Tuesday, 29 October 2013

Roznaamcha_Shaam ke baad Sannata


 شام کے بعد کا سناٹا

قطب الدین شاہد

دن بھر کی ہماہمی کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب مصروفیتوں پر تھوڑا ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ یہ وقفہ آرام اور احتساب کا ہوتا ہے،دوڑ دھوپ میں کیا کھویا ، کیا پایا کے حساب کتاب اور جائزے کا ہوتا ہے۔ اس وقت بعض چہروں پر اطمینان کی جھلک پائی جاتی ہے تو بعض کے چہروں سے جھلاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔شام کے بعد کے اس سناٹے میں وہ لوگ گہری نیند کا مزہ لیتے ہیں جو اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں یا جن کی کارکردگی کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن یہی سناٹا ان لوگوں کیلئے روح فرسا ثابت ہوتا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے جن کی دوڑ بھاگ کے نتائج غلط یا ان کی توقع کے برعکس ہوتے ہیں۔
    کتنی عجیب با ت ہے کہ اپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے  بوڑھے والدین کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے.... اور پھر کچھ عرصے کے بعد  وہی بچے بڑے ہوکراپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے انہیں بھی اسی انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف حال میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی’خوشی‘ کا اتنا خیال رہتا ہے کہ ماضی یعنی والدین کی محبت کو فراموش کردیتے ہیں اور مستقبل یعنی اپنا انجام بھی بھول جاتے ہیں۔
     اس تمہید کا پس منظر ایک ڈراما ہے جس کا نام ’شام کے بعد کا سناٹا‘ ہے۔ مصنف نے زندگی کے تین ادوار بچپن، جوانی اوربڑھاپے کو صبح ، دوپہر اورشام سے تشبیہ دیتے ہوئے شام کے بعد کے سناٹے کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ’اولڈ ایج ہوم‘ جس میں اپنی اولادوں کے ستائے ہوئے مختلف مذاہب  کے معمر افراد ہیں۔ یہ سب متوسط  اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دن رات محنت کرکے دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ لوگ کبھی موٹر، گاڑی ، بنگلہ کے مالک تھے اور بینک بیلنس رکھتے تھے مگر آج کسی اورکے رحم و کرم پر زندگی کے بقیہ ایام گزاررہے ہیں۔یہاں پہنچ کر جہاں یہ ماضی کی باتیں یاد کرکے اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتےہیں، وہیں موجودہ سماجی روش کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی صورت حال سوچ سوچ کر پریشان بھی ہیں۔اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے یا بیٹیوں اور بہوؤں کے ظلم و ستم سے پریشان ہوکر خود ہی گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان بوڑھوں کو اس بات کا شدید ملال تھا کہ جن کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا، غلط و صحیح کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی ہر خوشی کا خیال رکھا، انہیں یہ جاننے کی بھی فکر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ ایک دن ایک بوڑھا مرگیا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’وٹھل کہتا تھا کہ جب اس کو بیٹا پیدا ہوا تو اس نے کندھے پر ٹوکری رکھ کر محلے میں لڈو بانٹا تھا،آج وہی بیٹا اس کی ارتھی کو کاندھا دینے بھی نہیں آیا۔‘‘
    ان کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ایک دن قدرے تاخیر ہوجانے پر وہاں کے ملازم کے گھر سے فون آگیا کہ کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔ وہاں کے بوڑھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’اپنے بچوں کو کیا کھلایا ہے اور کیسی تربیت کی ہے کہ وہ اس دنیا کے نہیں معلوم ہوتے؟‘‘ نوکر کہتا ہے کہ’’ ہم نے بچوں کو حلال کمائی کے نوالے کھلائے ہیں اور بزرگوں کی عزت کی صرف تلقین نہیں کی بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے۔‘‘اس میں یوں تو بہت ساری سبق آموز باتیں ہیں لیکن نوکر کےاس جملے کو اس  ڈرامےکا حاصل کہاجاسکتا ہے۔ صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں کیلئے بھی یہ باتیں عبرت انگیز ہیں ، ہم تو بحمدللہ مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں  اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہر غلط عمل کی سزا خود ہمیں ہی بھگتنی ہوگی۔

Saturday, 19 October 2013

Roznaamcha_The Genration Gap

  بزرگوں اور بچوں کے درمیان فاصلہ

قطب الدین شاہد

 عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوں میں  بڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ      تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے   مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن خطبہ ختم ہونے کے بعد جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر کافی پیچھے کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو باہر بھی نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئےجانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوں اور بزرگوں کا احترام کرنا چھوڑ دیں، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔
     آج ہمارا موضوع یہی ہے کہ بزرگوں اوربچوں کے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس خلیج کو بھرا کیسے جاسکتا ہے؟
      یہ شکایت عام ہے کہ بچے بزرگوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہے۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ شرارت تو کسی حد تک گوارا ہے مگر طلبہ کی ایک بڑی تعداد تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے بدتمیزی پر آمادہ نظر آتی ہے۔  اپنی اصلاح پر توجہ دینے کے بجائے  یہ بچے اساتذہ کی شکایت  پرنسپل، والدین اور بعض تو پولیس اسٹیشن میں بھی کربیٹھتے ہیں۔
    حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں اور  ماضی کی باتوں کو یاد کرکے اسے اچھا  اور اس بہانے خود کو  اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں۔ آج کے طلبہ اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اساتذہ اور بزرگوں کوخاطر میں نہیں لاتی لیکن....
     یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟دو نسلوں کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس صورتحال کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اس لئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کرنے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتےہوئے انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوںگے۔ کچھ یہی  حال آج کے اساتذہ کا بھی ہے۔  بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں اور طلبہ کو اپنے بڑوں، بزرگوں اور اساتذہ سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ سلام  و احترام کرنے اور ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں  آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔
    

Saturday, 14 September 2013

sentence for rape

آبروریزی کے مجرموں کو پھانسی کی سزا
خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دیاجانا ضروری تو ہے مگر
جرم  کےتدارک کیلئے بھی کچھ  کوششیں کی جائیں تو اچھا ہے
 
مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟  کیاسماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو عصمت دری سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟  اس طرح کی وارداتوں سے بچنے کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتے؟
  
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ سال۱۶؍ دسمبرکو دہلی میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری کے وحشی مجرمین کو عدالت نے قرار واقعی سزا سنا دی ہے۔انہیں پھانسی کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ بلاشبہ یہ اسی کے حقدار تھے بلکہ اس سے بھی کوئی سخت سزا انہیں دی جاتی تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا۔اس معاملے کی ایک اچھی بات یہ رہی ہے کہ سست رفتاری کیلئے مشہور ہمارے عدالتی نظام نے نہایت تیز رفتاری سے معاملے کی سماعت کی اور محض ۹؍ مہینوں میں فیصلے کا اعلان کردیا ۔ اس پر اپنے رد عمل کااظہار کرتے ہوئے جہاں دفاعی وکلاء نے سیاسی دباؤ میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا وہیں متاثرہ کے والدین نے خوشی کاظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بالآخر ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا۔‘‘ اس پر بحث بعد میں کی جائے گی کہ یہ فیصلہ سیاسی دباؤ میں کیا گیا ہے یا نہیں ۔۔۔۔ یاپھر یہ کہ ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا ہے یا نہیں..... آئیے گفتگو کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کے جرائم کوہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کی تدابیر یا طریقے اختیار نہیںکئے جاسکتے؟
    ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جرم ہونے سے قبل انہیں روکنے کی بات کرنے پر ہمیں قدامت پرست اور دقیانوسی خیالات کا حامل قرار دیا جائے گا۔اس سے قبل ہم کئی اہم شخصیتوں کا حشر دیکھ چکے ہیں کہ جیسے ہی کسی نے اس موضوع پر لب کشائی کی اور احتیاطی تدابیر کی بات کی، میڈیا اور سیاست دانوں کے ساتھ خود کو آزاد خیال کہنے والوں نے اس پر یلغار کردی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں تاکہ اس بہانے ایک کو ٹی آر پی بڑھانے اور دوسرے کو سیاسی روٹیاں سینکنے کے مواقع مل سکیں۔ ایک سادہ سا اصول ہے کہ کسی بینک میں ڈکیتی ہوجائے تو وہاں صرف بینک کے باہر سیکوریٹی میں اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے قبل تجوری کی مضبوطی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ لٹیروں کی نظر اور دسترس سے اسے دور رکھا جائے۔ کیا ہمارے لئے ہماری عصمت اور ہماری عزت بینک میں پڑے کاغذ کے ان نوٹوں سے بھی گئی گزری ہے کہ ہم اس کے تئیں اتنی لاپروائی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔عصمت دری اور آبروریزی کے ان بڑھتے واقعات کے سد باب کیلئے ہم صرف اور صرف سزاؤں کا ہی مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟ سماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو آبروریزی سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ اور کرتے بھی توہماری تان صرف سیکوریٹی میںاضافے ہی پر کیوں آکر ٹوٹتی ہے؟ ہم اپنی تجوری کی حفاظت کی جانب کیوں نہیں توجہ دیتے؟ ہم اپنی عزت کو عصمت کے لٹیروں کی نظروں اور ان کی دسترس سے دور رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟کیا صرف سز ا کے خوف سے اس قبیل کے لوگ اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں؟عام طور پر یہ عادی قسم کے مجرم ہوتے ہیں، انہیں آسانی سے جرم کے مواقع ملیںگے تو یہ کبھی باز نہیں آئیںگے؟
    ہم دیکھ چکے ہیں کہ نئی دہلی میں ہونے والے اس واقعے کے بعد سماج میں کس طرح کے رد عمل کااظہار ہوا ؟ جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالے گئے اور مجرمین کے خلاف مظاہرے ہوئے، ان کیلئے سخت سے سخت سزاؤں کی سفارش کی گئی..... اس کے باوجودملک کے مختلف حصوں سے بہن بیٹیوں کی عصمتیں لٹنے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔میڈیا نے ان میں سے صرف انہی خبروں کااحاطہ کیا جہاں اس کی دلچسپی تھی یعنی جہاں سے اس کی ٹی آر پی بڑھ سکتی تھی۔ اسی طرح ہمارے سیاست داں بھی صرف اسی معاملے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیئے جس میں ان کے بیانات کو ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے کی انہیں امید تھی۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی دلت آبادی اور قبائلی علاقوں میںاس طرح کی وارداتیں آئے دن انجام دی جاتی رہی ہیں  مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات تو معاملہ بھی درج نہیں کیا جاتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مجرم بارسوخ ہوتے ہیںاور انہیں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ 
    اس طرح کے گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرمین کی عام طور پر تین قسمیں ہوتی ہیں۔
   ایک وہ جو دماغی مریض ہوتے ہیں۔ یہ ۵۔۴؍سال کی   معصوم کلیوں کو مسلنے یا ۷۰۔۶۰؍ سال کی عمر دراز خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے۔ یہ جب وحشی پن پر آتے ہیں تو اپنی بیٹی، بہن اورماں کی بھی تمیز نہیں کرتے۔
     دوسری قسم میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو انتقامی طورپر اس طرح کے جرم انجام دیتے ہیں۔ دلتوں اور قبائیلیوں کو سزا دینے کے نام پر اکثر اس طرح کی خبریں منظرعام پر آتی ہیں۔ فسادات میں ان عناصر کی بن آتی ہے۔
     تیسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوکراس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس کیلئے وہ لالچ بھی دیتے ہیں، روپے بھی خرچ کرتے ہیں اور جب اس سے بات نہیں بنتی تو زبردستی بھی کرتے ہیں۔
    ان تینوں قسم کے مجرموں سے نمٹنے کیلئے کسی ایک قانون کا اطلاق مناسب نہیں ہے۔  پہلی اوردوسری قسم کے مجرموں کے جرم زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں اور یہ سراسر زیادتی پر محمول ہوتے ہیں جبکہ تیسری قسم کی وارداتوں میں سے بیشتر میں کہیں نہ کہیں دونوں فریق ذمہ دار  ہوتے ہیں.... مگر افسوس کہ ہمارا میڈیا ، ہمارے سیاست داں اور آزاد خیالی کی مبلغ تنظیمیں پہلی اوردوسری قسم کی وارداتوں پر آنکھیں بند رکھتی ہیں اور تیسری قسم کے جرائم میں  ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔
     یہ بات کچھ لوگوں کو ہضم ہو یا نہ ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ملک کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج عصمت دری کے معاملات میں ایک بڑی تعداد  ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی برابر کی قصور وار ہیں۔  اکثر اس طرح کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں کہ شادی کا وعدہ کرکے یا ملازمت دلانے یا پھر پروموشن کا لالچ دے کر ایک سال سے اس کی عصمت دری کی جاتی رہی...... بہت ممکن ہے کہ بیشتر معاملات ایسے بھی ہوں جن میں ’بات‘ نہیں مانے جانے پر اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سماج میں بلیک میلنگ کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس  جانب بھی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
    لالچ دے کر کی جانے والی عصمت دری بھی بہرحال جرم ہی ہے لیکن ایک سال سے انجام دیئے جانے والے اس جرم کیلئے کیا ایک ہی فریق ذمہ  دار ہے؟  کیا یہ رشوت کے زمرے میں نہیں آتا؟ اگر ملازمت مل جاتی یا پروموشن ہوجاتا  تو کیا کسی باصلاحیت حق دار کی حق تلفی نہیں ہوتی؟  شادی کا وعدہ کرکے کی جانے والی عصمت دری اگرچہ جرم ہے مگر یہ بات بگڑجانے ہی پر کیوں جرم قرار پاتی ہے؟  پہلے ہی سے اس طرح کے حالات کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟ کیوں اس طرح کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں اور کیوں اس کے مواقع دیئے جاتے ہیں؟ قانون اور معاشرے کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑتی؟
    چھیچھڑے دکھا کر کتوں سے شرافت کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ کتوں پر پابندی کے ساتھ ہی چھیچھڑے دکھانے والوں پر بھی روک لگنی چاہئے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی جائے، فحاشیت پر قابو پایا جائے اور اقدار کی تعلیم  عام کرتے ہوئے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔

Wednesday, 11 September 2013

Roznaamcha_Travel by ST buses

ایس ٹی بس کا سفر اورپریشانیاں

قطب الدین شاہد
 
سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
    ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس کی جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ اور سیمی لکژری بسوں کے معاملات قدرے غنیمت ہیں۔  
     ایسا کیوں ہے؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے   صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔سب سے بڑا مسئلہ ان بسوں کے ٹائم ٹیبل کا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بس ڈپو اور بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافر وہاں بھٹکتے رہتےہیں لیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے  وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔چونکہ مسافروں کی شکایتیں سننے کا کوئی باقاعدہ نظم نہیں ہے لہٰذا  ان سرکاری ملازموں کوجوابدہی کا خوف بھی نہیں ستاتا۔ یہی وجہ ہے کہ    ریاست کے کئی بس ڈپو تو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ان چوروں اور لفنگوں  سے ان کی ملی بھگت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوں کی وجہ سے خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکول جانے والی طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین جو روزانہ سفر کرنے پر مجبور ہیں، ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے کھڑے جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو .....   عام طورپر ہر ڈپو میں پولیس اسٹیشن ہوتا ہے اوران کی موجودگی میں روزانہ پرس اور موبائل چوری کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔کبھی کبھار سفر کرنےوا لوں کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص اُس وقت جب وہ گھر کی خواتین اور بچوں کے ساتھ ہوں۔ 
      ایسا دراصل اس لئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو چونکہ یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے  لہٰذا حکومت ان سے زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں جبکہ ہماری جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بی ای ایس ٹی اس کی واضح مثال ہے۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

Tuesday, 27 August 2013

Roznaamcha

طلبہ اور چندہ وصولی

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک دوست نے سوال کیا کہ ’’آنکھوں سے معذور  اور کینسر زدہ بچوں کی مدد کے نام پر ان دنوں طلبہ کو چندہ کرنے کیلئے جو رسیدیں تھمائی گئی ہیں ، وہ کیا ہے؟‘‘ مزید استفسار پر معلوم ہوا کہ بعض اسکولوں کی انتظامیہ نے اپنے طلبہ کو کچھ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی رسیدیں حوالے کی ہیں اور انہیں اپنے پاس پڑوس اور محلے سے چندہ (جمع) کرنے کیلئے کہا  ہے۔ یہ این جی اوز کینسر جیسی مہلک  بیماری  کے شکار اور آنکھوںکی نعمت سے محروم بچوں کی مدد کرتی ہیں۔  طلبہ کے ذریعہ جمع کی جانے والی یہ رقم اسکولوں کے انتظامیہ اُن این جی اوز کے حوالے کردیتے ہیں۔  قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اس طرح بڑی آسانی کےساتھ مختلف اسکولوں سے   ایک خطیر رقم جمع ہوجاتی ہے۔ یقیناً یہ ایک نیک کام ہے جس کی پذیرائی ہونی چاہئے..... لیکن اس نیک کام کا طریقہ غلط ہے۔ اس کی وجہ سے چند وصول کرنے والے طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔
    ’حلوائی کی دکان پر دادا کا فاتحہ‘ کے مصداق طلبہ کے ذریعہ جمع کی جانے والی  اس رقم کو اسکول انتظامیہ اپنے نام سے این جی اوز کو دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں حکومت سے  دوسرے معاملات میںبہت سی  مراعات حاصل کرتے ہیں اور طلبہ کا نہ تو کہیں نام اُجاگر ہوتا ہے نہ ہی کوئی اِضافی سہولت اُنہیں ملتی ہے۔
     صدقہ و خیرات کی ادائیگی ایک خالص انسانی جذبہ ہے۔ بچوں میں اس جذبہ کو پروان چڑھانےکیلئے ضروری ہے کہ انہیں بچپن ہی سے اس کی ترغیب دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نیک والدین چند ہ کی رقم جسے بھی دینی ہو وہ اپنے بچوں کےہاتھوں سے دلواتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس طرح ان کے بچوں کے دلوں سے دولت کی محبت جاتی رہے گی اور کل جب وہ خود کمانے لگیںگے تو اس عمل میں پیچھے نہیں رہیںگے  اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے دیکھیںتو طلبہ کو چندہ وصولی  کے کام میں لگا نے کا یہ ایک جواز بنتا ہے کہ اس طرح طلبہ میں انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جب  بیمار بچوں کے علاج اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئےچندہ کرکے یعنی اپنی محنت سے جمع کرکے ایک چھوٹی موٹی رقم  اسکول کو دیںگے تو انہیں طمانیت کااحساس ہوگا اور دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ انہوں نے ’مجبوروں‘ کی اپنی بساط بھر مدد کی ہے....
     لیکن یہ ایک پہلو  ہے جو مثبت ہے ، اس کے برعکس اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں۔  اول تو یہ ہے کہ طلبہ کی توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طریقے سے یعنی چندہ جمع کرکے جب طلبہ کے ہاتھ میں ایک رقم آتی ہے، تو ان کے بہکنے کا بھی خدشہ  پیداہوتا ہے۔ کہیں ان معصوم ذہنوں میں یہ بات آگئی کہ ’’یہ تو اچھا کاروبار ہے جس میں نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے‘‘ تو  انہیں سنبھالنا مشکل ہوگا.....  اس چندہ وصولی کا سب سے تاریک پہلو  طالبات  ہیں۔ آٹھویں، نویں اور دسویں میں زیر تعلیم  طالبات کی عمر ہرچند کہ کم نہیں ہوتی.... لیکن ان میں اتنی پختگی بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ اچھا برا سمجھ سکیں۔  اخلاقی سطح پراس زوال  پذیر معاشرے میں ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں کہ انہیں چندہ دینے والے کن نظروں سے دیکھتے ہوںگے؟  خدانہ کرے، اگر ان طالبات کو ’اتنی آسانی‘ سے ملنے والی یہ رقم انہیں کسی غلط راستے پرڈال دے تو .... اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ 
     اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین  اساتذہ کے ساتھ ہونے والی (پی ٹی اے) میٹنگ میں اس موضوع کو زیر بحث لائیں۔ چندہ والدین سے ضرور طلب کیا جا سکتا ہے  لیکن بچوںکو اس کام پر ہرگز نہیں لگایا جانا چاہئے۔

Saturday, 24 August 2013

دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کوسرکاری قانونی امداد
امکانات اور خدشات
کفر ٹوٹا خداخدا کرکے۔ بالآخر حکومت نے یہ بات تسلیم کرہی لی کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں  میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں۔ یہ بات بہت دنوں سے کہی جارہی تھی مگر حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انتخابات کے پیش نظر ہی سہی حکومت نے اگر سرکاری سطح پر یہ بات تسلیم کی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے..... اس سے قطع نظر کہ ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ حکومت اس سلسلے میں کیا کرے گی؟ اور یہ کہ کچھ کرے گی بھی یا نہیں؟اس معاملے میں خوش آئند بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت نے مسلم نوجوانوں کی مظلومیت کا اعتراف کرلیا ہے۔ حکومت سے امید کچھ اسلئے بھی نہیں ہے کہ درد اُسی نے دیا ہے، وہ دوا کیا دے گی؟

قطب الدین شاہد

جمہوری نظام حکومت کی تعریف یوں تو’’عوام کی حکومت، عوام کیلئے  اور عوام کے ذریعہ‘‘ ہے مگر عوام کو اپنی اہمیت کا اندازہ صرف انتخابات  کے موسم میں ہی ہوتا ہے۔  انتخابی دنوں میں انہیںقابل اعتنا سمجھا جانے لگتا ہے، ان کے مسائل پر توجہ دی جانے لگتی ہے اور انہیں حل کرنے کی باتیں بھی ہونے لگتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ وعدے پورے بھی کردیئے جائیں لیکن عوام تھوڑی دیر کیلئے بہرحال ان وعدوں  سے بہل توجاتے ہیں کہ چلو کم از کم ان کے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھا تو گیا جسے مسئلہ بتانے کیلئے ا نہیں لاکھوں جتن کرنے پڑے۔  حالانکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس کی حیثیت محبوب کے وعدے سے زیادہ کی نہیں ہے جو کبھی وفا نہیں ہوتا۔
    گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ کچھ اسی طرح کا ایک دلفریب وعدہ کیا ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتا ر مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد فراہم کرنےکی یقین دہانی کرائی ہے۔اسے دلفریب وعدہ اس لئے کہاجارہا ہے کہ اس سے  خاطر خواہ نتائج کی کوئی امید نہیں کیونکہ یہ درد اُسی حکومت کا دیا ہوا ہے لہٰذا اس سے  اس سلسلے میں دوا کی امیدکیونکر کی جاسکتی ہے، تاہم یہی کیا کم ہے کہ پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دہشت گردی کے الزام میںگرفتارمسلم نوجوانوں میں’کچھ‘ بےقصور بھی ہیں۔یہ بتانے کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا نہیں کیا؟ ضلعی سطح پر حکام کو میمورنڈم دینے کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ وزیرداخلہ، وزیراعظم اور صدر جمہوریہ سے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہیں سے بھی قابل اطمینان جواب نہیں ملا۔ تسلیاں تو ہر ملاقات  پر دی گئیں مگر کبھی اس سلسلے میںکوئی ٹھوس قدم اُٹھتا ہوا نظر نہیں آیا۔یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے یہ اعتراف کیا کہ ’’اس بات کا حقیقی امکان ہے کہ جیلوں میں بند کچھ مسلم نوجوان بالکل بے قصور ہوں۔ اس لئے ہم انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے امکان پر غور کررہے ہیں تاکہ مقدموں کی منصفانہ سماعت ہو اور انہیں اپنے دفاع کا پورا موقع ملے‘‘....... تو مسلمانوں نے تھوڑی راحت محسوس کی۔
     یہ تھوڑی سی راحت مکمل اطمینان میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے  اور یہ خواب حقیقت کا روپ بھی دھار سکتا ہے لیکن اس کیلئے مسلمانوں کو جمہوری انداز میں سیاست دانوںسے اپنی باتیں منوانے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔مذہبی معاملات کی  طرح سیاسی سطح پر بھی ہم  مختلف خانوں میں منقسم ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں پر دباؤ نہیں ڈال پاتے، اس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں  اور اکثر ہمارے جذبات سے کھیلتی رہتی  ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد کی فراہمی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو قانونی مدد کی فراہمی کی ضرورت ہی کیوں پیش آرہی ہے؟ وہ ایسا کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتی کہ کوئی بے قصورنوجوان گرفتار ہی نہ ہو؟ گزشتہ ۲؍ دہائیوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں جن  میں ماخوذ مسلم نوجوان برسوں جیل کی صعوبتیں جھیل کر باہر آئے ہیں ۔ عدالتوں  نے انہیں  بے قصور تسلیم کیاہے۔ مسلمانوں کے تئیں حکومت کا اخلاص اُس وقت نظر آتا جب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے اورانہیں اذیتیں پہنچانےوالے افسران سے باز پرس کی جاتی، ان کی سرزنش کی جاتی، انہیں ملزم ٹھہرایا جاتا  اور اس کیلئے انہیں قرار وا قعی سزا دی جاتی.... مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خاطی پولیس افسران کو سزا دینا تو دور، اکثر دیکھا گیا ہے کہ انہیں ترقیاں دی گئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب سیکولر ریاستوں میں ہوا۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کو جانے دیں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مہاراشٹر، دہلی، بہار، یوپی، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش جیسی ریاستیں بھی ان معاملات میں کسی بھی طرح فرقہ پرست  جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ہم چونکہ ان حکومتوں اور اقتدار پر قابض سیاسی جماعتوں کا احتساب نہیں کرتے لہٰذا وہ ہمیں بیوقوف سمجھتی ہیں اور ہر انتخابی موسم میں نئے نئے وعدوں کے ساتھ وارد ہوتی ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مرکز اور مختلف ریاستوں کی اقلیتی امور کی وزارتیں سرگرم کردی جاتی ہیں۔ وہ مسلم ایشوز پر کچھ اس طرح کی بیان بازیاں کرتی ہیں اور ہدایتیں جاری کرتی ہیں گویا  حکومت کی جانب سے تمام تر اختیارات انہیں ہی سونپ دیئے گئے ہیں اور اب یہ پلک جھپکتے ہی مسلمانوں کے تمام مسائل حل کردیںگی۔
    اب جبکہ حکومت نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ گرفتار شدگان میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں تو  اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم حکومت پر دباؤ بنائیں کہ ان بے قصوروں کی جلد رہائی کا انتظام کیا جائے ..... اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا جائے کہ ان بے قصور نوجوانوں کو اس انجام تک پہنچانے والوںا ورا ن کی زندگیوں کے قیمتی سال برباد کرنےوالوں کو سخت سے سخت سزا دی جائےاورناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانہ دیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حکومت پر یہ بات واضح کردیں کہ قانونی امداد کی فراہمی میں  ہم مسلمانوںکو دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ان کے دام میں آنے والے نہیں ہیں بلکہ ہمیں انصاف اور مکمل انصاف چاہئے۔.... یقین جانئے اگر ہم نے اس پر اکتفاکرلیا اور حکومت کے دام میں آگئے تو اس کیلئے موجودہ کیا آئندہ انتخابات میں بھی کامیابی کا اسےایک آسان نسخہ مل جائے گا کہ پہلے انہیں گرفتار کرکے ان کے حوصلوں کو پست کرو اور پھر بعد میں قانونی مدد فراہم کرکے ان کے ووٹوں پر بھی  قبضہ کرلو  ۔

Wednesday, 14 August 2013

Roznaamcha_15 August

ایک رسم ، ایک روایت

قطب الدین شاہد

یومِ آزادی کسی بھی ملک کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی ہر سال ۱۵؍ اگست کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ملک کی آزادی کیلئے ہمارے بزرگوں کو بڑی قربانیاں دینی پڑی ہیں، تب کہیں جاکر یہ دن ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اسلئے ۱۵؍ اگست کی تاریخ ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے، یہ ہم ہندوستانیوں کیلئے بہت یادگار دن ہے۔
    اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جشن تو خیر ہم ہر سال مناتے ہیں لیکن  ہر گزرتے سال کے ساتھ اس جشن کا رنگ پھیکا پڑتا جارہا ہے، ہماری گرمجوشی میں کمی آتی جارہی ہے اور ہماری نظر میں اس دن کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ جشن ایک رسم، ایک روایت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ کسی یادگار دن  یا جشن کا رسم و روایت میں تبدیل ہوجانا معیوب نہیں بلکہ بعض صورتوں میں بہتر ہی ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ قدرے مختلف ہے۔ کسی بھی رسم و روایت میں اگر جشن حقیقی کاعنصر شامل نہ ہو اور اس یادگار دن کی اہمیت اور پس منظر کو فراموش کردیا جائے تو  اس کی افادیت بہت محدود ہوجاتی ہے۔ کچھ یہی صورتحال ۱۵؍ اگست کے سالانہ جشن کی بھی ہے۔ حکومت سے لے کر عوام تک، سیاستدانوں سے لے کر ان کے کارندوں تک، افسران سے لے کر ملازمین تک اور اساتذہ سے لے کرطلبہ تک،سبھی بس ایک رسم ادا کررہے ہیں، جس میں کوئی جوش نظر آتا ہے نہ جذبہ۔  بس جیسے تیسے  ہر سال ۱۵؍ اگست کو اسکولوں، اداروں اور سرکاری دفتروں پر پرچم کشائی کی ایک تقریب منعقد کردی جاتی ہے، ترنگے کو سلامی دی جاتی ہے،کچھ لوگ گاندھی، نہرو اور اپنی پسند کے حساب سے آزاد اور پٹیل کو یاد کرلیتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد ترنگے کولپیٹ کر یوم جمہوریہ کیلئے کسی محفوظ مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔  اس دن کا سب سے اہم پروگرام لال قلعہ سے وزیراعظم کا عوام کےنام خطاب ہوتا ہے ..... مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ خطاب بھی رسمی ہوکررہ گیا ہے جہاں عمل سے عاری باتیں ہوتی ہیں۔ اکثر،  لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم اپنی حکومت اور اپنی جماعت کا قصیدہ ہی پڑھتے ہیں۔
    اس دن کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کے رویوں نے عام ہندوستانیوں کوبھی بدظن کردیا ہے۔سرکاری اداروں میںنیچے سے اوپرتک لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے،جسے دیکھ کر عام آدمی صرف افسوس کرتا ہے۔  یوم آزادی کے تعلق سے یہ بدظنی ہی کی ایک مثال ہے کہ دو سال قبل یہ ایس ایم ایس خوب چلا تھا جس میں لکھا تھا کہ:
 ’’مہنگائی، غریبی، تشدد، لوڈ شیڈنگ،  دہشت گردانہ حملے اور  پولیس کی اذیت سے .....بچ  جانے والے تمام ڈھیٹ ہندوستانیوں کو یوم آزادی مبارک ہو۔‘‘
    مذاق کے موڈ میں لکھے جانے والے اس ایس ایم ایس پیغام میں یوم آزادی کی تحقیر نہیں بلکہ سیاستدانوں بالخصوص حکمراں طبقے  کے تئیں عوام کی ناراضگی کااظہار ہے۔ بلاشبہ یوم آزادی ایک جشن ہے لیکن جشن کے ساتھ ہی یہ دن ہمیں احتساب کی دعوت بھی دیتا ہے کہ آزادی سے قبل آزادی  کے متوالوں نےجس آزادی کی تمنا کی تھی، آزادی کے ۶۶؍ سال گزر جانے کے باوجود  وہ آزادی ہمیں کہیں نظر آتی بھی ہے کہ نہیں۔ حقیقت کیا ہے، اس کا اظہار فیض نے آزادی کے فوراً بعد کردیا تھا کہ:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
     آج ۶۷؍واں یوم آزادی ہے۔ آئیے اس موقع پر  عہد کریں کہ ہم اس سحر کی تلاش کریں گے اور تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک اسے حاصل نہیں کرلیتے۔ کیا یہ کام اس سے زیادہ مشکل ہے جو ہمارے بزرگوں نے ہماری آزادی کیلئے انجام دیا تھا؟