Tuesday, 7 January 2014

Roznaamcha_ SMS

ایس ایم ایس فارورڈ کرنے سے قبل غور کرلیں


 قطب الدین شاہد

 کچھ دنوں قبل ’کوبرا پوسٹ‘ نے ایک انکشاف کیا تھا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پیسے لے کر سوشل میڈیا کے  ذریعہ لوگوں کی شبیہ بنانے اور بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔ ۲۲؍ دسمبر کو ’سائنس اور سماج‘ کے کالم میں اسی موضوع پر پروفیسر سید اقبال صاحب نےبھی  ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون تحریر کیا ہےجس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سیاستداں اور کارپوریٹ گھرانے عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں اور سچ پر جھوٹ کا ملمع چڑھا کر  انہیںگمراہ کرتے ہیں۔ خیر یہ ان کا کام ہے، وہ کرتے رہیں گےکیونکہ اس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے مگر افسوس تو یہ جان کر ہوتا ہے کہ نادانستگی میں  ہم بھی ان کا  آلہ کار بنتے ہیں۔  ان دنوں ایس ایم ایس اور ای میل  فارورڈ کرنے کاایک رجحان سا چل پڑا ہے۔ وہاٹس اپ نے اس سلسلے کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ یہ ایک طرح سے ہماری کمزوری بن گئی ہے کہ کہیں سے ہمیں کوئی ’اچھا‘ میسیج موصول ہوا توہم اسے پہلی فرصت میں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ دیکھنے اور غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ اس میں سچائی کتنی ہے ؟سماج اور قوم پراس کےکس طرح کے اثرات مرتب ہوںگے اور یہ کہ کہیں ہم کسی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں؟
       یہ بات ہم بہت دنوںسے سنتے آرہے ہیں کہ بی جے پی نے بڑے پیمانے پرایسے لوگوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو سوشل میڈیا کی مدد سے  اس کی اوراس کے لیڈروں کی شبیہ کو بہتر بنانے نیز مخالف جماعتوں کی شبیہ کو خراب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے لیکن انتخابی دنوں میں اس میں شدت آجاتی ہے۔ان ’شبیہ سازوں‘ کوچونکہ ہماری کمزوری کا پوری طرح سے علم ہے اس لئے وہ اس قدر ’خوبصورت‘ میسیج تخلیق کرتے ہیں کہ جب تک ہم انہیں دوسروں تک  پہنچا  نہ دیں، چین و قرار نہیں آتا۔
    گزشتہ دنوں مجھےکچھ ’پیغامات‘موصول ہوئے جنہیں اسی مہم کا حصہ کہا جاسکتا ہے لیکن جن صاحبان کی طرف سے مجھے  یہ میسیج ملے، ان کے تعلق سے قطعی نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جان بوجھ کر اس مہم کا حصہ بنے ہوں گے ۔ وہ کانگریس سے ناراض تو ہوسکتے ہیں لیکن بی جے پی کی حمایت کسی صور ت میں نہیں کرسکتے۔ملاحظہ کریں وہ ایس ایم ایس۔
    nایک آدمی مچھلی پکڑ کر لایا۔ بیوی دیکھتے ہی برہم ہوگئی، بولی: گھرمیں نہ گیس ہے نہ تیل۔ نہ نمک ہے نہ مسالہ، کیسے بناؤں مچھلی؟ اس شخص نے جھلاہٹ میں مچھلی کو اٹھایا اور جاکر تالاب میںپھینک دیا۔ پانی میں جاتے ہی مچھلی نے نعرہ بلند کیا ’’کانگریس زندہ باد۔‘‘
    nواہ کیا لاجک ہے: رام نے راون کو مارا ( آر  سے آر)، کشن نے کنس کو  (کے سے کے)، گوڈسے نے گاندھی کو (جی سے جی) ، اوبامہ نے اوسامہ کو ( او سے او) کرپشن مارے گا کانگریس کو(سی سے سی) اور مودی مارے گا منموہن کو ( ایم سے ایم )۔
    اس طرح کے ایس ایم ایس چونکہ صوتی اعتبار سے  اچھے لگتے ہیں، اس لئے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف فارورڈ کرتے ہیں بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ وہ بھی دوسروں کو اسے فارورڈ کریں۔
    اسی درمیان ایک اچھا ایس ایم ایس بھی موصول ہوا:
    nکانگریس  نے دس سال قبل جو  وعدہ کیا تھا ، اسے اب پورا کیا یعنی ’’ کانگریس کا ہاتھ ، عام آدمی کے ساتھ۔‘‘    
     اخیر میں بس یہی کہنا ہے کہ ایس ایم ایس اور ای میل ضرور فارورڈ کریں لیکن  اس سے  پہلے  ان پرغور کرلیں ۔

Aap ki hukumat ki tashkeel, tareekhi waqya

کیجریوال کی قیاد ت میں آپ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی اور انقلابی واقعہ
بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری، کانگریس خوش فہمی کا شکار، میڈیا تذبذب میں مبتلا
 
دہلی کے اسمبلی الیکشن میں’آپ‘ کی کارکردگی سے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا بھی حواس باختہ ہوگیا ہے لہٰذا کیجریوال اوران کے ساتھیوں کو گھیرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔ بی جے پی اوٹ پٹانگ بیانات کے ذریعہ جہاں اپنی بوکھلاہٹ ثابت کررہی ہے، وہیں کانگریس اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گر جائے گی اور ایک بار پھر دہلی کے پایۂ تخت پر اس کا قبضہ ہوگا۔ میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے
 
قطب الدین شاہد

دہلی انتخابات کی صورت میںعوام نے سیاسی جماعتوں کونہایت واضح انداز میں اپنا پیغام دے دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتہ ٔ دیوار ہے، اگر وہ اپنی بقا کی متمنی ہوں تو انہیں چاہئے کہ اسے پڑھ لیں، بصورت دیگربوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کرلیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاست داں اور سیاسی جماعتیں آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہیں اور اپنی اسی کج روی کا اظہار کررہی ہیں جو اناہزارے کی قیادت میں عوامی تحریک کے ساتھ کیا تھا۔ بلاشبہ اناہزارے کچھ ’طاقتوں‘ کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے تھے، اس لئے وہ تحریک بری طرح ناکام بھی رہی لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس نے عوامی جذبات کو جس طرح اپنی سیاسی پینترے بازیوں سے کچلنے کی کوشش کی تھی، اسے اس کا خاطر خواہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
    بی جے پی کی ذہنی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ تین ریاستوں میں حکومت بنا لینے اور دہلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرلینے کے باوجود ’آپ‘ کی کامیابی نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا ہے اوراسے اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ہے۔مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا کی مدد سے وہ جس تیزی سے اپنے مہرے کو آگے بڑھارہی تھی اور ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے منصوبے بنارہی تھی، دہلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی وہ مہرہ بری طرح پٹ گیا ہے۔تین ریاستوں میں کامیابی کو بی جے پی مودی کا کرشمہ ثابت کرنا چاہتی تھی اوراس طرح اپنے حامیوں کویہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اب دلی دور نہیں! لیکن کیجریوال کی حقیقی عوامی مقبولیت کے آگے بی جے پی کا طلسم ٹوٹ گیا اوریہ ثابت ہوا کہ عوام کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی سے بھی ناراض ہیں لہٰذا جہاں بھی انہیں کوئی بہتر متبادل ملتا ہے، وہ ان دونوں کوخاک چٹانے میںکسی تکلف  و توقف سے کام نہیں لیتے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار میں واپسی،  راجستھان کو کانگریس سے چھین لینے نیز دہلی میں  پہلے کے۲۳؍ کے مقابلے۳۱؍ نشستیں جیت لینے کے بعد بی جے پی لیڈروں کو جس پزیرائی کی امید تھی، وہ نہیں مل پائی جس کی وجہ سے  وہ بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؟’بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ‘ کے مصداق ارون جیٹلی کچھ کہہ رہے ہیں تو سشما سوراج اور راج ناتھ کچھ اور، اسی طرح وجے گوئل اور ہرش وردھن بھی الگ الگ سُروں میں راگ الاپ رہے ہیں۔
    ایک ہفتہ قبل تک یعنی جب تک کیجریوال کی پارٹی نے حکومت سازی کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے کی بات کہہ رہی تھی، بی جے پی لیڈران اس پر عوام سے فریب دہی کاالزام عائد کررہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ جب کانگریس بلاشرط  حمایت دے رہی ہے، تو وہ حکومت سازی سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟اور یہ کہ اگر دہلی میں دوبارہ انتخابات کی نوبت آئی تو اس صورتحال کی تنہا ذمہ داری ’آپ‘ پر ہوگی۔ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ’آپ‘ کے لیڈروں میں انتظامی صلاحیت نہیں ہے اس لئے وہ ذمہ داری لینے سے کترا رہے ہیں۔کچھ اسی طرح کی باتیں کانگریس کی جانب سے بھی آئیں..... اور اب جبکہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت سازی کا فیصلہ کیا گیا تو بی جے پی کی جانب سے ایک بار پھر عوام کے ساتھ فریب دہی کاالزام عائد کیا جارہاہے۔ کہا جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی بنیادی طورپر کانگریس کے خلاف  الیکشن جیت کر کامیاب ہوئی ہے، ایسے میں اسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ، عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔
     کیجریوال پر بیٹے کی قسم توڑ دینے کا ابھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ انتخابات کے دوران انہوں نے اپنے بیٹے کی قسم کھائی تھی کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیںگے۔  بی جے پی لیڈروں کے یہ تمام الزامات اس لئے بے بنیاد ہیں کہ یہاں ’آپ‘کی کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت سازی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ صرف اور صرف دہلی کو دوبارہ انتخابی اخراجات سے بچانے کی کوشش محض ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس اہم فیصلے کیلئے  کیجریوال نے عوام سے رجوع کیا،  بی جے پی اور کانگریس کی طرح  من مانی نہیں کی۔ ویسے بی جے پی اور کانگریس ہی کیا، دیگر علاقائی سیاسی جماعتیں بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں اوران کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہےکیونکہ یکے بعد دیگرے اپنے فیصلوں سے  کیجریوال ہندوستانی سیاست کو اس جانب لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، جہاں عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، ان کی بات سنی جاتی ہے اور حتی الامکان اس پرعمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  یہ باتیں آمریت پسند سیاسی جماعتوں کو بھلا کیوں کر راس آئیںگی۔؟
ٍ    ایک جانب جہاں بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہے، وہیںدوسری جانب کانگریس خوش فہمی کی شکار ہے۔ شروع شروع میں کانگریس کو لگا تھا کہ حکومت سازی کے اعلان ہی سے ’آپ‘ میں انتشار شروع ہوجائے گا اور وزارتوں کی تقسیم تک پوری پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس سمت میں کچھ کوششیں ہوئیں بھی لیکن ابھی تک ’آپ‘ کی جانب سے استقامت ہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کانگریس کے قدموں تلے سے بھی زمین کھسکنی شروع ہوگئی ہے۔ ’آپ‘ کے بجائے  کانگریس میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔ بہرحال کانگریس کاایک بڑا طبقہ آج بھی خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گرجائے گی، دوبارہ الیکشن ہوںگے اور پھر نتائج ان کے حق میں ہوںگے۔ ممکن ہے کہ یہ حکومت گرجائے اوریہ بھی ممکن ہے کہ  دوبارہ انتخابات ہوں لیکن مستقبل قریب میں کانگریس کی اقتدار میں واپسی کا امکان بہت کم ہے۔اس کیلئے کانگریس کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف مغربی بنگال، اترپردیش اور بہار میں اپنی تاریخ کا سرسری کا مطالعہ کرلے۔ ایک وقت تھا جب ان ریاستوں کی کانگریس بلا شرکت غیر ے مالک ہوا کرتی تھی مگر اب وہ وقت آن پڑا ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے کیلئے ابھی کسی بیساکھی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس کے باوجود وہ ٹھیک سے اپنی موجودگی درج نہیں کراپاتی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ دہلی میں انہی تینوں ریاستوں کے باشندوں کی اکثریت ہے۔  درمیان کے ایک دو سال کو چھوڑ دیا جائے تو مغربی بنگال میں ۱۹۷۷ء تک، اترپردیش میں ۱۹۸۹ء تک اور بہار میں ۱۹۹۰ء تک کانگریس کی حکومت رہی ہے، لیکن اس کے بعد جب عوام کوان ریاستوں میں کانگریس کا کوئی متبادل مل گیا تو آج تک اسے پھر موقع نہیں دیا۔ کانگریس اگر واقعی اقتدار میں واپسی چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے اوران کے انتشار سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرے۔
    ’آپ‘ کی کامیابی سے سیاسی جماعتوں کی بوکھلاہٹ فطری ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ میڈیا بھی اس میں ایک فریق بن کر سامنے آرہا ہے۔انتخابی منشور میں ’آپ‘ نے عوام سے کچھ ایسے وعدے کئے ہیں، جنہیں پورا کرنا قدرے مشکل ہے  (لیکن ناممکن نہیں)۔ میڈیانے ان وعدوںکی تکمیل کیلئے ’آپ‘ کو گھیرناشروع کردیا ہے۔ میڈیا کے اس قدم پر تنقید نہیں کی جاسکتی لیکن اس کی بدنیتی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نشانے پر صرف ’آپ‘ ہی کیوں؟ کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار کی پہلی میقات میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی پر قابو پانے کی بات کہی تھی، میڈیا نے اس کا ’کاؤنٹ ڈاؤن‘ کیوں نہیں کیا؟ کاؤنٹ ڈاؤن کی بات جانے دیں، یہی میڈیا اب یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ مہنگائی پرقابو پانے کا مطالبہ ہی ناجائز ہے اور یہ حکومت کو بلیک میل کرنے جیسا ہے۔ ریلوے کرائے میں  اضافے کی مخالفت پر ممتا بنرجی کو کچھ اسی طرح کے جواب دیئے جارہے تھے۔
     میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

Wednesday, 18 December 2013

Assembly election aur Congress ki mayus kun karkardagi

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی مایوس کن کارکردگی کی بنیادی وجہ

مہنگائی اور بدعنوانی نہیں،  انانیت رہی ہے

یہ بات بالکل درست ہے کہ کانگریس سے عوام کی شدیدبرہمی نے اسے شکست سے دو چار کیا ہے لیکن اس ناراضگی کی وجہ صرف مہنگائی اوربدعنوانی نہیں ہے بلکہ حکومت کی انانیت رہی ہے۔ عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کسی اور کی ہوتی تو بھی مہنگائی اور بدعنوانی کم و بیش اسی طرح رہتی.... لیکن ۲۰۰۹ء میں دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کانگریس نے جس رعونت و انانیت کا مظاہرہ کیا، وہ عوام کو بالکل پسند نہیں آیا
 
قطب الدین شاہد
 
پانچ ریاستوں  میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات کو  فائنل سے پہلے کا سیمی فائنل کہاجارہا تھا جس میں کانگریس کو اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔چھتیس گڑھ اور میزورم جیسی چھوٹی ریاستوں میں نتائج تقریباً  جوں کے توں رہے لیکن بقیہ۳؍ اہم ریاستوں میں (جن میں ۲؍ پر کانگریس اورایک پر بی جے پی قابض تھی) کانگریس کہیں بھی مقابلہ کرتی  نظر نہیں آئی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سے عوام کی اس ناراضگی کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو پہنچا کیونکہ  وہاں عوام کیلئے کوئی مضبوط متبادل نہیں تھا۔راجستھان کی شکست کانگریس کیلئے بدترین رہی  ہے لیکن اس کے قدموں تلے زمین دہلی میں کھسکی جہاں ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت  نے اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔
     دلچسپ بات یہ ہے کہ نتائج ظاہر ہونے سے قبل تک کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی نہ صرف یہ کہ خاطر میں نہیں  لارہی تھیں بلکہ انتخابی میدان میں ان کے اترنے کے فیصلے کا مذاق بھی اڑا رہی تھیں۔اب جبکہ نتائج ظاہر ہوچکے ہیں،انتخابی تجزیہ نگار کانگریس کی  ذلت آمیز شکست اور بی جے پی کی فتح کے اسباب جاننے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ ایک طبقہ اسے مودی کی لہر مانتا ہے تو کچھ لوگ بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلیٰ (شیوراج سنگھ چوہان اور رمن سنگھ)کی بہترین کارکردگی کو اس فتح کی وجہ بتا تے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ ہے جو کانگریس سے عوامی ناراضگی کو اس نتیجے کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔  یہ بات بالکل درست ہے لیکن  اس سے عوامی ناراضگی کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مہنگائی اور بدعنوانی ایک وجہ ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہوسکتی۔ خاص و عام یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی اور بدعنوانی کیلئے صرف کانگریس ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ بے قابو مہنگائی کیلئے جہاں بین الاقوامی عوامل کارفرما ہیں، وہیں بدعنوانی کیلئے ہمارا پورا سسٹم ذمہ دار ہے جس کے ایک حصہ ہم یعنی عوام بھی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس کو پھر سزا کیوں دی گئی؟  اس کا جواب یہ ہے کہ کانگریس میں بہت زیادہ رعونت آگئی تھی اوراس کے لیڈر انانیت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ایک زمانہ  تھا  جب کانگریس کے اراکین چوپال پر بیٹھ کر عوام کی باتیں سنتے تھے اوران پر عمل کرتےتھے اورآج یہ عالم ہے کہ وہ عوام سے بہت دور ہوگئے ہیں اور ان کے پاس جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کانگریس میں لیڈروں کی بہتات ہے لیکن عوامی نمائندوں کی شدید قلت  ہے۔عام آدمی کی بات جانے دیں،  ۲۰۰۹ء کے بعد کانگریس کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو خاطر میں لانا اپنی شان کے خلاف سمجھنے لگی ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی ۔
    دراصل کانگریس بھی اسی برہمنی نظام کی حامی ہے جو ملک میں دو جماعتی نظام کی وکالت کرتا ہے۔ کانگریس بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ اور بی جے پی باری باری حکومت کرتے رہیں۔ کانگریس کوبی جے پی سے کوئی خار نہیں ہے، کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس اپنی باڈی لینگویج  سے کچھ یہی تاثر دینا چاہ رہی ہے کہ اس مرتبہ وہ بی جے پی کیلئے میدان صاف رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں زیادہ محنت نہیں کرتی جہاں بی جے پی کی حکومت ہوتی ہے، اس کے برعکس ان ریاستوں میں اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہے جہاں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکمرانی ہوتی ہے۔  وہ خواہ یوپی ہو، بہار ہو یا مغربی بنگال  اور جموں کشمیر۔اس مرتبہ بھی یہی دیکھا جارہا ہے کہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے زیادہ وہ دہلی کیلئے پریشان ہے جہاں اسمبلی کی ۷۰؍ اور پارلیمنٹ کی صرف ۷؍ نشستیں ہیں۔   
     یہ بہت مشہور مقولہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو بہت دنوں تک بہت سارے معاملات میں بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا.... اس کے باوجود کانگریس یہی کام کررہی ہے۔ اسے نہیں پتہ اب ہندوستانی عوام کافی سمجھدار ہوگئے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے لگے ہیں۔ اسے اگر اپنی ساکھ بحال رکھنی ہے تو ہندوستانی عوام کےمزاج کو سمجھنا ہوگا۔  بلاشبہ مہنگائی اور بدعنوانی کے اس دیو کو حکومت پوری طرح نہیں روک سکتی لیکن وہ اس معاملے پر اپنی سنجیدگی کااظہار تو کر ہی سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے لیڈروں نے ۵؍ روپے میں بھر پیٹ کھانا ملنے کی بات کہہ کر غریبوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔  ان حالات میں کانگریس کو اس سے بہتر نتیجے کی امید کرنی بھی نہیں چاہئے تھی۔

Saturday, 14 December 2013

Roznaamcha> Farooq abdullah

فاروق عبداللہ نے غلط کیا کہا تھا؟
 
 سچ کہنا اور اس پر قائم رہنا بڑی جرأت کا کام ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں یہ وصف بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ ان کی زبان سے اگر کبھی کوئی سچی بات نکل بھی گئی توتنقیدوں سے بچنے کیلئے دوسرے ہی پل اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے جو بات کہی تھی، وہ قطعی غلط نہیں تھی .... لیکن وہ اپنی اُس بات پر ۲۴؍ گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکے اور اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا تھا موجودہ  حالات  میں  انہيں لگتا ہے کہ کسى خاتون کو پرسنل سیکريٹرى نہيں رکھنا چاہئے کيونکہ اس کى کسى بھى شکايت پر جيل  ہوسکتی ہے۔  ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بيان پر سياسى جماعتوں اور خواتين کى تنظيموں نے سخت ردعمل ظاہر کيا جس کے بعد  ان کو معافى مانگنى پڑى۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے غلط کیا کہا تھا؟ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان ہونےوالے واقعات سے فاروق عبداللہ کیا،ہر خاص و عام سہما ہوا ہے۔ تہلکہ کے چیف ایڈیٹرترون تیج پال ، مغربی بنگال حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین جسٹس گنگولی اور  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسرمحمد شبیر جیسی اہم شخصیات  جب اس قانون کی زد میں آسکتی ہیں اور اپنا کریئر تباہ و برباد کرسکتی ہیں تو بھلا عام آدمی کس قطار شمار میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بے قصور ہیں یا  ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئے لیکن   ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ محض الزام عائد کردیئے جانے سے یہ مجرم ہوگئے۔ اگر یہ مجرم ہیں تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہو لیکن جب تک الزام ثابت نہیں ہوجاتا، انہیں مجرم نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
    قانونی کی سختی اور اس کے اطلاق میں جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ کسی خاتون نے کسی مرد پر جنسی زیادتی کاالزام عائد کردیا تو پھر یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ چندماہ قبل احمد آباد کی ایک طوائف  نے۴؍ افراد پر ’آبروریزی ‘ کاالزام عائد کیا تھا۔ اس نے  اپنی شکایت میں یہ بات کہی تھی کہ۲؍ لوگوں کے ساتھ وہ   ۲؍ گھنٹے کیلئے’کہیں‘گئی تھی جہاںان دونوں کے مزید ۲؍ ساتھی آگئے اور اس کی آبروریزی کی اور ’قیمت‘ بھی ادا نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ان چاروں پر اجتماعی آبرو ریزی  کے معاملات درج ہوئے۔
      عزت و عصمت کسی بھی خاتون یا لڑکی کا سب سے قیمتی زیور ہوتا ہےجس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف اس خاتون پر  بلکہ پورے سماج پر عائد ہوتی ہے۔اس کیلئے نہ صرف سخت قانون کے نفاذ کی ضرورت ہے بلکہ کسی قانون سے زیادہ ضروری احتیاطی تدابیر کی ہے..... افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے قانون تو سخت بنا دیا گیا لیکن احتیاط کے نام پر کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ فلموں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر آج بھی کچے ذہنوں کو اس جرم کی جانب دھڑلے سے ’راغب‘ کیا  جارہا ہے۔  ٹیلی ویژن شو ’بگ باس‘ میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ کیا وہاں تہذیب و تمدن کی تربیت دی جارہی ہے؟
     اس کے باوجود حال ہی میں شو سے باہر ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی اداکارہ صوفیہ حیات نےارمان کوہلی کے خلاف پولیس میںبدسلوکی کی شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔  اس بات کا اعتراف عدالت تک نے کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال بہت تیزی سے ہورہا ہے مگر افسوس کہ اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بس، ٹرین اور راستوں پر چلتے ہوئے ایک عجیب سا  خوف محسوس ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے؟  اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو قانون کی اس سختی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ جرائم میں کمی آئے نہ آئے لیکن خوف کی شدت بڑھی تو لوگ خواتین کی عزت کرنے کے بجائے ان سے نفرت کرنے لگیںگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا سماجی نقصان ہوگا۔

Tuesday, 29 October 2013

Roznaamcha_Shaam ke baad Sannata


 شام کے بعد کا سناٹا

قطب الدین شاہد

دن بھر کی ہماہمی کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب مصروفیتوں پر تھوڑا ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ یہ وقفہ آرام اور احتساب کا ہوتا ہے،دوڑ دھوپ میں کیا کھویا ، کیا پایا کے حساب کتاب اور جائزے کا ہوتا ہے۔ اس وقت بعض چہروں پر اطمینان کی جھلک پائی جاتی ہے تو بعض کے چہروں سے جھلاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔شام کے بعد کے اس سناٹے میں وہ لوگ گہری نیند کا مزہ لیتے ہیں جو اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں یا جن کی کارکردگی کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن یہی سناٹا ان لوگوں کیلئے روح فرسا ثابت ہوتا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے جن کی دوڑ بھاگ کے نتائج غلط یا ان کی توقع کے برعکس ہوتے ہیں۔
    کتنی عجیب با ت ہے کہ اپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے  بوڑھے والدین کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے.... اور پھر کچھ عرصے کے بعد  وہی بچے بڑے ہوکراپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے انہیں بھی اسی انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف حال میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی’خوشی‘ کا اتنا خیال رہتا ہے کہ ماضی یعنی والدین کی محبت کو فراموش کردیتے ہیں اور مستقبل یعنی اپنا انجام بھی بھول جاتے ہیں۔
     اس تمہید کا پس منظر ایک ڈراما ہے جس کا نام ’شام کے بعد کا سناٹا‘ ہے۔ مصنف نے زندگی کے تین ادوار بچپن، جوانی اوربڑھاپے کو صبح ، دوپہر اورشام سے تشبیہ دیتے ہوئے شام کے بعد کے سناٹے کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ’اولڈ ایج ہوم‘ جس میں اپنی اولادوں کے ستائے ہوئے مختلف مذاہب  کے معمر افراد ہیں۔ یہ سب متوسط  اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دن رات محنت کرکے دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ لوگ کبھی موٹر، گاڑی ، بنگلہ کے مالک تھے اور بینک بیلنس رکھتے تھے مگر آج کسی اورکے رحم و کرم پر زندگی کے بقیہ ایام گزاررہے ہیں۔یہاں پہنچ کر جہاں یہ ماضی کی باتیں یاد کرکے اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتےہیں، وہیں موجودہ سماجی روش کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی صورت حال سوچ سوچ کر پریشان بھی ہیں۔اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے یا بیٹیوں اور بہوؤں کے ظلم و ستم سے پریشان ہوکر خود ہی گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان بوڑھوں کو اس بات کا شدید ملال تھا کہ جن کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا، غلط و صحیح کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی ہر خوشی کا خیال رکھا، انہیں یہ جاننے کی بھی فکر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ ایک دن ایک بوڑھا مرگیا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’وٹھل کہتا تھا کہ جب اس کو بیٹا پیدا ہوا تو اس نے کندھے پر ٹوکری رکھ کر محلے میں لڈو بانٹا تھا،آج وہی بیٹا اس کی ارتھی کو کاندھا دینے بھی نہیں آیا۔‘‘
    ان کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ایک دن قدرے تاخیر ہوجانے پر وہاں کے ملازم کے گھر سے فون آگیا کہ کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔ وہاں کے بوڑھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’اپنے بچوں کو کیا کھلایا ہے اور کیسی تربیت کی ہے کہ وہ اس دنیا کے نہیں معلوم ہوتے؟‘‘ نوکر کہتا ہے کہ’’ ہم نے بچوں کو حلال کمائی کے نوالے کھلائے ہیں اور بزرگوں کی عزت کی صرف تلقین نہیں کی بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے۔‘‘اس میں یوں تو بہت ساری سبق آموز باتیں ہیں لیکن نوکر کےاس جملے کو اس  ڈرامےکا حاصل کہاجاسکتا ہے۔ صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں کیلئے بھی یہ باتیں عبرت انگیز ہیں ، ہم تو بحمدللہ مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں  اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہر غلط عمل کی سزا خود ہمیں ہی بھگتنی ہوگی۔

Saturday, 19 October 2013

Roznaamcha_The Genration Gap

  بزرگوں اور بچوں کے درمیان فاصلہ

قطب الدین شاہد

 عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوں میں  بڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ      تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے   مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن خطبہ ختم ہونے کے بعد جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر کافی پیچھے کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو باہر بھی نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئےجانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوں اور بزرگوں کا احترام کرنا چھوڑ دیں، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔
     آج ہمارا موضوع یہی ہے کہ بزرگوں اوربچوں کے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس خلیج کو بھرا کیسے جاسکتا ہے؟
      یہ شکایت عام ہے کہ بچے بزرگوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہے۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ شرارت تو کسی حد تک گوارا ہے مگر طلبہ کی ایک بڑی تعداد تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے بدتمیزی پر آمادہ نظر آتی ہے۔  اپنی اصلاح پر توجہ دینے کے بجائے  یہ بچے اساتذہ کی شکایت  پرنسپل، والدین اور بعض تو پولیس اسٹیشن میں بھی کربیٹھتے ہیں۔
    حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں اور  ماضی کی باتوں کو یاد کرکے اسے اچھا  اور اس بہانے خود کو  اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں۔ آج کے طلبہ اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اساتذہ اور بزرگوں کوخاطر میں نہیں لاتی لیکن....
     یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟دو نسلوں کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس صورتحال کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اس لئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کرنے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتےہوئے انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوںگے۔ کچھ یہی  حال آج کے اساتذہ کا بھی ہے۔  بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں اور طلبہ کو اپنے بڑوں، بزرگوں اور اساتذہ سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ سلام  و احترام کرنے اور ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں  آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔
    

Saturday, 14 September 2013

sentence for rape

آبروریزی کے مجرموں کو پھانسی کی سزا
خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دیاجانا ضروری تو ہے مگر
جرم  کےتدارک کیلئے بھی کچھ  کوششیں کی جائیں تو اچھا ہے
 
مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟  کیاسماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو عصمت دری سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟  اس طرح کی وارداتوں سے بچنے کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتے؟
  
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ سال۱۶؍ دسمبرکو دہلی میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری کے وحشی مجرمین کو عدالت نے قرار واقعی سزا سنا دی ہے۔انہیں پھانسی کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ بلاشبہ یہ اسی کے حقدار تھے بلکہ اس سے بھی کوئی سخت سزا انہیں دی جاتی تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا۔اس معاملے کی ایک اچھی بات یہ رہی ہے کہ سست رفتاری کیلئے مشہور ہمارے عدالتی نظام نے نہایت تیز رفتاری سے معاملے کی سماعت کی اور محض ۹؍ مہینوں میں فیصلے کا اعلان کردیا ۔ اس پر اپنے رد عمل کااظہار کرتے ہوئے جہاں دفاعی وکلاء نے سیاسی دباؤ میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا وہیں متاثرہ کے والدین نے خوشی کاظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بالآخر ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا۔‘‘ اس پر بحث بعد میں کی جائے گی کہ یہ فیصلہ سیاسی دباؤ میں کیا گیا ہے یا نہیں ۔۔۔۔ یاپھر یہ کہ ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا ہے یا نہیں..... آئیے گفتگو کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کے جرائم کوہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کی تدابیر یا طریقے اختیار نہیںکئے جاسکتے؟
    ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جرم ہونے سے قبل انہیں روکنے کی بات کرنے پر ہمیں قدامت پرست اور دقیانوسی خیالات کا حامل قرار دیا جائے گا۔اس سے قبل ہم کئی اہم شخصیتوں کا حشر دیکھ چکے ہیں کہ جیسے ہی کسی نے اس موضوع پر لب کشائی کی اور احتیاطی تدابیر کی بات کی، میڈیا اور سیاست دانوں کے ساتھ خود کو آزاد خیال کہنے والوں نے اس پر یلغار کردی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں تاکہ اس بہانے ایک کو ٹی آر پی بڑھانے اور دوسرے کو سیاسی روٹیاں سینکنے کے مواقع مل سکیں۔ ایک سادہ سا اصول ہے کہ کسی بینک میں ڈکیتی ہوجائے تو وہاں صرف بینک کے باہر سیکوریٹی میں اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے قبل تجوری کی مضبوطی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ لٹیروں کی نظر اور دسترس سے اسے دور رکھا جائے۔ کیا ہمارے لئے ہماری عصمت اور ہماری عزت بینک میں پڑے کاغذ کے ان نوٹوں سے بھی گئی گزری ہے کہ ہم اس کے تئیں اتنی لاپروائی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔عصمت دری اور آبروریزی کے ان بڑھتے واقعات کے سد باب کیلئے ہم صرف اور صرف سزاؤں کا ہی مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟ سماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو آبروریزی سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ اور کرتے بھی توہماری تان صرف سیکوریٹی میںاضافے ہی پر کیوں آکر ٹوٹتی ہے؟ ہم اپنی تجوری کی حفاظت کی جانب کیوں نہیں توجہ دیتے؟ ہم اپنی عزت کو عصمت کے لٹیروں کی نظروں اور ان کی دسترس سے دور رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟کیا صرف سز ا کے خوف سے اس قبیل کے لوگ اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں؟عام طور پر یہ عادی قسم کے مجرم ہوتے ہیں، انہیں آسانی سے جرم کے مواقع ملیںگے تو یہ کبھی باز نہیں آئیںگے؟
    ہم دیکھ چکے ہیں کہ نئی دہلی میں ہونے والے اس واقعے کے بعد سماج میں کس طرح کے رد عمل کااظہار ہوا ؟ جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالے گئے اور مجرمین کے خلاف مظاہرے ہوئے، ان کیلئے سخت سے سخت سزاؤں کی سفارش کی گئی..... اس کے باوجودملک کے مختلف حصوں سے بہن بیٹیوں کی عصمتیں لٹنے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔میڈیا نے ان میں سے صرف انہی خبروں کااحاطہ کیا جہاں اس کی دلچسپی تھی یعنی جہاں سے اس کی ٹی آر پی بڑھ سکتی تھی۔ اسی طرح ہمارے سیاست داں بھی صرف اسی معاملے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیئے جس میں ان کے بیانات کو ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے کی انہیں امید تھی۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی دلت آبادی اور قبائلی علاقوں میںاس طرح کی وارداتیں آئے دن انجام دی جاتی رہی ہیں  مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات تو معاملہ بھی درج نہیں کیا جاتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مجرم بارسوخ ہوتے ہیںاور انہیں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ 
    اس طرح کے گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرمین کی عام طور پر تین قسمیں ہوتی ہیں۔
   ایک وہ جو دماغی مریض ہوتے ہیں۔ یہ ۵۔۴؍سال کی   معصوم کلیوں کو مسلنے یا ۷۰۔۶۰؍ سال کی عمر دراز خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے۔ یہ جب وحشی پن پر آتے ہیں تو اپنی بیٹی، بہن اورماں کی بھی تمیز نہیں کرتے۔
     دوسری قسم میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو انتقامی طورپر اس طرح کے جرم انجام دیتے ہیں۔ دلتوں اور قبائیلیوں کو سزا دینے کے نام پر اکثر اس طرح کی خبریں منظرعام پر آتی ہیں۔ فسادات میں ان عناصر کی بن آتی ہے۔
     تیسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوکراس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس کیلئے وہ لالچ بھی دیتے ہیں، روپے بھی خرچ کرتے ہیں اور جب اس سے بات نہیں بنتی تو زبردستی بھی کرتے ہیں۔
    ان تینوں قسم کے مجرموں سے نمٹنے کیلئے کسی ایک قانون کا اطلاق مناسب نہیں ہے۔  پہلی اوردوسری قسم کے مجرموں کے جرم زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں اور یہ سراسر زیادتی پر محمول ہوتے ہیں جبکہ تیسری قسم کی وارداتوں میں سے بیشتر میں کہیں نہ کہیں دونوں فریق ذمہ دار  ہوتے ہیں.... مگر افسوس کہ ہمارا میڈیا ، ہمارے سیاست داں اور آزاد خیالی کی مبلغ تنظیمیں پہلی اوردوسری قسم کی وارداتوں پر آنکھیں بند رکھتی ہیں اور تیسری قسم کے جرائم میں  ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔
     یہ بات کچھ لوگوں کو ہضم ہو یا نہ ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ملک کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج عصمت دری کے معاملات میں ایک بڑی تعداد  ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی برابر کی قصور وار ہیں۔  اکثر اس طرح کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں کہ شادی کا وعدہ کرکے یا ملازمت دلانے یا پھر پروموشن کا لالچ دے کر ایک سال سے اس کی عصمت دری کی جاتی رہی...... بہت ممکن ہے کہ بیشتر معاملات ایسے بھی ہوں جن میں ’بات‘ نہیں مانے جانے پر اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سماج میں بلیک میلنگ کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس  جانب بھی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
    لالچ دے کر کی جانے والی عصمت دری بھی بہرحال جرم ہی ہے لیکن ایک سال سے انجام دیئے جانے والے اس جرم کیلئے کیا ایک ہی فریق ذمہ  دار ہے؟  کیا یہ رشوت کے زمرے میں نہیں آتا؟ اگر ملازمت مل جاتی یا پروموشن ہوجاتا  تو کیا کسی باصلاحیت حق دار کی حق تلفی نہیں ہوتی؟  شادی کا وعدہ کرکے کی جانے والی عصمت دری اگرچہ جرم ہے مگر یہ بات بگڑجانے ہی پر کیوں جرم قرار پاتی ہے؟  پہلے ہی سے اس طرح کے حالات کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟ کیوں اس طرح کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں اور کیوں اس کے مواقع دیئے جاتے ہیں؟ قانون اور معاشرے کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑتی؟
    چھیچھڑے دکھا کر کتوں سے شرافت کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ کتوں پر پابندی کے ساتھ ہی چھیچھڑے دکھانے والوں پر بھی روک لگنی چاہئے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی جائے، فحاشیت پر قابو پایا جائے اور اقدار کی تعلیم  عام کرتے ہوئے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔