Wednesday, 17 June 2015

Ghosht k beghair
گوشت کے بغیر....
 ووٹ بینک کےمدنظرمہاراشٹرسرکار نے بڑے کے گوشت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ پریشان ہیں ، جن میں سب سے زیادہ متاثربڑے کےگوشت کے شوقین لگتے ہیں۔بعض بوکھلائے بوکھلائے پھرتے ہیں تو بعض تسکین کی خاطر چکن کے قیمے، کباب، سیخ اور بغیر گوشت کے دالچہ  کھانے لگے ہیں۔بلاشبہ ریاستی سرکار کا یہ فیصلہ غلط ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ گوشت کھانے یا نہ کھانے کا فیصلہ کرنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے لہٰذا اس پر پابندی عائدکئے جانے کو اس کے بنیادی حقوق پر حملہ تو سمجھاجا سکتا ہے لیکن اسے انسان کی بنیادی ضرورت قطعی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اُس  وقت یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ اسے انسان کی   بنیادی ضرورت قرار دینے پرآمادہ نظر آتے ہیں اور اسے ناگزیر بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے کے گوشت کے بغیر کیا ہوگا؟
     حکومت کو یہ فیصلہ کرنا تھا، سو اُس نے کرلیا۔ جو لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا اور کچھ دنوں میں پہلے کی طرح پھر انہیں بڑے کا گوشت ملنے لگےگا، وہ خواب و خیال کی دنیا سے باہر آجائیں۔ یہ کوئی سیاسی بیان ، انتخابی منشور  یا محض کابینی فیصلہ نہیں ہے۔ آر ڈی ننس بھی نہیں ہے بلکہ یہ قانون بن چکا ہے۔ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کیلئے باقاعدہ قانون بنانے کی ضرورت پڑے گی جو موجودہ حالات میں ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اُمید بھری نگاہوںسے کانگریس کی جانب دیکھ رہا ہے کہ اُس کی سرکار آئے گی تو ’سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘ اسے شاید یہ نہیں معلوم یہ سب کانگریس ہی کا کیا دھرا ہے۔ بی جے پی کے اس دعوے میں بڑی حد تک سچائی ہے کہ یہ قانون تو کانگریس ہی کا بنایا ہوا ہے، ہم نے صرف اس کا نفاذ کیا ہے۔اب جبکہ یہ قانون بن چکا ہے، بڑے کے گوشت پر پابندی لگ چکی ہے تو ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ہمارا خیال ہے کہ ہمیں کچھ دن صبر کرنا چاہئے۔ ہم نے یہی بات ایک صاحب سے کہی تو انہوں نے سوال کیا کہ کچھ دن صبر کا کیا مطلب؟ کیااس کے بعد یہ پابندی اٹھا لی جائےگی؟ ہم نے کہا نہیں بھائی!اس کے بعد ہمیں اس کے بغیر کھانا کھانے کی عادت پڑجائے گی۔
    اول تو یہ کہ بڑے کا گوشت کھانا بہت ضروری نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اگر گوشت کھانا ہی ہے تو ہمارے پاس بکرے اور مرغ کے گوشت کے متبادل بھی موجود ہیں اور سوم یہ کہ کچھ ہی دنوں میں بھینس کا گوشت بھی ملنے لگےگا۔ ایسے میں  بیل کے گوشت کیلئے اصرار کرنا اور محض زبان کے چٹخارے کیلئے اپنے ساتھ کچھ اور لوگوں کی جان جوکھم میں ڈالنا قطعی مناسب نہیں؟ مالیگاؤں  میںگزشتہ دنوں غیر قانونی ذبیحے کا جو معاملہ پیش آیا ، وہ یقیناً  افسوس کی بات ہے، ہمیں ان حالات سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
Doctors aur samaj
 ڈاکٹرس اور سماج
ڈاکٹرس کو ہمارے سماج میں مسیحا کہا جاتا ہے۔ مسیحا کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو نئی زندگی عطا کر دے یا کسی بیمار کو صحت مند بنادے بلکہ وہ مریضوں کاعلاج کرتےہیں اور انہیں صحت مند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ڈاکٹر کے محض شفقت بھرا ہاتھ لگا دینے اور ان کے دو میٹھے بول بول دینے ہی سے مریض آدھا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ آج کے پیشہ ور ڈاکٹروں  سے اس بات کی امید کم ہی کی جاتی ہے۔  وہ ڈاکٹر س جنہیں  ہم ’چھوٹا‘ سمجھتے ہیں، وہ تو اس پر عمل کرتے ہیں لیکن’بڑے‘ڈاکٹرس مریضوں کو منہ لگانا پسند نہیں کرتے۔  ہمدردی کے دو بول کی بات تو جانے دیں، وہ مریضوں کو گاہک سمجھ کر دکاندار کی طرح بھی بات نہیں کرتے۔
    اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عموماً سماجی نہیں ہوتے، اس لئے سماج کے آداب سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ دولت  ہونےکی وجہ سے انہیں  سماج میں بلند ’مرتبہ‘ضرور حاصل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے یہاں شادیوں اور دیگر تقریبات میں کافی بھیڑ بھاڑ رہتی ہے لیکن ان کی حقیقی مقبولیت کا بھرم اُس وقت کھلتا ہے جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔  اس کے برعکس وہ ڈاکٹرس جو سماج میں اٹھتے بیٹھے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں،ہر سطح پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔  عام لوگ جب ان مسیحوں کو اپنے ساتھ دیکھتے ہیں تو انہیں اچھالگتا ہے اور وہ دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ حبس زدہ ماحول میں انہیں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بات اکثر محسوس کی گئی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جب یہ ڈاکٹرس تشریف لاتے ہیں تو لوگ ان کیلئے اپنی نشستیں خالی کردیتے ہیں۔
     اتوارکو بھیونڈی میںایسا ہی ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوا جب دھوبی تالاب اسٹیڈیم میں ڈاکٹرس کے ایک کرکٹ ٹورنا منٹ کاانعقاد عمل میں آیا۔اس میں کم و بیش ۱۷۰؍ ڈاکٹر بطور کھلاڑی شریک تھے جبکہ مہمان، منتظمین اور ناظرین کے طور پر بھی ۵۰؍ سے زائد ڈاکٹرس موجود رہے ہوںگے۔ان ڈاکٹروں کو دیکھنے کیلئے وہاں عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ یقیناً ان میں سے ایک بڑی تعداد کرکٹ کی شوقین رہی ہوگی لیکن بیشتر ایسے تھے جو صرف ان مسیحوں کوکھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔  ان کی دلچسپی کاا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سخت دھوپ کے باوجود وہ  دن بھر اسٹیڈیم میں بیٹھے رہے،  ان کے چوکوں چھکوں سے لطف  اندوز ہوتے رہے اور ان کی پزیرائی کرتے رہے۔
    اس مقابلے میں تھانے ضلع سےتعلق رکھنے والی ڈاکٹروں کی ۱۲؍ ٹیمیں شامل تھیں۔ تالیوں کی گونج میں جب یہ کھلاڑی انعام لے رہے تھے تو دل کہہ رہا تھا کہ کاش! یہ منظر وہ ڈاکٹرس بھی دیکھتے جو اپنے ایئر کنڈیشنڈ ’شفاخانوں‘سے اپنے گھر کے درمیان قید رہتے ہیںیا باہر نکلتے بھی ہیں تو کسی ہل اسٹیشن پرقیام کرتے ہیں ۔
Pani bachaaiye
پانی بچائیے!

انسانی زندگی کیلئے پانی ایک لازمی جز ہے۔ہم سب کو پانی کی قلت کا زیادہ سامنا نہیں ہے، شاید اسی لئے اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی نہیں ہے لیکن  وطن عزیز ہی کے بعض حصوں میں پانی کا شدیدبحران  ہے، ایک ایک بوند پانی کیلئے لوگ ترستے ہیں۔  پینے کیلئے پانی حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر تک کا سفر کرنا پڑتاہے۔ بعض جگہوں پر اس کیلئے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور اسی ملک کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی پانی میسر نہیں ہے۔
    ہم ممبئی اور اطراف کے شہری بھی اپریل اور مئی کے مہینوں میں  پانی کی سپلائی میں کٹوتی سے پریشانی اٹھاتےہیں ۔جون کے مہینے میں  بارش میں ذر ا تاخیر ہوئی تو ہاہاکار مچنے لگتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی    اس طرح کی صورتحال سامنے آئی تھی ، ایسا کہا جانے لگا تھا کہ اگر دو ہفتے مزید بارش نہ ہوئی تو پانی کا ذخیرہ ختم ہوجائے گا۔ ذخیرہ ختم ہونے کا مطلب ممبئی اور مضافات کے ۲؍ کروڑ سے زائد شہریوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ایسا کبھی نہ ہو اور  ماضی قریب میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں لیکن اس پر غور ضرور کیا جانا چاہئے کہ خدانخواستہ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟   پا نی کے بغیرممبئی اور اہل ممبئی کا کیاہوگا؟
     اس پر غور کرنے کی ضرورت اس لئے پڑرہی ہے کہ ان حالات میں جبکہ شہر اور مضافات میں ایک جانب جہاں پانی کی کٹوتی کا آغاز ہوچکا ہے اوران خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر جون کے آغاز ہی میں بارش نہیں ہوئی تو شہریوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،  وہیں دوسری جانب بہت ساری جگہوں پر پانی کا بیجا استعمال ہورہا ہے بلکہ بعض مقامات پر بلاسبب پانی ضائع کیا جارہا ہے۔
     ہم  چالیوں میںاکثر دیکھتے ہیں کہ خواتین کپڑا دھونے بیٹھتی ہیں تو نل کھلا ہی چھوڑ دیتی ہیں۔  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی قطعی پروا نہیں  ہے کہ پانی ضائع ہورہا ہے۔ انہیں کپڑے دھونے میں ایک گھنٹے لگیں یا دو گھنٹے، نل یوں ہی رواں دواں رہتا ہے۔ خواتین کا گروپ ہو تو پھرخدا خیر کرے، دو گھنٹے کا کام تین گھنٹے میں بھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی جو کام ۱۵؍ سے ۲۰؍ لیٹر میں ہوسکتا تھا، اس کیلئے ۸۰؍ سے ۱۰۰؍ لیٹر پانی ضائع کیا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ کہ اس پر افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا بلکہ اس موضوع پر سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔
    ویسے نلوں کو کھلا چھوڑ کر کپڑے دھونےوالی خواتین کبھی کبھار  تنقیدوں کا نشانہ بھی بنتی رہی ہیں لیکن بڑے گھروں میں رہنےوالے اُن ’سیٹھوں‘ کو کوئی کچھ نہیں کہتا جن کی یہ سوچ رہتی ہے کہ پانی کا سالانہ بل ادا کرنے کے بعد ہم جتنا چاہیں پانی خرچ کریں۔ ہمارے سماج میں ایسی سوچ رکھنےوالوں کی کثرت  ہے اور یہ سوچ بلا سبب کہیں زیادہ پانی خرچ کرواتی  ہے ۔
Taameer e Akhlaaq
تعمیر اخلاق
وطن عزیز میںمسلمانوں کی یہ شکایت عام ہے کہ ایک بڑا طبقہ ان سے تعصب اور کہیں کہیں نفرت کرتا ہے۔ اس شکایت میں جزوی سچائی ہوسکتی ہے لیکن یہ مکمل سچ قطعی نہیں ہے۔  اس طرح کی صورتحال کا اگر ہمیں کہیں سامنا ہے بھی تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔    یہ بات ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کی زور پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے اخلاق سے پھیلا ہے۔  اس دور کےمسلمان اپنے اخلاق کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ، جن سے متاثر ہوکر لوگ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔ آج صورتحال بالکل معکوس نوعیت کی ہے۔ آج بھی ہم اپنے اخلاق ہی کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں مگر  اخلاق حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے سبب نہیں بلکہ اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے۔ ہمارےمحلے گندے ہوتے ہیں، ہم لین دین میں کچے ہوتے ہیں اور کاروبار میںایمانداری اور شرافت کو خسارے کا سودا سمجھتے ہیں۔    جہاں چار نوجوان گالم گلوج کرتے نظر آئیں تو لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی ہوںگے۔ کوئی تیز بائیکر ہو یا  رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا کوئی چور ، لڑکیوں کو سر عام چھیڑنےوالا کوئی اوباش ہو یا اپنوں سے بڑوں سے اونچی آواز میں باتیں کرنے والا کوئی نوجوان، پہلی نظر میں لوگ یہی اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی ہوگا۔  وہ اخلاق جو ہماری شناخت ہوا کرتی تھی ، جس کی وجہ سے ہم دوسروں میں ممتاز تھے اور جو ہماری سب سے بڑی طاقت تھی،  اب ہمارے سماج سے وہی خوبی مفقود ہوگئی ہے۔ 
    ہمارے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ منجملہ پوری قوم اخلاق سے عاری ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہماری یہی شناخت ہے۔
    ان حالات میں ضرورت ہے کہ دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے اخلاق کو ایک بارپھر اس بلندی تک لے جانے کی کوشش کریں کہ لوگ ہم سے نفرت نہیں محبت کریں اور ہمیں دور بھگانے کے بجائے اپنے پاس بٹھائیں۔
    تعمیر اخلاق نام کی ایک تنظیم کچھ انہی مقاصد کے پیش نظر گزشتہ ۴؍ سال سے بھیونڈی میں سرگرم ہے۔ اس کا دائرہ کار بہت محدود ہوتے ہوئے بھی بہت وسیع ہے۔اس تنظیم نے اخلاق کی تعمیر کیلئےاسکولوں کا انتخاب کیا اور پوری محنت پرائمری اور ہائی اسکولوں پر کررہی  ہے۔ طلبہ میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کیلئے اس تنظیم  نے ایک نصاب ترتیب دیا  ہےجس کا باقاعدہ تحریری اور زبانی امتحان لیا جاتا ہے۔ صرف چار سال میں اس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ گزشتہ دنوں اس کے تحریری مقابلے میں ۸۰؍ اسکولوں سے ۴۵۰۰؍ طلبہ اور زبانی مقابلے میں ۵؍ ہزار سے زائد بچوں نے حصہ لیا ؟
      یہ ایک بہت چھوٹی کوشش ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ کچھ ہی دنوں میں ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اور  دور رس نتائج برآمد ہوںگے۔
Gaadiyon ka Nasha
گاڑیوں کا نشہ

اپنےاطراف میں نظر دوڑاؤ تو ایسے شرفاء کی تعداد انگلیوں پر شمار کئے جانےاتنی ہی ہوگی جن پر دولت و امارت کا نشہ نہیں چڑھتا ورنہ بیشتر کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار ضروری سمجھتےہیں۔ بالخصوص دولت مندوں کا وہ طبقہ جو مہنگی گاڑیوں سے چلتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہوتی ہے جو پیدل چلنے والوں یااپنی سے چھوٹی گاڑی پر چلنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ راستہ نہ ملنےپرکبھی صرف گھور کردیکھنے پر اکتفا کرتے  ہیں تو کبھی کبھار  اپنی نفرت کا برملا  اظہار بھی کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں ہونےوالی ہنگامہ آرائی پر  صفائی پیش کرتے ہوئے اپنی  شرافت کی دلیل ہی یہی دی تھی کہ میں اتنی مہنگی گاڑی سے چلتا ہوں، میں بھلا اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہوں؟ اس بیان سے اس شخص کی رعونت جھلک رہی تھی۔
        افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم  دولت مندوں میں  یہ رعونت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ تنگ گلیوں میں جب وہ گاڑی لے کر نکلتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لال بتی کی گاڑیوں کی طرح، لوگ ان کی گاڑی کو نکل جانے دیں،انہیںدیکھ کرراہ گیر تتربتر ہوجائیںاور حیرت و استعجاب سے انہیں اور ان کی گاڑی کا نظارہ کریں۔ ایسا سوچنے والوںکی تعداد بہت مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کی وجہ سے دو طبقوں کے درمیان نفرت کا ماحول آج بھی قائم ہے۔
     گزشتہ دنوں بھیونڈی کی ایک تنگ گلی میں ایسی ہی ایک بڑی گاڑی کی’ گھس پیٹھ ‘   سے بد مزگی پیدا ہوئی۔ اول تو یہ کہ راستہ تنگ ہے،  وہاں سے ایک وقت میں ایک ہی بڑی گاڑی گزر سکتی ہے۔ دوم یہ کہ اس راستے پرایک اسکول بھی قائم ہے، جہاں چھٹی کے وقت کافی بھیڑ ہوجاتی ہے۔  بڑی گاڑی کے آجانے سے وہاں کا ٹریفک نظام بری طرح سے درہم برہم ہوگیا۔ ایک طرف سے بچوں سے لدے پھندے رکشوں کی قطار تھی تو دوسری طرف بڑی گاڑی، درمیان میں بائک اور اسکوٹر کے ساتھ پیدل مسافروں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ معاملہ خراب نہ ہوگا اگر ’سیٹھ جی‘ اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے لے لیتے اور رکشوں کونکل جانے دیتے لیکن ایسا کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق یہ کام رکشے والوں کو کرنا تھا  لیکن  سچائی تویہ تھی کہ رکشوں کی اتنی طویل قطار تھی کہ ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد بڑی گاڑی کا بھی پیچھے ہٹنا دشوار ہوگیا۔ دونوں طرف سے راستہ  ایساجام ہوا کہ گھنٹوں تک وہاں سے کوئی نکل نہیں سکا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹریفک کی وجہ سے جز بز ہورہے تھے اور وہ موصوف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نہایت اطمینان سے ایف ایم پر گانے سن رہے تھے۔
    یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور  ان علاقوں میںضرور ہوتا ہے جہاں کی گلیاں تنگ ہوں اور چند مسلم نوجوانوں کے پاس  بڑی گاڑیاں ہوں۔ کیا اب  ہم انہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھیںگے؟
Kitabon k talabgaar
کتابوں کے طلبگار بہت ہیں
 
’اُدھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘کی طرز پر ایک زمانے تک’کتابیں مانگ کر نہ پڑھیں ‘لکھا جاتا رہا ہے۔  چند سال قبل تک بعض رسائل بھی یہ طنزیہ کہ فقرہ ’اردو کے اخبار اوررسائل خرید کر پڑھیں‘ تواتر کے ساتھ لکھتے رہے تھے لیکن اب دونوں باتیں یعنی مانگ کر نہ پڑھنے کی تنبیہ اور خرید کر پڑھنے کا ’مشورہ‘ عموماً نہیں دیا جاتاکیونکہ اب تومفت میں بھی پڑھنے  لالے پڑ گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پڑھنے کیلئے اگر کوئی صاحب کتاب مانگتے ہیں، تو بھی اچھا لگتا ہے۔
    مضامین جمع کرکے اسے کتابی شکل عطا کرنا اور اسے طباعت کے مرحلے سے گزار کر بحسن و خوبی گھر تک لانا، اب زیادہ مشکل نہیں رہا جتنا مشکل اسے پڑھنے والوں تک پہنچانا ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے تو یہ تک دیکھا ہے کہ کچھ لوگ مصنف کو یہ کہہ کر کتاب واپس کر دیتے ہیں کہ ’’بھئی پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے،کسی اور کو دے دینا۔‘‘  ان کا انداز تحقیر آمیز بھی ہوتا ہے، بالکل اسی طرح،جس طرح راستے میں چلتے ہوئے حکیموں کا وزیٹنگ کارڈ لینے سے ہم اور آپ انکار کرتے ہیں۔  ایسے وقت میں مصنف کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ وہ مسکراتا ضرور ہے لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے جو کرب   پوشیدہ ہوتا ہے،اسے وہ  فنکار ہی محسوس کرسکتا ہے جس کے فن کو غیر اہم بتاکر اسے سرِ عام رسوا کیا گیا ہو۔
     ان حالات میں جبکہ لوگ گھر پہنچا کر ملنے والی مفت کتابوں کو لیناگوارہ نہیں کرتے، اگر کہیں یہ دیکھنے میں آئے کہ کتاب کی اجرائی تقریب میں پورا ہال بھر جائے اور اردو والے کھڑے ہوکر صاحب کتاب کی حوصلہ افزائی کریں تو اچھا لگتا ہے، ایک قرار آتا ہے اور اطمینان ہوتا ہے کہ اردو سے محبت کرنے والوں کی آج بھی کمی نہیں ۔ اس وقت انہیں چیلنج کرنے کا دل کہتا ہے جو اُردو کے تئیں مایوسی کی باتیں کرتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں ، دیکھیںاور اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔
    گزشتہ دنوں بھیونڈی میں ۲؍ کتابوں کا اجراء ہوا اور دونوں تقریبات کے حوالے سے یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پہلی کتاب عزیز نبیل کی ادارت میں شائع ہونےوالی ’دستاویز‘ تھی جس میں انہوں نے اردو کے غیرمسلم شعرا ء کا مختصر تعارف اوران کے نمونۂ کلام کو یکجا کیا  ہے جبکہ دوسری کتاب رونق افروز کی تھی جس میںانہوں نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کو شامل کیا ہے۔ دونوں جگہ صاحب کتاب کی بھرپور پزیرائی ہوئی اوران کی کوششوں کو خوب سراہا گیا۔
      مذکورہ اجرائی تقریب سے دو ہفتے قبل بھیونڈی میں مزید ۲؍ کتابوں کی رونمائی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر محمود حسن  کے مضامین کامجموعہ’ مقالات محمود‘ اور محمد رفیع انصاری کے انشائیوں کا مجموعہ’غریب خانہ سجا رہا ہوں ‘کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ایک ماہ میں رونما ہونےوالی یہ چاروں تقریبات  سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُردو کتابوں کے طلبگار آج بھی بہت ہیں، مایوسی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔

Saturday, 21 June 2014

kahan gayi bedaari aur kahan gayi tahreeken?

کہاں گئی ہماری تعلیمی بیداری اور کہاں گئی ہماری تحریکیں؟

۱۹۹۷ء میںتنویرمنیار کی کامیابی کےبعد پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر محسوس کی گئی تھی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے دسویں میں ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔   الماس سید نے بارہویں میں اور  ڈاکٹر  شاہ فیصل نے یوپی ایس سی میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے  اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا ....
لیکن  اب  کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے؟ کیا ہماری تعلیمی تحریک جمود کا شکار ہورہی ہے یاہم نام و نمود کے جال میں پھنس گئے ہیں؟

قطب الدین شاہد

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستانی مسلمان بالکل ٹوٹ کر رہ گئے  تھے۔ قانو ن و عدالت کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے مذہبی جنونیوں کے ایک گروہ نے مرکزاور ریاست کی کانگریس اور بی جے پی حکومتوں کی سرپرستی اور فوج کی موجودگی میں بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیاتھا۔اس کی وجہ سے مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے تھے کیونکہ یہ صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے نام اس گروہ کا یہ پیغام بھی تھا کہ اب تمہیں دستوری تحفظات نہیں بلکہ ہمارے رحم و کرم کا محتاج بن کر رہنا ہوگا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا ٹوٹ جانا اور ان کے حوصلوںکا پست ہوجانا فطری تھا۔
    لیکن وہ مسلمان ہی کیا جو اس طرح کے نامساعد حالات سے گھبراجائے ۔ کشتیاں جلاکر اپنا ہدف طے کرنے والی قوم جب خلوص و ایمان کی طاقت سے کوئی معرکہ سرکرنا چاہتی ہے تو مشکلات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن پاتیں۔ بابری مسجد کی شہادت اوراس کے بعد پورے ملک میں پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بھی یہی ہوا۔ مسلمانوں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ سرخروئی چاہئے تو قوم کی تعلیمی صورتحال کو بدلنا ہوگا اور تعلیمی پسماندگی کے اس دلدل سے باہر نکلنا ہوگا۔ سابق بیوروکریٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد کی قیادت میں نکلنےوالے تعلیمی کارواں   نے پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ۱۹۹۷ء میں مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر شولا پورسے تنویر منیار کی صورت میں روشنی کاایک مینار بلند ہوا۔  اردو میڈیم کے اس طالب علم نے دسویں کے امتحان میں ریاست  کے لاکھوں طلبہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔  یہ کامیابی کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں تھی اور یہ صرف تنویر ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس کامیابی میں پورا شولا پور، پوری ریاست اور پورا ملک شریک تھا۔
     اس کامیابی پرشولا پور کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے مسلمان ناز کررہے تھے۔  اپنی کامیابی کی خوشبو سے انہوںنے پوری فضا کو معطر کردیا تھا اورسبھی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ وہ صرف اپنی امی کے بیٹے نہیں رہ گئے تھے بلکہ ان کی صورت میں تمام ہندوستانی مسلم ماؤں کو اپنے بیٹے کی صورت نظر آنے لگی تھی، سبھی اُن کی بلائیں لیتی تھیں  اور انہیں دعائیں دیتی ہوئی نظر آرہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا بھی انقلاب لائے اور ہندوستانی مسلمانوں کے عزت اور وقار میں اضافے کا باعث بنے۔
    بابری مسجدکی شہادت کے بعد پہلی بار ہندوستانی بالخصوص مہاراشٹر کے مسلمانوں کو خوش ہونے کا موقع ملا تھا۔بلاشبہ تنویر کی کامیابی میں ان کی اپنی اوران کے والدین و اساتذہ کی بے پناہ محنتیں شامل تھیں لیکن اتنی بڑی کامیابی صرف محنتوں سے نہیں ملا کرتی بلکہ اس کامیابی میں پورے ملک کے مسلمانوں کی دعائیں اور نیک تمنائیں بھی شامل تھیں۔ تنویر کی کامیابی کوئی اچانک اورانہونی کامیابی بھی نہیں تھی بلکہ اس کی توقع تھی اورامید کی جارہی تھی کہ اس تعلیمی بیداری کا کوئی تو نتیجہ برآمد ہوگا لیکن یہ تنویر کہاں سے ابھرے گا، اس کا  اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
    ہمیںاچھی طرح یاد ہے، تنویر منیار نے جس سال ایس ایس سی میں مہاراشٹر ٹاپ کیا  تھا، ہم بھیونڈی میں تھے۔ اُس وقت ہمارا تعلق کسی اخبار سے نہیں تھا۔ انٹرنیٹ عام افراد کی پہنچ سے دور تھا، اس وقت اخبارات کے دفتر ہی قبل از وقت خبریں فراہم کرنے کا ذریعہ ہواکرتے تھے، بالخصوص وہ خبریں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح  قوم و ملت سے ہوتاتھا۔ ہم نے بھی  اسی ذریعہ کااستعمال کیا اور’ انقلاب ‘کے دفتر میں فون کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس مرتبہ کیا رزلٹ رہا اور میرٹ میں’ اپنا‘ کوئی ہے کہ نہیں!  اور جب یہ خوشخبری ملی کہ نہ صرف یہ کہ میرٹ میں اپنے کئی طلبہ ہیں بلکہ پوری ریاست کو اردو کے ایک طالب علم نے فتح کرلیا ہے تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ تھوڑی سی تفصیل لے کر اپنے دوستوں کی مدد سے ہم نے اسے شہر کی کئی دیواروں پرلکھ بھی دیا جس کی وجہ سے  تھوڑی ہی دیر میںیہ خوشخبری پورے شہر میں پھیل گئی۔
    دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی حالت دیکھنے جیسی تھی، بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی روتے روتے ہنس پڑا ہو۔ مسرت کے آنسو اُن چہروں پر بھی نظر آرہے تھے جو جانتے بھی نہیں تھے کہ ایس ایس سی امتحان کیا ہوتا ہے اور میرٹ کس چڑیا کا نام ہے، وہ بس اتنا جانتے تھے کہ ایک مسلم بچے نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ممبئی، بھیونڈی، کلیان، مالیگاؤں، پونے، اورنگ آباد، جلگاؤں اور ریاست کے دیگر شہروں میں تنویر منیار کا زبردست استقبال کیا گیا تھا۔ تنویرنے یقیناً پورے ملک کے مسلمانوںمیں خوشی کی لہردوڑادی تھی۔ اس کامیابی کے بعد وہ سب کے اپنے ہوگئے تھے اور سب ان کے اپنے ہوگئے تھے۔ بھیونڈی میں انجمن فروغ تعلیم نے جب انہیں مدعو کیا تو شہر میں عید جیسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ تنویر کے استقبال اور خیر مقدم میں  جگہ جگہ بینر لگے  ہوئےتھے اور کوٹرگیٹ مسجد کے پاس ایک شاندار استقبالیہ گیٹ بھی بنایا گیاتھا۔ ٹھاکرے ہال میں انہیں دیکھنے کیلئے ایک خلقت امڈ پڑی تھی۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، ہال کے باہر بھی بہت سارے لوگ موجود تھے۔  یہ تقسیم انعامات کا پروگرام تھا لیکن  وہ طلبہ بھی جنہیں انعام ملنے والاتھا، حصول انعام سے زیادہ تنویر سے ملاقات کے متمنی تھے۔ ہر کوئی تنویر کو دیکھنے کا تمنائی تھا اوران سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ اپنی ہی جیسی مٹی کا بنا ہوا کوئی انسان ہے یا کوئی اور ہے۔ یہی صورتحال ممبئی، کلیان، جلگاؤں، مالیگاؤں اور پونے میں بھی تھی۔
    اس کامیابی نے ایک راہ ہموار کی۔طلبہ میں جوش بھر گئے تھے۔ والدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ قوم کی سربرآوردہ شخصیتوں نے اخلاص کے ساتھ   اس مشن کو آگے بڑھایا اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔  اس فہرست میںزرین انصاری ، رضوانہ انصاری، بلال مستری، خان صبا شریف اورواجدہ کاریگر کانام لیا جاسکتا ہے۔ کئی دیگر ریاستوں کے بورڈوں میں بھی مسلم طلبہ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔   ۲۰۰۹ء  میں الماس ناظم سید نے اس مشن کو اور آگے بڑھایا جب انہوں نے  بارہویں میں مہاراشٹر ٹاپ کیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں میں مسرت کی یہی کیفیت تھی۔الماس کو دیکھنے اور سننے کیلئے بھیونڈی کے ٹھاکرے ہال میں گنجائش سے زیادہ افراد جمع ہوگئے تھے۔ اس  موقع پر الماس نے ۱۵؍ منٹ کی تقریر کی تھی اور ا س مختصر وقفے میں انہوں نے اتنی  اثر انگیز باتیں کی تھیں جتنی ہمارے خطیب، مقرر اور سیاست داں  برسوں میں بھی نہیں کرپاتے۔گفتگو کے دوران الماس  کے والد نے بھی ایک پتے کی بات کہی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’کل تک الماس کو دیکھ کر لوگ کہاکرتے تھے کہ دیکھو! ناظم کی بیٹی جارہی ہے لیکن آج مجھے دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! الماس کے ابو جارہے ہیں۔ یہ میرے لئے بجاطور پر فخر اور خوشی کی بات ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ الماس جیسی بیٹی پاکر کون باپ خوش نہیں ہوگا؟ اس موقع پر ہم نےہال میں موجود بیشتر بچوں کی آنکھوں کی ایک چمک سی محسوس کی تھی کہ وہ بھی سرخرو ہوکر اپنے والدین کو اسی طرح سر بلندی کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کریںگے۔
    اس کارواں کو مزید آگے بڑھایا ڈاکٹرشاہ فیصل نے۔ ۲۰۱۰ء میںہندوستان کے سب سے سخت اور قابل رشک مقابلہ جاتی امتحان میں۴؍ لاکھ سے زائد طلبہ کے درمیان اول مقام حاصل کرنے والے ڈاکٹر شاہ فیصل نے عزم محکم اور عمل پیہم کو اپنی کامیابی کی کلید قرار دیا۔ کامیابی کے بعد انہوں نے ایک ایسی بات کہی  جسے ہم جیسے اُن تمام لوگوں کو اپنی گرہ میں باندھ لینا چاہئے جو موقع بے موقع جواز اور بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا  تھاکہ ’’۸؍ سال قبل جب چند دہشت پسندوں نے والد صاحب کو قتل کردیاتو میرے سامنے دو ہی راستے تھے ، یا توخود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں یا پھر تن کر کھڑا ہوجاؤں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کروں.... اور پھر میں نے آخرالذکر فیصلہ کیا۔‘‘
    ان کامیابیوں نے بعد کے طلبہ کو کافی حوصلہ بخشا اوراس کے خاطر خواہ نتائج بھی دیکھے گئے۔ ملاحظہ کریں ایک مثال۔  تنویر منیار نے جس سال کامیابی حاصل کی تھی، اس سال یعنی ۱۹۹۷ء میں بھیونڈی میں صرف  ۹؍ طلبہ نے امتیازی اور ۱۱۹؍  نے اول درجے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن تنویر کی کامیابی سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے سال ۳۳؍ طلبہ امتیازی اور ۲۲۳؍ اول درجے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد بلال، زرین اوررضوانہ کی کامیابی سے حوصلہ پانے کے بعد  یعنی ۲۰۰۰ء میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنےوالے طلبہ کی تعداد ۴۳؍ اوراول درجے میں کامیاب ہونےوالوں کی تعداد ۳۹۵؍ ہوگئی۔
     یہ صرف ایک شہر کی مثال ہے،ورنہ یہی کیفیت  پوری ریاست اور پورے ملک کی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس بیداری پر غفلت کا سایہ پڑتا جارہا ہے۔اب کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے  جیسے ہماری تعلیمی تحریکیں جمود کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ اس موقع پر ہم سب یعنی والدین، اساتذہ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، سماجی اداروں کے سربراہ اور قوم کے خیرخواہوں کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خلوص کا دامن ہم سے چھوٹتا جا رہا  ہے اور ہم نام و نمود کے چکر میں اپنے سرمائے کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں؟