Wednesday, 17 June 2015

Trainon men choriyan
 ٹرینوں میں چوریاں
گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے ان دنوں طویل مسافتی ٹرینوں میں کافی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے۔ جنرل بوگیوں کی بات جانے دیں، سلیپر کلاس اور تھرڈ اے سی میں بھی ویٹنگ لسٹ والے مسافروں کی کثرت ہوتی ہے۔ بھیڑ بھاڑ کے حوالے سے شمالی ہند کی ٹرینیںپہلے ہی سے بدنام ہیں لیکن اس وقت جنوبی ہند کی ٹرینوں میں بھی نشستوں کے مقابلے مسافروں کی تعداد دُگنی ہوتی ہے۔  ایک وقت تھا جب بھیڑ کی وجہ سے چوریاں کم ہوتی تھیں لیکن آج کے چور اسی بھیڑ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔  اس کی ۲؍ اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ ٹرین میں سیکوریٹی کے نام پر کچھ بھی انتظام نہیں ہوتا۔  اس سلسلے میں تمام وزیر برائے ریلویز صرف بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں، سریش پربھو بھی اپنے سابقہ پیش روؤں کی تقلید کررہے ہیں۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ ارباب اقتدار کی نظر میں راجدھانی ، شتابدی اور دورنتو کے علاوہ دیگر ٹرینوں کے مسافروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ان کی نظر کرم فرسٹ اے سی سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔   ایک دو حوالدار پوری ٹرین میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کے آنے سے مسافروں کو راحت کم، خوف زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ریلوے میں تعینات بیشتر حوالداروں کی توجہ مسافروں کی سیکوریٹی پر کم، اپنی ’اوپر‘ کی آمدنی پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے چوروں کے حوصلے کافی بلند رہتے ہیں۔مسافروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ چوروں سے ان کی سانٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔چوری کی دوسری بڑی وجہ ٹکٹ حاصل کرلینے  والے مسافروں کی رعونت ہوتی ہے۔   ۲۰؍ سے ۴۰؍ گھنٹے تک ایک ساتھ سفر کرنے والے مسافروں میں اتنی تلخی ہوتی ہے کہ سیزن کے دنوں میں ٹکٹ حاصل کرلینے والےمسافر دوسرے مسافروں کو اپنی سیٹ پر بیٹھنے تک کی اجازت نہیں دیتےجس کی وجہ سے چوری کرنے والوں کو بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔
    گزشتہ دنوں حیدرآباد سے ممبئی کی واپسی پر  گلبرگہ سے رات میں ڈیڑھ بجے ٹرین آگے بڑھی تو سیٹ حاصل کرلینے والے مسافروں میں سے بیشتر کے خراٹے گونجنے لگے۔ ایسے میں دو تین مشتبہ چور بوگی میں گھومتے دیکھے گئے لیکن اس بات کا پتہ بعد میں چلا کہ کچھ لوگوں نے انہیں گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔ شولا پور پہنچنے سے قبل ایک جگہ ٹرین رکی تو چور کا ایک ساتھی  دروازہ کھول کر گیٹ پر کھڑا ہوگیا اور پھر جیسے ہی ٹرین  آگے بڑھی، وہاں سیٹ نمبر ایک اور ۸؍ پر بے خبر سونے والے مسافروں کے بیگ لے کر اس کے دونوں ساتھی ٹرین سے کود گئے۔ پھر شور شرابہ ہوا لیکن تب تک ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی۔ بے خبر سونے والے مسافر اگر اپنی سیٹوں پر تھوڑی سی جگہ کی گنجائش نکال لیتے تو گیلری میں بیٹھے مسافر نہ صرف ان کے ممنون رہتے بلکہ رات بھر ان کے سامان کی نگرانی بھی کرتے  ۔کیا یہ نہیں ہوسکتا؟

No comments:

Post a Comment