Doctors aur samaj
ڈاکٹرس اور سماج
ڈاکٹرس کو ہمارے سماج میں مسیحا کہا جاتا ہے۔ مسیحا کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو نئی زندگی عطا کر دے یا کسی بیمار کو صحت مند بنادے بلکہ وہ مریضوں کاعلاج کرتےہیں اور انہیں صحت مند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ڈاکٹر کے محض شفقت بھرا ہاتھ لگا دینے اور ان کے دو میٹھے بول بول دینے ہی سے مریض آدھا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ آج کے پیشہ ور ڈاکٹروں سے اس بات کی امید کم ہی کی جاتی ہے۔ وہ ڈاکٹر س جنہیں ہم ’چھوٹا‘ سمجھتے ہیں، وہ تو اس پر عمل کرتے ہیں لیکن’بڑے‘ڈاکٹرس مریضوں کو منہ لگانا پسند نہیں کرتے۔ ہمدردی کے دو بول کی بات تو جانے دیں، وہ مریضوں کو گاہک سمجھ کر دکاندار کی طرح بھی بات نہیں کرتے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عموماً سماجی نہیں ہوتے، اس لئے سماج کے آداب سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ دولت ہونےکی وجہ سے انہیں سماج میں بلند ’مرتبہ‘ضرور حاصل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے یہاں شادیوں اور دیگر تقریبات میں کافی بھیڑ بھاڑ رہتی ہے لیکن ان کی حقیقی مقبولیت کا بھرم اُس وقت کھلتا ہے جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ ڈاکٹرس جو سماج میں اٹھتے بیٹھے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں،ہر سطح پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ عام لوگ جب ان مسیحوں کو اپنے ساتھ دیکھتے ہیں تو انہیں اچھالگتا ہے اور وہ دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ حبس زدہ ماحول میں انہیں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بات اکثر محسوس کی گئی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جب یہ ڈاکٹرس تشریف لاتے ہیں تو لوگ ان کیلئے اپنی نشستیں خالی کردیتے ہیں۔
اتوارکو بھیونڈی میںایسا ہی ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوا جب دھوبی تالاب اسٹیڈیم میں ڈاکٹرس کے ایک کرکٹ ٹورنا منٹ کاانعقاد عمل میں آیا۔اس میں کم و بیش ۱۷۰؍ ڈاکٹر بطور کھلاڑی شریک تھے جبکہ مہمان، منتظمین اور ناظرین کے طور پر بھی ۵۰؍ سے زائد ڈاکٹرس موجود رہے ہوںگے۔ان ڈاکٹروں کو دیکھنے کیلئے وہاں عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ یقیناً ان میں سے ایک بڑی تعداد کرکٹ کی شوقین رہی ہوگی لیکن بیشتر ایسے تھے جو صرف ان مسیحوں کوکھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی دلچسپی کاا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سخت دھوپ کے باوجود وہ دن بھر اسٹیڈیم میں بیٹھے رہے، ان کے چوکوں چھکوں سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ان کی پزیرائی کرتے رہے۔
اس مقابلے میں تھانے ضلع سےتعلق رکھنے والی ڈاکٹروں کی ۱۲؍ ٹیمیں شامل تھیں۔ تالیوں کی گونج میں جب یہ کھلاڑی انعام لے رہے تھے تو دل کہہ رہا تھا کہ کاش! یہ منظر وہ ڈاکٹرس بھی دیکھتے جو اپنے ایئر کنڈیشنڈ ’شفاخانوں‘سے اپنے گھر کے درمیان قید رہتے ہیںیا باہر نکلتے بھی ہیں تو کسی ہل اسٹیشن پرقیام کرتے ہیں ۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عموماً سماجی نہیں ہوتے، اس لئے سماج کے آداب سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ دولت ہونےکی وجہ سے انہیں سماج میں بلند ’مرتبہ‘ضرور حاصل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے یہاں شادیوں اور دیگر تقریبات میں کافی بھیڑ بھاڑ رہتی ہے لیکن ان کی حقیقی مقبولیت کا بھرم اُس وقت کھلتا ہے جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ ڈاکٹرس جو سماج میں اٹھتے بیٹھے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں،ہر سطح پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ عام لوگ جب ان مسیحوں کو اپنے ساتھ دیکھتے ہیں تو انہیں اچھالگتا ہے اور وہ دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ حبس زدہ ماحول میں انہیں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بات اکثر محسوس کی گئی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جب یہ ڈاکٹرس تشریف لاتے ہیں تو لوگ ان کیلئے اپنی نشستیں خالی کردیتے ہیں۔
اتوارکو بھیونڈی میںایسا ہی ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوا جب دھوبی تالاب اسٹیڈیم میں ڈاکٹرس کے ایک کرکٹ ٹورنا منٹ کاانعقاد عمل میں آیا۔اس میں کم و بیش ۱۷۰؍ ڈاکٹر بطور کھلاڑی شریک تھے جبکہ مہمان، منتظمین اور ناظرین کے طور پر بھی ۵۰؍ سے زائد ڈاکٹرس موجود رہے ہوںگے۔ان ڈاکٹروں کو دیکھنے کیلئے وہاں عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ یقیناً ان میں سے ایک بڑی تعداد کرکٹ کی شوقین رہی ہوگی لیکن بیشتر ایسے تھے جو صرف ان مسیحوں کوکھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی دلچسپی کاا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سخت دھوپ کے باوجود وہ دن بھر اسٹیڈیم میں بیٹھے رہے، ان کے چوکوں چھکوں سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ان کی پزیرائی کرتے رہے۔
اس مقابلے میں تھانے ضلع سےتعلق رکھنے والی ڈاکٹروں کی ۱۲؍ ٹیمیں شامل تھیں۔ تالیوں کی گونج میں جب یہ کھلاڑی انعام لے رہے تھے تو دل کہہ رہا تھا کہ کاش! یہ منظر وہ ڈاکٹرس بھی دیکھتے جو اپنے ایئر کنڈیشنڈ ’شفاخانوں‘سے اپنے گھر کے درمیان قید رہتے ہیںیا باہر نکلتے بھی ہیں تو کسی ہل اسٹیشن پرقیام کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment