Bihar men Janta parivar k ittehaad se bhagwa taqton ki neend haraam
بہار میںجنتا پریوار کے اتحاد سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام
نتیش کمار کی مسلسل کوششوں اور لالو پرساد کی دور اندیشی نے بہار میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ بی جے پی کو لگتا تھا کہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کی لڑائی میں وہ بہ آسانی پٹنہ پر قابض ہوجائے گی لیکن اب بہار اسمبلی پر بھگوالہرانے کا خواب تو دور کی بات ، موجودہ نشستوں کو بچاپا نا بھی اس کیلئے محال ثابت ہوگا۔ اسے خوف اس بات کا ہے کہ اس کے نتائج صرف بہار تک ہی محدود نہیںرہیںگے بلکہ اس کے اثرات ملک گیر ہوںگے
قطب الدین شاہد
لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی سے اس کے لیڈروں کے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے تھے۔ حالانکہ یہ بات بی جے پی اور اس کے حامی بھی بہت اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی کارکردگی اور شبیہ کی وجہ سے یہاں تک نہیں پہنچی ہے اور نہ ہی یہ اس کے سیاسی فلسفے کی کامیابی ہے۔اس کامیابی کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ کانگریس کا مسلسل ۱۰؍ سالہ اقتدار تھا، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر اسے کافی ناراضگی کا سامنا تھا۔عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ علاوہ ازیں کانگریس کی بہت ساری کمزوریاں اورخامیاں بھی تھیں ،جس نے عوام کو اس سے دور کردیا تھا۔ ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کا ایک بڑا طبقہ اس مرتبہ مودی کا حامی تھا۔ اس نے مودی کی تشہیر پردل کھول کر خرچ کیا۔ یہ اسی تشہیر کا نتیجہ تھا کہ بی جے پی بالخصوص مودی کو عوام کے ایک بڑے طبقے نے نجات دہندہ تسلیم کرلیا تھا۔ اپوزیشن بری طرح منتشر تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو کافی فائدہ ہوا۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر بی جے پی کے تئیں ایک سیاسی ہمدردی بھی تھی کہ ایک باراسے بھی موقع دیا جانا چاہئے اورکچھ حد تک ہندوتوا وادی طاقتوں کا اتحاد تھا کہ اگر اس مرتبہ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکے تو پھر آئندہ بہت مشکل ہوگی۔ اس کے باوجود بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں صرف ۳۱ء۳۴؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔
اس طرح کئی وجوہات نے بی جے پی کو اقتدار کی منزل تک پہنچا دیا تھا لیکن اب وہ حالات باقی نہیں رہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوچکی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بھلے ہی اچھی رہی ہو لیکن یوپی اوربہار کے ضمنی انتخابات میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور دہلی کے اسمبلی الیکشن میں تو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعدہونے والے بہار کے ضمنی الیکشن میںبی جے پی کو ۱۰؍ میں سے صرف ۴؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ اِس میں اُس کی ۶؍ سیٹیں تھیں اور ان میں سے ۵؍ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ یوپی میں تو اور بری دُرگت ہوئی ۔ یہاں ۱۱؍ میں سے بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا جبکہ یہ تمام کی تمام سیٹیںاسی کی تھیں اوراستعفیٰ دینے والے تمام اراکین اسمبلی لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج بی جے پی کو اس کی اوقات بتانے کیلئے کافی تھا جس میں اسے ۷۰؍ میں سے صرف ۳؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ ایک سال قبل اسے ۳۲؍ سیٹیں ملی تھیں اور لوک سبھا الیکشن میں پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر اسی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے۔
مطلب بالکل صاف ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے حق میں اب وہ لہر نہیں ر ہی جو کچھ دن قبل اپوزیشن کو بہا لے گئی تھی۔ اب تو اس کے حامی بھی بی جے پی کی سحر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ایک ہی سال میں بی جے پی کا طلسم بری طرح ٹوٹ گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ داؤد ابراہیم، پاکستان، گنگا کی صفائی، رام مندر، دفعہ ۳۷۰؍ یکساں سول کوڈ اور ۵۶؍ انچ کے سینے کی بات آتی ہے تو اس کے سخت گیر حامی بھی نظریں جھکا لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کالا دھن کی واپسی اور ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کے ملنے کی لالچ میں بی جے پی کےقریب گئے تھے اور وہ جو اچھے دن کا انتظار کرتے کرتے اب بری طرح تھک چکے ہیں ، وہ بھی مودی حکومت کو کوس رہے ہیں۔ بی جے پی اراکین پارلیمان کے شاہی خرچ اور مودی کے مسلسل بیرون ملک دوروں سے بھی ایک بڑا طبقہ نالاں ہوچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ اراکین پارلیمان نے محض ایک سال میں اپنے اوپر اتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ یوپی اےسرکار کے ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان، من کی بات اور یوگا دِوس کے نام پر ہونے والی غیرضروری تشہیر کو بھی لوگ سمجھنے لگے ہیںکہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ’گجرات ماڈل‘ کی وجہ سے بی جے پی اور مودی کے قریب جانے والے بھی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی ،گری راج سنگھ اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈروں کے سطحی اور فرقہ پرستانہ بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ بہار کی سطح پر سیاسی صورتحال کیا ہے؟ اور اعداد و شمارکیا کہتے ہیں؟ ۲۰۱۴ء کےلوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ۲۹ء۸۶؍ فیصدہی ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹیں کافی زیادہ ہوگئی تھیں۔ اسے نصف سے زائد یعنی ۴۰؍ میں سے ۲۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں۔ بی جے پی کی اتحادی جماعت رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی کو ۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۶؍ سیٹیں ملی تھیں ۔اس الیکشن میں آر جے ڈی اور جے ڈی یو کو بالترتیب ۴؍ اور ۲؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں لیکن ان کے ووٹوں کا تناسب بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۱۶ء۰۴؍ فیصد تھا جبکہ ۸ء۵۶؍ فیصد ووٹوںکے ساتھ کانگریس کو ۲؍ اور این سی پی کو ایک سیٹ ملی تھی۔ اس کے ووٹوں کا تناب ۱ء۲۲؍ فیصد تھا۔
یہ اُس وقت کی بات تھی جب میڈیا کی مدد سے پورے ملک میں مودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اس سحر سے بہار بھی آزاد نہیں تھا ۔ بی جے پی کیلئے ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ اپوزیشن بری طرح بکھرا ہوا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مانجھی اور پپو یادو جیسے لوگ وابستہ ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے بی جے پی کو کچھ زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس وقت مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کے گراف میں کافی کمی آئی ہے ۔ بی جے پی کیلئے بہار، یوں بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کے نام پرسبھی متفق ہوسکیں یا اس میں عوام کو اپنی جانب کھینچنےکی صلاحیت ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ ریاستی الیکشن ہے جس کے موضوعات لوک سبھا کے مقابلے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر لوک سبھا میں ملنے والے ووٹوں کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو بی جے پی اور ایل جے پی کو ۳۶ء۳۶؍ فیصد ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس، این سی پی اور سی پی ایم کے کھاتے میں ۴۷ء۳۵؍ فیصد ووٹ آسکتے ہیں۔اس واضح فرق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کیا نتائج ہوںگے ؟ ہم جانتے ہیں کہ ایک دو فیصد ووٹوں کے بھی اِدھر اُدھر ہوجانے سے سیٹوں میں کافی فرق آجاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال بہار کی موجودہ اسمبلی کا انتخابی نتیجہ ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں جے ڈی یو کو ۲۲ء۵۸؍ فیصد ووٹوں کی بدولت ۱۱۵؍ سیٹیں مل گئی تھیں جبکہ آر جے ڈی کو تھوڑا ہی کم یعنی ۱۸ء۸۴ء فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹوں کی تعداد محض ۲۲؍ تھی۔
اس بار لالو اور نتیش کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان اس لئے بھی ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران نامواقف حالات میں بھی لالو کی پارٹی کے امیدوار تقریباً ۱۴۵؍ اسمبلی نشستوں پر اول اور دوم پوزیشن پر تھے جبکہ اس مقام پر نتیش کی پارٹی کے ۴۳؍ امیدوار تھے۔ اب جبکہ حالات پوری طرح سے مواقف ہیں،۱۹۰؍سیٹیں تو مل ہی سکتی ہیں۔ ایک جانب جہاں بی جے پی بڑی تیزی سے زوال پزیر ہے وہیں اتحاد کی وجہ سے جنتاپریوار کے اراکین کے ساتھ ہی سیکولر رائے دہندگان بھی پُرجوش ہیں۔اس اتحاد کیلئے یقیناً ملائم سنگھ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہار میں حالانکہ ان کی سماجوادی پارٹی کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ،بالکل اسی طرح، جس طرح آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا یوپی میں کچھ نہیں ہے ، اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس اتحاد سے دونوں ریاستوں میں سیکولر ووٹروں کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔
اس اتحاد کیلئے لالو پرساد نے یقیناًقربانی دی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب کانگریس کے ساتھ نتیش کمار اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ لالو کے اس مدبرانہ اور دوراندیشانہ فیصلے نے ان کے سیاسی قد کو مزید بلند کردیا ہے۔ ویسے بھی بہار کی سطح پر نتیش کے مقابلے لالو عوام میں زیادہ مقبول رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ووٹ بھی زیادہ ملتے رہے ہیں۔ صرف ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن کو چھوڑ دیا جائے تو آج تک جتنے بھی انتخابی نتائج ظاہر ہوئے ہیں،اس میں لالو کا ہی پلڑا بھاری رہا ہے۔ فروری ۲۰۰۵ء میں جے ڈی یو کو ۱۴ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ آر جے ڈی کو ملنےوالوں ووٹوں کاتناسب ۲۵ء۰۷؍ فیصدتھا۔ کوئی سرکار نہیں بن سکی تو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں پھر انتخابات ہوئے جس میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۲۳ء۴۵؍ فیصد ووٹ ملے۔ اس سے قبل یعنی ۲۰۰۰ء کے انتخابی نتائج میں نتیش کمار کی پارٹی کو صرف ۶ء۴۷؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ لالو کی پارٹی کو ۲۸ء۳۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو نتیش کی قیادت کو قبول کرکے لالو نے تاریخی قدم اٹھایا ہے، اس قربانی کا صلہ انہیں یقیناً ملے گا۔
اس طرح کئی وجوہات نے بی جے پی کو اقتدار کی منزل تک پہنچا دیا تھا لیکن اب وہ حالات باقی نہیں رہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوچکی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بھلے ہی اچھی رہی ہو لیکن یوپی اوربہار کے ضمنی انتخابات میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور دہلی کے اسمبلی الیکشن میں تو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعدہونے والے بہار کے ضمنی الیکشن میںبی جے پی کو ۱۰؍ میں سے صرف ۴؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ اِس میں اُس کی ۶؍ سیٹیں تھیں اور ان میں سے ۵؍ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ یوپی میں تو اور بری دُرگت ہوئی ۔ یہاں ۱۱؍ میں سے بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا جبکہ یہ تمام کی تمام سیٹیںاسی کی تھیں اوراستعفیٰ دینے والے تمام اراکین اسمبلی لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج بی جے پی کو اس کی اوقات بتانے کیلئے کافی تھا جس میں اسے ۷۰؍ میں سے صرف ۳؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ ایک سال قبل اسے ۳۲؍ سیٹیں ملی تھیں اور لوک سبھا الیکشن میں پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر اسی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے۔
مطلب بالکل صاف ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے حق میں اب وہ لہر نہیں ر ہی جو کچھ دن قبل اپوزیشن کو بہا لے گئی تھی۔ اب تو اس کے حامی بھی بی جے پی کی سحر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ایک ہی سال میں بی جے پی کا طلسم بری طرح ٹوٹ گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ داؤد ابراہیم، پاکستان، گنگا کی صفائی، رام مندر، دفعہ ۳۷۰؍ یکساں سول کوڈ اور ۵۶؍ انچ کے سینے کی بات آتی ہے تو اس کے سخت گیر حامی بھی نظریں جھکا لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کالا دھن کی واپسی اور ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کے ملنے کی لالچ میں بی جے پی کےقریب گئے تھے اور وہ جو اچھے دن کا انتظار کرتے کرتے اب بری طرح تھک چکے ہیں ، وہ بھی مودی حکومت کو کوس رہے ہیں۔ بی جے پی اراکین پارلیمان کے شاہی خرچ اور مودی کے مسلسل بیرون ملک دوروں سے بھی ایک بڑا طبقہ نالاں ہوچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ اراکین پارلیمان نے محض ایک سال میں اپنے اوپر اتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ یوپی اےسرکار کے ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان، من کی بات اور یوگا دِوس کے نام پر ہونے والی غیرضروری تشہیر کو بھی لوگ سمجھنے لگے ہیںکہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ’گجرات ماڈل‘ کی وجہ سے بی جے پی اور مودی کے قریب جانے والے بھی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی ،گری راج سنگھ اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈروں کے سطحی اور فرقہ پرستانہ بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ بہار کی سطح پر سیاسی صورتحال کیا ہے؟ اور اعداد و شمارکیا کہتے ہیں؟ ۲۰۱۴ء کےلوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ۲۹ء۸۶؍ فیصدہی ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹیں کافی زیادہ ہوگئی تھیں۔ اسے نصف سے زائد یعنی ۴۰؍ میں سے ۲۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں۔ بی جے پی کی اتحادی جماعت رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی کو ۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۶؍ سیٹیں ملی تھیں ۔اس الیکشن میں آر جے ڈی اور جے ڈی یو کو بالترتیب ۴؍ اور ۲؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں لیکن ان کے ووٹوں کا تناسب بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۱۶ء۰۴؍ فیصد تھا جبکہ ۸ء۵۶؍ فیصد ووٹوںکے ساتھ کانگریس کو ۲؍ اور این سی پی کو ایک سیٹ ملی تھی۔ اس کے ووٹوں کا تناب ۱ء۲۲؍ فیصد تھا۔
یہ اُس وقت کی بات تھی جب میڈیا کی مدد سے پورے ملک میں مودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اس سحر سے بہار بھی آزاد نہیں تھا ۔ بی جے پی کیلئے ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ اپوزیشن بری طرح بکھرا ہوا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مانجھی اور پپو یادو جیسے لوگ وابستہ ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے بی جے پی کو کچھ زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس وقت مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کے گراف میں کافی کمی آئی ہے ۔ بی جے پی کیلئے بہار، یوں بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کے نام پرسبھی متفق ہوسکیں یا اس میں عوام کو اپنی جانب کھینچنےکی صلاحیت ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ ریاستی الیکشن ہے جس کے موضوعات لوک سبھا کے مقابلے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر لوک سبھا میں ملنے والے ووٹوں کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو بی جے پی اور ایل جے پی کو ۳۶ء۳۶؍ فیصد ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس، این سی پی اور سی پی ایم کے کھاتے میں ۴۷ء۳۵؍ فیصد ووٹ آسکتے ہیں۔اس واضح فرق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کیا نتائج ہوںگے ؟ ہم جانتے ہیں کہ ایک دو فیصد ووٹوں کے بھی اِدھر اُدھر ہوجانے سے سیٹوں میں کافی فرق آجاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال بہار کی موجودہ اسمبلی کا انتخابی نتیجہ ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں جے ڈی یو کو ۲۲ء۵۸؍ فیصد ووٹوں کی بدولت ۱۱۵؍ سیٹیں مل گئی تھیں جبکہ آر جے ڈی کو تھوڑا ہی کم یعنی ۱۸ء۸۴ء فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹوں کی تعداد محض ۲۲؍ تھی۔
اس بار لالو اور نتیش کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان اس لئے بھی ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران نامواقف حالات میں بھی لالو کی پارٹی کے امیدوار تقریباً ۱۴۵؍ اسمبلی نشستوں پر اول اور دوم پوزیشن پر تھے جبکہ اس مقام پر نتیش کی پارٹی کے ۴۳؍ امیدوار تھے۔ اب جبکہ حالات پوری طرح سے مواقف ہیں،۱۹۰؍سیٹیں تو مل ہی سکتی ہیں۔ ایک جانب جہاں بی جے پی بڑی تیزی سے زوال پزیر ہے وہیں اتحاد کی وجہ سے جنتاپریوار کے اراکین کے ساتھ ہی سیکولر رائے دہندگان بھی پُرجوش ہیں۔اس اتحاد کیلئے یقیناً ملائم سنگھ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہار میں حالانکہ ان کی سماجوادی پارٹی کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ،بالکل اسی طرح، جس طرح آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا یوپی میں کچھ نہیں ہے ، اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس اتحاد سے دونوں ریاستوں میں سیکولر ووٹروں کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔
اس اتحاد کیلئے لالو پرساد نے یقیناًقربانی دی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب کانگریس کے ساتھ نتیش کمار اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ لالو کے اس مدبرانہ اور دوراندیشانہ فیصلے نے ان کے سیاسی قد کو مزید بلند کردیا ہے۔ ویسے بھی بہار کی سطح پر نتیش کے مقابلے لالو عوام میں زیادہ مقبول رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ووٹ بھی زیادہ ملتے رہے ہیں۔ صرف ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن کو چھوڑ دیا جائے تو آج تک جتنے بھی انتخابی نتائج ظاہر ہوئے ہیں،اس میں لالو کا ہی پلڑا بھاری رہا ہے۔ فروری ۲۰۰۵ء میں جے ڈی یو کو ۱۴ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ آر جے ڈی کو ملنےوالوں ووٹوں کاتناسب ۲۵ء۰۷؍ فیصدتھا۔ کوئی سرکار نہیں بن سکی تو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں پھر انتخابات ہوئے جس میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۲۳ء۴۵؍ فیصد ووٹ ملے۔ اس سے قبل یعنی ۲۰۰۰ء کے انتخابی نتائج میں نتیش کمار کی پارٹی کو صرف ۶ء۴۷؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ لالو کی پارٹی کو ۲۸ء۳۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو نتیش کی قیادت کو قبول کرکے لالو نے تاریخی قدم اٹھایا ہے، اس قربانی کا صلہ انہیں یقیناً ملے گا۔
No comments:
Post a Comment