Wednesday, 17 June 2015

Ghosht k beghair
گوشت کے بغیر....
 ووٹ بینک کےمدنظرمہاراشٹرسرکار نے بڑے کے گوشت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ پریشان ہیں ، جن میں سب سے زیادہ متاثربڑے کےگوشت کے شوقین لگتے ہیں۔بعض بوکھلائے بوکھلائے پھرتے ہیں تو بعض تسکین کی خاطر چکن کے قیمے، کباب، سیخ اور بغیر گوشت کے دالچہ  کھانے لگے ہیں۔بلاشبہ ریاستی سرکار کا یہ فیصلہ غلط ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ گوشت کھانے یا نہ کھانے کا فیصلہ کرنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے لہٰذا اس پر پابندی عائدکئے جانے کو اس کے بنیادی حقوق پر حملہ تو سمجھاجا سکتا ہے لیکن اسے انسان کی بنیادی ضرورت قطعی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اُس  وقت یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ اسے انسان کی   بنیادی ضرورت قرار دینے پرآمادہ نظر آتے ہیں اور اسے ناگزیر بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے کے گوشت کے بغیر کیا ہوگا؟
     حکومت کو یہ فیصلہ کرنا تھا، سو اُس نے کرلیا۔ جو لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا اور کچھ دنوں میں پہلے کی طرح پھر انہیں بڑے کا گوشت ملنے لگےگا، وہ خواب و خیال کی دنیا سے باہر آجائیں۔ یہ کوئی سیاسی بیان ، انتخابی منشور  یا محض کابینی فیصلہ نہیں ہے۔ آر ڈی ننس بھی نہیں ہے بلکہ یہ قانون بن چکا ہے۔ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کیلئے باقاعدہ قانون بنانے کی ضرورت پڑے گی جو موجودہ حالات میں ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اُمید بھری نگاہوںسے کانگریس کی جانب دیکھ رہا ہے کہ اُس کی سرکار آئے گی تو ’سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘ اسے شاید یہ نہیں معلوم یہ سب کانگریس ہی کا کیا دھرا ہے۔ بی جے پی کے اس دعوے میں بڑی حد تک سچائی ہے کہ یہ قانون تو کانگریس ہی کا بنایا ہوا ہے، ہم نے صرف اس کا نفاذ کیا ہے۔اب جبکہ یہ قانون بن چکا ہے، بڑے کے گوشت پر پابندی لگ چکی ہے تو ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ہمارا خیال ہے کہ ہمیں کچھ دن صبر کرنا چاہئے۔ ہم نے یہی بات ایک صاحب سے کہی تو انہوں نے سوال کیا کہ کچھ دن صبر کا کیا مطلب؟ کیااس کے بعد یہ پابندی اٹھا لی جائےگی؟ ہم نے کہا نہیں بھائی!اس کے بعد ہمیں اس کے بغیر کھانا کھانے کی عادت پڑجائے گی۔
    اول تو یہ کہ بڑے کا گوشت کھانا بہت ضروری نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اگر گوشت کھانا ہی ہے تو ہمارے پاس بکرے اور مرغ کے گوشت کے متبادل بھی موجود ہیں اور سوم یہ کہ کچھ ہی دنوں میں بھینس کا گوشت بھی ملنے لگےگا۔ ایسے میں  بیل کے گوشت کیلئے اصرار کرنا اور محض زبان کے چٹخارے کیلئے اپنے ساتھ کچھ اور لوگوں کی جان جوکھم میں ڈالنا قطعی مناسب نہیں؟ مالیگاؤں  میںگزشتہ دنوں غیر قانونی ذبیحے کا جو معاملہ پیش آیا ، وہ یقیناً  افسوس کی بات ہے، ہمیں ان حالات سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment