Tuesday, 21 July 2015

Modi ki bolti band

مودی کی بولتی بند
 
قطب الدین شاہد

بی جے پی کے اسٹار مقرر تھے لیکن آج چھپتے چھپاتے پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ صرف ایک سال میں’پھینکو ‘سے ’مون مودی‘ ہوگئے۔ یوپی اے کے دور حکومت میں بات بات پرسوال پوچھنے والے اور حکومت کوگھیرنےوالے نریندر مودی اب بڑے بڑے موضوعات پر بھی لب کشائی کی زحمت نہیں کررہے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ ہو یا للت مودی سے ان کی پارٹی کی ۲؍ اہم خاتون لیڈروں کے مراسم کی بات ہو، مہاراشٹر کا چکی گھوٹالہ ہو یا پھر منظم طور پر  مدھیہ پردیش کا ریاست گیر ویاپم اسکینڈل۔ ان تمام موضوعات پر وزیراعظم  نے چپی سادھ رکھی ہے۔
     بہت پرانی بات نہیں ہے، ابھی ایک سال قبل تک بی جے پی کی جانب سے صرف مودی بولتے تھے، ہرموضوع پر بولتے تھے اور بہت بولتے تھے، خواہ اس موضوع سے ان کی واقفیت ہو ، نہ ہو۔  بی جے پی نے انہیں اپنے لئے زندہ طلسمات سمجھ لیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاریخ اور جغرافیہ سے متعلق اپنی کم علمی کی بنا پر وہ کئی بار مذاق کا موضوع بھی بنے لیکن ، مودی، بی جے پی اور ان کے حامیوں کو اس وقت کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ مودی کی اسی یاوہ گویائی کی وجہ سے سوشیل میڈیا پر انہیں پھینکو کہا جانے لگا تھا لیکن ایک ہی سال میں مودی ، پھینکو سے مون مودی ہوگئے۔ ایک سال قبل نریندر مودی ،بات بات پر اُس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا مذاق اڑایاکرتے تھے، ان کی خاموش مزاجی پر طنزیہ فقرے کستے تھے اورانہیں مون مون سنگھ کہتے تھے۔ آج  مودی جی خود اپنے ہونٹ سی لینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
    مودی جی کی حالت دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک صاحب کہیں دعوت میں گئے تو کھانا کھانے کے بعدایک پیالے میں زردہ بھی پیش کیا گیا۔ یہ زردہ چمچ سے کھانا تھا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ گرم ہوگا۔ایک چمچ اٹھاکر منہ میں رکھا تو نانی یاد آگئی لیکن کریں تو کیا کریں؟ اگلنے پر بے عزتی کا خطرہ تھا۔ ایسے میں کسی طرح اسے نگل گئے لیکن اس عمل کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے قریب بیٹھے ایک صاحب پریشان ہوگئے کہ بھائی کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہے ہیں؟  اب یہ بیچارے اپنی کیفیت کیا بتاتے لہٰذا ایک کہانی گھڑی کہ ’’میرے پڑوس میں ایک بچہ بہت بیمار ہے۔ میں گھر سے نکل رہا تھا تو اس کےاہل خانہ اسے اسپتال لے جارہے تھے۔ابھی یہ لقمہ لیتے ہوئے مجھے اس کا  خیال آگیاتو آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ ‘‘ تب تک وہ صاحب بھی ایک چمچ زردہ اپنے منہ میں رکھ چکے تھے۔ لقمہ منہ میں ڈالتے ہی انہیں  اندازہ ہوگیا کہ کون بیمار ہے اور کتنا بیمار ہے؟ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔  اس پر ایک تیسرے صاحب نے استفسار کیا کہ بھئی آپ کو کیاہوا؟ توانہوں نے کہا کہ’’ مجھے بھی وہ بچہ یاد آگیا۔ پتہ نہیں اس کی طبیعت کیسی  ہے؟ اسپتال میں جانےوالوں کا خدا ہی نگہبان ہوتا ہے۔ ‘‘
    مسلسل اور بے تحاشہ بولنےوالے مودی جی کی خاموشی بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں جن سے ایک سال قبل تک منموہن سنگھ جوجھ رہے تھے۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے شاندار نتائج کے بعد للت گیٹ، ویاپم اسکینڈل، ساتھیوں کی فرضی ڈگریاں اور  مہاراشٹر سرکار کے چکی گھوٹالےنے ان کی بولتی بند کردی ہے۔  ایک ہی سال میں بی جے پی حکومت کی ساری قلعی اتر چکی ہے۔  وہ طبقہ جو بی جے پی کی حقیقت جانتا تھا،اسے مودی حکومت کے بے نقاب ہونے سے کچھ زیادہ تکلیف نہیں ہے لیکن وہ طبقہ جو بی جے پی اور مودی کے سحرمیں گرفتار ہوا تھا اوراس کی وجہ سے  اس نےحکومت تبدیل کرنے کیلئے اپنی توانائی صرف کی تھی، وہ آج بہت زیادہ مایوس ہے۔  ان میں سے بعض یہ کہنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ’’اس سے اچھی تو سابقہ حکومت ہی تھی۔‘‘   بلاشبہ لوٹ کھسوٹ اور انانیت کانگریسی حکومت کا بھی وطیرہ تھا لیکن اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حلف برداری کے بعد ہی مودی جی کارپوریٹ دنیا سے کئے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ بات ایف ڈی آئی کی ہو یا تحویل اراضی بل کا معاملہ ہو، مودی حکومت نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے عوام کی نہیں،خواص کی فکر ہے اور خواص میں بھی بس ایک مخصوص طبقے کی جس میں اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مودی کے بیشتر بین الاقوامی دورے انہیں کےمفادات کی تکمیل کی خاطر ہوئے ہیں۔ مودی کی انہیں ’کارگزاریوں‘ کے سبب مودی کے وہ بھکت بھی پریشان اور شرمندہ شرمندہ سے ہیں جنہوں نے انتخابات کے دوران   مودی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔
    تشہیر اورتقریر کے سہارے اقتدار میں آنے اور نظام حکومت چلانے کی کوشش کرنےوالے مودی جی کو شایداس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ لچھے دار باتوں سے حکومت نہیں چلتی۔  میڈیا کے بھر پور تعاون سے بی جے پی  عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب تو ہوگئی تھی کہ ملک کے باہر بہت سارا کالا دھن ہے اور یہ کہ اس کیلئے پوری طرح سے کانگریس کی سربراہی والی یوپی اے حکومت ذمہ دار ہے۔  تشہیر اور تقریر ہی کی کامیابی تھی کہ عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ امید ہوچلی تھی کہ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی ان کے ’اچھے دن‘ آجائیںگے لیکن اب جبکہ مودی سرکار نے اپنے قیام کی پہلی سالگرہ منا لی ہے، عوام اس طلسم سے آزاد ہوچکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب بی جے پی  لیڈروں کی لچھے دار تقریریں  انہیں اچھی نہیں لگتیں ، یہاں تک کہ مودی کے من کی بات بھی لوگوں کو نہیں بھاتی۔
    اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مودی نے تشہیری مہم کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی۔  وہ جن دھن یوجنا ہو،سوچھ بھارت ابھیان ہو، بیمہ پالیسی ہو ، ریڈیو  پر من کی بات ہو یا یوگا ڈے کے موقع پر کیا جانے والا ڈراما۔ ان تمام پر مودی سرکار نے عوام کی گاڑھی کمائی کو پانی کی طرح بہایا اوراسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ ابھی حال ہی ایک رپورٹ آئی کہ موجودہ لوک سبھا کے اراکین پارلیمان نے صرف ایک سال میں اپنی آسائش پراتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ سابقہ حکومت کے اراکین پارلیمان ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں کئےتھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان کی تشہیر پر ۱۰۰؍ کروڑ روپوں کے خرچ کی بات بھی سامنے آئی ہے۔اتنی رقم اگر واقعی صاف صفائی پر خرچ کی گئی ہوتی تو ملک کا ایک کونہ تو بہرحال صاف ستھرا ہوجاتا۔
    عوام کب تک خاموش رہیںگے؟ کب تک سوال نہیں کریں گے؟ ظاہر  ہے کہ بی جے پی کو صرف اس کے معتقدین  اور خاکی نیکر والوں ہی نے تو ووٹ نہیں دیا تھا کہ کچھ بھی کرنے کی آزادی رہے گی۔ یقیناً اس میں ایک بڑی تعداد ایسے رائے دہندگان کی بھی تھی جو ترقی کے نا م پر میڈیا کے بہکاوے میں آئے تھے۔  اب وہ سوال کررہے ہیں تو بی جے پی لیڈروں کی بولتی بند ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فرق ہے بی جے پی اور کانگریس میں، تو بی جے پی لیڈر آئیں بائیں اورشائیں بک رہے ہیں۔   دوران انتخابات مودی نے دعویٰ کیاتھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو پلک جھپکتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کیلئے وہی کالا دھن لانے کی بات کہی گئی تھی اور عوام کو ورغلایا تھا کہ اس مد میں بیرون ملک اتنی بڑی رقم جمع ہے کہ واپس آجائے تو وارے نیارے ہوجائیں گے اور ملک کے ہر شہری کو ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کی  خطیررقم ملے گی۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد   جب عوام نے سوال کیا کہ اچھے دن کب آئیںگے تو مودی نے یہ کہتے ہوئے  ۳؍ ماہ کا وقت لیا کہ ابھی تو ہماری حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم نہیں ہوا ۔ تین ماہ پورے ہوئے تو ایک سال کی بات کی گئی اور اب کہا جارہا ہے کہ کانگریس نے اس ملک پر ۶۰؍ سال حکومت کی ہے، بی جے پی کو ۶۰؍ ماہ کا موقع تو دیجئے۔ 
    اپنی حکومت کی ایک سالہ تکمیل کے موقع پر نریندر مودی نے ایک لچھے دار تقریر کی تھی۔ شاید وہ ان کی آخری تقریر تھی۔ اس پُرجوش تقریر میںانہوں نے بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کیاتھا کہ ایک سال گزر گیا، لیکن ایک بھی گھوٹالہ سامنے نہیں آیا اور پھر اپنے اسی جانے پہچانے انداز میں انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ کیا یہ اچھے دن نہیں ہیں؟  یہ اور بات ہے کہ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ اس سے پہلے ہی منظر عام پر آچکا تھا لیکن بی جے پی کی نظر میں وہ کوئی بدعنوانی اور بے ضابطگی نہیں ہے کیونکہ ایسی بے ضابطگیاں  تو مودی جی بھی اپنی بیوی کے تعلق سے برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔ بی جے پی اس طرح کی باتوں کو اُس وقت بے ضابطگی اوربدعنوانی قرار دیتی ہے جب معاملہ جتندر سنگھ تومر جیسے کسی دوسرے پارٹی کے لیڈر کا ہو۔ اس کیلئے بی جے پی استعفیٰ مانگنے کیلئے ہنگامہ بھی کرتی ہے اور سڑک سے لے کر سنسد تک روک دینے کی دھمکی بھی دیتی ہے لیکن بات جب سشما، وسندھرا ، شیوراج چوہان اور پنکجا منڈے کی ہو تو وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ نہیں دیتے، یہ تو یوپی اے حکومت  کا خاصہ رہا ہے۔ 
    بہرحال ابھی تو عوام نے بی جے پی کی بولتی بند کی ہے۔ بی جے پی نے  اگراپنی اصلاح نہیں کی تو یہی عوام انہیں اقتدار سے بھی بے دخل کردیں گے اور   انانیت  پھر بھی باقی رہی توتاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے بھی گریز نہیں کریںگے ۔ بی جے پی اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرسکتی ہے کہ ۱۹۷۱ء کی شاندارکامیابی کے بعد ۱۹۷۷ءمیں کانگریس کس طرح آسمان کی بلندی سے زمین پر پھینکی گئی تھی؟ اور۱۹۸۴ء کی ریکارڈکامیابی کے بعد ۱۹۸۹ء میں اس کا کیا حشر ہوا تھا؟۱۹۷۷ء میں جنتا پارٹی کو عوام نے سر آنکھوںپر بٹھایا تھا لیکن جب توقعات پر پوری نہیں اتری تو  ۱۹۸۰ء میں اُسےبھی اس کی اوقات بتادی ۔  بی جے پی چاہے توخود اپنا ہی انجام دیکھ لے کہ  ۱۹۹۹ء میں دہلی پر قابض ہونے کے بعد۲۰۰۴ء میں اسے کس طرح  باہر کا راستہ دکھا یا گیا تھا۔ بی جے پی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے اور وقت آنے پر کچھ بھی کرسکتی ہے۔

Hamne itna gussa kyun aata hai

ہمیں اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟

گزشتہ دنوں ایک خبر آئی کہ ایک مسجد میں وضومیں پہل کرنے کیلئے دو ’نمازیوں‘کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ دونوں روزے کی حالت میں تھے، اسلئے غصہ بھی بہت تھا لہٰذامعاملہ صرف ’تو تو میں میں‘ پرختم نہیں ہوا۔ دھکا مکی سے ہوتے ہوئے بات مار پیٹ تک پہنچ گئی۔ وہاں  وضو کیلئے قطار میں کچھ اور بھی  لوگ تھے، جن میں سے کچھ اِن کے اور کچھ اُن کے آدمی تھے، اس کی وجہ سے جھگڑ ا مزید شدت اختیار کرگیا اور تھوڑی ہی دیر میں ۲؍ افراد کا جھگڑا ،۲؍ گروپ کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ چونکہ سبھی روزے دار تھے، اسلئے غصے کی شدت بھی زیادہ تھی۔نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نماز کیلئے جماعت کھڑی ہونے سے قبل، وہاں سے۲؍ افراد کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
    یہ ایک سنگین واقعہ ہے لیکن اس سے تھوڑی کم شدت کے واقعات روزانہ ہماری اور آپ کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں’ روزہ داروں‘ کا غصہ سامنے آتا ہے۔  روزہ ’لگنے‘کی بات بچپن سے سنتے آرہے ہیں، بالخصوص اُس وقت جب کوئی ’روزے دار‘ غصے میں نظر آتا ہے ۔ اول تو ایسا ہے نہیں لیکن اگر ایسا ہے بھی یعنی بھوک پیاس کی شدت سےکسی کو غصہ آتا ہے تو یہ اس کی اپنی کمزوری  ہے۔ اس حالت میں اسے چاہئے کہ وہ اپنی کمزوری کو چھپائے ، نہ کہ اس کا اظہار کرتا پھرے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم قدم قدم پرلوگوں سے جھگڑا کرتے چلتے ہیں۔ اتوار کی صبح دیکھا تو۲؍ نوجوان ایک بائک سے جارہے تھے۔ دونوں ٹوپی لگائے تھے، جس سے پتہ چلا کہ مسلمان ہیں۔ ان کے آگے ایک  ٹرک تھا۔ راستہ خراب تھا اور راستے کے دونوں طرف آڑی ترچھی بہت ساری گاڑیاں پارک تھیں، جس کی وجہ سے ٹرک آگے نہیں بڑھ پار تھا۔ پیچھے بائک  پر بیٹھے دونوں نوجوان پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ٹرک کے پیچھے بہت ساری موٹر سائیکلیں تھیں لیکن  اُن ٹوپی والے جوانوں کو زیادہ غصہ آرہا تھا۔ان کی بیتابی دیکھ کر لوگ محظوظ بھی ہورہے تھے بلکہ کچھ کہہ بھی رہے تھے کہ ان کو روزہ لگ رہا ہے۔ کچھ دیرتک وہ زور زور سے ہارن بجاتا رہا اور پھر جھٹکے سے گاڑی کھڑی کرکے بائک چلانےوالا نوجوان آگے بڑھا اور ٹرک ڈارئیور کو گالیاں دینے لگا کہ وہ اتنے تنگ راستے میں اتنی بڑی گاڑی لے کر کیوں آگیا؟  نوجوان کی عمر ۲۰؍ سے  ۲۵؍ کے درمیان  رہی ہوگی لیکن گالیاں دینے کی مہارت دیکھ کر  یہ محسوس ہوا کہ کسی  تربیت یافتہ خاندان سےتعلق رکھتا ہے۔بعد میں کچھ  افراد نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے اس معاملے کورفع دفع کرادیا۔
    حالانکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمیںاتنا غصہ کیوں آتا ہے؟ روزہ رکھ کر ہم کسی پر احسان تو نہیں کر رہے ہیں۔اس کی وجہ سے برادران وطن میں بھی ہماری شبیہ بری طرح خراب ہوتی ہے۔روزے کا مقصد بھوکا پیاسا رہنا تو نہیں ہے بلکہ تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ روزے سے ہم میں تقویٰ آرہا ہے یا نہیں؟
  

Tuesday, 14 July 2015

شرم بھی نہیں آتی!

گزشتہ دنوں پونے سے ایک دوست نے صبح ہی صبح فون کیا اور اخبار میں شائع ہونےوالی ایک تصویر کی نشاندہی کرتے ہوئے سوال کیا کہ بھائی ان لوگوں کوشرم بھی آتی ہے کہ نہیں، اس طرح کی تصویریں چھپواتے ہوئے۔ تب تک ہم نے اخبار دیکھا نہیں تھا۔ ان کے لہجے میں غصہ تھا لیکن اس غصے میں بہت درد تھا کہ ہم کس پستی میں جارہے ہیں؟ ان کا فون آیا تو میں پوری طرح سے نیند میں تھا۔ صبح ۶؍ بجے سونےوالے کیلئے  دن کے ۱۱؍بجے کا وقت بھی بہرحال رات جیسا ہی رہتا ہے لیکن  ان سے ہونےوالی ایک دو منٹ کی گفتگو  کے بعد ہی نیند نے اپنا  بوریابستر لپیٹ لیا اور نودو گیارہ ہوگئی۔  ان سے بات چیت کرتے ہوئے ہم نے اخبار کا وہ صفحہ کھولا اور وہ تصویر دیکھی تو ہمیں بھی غصہ آیا۔  یہ تصویر غریبوں میں راشن کٹ کے تقسیم کے موقع کی تھی، جس میں تین چار مولانا قسم  کے لوگ ایک شخص کو راشن  کا پیکٹ دیتے ہوئے مسکرا کر پوز دے رہے تھے۔
    یہ تصویر تو محض ایک مثال ہے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب  ہمارا ہر کام نمائشی ہوکر رہ گیا ہے، حتیٰ کہ ہم میں سے بیشتر عبادت کو بھی نمائشی انداز میں ادا کرتے ہیں۔ نمازیوںسے مسجد تو بھر ی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو نماز کی طرح نماز ادا کرتے ہیں۔   خشوع خضوع کی بات جانے دیں، ارکان کی ادائیگی بھی ٹھیک سے نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں دینے لینے کی بات میں بھلا کیو ں کر نمائش نہیں ہوگی۔کتابوںاور بیاضوںکی تقسیم سے لے کر زکوٰۃ  و صدقات کی تقسیم تک میں پوری شوبازی کی جاتی ہے۔    ایسا لگتا ہے کہ انہیں ثواب سے زیادہ تشہیر کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کو رمضان تک موقوف رکھنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح سالانہ حساب کتاب ہوجاتا ہے لیکن رمضان میں بھی ۲۷؍ ویں شب میں تقسیم کرنے کا کیا مطلب؟ کیا یہ نمائش نہیں ہے کہ ان کے یہاں باقاعدہ قطار لگے اور پھر دیکھنے والے دیکھیں کہ فلاں سیٹھ کے یہاں زکوٰۃ کیلئے اتنی طویل قطار لگی تھی۔ اکثر زکوٰۃ و صدقات کیلئے آنے والوں کو ٹرخاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ۲۰؍ رمضان کے  بعد آنا۔ ۲۰؍ کے بعد ۲۵؍  اور پھر ۲۷؍ رمضان یا اس کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ انہیں دینا نہ پڑے، بلکہ اس کا مقصد صرف اپنے گھر اور دفتر کی بار بار زیارت کرانا ہوتا ہے اور دوسروں کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ ان کے یہاں کتنے سارے لوگ چندہ لینے آتے ہیں۔ کچھ تو چندہ جمع کرکے تقسیم کرتے ہیں اور وہ بھی بھرپور تشہیر کے ساتھ۔
    اس قسم کے افراد کودیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کیا ان کا تعلق اسی قوم سے ہے جسے  ہدایت دی گئی ہے کہ دائیں ہاتھ سے کسی کو کچھ  دو تو بائیں کو بھی خبر نہ ہو نے پائے۔ حالانکہ اسی سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس اصول پر پوری طرح سے عمل پیرا ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کاش! ہم سب اس پر عمل کرسکیں ۔
بی این این کالج اور اُردو

گزشتہ کئی برسوں سے ایک منظم سازش کے تحت بھیونڈی کے قدیم  تعلیمی ادارے بی این این کالج سے اردو کو باہر کاراستہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس  پر جتنا افسوس کیا جائے، اس سے کہیں زیادہ افسوس کی بات ہمارے سیاست دانوں کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ انتخابی دنوں میں  خود کو ملت کے قائد کے طور پر پیش کرنے والے تمام امیدوار اوران کی دلالی کرنےوالے ٹھیکیدار، سب کے سب خاموش ہیں۔  ہمارے اردو کےاساتذہ، ادیبوں اور شاعروں کی طرح ہمارے سیاستدانوں کے بچے بھی چونکہ اردو کم ہی  پڑھتے ہیں، اس لئے وہ اردو کی پروا کیوں کریں؟اردو تو اُن کے بچے پڑھتے ہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ وہ تو یوں بھی ووٹ انہیں ہی دیںگے، پھر بلاوجہ کیوں اپنی  توانائی ضائع کی جائے۔ یہ لوگ  جلسے، جلوس اور ریلیاں اُس وقت نکالتے ہیں جب انتخابی دن قریب آ تے ہیں  یا ان کے سیاسی آقاؤں کی شان میں کہیں کوئی گستاخی ہوجاتی ہے۔ راہل گاندھی، شرد پوار، ملائم سنگھ، اویسی برادران یا  دیگر سیاسی لیڈروں کو ملک کے کسی کونے میںکوئی کچھ کہہ دے تو اپنی وفاداری جتانے کیلئے یہ تمام نام نہاد لیڈر ہزار پانچ سو بھاڑے کے ٹٹو لے کر مظاہرہ کرنے نکل جائیںگے لیکن بات جب اُردو کی آتی ہے تو یہ فوٹو کھنچوانے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتے۔  
       بی این این کالج بھیونڈی کا قدیم ترین سینئر کالج ہے۔ یہاں پہلے اردو سے ایم اے بھی ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی برسوں سے وہ فیکلٹی ختم کردی گئی ہے۔ گریجویشن کی سطح پر بھی اردو کےتعلق سے سرد مہری پائی جاتی ہے لیکن کسی نہ کسی طرح اُردو میں اتنے طلبہ آجاتے ہیں کہ یوجی کا سلسلہ جاری ہے لیکن  اب جونیئر کالج کی سطح سے ہی اردو کی جڑ کاٹنے کی سازش رچی جارہی ہے۔یہ سلسلہ کئی برسوںسے جاری ہے۔  گیارہویں میں داخلے کے وقت طلبہ کو  بطور اختیاری مضمون اردو لینے سے روکا جارہا ہے، اس طرح کی شکایتیں گزشتہ کئی برسوںسے آرہی ہیں لیکن   اردو والوں کے ووٹوں کی بدولت اپنی سیاسی دکان چمکانے والے لیڈروں کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی ہے۔پہلے تو یہ والدین کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کرتے ہیں کہ اختیار ی مضمون کے طور پر ہندی یا مراٹھی   لینے سے ان کے کریئر کو چار چاند لگ جائے گا اور  بات نہیں بنتی تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اردو یہاں نہیں ہے۔یہاں ہرسال اخبارات میں خبریںشائع ہونے کے بعدتھوڑی سی سیاسی مداخلت ہوتی ہے اور اس کے بعدہی اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر شامل کرنے کی ایک طرح سے اجازت ملتی ہے۔ اس مرتبہ تو کالج انتظامیہ نے فارم میں اردو کا متبادل بھی ختم کردیا ہے جس کے تعلق سے ان کی وضاحت آئی ہے کہ ایسا ’غلطی‘ سے ہوا ہے۔
    کیا  ہمارے سیاست داں اب بھی نہیں جاگیں گے اور اس کا کوئی مستقل حل تلاش کریںگے؟
  پہلی بارش میں سرکار کی قلعی اُتر گئی

 ایسااکثر ہوتا ہے کہ مسلسل بارش کی وجہ سے کچھ دیر کیلئے ممبئی تھم سی جاتی ہے اور ایسا بھی اکثر  ہوتا ہے کہ ان حالات میں انتظامیہ اتنا فعال نہیں ہوتا جتنا کہ اسے ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ویسے ممبئی کے عوام نہایت سخت جان ہیں، وہ اس کی پروا نہیں کرتے ، بارش کا زور ذرا سا ٹوٹتا ہے کہ وہ پھر رواں دواں ہوجاتے ہیں۔
    جمعرات اور جمعہ کوبھی ایسا ہی ہوا۔۲۴؍ گھنٹوں کی تیز بارش کی وجہ سے ممبئی کی گٹریں اُبل گئیں۔ پانی کی مناسب نکاسی نہ ہونے کے سبب ریل کی پٹریاں  ندیوں کی شکل اختیار کرگئیںاور پھر وہی ہوا، جو ہرسال ہوتا ہے یعنی ریلوے کی جانب سے یہ اعلان ہواکہ ’’آئندہ اعلان تک کیلئے آنے جانے والی تمام ٹرینیں منسوخ کی جاتی ہیں‘‘۔ اس اعلان کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ جیسے محکمہ ریلوے اسی انتظار میں تھا کہ  پٹریوں پرتھوڑا پانی آئے اور وہ ٹرینوں کی منسوخی کا اعلان کردے۔ ریلوے کی پٹریاں پانی میں کیوں ڈوبتی ہیںاور ان کا حل کیا ہے؟  یہ بھی ایک موضوع ہے لیکن اس وقت صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ٹرین سروسیز کوبے مدت وقت تک کیلئے منسوخ کیا جانا ناگزیر ہوتا ہے؟  محکمہ ریلوے کے مطابق تھانے سے سی ایس ٹی کے درمیان ۷؍ سے ۸؍ اسٹیشنوں کے درمیان  ریل کی پٹریاں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اگر ریلوے کو مسافروں کی پریشانیوں کا علم ہوتا اور وہ اسے دور کرنا ہی چاہتا تو جن دو  چار اسٹیشنوں کے درمیان ریل پٹریوں پر زیادہ پانی نہیں تھا، وہاں ٹرینیں چلائی جاسکتی تھیں۔ لیکن نہیں، ریلوے انتظامیہ تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا کہ بارش تھم جائے، ریل کی پٹریوں پر جمع پانی از خودباہر نکل جائے اور  پورا راستہ صاف ہوجائے ، اس کے بعد ہی ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ مختلف اسٹیشنوں پر مسافر گھنٹوں ٹرین کا انتظار کرتے رہے لیکن کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل پارہا تھا۔ وقفے وقفے سے صرف یہی اعلان ہوتا رہا کہ ریل پٹریوں پر زیادہ پانی جمع ہوجانےکی وجہ سے آئندہ اعلان تک ٹرینیں نہیں چلائی جائیںگی۔ آئندہ اعلان کب ہوگا، کچھ پتہ نہیں تھا۔ 
     اس طرح کے ہنگامی حالات میں حکومت پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن وہ کسی بھی طرح سے ذمہ دار نظر نہیں آئی۔ حکومت چاہتی تو بعض اسٹیشنوں کے درمیان ٹرینیں چلواسکتی تھی اور جہاں ٹرین چلانے کی گنجائش نہیں تھی،وہاں بی ای ایس ٹی کی بسیں چلوا سکتی تھی۔ تسلیم کہ بی ای ایس ٹی اور ریلویز خود مختار ادارے ہیں لیکن ہیں تو سب سرکار ہی کے کنٹرول میں۔  ہنگامی حالات میں کچھ تو باہمی ربط ہونا چاہئے تھا۔
     اہم بات یہ کہ ان حالات کیلئے بی جے پی کسی  اورکو ذمہ دار نہیں ٹھہرا  سکتی کیونکہ کارپوریشن ، ریاست اور مرکز،  تینوں جگہ اسی کی سرکار ہے۔  اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک ہی بارش میں بی جے پی کی حکمرانی کی قلعی  پوری طرح سے اتر گئی۔

Wednesday, 17 June 2015

Bihar men Janta parivar k ittehaad se bhagwa taqton ki neend haraam

بہار میںجنتا پریوار کے اتحاد سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام

نتیش کمار کی مسلسل کوششوں  اور لالو پرساد کی دور اندیشی نے بہار میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔  بی جے پی کو لگتا تھا کہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کی لڑائی میں وہ بہ آسانی پٹنہ پر قابض ہوجائے گی لیکن اب بہار اسمبلی پر بھگوالہرانے کا خواب تو دور کی بات ، موجودہ نشستوں کو بچاپا نا بھی اس کیلئے محال ثابت ہوگا۔    اسے خوف اس بات کا ہے کہ اس کے نتائج صرف بہار تک ہی محدود نہیںرہیںگے بلکہ اس کے  اثرات ملک گیر ہوںگے

قطب الدین شاہد
 
لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی  سے اس کے لیڈروں کے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے تھے۔ حالانکہ  یہ بات بی جے پی اور اس کے حامی بھی  بہت اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی  کارکردگی اور شبیہ کی وجہ سے یہاں تک نہیں پہنچی ہے اور نہ ہی یہ اس کے سیاسی فلسفے کی کامیابی ہے۔اس کامیابی کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ کانگریس کا مسلسل ۱۰؍ سالہ اقتدار تھا، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر اسے کافی ناراضگی کا سامنا  تھا۔عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ علاوہ ازیں کانگریس کی بہت ساری کمزوریاں اورخامیاں بھی تھیں ،جس نے عوام کو اس سے دور کردیا تھا۔  ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کا ایک بڑا طبقہ اس مرتبہ مودی کا حامی تھا۔ اس نے مودی کی تشہیر پردل کھول کر خرچ کیا۔  یہ اسی تشہیر کا نتیجہ تھا کہ بی جے پی بالخصوص مودی کو عوام کے ایک بڑے طبقے نے نجات دہندہ تسلیم کرلیا تھا۔ اپوزیشن بری طرح منتشر تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو کافی فائدہ ہوا۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر بی جے پی کے تئیں ایک سیاسی ہمدردی بھی تھی کہ ایک باراسے بھی موقع دیا جانا چاہئے اورکچھ حد تک ہندوتوا وادی طاقتوں کا اتحاد تھا کہ اگر اس مرتبہ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکے تو پھر آئندہ بہت مشکل ہوگی۔ اس کے باوجود  بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں صرف ۳۱ء۳۴؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔
     اس طرح کئی وجوہات نے بی جے پی کو اقتدار کی منزل تک پہنچا دیا تھا لیکن اب وہ حالات باقی نہیں رہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بڑی تیزی   کے ساتھ تبدیل ہوچکی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بھلے ہی اچھی رہی ہو لیکن  یوپی اوربہار کے ضمنی انتخابات میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور دہلی کے اسمبلی الیکشن میں تو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لوک سبھا انتخابات کے فوراً  بعدہونے والے بہار کے ضمنی الیکشن میںبی جے پی کو ۱۰؍ میں سے صرف ۴؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ اِس  میں اُس کی ۶؍ سیٹیں تھیں اور ان میں سے ۵؍ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔   یوپی میں تو اور بری دُرگت ہوئی ۔ یہاں ۱۱؍ میں سے بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا  جبکہ یہ تمام کی تمام سیٹیںاسی کی تھیں اوراستعفیٰ دینے والے تمام اراکین اسمبلی لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج بی جے پی کو اس کی اوقات بتانے کیلئے کافی تھا جس میں  اسے ۷۰؍ میں سے صرف ۳؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ ایک سال قبل اسے ۳۲؍ سیٹیں ملی تھیں اور لوک سبھا الیکشن میں پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر اسی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے۔
    مطلب بالکل صاف ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے حق میں اب  وہ لہر نہیں ر ہی جو کچھ دن قبل اپوزیشن کو بہا لے گئی تھی۔ اب تو  اس کے حامی بھی  بی جے پی کی سحر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ایک ہی سال میں بی جے پی کا طلسم بری طرح ٹوٹ گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ داؤد ابراہیم، پاکستان، گنگا کی صفائی، رام مندر، دفعہ ۳۷۰؍ یکساں سول کوڈ اور ۵۶؍ انچ کے سینے کی بات آتی ہے تو اس کے سخت گیر حامی بھی نظریں جھکا لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کالا دھن کی واپسی اور ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کے ملنے کی لالچ میں  بی جے پی کےقریب گئے تھے اور وہ جو اچھے دن کا انتظار کرتے کرتے اب بری طرح تھک چکے ہیں ، وہ بھی مودی حکومت کو کوس رہے ہیں۔  بی جے پی اراکین پارلیمان کے شاہی خرچ اور مودی کے مسلسل بیرون ملک دوروں سے بھی ایک بڑا طبقہ نالاں ہوچکا ہے۔  ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ اراکین پارلیمان نے محض ایک سال میں اپنے اوپر اتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ یوپی اےسرکار کے ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان، من کی بات  اور یوگا دِوس کے نام پر ہونے والی غیرضروری تشہیر کو بھی لوگ سمجھنے لگے ہیںکہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ’گجرات ماڈل‘ کی وجہ سے بی جے پی اور مودی  کے قریب جانے والے بھی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی ،گری راج سنگھ اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈروں کے سطحی اور فرقہ پرستانہ بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔
     آئیے دیکھتے ہیں کہ بہار کی سطح پر سیاسی صورتحال کیا ہے؟ اور اعداد و شمارکیا کہتے ہیں؟  ۲۰۱۴ء کےلوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ۲۹ء۸۶؍ فیصدہی ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹیں کافی زیادہ ہوگئی تھیں۔ اسے نصف سے زائد یعنی ۴۰؍ میں سے ۲۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں۔ بی جے پی کی اتحادی  جماعت  رام ولاس پاسوان کی  ایل جے پی کو ۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۶؍ سیٹیں ملی تھیں ۔اس الیکشن میں آر جے ڈی  اور جے ڈی یو کو بالترتیب ۴؍ اور ۲؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں لیکن ان کے ووٹوں کا تناسب بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۱۶ء۰۴؍ فیصد تھا جبکہ ۸ء۵۶؍ فیصد ووٹوںکے ساتھ کانگریس کو ۲؍  اور این سی پی کو ایک سیٹ ملی تھی۔ اس کے ووٹوں کا تناب ۱ء۲۲؍ فیصد تھا۔
      یہ اُس وقت کی بات تھی جب میڈیا کی مدد سے پورے ملک میں مودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔  اس سحر سے بہار بھی آزاد نہیں تھا   ۔ بی جے پی کیلئے ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ اپوزیشن بری طرح بکھرا ہوا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مانجھی اور پپو یادو جیسے لوگ وابستہ ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے بی جے پی کو کچھ  زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس وقت مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کے گراف میں کافی کمی آئی ہے ۔  بی جے پی کیلئے بہار، یوں بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کے نام پرسبھی متفق ہوسکیں یا اس میں عوام کو اپنی جانب کھینچنےکی صلاحیت ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ ریاستی الیکشن ہے جس کے موضوعات لوک سبھا کے مقابلے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر لوک سبھا میں ملنے والے ووٹوں کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو  بی جے پی اور ایل جے پی کو ۳۶ء۳۶؍ فیصد ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس، این سی پی اور سی پی ایم کے کھاتے میں ۴۷ء۳۵؍ فیصد ووٹ آسکتے ہیں۔اس واضح فرق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کیا نتائج ہوںگے ؟ ہم جانتے ہیں کہ ایک دو فیصد ووٹوں کے بھی اِدھر اُدھر ہوجانے سے سیٹوں میں کافی فرق آجاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال بہار کی موجودہ اسمبلی کا انتخابی نتیجہ ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں  جے ڈی یو کو ۲۲ء۵۸؍ فیصد ووٹوں کی بدولت ۱۱۵؍ سیٹیں مل گئی تھیں جبکہ آر جے ڈی کو تھوڑا ہی کم یعنی ۱۸ء۸۴ء فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹوں کی تعداد محض ۲۲؍ تھی۔
    اس بار لالو اور نتیش کا پلڑا بھاری  رہنے کا امکان اس لئے بھی ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران نامواقف حالات میں بھی لالو کی پارٹی کے امیدوار تقریباً ۱۴۵؍ اسمبلی نشستوں پر اول اور دوم پوزیشن پر تھے جبکہ اس مقام پر نتیش کی پارٹی کے ۴۳؍ امیدوار تھے۔  اب جبکہ حالات پوری طرح سے مواقف ہیں،۱۹۰؍سیٹیں تو مل ہی سکتی ہیں۔ ایک جانب جہاں بی جے پی  بڑی تیزی سے  زوال پزیر ہے وہیں اتحاد کی وجہ سے جنتاپریوار کے اراکین کے ساتھ ہی سیکولر رائے دہندگان بھی پُرجوش ہیں۔اس اتحاد کیلئے یقیناً ملائم سنگھ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہار میں حالانکہ ان کی سماجوادی پارٹی کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ،بالکل اسی طرح، جس طرح آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا یوپی میں کچھ نہیں ہے ، اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس اتحاد  سے دونوں ریاستوں میں سیکولر ووٹروں کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔
    اس اتحاد کیلئے لالو پرساد نے یقیناًقربانی دی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب کانگریس کے ساتھ نتیش کمار اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ لالو کے اس مدبرانہ اور دوراندیشانہ فیصلے نے ان کے سیاسی قد کو مزید بلند کردیا ہے۔ ویسے بھی بہار کی سطح پر نتیش کے مقابلے لالو عوام میں زیادہ مقبول رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ووٹ بھی زیادہ ملتے رہے ہیں۔ صرف ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن کو چھوڑ دیا جائے تو آج تک جتنے بھی انتخابی نتائج ظاہر ہوئے ہیں،اس میں لالو کا ہی پلڑا بھاری رہا ہے۔ فروری ۲۰۰۵ء میں جے ڈی یو کو ۱۴ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ آر جے ڈی کو ملنےوالوں ووٹوں کاتناسب ۲۵ء۰۷؍ فیصدتھا۔ کوئی سرکار نہیں بن سکی تو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں پھر انتخابات ہوئے جس میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۲۳ء۴۵؍ فیصد ووٹ ملے۔ اس سے قبل یعنی ۲۰۰۰ء کے انتخابی نتائج میں نتیش کمار کی پارٹی کو صرف ۶ء۴۷؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ لالو کی پارٹی کو ۲۸ء۳۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو نتیش کی قیادت کو قبول کرکے لالو نے تاریخی قدم اٹھایا ہے، اس قربانی کا صلہ انہیں یقیناً ملے گا۔
Bhai Ramzaan baad
 بھائی رمضان بعد
ابھی رمضان شروع بھی نہیں ہوا کہ ہم نے کام بند کردیا اور کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ جس کسی سے کچھ کام کیلئے کہو تو جواب ملتا ہے کہ’بھائی رمضان بعد‘۔اسی طرح دکانوں پر دیکھو تو رمضان کی مناسبت سے خریداری بھی زوروں پر ہے۔ ہماری ان حرکتوں سے دیگر اقوام کے سامنے ہماری شبیہ بہت بری طرح خراب ہورہی ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں مسلمان کام کم کرتے ہیں لیکن کھاتے پیتے زیادہ ہیں۔
     اگر ایسا لوگ سوچتے ہیں تو شاید وہ غلط بھی نہیں کرتےحالانکہ یہ دونوں باتیں رمضان کی روح کے منافی ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کام نہ کرنا یا کام کم کرنے کا کوئی جوازہی نہیں بنتا۔    افسوس کی بات یہ ہے کہ کام کم کرنے کا جواز وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جو آرام دہ کاموں سے وابستہ ہیں۔  وہ لوگ جو بیچارے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں یعنی روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں، وہ اس طرح کی بہانے بازیاں نہیں کرتے۔
      دوران سفراکثر ایک انجینئرسے ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک دن  کہنے لگے کہ میں نے  ایک ماہ قبل ہی رمضان کی مناسبت سے ۱۰؍ رمضان سے عید کے ۵؍ دن بعد تک   ۲۵؍ دنوں کی چھٹی کیلئے اپلائی کردیا  ہے۔  میں نے کہا کہ چھٹی مل جائےگی؟ تو کہنے لگے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں مسلمان ذرا کم ہیں، اسلئے آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں  نے بتایا کہ یہ اُن کا ہر سال کا معمول  ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال سے وہ کمپنی سے وابستہ  ہیں اور ہر سال رمضان میں اسی طرح چھٹیاں لیتے  ہیں۔   انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان میں آغاز کے ۱۰؍ دنوں تک جب وہ آفس جاتے ہیں تو وہ کتنی بھی دیر سے  دفتر جائیں ،ان سے باز پرس نہیں ہوتی اوررات میں بھی جلدی چھٹی  مل جاتی ہے۔   میں نے کہا ، کیا یہ مناسب ہے؟ روزے آپ اپنے لئے رکھتے ہیں یا اپنی کمپنی کیلئے؟   اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، اس پرافسوس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب فائدہ مل رہا ہے، تو اٹھانے میں کیا حرج ہے؟‘‘یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ کم یا زیادہ ،اس طرح کا فائدہ بہت سارے لوگ اٹھارہے ہیں اور افسوس کہ اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتے۔  
    بلاشبہ رمضان  کے روزے عبادت  ہیںلیکن اس عبادت کا ایک مقصد بھی ہے۔ وہ یہ کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم اپنے اُن بھائیوں کا خیال رکھیں جو کسی وجہ سے بھوکے اور پیاسے رہنے پر مجبور ہیں اور پھران کی مدد کریں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی افادیت ہے کہ روزہ رکھنے سے پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے لیکن ہم جس طرح کھاتےپیتے ہیں، اس سے جہاں بھوکے پیاسے رہنے کی تکلیف کااحساس نہیں ہوتا، وہیں بیماریوں  سے نجات ملنے کے بجائے نئی بیماریوں کو دعوت بھی دے بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم اس  نکتے پر غور کریںگے؟