Bhai Ramzaan baad
بھائی رمضان بعد
ابھی رمضان شروع بھی نہیں ہوا کہ ہم نے کام بند کردیا اور کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ جس کسی سے کچھ کام کیلئے کہو تو جواب ملتا ہے کہ’بھائی رمضان بعد‘۔اسی طرح دکانوں پر دیکھو تو رمضان کی مناسبت سے خریداری بھی زوروں پر ہے۔ ہماری ان حرکتوں سے دیگر اقوام کے سامنے ہماری شبیہ بہت بری طرح خراب ہورہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں مسلمان کام کم کرتے ہیں لیکن کھاتے پیتے زیادہ ہیں۔
اگر ایسا لوگ سوچتے ہیں تو شاید وہ غلط بھی نہیں کرتےحالانکہ یہ دونوں باتیں رمضان کی روح کے منافی ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کام نہ کرنا یا کام کم کرنے کا کوئی جوازہی نہیں بنتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کام کم کرنے کا جواز وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جو آرام دہ کاموں سے وابستہ ہیں۔ وہ لوگ جو بیچارے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں یعنی روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں، وہ اس طرح کی بہانے بازیاں نہیں کرتے۔
دوران سفراکثر ایک انجینئرسے ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ میں نے ایک ماہ قبل ہی رمضان کی مناسبت سے ۱۰؍ رمضان سے عید کے ۵؍ دن بعد تک ۲۵؍ دنوں کی چھٹی کیلئے اپلائی کردیا ہے۔ میں نے کہا کہ چھٹی مل جائےگی؟ تو کہنے لگے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں مسلمان ذرا کم ہیں، اسلئے آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اُن کا ہر سال کا معمول ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال سے وہ کمپنی سے وابستہ ہیں اور ہر سال رمضان میں اسی طرح چھٹیاں لیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان میں آغاز کے ۱۰؍ دنوں تک جب وہ آفس جاتے ہیں تو وہ کتنی بھی دیر سے دفتر جائیں ،ان سے باز پرس نہیں ہوتی اوررات میں بھی جلدی چھٹی مل جاتی ہے۔ میں نے کہا ، کیا یہ مناسب ہے؟ روزے آپ اپنے لئے رکھتے ہیں یا اپنی کمپنی کیلئے؟ اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، اس پرافسوس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب فائدہ مل رہا ہے، تو اٹھانے میں کیا حرج ہے؟‘‘یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ کم یا زیادہ ،اس طرح کا فائدہ بہت سارے لوگ اٹھارہے ہیں اور افسوس کہ اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتے۔
بلاشبہ رمضان کے روزے عبادت ہیںلیکن اس عبادت کا ایک مقصد بھی ہے۔ وہ یہ کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم اپنے اُن بھائیوں کا خیال رکھیں جو کسی وجہ سے بھوکے اور پیاسے رہنے پر مجبور ہیں اور پھران کی مدد کریں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی افادیت ہے کہ روزہ رکھنے سے پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے لیکن ہم جس طرح کھاتےپیتے ہیں، اس سے جہاں بھوکے پیاسے رہنے کی تکلیف کااحساس نہیں ہوتا، وہیں بیماریوں سے نجات ملنے کے بجائے نئی بیماریوں کو دعوت بھی دے بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم اس نکتے پر غور کریںگے؟
اگر ایسا لوگ سوچتے ہیں تو شاید وہ غلط بھی نہیں کرتےحالانکہ یہ دونوں باتیں رمضان کی روح کے منافی ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کام نہ کرنا یا کام کم کرنے کا کوئی جوازہی نہیں بنتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کام کم کرنے کا جواز وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جو آرام دہ کاموں سے وابستہ ہیں۔ وہ لوگ جو بیچارے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں یعنی روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں، وہ اس طرح کی بہانے بازیاں نہیں کرتے۔
دوران سفراکثر ایک انجینئرسے ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ میں نے ایک ماہ قبل ہی رمضان کی مناسبت سے ۱۰؍ رمضان سے عید کے ۵؍ دن بعد تک ۲۵؍ دنوں کی چھٹی کیلئے اپلائی کردیا ہے۔ میں نے کہا کہ چھٹی مل جائےگی؟ تو کہنے لگے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں مسلمان ذرا کم ہیں، اسلئے آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اُن کا ہر سال کا معمول ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال سے وہ کمپنی سے وابستہ ہیں اور ہر سال رمضان میں اسی طرح چھٹیاں لیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان میں آغاز کے ۱۰؍ دنوں تک جب وہ آفس جاتے ہیں تو وہ کتنی بھی دیر سے دفتر جائیں ،ان سے باز پرس نہیں ہوتی اوررات میں بھی جلدی چھٹی مل جاتی ہے۔ میں نے کہا ، کیا یہ مناسب ہے؟ روزے آپ اپنے لئے رکھتے ہیں یا اپنی کمپنی کیلئے؟ اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، اس پرافسوس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب فائدہ مل رہا ہے، تو اٹھانے میں کیا حرج ہے؟‘‘یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ کم یا زیادہ ،اس طرح کا فائدہ بہت سارے لوگ اٹھارہے ہیں اور افسوس کہ اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتے۔
بلاشبہ رمضان کے روزے عبادت ہیںلیکن اس عبادت کا ایک مقصد بھی ہے۔ وہ یہ کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم اپنے اُن بھائیوں کا خیال رکھیں جو کسی وجہ سے بھوکے اور پیاسے رہنے پر مجبور ہیں اور پھران کی مدد کریں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی افادیت ہے کہ روزہ رکھنے سے پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے لیکن ہم جس طرح کھاتےپیتے ہیں، اس سے جہاں بھوکے پیاسے رہنے کی تکلیف کااحساس نہیں ہوتا، وہیں بیماریوں سے نجات ملنے کے بجائے نئی بیماریوں کو دعوت بھی دے بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم اس نکتے پر غور کریںگے؟
No comments:
Post a Comment