تکمیل کیلئے ’آپ‘ کو گھیرناشروع کردیا ہے۔ میڈیا کے اس قدم پر تنقید نہیں کی جاسکتی لیکن اس کی بدنیتی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نشانے پر صرف ’آپ‘ ہی کیوں؟ کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار کی پہلی میقات میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی پر قابو پانے کی بات کہی تھی، میڈیا نے اس کا ’کاؤنٹ ڈاؤن‘ کیوں نہیں کیا؟ کاؤنٹ ڈاؤن کی بات جانے دیں، یہی میڈیا اب یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ مہنگائی پرقابو پانے کا مطالبہ ہی ناجائز ہے اور یہ حکومت کو بلیک میل کرنے جیسا ہے۔ ریلوے کرائے میں  اضافے کی مخالفت پر ممتا بنرجی کو کچھ اسی طرح کے جواب دیئے جارہے تھے۔
     میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

Wednesday, 18 December 2013

Assembly election aur Congress ki mayus kun karkardagi

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی مایوس کن کارکردگی کی بنیادی وجہ

مہنگائی اور بدعنوانی نہیں،  انانیت رہی ہے

یہ بات بالکل درست ہے کہ کانگریس سے عوام کی شدیدبرہمی نے اسے شکست سے دو چار کیا ہے لیکن اس ناراضگی کی وجہ صرف مہنگائی اوربدعنوانی نہیں ہے بلکہ حکومت کی انانیت رہی ہے۔ عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کسی اور کی ہوتی تو بھی مہنگائی اور بدعنوانی کم و بیش اسی طرح رہتی.... لیکن ۲۰۰۹ء میں دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کانگریس نے جس رعونت و انانیت کا مظاہرہ کیا، وہ عوام کو بالکل پسند نہیں آیا
 
قطب الدین شاہد
 
پانچ ریاستوں  میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات کو  فائنل سے پہلے کا سیمی فائنل کہاجارہا تھا جس میں کانگریس کو اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔چھتیس گڑھ اور میزورم جیسی چھوٹی ریاستوں میں نتائج تقریباً  جوں کے توں رہے لیکن بقیہ۳؍ اہم ریاستوں میں (جن میں ۲؍ پر کانگریس اورایک پر بی جے پی قابض تھی) کانگریس کہیں بھی مقابلہ کرتی  نظر نہیں آئی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سے عوام کی اس ناراضگی کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو پہنچا کیونکہ  وہاں عوام کیلئے کوئی مضبوط متبادل نہیں تھا۔راجستھان کی شکست کانگریس کیلئے بدترین رہی  ہے لیکن اس کے قدموں تلے زمین دہلی میں کھسکی جہاں ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت  نے اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔
     دلچسپ بات یہ ہے کہ نتائج ظاہر ہونے سے قبل تک کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی نہ صرف یہ کہ خاطر میں نہیں  لارہی تھیں بلکہ انتخابی میدان میں ان کے اترنے کے فیصلے کا مذاق بھی اڑا رہی تھیں۔اب جبکہ نتائج ظاہر ہوچکے ہیں،انتخابی تجزیہ نگار کانگریس کی  ذلت آمیز شکست اور بی جے پی کی فتح کے اسباب جاننے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ ایک طبقہ اسے مودی کی لہر مانتا ہے تو کچھ لوگ بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلیٰ (شیوراج سنگھ چوہان اور رمن سنگھ)کی بہترین کارکردگی کو اس فتح کی وجہ بتا تے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ ہے جو کانگریس سے عوامی ناراضگی کو اس نتیجے کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔  یہ بات بالکل درست ہے لیکن  اس سے عوامی ناراضگی کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مہنگائی اور بدعنوانی ایک وجہ ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہوسکتی۔ خاص و عام یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی اور بدعنوانی کیلئے صرف کانگریس ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ بے قابو مہنگائی کیلئے جہاں بین الاقوامی عوامل کارفرما ہیں، وہیں بدعنوانی کیلئے ہمارا پورا سسٹم ذمہ دار ہے جس کے ایک حصہ ہم یعنی عوام بھی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس کو پھر سزا کیوں دی گئی؟  اس کا جواب یہ ہے کہ کانگریس میں بہت زیادہ رعونت آگئی تھی اوراس کے لیڈر انانیت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ایک زمانہ  تھا  جب کانگریس کے اراکین چوپال پر بیٹھ کر عوام کی باتیں سنتے تھے اوران پر عمل کرتےتھے اورآج یہ عالم ہے کہ وہ عوام سے بہت دور ہوگئے ہیں اور ان کے پاس جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کانگریس میں لیڈروں کی بہتات ہے لیکن عوامی نمائندوں کی شدید قلت  ہے۔عام آدمی کی بات جانے دیں،  ۲۰۰۹ء کے بعد کانگریس کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو خاطر میں لانا اپنی شان کے خلاف سمجھنے لگی ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی ۔
    دراصل کانگریس بھی اسی برہمنی نظام کی حامی ہے جو ملک میں دو جماعتی نظام کی وکالت کرتا ہے۔ کانگریس بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ اور بی جے پی باری باری حکومت کرتے رہیں۔ کانگریس کوبی جے پی سے کوئی خار نہیں ہے، کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس اپنی باڈی لینگویج  سے کچھ یہی تاثر دینا چاہ رہی ہے کہ اس مرتبہ وہ بی جے پی کیلئے میدان صاف رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں زیادہ محنت نہیں کرتی جہاں بی جے پی کی حکومت ہوتی ہے، اس کے برعکس ان ریاستوں میں اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہے جہاں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکمرانی ہوتی ہے۔  وہ خواہ یوپی ہو، بہار ہو یا مغربی بنگال  اور جموں کشمیر۔اس مرتبہ بھی یہی دیکھا جارہا ہے کہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے زیادہ وہ دہلی کیلئے پریشان ہے جہاں اسمبلی کی ۷۰؍ اور پارلیمنٹ کی صرف ۷؍ نشستیں ہیں۔   
     یہ بہت مشہور مقولہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو بہت دنوں تک بہت سارے معاملات میں بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا.... اس کے باوجود کانگریس یہی کام کررہی ہے۔ اسے نہیں پتہ اب ہندوستانی عوام کافی سمجھدار ہوگئے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے لگے ہیں۔ اسے اگر اپنی ساکھ بحال رکھنی ہے تو ہندوستانی عوام کےمزاج کو سمجھنا ہوگا۔  بلاشبہ مہنگائی اور بدعنوانی کے اس دیو کو حکومت پوری طرح نہیں روک سکتی لیکن وہ اس معاملے پر اپنی سنجیدگی کااظہار تو کر ہی سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے لیڈروں نے ۵؍ روپے میں بھر پیٹ کھانا ملنے کی بات کہہ کر غریبوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔  ان حالات میں کانگریس کو اس سے بہتر نتیجے کی امید کرنی بھی نہیں چاہئے تھی۔

Saturday, 14 December 2013

Roznaamcha> Farooq abdullah

فاروق عبداللہ نے غلط کیا کہا تھا؟
 
 سچ کہنا اور اس پر قائم رہنا بڑی جرأت کا کام ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں یہ وصف بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ ان کی زبان سے اگر کبھی کوئی سچی بات نکل بھی گئی توتنقیدوں سے بچنے کیلئے دوسرے ہی پل اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے جو بات کہی تھی، وہ قطعی غلط نہیں تھی .... لیکن وہ اپنی اُس بات پر ۲۴؍ گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکے اور اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا تھا موجودہ  حالات  میں  انہيں لگتا ہے کہ کسى خاتون کو پرسنل سیکريٹرى نہيں رکھنا چاہئے کيونکہ اس کى کسى بھى شکايت پر جيل  ہوسکتی ہے۔  ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بيان پر سياسى جماعتوں اور خواتين کى تنظيموں نے سخت ردعمل ظاہر کيا جس کے بعد  ان کو معافى مانگنى پڑى۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے غلط کیا کہا تھا؟ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان ہونےوالے واقعات سے فاروق عبداللہ کیا،ہر خاص و عام سہما ہوا ہے۔ تہلکہ کے چیف ایڈیٹرترون تیج پال ، مغربی بنگال حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین جسٹس گنگولی اور  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسرمحمد شبیر جیسی اہم شخصیات  جب اس قانون کی زد میں آسکتی ہیں اور اپنا کریئر تباہ و برباد کرسکتی ہیں تو بھلا عام آدمی کس قطار شمار میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بے قصور ہیں یا  ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئے لیکن   ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ محض الزام عائد کردیئے جانے سے یہ مجرم ہوگئے۔ اگر یہ مجرم ہیں تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہو لیکن جب تک الزام ثابت نہیں ہوجاتا، انہیں مجرم نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
    قانونی کی سختی اور اس کے اطلاق میں جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ کسی خاتون نے کسی مرد پر جنسی زیادتی کاالزام عائد کردیا تو پھر یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ چندماہ قبل احمد آباد کی ایک طوائف  نے۴؍ افراد پر ’آبروریزی ‘ کاالزام عائد کیا تھا۔ اس نے  اپنی شکایت میں یہ بات کہی تھی کہ۲؍ لوگوں کے ساتھ وہ   ۲؍ گھنٹے کیلئے’کہیں‘گئی تھی جہاںان دونوں کے مزید ۲؍ ساتھی آگئے اور اس کی آبروریزی کی اور ’قیمت‘ بھی ادا نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ان چاروں پر اجتماعی آبرو ریزی  کے معاملات درج ہوئے۔
      عزت و عصمت کسی بھی خاتون یا لڑکی کا سب سے قیمتی زیور ہوتا ہےجس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف اس خاتون پر  بلکہ پورے سماج پر عائد ہوتی ہے۔اس کیلئے نہ صرف سخت قانون کے نفاذ کی ضرورت ہے بلکہ کسی قانون سے زیادہ ضروری احتیاطی تدابیر کی ہے..... افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے قانون تو سخت بنا دیا گیا لیکن احتیاط کے نام پر کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ فلموں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر آج بھی کچے ذہنوں کو اس جرم کی جانب دھڑلے سے ’راغب‘ کیا  جارہا ہے۔  ٹیلی ویژن شو ’بگ باس‘ میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ کیا وہاں تہذیب و تمدن کی تربیت دی جارہی ہے؟
     اس کے باوجود حال ہی میں شو سے باہر ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی اداکارہ صوفیہ حیات نےارمان کوہلی کے خلاف پولیس میںبدسلوکی کی شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔  اس بات کا اعتراف عدالت تک نے کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال بہت تیزی سے ہورہا ہے مگر افسوس کہ اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بس، ٹرین اور راستوں پر چلتے ہوئے ایک عجیب سا  خوف محسوس ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے؟  اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو قانون کی اس سختی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ جرائم میں کمی آئے نہ آئے لیکن خوف کی شدت بڑھی تو لوگ خواتین کی عزت کرنے کے بجائے ان سے نفرت کرنے لگیںگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا سماجی نقصان ہوگا۔