Gaadiyon ka Nasha
گاڑیوں کا نشہ
اپنےاطراف میں نظر دوڑاؤ تو ایسے شرفاء کی تعداد انگلیوں پر شمار کئے جانےاتنی ہی ہوگی جن پر دولت و امارت کا نشہ نہیں چڑھتا ورنہ بیشتر کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار ضروری سمجھتےہیں۔ بالخصوص دولت مندوں کا وہ طبقہ جو مہنگی گاڑیوں سے چلتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہوتی ہے جو پیدل چلنے والوں یااپنی سے چھوٹی گاڑی پر چلنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ راستہ نہ ملنےپرکبھی صرف گھور کردیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں تو کبھی کبھار اپنی نفرت کا برملا اظہار بھی کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں ہونےوالی ہنگامہ آرائی پر صفائی پیش کرتے ہوئے اپنی شرافت کی دلیل ہی یہی دی تھی کہ میں اتنی مہنگی گاڑی سے چلتا ہوں، میں بھلا اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہوں؟ اس بیان سے اس شخص کی رعونت جھلک رہی تھی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم دولت مندوں میں یہ رعونت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ تنگ گلیوں میں جب وہ گاڑی لے کر نکلتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لال بتی کی گاڑیوں کی طرح، لوگ ان کی گاڑی کو نکل جانے دیں،انہیںدیکھ کرراہ گیر تتربتر ہوجائیںاور حیرت و استعجاب سے انہیں اور ان کی گاڑی کا نظارہ کریں۔ ایسا سوچنے والوںکی تعداد بہت مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کی وجہ سے دو طبقوں کے درمیان نفرت کا ماحول آج بھی قائم ہے۔
گزشتہ دنوں بھیونڈی کی ایک تنگ گلی میں ایسی ہی ایک بڑی گاڑی کی’ گھس پیٹھ ‘ سے بد مزگی پیدا ہوئی۔ اول تو یہ کہ راستہ تنگ ہے، وہاں سے ایک وقت میں ایک ہی بڑی گاڑی گزر سکتی ہے۔ دوم یہ کہ اس راستے پرایک اسکول بھی قائم ہے، جہاں چھٹی کے وقت کافی بھیڑ ہوجاتی ہے۔ بڑی گاڑی کے آجانے سے وہاں کا ٹریفک نظام بری طرح سے درہم برہم ہوگیا۔ ایک طرف سے بچوں سے لدے پھندے رکشوں کی قطار تھی تو دوسری طرف بڑی گاڑی، درمیان میں بائک اور اسکوٹر کے ساتھ پیدل مسافروں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ معاملہ خراب نہ ہوگا اگر ’سیٹھ جی‘ اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے لے لیتے اور رکشوں کونکل جانے دیتے لیکن ایسا کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق یہ کام رکشے والوں کو کرنا تھا لیکن سچائی تویہ تھی کہ رکشوں کی اتنی طویل قطار تھی کہ ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد بڑی گاڑی کا بھی پیچھے ہٹنا دشوار ہوگیا۔ دونوں طرف سے راستہ ایساجام ہوا کہ گھنٹوں تک وہاں سے کوئی نکل نہیں سکا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹریفک کی وجہ سے جز بز ہورہے تھے اور وہ موصوف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نہایت اطمینان سے ایف ایم پر گانے سن رہے تھے۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور ان علاقوں میںضرور ہوتا ہے جہاں کی گلیاں تنگ ہوں اور چند مسلم نوجوانوں کے پاس بڑی گاڑیاں ہوں۔ کیا اب ہم انہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھیںگے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم دولت مندوں میں یہ رعونت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ تنگ گلیوں میں جب وہ گاڑی لے کر نکلتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لال بتی کی گاڑیوں کی طرح، لوگ ان کی گاڑی کو نکل جانے دیں،انہیںدیکھ کرراہ گیر تتربتر ہوجائیںاور حیرت و استعجاب سے انہیں اور ان کی گاڑی کا نظارہ کریں۔ ایسا سوچنے والوںکی تعداد بہت مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کی وجہ سے دو طبقوں کے درمیان نفرت کا ماحول آج بھی قائم ہے۔
گزشتہ دنوں بھیونڈی کی ایک تنگ گلی میں ایسی ہی ایک بڑی گاڑی کی’ گھس پیٹھ ‘ سے بد مزگی پیدا ہوئی۔ اول تو یہ کہ راستہ تنگ ہے، وہاں سے ایک وقت میں ایک ہی بڑی گاڑی گزر سکتی ہے۔ دوم یہ کہ اس راستے پرایک اسکول بھی قائم ہے، جہاں چھٹی کے وقت کافی بھیڑ ہوجاتی ہے۔ بڑی گاڑی کے آجانے سے وہاں کا ٹریفک نظام بری طرح سے درہم برہم ہوگیا۔ ایک طرف سے بچوں سے لدے پھندے رکشوں کی قطار تھی تو دوسری طرف بڑی گاڑی، درمیان میں بائک اور اسکوٹر کے ساتھ پیدل مسافروں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ معاملہ خراب نہ ہوگا اگر ’سیٹھ جی‘ اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے لے لیتے اور رکشوں کونکل جانے دیتے لیکن ایسا کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق یہ کام رکشے والوں کو کرنا تھا لیکن سچائی تویہ تھی کہ رکشوں کی اتنی طویل قطار تھی کہ ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد بڑی گاڑی کا بھی پیچھے ہٹنا دشوار ہوگیا۔ دونوں طرف سے راستہ ایساجام ہوا کہ گھنٹوں تک وہاں سے کوئی نکل نہیں سکا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹریفک کی وجہ سے جز بز ہورہے تھے اور وہ موصوف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نہایت اطمینان سے ایف ایم پر گانے سن رہے تھے۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور ان علاقوں میںضرور ہوتا ہے جہاں کی گلیاں تنگ ہوں اور چند مسلم نوجوانوں کے پاس بڑی گاڑیاں ہوں۔ کیا اب ہم انہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھیںگے؟
No comments:
Post a Comment