Saturday, 12 May 2012

President election 2

صدر جمہوریہ کے انتخاب  میں
اتنی خاموشی کیوں، اتنی رازداری کیوں؟

  ۱۲۱؍کروڑ کی آبادی والے ہندوستان کیلئے آئندہ ماہ ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جانا ہے مگر ہم  ہندوستانیوں کو  ہنوزیہ بھی پتہ نہیں کہ اس باوقار عہدے کیلئے  امیدوارکون کون ہیں؟  سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں غیرمعمولی رازداری برتی جارہی ہے۔بلاشبہ اس عہدے کیلئے عوام کو براہ راست ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہے لیکن ان خواص کو جنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ وہ کتنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔  ان حالات میں اس عمل سے عوام کو بالکل بے خبر رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ او ر اگر پھر بھی بے خبررکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنے نمائندوں سے جواب طلب کریں۔ 

قطب الدین شاہد

    ۲۴؍ جولائی کو ملک کی ۱۲؍ ویں صدرجمہوریہ پرتیبھا تائی پاٹل کے عہدے کی میعاد ختم ہورہی ہے۔اس سے قبل نئے صدر کا انتخاب ہوجانا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ جون کے آخری یا جولائی کے پہلے ہفتے تک اس باوقار اور آئینی عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت کاانتخاب کرلیا جائے گا....
    یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ یعنی وقت رہتے صدرکاانتخاب کرلیا جائے گا، کسی قسم کا کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا لیکن.... اس معاملے میںجس طرح کی پیش رفت ہے، کیا مناسب ہے؟  ایک ماہ کا قلیل عرصہ باقی بچا ہے لیکن ابھی تک ہم ہندوستانیوں کے سامنے مطلع صاف نہیں ہے کہ اس عہدہ ٔجلیلہ پر کون فائز ہوگا؟ ہندوستان کی دو بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی  اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے گریز کررہی ہیں۔ چھوٹی جماعتیں بھی کانا پھوسی سے کام چلارہی ہیں۔ کوئی کھل کر نہیں کہہ رہا ہے کہ ان کی جانب سے اس عہدے کیلئے کون امیدوار ہے اور وہ کیوں ہے؟ اس پر بحث کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا گیا ہے۔کھلے عام اس موضوع پر گفتگو کو گناہ تصور کرلیا گیا ہے۔ تحریک تو چل رہی ہے اور بہت زور شور سے چل رہی ہے لیکن نہایت خاموشی سے.... رازداری کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ شطرنج کی بساط بچھادی گئی ہے، چالیں چلی جارہی ہیں،سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہورہی ہیں،شہ اور مات کا کھیل  جاری ہے مگر عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگ پارہی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اُتنی ہی باتیں ’لیک‘ ہوتی ہیں، جتنی کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔اس پورے عمل میں عوام کو کہیں سے شریک کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ کیا یہ عوام کے ساتھ فریب نہیں ہے؟
     بلاشبہ ملک کے پہلے شہری کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اس عہدے کاانتخاب بالراست عوام ہی کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ووٹ دینے والے عوامی نمائندگان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پرطے ہوتی ہے کہ وہ کتنے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ اس پورے عمل میں عوام کو شریک کیا جائے، ان سے مشورے طلب کیے جائیں، ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائےاور اس کی بنیاد پر ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جائے؟ مگر افسوس کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب سے عوام کو کوسوں دور رکھاجاتا ہے، ان سے رائے مشورہ طلب کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، ان کی پسند نا پسند کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ وقت رہتے کسی امیدوار  کے نام کااعلان اسی لئے نہیں کیا جاتا کہ کہیںانہیںعوام کی ناراضگی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔اندر ہی اندر کھچڑی پکائی جاتی ہے اور پھر ایک دن  ۱۲۱؍ کروڑ ہندوستانیوںکو بتادیا جاتا ہے کہ یہ ہیں تمہارے نئے صدر، ان کااحترام کرو، ان کی تکریم کرو۔ کیا سیاسی جماعتوں کا یہ عمل جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟کیا یہ ہم عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟ کیا اس پر ہمیں سیاسی جماعتوںسے جواب طلب کرنے کا حق نہیں ہے؟
      دراصل  وطن عزیز میں اس عہدۂ صدارت کو نمائشی عہدہ بناکررکھ دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس اہم اور آئینی عہدے پر کوئی ایسا شخص آ جائے جو انہیں اس بات کا احساس دلانے لگے کہ وہ ۱۲۱؍کروڑ ہندوستانیوں کا نمائندہ ہے، ملک کی افواج کا کمانڈر ہے ، مخصوص حالات میں کسی بھی حکومت کو برخاست کرنےاور کسی نئی حکومت کو حلف دلانے کااختیار رکھتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اس عہدے پر کوئی ایسا شخص ہی بیٹھے جو اُن کے حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کرے، اپوزیشن کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے، جہاں تک ممکن ہو آنکھیں بند رکھے اور ضرورت پڑے تو ان کا دفاع بھی کرے۔
     ہونا تو یہ چاہئے کہ وقت رہتے سیاسی جماعتیں اس عہدے کیلئے  اپنے  اپنےامیدواروں کا اعلان کردیں اور یہ بتائیں بھی ....کہ انہوں نے کن بنیادوںپر یہ فیصلہ کیا ہے، تاکہ عوام میں اس پر بحث ہوسکے اور ملک کو ایک بہتر صدر مل سکے، لیکن .... کیا ہماری سیاسی جماعتیں ایسا کریںگی؟

Saturday, 5 May 2012

President election

صدر جمہوریہ کے انتخاب کا معاملہ
اتفاق رائےکے شوشے کے ساتھ ہی سیاسی
جوڑ توڑ بھی جاری

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے اس مرتبہ عجیب و غریب کوششیں ہورہی ہیں۔ان کوششوں کو سیاسی جماعتوں نے  ’اتفاق رائے‘ کا نام دے رکھا ہے۔بلا شبہ اتفاق رائے کی اپنی اہمیت ہے اور اس میں  برکت بھی ہے ، مگرا س کے لئے اخلاص شرط ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے ہونے والی کوششوں میں اخلاص کم، سیاسی سودے بازی زیادہ نظر آرہی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار کی اہلیت و قابلیت  پر کسی جماعت کا اصرار نہیں ہے بلکہ سبھی کی کوشش یہی ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے پر بیٹھنے والی شخصیت ان کی پسندیدہ ہو، باالفاظ دیگر اُن کی سننے والی ہو...... کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟

قطب الدین شاہد

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کی آوازیں آرہی ہیں۔ عام حالات میں کانگریس جو اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتی، اتفاق رائے کا راگ الاپ رہی ہے، اوراس کیلئے اس نےاپوزیشن کی جماعتوںسے بھی گفتگو کرنے کاعندیہ ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی جسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، صدر کے امیدوار کے طور پر ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی حمایت کااعلان کیا ہے۔ بایاں محاذ جس نے اس سے قبل بطور صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے اس عہدے کیلئے کسی سیاسی شخصیت کی وکالت کی تھی، اس مرتبہ کسی غیر سیاسی شخص کو صدر بنانے کی تحریک چلا رہا ہے۔ ممتا بنرجی،کروناندھی، مایاوتی اور ملائم سنگھ بھی ’اتفاق رائے‘کی بات کررہے ہیں لیکن سیاسی حلقوں سے جس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں، اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ جماعتیں اتفاق رائے کے نام پر سیاسی سودے بازی کررہی ہیں۔ کانگریس کے امیدوار کی حمایت کی قیمت  پر ممتا بنرجی بنگال کےلئے اقتصادی پیکیج لینا چاہتی ہیں تو کرونا ندھی مختلف الزامات میں گھرے اپنے اعزہ کیلئے سیاسی پشت پناہی اور مایاوتی تاج کاریڈور معاملے میںاپنے لئے  راحت کی متمنی ہیں جبکہ ملائم سنگھ کے تعلق سے کہاجارہا ہے کہ وہ نائب صدر کا عہدہ اپنے بھائی کو دینا چاہتےہیں۔مطلب صاف ہے کہ یہ تمام جماعتیں کسی اصول اور کسی پیمانے کی بنیاد پر صدر کا انتخاب نہیں کررہی ہیں بلکہ ان تمام کا واحد اصول یہی ہے کہ اس عہدے پر  براجمان کوئی بھی ہو، فائدہ ان کا  ہونا چاہئے۔
      اب تک اس عہدے کیلئے کئی نام سامنے آچکے ہیں، جس میں حامد انصاری اور پرنب مکھرجی کا نام سرفہرست ہے۔   دراصل کانگریس کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آئندہ  ہونے والے عام انتخابات میں اُسے اتنی نشستیں نہیں مل سکیںگی کہ وہ آسانی سے حکومت سازی کا دعویٰ کرسکے۔ اس صورت  میں صدر کا رول کافی اہم ہوگا۔ وہ قطعی نہیں چاہے گی کہ اس عہدے پرکسی ایسی شخصیت کاانتخاب ہو، جو کانگریس کو ’اہمیت‘ نہ دے... .... یا یہ کہ کانگریس کو ’فوقیت‘ نہ دے۔ یہی خدشہ بی جے پی کو بھی ستارہا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں بلکہ دونوں اتحادوں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا صدر منتخب کرسکیں۔ ان حالات میںبی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ امیدوار  اگر اس کا پسندیدہ نہیں تو کم از کم   اس کا ناپسندیدہ بھی نہ ہو۔ اس کیلئے وہ بادل نخواستہ ہی سہی تیسرے محاذ کے کسی امیدوار کی حمایت پر راضی ہوجائے گی۔   ان حالات میں کانگریس کی کوشش یہی ہے کہ ’کچھ بھی کرکے‘ وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔  اطلاعات کے مطابق پرنب مکھر جی  کے نام پر  بایاں محاذ کے ساتھ ممتا، کرونا ندھی اورمایا وتی بھی تیار ہوسکتی ہیں اور کچھ ’جواز‘ پیدا کرکے ملائم سنگھ بھی حامی بھر سکتے ہیں۔ ملائم سنگھ کے سامنے مسئلہ صرف ایک ہے کہ ان کی جانب سے براہ راست نہ سہی مگر بالراست یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہ اس عہدے پرکسی مسلم کو بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایسی کوئی بات نہیں کہ اس کیلئے وہ کوئی ’جواز‘ نہ پید ا کرسکیں۔ یہ تصویر حالانکہ کچھ دنوں میں واضح ہوجائے گی لیکن سیاسی جماعتوں کی اب تک جو ’کسرت‘ چل رہی ہے، اس سے بہرحال یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے کیلئے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ رہی ہے۔ویسے موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوںسے اس طرح کی کوئی امیدکی بھی نہیں جانی چاہئے۔ یہاں جب ایک سرپنچ کے عہدے کیلئے  سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرگزرنے کی کوشش کرڈالتی ہیں، تو پھر یہ تو وطن عزیز کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔
    دیکھاجائے تو اس عہدے کیلئے کوئی ایسی ہی شخصیت ہونی چاہئے جو سیاسی جماعتوں کے دھونس میں نہ آئے، سب کے ساتھ انصاف کرے اور  ضرورت آن پڑے تو آئین کی حفاظت کرتے ہوئے حکومت کو من مانی کرنے سے روک  سکے۔  یہ عہدہ ابھی تک کسی بھی ایسی شخصیت کا انتظار کررہا ہے۔ بلاشبہ راجندر پرساد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، کے آر نارائنن اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے صدور گزرے ہیں جنہوں نے وقتِ ضرورت اپنی اہلیت ثابت کی ہے لیکن...... یہاں ٹی این سیشن اور جسٹس احمدی جیسا کوئی کردار چاہئے جو عوام و خواص کی اس غلط فہمی کود ور کرسکے کہ یہ عہدہ نمائشی نہیں بلکہ آئینی اور بااختیار ہے۔ ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی این سیشن سے قبل الیکشن کمیشن کے عہدے کو اور جسٹس احمد ی سے قبل چیف جسٹس کی اہمیت کو بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ 
    یہ بات درست ہے کہ بیشتر معاملات میں صدر کابینی فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب صدر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کئی معاملات میں وہ خصوصی اختیار رکھتا ہے اور اس کے اطلاق کیلئے وہ وزیراعظم یا اس کی کابینہ کے مشورے کا محتاج نہیںہوتا۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس عہدے کو کوئی ایسا شخص رونق بخشے جو اِن اختیارات  کے مناسب استعمال  سے واقف ہو۔
     اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر عبدالکلام ایک موزوں امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت پوری دنیا کے سامنے ہے، ان کی سوچ ، فکر اور ان کی سادگی کی دنیا قائل ہے۔ وہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار دیئے جاسکتے ہیں  اور اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ گزشتہ میقات میں انہوں نے اسے ثابت بھی کیا تھا۔  ہم سب کو یاد ہے کہ ملائم سنگھ کی سفارش پر بی جے پی نے انہیں نامزد کیا تھا اور اس کے بدلے بھیروں سنگھ شیخاوت کو نائب صدر کی کرسی دلائی تھی، لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے بی جے پی کو خاطر میں نہیں لایا۔ ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۲ء کوجب ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا، گجرات میں خونیں فساد جاری تھا ، جو۵؍ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔  ڈاکٹر عبدالکلام نے اس موضوع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ یہ وزیراعظم کااختیار ہے کہ وہ جوائنٹ  سیشن بلائے یا نہ بلائے، لہٰذا واجپئی نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد صدر نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے گجرات دورے کا اعلان کردیا۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ۱۲؍ اگست ۲۰۰۲ء کے اس دورے کے بعد ہی گجرات میں فساد پر ’قابو‘ پایا گیا تھا۔ اس دورےسے بی جے پی  نے کافی پیچ و تاب کھایا تھا لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتی تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی وہ کلام کو صدر بنانا چاہتی ہے تو صرف اسلئے کہ اس عہدے پر کوئی کانگریس حامی شخص نہ متمکن ہو جائے ۔
    ضروری نہیں کہ اس عہدے پر کوئی مسلم ہی فائز ہو جیسا کہ سماجوادی پارٹی نے اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے جاتی ہیں لیکن کم از کم ملائم سنگھ کو تو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ کھلونوںسے مسلمانوں کو بہلایا نہیں جاسکتا ۔ مسلم رائے دہندگان اب کافی باشعور ہوگئے ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر ، نائب صدر اور اسپیکر جیسے عہدوں سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے بلکہ انہیں عزت کی دو روٹی کیلئے مناسب ملازمتیں چاہئیں۔ ان حالات پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے کہ وطن عزیز میں کسی مسلم کو صدر بنانا آسان ہے لیکن کسی مسلم کو چپراسی کی ملازمت دلانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں کم از کم اس طرح مسلمانوں کااستحصال نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ سماجوادی پارٹی اگر واقعی مسلمانوں کا بھلاچاہتی ہے تواسے چاہئے کہ صدر کے عہدے پرکسی بھی  مناسب مسلم یا غیرمسلم  امیدوار کی حمایت کردے اور اس کے بدلے میں یوپی اے حکومت سے مسلمانوں کیلئے کوئی پیکیج طلب کرلے ، جس طرح ممتا بنرجی بنگال کیلئے کوشاں ہیں۔
    یہ بات اس لئے بھی کہی جارہی ہے کہ موجودہ الیکٹورل کالج کے لحاظ سے سماجوادی پارٹی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ صدر کے انتخاب میں جسے چاہے کامیاب کروادے۔ کانگریس اور بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ اسی کے پاس ہیں۔فی الحال اس کے پاس دونوں ایوانوں میں ۳۰؍اراکین پارلیمان اور ۲۲۴؍ اراکین اسمبلی ہیں۔  اس طرح اس کے پاس۲۳؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار ۲۳۵؍ ووٹوں میں ایک لاکھ ۵۷؍ ہزار ۱۷۰؍ یعنی ۶ء۵۶؍فیصد ووٹ ہیں۔اب دیکھنا  ہے کہ ملائم سنگھ کس طرح اس موقع  سےمسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟

الیکٹورل کالج کیا ہے؟
    صدر کے انتخاب کیلئے دونوں ایوانوں کے اراکین پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے منتخب نمائندے ووٹ دیتے ہیں۔ ان کےووٹوں کی قیمت مختلف ہے، جیسے اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت جہاں ۴۹۵؍ ہے وہیںسکم اور اروناچل پردیش کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت بالترتیب ۱۹؍ اور ۲۳؍ ہے۔ ان کے ووٹوں کی قیمت کا تعین ریاست کی آبادی سے کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی ریاست کی مجموعی آبادی  کو اراکین اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیاجاتا ہے اور پھر اسے ایک ہزا ر سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح تمام ریاستوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد کو اراکین پارلیمان کی تعداد سے تقسیم کرکے ان کے ووٹوں کا تعین کیا جاتا ہے۔  اس وقت ایک ایم پی کے ووٹ کی قیمت ۱۵۴۳؍ ہے۔  دیگرریاستوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت کچھ اس طرح ہے۔ بہار (۴۲۷)،مہاراشٹر (۳۹۰)، راجستھان (۳۴۳)، گجرات (۳۳۲)، مدھیہ پردیش (۳۱۶)، مغربی بنگال (۳۱۱)، تمل ناڈو (۳۰۸)، آندھرا پردیش (۲۸۸)، اڑیسہ (۲۸۵)، چھتیس گڑھ (۲۸۴)، ہریانہ (۲۸۲) اور کرناٹک (۲۷۳)... وغیرہ     (بشکریہ : وکی پیڈیا
)

Saturday, 14 April 2012

shikast ke baad siyasi jamaton ki khud ehtesabi

انتخابات میں شکست کے بعد سیاسی جماعتوں کی خود احتسابی

دل بہلانے کا سامان یا عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک اور کوشش

انتخابات بلدیاتی نوعیت کے ہوں یا ریاستی،یا پھر قومی، اکثر دیکھاگیا ہے کہ نتائج ظاہر ہونے کے بعد جہاں فتح یاب ہونے والی جماعت عوام کا شکریہ ادا کرتی ہے اور ان کی امیدوں پر کھرا اُترنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کرتی ہے، وہیں شکست خوردہ ٹیم اپنا احتساب کرنےاور شکست کی وجوہات تلاش کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ اچھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں خلوص ہو۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاںاس کے ذریعہ محض ایک رسم ادا کرتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہو.......یعنی ان کے رویے میں اخلاص شامل ہوجائے تو جہاںجیتنے والی جماعت کو دوبارہ شکست دینا مشکل ہوجائے گا، وہیں شکست خوردہ جماعت کی اقتدار میں واپسی کا راستہ بالکل آسان ہوجائے گا۔  بہار میں نتیش کمار کی اقتدار بحالی اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی اقتدار میں واپسی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

قطب الدین شاہد

اترپردیش اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد گزشتہ دنوں کانگریس نے ایک جائزہ میٹنگ طلب کی تھی۔ اصولاً یہ احتسابی میٹنگ لکھنؤ میں منعقد کی جانی تھی لیکن راہل گاندھی کی ایماء پر اس کاانعقاد دہلی میں ہوا۔ اسی طرح بی جے پی نے بھی اپنی شکست کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے ایک میٹنگ طلب کی تھی۔دونوں جماعتوں کی احتسابی اور جائزہ میٹنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں وقت نہیں لگے گا کہ اس کی حیثیت محض ایک رسمی میٹنگ کی تھی، ورنہ کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں نے بھی شکست کے حقیقی اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی ۔باتیں خوب لمبی چوڑی ہوئیں اور بہت ساری وجوہات بھی تلاش کی گئیں لیکن جو مسائل اصل تھے، ان ہی سے چشم پوشی کی گئی۔ ’گرد چہرے پر جمی تھی، آئینہ دھوتے رہے ‘ کے مصداق ان کی پوری مشق اپنے چہرے کو چھپائے رکھنے اور آئینے پر الزام تراشی میں لگی تھی۔ سرسری طور پر دیکھیں توبات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخرکیا سبب ہے کہ شکست کی جن وجوہات سے ہر خاص و عام واقف ہوتا ہے،  سیاسی جماعتوں کے یہ جغادری، ان سے ناواقف ہوتے ہیں، اور پھرد ور کی کوڑی لاتے ہوئے چند غیر اہم اسباب تلاش کرلئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس پر غور کیا جائےتو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اصل وجوہات کوسمجھنے اور سمجھانے کے بجائے فروعات میں الجھنے اور  الجھانے میں ہی یقین رکھتی ہیں۔  یہ عوام کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے ، اپنی پسند اُن پر تھوپنا چاہتی ہیں، اس لئے سامنے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نئے مسائل کی شناخت کرتی ہیں اور اس طرح شکست کے بعد بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
      تنگی ٔ داماں کے پیش نظرہم  یہاںصرف کانگریس کی احتسابی میٹنگ پرگفتگو کریں گے۔ مذکورہ اجلاس میںکانگریس نے ’آتم چنتن‘ کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کو بنیادی وجہ قرار دیا نیز اسے مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یعنی اگر اترپردیش میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا تو وہ شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میںکانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط تھا جو  اُس وقت اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا؟ اور اگرمضبوط تھا تو اب کمزور کیوں ہوگیا؟  اصل بات تو یہ ہے کہ شکست کی یہ بنیادی  وجہ ہے ہی نہیں ۔ اگر تنظیمی ڈھانچے میں مضبوطی ہی  اقتدار میں آنے کا پیمانہ ہوتی تو کوئی بھی سیاسی جماعت شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔بلاشبہ کسی بھی سیاسی جماعت کی بہتر کارکردگی کیلئےاس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ راہل گاندھی گزشتہ ۵؍ برسوں سے آخر اسی مشن پر تو لگے تھے، پھر انہوں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟   ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے جواب دَہی طے کرنے کی بات بھی کہی لیکن اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی کہ یہ جواب دہی کس طرح کی ہوگی؟
     جواب دہی طے کرنے کا مطلب ہوگا کہ شکست کی ذمہ داری کسی کے سر ڈالی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے ؟ ریتا بہوگنا جوشی پر جو یوپی کانگریس کی صدر ہیں، دِگ وجے سنگھ پر جو یوپی انتخابات کے انچارج تھے یا پھرخود راہل گاندھی پر جنہوں نے پوری انتخابی مہم اپنے کندھوں پر سنبھال رکھی تھی اور بلاشبہ جیت کی صورت میں اس کی مکمل کریڈٹ لینے کے حقدار ہوتے، سلمان خورشید، سری پرکاش جیسوال اور بینی پرساد ورما پر، جو مرکزی وزیرہیں اور جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اہم کردار نبھایا تھا، پی چدمبرم پر جنہوں نے بٹلہ ہاؤس معاملے میں دگ وجے سنگھ کو جھٹلانے میں نہایت سرعت کا مظاہر ہ کیا  تھا، کانگریس صدر سونیا گاندھی پر یا پھر وزیراعظم منموہن سنگھ پر ، جن کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے  رائے دہندگان اُن سے دور رہے؟
    ہمیں اندازہ ہے کہ جواب دہی کی بات میٹنگ میں ضرور آئی ہوگی مگر سرسری طور پر، یعنی ان تمام ناموں کا تذکرہ وہاں قطعی نہیں ہوا ہوگا..... کیونکہ اگر ان ناموں پرتذکرہ ہوتا تو حقیقی مسائل خود بخود  سامنے آجاتے۔  یہ بات ہم ، آپ اور سب جانتے ہیںکہ کانگریس کی شکست میں ان تمام ناموں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ریتا بہوگنا جوشی، مایاوتی بننے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول بیٹھی تھیں۔ان میں عوام کو متاثر کرنے جیسی کوئی بات نظر ہی نہیں آئی۔ دگ وجے سنگھ صرف بیان بازی میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ میڈیا میں سنگھ پریوار پر خوب نشانہ لگاتے ہیں لیکن پارٹی کے اندر خاموش رہتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس معاملے میں یہ بھرم پوری طرح کھل گیا۔ راہل گاندھی نے انتخابی دنوں میں اینگری ینگ مین کا کردار نبھایا، جسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ عوامی نمائندگی کم ،فلموں کی ریہرسل  زیادہ کررہے ہیں۔ دریںاثنا بینی پرساد ورما، سلمان خورشید اورسری پرکاش جیسوال جیسے سنجیدہ قرار دیئے جارہے لیڈروں کی غیر سنجیدگی بھی کھل کرسامنے آئی، وہ خواہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات ہو یا صدر راج کی دھمکی کا معاملہ رہا ہو۔ اسی طرح مہنگائی اور مرکزی حکومت کی دیگر عوام مخالف پالیسیوں نے بھی اقتدار تک پہنچنے سے کانگریس کا راستہ روکا........ لیکن ہمیں اندازہ ہی نہیں بلکہ پورایقین ہے کہ مذکورہ احتسابی میٹنگ میں ان سب  باتوںکا  تذکرہ بالکل بھی نہیں ہوا ہوگا۔ 
     دراصل شکست کے بعد آئینہ دیکھنے کی طاقت صرف کانگریس ہی کیا، کسی بھی برسرِ اقتدار جماعت میں نہیں ہواکرتی۔ آئینہ دیکھنے کا مطلب ہوگا، اپنی غلطیوں کااعتراف، اور اپنی غلطیوں کے اعتراف کا مطلب ہوگا ، آئندہ اس کی تصحیح...... کیا ہم کانگریس جیسی ڈھیٹ جماعت سے اس کی توقع کرسکتے ہیں، جو مودی اور شیوراج سنگھ چوہان جیسوں کو گوارا کرسکتی ہے لیکن  ملائم سنگھ، مایا وتی، نتیش کمار، لالو پرساد،   پرکاش سنگھ بادل، بدھادیب بھٹاچاریہ اور محبوبہ مفتی جیسوں کو نہیں کیوں کہ یہ سب علاقائی جماعتوں کے لیڈر ہیں اور بی جے پی کی طرح کانگریس بھی چاہتی ہے کہ ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام قائم ہو۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی تھیں، ورنہ فی الحال ہمارا موضوع اترپردیش کی شکست کے پس منظر میں کانگریس کا محاسبہ ہے۔
     اترپردیش میں کانگریس کی شکست کی بنیادی وجہ  یوپی کے تئیں  کانگریس کارویہ اور مرکزی حکومت کی مجموعی ناقص کارکردگی رہی ہے۔ کانگریس اگر حقیقی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتی تو اسے اندازہ ہوتا کہ یوپی کے عوام، روزگار،  خود داری اور سیکوریٹی چاہتے ہیں۔ روز گار کی تلاش میں ممبئی آنے والوں کے ساتھ ایم این ایس کی ہنگامہ آرائی اور اس پر مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومت کی مجرمانہ خاموش رہی،  اسی طرح بٹلہ ہاؤس معاملے پر کانگریس کی مرکزی و ریاستی حکومتوں  کے اعتماد شکن رویے سے یوپی کے مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں کافی غم و غصہ پایا جارہاتھا۔ انتخابی مہم کے دوران حالانکہ کانگریس نےاس کا وعدہ کیا تھا، لیکن چونکہ اسی طرح کاوعدہ سماجوادی پارٹی نے بھی کیا تھا، لہٰذا رائے دہندگان نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا۔ کانگریس اگر تجزیہ کرنے بیٹھی تھی، تو ا سے اس پر غور کرناچاہئے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ اس کا تجزیہ کرتی تو  ضرورکسی نتیجے پرپہنچ پاتی۔

Saturday, 7 April 2012

mustahkam nahi jawab dah sarkar ki zaroorat

حکمراں جماعتوں کی نکیل چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں رہنا ملک کیلئے زیادہ سود مند ہے، کیونکہ.......

  ملک کومستحکم نہیں، جواب دَہ سرکار کی ضرورت ہے

دولت مشترکہ کھیل ، ٹوجی، تھری جی، اسرو، آدرش سوسائٹی اور کوئلہ گھوٹالے کے بعد وزیراعظم کا اتحادی جماعتوں کو کوسنا اور یہ کہنا کہ بعض فیصلے مجبوری کے تحت لئے جاتے ہیں،بالکل مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ ان گھوٹالوں  سے مجبوری نہیں، حکومت کی نااہلی نمایاں ہوتی ہے۔۱۱؍ لاکھ کروڑ روپوں کے گھوٹالے کے انکشاف پر جس حکومت کی پیشانی پر شکن تک نہ آئے، وہی حکومت ریلوے کرائے میں ہوئے اضافے کے واپسی کے فیصلے کو مجبوری کو سودا قرار دیتے ہوئے خود کو مظلو م کے طورپر پیش کرے تو افسوس ہوتا ہے.......بلاشبہ  ان تمام گھوٹالوں  ( جو مطلق العنانیت کی علامت ہیں)کے درمیان ممتا بنرجی کی اس ’بلیک میلنگ‘ کو جمہوریت کی برکت ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے ۹۰؍ فیصد عوام حکومت کو درپیش اس طرح کی ’مجبوریوں‘ کا خیر مقدم کریں تو اس پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے .......کیونکہ ملک کو مستحکم سے زیادہ .....جواب دہ حکومت کی ضرورت ہے۔

قطب الدین شاہد
 گزشتہ دنوں ہندوستانی سیاست میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے چانکیائی سیاست کے علمبرداروں کو پریشان کردیا۔  ایک چھوٹی سی جماعت کاایک بڑی جماعت کو یوں آنکھیں دکھانا اور فیصلہ بدلنے پر اسے مجبورکردینے کا یہ ضرب کاری ثابت ہوا، جس سے یہ طبقہ بلبلا کررہ گیا۔ دراصل مرکزی حکومت میں شامل ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کی دھمکیوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے یوپی اے حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جو اسے قطعی پسند نہیں تھا۔ حکومت بالکل نہیں چاہتی تھی کہ ریلوے کرائے میں کئے گئے اضافے کو واپس لیا جائے... ....لیکن ایسا کرنے پر اسے مجبور ہونا پڑا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنی بے چارگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اتحادی حکومت کی مجبوری قرار دیا۔ اسی کے ساتھ ملک میں ایک بار پھر یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس طرح کی اتحادی حکومتیں ملک کیلئے مفید ہیں یا مضر؟
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئے مستحکم حکومتوں کی وکالت کرتار ہا ہے۔اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
     معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اسے اختلاج صرف اُس وقت ہوتا ہے جب بی جے پی اور کانگریس کو مکمل اکثریت نہیں مل پاتی لہٰذا  حکومت پردباؤ دبنائے رکھنے کیلئے کچھ چھوٹی پارٹیاںاُن کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ان چھوٹی جماعتوں کے ہر جائز و ناجائز مطالبات کو یہ طبقہ ’بلیک میلنگ‘ قرار دیتا ہے اوراس طرح ان کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مہم میں میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔
      ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑدیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے........ مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
    یہی وجہ ہے کہ جب بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آتا ہے ، یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کویہ طبقہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے اور یہ کہ ہندوستان جیسے کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام  یا مستحکم حکومتوں کا فلسفہ کتنا فائدے مند ہے اور کتنا نقصاندہ؟
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیںہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں۔
    لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں  ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے ! اسے مکمل اکثریت بھی حاصل نہیں ہے ، اس کے باوجود اہم فیصلوں میں اپوزیشن تو دور کی بات، اپنے اہم اتحادیوں تک کو شامل نہیں کرتی۔ لوک پال بل  او رریلوے کرائے میں اضافے کے موقع پر یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے۔ واضح اکثریت کا مطلب اپوزیشن کا کمزور ہونا ہے، ایسے میں  حکومت پر کوئی محتسب نہیں ہوتا، لہٰذا بدعنوانیاں بے روک ٹوک ہوتی ہیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے، پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے غیر اطمینانی محسوس  ہوگی تو جھک مار کر پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہیں دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی بھی ایک جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ ۸۴ء کے بعد   سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی بھی ایک جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔   یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی۔ بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں موقع دے رہے ہیں۔  دراصل ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویوںسے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اگر ان پر کسی کا دباؤ نہیں رہا تو یہ خواص کے مفاد پر عوام کو قربان کرنے میںکسی تکلف کا مظاہرہ نہیں کریںگی۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ صنعتی گھرانوں  پر خزانہ لٹا دیا جاتا ہے مگر  یہ اُف  تک نہیں کرتیں لیکن مسافر کرائے میں اضافے کوواپس لیے جانے پر ان کی بھنویں تن جاتی ہیں۔

Saturday, 31 March 2012

April fool

اپریل فول: کون بیوقوف بنا اور کس نے بنایا؟
 
قطب الدین شاہد

عالمگیریت اور صارفیت  نے جب زمانے پر اپناشکنجہ کسا تو یوم پیدائش اوریوم وفات سے بات آگے بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے یوم وجود میں آگئے..... جیسے یوم خواتین، یوم بزرگاں، یوم اطفال، یوم دوستی، یوم محبت، یوم آزادی  اور یوم شادی۔ جب سب نے اپنے اپنے دن مخصوص کرلیے تو بیوقوفوں اور احمقوں نے بھی آواز بلند کی کہ ہم نے کون سا گناہ کیا ہے جو دنیا ہمیں بھول گئی۔یہ مطالبہ یوں بھی ناجائز نہیں تھا کہ اسے یکسر مسترد کردیا جاتا، کم از کم جمہوری ملک میں تو قطعاً نہیں جہاں بندے گنے جاتے ہیں، تولے نہیں جاتے۔ یہاں اکثریت میں رہنے والوں کی ہر بات سنی جاتی ہے، انہیں چھینک بھی آئے تو سیاسی جماعتوں کو زکام ہونے لگتا ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ اُن کا حق تھا لہٰذا ’عقل مندوں‘ کا اخلاقی فرض بھی  تھا کہ اس مطالبے پر وہ سنجیدہ ہوں۔ سو اِس کا انتظام کردیا گیا اور بالاتفاق رائے یکم اپریل کی تاریخ طے کردی گئی۔ پوری دنیا میں تو نہیں کہہ سکتے مگرجہاں جہاں جمہوریت اپنے پیر پسارنے میں کامیاب رہی ہے ، وہاں  یہ دن ’دھوم دھام ‘ سے منایا جاتا ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ۔
     آپ چاہیں تو اس سے اختلاف کرسکتے ہیں تاہم بعض ’عقلمندوں‘ کا خیا  ل ہے کہ یکم اپریل کو چونکہ سالانہ بجٹ کا نفاذ  ہوتا ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سےاپریل فول منایا جاتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ترقی اور شرح نمو کے نام پر تمام نام نہاد حکومتیںعوام کو بیوقوف بنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ قیمتیں فوراً بڑھاتی ہیں اور  سبز باغ دکھاتی ہیں ایک سال بعد کی۔
     اپریل فون کے دن بہت سارے بیوقوف  دیگر  بیوقوفوں کو بیوقوف بنانے کی مہم پر نکلتے ہیں اورآخر میں بیوقوف بن کر گھر واپس ہوتے ہیں اورخوش ہوتے رہتے ہیں تاہم  یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس نے کس کو بیوقوف بنایا  بالکل اسی طرح جیسے رائے دہندگان  اور سیاسی پارٹیوں کا معاملہ ہے۔
    ویلنٹائن ڈے کی طرح یہ دن بھی اب ہر گھر اور ہر دفتر میں منایا جانے لگا ہے۔  صبح جب دسترخوان پر انواع و اقسام کے ناشتے دیکھا تو سمجھ میں نہیں آیا کہ معاملہ کیا ہے؟ بیگم نے بتایا کہ اپریل فول ہے۔ میںنے کہا کہ اس کا مطلب بھی سمجھتی ہو، انہوں نے کہا،میںتوسمجھتی ہوں اور تھوڑی دیر میںآپ بھی سمجھ جائیں گے۔ اس دھمکی پر بھلاکسے خوف نہیں آئے گا، ہرکسی کا جگر ، جگر مرادآبادی کے جیسا تھوڑے ہی ہے ، لہٰذا لقمہ جہاںتھا ، وہیں رہ گیا۔میری تشویش دور کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناشتہ کیجئے اور جی بھر کر کیجئے، اس میں کچھ نہیں ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ صبح ہی صبح میری جیب کی تلاشی ہوئی تھی اور اب پرس کی رقم ندارد تھی۔ اتنے  میں دیکھا میاں عبدالرشید بھی اسکول سے واپس آگئے۔ بولے ہیڈمسٹریس صاحبہ چل بسی ہیں،لہٰذا چھٹی ہوگئی ہے۔  مجھے لگا کہ یہ اپریل فول کا ہی حصہ ہے تاہم مزید تحقیق پر معلوم پڑاکہ اس میںجزوی سچائی ہے۔ ہوا یوں کہ بچوں میںسے کسی نے اپریل فول منانے  اور اس بہانے چھٹی  پانے کے مقصد سے ہیڈ مس کو یہ جھوٹی خبر سنادی کہ سکریٹری صاحب  نے دنیا کوالوداع کہہ دیا ہے۔  بیچاری ہیڈ مس اس خبر کی تاب نہیں لاسکیں، سوچی ہوںگی کہ جب ’دلبر‘ ہی نہیں تو دل کس کا م کا، لہٰذادل پر زبردست حملہ ہوا اورتھوڑی دیر میں لوگوں کو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھنا پڑا۔ پتہ چلا کہ تدفین کے بعد ہی سکریٹری صاحب نے اس مسند پرکسی اور کو اس شرط کے ساتھ براجمان کردیا کہ  میرے ’دل‘ کا خیال رکھنا۔ ترقی پانے کے لیے اسطرح کی سودے بازی تعلیمی اداروں میں آج کل عام بات ہے۔ اب اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
     یکم اپریل کو ہمارے دوست لیاقت علی زاہد بھی گھرسے اسی مقصد سے نکلے تھے کہ چلو کسی کو بیوقوف بنایاجائے۔ انہوں نے خود پر یہ شرط بھی عائد کرلی تھی کہ کام ہوئے بغیرگھر واپس نہیںہوںگے، گویا ناتواںکندھوں (دماغ بھی پڑھ سکتے ہیں) پر بہت بوجھ پڑگیا تھا۔ایک صاحب جو فون پرکسی سے بات کررہے تھے اور بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اپنا شکار سمجھ کر انہیں راستے میں ہی روک  لیا اور چہکتے ہوئے کہا  ’’بھائی صاحب ! مٹھائی کھلائیے، آپ کی اہلیہ محترمہ نے جڑواں بچوںکو جنم دیا ہے۔‘‘اس سے قبل کہ زاہد صاحب کچھ سمجھ پاتے، اس نوجوان نے ایک زوردار طمانچہ رسید کردیا۔پتہ چلاکہ وہ اپنی محبوبہ سے عشق و محبت کی باتیں اورمستقبل کی منصوبہ بندی کررہا تھا کہ موصوف نے بیوی  اورجڑواں بچوں کا تذکرہ کرکے اس کی قسمت پر سیاہی انڈیل دیا۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر وہ وہاںسے راہ فرار اختیار نہ کرتے تو واقعی گھر جانا نصیب نہ ہوتا۔تھوڑی ہی دور گئے ہوںگے کہ دیکھے آگے آگے ان کا ایک دور کا پڑوسی جارہا ہے۔سوچااسے بیوقوف بنانا چاہئے۔ دوڑ کر پیچھاکیا اور ہانپتے کانپتے بولے کب سے تمہیں تلاش کررہا ہوں،  ارے بھابھی نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے، محلے میں سب تمہارا انتظارکررہے ہیں، جلدی چلو اور ہاں مٹھائی بھی خرید لو۔ زاہد صاحب خیرایک سانس میں تو سب کچھ کہہ گئے لیکن تب تک موصوف کی حالت غیر ہوگئی تھی اوراس سے قبل کہ یہ کچھ سمجھ پاتے، وہ بے ہوش ہوکر زمین بوس ہوچکے تھے۔اسے دواخانے پہنچانے کے بعد انہیں معلوم پڑاکہ ان کا دور کا پڑوسی جب بھی کوئی ناقابل یقین بات سنتا ہے تو اس پراسی طرح کا دورہ پڑتا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے ناقابل یقین ہی تھی کیونکہ وہ  ایک عرصہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے پر عمل کررہا تھا، لہٰذا  جڑواں بچوں کا  ’صدمہ‘ برداشت نہیں کرسکا۔
    زاہد صاحب تھکے ہارے پارک میں جاکر بیٹھ گئے کہ کچھ دیر آرام کرلیں پھر اپنی مہم پر نکلیں۔کہتے ہیں کہ ارادے پختہ ہوںتو منزل خود چل کر آتی ہے، سو انہوں نے دیکھا کہ ایک جوڑا گارڈن میںداخل ہورہا ہے۔ان دونوں کو اپنی منزل سمجھ کر زاہد صاحب ابھی ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں پائے تھے کہ دونوں نے کچھ کانا پھوسی کی اور ایک لمحہ کے تؤقف میں اپنی بیوی کو وہیںچھوڑ کر وہ نوجوان ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔غصے سے اس کا چہر ہ لال بھبھوکا تھا، آتے ہی اس نے سوال کیا۔ تمہارا نام کامران ہے؟ان کے ہاں کہتے ہی اس نے ایک زوردار گھونسہ مارا۔پھر دوسرا سوال کیا کہ کیا تم ہی وہ شخص ہو جو شادی سے قبل ہماری بیوی کو چھیڑا کرتے تھے؟ انہوںنے پھرہاں کہا اور پھر زور دار گھونسے کا ضرب پڑا۔وہاں لوگوں نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی شخص مار کھانے کے بعد بھی ہنس رہا ہے اور بے تحاشا ہنستا جارہا ہے۔ وہ تو اچھاہواکہ بروقت میں پہنچ گیا جس کی و جہ سے معاملہ رفع اورنوجوان دفع ہوا ورنہ پتہ نہیں کیاہوتا۔ بعد میںلوگوں کے پوچھنے پر کہ تم مار کھاکر کیوںہنس رہے تھے؟انہوںنے کہا کہ میں تو اپریل فول منا رہاتھا۔یہ پوچھنے پر کہ کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ ’’وہ مجھے کامران سمجھ کرماررہا تھا جب کہ میرا نام لیاقت علی زاہد ہے۔‘‘
    مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہ شخص مار کھاکر بھی محض اس لیے خوش ہے کہ اس نے کسی کو بیوقوف بنایا ۔  نظر کا دائرہ وسیع کیا تو دیکھا کہ اسی طرح کی خوش فہمی کا شکار پورا سماج ہے۔خیال آیا کہ جس سماج میں مار کھا کر بھی خوش ہونے والے افراد موجود ہوںگے ، وہاں کے حکمراں بھلا کیونکر ان کی فلاح کی باتیں سوچیںگے، وہ تو مار مار کر ہی انہیں ’خوش ‘ رکھنے کی کوشش کریںگے۔
n

Saturday, 10 March 2012

Good decision by Uttar Pardesh voters......

 یوپی کے باشعور رائے دہندگان کا مدبرانہ فیصلہ

 مبارکباد کےمستحق ہیں یوپی کے رائے دہندگان، جنہوں نے اپنے ووٹوں کی طاقت کو محسوس کیا،اس کا بہتر استعمال کیا اور مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مایاوتی کی مطلق العنان حکومت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتائی اورکانگریس کے پنجے کو بھی مروڑ دینے میں کامیابی حاصل کی .....جسے تعمیر سے زیادہ تخریب پر یقین تھا۔ اس مبارک سلامت کے حقدار بلاشبہ تمام رائے دہندگان ہیں لیکن مسلمانوں نے جس شعور و تدبر کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۱۸؍ فیصدمسلم نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچادینا اور بی جے پی کو محض ۱۱؍ فیصد نشستوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ پولنگ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت منظم انداز میں ہوئی ہے۔ سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داری بحسنِ خوبی انجام دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اور نومنتخب نمائندے رائے دہندگان کے معیار اور امیدوں پر کس حد تک پورے اُترتے ہیں؟

قطب الدین شاہد

حالیہ ریاستی انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ شعور و تدبر کے استعمال اور منظم پولنگ کے معاملے میں اترپردیش کے رائے دہندگان بہت اسمارٹ واقع ہوئے ہیں۔ایودھیا تحریک کے ذریعہ پورے ملک کی فضا کو مسموم کردینے والی بی جے پی کو غیر مؤثر کرنے نیز اس کے دانتوںسے زہر نکال کر اسے بے ضرر بنانے کاسہر ا  یوپی   کے عوام کے ہی سر بندھتا ہے۔کسے یقین تھا کہ جس بی جے پی نے  ۱۹۹۸ء  کے عام انتخابات میں  ۳۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸۲؍ میں سے ۵۷؍ سیٹیں ہتھیالینے میں کامیا بی حاصل کی تھی، اسی بی جے پی کو اُسی یوپی میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسمبلی کی محض ۴۷؍ نشستوں تک محدود کردیا جائے گا۔  یہ سیکولر رائے دہندگان کی بالغ نظری کا ثبوت ہی تو ہے جو یہ ممکن ہوسکا۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ملائم سنگھ کو سزا دینے کی بات ہو، مایاوتی کی تاجپوشی کا معاملہ ہو یا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایک موقع اور دیتے ہوئےریاست میں دوسرے نمبر پر پہنچا دینے کا واقعہ ہو یا پھر ابھی اختتام پذیر ہوئے انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی ندامت کو قبول کرتے ہوئے اسے معاف کردینے اور دوبارہ مسند ِ اقتدار تک پہنچا دینے کی بات ہو....... رائے دہندگان نے ہر جگہ اور ہر موقع  پر نہایت ہی سوجھ بوجھ اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
    عام طور پر شمالی ہند کو آر ایس ایس کا مضبوط علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی شمالی ہند کے سب سے مضبوط گڑھ  یوپی میں بی جے پی کو  ۱۱؍ فیصد یعنی ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں صرف ۴۷؍ نشستیں ہی مل سکیں، اس کے برعکس ۸۹؍ فیصد سیٹیں سیکولر طاقتوں کے قبضے میںگئیں۔سوجھ بوجھ کا مظاہرہ یوں توسبھی نے کیا لیکن مسلم رائے دہندگان کی حکمت عملی اپنی مثال آپ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸؍ فیصد ہے ، اس لحاظ سے دیکھیں تو انہوں نےاسمبلی میں (۶۹؍ اراکین کے ساتھ) اپنی( تقریباً)۱۸؍ فیصد نمائندگی اپنے ووٹوں کی طاقت کے بل پر حاصل کرلی ہے۔ یوپی میں یہ اب تک کی ریکارڈ مسلم نمائندگی ہے۔ حالانکہ اس پر افسوس نہیں کیا جاناچاہئے لیکن ....... اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اُن ۶۴؍ اسمبلی حلقوں میں جہاں مسلم نمائندے دوسری پوزیشن پر رہے ہیں، اگربیداری کا مظاہرہ تھوڑا سا اور کیا جاتا تو اس ریکارڈ کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ ان ۶۴؍ حلقوں میں کئی حلقے ایسے تھے، جہاں دو دو اور تین تین مضبوط مسلم امیدوار آپس میں ہی ٹکرا گئے تھے۔ تھوڑی سی محنت سے سکندر آباد سے سلیم اختر (بی ایس پی)،  تھانہ بھون سے اشرف علی خان (آر ایل ڈی)، غوری گنج سے محمد نعیم (کانگریس) ، پھول پور  پوئی سے ابو القیس اعظمی (بی ایس پی) اور رودولی سے عباس علی زیدی (سماجوادی ) کو ہم  آسانی سے کامیاب کرواسکتے تھے۔ (باکس میں دیکھئے  ، چند مسلم امیدواروں کی شکست کا فرق)۔
    کہاجاتا ہے کہ یوپی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی لہر تھی۔ یہ لہر کیوں تھی؟ اور کس نے پیدا کی تھی؟دیانت داری سے اس کا تجزیہ کیا جائے گا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ یہ لہریں مسلمانوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ سماجوادی پارٹی سے ناراضگی کے سبب مسلمانوں نے ۲۰۰۷ء کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کو اور ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کا ہاتھ مضبوط کیا تھا۔  سماجوادی سے مسلمانوں کی ناراضگی کیوں تھی؟  یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے  لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنے سے بہتر ہوگا کہ ’یہ ناراضگی دور کیوں ہوئی؟‘ پر گفتگو کی جائے۔
     آگےبڑھنےسے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد اس کایا پلٹ کا پوراکریڈٹ مسلمانوں کو دینا نہیں ہے .... اس کا اعتراف ہمیں بھی ہے کہ اس کے اور بھی کئی عوامل ہیں، مثلاً بی ایس پی کی بدعنوانی  اور مطلق العنانی  کے ساتھ کانگریس کی ناعاقبت اندیشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کی اس کی پرانی روِش (صدر راج کی دھمکی اس کی واضح مثال ہے)،جس کی وجہ سے عوام نے انہیں رد کردیا...... لیکن ان سب کے باوجود .... مسلمانوں کے جوش و خروش اور  سیاسی شعور کے مظاہرے کے بغیر محض انہی عوامل کی  وجہ سے سماجوادی پارٹی یوں بلا شرکت ِغیرے لکھنؤ کے تخت پر براجمان ہوپاتی،یہ ممکن نہیں تھا۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کی شکست کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں لیکن سماجوادی کی کامیابی کی بنیادی وجہ اسے مسلمانوں کی حمایت کا ملنا ہی ہے۔
    اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ سماجوادی پارٹی کا حق بھی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں سماجوادی پارٹی نے جو کام کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو.....غلطی کس سے نہیں ہوتی؟ غلطیاں کرنا انسان کے بشری تقاضے ہیں ..... لیکن بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں؟ ان پر نادم ہوتے ہیں، معافی تلافی کرتے ہیں اور اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ البتہ جو ایساکرتے ہیں وہ واقعی بڑے ہوتے ہیں اور پھر سرخروئی بھی حاصل کرتے ہیں ..... ملائم سنگھ اور ان کی ٹیم نے بھی غلطیاں کی تھیں لیکن انہوںنے ضد اور انا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی اور کلیان سنگھ کو اپنےساتھ رکھنے پر مسلمانوںسے سرِ عام معافی طلب کی۔ یہ بہت بڑی بات تھی.... اور اگر مسلمان ملائم کو معاف نہیں کرتے تو یقیناً یہ بری بات بھی ہوتی۔
    اب آئیے مسلمانوں کے سیاسی شعور کے ایک اور پہلو پر بھی گفتگو کرتے چلیں۔بلاشبہ مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ترجیح دی لیکن ..... پوری طرح  اس کی آواز پر آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کس طرح بہتر بنائی جائے؟   بھوجی پورہ میں سماجوادی پارٹی کے وریندر سنگھ گنگوار  کے مقابلے اتحاد ملت کونسل کے نمائندےشاذی الاسلام کی جیت ، بلسی میں ایس پی کے امیدوار ومل کرشن اگروال کے مقابلے مسرت علی بتّن،چیل میں بی ایس پی کے محمد آصف جعفری، مئو سے مختار انصاری اور محمد آباد سے صبغت اللہ انصاری اور اس طرح کے بہت سارے امیدواروں کی کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ یقیناً مسلمانوں نے  ایس پی کو ترجیح دی لیکن جہاںجہاں  اس کے مسلم امیدوار نہیں تھے، اور وہاں مسلمان اپنی طاقت کامظاہرہ کرسکتے تھے، انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا اور بہت منظم طریقے سے کیا۔
     الیکشن ہوچکا، نتائج آچکے، جیتنے اور جِتانے والے خوش ہولئے، مبارکبادیوں کا دور چلااور ختم بھی ہونے پر آیا،  ایک دو دن میں حکومت بھی بن جائے گی..... سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا؟ مسلم رائے دہندگان کو جو کرنا تھا، انہوں نے کیا اور پوری ذمہ داری سے کیا۔ اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے نئی حکومت اور نو منتخب نمائندوں پر۔ نئی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ مسلمان کسی پر بھروسہ کرتا ہے تو بہت گہرائی سے کرتا ہے لیکن جب اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ئی جاتی ہےتو وہ نفرت بھی اُتنی ہی شدت سے کرتا ہے۔ سماجوادی پارٹی نےمعافی طلب کی تو اسے معاف کردیا گیا لیکن کانگریس کا حشر ہمارے سامنے ہے جو آج بھی یوپی میں اپنی زمین کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہے۔  اسی کے ساتھ مسلم نمائندوں پر بھی بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح رائے دہندگان نے بلا لحاظ جماعت انہیں اپنے ووٹوں کا حقدار قرار دیا ہے، اسی طرح ان سے اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ مسلم مسائل پراسی طرح متحد ہوکر وہ بھی مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے۔اگر ایسا ہوا تو ایس پی کے ساتھ ہی تمام کامیاب مسلم نمائندوں کے بھی روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر انہیں عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

Tuesday, 6 March 2012

U P men sadar raaj ka shosha..........4 March 2012

یوپی میں صدر راج کا شوشہ........

عوا م کو دھمکی یا شکست کااعتراف

اپنی غیر سنجیدگی کیلئے بدنام کانگریس کے بڑبولے قومی جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ اکثر و بیشترسچی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اگر ان پر اعتبار نہیں آتا  تو صرف اس لئے کہ ان میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اترپردیش انتخابات کے پس منظر میں انہوں نے ایک با ر پھر سچائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر یوپی میں کانگریس شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس کیلئے راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہوںگے۔ دگ وجے سنگھ بالکل درست فرمارہے ہیں، لیکن قدرے انکساری سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کو بخش دیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی کے انتخابی نتائج اگر کانگریس کی توقع کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں تو اس کیلئے دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم بھی ذمہ دار ہوںگے۔

قطب الدین شاہد
 
 یوپی میںووٹنگ کا عمل پورا ہوا۔ ۳؍مارچ کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ریکارڈ پولنگ کے ساتھ کانگریس، بی جے پی ، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے ساتھ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے  امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بیلٹ باکس میں محفوظ ہوگیا ہے۔دو دن بعد نتائج ظاہر ہوںگے۔ ان نتائج پر صرف یوپی کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نتائج حسب توقع برآمد ہوں یا غیر متوقع لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتیں بری طرح بوکھلائی ہوئی ہیں۔ دوران الیکشن یہ بات مشاہدے میں آئی کہ ووٹنگ کے تئیں عوامی جو ش و خروش سیاسی جماعتوں کو راس نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ بدحواسی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں۔گھبراہٹ کا یہ تناسب بعض سیاسی جماعتوں میں کم ہوتا ہے تو بعض میں زیادہ۔
    یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کی جائے تو کانگریس کی بوکھلاہٹ زیادہ نمایاں ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں مل جانے کی وجہ سے کانگریس اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ اترپردیش سے اس کی بے دخلی کا دور ختم ہوچلا ہے اور اس مرتبہ وہ وہاں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔  واضح رہے کہ  ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کو نارائن دت تیواری وزارت اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس کے بعد سے کانگریس وہاں اقتدار کیلئے ترس رہی ہے۔ تب سے اب تک وہ مسلسل کوششیں کررہی ہے لیکن اس کے تمام پینترے بیکار جارہے ہیں۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کو میدان میں اتار کربھی اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں  کانگریس کو ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں۸فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۲۲؍ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۱۸ء۲۵؍  فیصد ووٹ مل گئے جس کی وجہ سے اسے ۲۱؍ پارلیمانی نشستیں مل گئیں اور وہ یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی۔اس کامیابی نے کانگریس کی خوش فہمی میں اضافہ کردیا اوراسے لگنے لگا کہ عوام نے اس کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے۔
    ویسے کانگریس اگر یہ سوچ رہی تھی تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ عوام نے یقیناً اس کی غلطیوںکو معاف کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اترپردیش میں کانگریس کا جو ووٹ بینک رہا ہے، جس کی وجہ سے  وہ وہاں ۴۰؍ برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے، اس میںمسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ اپر کاسٹ کے ہندوؤں کا اہم رول رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے یہ تینوں ووٹ بینک دور ہوتے گئے۔ رام مندر کی تحریک سے اپر کاسٹ بی جے پی کے  خیمہ میں چلا گیا، تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے فاصلہ بنا لیا ۔ اسی طرح بی ایس پی کی آمد نے دلتوں کے دلوں سے کانگریس کا موہ بھنگ کردیا۔اس مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی تینوں کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے...... لیکن ان کے ’بزرگوں‘ نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔   ووٹوں کی کاشت کیلئے راہل نے یوپی کی زمین کو بہت اچھی طرح ہموار کردیا تھا لیکن   دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم  نے ان کا کھیل خراب کردیا اور اس قابل کاشت زمین میں کنکر پتھر ملاکر اسے بنجر بنانے  میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔    
  دلتوں کے گھر جانا اور ان کے گھر کا کھانا کھانا، اپنے آپ میں بڑا قدم تھا، راہل نے یہ کام کیا اورا س طرح دلتوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر بھی کیا۔  یہ اور بات ہے کہ انہیں ووٹ بینک میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ یہ یقینا ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔  راہل گاندھی نے اس برف کو پگھلانے کی ایک اچھی پہل ضرور کی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ہموار کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ ماضی میں کانگریس نے جو غلطیاں کی ہیں، جن کی وجہ سے یوپی کے مسلمانوں نے اسے ریاست سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا، اس میں لچک پیدا ہونے لگی تھی۔ راہل کی معصومیت پر لوگوں کو ترس آنے لگا تھا، اور لوگ یہ ذہن بنانے لگے تھے کہ کانگریس کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا جاسکتا ہے...... لیکن اسی درمیان کانگریس کی جانب سے اترپردیش انتخابات کی کمان سنبھالنے والے دگ وجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس کا تذکرہ چھیڑ کر مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کردیا۔ کانگریس کی کارستانیوں کو مسلمان یقینا ً بھولے نہیں تھے اور بھولنے کا ارادہ بھی نہیں تھا لیکن اس بیان سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتی بلکہ ان کے زخموں کو کرید کر انہیں ہرا بھی رکھنا چاہتی ہے۔ رہی سہی کسر چدمبرم کے فوری ’ری ایکشن‘ نے پوری کردی۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی خاموشی سے بھی مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ کانگریس کی ان بے وفائیوں کو مسلمان کسی طرح بھولنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ سلمان خورشید بھی درمیان میں کود پڑے۔ بٹلہ ہاؤس معاملے کے ساتھ  ہی ریزرویشن کے معاملے پر بھی انہوں نے کئی قلابازیاں کھائیں اور اپنے ساتھ مسلمانوں کو  بھی تذبذب میں مبتلا رکھا۔ان کا یہ کہنا کہ بٹلہ ہاؤس کا واقعہ سننے کے بعد سونیا گاندھی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں، کسی کوبھی ہضم نہیں ہوا ۔ اسی طرح مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے ان کے وعدے پر بھی اعتبار کرنا مشکل لگا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ۴۰؍ برسوں تک یوپی اور ۵۰؍ برسوں تک مرکز میں حکمرانی کی ہے   اور اس درمیان مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ سماجوادی پارٹی سے کانگریس میں آئے بینی پرساد ورما بھی اپنی سنجیدگی کو (جس کیلئے وہ مشہور تھے) بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا ’جرأت مندانہ‘ بیان دے ڈالا..... اور دودن کے بعد ہی ’زبان پھسلنے کی بات کہہ کر‘ اپنا بیان واپس بھی لے لیا۔ اس طرح کے بیانات دے کر کانگریس نے مسلمانوں میں اپنی شبیہ تو خراب کرہی لی تھی ....... ایسے میں رہی سہی کسر پوری کردی دگ وجے سنگھ اور مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال نے۔ ان کا یہ کہنا کہ اترپردیش میں یا تو کانگریس کی حکومت بنے گی یا پھر صدر راج نافذ ہوگا،کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں تھا ..... اور ہونا بھی نہیں چاہئے تھا۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ آپ رائے عامہ کی پروا نہیں کرتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ کی دھمکی دیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کانگریس کو عوام اس قابل نہیں سمجھتے ہیں کہ اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپیں تو وہ کیا وہ عقبی دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کی دھمکی دے گی۔ کانگریس  رہنماؤں کے اس بیان سے کسی اور کونہیں بلکہ صرف اور صرف کانگریس کو ہی نقصان پہنچے گا۔ نتائج تو بہرحال دو دن بعد ظاہر ہوںگے لیکن .... یہ طے ہے کہ کانگریس کو جتنی سیٹیں مل سکتی تھیں، اُتنی تو بہرحال نہیں ملیںگی اور اس کیلئے  بقول د گ وجے سنگھ ’راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ہی ذمہ دار ہوںگے‘۔