Shadi aur barat
شادی اور بارات
شادیوںکا سیزن چل رہا ہے۔ اس سیزن میں باراتیوں کی خوب دھوم ہوتی ہے۔ بارات جانے والوں میں سے بیشتر ایسے ہیں جواُس دن اپنا مزاج تبدیل کرلینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ گھر میں کچھ بھی اور کیسا بھی کھاتے ہوں لیکن بارات کے کھانے میں عیب نکالنا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ صرف کھانا ہی نہیں کھاتے بلکہ کھانا کھانے سے زیادہ میزبان پر رعب جماتے ہیں۔ یہ کم ہے، وہ کم ہے، یہ چیز اچھی نہیں ہے، وہ اچھی نہیں ہے، بوٹی اچھی نہیں ہے،سالن پتلا ہے، چاول موٹا ہے، روٹی سوکھ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کل اُن کے یہاں یا ان کے کسی عزیز کے یہاں بھی بارات آئے گی اور تب اُن کی جگہ کچھ دوسرے لوگ بالکل اسی طرح اُن کے سینے پر مونگ دَلیںگے، جس طرح وہ آج دَل رہے ہیںلیکن وہ ایسا نہیں سوچتے کیونکہ انہیں اپنا کوئی عمل برا نہیں لگتا۔
افسوس کی بات ہے کہ لڑکے والےلڑکی والوں سے اجازت نہیں لیتے بلکہ حکم دیتے ہیں کہ ہم ۲۰۰؍ یا ۳۰۰؍ افراد آئیںگے۔ بعض تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیںکہ بارات میں ۵۰۰؍ افراد کو لے کر جاتے ہیں لیکن اپنے یہاں ولیمہ میں دو ڈھائی سو افراد ہی کو دعوت دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ولیمہ بہت شان و شوکت سے کیا جائے اور بہت بڑی دعوت کی جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے مہمانوں کو خود کھلانے کی طاقت نہ ہو تو دوسرے کے سر منڈھ دیا جائے۔ یہ ہمارے سماج کا کمزور پہلو ہے کہ شادی کے اس پورے عمل میں لڑکی والے شروع ہی سے دباؤ میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چوں چراں نہیں کرپاتے۔ لڑکے والوں کی شرائط کو تسلیم کرلینا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں لڑکے والوں نے لڑکی والوں سے ’استدعا‘ کی تھی کہ شادی جب بھی ہو، وہ پیر کا دن ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس مارکیٹ میں اس کی دکان ہے، وہ پیر کو بند رہتی ہے۔اس کی یہ ’درخواست‘ اسلئے تھی کہ اس کی مارکیٹ کے تمام افراد اس کی شادی میں شریک ہوسکیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ولیمہ پیر کو کرتے لیکن اس صورت میں خرچ کا بار اُن کی جیب پر آتا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا یہ بے غیرتی صرف اُن کی ہے، جو بارات لے کر جاتے ہیں؟ کیا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے جو بارات میں شریک ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کی دعوت میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کوئی اپنے گھر کھلانے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر جاکر کھانے کی دعوت دے تو اسے کیوں قبول کیا جائے؟ کیا ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ کر ایسی دعوتوں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کرسکیں کہ بھائی، جب آپ کو اپنے یہاں کھلانے کی طاقت ہو جائے گی تو آپ ضرور دعوت د یجئے گا، ہم ضرور حاضر ہوں گے لیکن برائے مہربانی حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ نہ کیجئے۔
افسوس کی بات ہے کہ لڑکے والےلڑکی والوں سے اجازت نہیں لیتے بلکہ حکم دیتے ہیں کہ ہم ۲۰۰؍ یا ۳۰۰؍ افراد آئیںگے۔ بعض تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیںکہ بارات میں ۵۰۰؍ افراد کو لے کر جاتے ہیں لیکن اپنے یہاں ولیمہ میں دو ڈھائی سو افراد ہی کو دعوت دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ولیمہ بہت شان و شوکت سے کیا جائے اور بہت بڑی دعوت کی جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے مہمانوں کو خود کھلانے کی طاقت نہ ہو تو دوسرے کے سر منڈھ دیا جائے۔ یہ ہمارے سماج کا کمزور پہلو ہے کہ شادی کے اس پورے عمل میں لڑکی والے شروع ہی سے دباؤ میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چوں چراں نہیں کرپاتے۔ لڑکے والوں کی شرائط کو تسلیم کرلینا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں لڑکے والوں نے لڑکی والوں سے ’استدعا‘ کی تھی کہ شادی جب بھی ہو، وہ پیر کا دن ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس مارکیٹ میں اس کی دکان ہے، وہ پیر کو بند رہتی ہے۔اس کی یہ ’درخواست‘ اسلئے تھی کہ اس کی مارکیٹ کے تمام افراد اس کی شادی میں شریک ہوسکیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ولیمہ پیر کو کرتے لیکن اس صورت میں خرچ کا بار اُن کی جیب پر آتا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا یہ بے غیرتی صرف اُن کی ہے، جو بارات لے کر جاتے ہیں؟ کیا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے جو بارات میں شریک ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کی دعوت میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کوئی اپنے گھر کھلانے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر جاکر کھانے کی دعوت دے تو اسے کیوں قبول کیا جائے؟ کیا ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ کر ایسی دعوتوں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کرسکیں کہ بھائی، جب آپ کو اپنے یہاں کھلانے کی طاقت ہو جائے گی تو آپ ضرور دعوت د یجئے گا، ہم ضرور حاضر ہوں گے لیکن برائے مہربانی حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ نہ کیجئے۔
No comments:
Post a Comment