Monday, 29 July 2013

Roznaamcha_Facebook and Maslaki tension

فیس بُک اور مسلکی اختلافات

قطب الدین شاہد

ہم مسلمانوں پر یہ الزام ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر کسی سے لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی اگر کچھ دنوں کیلئے موقوف رہے تو لڑائی کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔  الزام کے مطابق  برادران وطن سے ہماری ایک نہیں بنتی،  دونوں میںہمیشہ چھتیس کا آنکڑہ رہتا ہے، کسی وجہ سے اگر کچھ دنوں تک دونوں بڑی قوموں میں امن و چین کا معاملہ رہا تو علاقائی تعصب سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، موقع ملے تو ایک ریاست کےمسلمان دوسری ریاست کے مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں،اگر اس کی نوبت نہیں آئی تو شیعہ اور سنّی برسرِ پیکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی الزام تراشی کرنے والوں کے مطابق شیعہ شیعہ اور سنّی سنّی بھی ایک ساتھ امن و سکون سے نہیں رہتے بلکہ یہاں بھی بہت سارے اختلافات آڑے آتے ہیں جس کی وجہ سے پیہم تکرار ہوتی رہتی ہے، یہ زبانی تکرار بڑھتی ہے تو تصادم کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
    یہ اور ایسی ساری باتیں مسلمانوں پر الزام ہے..... یقینا ً یہ الزام ہی ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ الزام تراشی اس لئے کہ مسلمانوں کو جھگڑالو ثابت کیا جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ وطن عزیز میں جو سالانہ ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے ہیں، اس کیلئے فرقہ پرست عناصر نہیں بلکہ مسلمان ہی ذمہ دار  ہیں..... لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ان الزامات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ نادان ہیں۔اس نادانی کے سبب وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ملت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قوم کو اُن کی اِن حرکتوں کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف مٹھی بھر ہے لیکن ان مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے یہ الزام پوری کمیونٹی کے سر تھوپا جارہا ہے اورحالات ایسے ہیں کہ ہم اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ  اب تحریری صورت اختیار کرگیا ہے۔
    ان دنوں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر غلط تربیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے یہ عناصر سرگرم ہیں اور اپنے فاسد خیالات سے معاشرے کی فضا کو مسموم کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔مسلکی اختلافات کو یہ اس قدر بڑھا چڑھا کر اور اتنے تضحیک آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اور ان کے مخالفین دونوں طیش میں آجائیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کا تعلق کسی ایک خاص جماعت یامسلک سے نہیں ہے بلکہ اس حمام میں  بیشتر ننگے نظر آتے ہیں۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ان اختلافات کو ابھارے اور دوسرے مسالک پر تنقید کئے بغیر ہم اپنے مسلک پر قائم نہیں رہ سکتے؟ اپنے راستے پر نہیں چل سکتے؟ اپنی بات نہیں کہہ سکتے؟ آخروہ کون سا جنون ہے جو انہیں اس پر آمادہ کرتا ہے ؟ کیا وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کیلئے ذمہ دار کون ہے؟
    فیس بک اگر کوئی بہت اچھی چیز نہیں تو بری بھی نہیں ہے، اس کے بہتر استعمال سے بہتر نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ آپسی میل جول اور پیغام رسانی کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ ہے۔مسلکی اختلافات پر اپنی توانائی صرف کرنے والے چاہیں تو اسے مذہبی و مسلکی تبلیغ کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال کرسکتےہیں۔ ایک بڑا طبقہ ہے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا قائل ہے اوراس کی مدد   سے قوم اور سماج کو فیض پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
     مسلکی اختلافات کو کرید کرسماج میں انتشار پیدا کرکے ذہنی تسکین حاصل کرنیوالے یہ نوجوان کافی باصلاحیت  ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کامنفی استعمال ہورہا ہے حالانکہ اس کامثبت استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ کاش ایسا ہو! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟

Roznaamcha_Innocent Muslims

مسلم نوجوانوں کی رہائی

قطب الدین شاہد

    دہشت گردی کے الزامات میںمسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے سبھی ’پریشان‘ ہیں اور ان کی رہائی کیلئے ’کوشاں‘ بھی ہیں۔ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اس پر اظہار افسوس کرچکے ہیں بلکہ اُس وقت جب آسٹریلیا میں ڈاکٹر محمد حنیف کو گرفتار کیا گیا تھا تو بقول وزیراعظم ’’انہیں رات بھر نیند نہیں آئی تھی‘‘۔موجودہ وزیر داخلہ شندے صاحب اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم صاحب کو بھی مسلمانوں سے ’ہمدردی‘ ہے۔ پرکاش کرات، سیتا رام یچوری، اے بی بردھن اوررام ولاس پاسوان اس سلسلے میں وزیراعظم ، صدر جمہوریہ اور وزیرداخلہ سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ لالو پرساد اور ملائم سنگھ یادو نے انتخابی جلسوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی اس موضوع پر آواز بلند کی ہے ۔ مایاوتی اورممتا بنرجی بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر اپنی ’ناراضگی‘ کا اظہار کرچکی ہیں۔ بہار کے ایک نوجوان کی گرفتاری پر نتیش کمار تومرکز سے باقاعدہ لڑجھگڑ بھی چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے بعض لیڈربالخصوص اقلیتی سیل سے تعلق رکھنے والے لیڈروں نے بھی اس پر وقتاً فوقتاً تشویش کااظہار کیا ہے۔مگر افسوس ! صد افسوس.....اس سلسلے میں نتائج صفر ہیں۔
    کانگریس کی اقتدار والی ریاستیں مہاراشٹر، آندھرا پردیش یا راجستھان ہوں ، سماجوادی کی اترپردیش ہو یا پھر حال ہی میں سیکولر ہونے والی جنتادل متحدہ کی بہار... تمام ریاستوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں آج بھی ہو رہی ہیں ۔ ایک سازش کے تحت پوری قوم کو ہراساں کئے جانے، اس بہانے ان کے حوصلوں کو پست کرنے اور انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔
    مسلم نوجوانوں کی رہائی کے سلسلے میں سیاسی سطح پر اس وقت ملک میں۴؍ بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن محمد ادیب کی سربراہی میں ’پی سی پی ٹی ‘ (پیپلز کمپین اگینسٹ پولیٹکس آف ٹیرر) کے پرچم تلے دہلی میں ایک تحریک چل رہی ہے۔ ایڈوکیٹ محمد شعیب کی قیادت میں ’رہائی منچ‘ کے بینر تلے اترپردیش میں گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے دھرناجاری ہے۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی اوران کی تنظیم ’انہد‘ بھی کافی دنوں سے سرگرم عمل ہے۔اسی طرح ممبئی میں مجلس شوریٰ کے بینر تلے ابو عاصم اعظمی نے بھی مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے ریاست گیر مہم چلانے پر زور دیا ہے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی ساری کوششیں ہورہی ہیںاورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوںپر سبھوں کو تشویش ہے تو پھر یہ گرفتاریاں جاری کیوں ہیں؟ اور جو گرفتار ہیں ان کی رہائی میں اتنی دشواریاں کیوں ہیں؟ خواجہ یونس، قتیل صدیقی اور خالد مجاہد جیسے واقعات آخر کیوں رونما ہوتے ہیں؟
     کہاجاتا ہے کہ کوشش.....یعنی ایماندارانہ کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی.... تو کیا یہاں کوششیں نہیں ہو رہی ہیں؟.... ہمارا خیال ہے کہ اس پر کچھ کہنے کے بجائے ان ’کوششوں‘کے نتائج دیکھنے چاہئیں۔
     دراصل یہ باتیں ذہن میں اس لئے آئیں کہ مجلس شوریٰ کی میٹنگ کی رپورٹ پڑھنے کے بعد ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ اگرسماجوادی پارٹی کے ریاستی سربراہ (خیال رہے کہ مجلس شوریٰ کو سماجوادی پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم ہی سمجھا جاتا ہے) یہی کوشش یوپی میں کرتی جہاں وہ اقتدار میں بلا شرکت غیرے مالک ہے،تو یقیناً اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے لیکن اس طرح کی کوشش وہ وہاں کررہی ہے جہاں اس کے صرف ۳؍ اراکین ہیں اور وہ کچھ نہیں کرسکتی۔
    کاش ! یہ باتیں وہ لوگ سمجھ سکتے ..... جنہیں عوام اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔

Modi and American Visa

کیا امریکہ کا ویزا ملنے سے مودی کو کلین چِٹ مِل جائے گی؟

  قطب الدین شاہد

مودی کو امریکہ اپنے یہاں آنے دے گا کہ نہیں؟ کچھ دنوں سے اس سوال کو قومی موضوع کے طو ر پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی ۱۲۵؍ کروڑ کی آبادی کیلئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل یہ ایک سازش ہے، ایک گیم پلان ہے اور اس کا مقصد مودی کی تشہیر ہے۔ مودی کے امریکہ جانے اور نہ جانے کو ان کے ’قبول عام‘ ہونے اور نہ ہونے کا  پیمانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی سازش کرنے والوں کو میڈیا کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش میں امریکہ بھی پوری طرح سے شریک ہے۔
     خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس ’مسئلے‘ کو مزید ابھارا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے ’محافظ‘ امریکہ کو مودی قابل قبول نہیں ہے.... بحث مباحثہ جاری رہے گا اور پھرلوک سبھا انتخابات سے قبل اچانک مودی کا ویزا جاری کردیا جائے گا اور پھرعوام پر یہ جتانے کی کوشش کی جائے گی کہ مودی کے سارے گناہ دُھل گئے۔
    مودی حامیوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے اگر گجرات کے وزیراعلیٰ کو شرف مہمانی بخش دیا تو  ان  کے دامن پر لگے داغ صاف ہوجائیںگے، وہ سبھی کیلئے قابل قبول ہوجائیںگے اور اس طرح ان کا وزیراعظم بننے کا راستہ مزید آسان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نادان دوست بھی اس سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ مودی کو ویزا دینے کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔  انہیں لگتا ہے کہ مودی کا امریکہ جانا ہندوستان کے سیکولرازم کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہاں ذہن میں چند سوالات ابھر رہے ہیں؟
n کیا امریکہ جانے سے مودی کے دامن پر لگے تمام دھبے صاف ہوجائیں گے؟
nکیا ۲۰۰۲ء کے فساد ات کے دوران ان کے کردار کو لوگ بھول جائیں گے؟ 
nکیا ان کے  تعصب اور ان کی تنگ نظری پر پردہ پڑ جائے گا؟
nکیا امریکہ کو انصاف کا علمبردار اور حقوق انسانی کا محافظ سمجھا جا سکتا  ہے کہ محض اس کی میزبانی سے کسی کی شبیہ تبدیل ہوجائے؟
nکیا امریکہ جانے سے مودی سیکولر ہوجائیںگے  اورانہیں کلین چٹ مل جائے گی؟
    ہمیں نہیں لگتا کہ کہیں سے بھی اس کا جواب ’ہاں‘ میں آئے گا؟ ان حالات میں سیکولر طاقتوں کو فکر مند یا خوفزدہ ہونے اور اس  معاملے کو مسئلہ سمجھنے کی  بھلا کیا ضرورت  ہے؟
    مودی کے حامی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر رائے دہندگان کی حمایت کے بغیر مودی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکولر عوام ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔  گجرات فساد میں مودی کا کردار سب پر عیاں ہے۔ کسی عدالت سے ثابت ہونے کے بعد ہی انہیں مجرم سمجھاجائے گا، ایسا نہیں ہے؟   یہی وجہ ہے کہ اب وہ چور دروازہ استعمال کررہے ہیں۔ ہندوستانی عوام  یا ہندوستانی عدالت سے کلین چٹ ملنا آسان نہیں ہے، لہٰذا امریکہ کی مدد لی جارہی ہے۔  امریکہ اور یورپی یونین کو بھی  ہندوستان میںایسا ہی وزیراعظم چاہئے جو کارپوریٹ دنیا کا محافظ بن کر رہے۔ بلا شبہ منموہن سنگھ ان کے اعتماد پر پورے اُتر رہے ہیں لیکن  ان طاقتوں کو اس بات  پر شبہ ہے کہ اس مرتبہ یوپی اے کی کمان  منموہن سنگھ کے ہاتھوں میں رہے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں کام کرتے ہوئے مودی کو دنیا نے دیکھا ہے، اسلئے ان  کیلئے  پورے زور وشور کے ساتھ لابنگ چل رہی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سازش میں بھی  سیکولر  عوام   اورمسلمانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    مودی امریکہ جائیں یا نہ جائیں یا وہ کہیں بھی جائیں، اس سے   سیکولر عوام مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ..... لیکن تاثر یہی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی کے امریکہ نہ جاپانے سے مسلمان بہت خوش ہیں۔ رکن پارلیمان محمد ادیب اوران کے ۶۵؍ ساتھیوں کا اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کرنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جانے انجانے میں وہ بھی اس سازش کا شکار ہو گئے ہیں اور اس تشہیری مہم  میں وہ مودی کا ساتھ دے رہے ہیں ورنہ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ مودی کہاں جاتے ہیں اور کہاں نہیں؟ امریکہ اوراسرائیل کے تعلق سے مسلمان یوں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہر اس عمل کی حمایت کرتے ہیں ، جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے  اور تکلیف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب گجرات فساد کے الزام کے تحت مودی کو ویزا نہ دینے کی بات منظر عام پر آئی تو فوری طور پر یقین نہیں آیا لیکن جب اس پر غور کیا گیا توشبہ ہواکہ یہ ایک گیم پلان کا حصہ ہو سکتا ہے۔  مطلب یہ کہ الیکشن سے قبل کسی بہانے مودی کو امریکہ بلایا جائے گا اور پھر ہندوستانی میڈیا کو یہ شور برپا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ اب امریکہ یعنی پوری دنیا کیلئے مودی قابل قبول ہوگئے ہیں، پھر ہندوستانی عوام کب تک انہیں مجرم سمجھتے رہیںگے؟
     اس سازش میں شریک لوگوں کاخیال ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ مودی کو معاف کردے گا  .....لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا؟ ہمیں نہیں لگتا۔ ہندوستان کی اکثریت آج بھی سیکولر ہے جو کسی بھی صورت میں مودی کو اقتدار تک پہنچنے نہیں دے گی۔ بی جے پی اور اس کی آئیڈیالوجی کو پسند کرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اسے مرکزی اقتدار سونپ سکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کے بعدبھی بی جے پی اپنے بل بوتے پر اقتدار تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ فرقہ پرستی کے چولے کو اتارنے کے بعد ہی اسے مرکز میں اقتدار کا موقع مل سکا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے فساد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو بے دخل کردیا گیا  ۔ وہ دن اور آج کا دن ، بی جے پی ، وہاں پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے لیکن بات کچھ بن نہیں پارہی ہے۔ اس کیلئے اب اس نےنئی  سازش کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔
    بہرحال سیکولر رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا  بھی یہی خیال ہے کہ امریکہ کا ویزا مل جانے سے مودی کو کلین چٹ نہیں مل جائے گی لہٰذا اس موضوع پر مسلمانوں کے حوالے سے کسی کو   دُبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

Saturday, 13 July 2013

Muslim numaindon ki be hisi par musalmano ko sharmindagi

مسلم نمائندوں کی بے حسی پر
عام مسلمانوں کو افسردگی و شرمندگی کا سامنا

قطب الدین شاہد

گزشتہ ۲؍ہفتوں میں ۲؍ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو افسردگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں واقعات تو محض ایک علامت ہیں، ورنہ اس طرح کے واقعات سے عام مسلمانوں کا سابقہ روز پڑتا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر وہ اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔
     پہلا واقعہ انٹیلی جنس بیورو کے چیف آصف ابراہیم صاحب کی اس جدوجہد کا ہے، جس میں وہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں ماخوذ اپنے ایک افسر راجندر کمار کو بچانے کیلئے سی بی آئی کے اعلیٰ افسروں سے لڑرہے تھے۔ اگر ان کا افسرِ مذکور بے قصور ہوتا اوراس کے متعلق ان کے پاس کچھ دلائل ہوتے تو ان کے اس قدم پرکسی کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ ان کے جرأت کی داد دی جاتی کہ وہ ایک مظلوم کا دفاع کر رہے ہیں مگر وہ صرف اور صرف اس لئے انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اس کی وجہ سے آئی بی کی حوصلہ شکنی ہو رہی تھی۔
    کہاجاتا ہے کہ راجندر کمار بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے میں بھی رازدار ہیں۔ آصف ابراہیم صاحب کے اس رویے سے ہندوستانی مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔ کہاں تو ان سے اُمید کی جارہی تھی کہ وہ حصولِ انصاف کی راہیں ہموار کریںگے اور کہاں مسلمانوںکو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پیشتر جب انہیں اس عہدے کے لائق سمجھا گیا تھا اور اس کااعلان ہوا تھا تو مسلمانوں نےخوشی کا اظہار کیاتھا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے.... اس حساس عہدے کی باگ ڈور پہلی مرتبہ کسی مسلم افسر کو سونپی گئی تھی۔ دراصل آئی بی  اور اے ٹی ایس جیسی تنظیموں سےمتعلق مسلمانوں میںکافی بدگمانیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ ان کی تقرری کے بعد عام مسلمانوں نے  یہ سمجھا تھا  اب ایسا کچھ نہیں ہوگا، جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا تھا...... یعنی دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں رُک جائیںگی اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو نے لگے گا۔ آصف ابراہیم صاحب  انٹیلی جنس بیورو کے چیف ہیں لیکن انہیں شاید یہ خبر نہ ہو کہ ان کی تقرری پر سادہ لوح مسلمانوں نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی تھیں۔
    وہ بہت خوش تھے، انہیں اپنا سمجھتے تھے لیکن ایسا سمجھتے ہوئے مسلمان ان سے کسی جانب داری کی توقع نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف انصاف چاہتے تھے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، جس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کی عدالتوں نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے۔
     ان حالات میں مسلمانوں نے ان سے اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیںگے اور یہ سلسلہ اب رُک جائے گا۔ ایسے میں انصاف دلانے کے بجائے جب انہیں مبینہ طور پر انصاف کی راہ میں حائل  ہوتے دیکھا گیا تو مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔
    دوسرا واقعہ نور محمد دوست محمد پٹھان(این ڈی پٹھان) کا ہے  جو اس وقت جیل  کی ہوا کھا رہے ہیں۔ یہ صاحب مہاراشٹر حکومت میں وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تھے۔ ان پر اوقاف کی ملکیت میں لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے  جبکہ ان پر ان زمینات کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کوشرمندہ کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی غیر مسلم افسر ماخوذ ہوتا اور اس کیلئے جیل جاتا تو  اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی این ڈی پٹھان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نمائندوںسے عام مسلمان بہت ساری اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام و خواص کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ اپنے اخلاص اور سادہ لوحی کی وجہ سے عام مسلمان یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ اس جگہ پہنچنے والے افسر ہوں یا وزیر  یا پھر کوئی عہدیدار.... ان میں سے بیشتر کو قوم و ملت کی نہیں، صرف اپنی پروا ہوتی ہے۔ وہ اپنا ’اسٹیٹس‘ بڑھانے اور دولت و شہرت جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں لہٰذااس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی آقاؤں کو خوش کریں۔ اُن کا انجام اِن لوگوں کے سامنے ہوتا ہے جو قوم و ملت کی بات کرنے پر ’ٹھکانے‘ لگادیئے جاتے ہیں۔
    ضروری نہیں کہ سبھی اس معیار پر پورے اُتریں، کچھ مسلم افسر، عہدیدار اور وزیر وں کو اس بات کااحساس رہتا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ علیٰحدہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے لہٰذا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
    انتخابات ہوں یا امتحانات... جب ان کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں تو عام مسلمان سب سے پہلے اس میں اپنے نمائندوں کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ تعداد اگر خاطر خواہ ہے تو اس پر جشن مناتا ہے، بصورت دیگر افسوس کرتا ہے۔ تعداد کی کمی کی وجوہات اگر سیاسی ہوئیں تو اس کیلئے احتجاج بھی کرتا ہے..... ’یوپی ایس سی‘ کے امتحان میں ہر سال ۳؍ساڑھے ۳؍فیصد مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
     اکثر دیکھاگیا ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونےوالوں کے اعزاز میں جلسےہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں اور ان پر فخر کااظہار کیا جاتا ہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پرکسی مسلم افسر کی تقرری ہوتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ شخص اسی گھر کا ایک فرد ہے۔ محمد اظہرالدین، ثانیہ مرزا، محمد کیف، ظہیر خان اور عرفان پٹھان....  ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے اور کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمان  مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
    اسی طرح لوک سبھااور اسمبلیوں کے انتخابات میں عام مسلمان جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا، وہ  صرف اور صرف مسلم ہونے کی وجہ سے کسی اُمیدوار کو ووٹ دیتا ہے اور اس کے جیتنے پر خوشی کااظہار کرتا ہے۔ مرکزاور اسمبلیوں میں جیتنے والے مسلم نمائندے بھلے ہی اس بات کو فراموش کردیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی کامیابی میں عام مسلمانوں کا حصہ ہے لیکن یہ بات   جگ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں ٹکٹ بھی اسی لئے ملتا ہے کہ وہ مسلمان  ہیں اور انہیں ووٹ ملنے کی بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔
    مسلمانوں کونمائندگی دینے کے نام پر عام مسلمان سیاسی جماعتوں سے جھگڑا مول لیتا ہے، مورچہ نکالتا ہے، احتجاج کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر لاٹھیاں اور بندوق کی گولیاں بھی کھاتا ہے لیکن اس کے بدلے اسے کیا ملتا ہے؟ ان کے مطالبے اور احتجاج پر جن صاحب کو مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملتا ہے، تھوڑے ہی دنوں میں وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس مقام تک پہنچنے میں عام مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے؟  وہ اسے اپنی ذاتی محنتوں کا ثمرہ سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ وہ اپنی محنت و صلاحیت سے  اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن ..... کیا ان کی اس کامیابی میں عام مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی عزت افزائی سے اگرعام مسلمان خوش ہوتے ہیں تو ان کی رسوائی سے عام مسلمان شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کسی مسلم طالب علم کے امتحانات میں نمایاں کامیابی پر، کسی مسلم افسر کی ترقی پر یا کسی سیاست داں کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اپنا سمجھنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ افسردگی اور شرمندگی کا سامنا اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ  انہیں  اپنا سمجھتے ہیں؟  دوسرا اور دِقت طلب حل یہ ہے کہ مسلمان کردار سازی پرتوجہ دیں۔ طلبہ پر محنت کریں اور  انہیں بچپن ہی سے اس بات کااحساس دلائیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ مسلمان جنہیں انسانیت کی فلاح کیلئے دُنیا میں امام بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر اس محاذ پر محنت کی گئی تو ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج ضرور برآمد ہوںگے۔n

Saturday, 15 June 2013

Advani hamdardi ke mustahiq nahi

اڈوانی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں
ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا
قطب الدین شاہد

نفرت کی سیاست کرنےوالے اور اس کے سہارے ’ترقی‘کی منزلیں طے کرنےوالے لال کرشن اڈوانی کیلئے یہ ہفتہ بہت ہی کربناک رہا ہوگا۔ بہت جلد وہ اپنے سیاسی انجام کو پہنچ گئے ..... ان کا جو انجام ہوا، یہ تو خیر ہونا ہی تھا  ، انصاف پسند عوام کواس کا انتظار بھی تھا لیکن یہ اتنی جلدی ہوگا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ملک اورعوام کوجو کچھ دیا ہے،  وہ  ایک ایک کرکےانہیںلوٹایا جا رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی  نے اس شعر میں اپنے بارے میں کہا تھا کہ:

 دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
 جو کچھ مجھے دیا ہے، لوٹا رہا ہوں میں

    اس کے مفہوم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اڈوانی اپنے بارے میں یہ کہہ کر تسلی کر سکتے ہیں کہ

دنیا کو فسادات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے میں نے، لوٹا رہی ہے وہ


    ملک کی تقسیم  کے وقت  ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات   سے لے کر بابری مسجد کی شہادت ،پھرگجرات میں مہینوں تک جاری رہنے والےفسادات میں لال کرشن اڈوانی  کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، کمیشن اورعدالتیں بھلے ہی انہیں مجرم ثابت نہ کریں یا نہ کرسکیں لیکن ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت   کے سامنے اڈوانی کا کردار پوری طرح واضح رہا ہے۔اڈوانی کے ساتھ ان کی پارٹی نے جو سلو ک کیا، وہ حق بجانب ہو یا نہ ہو...... لیکن  یہ بات اپنی جگہ پوری طرح درست ہے کہ وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔
     ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے وجود میں آنے والی آر ایس ایس سےایل کے اڈوانی کا تعلق زمانہ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی عمر سے۲؍ سال چھوٹے اڈوانی بہت جلد اپنی’ فعالیت اور سرگرمی‘ کے سبب اس تنظیم کے اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور  ۲۰؍ سال کی عمر میں انہیں کلیدی عہدہ  بھی تفویض کردیا گیا تھا۔  ۱۹۴۷ء کے اوائل میںیہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ، کراچی کے سیکریٹری منتخب ہوئے.... لیکن تنظیم کے منظور نظر اُس وقت ہوئے جب تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نےانہیں   الور،  راجستھان بھیجا۔ اُس وقت  دہلی اور پنجاب کی طرح الور میں بھی بھیانک قسم کا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
    لال کرشن اڈوانی صرف مسلمانوں کے خلاف پیش پیش نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔۲۲؍ جنوری ۱۹۹۹ء کو آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینس اپنے ۶؍ اور ۱۰؍ سالہ دو بچوں کے ساتھ جب اڑیسہ میں زندہ جلاد یئے گئے تھے، تو اس وقت  مرکز میں اڈوانی ہی وزیر داخلہ تھے۔ ۱۹۸۹ء میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تو یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت میں ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور رام مندر کے  نام پرپسماندہ طبقات کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی تھی ۔
    لال کرشن اڈوانی کا کارنامہ صرف  ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژکرنا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جب اور جہاں موقع ملا ہے، انہوں نے ’اپنوں‘ کے ساتھ بھی دغا بازی کی ہے اور ان کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔  شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو اڈوانی کو اپنے ساتھ رکھا۔  بی جے پی، جن سنگھ  اور جن سنگھ، آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ان کے نظریات اور پالیسی میں کسی قسم کا فرق تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن بظاہر اوراعلانیہ پالیسیوں کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سنگھ ، بی جے پی سے کہیں زیادہ سخت گیر تھی۔ اس کے مختلف عہدوں کو’ رونق‘ بخشتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں  اڈوانی اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے جو پہلا کام کیا، وہ جن سنگھ کے بانی رکن بلراج مدھوک کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اڈوانی اپنے علاوہ کسی اور لیڈرکو آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے تھے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے کئی چھوٹے موٹے مہروں کو آگے بڑھایا لیکن جب وہ آگے بڑھنے لگے تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا۔ کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا کسی زمانے میں ان کے معتمد خاص تھے اور انہی کی وجہ سے پارٹی سے نکالے بھی گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طبقے میں کلیان سنگھ ’مقبول ‘ہونے لگے تو اڈوانی کو خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ کلیان کے تعلق سے بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کی سوداگری کی تھی تو ذلیل و خوار ہونا اُن کا بھی مقدر ٹھہرا۔ آج وہ بی جے پی میں ضرور ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا اڈوانی کے دورِ صدارت  ہی میں پارٹی سے باہر کئے گئے تھے۔ اڈوانی  پرتنقید کی پاداش میں ۲۰۰۴ء میں اوما بھارتی کو بی جے پی سے دھتکارا گیاتھا جبکہ گجرات میں خودکو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش میں ۱۹۹۶ء میں واگھیلا اڈوانی کی سازشوں کے شکار ہوئے تھے۔ یہاں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام دودھ کے دھلے تھے اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی بلکہ ان کو بھی وہی ملا جس کے وہ حقدار تھے  اور ان کےساتھ بھی وہی ہوگا جو آج خود کو بہت بااختیار اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔   
     اڈوانی ذلیل ہوئے بھی تو کس کے ہاتھوں؟  وہی جسے دودھ پلا پلا کر انہوں نے توانا کیا تھا۔ گجرات فساد  میں مودی کے کردار پر کسی طرح کی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس فساد کو اتنا طول دینے میں اور اس قدر تباہ کن بنانے میںکس کا رول رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس وقت مودی کی پشت پرکس کا ہاتھ تھا اورانہیں کون شہ دے رہا تھا؟ اُس وقت لال کرشن اڈوانی مرکز میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم تھے۔
      اڈوانی کی اس حالت زار پر بعض حلقوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افسوس کااظہار کرنا غلط نہیں تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں  معصوم بنا کر پیش کرنا بالکل غلط بات ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا، جس کے وہ مستحق تھے۔

Monday, 20 May 2013

Nawaz shareef: Nayee subah, nayee ummeeden

نواز شریف کی کامیابی:اک نئی صبح کی دستک
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان  ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں پاکستانی قومی اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے،وہ غیر متوقع نہیں ہیں۔امید یہی تھی کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی البتہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ زرداری اینڈ کمپنی کا انجام اتنا براہوگا۔ ۲۷۲؍رکنی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ۱۲۴؍ نشستیں تنہا حاصل کرلیں جبکہ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اورعمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بالترتیب ۳۱؍ اور ۲۷؍ سیٹیں ہی ملیں۔۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی نے ۷۱؍ اور پاکستان  پیپلز پارٹی نے ۹۴؍سیٹیں حاصل کی تھیں۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس سے یہ اندازہ تو تھا ہی کہ زرداری حکومت کو  بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنا  پڑے گا۔
    اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ پڑوسیوں بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی سمت مثبت قدم بھی اٹھائیںگے۔ نتائج ظاہر ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
    پاکستا ن میں اقتدار کے تین مراکز ہیں، فوج، عدلیہ اورسیاست۔  اقتدار کی تبدیلی میں خفیہ ایجنسیاں بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہیں لیکن عام طو ر پر انہیںفوج کا  وفادارہی سمجھا جاتا ہے۔   نواز شریف کے مراسم ان تینوں مراکز سے کافی اچھے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب وہ فوج کے منظور نظر ہوا کرتے تھے، اسی وقت وہ خفیہ ایجنسیوں  سے بھی رابطے میں آئے۔ اِکا دُکا معاملات کوچھوڑ دیا جائے جن میں ان کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہوا، ورنہ عدلیہ سے بھی ان کے رشتے اچھے ہی رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھے وکیل ہیں، قانون جانتے ہیں لہٰذ عدالتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے ۳۷؍ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے بے پناہ  عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔  وزیراعظم بننے سے قبل وہ پنجاب کے۲؍ بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر انہیں ’شیرِ پنجاب‘ کہاجاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے  ۔ یہ مدت تین سال تک رہی ۔ ۱۹۹۶ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور دوتہائی اکثریت سے  نوازا ۔  اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں حلف برادری کے موقع  پر ۱۳؍ گھنٹے قبل ہی وہ میدان  بھر چکا تھا جہاں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ عزم کے پکے  اور مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔جو سوچتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران کے وقت ایسے ہی کسی  قائد کی ضرورت تھی۔
    پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب اقتدار کی منتقلی کو نئی صبح کیوں کہا جائے؟  اس سوال کا جواب جاننے سے قبل نواز شریف کی زندگی بالخصوص ان کے سیاسی کریئر کا سرسری مطالعہ کرناہوگا۔  یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بطور شوق یا کریئر بنانے کیلئے انہوں نے سیاست کا رخ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت آئے تھے اور اسے انہوں نے حاصل بھی کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ قومیائی گئی اپنی کمپنیوں کو سرکاری تسلط سے آزاد کرانا ۔
    نواز شریف کا تعلق ایک دولت مند گھرانے سے ہے، جس کا شمار موجودہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ملک تقسیم ہوا تو ان کے والد
 محمدشریف امرتسر سے لاہور ہجرت کرگئے جہاں ۱۹۴۹ء میں نواز شریف کی پیدائش ہوئی۔ان کا خاندان ’اتفاق گروپ‘ کا مالک ہے جس کے پاس بے شمار کمپنیاں ہیں، جن میں سے بیشتر اسٹیل کی ہیں۔  ۷۶۔۱۹۷۵ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب کمپنیوں کوقومیانے کا عمل شروع کیا تو ان کی کئی کمپنیاںبھی سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے نواز شریف  سیاست کا رخ کیا۔ اس وقت ان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہی تھا کہ حکومت  کی دستر س سے کس طرح اپنی کمپنیوں کو  آزاد کرایا جائے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل  غلام جیلانی خان گورنر منتخب ہوکر آئے تھے۔  جیلانی خان کوایک نوجوان تیز طرار شہری لیڈر چاہئے تھا جو انہیں نواز شریف کی صورت میں نظر آیا۔ جیلانی خان نے  فوری طور پر انہیں پنجاب کا وزیرمالیات مقرر کردیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ اس کے ایک سال بعد نواز شریف پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بنادیئے گئے، جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ اس طرح انہیں جنرل ضیاء کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اس قربت نے اتنا رنگ دکھایا کہ نہ صرف انہوں نے اپنی کمپنیاں آزاد کروالیں بلکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست بھی بن گئے۔ ضیاء الحق کے ساتھ ہی نواز شریف  اُس وقت کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی  کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے بھی بہت قریب رہے۔ 
    جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہوںنے قومی اسمبلی سمیت تمام ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب صرف اور صرف پنجاب میں نواز کی حکومت باقی رکھی تھی اور اسے مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ بیرون ملک سے بھی نواز شریف کے مراسم کافی اچھے ہیں ۔ ان کی اسٹیل کمپنیوں کا کاروبار سعودی عرب کے ساتھ  دیگر خلیجی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف سے جب ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے تو سعودی عرب کی مداخلت ہی سے نواز شریف کی جاں بخشی  ہوئی تھی ۔
    نواز شریف سے پاکستان کے ساتھ  ہی ساتھ پوری دنیا بالخصوص ہندوستان کو بہت توقعات ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے بلکہ معاشی سطح پر بھی پاکستان کوخوشحال بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اسی طرح  خارجہ پالیسی میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل وہ نواز شریف کا ہی دورِ حکومت تھا جب ۱۹۹۹ ء میں ہندوستان سے وہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا  جسے ’’لاہور اعلانیہ ‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دوران نئی دہلی سے لاہور کی بس سروس بھی شروع ہوئی تھی جس کے افتتاحی سفر میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہوتی اگر کارگل کا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا اور فوج کے ذریعہ نواز شریف کا تختہ نہ پلٹ دیاگیا ہوتا۔ بہرحال اب جب کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ  اس مرتبہ  نہ  صرف یہ کہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گےبلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیارکریں گے۔

Saturday, 4 May 2013

UPA hukumat na ahal ya khud sar?

یوپی اے حکومت نااہل یاخود سر؟

ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے نام ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ مثبت نہ سہی منفی ہی سہی، لیکن اس کے ذریعہ تاریخ میں بہرحال منموہن سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کام کاج کے اعتبار سے یہ سب سے نااہل حکومت ثابت ہوئی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ۹؍ برسوں میں موجودہ حکومت نے اوسطاً سالانہ  صرف ۳۲۱؍ گھنٹے کام کئے جبکہ پہلی لوک سبھا میں کام کرنے کا اوسط سالانہ  ۷۵۷؍ گھنٹے تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومت  واقعی نااہل ہے یا خود سری نے اس کا دماغ خراب رکھا ہے؟

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ موجودہ یوپی اے سرکار نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں سب سے کم کام کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔کم از کم تاریخ میں خود کے یاد رکھے جانے کا منموہن سنگھ حکومت نے ایک معقول انتظام توکر ہی لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی کبھی سب سے زیادہ گھوٹالے اور سب سے کم کام کرنے والی حکومت کی بات آئے گی، تو یوپی اے کا نام آسانی سے لیا جاسکے گا۔یوپی اے حکومت کا پہلا دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن دوسرا دور تو نہایت ہی افسوس ناک رہا جس میں کئی اجلاس ایسے گزرے جب کچھ بھی کام نہیں ہوا۔بلاشبہ اس کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن حزب اختلاف کے اس رویے کیلئے بھی بہرحال حزب اقتدار ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔
    اجلاس کا نہ چلنا،ایوان میں ہنگامہ آرائیوں کا بازار گرم ہونا، کارروائیوں میں بار بار خلل پڑنا،  پارلیمنٹ کا مچھلی بازار میں تبدیل ہونا اور پھر کاروبار سمیٹ کر دوسرے دن تک کیلئے  اجلاس کا معطل کیا جانا.... اور سب سے اہم یہ کہ اجلاس کا طلب ہی نہ کیا جانا......  یہ موجودہ حکومت کی  روایت اورایک شناخت رہی ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی نااہلی  ہے یا اس کی خود سری کی علامت؟ سرسری مطالعے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی خودسری ہے، وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو ضروری ہی نہیں سمجھتی۔  دراصل کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت مشورے میں یقین نہیں رکھتی، کسی مسئلے پر وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی.... حریف جماعتوں کی بات جانے دیں، وہ حلیف جماعتوںکو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح عوام کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہوتی ہے...... حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور یہ حقیقت سے زیادہ قریب لگتا ہے ۔دراصل حکومت کی خود سری نے   اسے ناہل بنا رکھا ہے اور اس کی اہم وجہ عوام کی خاموشی ہے۔اسے یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ عوام کی خاموشی نے حکومت کو خود سر بنا دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئی ہے۔
    دو ہفتے بعد یعنی۲۲؍مئی کویوپی اے دوم اپنی مدت کے۴؍ سال پورے کرلے گی۔اس پوری مدت میں حکومت نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔جمہوریت کے لبادے میں وہ ہر کام غیر جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا رویہ اچھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر حزب اقتدار نااہل، نکما اور خود سر ہے تو حزب اختلاف بھی کمزور، غیرذمہ دار اور موقع پرست ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ملک کے خزانے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی  بیشتر جماعتوں کو ملک  سے زیادہ  اپنی پارٹی کے مفاد کی فکر لاحق رہتی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیںاوراس کیلئے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھتی ہیں۔ مختلف گھوٹالوں کے موضوع پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایوان کی کارروائیوں کوروک کر سرکار کو’ پریشان‘ کرنے کا ڈھونگ کرتی ہیں اوراس طرح عوام کے روبرو خود کو ’ذمہ دار‘ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ باور کراکر کہ اپوزیشن کی ذمہ داری صرف ہنگامہ آرائی ہے، وہ خود کو بیوقوف ثابت کرتی ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوںسے عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور طشت میں سجا کر اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیںگے؟  اہم  اپوزیشن بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں  شاید اسی خوش فہمی  میں مبتلا ہیں لیکن سماجوادی اور آر جے ڈی جیسی جماعتیں بھی،جو اُٹھتے بیٹھتے کانگریس کے قصیدے پڑھتی ہیں، اسی خوش فہمی کی شکار ہیں۔ وہ بھی ’عوام کی حمایت‘ میں ایوان اور ایوان کے باہر کانگریس کی  پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب بات اُن پالیسیوں کے نفاذ کی آتی ہےتو یہ جماعتیں ڈرامائی انداز میں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔
    مطلب واضح ہے کہ اگرحکومت نااہل اور خود سر ہے تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے ۴؍ برسوں کے دوران ایوان کے۱۲؍ سیشن میں صرف  ۱۱۵۷؍ گھنٹے میں کام ہوا۔  اسی طرح گزشتہ لوک سبھا کے ۵؍ برسوں کے دوران بھی ایوان میں صرف۱۷۳۷؍ گھنٹے ہی کام ہوسکا تھا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ یو پی اے حکومت کے گزشتہ ۹؍برسوں کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں سب سے کم کام ہوا یعنی سالانہ صرف ۳۲۱؍ گھنٹے ۔ اس سےبہترتو واجپئی کا دور حکومت تھا جب ۵؍ سال میں ایوان نے۱۹۴۶؍ گھنٹے یعنی۳۸۹؍گھنٹے فی سال کام کیاتھا۔ یہ ۲۲؍ جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت تھی۔ پہلی لوک سبھا نے ۵؍ سال میں۳۷۸۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً ۷۵۷؍ گھنٹے سالانہ کام کیا تھا۔۹؍ویں، ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا جو  ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مستحکم سرکاریں تھیں، کام   کے  لحاظ سے منموہن حکومت سے زیادہ  ذمہ دار ثابت ہوئیں۔ ۹؍ ویں لوک سبھا میں جس میںوی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومتیں تھیں، ۱۶؍ مہینے میں ۷۵۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً سالانہ ۵۶۶؍ گھنٹے کام ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا  جو بالترتیب ۱۹؍ اور ۱۳؍ ماہ چلی تھی،اندر کمار گجرال، دیوے گوڑا اور واجپئی نے اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ ان دونوں لوک سبھا کی مدت میں باالترتیب ۸۱۴؍ اور ۵۷۵؍ گھنٹے یعنی اوسطاً   ۵۱۴؍ اور۵۳۰؍ گھنٹے سالانہ کام کاج ہوا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ مستحکم حکومت سے زیادہ بہتر وہ غیرمستحکم حکومتیں ہی تھیں جن کے دور میں پارلیمنٹ میں نسبتاًسنجیدگی زیادہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار پارلیمنٹ میں اجلاس کے انعقاد کے ہیں، کام کرنے کی نہیں۔ موجودہ حکومت کے ۹؍ برسوں میں  ۲۸۹۴؍ گھنٹوں تک اجلاس  چلا، لیکن ان میں سے کتنے گھنٹے ہنگاموں کے نذر ہوئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ رواں بجٹ اجلاس گزشتہ ۹؍ دنوںسے جاری ہے جس میں ابھی تک ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ٹھیک طرح سے چل نہیں سکی ہے ۔درمیان میں ایک دن اپوزیشن کی ’رضامندی‘ سے ان کے واک آؤٹ کے درمیان بحث کے بغیر حکومت نے چند مالیاتی بل ضرور منظور کرالئے تھے۔
    افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمان اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک آزاد ہونے کے ۶۵؍ سال بعد بھی بالغ نظری کا ثبوت پیش نہیں کرپارہی ہیں۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق پارلیمانی  امور کی کارروائی پر فی گھنٹے تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ معمول کے اخراجات ہیں، ان میں کرسیاں اور مائک توڑنے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
      اس کی وجوہات کیا ہیں؟آخر حکومت اجلاس کا انعقاد کیوں نہیں کرتی؟کیا  وہ اپوزیشن کےہنگاموں سے خوفزدہ ہے یا وہ ان اجلاس کو اہمیت ہی نہیںدینا چاہتی؟   اس کا جواب ہمیں حکومت سے نہیں بلکہ خود سے پوچھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری نمائندہ جماعتیں ہیں۔   اگر ہم اسے غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
n