Monday, 29 July 2013

Modi and American Visa

کیا امریکہ کا ویزا ملنے سے مودی کو کلین چِٹ مِل جائے گی؟

  قطب الدین شاہد

مودی کو امریکہ اپنے یہاں آنے دے گا کہ نہیں؟ کچھ دنوں سے اس سوال کو قومی موضوع کے طو ر پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی ۱۲۵؍ کروڑ کی آبادی کیلئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل یہ ایک سازش ہے، ایک گیم پلان ہے اور اس کا مقصد مودی کی تشہیر ہے۔ مودی کے امریکہ جانے اور نہ جانے کو ان کے ’قبول عام‘ ہونے اور نہ ہونے کا  پیمانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی سازش کرنے والوں کو میڈیا کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش میں امریکہ بھی پوری طرح سے شریک ہے۔
     خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس ’مسئلے‘ کو مزید ابھارا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے ’محافظ‘ امریکہ کو مودی قابل قبول نہیں ہے.... بحث مباحثہ جاری رہے گا اور پھرلوک سبھا انتخابات سے قبل اچانک مودی کا ویزا جاری کردیا جائے گا اور پھرعوام پر یہ جتانے کی کوشش کی جائے گی کہ مودی کے سارے گناہ دُھل گئے۔
    مودی حامیوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے اگر گجرات کے وزیراعلیٰ کو شرف مہمانی بخش دیا تو  ان  کے دامن پر لگے داغ صاف ہوجائیںگے، وہ سبھی کیلئے قابل قبول ہوجائیںگے اور اس طرح ان کا وزیراعظم بننے کا راستہ مزید آسان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نادان دوست بھی اس سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ مودی کو ویزا دینے کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔  انہیں لگتا ہے کہ مودی کا امریکہ جانا ہندوستان کے سیکولرازم کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہاں ذہن میں چند سوالات ابھر رہے ہیں؟
n کیا امریکہ جانے سے مودی کے دامن پر لگے تمام دھبے صاف ہوجائیں گے؟
nکیا ۲۰۰۲ء کے فساد ات کے دوران ان کے کردار کو لوگ بھول جائیں گے؟ 
nکیا ان کے  تعصب اور ان کی تنگ نظری پر پردہ پڑ جائے گا؟
nکیا امریکہ کو انصاف کا علمبردار اور حقوق انسانی کا محافظ سمجھا جا سکتا  ہے کہ محض اس کی میزبانی سے کسی کی شبیہ تبدیل ہوجائے؟
nکیا امریکہ جانے سے مودی سیکولر ہوجائیںگے  اورانہیں کلین چٹ مل جائے گی؟
    ہمیں نہیں لگتا کہ کہیں سے بھی اس کا جواب ’ہاں‘ میں آئے گا؟ ان حالات میں سیکولر طاقتوں کو فکر مند یا خوفزدہ ہونے اور اس  معاملے کو مسئلہ سمجھنے کی  بھلا کیا ضرورت  ہے؟
    مودی کے حامی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر رائے دہندگان کی حمایت کے بغیر مودی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکولر عوام ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔  گجرات فساد میں مودی کا کردار سب پر عیاں ہے۔ کسی عدالت سے ثابت ہونے کے بعد ہی انہیں مجرم سمجھاجائے گا، ایسا نہیں ہے؟   یہی وجہ ہے کہ اب وہ چور دروازہ استعمال کررہے ہیں۔ ہندوستانی عوام  یا ہندوستانی عدالت سے کلین چٹ ملنا آسان نہیں ہے، لہٰذا امریکہ کی مدد لی جارہی ہے۔  امریکہ اور یورپی یونین کو بھی  ہندوستان میںایسا ہی وزیراعظم چاہئے جو کارپوریٹ دنیا کا محافظ بن کر رہے۔ بلا شبہ منموہن سنگھ ان کے اعتماد پر پورے اُتر رہے ہیں لیکن  ان طاقتوں کو اس بات  پر شبہ ہے کہ اس مرتبہ یوپی اے کی کمان  منموہن سنگھ کے ہاتھوں میں رہے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں کام کرتے ہوئے مودی کو دنیا نے دیکھا ہے، اسلئے ان  کیلئے  پورے زور وشور کے ساتھ لابنگ چل رہی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سازش میں بھی  سیکولر  عوام   اورمسلمانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    مودی امریکہ جائیں یا نہ جائیں یا وہ کہیں بھی جائیں، اس سے   سیکولر عوام مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ..... لیکن تاثر یہی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی کے امریکہ نہ جاپانے سے مسلمان بہت خوش ہیں۔ رکن پارلیمان محمد ادیب اوران کے ۶۵؍ ساتھیوں کا اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کرنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جانے انجانے میں وہ بھی اس سازش کا شکار ہو گئے ہیں اور اس تشہیری مہم  میں وہ مودی کا ساتھ دے رہے ہیں ورنہ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ مودی کہاں جاتے ہیں اور کہاں نہیں؟ امریکہ اوراسرائیل کے تعلق سے مسلمان یوں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہر اس عمل کی حمایت کرتے ہیں ، جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے  اور تکلیف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب گجرات فساد کے الزام کے تحت مودی کو ویزا نہ دینے کی بات منظر عام پر آئی تو فوری طور پر یقین نہیں آیا لیکن جب اس پر غور کیا گیا توشبہ ہواکہ یہ ایک گیم پلان کا حصہ ہو سکتا ہے۔  مطلب یہ کہ الیکشن سے قبل کسی بہانے مودی کو امریکہ بلایا جائے گا اور پھر ہندوستانی میڈیا کو یہ شور برپا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ اب امریکہ یعنی پوری دنیا کیلئے مودی قابل قبول ہوگئے ہیں، پھر ہندوستانی عوام کب تک انہیں مجرم سمجھتے رہیںگے؟
     اس سازش میں شریک لوگوں کاخیال ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ مودی کو معاف کردے گا  .....لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا؟ ہمیں نہیں لگتا۔ ہندوستان کی اکثریت آج بھی سیکولر ہے جو کسی بھی صورت میں مودی کو اقتدار تک پہنچنے نہیں دے گی۔ بی جے پی اور اس کی آئیڈیالوجی کو پسند کرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اسے مرکزی اقتدار سونپ سکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کے بعدبھی بی جے پی اپنے بل بوتے پر اقتدار تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ فرقہ پرستی کے چولے کو اتارنے کے بعد ہی اسے مرکز میں اقتدار کا موقع مل سکا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے فساد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو بے دخل کردیا گیا  ۔ وہ دن اور آج کا دن ، بی جے پی ، وہاں پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے لیکن بات کچھ بن نہیں پارہی ہے۔ اس کیلئے اب اس نےنئی  سازش کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔
    بہرحال سیکولر رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا  بھی یہی خیال ہے کہ امریکہ کا ویزا مل جانے سے مودی کو کلین چٹ نہیں مل جائے گی لہٰذا اس موضوع پر مسلمانوں کے حوالے سے کسی کو   دُبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

Saturday, 13 July 2013

Muslim numaindon ki be hisi par musalmano ko sharmindagi

مسلم نمائندوں کی بے حسی پر
عام مسلمانوں کو افسردگی و شرمندگی کا سامنا

قطب الدین شاہد

گزشتہ ۲؍ہفتوں میں ۲؍ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو افسردگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں واقعات تو محض ایک علامت ہیں، ورنہ اس طرح کے واقعات سے عام مسلمانوں کا سابقہ روز پڑتا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر وہ اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔
     پہلا واقعہ انٹیلی جنس بیورو کے چیف آصف ابراہیم صاحب کی اس جدوجہد کا ہے، جس میں وہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں ماخوذ اپنے ایک افسر راجندر کمار کو بچانے کیلئے سی بی آئی کے اعلیٰ افسروں سے لڑرہے تھے۔ اگر ان کا افسرِ مذکور بے قصور ہوتا اوراس کے متعلق ان کے پاس کچھ دلائل ہوتے تو ان کے اس قدم پرکسی کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ ان کے جرأت کی داد دی جاتی کہ وہ ایک مظلوم کا دفاع کر رہے ہیں مگر وہ صرف اور صرف اس لئے انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اس کی وجہ سے آئی بی کی حوصلہ شکنی ہو رہی تھی۔
    کہاجاتا ہے کہ راجندر کمار بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے میں بھی رازدار ہیں۔ آصف ابراہیم صاحب کے اس رویے سے ہندوستانی مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔ کہاں تو ان سے اُمید کی جارہی تھی کہ وہ حصولِ انصاف کی راہیں ہموار کریںگے اور کہاں مسلمانوںکو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پیشتر جب انہیں اس عہدے کے لائق سمجھا گیا تھا اور اس کااعلان ہوا تھا تو مسلمانوں نےخوشی کا اظہار کیاتھا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے.... اس حساس عہدے کی باگ ڈور پہلی مرتبہ کسی مسلم افسر کو سونپی گئی تھی۔ دراصل آئی بی  اور اے ٹی ایس جیسی تنظیموں سےمتعلق مسلمانوں میںکافی بدگمانیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ ان کی تقرری کے بعد عام مسلمانوں نے  یہ سمجھا تھا  اب ایسا کچھ نہیں ہوگا، جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا تھا...... یعنی دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں رُک جائیںگی اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو نے لگے گا۔ آصف ابراہیم صاحب  انٹیلی جنس بیورو کے چیف ہیں لیکن انہیں شاید یہ خبر نہ ہو کہ ان کی تقرری پر سادہ لوح مسلمانوں نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی تھیں۔
    وہ بہت خوش تھے، انہیں اپنا سمجھتے تھے لیکن ایسا سمجھتے ہوئے مسلمان ان سے کسی جانب داری کی توقع نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف انصاف چاہتے تھے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، جس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کی عدالتوں نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے۔
     ان حالات میں مسلمانوں نے ان سے اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیںگے اور یہ سلسلہ اب رُک جائے گا۔ ایسے میں انصاف دلانے کے بجائے جب انہیں مبینہ طور پر انصاف کی راہ میں حائل  ہوتے دیکھا گیا تو مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔
    دوسرا واقعہ نور محمد دوست محمد پٹھان(این ڈی پٹھان) کا ہے  جو اس وقت جیل  کی ہوا کھا رہے ہیں۔ یہ صاحب مہاراشٹر حکومت میں وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تھے۔ ان پر اوقاف کی ملکیت میں لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے  جبکہ ان پر ان زمینات کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کوشرمندہ کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی غیر مسلم افسر ماخوذ ہوتا اور اس کیلئے جیل جاتا تو  اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی این ڈی پٹھان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نمائندوںسے عام مسلمان بہت ساری اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام و خواص کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ اپنے اخلاص اور سادہ لوحی کی وجہ سے عام مسلمان یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ اس جگہ پہنچنے والے افسر ہوں یا وزیر  یا پھر کوئی عہدیدار.... ان میں سے بیشتر کو قوم و ملت کی نہیں، صرف اپنی پروا ہوتی ہے۔ وہ اپنا ’اسٹیٹس‘ بڑھانے اور دولت و شہرت جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں لہٰذااس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی آقاؤں کو خوش کریں۔ اُن کا انجام اِن لوگوں کے سامنے ہوتا ہے جو قوم و ملت کی بات کرنے پر ’ٹھکانے‘ لگادیئے جاتے ہیں۔
    ضروری نہیں کہ سبھی اس معیار پر پورے اُتریں، کچھ مسلم افسر، عہدیدار اور وزیر وں کو اس بات کااحساس رہتا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ علیٰحدہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے لہٰذا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
    انتخابات ہوں یا امتحانات... جب ان کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں تو عام مسلمان سب سے پہلے اس میں اپنے نمائندوں کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ تعداد اگر خاطر خواہ ہے تو اس پر جشن مناتا ہے، بصورت دیگر افسوس کرتا ہے۔ تعداد کی کمی کی وجوہات اگر سیاسی ہوئیں تو اس کیلئے احتجاج بھی کرتا ہے..... ’یوپی ایس سی‘ کے امتحان میں ہر سال ۳؍ساڑھے ۳؍فیصد مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
     اکثر دیکھاگیا ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونےوالوں کے اعزاز میں جلسےہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں اور ان پر فخر کااظہار کیا جاتا ہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پرکسی مسلم افسر کی تقرری ہوتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ شخص اسی گھر کا ایک فرد ہے۔ محمد اظہرالدین، ثانیہ مرزا، محمد کیف، ظہیر خان اور عرفان پٹھان....  ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے اور کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمان  مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
    اسی طرح لوک سبھااور اسمبلیوں کے انتخابات میں عام مسلمان جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا، وہ  صرف اور صرف مسلم ہونے کی وجہ سے کسی اُمیدوار کو ووٹ دیتا ہے اور اس کے جیتنے پر خوشی کااظہار کرتا ہے۔ مرکزاور اسمبلیوں میں جیتنے والے مسلم نمائندے بھلے ہی اس بات کو فراموش کردیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی کامیابی میں عام مسلمانوں کا حصہ ہے لیکن یہ بات   جگ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں ٹکٹ بھی اسی لئے ملتا ہے کہ وہ مسلمان  ہیں اور انہیں ووٹ ملنے کی بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔
    مسلمانوں کونمائندگی دینے کے نام پر عام مسلمان سیاسی جماعتوں سے جھگڑا مول لیتا ہے، مورچہ نکالتا ہے، احتجاج کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر لاٹھیاں اور بندوق کی گولیاں بھی کھاتا ہے لیکن اس کے بدلے اسے کیا ملتا ہے؟ ان کے مطالبے اور احتجاج پر جن صاحب کو مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملتا ہے، تھوڑے ہی دنوں میں وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس مقام تک پہنچنے میں عام مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے؟  وہ اسے اپنی ذاتی محنتوں کا ثمرہ سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ وہ اپنی محنت و صلاحیت سے  اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن ..... کیا ان کی اس کامیابی میں عام مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی عزت افزائی سے اگرعام مسلمان خوش ہوتے ہیں تو ان کی رسوائی سے عام مسلمان شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کسی مسلم طالب علم کے امتحانات میں نمایاں کامیابی پر، کسی مسلم افسر کی ترقی پر یا کسی سیاست داں کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اپنا سمجھنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ افسردگی اور شرمندگی کا سامنا اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ  انہیں  اپنا سمجھتے ہیں؟  دوسرا اور دِقت طلب حل یہ ہے کہ مسلمان کردار سازی پرتوجہ دیں۔ طلبہ پر محنت کریں اور  انہیں بچپن ہی سے اس بات کااحساس دلائیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ مسلمان جنہیں انسانیت کی فلاح کیلئے دُنیا میں امام بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر اس محاذ پر محنت کی گئی تو ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج ضرور برآمد ہوںگے۔n

Saturday, 15 June 2013

Advani hamdardi ke mustahiq nahi

اڈوانی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں
ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا
قطب الدین شاہد

نفرت کی سیاست کرنےوالے اور اس کے سہارے ’ترقی‘کی منزلیں طے کرنےوالے لال کرشن اڈوانی کیلئے یہ ہفتہ بہت ہی کربناک رہا ہوگا۔ بہت جلد وہ اپنے سیاسی انجام کو پہنچ گئے ..... ان کا جو انجام ہوا، یہ تو خیر ہونا ہی تھا  ، انصاف پسند عوام کواس کا انتظار بھی تھا لیکن یہ اتنی جلدی ہوگا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ملک اورعوام کوجو کچھ دیا ہے،  وہ  ایک ایک کرکےانہیںلوٹایا جا رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی  نے اس شعر میں اپنے بارے میں کہا تھا کہ:

 دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
 جو کچھ مجھے دیا ہے، لوٹا رہا ہوں میں

    اس کے مفہوم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اڈوانی اپنے بارے میں یہ کہہ کر تسلی کر سکتے ہیں کہ

دنیا کو فسادات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے میں نے، لوٹا رہی ہے وہ


    ملک کی تقسیم  کے وقت  ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات   سے لے کر بابری مسجد کی شہادت ،پھرگجرات میں مہینوں تک جاری رہنے والےفسادات میں لال کرشن اڈوانی  کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، کمیشن اورعدالتیں بھلے ہی انہیں مجرم ثابت نہ کریں یا نہ کرسکیں لیکن ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت   کے سامنے اڈوانی کا کردار پوری طرح واضح رہا ہے۔اڈوانی کے ساتھ ان کی پارٹی نے جو سلو ک کیا، وہ حق بجانب ہو یا نہ ہو...... لیکن  یہ بات اپنی جگہ پوری طرح درست ہے کہ وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔
     ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے وجود میں آنے والی آر ایس ایس سےایل کے اڈوانی کا تعلق زمانہ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی عمر سے۲؍ سال چھوٹے اڈوانی بہت جلد اپنی’ فعالیت اور سرگرمی‘ کے سبب اس تنظیم کے اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور  ۲۰؍ سال کی عمر میں انہیں کلیدی عہدہ  بھی تفویض کردیا گیا تھا۔  ۱۹۴۷ء کے اوائل میںیہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ، کراچی کے سیکریٹری منتخب ہوئے.... لیکن تنظیم کے منظور نظر اُس وقت ہوئے جب تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نےانہیں   الور،  راجستھان بھیجا۔ اُس وقت  دہلی اور پنجاب کی طرح الور میں بھی بھیانک قسم کا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
    لال کرشن اڈوانی صرف مسلمانوں کے خلاف پیش پیش نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔۲۲؍ جنوری ۱۹۹۹ء کو آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینس اپنے ۶؍ اور ۱۰؍ سالہ دو بچوں کے ساتھ جب اڑیسہ میں زندہ جلاد یئے گئے تھے، تو اس وقت  مرکز میں اڈوانی ہی وزیر داخلہ تھے۔ ۱۹۸۹ء میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تو یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت میں ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور رام مندر کے  نام پرپسماندہ طبقات کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی تھی ۔
    لال کرشن اڈوانی کا کارنامہ صرف  ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژکرنا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جب اور جہاں موقع ملا ہے، انہوں نے ’اپنوں‘ کے ساتھ بھی دغا بازی کی ہے اور ان کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔  شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو اڈوانی کو اپنے ساتھ رکھا۔  بی جے پی، جن سنگھ  اور جن سنگھ، آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ان کے نظریات اور پالیسی میں کسی قسم کا فرق تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن بظاہر اوراعلانیہ پالیسیوں کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سنگھ ، بی جے پی سے کہیں زیادہ سخت گیر تھی۔ اس کے مختلف عہدوں کو’ رونق‘ بخشتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں  اڈوانی اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے جو پہلا کام کیا، وہ جن سنگھ کے بانی رکن بلراج مدھوک کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اڈوانی اپنے علاوہ کسی اور لیڈرکو آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے تھے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے کئی چھوٹے موٹے مہروں کو آگے بڑھایا لیکن جب وہ آگے بڑھنے لگے تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا۔ کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا کسی زمانے میں ان کے معتمد خاص تھے اور انہی کی وجہ سے پارٹی سے نکالے بھی گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طبقے میں کلیان سنگھ ’مقبول ‘ہونے لگے تو اڈوانی کو خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ کلیان کے تعلق سے بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کی سوداگری کی تھی تو ذلیل و خوار ہونا اُن کا بھی مقدر ٹھہرا۔ آج وہ بی جے پی میں ضرور ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا اڈوانی کے دورِ صدارت  ہی میں پارٹی سے باہر کئے گئے تھے۔ اڈوانی  پرتنقید کی پاداش میں ۲۰۰۴ء میں اوما بھارتی کو بی جے پی سے دھتکارا گیاتھا جبکہ گجرات میں خودکو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش میں ۱۹۹۶ء میں واگھیلا اڈوانی کی سازشوں کے شکار ہوئے تھے۔ یہاں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام دودھ کے دھلے تھے اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی بلکہ ان کو بھی وہی ملا جس کے وہ حقدار تھے  اور ان کےساتھ بھی وہی ہوگا جو آج خود کو بہت بااختیار اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔   
     اڈوانی ذلیل ہوئے بھی تو کس کے ہاتھوں؟  وہی جسے دودھ پلا پلا کر انہوں نے توانا کیا تھا۔ گجرات فساد  میں مودی کے کردار پر کسی طرح کی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس فساد کو اتنا طول دینے میں اور اس قدر تباہ کن بنانے میںکس کا رول رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس وقت مودی کی پشت پرکس کا ہاتھ تھا اورانہیں کون شہ دے رہا تھا؟ اُس وقت لال کرشن اڈوانی مرکز میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم تھے۔
      اڈوانی کی اس حالت زار پر بعض حلقوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افسوس کااظہار کرنا غلط نہیں تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں  معصوم بنا کر پیش کرنا بالکل غلط بات ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا، جس کے وہ مستحق تھے۔

Monday, 20 May 2013

Nawaz shareef: Nayee subah, nayee ummeeden

نواز شریف کی کامیابی:اک نئی صبح کی دستک
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان  ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں پاکستانی قومی اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے،وہ غیر متوقع نہیں ہیں۔امید یہی تھی کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی البتہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ زرداری اینڈ کمپنی کا انجام اتنا براہوگا۔ ۲۷۲؍رکنی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ۱۲۴؍ نشستیں تنہا حاصل کرلیں جبکہ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اورعمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بالترتیب ۳۱؍ اور ۲۷؍ سیٹیں ہی ملیں۔۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی نے ۷۱؍ اور پاکستان  پیپلز پارٹی نے ۹۴؍سیٹیں حاصل کی تھیں۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس سے یہ اندازہ تو تھا ہی کہ زرداری حکومت کو  بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنا  پڑے گا۔
    اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ پڑوسیوں بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی سمت مثبت قدم بھی اٹھائیںگے۔ نتائج ظاہر ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
    پاکستا ن میں اقتدار کے تین مراکز ہیں، فوج، عدلیہ اورسیاست۔  اقتدار کی تبدیلی میں خفیہ ایجنسیاں بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہیں لیکن عام طو ر پر انہیںفوج کا  وفادارہی سمجھا جاتا ہے۔   نواز شریف کے مراسم ان تینوں مراکز سے کافی اچھے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب وہ فوج کے منظور نظر ہوا کرتے تھے، اسی وقت وہ خفیہ ایجنسیوں  سے بھی رابطے میں آئے۔ اِکا دُکا معاملات کوچھوڑ دیا جائے جن میں ان کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہوا، ورنہ عدلیہ سے بھی ان کے رشتے اچھے ہی رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھے وکیل ہیں، قانون جانتے ہیں لہٰذ عدالتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے ۳۷؍ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے بے پناہ  عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔  وزیراعظم بننے سے قبل وہ پنجاب کے۲؍ بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر انہیں ’شیرِ پنجاب‘ کہاجاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے  ۔ یہ مدت تین سال تک رہی ۔ ۱۹۹۶ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور دوتہائی اکثریت سے  نوازا ۔  اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں حلف برادری کے موقع  پر ۱۳؍ گھنٹے قبل ہی وہ میدان  بھر چکا تھا جہاں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ عزم کے پکے  اور مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔جو سوچتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران کے وقت ایسے ہی کسی  قائد کی ضرورت تھی۔
    پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب اقتدار کی منتقلی کو نئی صبح کیوں کہا جائے؟  اس سوال کا جواب جاننے سے قبل نواز شریف کی زندگی بالخصوص ان کے سیاسی کریئر کا سرسری مطالعہ کرناہوگا۔  یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بطور شوق یا کریئر بنانے کیلئے انہوں نے سیاست کا رخ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت آئے تھے اور اسے انہوں نے حاصل بھی کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ قومیائی گئی اپنی کمپنیوں کو سرکاری تسلط سے آزاد کرانا ۔
    نواز شریف کا تعلق ایک دولت مند گھرانے سے ہے، جس کا شمار موجودہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ملک تقسیم ہوا تو ان کے والد
 محمدشریف امرتسر سے لاہور ہجرت کرگئے جہاں ۱۹۴۹ء میں نواز شریف کی پیدائش ہوئی۔ان کا خاندان ’اتفاق گروپ‘ کا مالک ہے جس کے پاس بے شمار کمپنیاں ہیں، جن میں سے بیشتر اسٹیل کی ہیں۔  ۷۶۔۱۹۷۵ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب کمپنیوں کوقومیانے کا عمل شروع کیا تو ان کی کئی کمپنیاںبھی سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے نواز شریف  سیاست کا رخ کیا۔ اس وقت ان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہی تھا کہ حکومت  کی دستر س سے کس طرح اپنی کمپنیوں کو  آزاد کرایا جائے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل  غلام جیلانی خان گورنر منتخب ہوکر آئے تھے۔  جیلانی خان کوایک نوجوان تیز طرار شہری لیڈر چاہئے تھا جو انہیں نواز شریف کی صورت میں نظر آیا۔ جیلانی خان نے  فوری طور پر انہیں پنجاب کا وزیرمالیات مقرر کردیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ اس کے ایک سال بعد نواز شریف پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بنادیئے گئے، جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ اس طرح انہیں جنرل ضیاء کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اس قربت نے اتنا رنگ دکھایا کہ نہ صرف انہوں نے اپنی کمپنیاں آزاد کروالیں بلکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست بھی بن گئے۔ ضیاء الحق کے ساتھ ہی نواز شریف  اُس وقت کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی  کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے بھی بہت قریب رہے۔ 
    جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہوںنے قومی اسمبلی سمیت تمام ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب صرف اور صرف پنجاب میں نواز کی حکومت باقی رکھی تھی اور اسے مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ بیرون ملک سے بھی نواز شریف کے مراسم کافی اچھے ہیں ۔ ان کی اسٹیل کمپنیوں کا کاروبار سعودی عرب کے ساتھ  دیگر خلیجی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف سے جب ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے تو سعودی عرب کی مداخلت ہی سے نواز شریف کی جاں بخشی  ہوئی تھی ۔
    نواز شریف سے پاکستان کے ساتھ  ہی ساتھ پوری دنیا بالخصوص ہندوستان کو بہت توقعات ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے بلکہ معاشی سطح پر بھی پاکستان کوخوشحال بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اسی طرح  خارجہ پالیسی میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل وہ نواز شریف کا ہی دورِ حکومت تھا جب ۱۹۹۹ ء میں ہندوستان سے وہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا  جسے ’’لاہور اعلانیہ ‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دوران نئی دہلی سے لاہور کی بس سروس بھی شروع ہوئی تھی جس کے افتتاحی سفر میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہوتی اگر کارگل کا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا اور فوج کے ذریعہ نواز شریف کا تختہ نہ پلٹ دیاگیا ہوتا۔ بہرحال اب جب کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ  اس مرتبہ  نہ  صرف یہ کہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گےبلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیارکریں گے۔

Saturday, 4 May 2013

UPA hukumat na ahal ya khud sar?

یوپی اے حکومت نااہل یاخود سر؟

ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے نام ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ مثبت نہ سہی منفی ہی سہی، لیکن اس کے ذریعہ تاریخ میں بہرحال منموہن سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کام کاج کے اعتبار سے یہ سب سے نااہل حکومت ثابت ہوئی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ۹؍ برسوں میں موجودہ حکومت نے اوسطاً سالانہ  صرف ۳۲۱؍ گھنٹے کام کئے جبکہ پہلی لوک سبھا میں کام کرنے کا اوسط سالانہ  ۷۵۷؍ گھنٹے تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومت  واقعی نااہل ہے یا خود سری نے اس کا دماغ خراب رکھا ہے؟

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ موجودہ یوپی اے سرکار نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں سب سے کم کام کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔کم از کم تاریخ میں خود کے یاد رکھے جانے کا منموہن سنگھ حکومت نے ایک معقول انتظام توکر ہی لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی کبھی سب سے زیادہ گھوٹالے اور سب سے کم کام کرنے والی حکومت کی بات آئے گی، تو یوپی اے کا نام آسانی سے لیا جاسکے گا۔یوپی اے حکومت کا پہلا دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن دوسرا دور تو نہایت ہی افسوس ناک رہا جس میں کئی اجلاس ایسے گزرے جب کچھ بھی کام نہیں ہوا۔بلاشبہ اس کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن حزب اختلاف کے اس رویے کیلئے بھی بہرحال حزب اقتدار ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔
    اجلاس کا نہ چلنا،ایوان میں ہنگامہ آرائیوں کا بازار گرم ہونا، کارروائیوں میں بار بار خلل پڑنا،  پارلیمنٹ کا مچھلی بازار میں تبدیل ہونا اور پھر کاروبار سمیٹ کر دوسرے دن تک کیلئے  اجلاس کا معطل کیا جانا.... اور سب سے اہم یہ کہ اجلاس کا طلب ہی نہ کیا جانا......  یہ موجودہ حکومت کی  روایت اورایک شناخت رہی ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی نااہلی  ہے یا اس کی خود سری کی علامت؟ سرسری مطالعے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی خودسری ہے، وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو ضروری ہی نہیں سمجھتی۔  دراصل کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت مشورے میں یقین نہیں رکھتی، کسی مسئلے پر وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی.... حریف جماعتوں کی بات جانے دیں، وہ حلیف جماعتوںکو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح عوام کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہوتی ہے...... حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور یہ حقیقت سے زیادہ قریب لگتا ہے ۔دراصل حکومت کی خود سری نے   اسے ناہل بنا رکھا ہے اور اس کی اہم وجہ عوام کی خاموشی ہے۔اسے یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ عوام کی خاموشی نے حکومت کو خود سر بنا دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئی ہے۔
    دو ہفتے بعد یعنی۲۲؍مئی کویوپی اے دوم اپنی مدت کے۴؍ سال پورے کرلے گی۔اس پوری مدت میں حکومت نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔جمہوریت کے لبادے میں وہ ہر کام غیر جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا رویہ اچھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر حزب اقتدار نااہل، نکما اور خود سر ہے تو حزب اختلاف بھی کمزور، غیرذمہ دار اور موقع پرست ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ملک کے خزانے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی  بیشتر جماعتوں کو ملک  سے زیادہ  اپنی پارٹی کے مفاد کی فکر لاحق رہتی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیںاوراس کیلئے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھتی ہیں۔ مختلف گھوٹالوں کے موضوع پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایوان کی کارروائیوں کوروک کر سرکار کو’ پریشان‘ کرنے کا ڈھونگ کرتی ہیں اوراس طرح عوام کے روبرو خود کو ’ذمہ دار‘ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ باور کراکر کہ اپوزیشن کی ذمہ داری صرف ہنگامہ آرائی ہے، وہ خود کو بیوقوف ثابت کرتی ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوںسے عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور طشت میں سجا کر اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیںگے؟  اہم  اپوزیشن بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں  شاید اسی خوش فہمی  میں مبتلا ہیں لیکن سماجوادی اور آر جے ڈی جیسی جماعتیں بھی،جو اُٹھتے بیٹھتے کانگریس کے قصیدے پڑھتی ہیں، اسی خوش فہمی کی شکار ہیں۔ وہ بھی ’عوام کی حمایت‘ میں ایوان اور ایوان کے باہر کانگریس کی  پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب بات اُن پالیسیوں کے نفاذ کی آتی ہےتو یہ جماعتیں ڈرامائی انداز میں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔
    مطلب واضح ہے کہ اگرحکومت نااہل اور خود سر ہے تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے ۴؍ برسوں کے دوران ایوان کے۱۲؍ سیشن میں صرف  ۱۱۵۷؍ گھنٹے میں کام ہوا۔  اسی طرح گزشتہ لوک سبھا کے ۵؍ برسوں کے دوران بھی ایوان میں صرف۱۷۳۷؍ گھنٹے ہی کام ہوسکا تھا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ یو پی اے حکومت کے گزشتہ ۹؍برسوں کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں سب سے کم کام ہوا یعنی سالانہ صرف ۳۲۱؍ گھنٹے ۔ اس سےبہترتو واجپئی کا دور حکومت تھا جب ۵؍ سال میں ایوان نے۱۹۴۶؍ گھنٹے یعنی۳۸۹؍گھنٹے فی سال کام کیاتھا۔ یہ ۲۲؍ جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت تھی۔ پہلی لوک سبھا نے ۵؍ سال میں۳۷۸۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً ۷۵۷؍ گھنٹے سالانہ کام کیا تھا۔۹؍ویں، ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا جو  ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مستحکم سرکاریں تھیں، کام   کے  لحاظ سے منموہن حکومت سے زیادہ  ذمہ دار ثابت ہوئیں۔ ۹؍ ویں لوک سبھا میں جس میںوی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومتیں تھیں، ۱۶؍ مہینے میں ۷۵۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً سالانہ ۵۶۶؍ گھنٹے کام ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا  جو بالترتیب ۱۹؍ اور ۱۳؍ ماہ چلی تھی،اندر کمار گجرال، دیوے گوڑا اور واجپئی نے اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ ان دونوں لوک سبھا کی مدت میں باالترتیب ۸۱۴؍ اور ۵۷۵؍ گھنٹے یعنی اوسطاً   ۵۱۴؍ اور۵۳۰؍ گھنٹے سالانہ کام کاج ہوا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ مستحکم حکومت سے زیادہ بہتر وہ غیرمستحکم حکومتیں ہی تھیں جن کے دور میں پارلیمنٹ میں نسبتاًسنجیدگی زیادہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار پارلیمنٹ میں اجلاس کے انعقاد کے ہیں، کام کرنے کی نہیں۔ موجودہ حکومت کے ۹؍ برسوں میں  ۲۸۹۴؍ گھنٹوں تک اجلاس  چلا، لیکن ان میں سے کتنے گھنٹے ہنگاموں کے نذر ہوئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ رواں بجٹ اجلاس گزشتہ ۹؍ دنوںسے جاری ہے جس میں ابھی تک ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ٹھیک طرح سے چل نہیں سکی ہے ۔درمیان میں ایک دن اپوزیشن کی ’رضامندی‘ سے ان کے واک آؤٹ کے درمیان بحث کے بغیر حکومت نے چند مالیاتی بل ضرور منظور کرالئے تھے۔
    افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمان اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک آزاد ہونے کے ۶۵؍ سال بعد بھی بالغ نظری کا ثبوت پیش نہیں کرپارہی ہیں۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق پارلیمانی  امور کی کارروائی پر فی گھنٹے تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ معمول کے اخراجات ہیں، ان میں کرسیاں اور مائک توڑنے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
      اس کی وجوہات کیا ہیں؟آخر حکومت اجلاس کا انعقاد کیوں نہیں کرتی؟کیا  وہ اپوزیشن کےہنگاموں سے خوفزدہ ہے یا وہ ان اجلاس کو اہمیت ہی نہیںدینا چاہتی؟   اس کا جواب ہمیں حکومت سے نہیں بلکہ خود سے پوچھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری نمائندہ جماعتیں ہیں۔   اگر ہم اسے غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
n

Saturday, 20 April 2013

Nitish and Modi ka Drama

جنتادل متحدہ اور بی جے پی کی لفظی جنگ
حقیقت کم شعبدہ بازی زیادہ

ان دنوں جنتادل متحدہ اور بی جے پی میں ہائی پروفائل ڈراما جاری ہے۔ مکالمہ بازی زوروں پر ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کرانے پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے خیالات و نظریات سے سمجھوتہ کرنے والی نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کااتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے۔ یہ ڈراماہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
 
قطب الدین شاہد

آئندہ لوک سبھا انتخابات کی آمد میں ابھی ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اس کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے اپنے طورپر تمام قومی و علاقائی جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ کانگریس، بی جے پی، سماجوادی، بی ایس پی، ترنمول، سی پی ایم، سی پی آئی، ڈی ایم کے، اے آئی اے ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس اور جے ڈی یو..... سبھی انتخابی دُھنوں پر رقص میں مصروف ہیں۔ کہیں شدت تھوڑی کم ہے تو کہیں تھوڑی زیادہ۔ ان تمام کےدرمیان عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں جنتادل متحدہ دیگر جماعتوں کےمقابلے زیادہ کامیاب ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر اس نے ایک ہائی پروفائل ڈراما اسٹیج کیا ہے۔ اس میں عوام کی دلچسپی کے بہت سارے لوازمات ہیں۔ مضبوط پلاٹ، دلچسپ کردار اور برجستہ مکالموں کے ساتھ اس ڈرامے میںتجسس بھی ہے کہ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کایہ اتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے، لیکن جو لوگ ان کے ڈراموں کو دیکھتے رہے ہیں اور ان کی سوچ سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا یہ ڈراما ہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔  ان حقائق کے باوجود اگر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا سبب خیالات و نظریات کا تضاد نہیں ہوگا بلکہ اقتدار تک پہنچنے کی کوئی دوسری حکمت عملی ہوگی۔
    دراصل ۲۰۱۰ء میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں یہ فارمولہ بہت کامیاب رہا تھا۔ اس ڈرامے نے عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ جے ڈی یو کے ساتھ بی جے پی کی نشستوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ نتیش کمار اور نریندر مودی ایک بار پھر اسی کامیابی کو دُہرانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ابھی تک عوام کے حافظے میں ہے کہ بہار میں اسمبلی الیکشن کے دوران  انتخابی مہم میں مودی کی شرکت کو بنیاد بناکر ان دونوں(اتحادی) جماعتوں نے کتنی بیان بازیاں کی تھیں اور پھر انتخاب جیتنے  کے بعد کیا ہوا، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
    اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا؟اس پر گفتگو سے قبل آئیے صورتحال دیکھنےکوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی دراصل اس مرتبہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کیلئے وہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میںیہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جنتادل متحدہ کا ساتھ چھوڑنے کی حماقت نہیں کرے گی، کیونکہ اس صورت میں وہ نہ صرف ایک مضبوط اتحادی گنوادے گی، بلکہ بہار میں اس کیلئے موجودہ نشستوں پر دوبارہ فتح  حاصل کرنا بھی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں نے بہار کی ۴۰؍ سیٹوں پر مل کر انتخاب لڑا تھا، جس میں جے ڈی یو نے ۲۰؍ اور بی جے پی نے ۱۲؍ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں ۲۴۳؍  رکنی ایوان میں جے ڈی یو نے ۱۱۵؍ اور بی جے پی نے ۹۱؍ سیٹیں حاصل کی تھیں۔    جے ڈی یو نے ۱۴۱؍ اور بی جے پی نے ۱۰۲؍ نشستوں پرقسمت آزمائی کی تھی جس میںدونوں نے مجموعی طور پر ۳۹؍فیصد ووٹ حاصل کئےتھے۔ ظاہر ہے کہ اگر بی جے پی تنہا  انتخاب میں اُترنے کی کوشش کرے گی تو اس کیلئے ووٹوں کے اس تناسب تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے بمشکل ۱۵؍ سے ۲۰؍فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں اسے کتنی نشستیں ملیںگی،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے ۲۷ء۳۱؍ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، اس کے باوجود اسے صرف۲۲؍ نشستوں پر سمٹ جاناپڑا تھا  جبکہ لوک سبھا میں اسے ۴؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔
     ان حقائق کے باوجود اگر بی جے پی کے تیور قدرے جارحانہ  ہیں تو اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ وہ دراصل اس مرتبہ سخت ہندوتوا  کے تیور کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے بجائے  بی جے پی کو توانا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مودی کو اگر آگے بڑھایا گیا تو اس کے بنیادی رائے دہندگان اس کے ساتھ آئیںگے اور اس  طرح اس کی مجموعی نشستوںمیں اضافہ ہوگا، لیکن وہ مودی کے نام کااعلان اس لئے نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی ذاتی نشستوں کی تعداد اتنی کبھی نہیں ہوگی کہ وہ تنہاحکومت ساز ی کرسکے،  اں لئے  انتخابات کے بعد اسے این ڈی اے کو ’متحد‘ کرنے کی جوڑ توڑ بہرحال شروع کرنی ہوگی۔  بی جے پی کی کوشش ہے کہ مودی کو آگے بڑھاکر سخت ہندوتوا میں یقین رکھنےوالوں کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں اور پھر الیکشن بعد سشما سوراج، اڈوانی، راج ناتھ سنگھ،  یشونت سنہا یا پھر اور کسی نام کو آگے بڑھا کر ناراض این ڈی اے کے اراکین کو ’متحد‘کرلیا جائےگا۔ ہندوستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
    حالات بتارہے ہیں کہ بی جے پی  اپنے طور پر جے ڈی یو سے تعلق ختم نہیں کرے گی لیکن..... اگر جے ڈی یو نے بی جے پی  سے مودی  سے متعلق زیادہ وضاحت پر اصرار کیاتو بی جے پی اس تعلق کو ختم بھی کرسکتی ہے۔   بی جے پی کو اگر محسوس ہوا کہ مودی کو آگے بڑھاکر الیکشن لڑنے میں اسے پورے ملک میں ۲۵؍ سے ۳۰؍ سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ بہارمیں ۴؍ سے ۶؍ سیٹوں کانقصان گوارا کرلے گی،کیونکہ اسے پتہ ہے کہ الیکشن بعد ضرورت محسوس ہوئی تو    جنتادل یو کو این ڈی اے کے بینر تلے لانا کچھ مشکل کام نہیں ہوگا۔
    رہی بات جے ڈی یو کی، تو اس کیلئے بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ تنہاالیکشن لڑنے میںاس کابھی نقصان ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ  جے ڈی یو کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کرکے لوک سبھا الیکشن میں اُترے۔ دراصل یہاں کانگریس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے۔ یعنی  وہ بھی کچھ بھی کرکے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہونا چاہتی ہے۔ اس کی ۲؍وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اقتدار کااپنا مزہ ہے، دوسرے یہ کہ  اگراس مرتبہ شکست کا سامنا ہوا تو راہل گاندھی کا کریئر تباہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں کانگریس بہت کم سیٹیں پاکر بھی  بہار میں جے ڈی یو سے انتخابی مفاہمت کرسکتی ہے۔ اس کی وہاں پارلیمنٹ کی ۲؍ سیٹیں ہیں۔ جے ڈی یو سے انتخابی تال میل کی صورت میں اتنا تو طے ہے کہ اسے نقصان نہیں ہوگا۔ ایسے میں اسے آر جے ڈی سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور کانگریس کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنا فائدہ ہو تو، کسی کی اعتماد شکنی اس کیلئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔
     آثار بتار ہے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے امیدوار کے طورپربی جے پی کسی  کے نام کا باضابطہ اعلان نہیں کرے گی لیکن اپنے رائے دہندگان کو یہ پیغام ضرور دے گی کہ الیکشن بعدمودی ہی اس کے میرکارواں ہوںگے۔ ایسے میں گیند جے ڈی یو کے پالے میں آجاتی ہے کہ وہ کیاقدم اُٹھاتی ہے۔ اس کے سامنے  ۲؍ صورتیں ہوں گی۔ اول یہ کہ کانگریس سے اگر انتخابی مفاہمت ہوجاتی ہے تو وہ بی جے پی سے مودی کے نام پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ناطہ توڑ لینے کااعلان کرے گی۔ دوم یہ کہ اگر کانگریس سے اپنی شرطوں پر سمجھوتہ نہیں ہوا تو بی جے پی کے ساتھ مکالمہ بازی جاری رہے گی اور دونوں ایک دوسرے کے اتحادی بنے رہیں گے۔  تو کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے تھوڑا اور توقف کیجئے اور تب تک اس دلچسپ ڈرامے سے لطف  اندوز ہوئیے۔

Saturday, 6 April 2013

Third front ki dastak se Qaumi partiyon ki neend haram

تیسرے محاذ کی دستک سے قومی پارٹیوں کی نیند حرام
بلاشبہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوںملائم سنگھ یادونےایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تیسرے محاذ کا ذکر کیا چھیڑدیا، بی جے پی اور کانگریس  جیسے حواس باختہ ہوگئیں اور لٹھ لے کر ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اس سے ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آئی کہ بی جے پی کو کانگریس سے یا کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ خطرہ نہیں ہے بلکہ سرے سے خطرہ ہی نہیں ہے.... البتہ ان دونوں کو تیسرے محاذ سے ضرور خطرہ ہے۔یہ دونوںجماعتیں نہیں چاہتیں کہ ان کے متبادل کے طور پر کوئی تیسری طاقت اُبھرسکے۔
     ملک میں کسی تیسرے محاذکی کتنی ضرورت ہے اور اس  کے کیا امکانات ہیں؟ اس کاجائزہ لیا جائے تویہ بات بڑی آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس وقت ملک کو کانگریس اور بی جے پی   کے  ایک مضبوط متبادل کی واقعی سخت ضرورت ہے اور موجودہ صورتحال اس کیلئے نہایت موزوں اور سازگار ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے ملک کے عوام نالاں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں میں جہاں عوام کے سامنے کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کوئی اورمتبادل  ہے، انہیں اقتدار میں آنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے۔  دراصل یہ دونوں جماعتیں عوام کے مفاد پر سرمایہ داروں کے مفاد کو ترجیح دیتی ہیں اور اقتدار ملتا ہے تو آمریت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے اور ایف ڈی آئی کا راستہ ہموار کرنے کے معاملے میں کانگریس  اور گجرات میں لوک آیکت سے متعلق بل کی منظوری کے وقت بی جے پی کی آمریت ہم دیکھ چکے ہیں۔ رہی بات سیکولرازم کی تو یہ محض دکھاوا ہے۔ کانگریس کا اس سے قربت کا اور بی جے پی کا اس سے فاصلےکا اظہار کرنا، ان کی مجبوری ہے، ورنہ دیکھاجائے تو دونوں کے طور طریقوں میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ بی جے پی نے رام مندر کی تحریک چلائی، کانگریس نے اس کا شیلا نیاس کروایا۔ بی جے پی نے بابری مسجد کے انہدام کی بات کی اور کانگریس کے دور اقتدار میں مسجد شہید کی گئی۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میںگجرات میں فساد ہوا تو کانگریس کے دوراقتدار میں ممبئی، بھیونڈی، میرٹھ، ملیانہ اور بھاگل پور جیسے سیکڑوں فساد ہوئے۔ بی جے پی نے اگر فساد کے مجرمین کی پشت پناہی کی تو کانگریس حکومت  میں بھی کبھی کسی فسادی کو سزا پاتے نہیں دیکھا گیا۔
       ان حالات میں عوام کا کسی تیسرے متبادل کی جانب دیکھنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ وہ خواہ ۱۹۷۷ء کی بات ہو، یا  ۱۹۸۹ء کی یا پھر۱۹۹۶ء کی۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔ قومی جماعتوںکے اس خوف سے تیسرے محاذ کی اہمیت و ضرورت اورعوام میںاس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئےمستحکم حکومتوں کی وکالت کرتا ر ہا ہے۔ اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رُکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
    معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ مستحکم حکومت یک جماعتی حکومت ہی دے سکتی ہے یعنی بی جے پی یا کانگریس۔ یہ تو یوپی اے اور این ڈی اے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ا ن کے نزدیک اس طرح کی حکومتیں’مجبور‘ ہوتی ہیں جن کاا نحصارچھوٹی چھوٹی جماعتوں پر ہوتا ہے۔
    ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑ دیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے...  مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
     یہی وجہ ہے کہ جب بھی تیسرے محاذ کی تشکیل کی بات ہوتی ہے یا انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو خاطر خواہ سیٹیں نہیں مل پاتیں  تو یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔ تیسرے محاذکی حکومت کی بات جانے دیں، یہ تو حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کو بھی ملک کی ترقی میں رُکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیں ہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں..... لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے اوروہ من  مانی کرنے لگتی ہیں۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے؟ پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے بے اطمینانی محسوس  ہوگی تو  نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہی دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدےاور ایف ڈی آئی کی منظوری کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی واحد جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ۸۴ء کے بعد سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی واحد جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئی تھیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی تھی۔ اس کے بعد بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ تو مجموعی پولنگ کا فیصد ہے، ویسے دیکھا جائے تو ان دونوں جماعتوں کو۱۲۰؍کروڑ کی آبادی والے ملک میں ۱۹؍کروڑ ۷۵؍ لاکھ  یعنی صرف ۱۵؍ فیصد عوام کی ہی حمایت حاصل ہے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔  ایسے میں اگر کوئی تیسرا محاذ بنتا ہے، تو یقینی طور پر اسے خاطرخواہ عوامی حمایت حاصل ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ تیسرے محاذ کی تشکیل میں علاقائی جماعتیں سنجیدہ ہوں اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔