Wednesday, 17 June 2015

Bhai Ramzaan baad
 بھائی رمضان بعد
ابھی رمضان شروع بھی نہیں ہوا کہ ہم نے کام بند کردیا اور کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ جس کسی سے کچھ کام کیلئے کہو تو جواب ملتا ہے کہ’بھائی رمضان بعد‘۔اسی طرح دکانوں پر دیکھو تو رمضان کی مناسبت سے خریداری بھی زوروں پر ہے۔ ہماری ان حرکتوں سے دیگر اقوام کے سامنے ہماری شبیہ بہت بری طرح خراب ہورہی ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں مسلمان کام کم کرتے ہیں لیکن کھاتے پیتے زیادہ ہیں۔
     اگر ایسا لوگ سوچتے ہیں تو شاید وہ غلط بھی نہیں کرتےحالانکہ یہ دونوں باتیں رمضان کی روح کے منافی ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کام نہ کرنا یا کام کم کرنے کا کوئی جوازہی نہیں بنتا۔    افسوس کی بات یہ ہے کہ کام کم کرنے کا جواز وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جو آرام دہ کاموں سے وابستہ ہیں۔  وہ لوگ جو بیچارے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں یعنی روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں، وہ اس طرح کی بہانے بازیاں نہیں کرتے۔
      دوران سفراکثر ایک انجینئرسے ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک دن  کہنے لگے کہ میں نے  ایک ماہ قبل ہی رمضان کی مناسبت سے ۱۰؍ رمضان سے عید کے ۵؍ دن بعد تک   ۲۵؍ دنوں کی چھٹی کیلئے اپلائی کردیا  ہے۔  میں نے کہا کہ چھٹی مل جائےگی؟ تو کہنے لگے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں مسلمان ذرا کم ہیں، اسلئے آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں  نے بتایا کہ یہ اُن کا ہر سال کا معمول  ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال سے وہ کمپنی سے وابستہ  ہیں اور ہر سال رمضان میں اسی طرح چھٹیاں لیتے  ہیں۔   انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان میں آغاز کے ۱۰؍ دنوں تک جب وہ آفس جاتے ہیں تو وہ کتنی بھی دیر سے  دفتر جائیں ،ان سے باز پرس نہیں ہوتی اوررات میں بھی جلدی چھٹی  مل جاتی ہے۔   میں نے کہا ، کیا یہ مناسب ہے؟ روزے آپ اپنے لئے رکھتے ہیں یا اپنی کمپنی کیلئے؟   اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، اس پرافسوس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب فائدہ مل رہا ہے، تو اٹھانے میں کیا حرج ہے؟‘‘یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ کم یا زیادہ ،اس طرح کا فائدہ بہت سارے لوگ اٹھارہے ہیں اور افسوس کہ اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتے۔  
    بلاشبہ رمضان  کے روزے عبادت  ہیںلیکن اس عبادت کا ایک مقصد بھی ہے۔ وہ یہ کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم اپنے اُن بھائیوں کا خیال رکھیں جو کسی وجہ سے بھوکے اور پیاسے رہنے پر مجبور ہیں اور پھران کی مدد کریں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی افادیت ہے کہ روزہ رکھنے سے پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے لیکن ہم جس طرح کھاتےپیتے ہیں، اس سے جہاں بھوکے پیاسے رہنے کی تکلیف کااحساس نہیں ہوتا، وہیں بیماریوں  سے نجات ملنے کے بجائے نئی بیماریوں کو دعوت بھی دے بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم اس  نکتے پر غور کریںگے؟
Ram dev ki maggie
رام دیو کی میگی
میگی پر جب شور شرابہ ہوا تو ایک لمحے کیلئے یقین نہیں آیا کہ یہ سچ بھی ہے۔ پہلے تو یہی محسوس ہوا کہ  اس طرح کی منفی تشہر خود نیسلے کی جانب سے کی جارہی  ہے، جسے بعد میں افواہ قرار دے دیا جائے گااور اس طرح ’میگی‘ کی ساکھ مزید مضبوط ہوجائے گی لیکن  ایسا نہیں ہوا۔  سرکار، سرکاری ادارے اور میڈیا نے ثابت کردیا کہ نیسلے کی میگی میں مضراثرات پائے جاتے ہیں ۔
    اس تعلق سےسرکار کی سنجیدگی اور دلچسپی دیکھ کر ایک بار پھر شبہ ہوا کہ کیا واقعی یہی سچ ہے جو حکومت اور میڈیا کے ذریعہ بتایا جارہا ہے۔  یہ بر سوں کے تجربے کا نتیجہ ہے کہ ہم ہندوستانیوں کا یقین کسی بات پر سے اُس وقت متزلزل ہونےلگتا  ہے جب اُس کے تئیں سرکار دلچسپی دکھانے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو نظر آرہا ہے، وہی سچ نہیں ہے بلکہ ’کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘۔
    میگی سےمتعلق بھی یہی گمان گزرا کہ کیا واقعی سرکار اس پر اسلئے کارروائی کررہی ہے کہ وہ انسانی صحت کیلئے مضر  ہے یا اور کوئی بات ہے؟ زیادہ عرصہ نہیں لگا جب سرکار کی سنجیدگی کاراز فاش ہوگیا۔  نیسلے کی میگی پر بعض ریاستوں میں پابندی لگتے ہی بی جے پی کے چہیتے بابا رام دیو کی کمپنی پتن جلی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ بہت جلد آیورویدک نوڈلس پیش کرنے والی ہے۔
      ویسے  رام دیو کی جانب سے  باقاعدہ اعلان ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پرطرح طرح کے سوالات کئے جانے لگے تھے۔ ہندوستانیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ آخر حکومت کو یہ ہو کیا گیا ہے کہ وہ عوام کی صحت کے تئیں اچانک فکر مند نظر آنے لگی ہے۔  وطن عزیز جہاں دھڑلے سے شراب، گٹکھا ، تمباکو اور دیگر نشیلی اشیاء  فروخت ہورہی ہیں،جس میں مضر اثرات کی موجودگی پر کسی کو شبہ نہیں ہے، وہاں’ میگی‘ کے تعلق سے اتنی چھان بین کیوں ہورہی ہے؟
    وطن عزیز جہاں  راشن کے نام پر سڑے گیہوں تقسیم کئے جاتے ہوں، مڈ ڈے میل کے نام پر طلبہ کو باسی کھچڑیاں کھلائی جاتی ہوں،  پینے کیلئے گھروں میں گندہ پانی سپلائی کیا جاتا ہو اور اسکولوںکی کمی کی وجہ سے بچوں کی ایک  بڑی تعداد حصول تعلیم سےمحروم ہو، وہاں اگر ’میگی‘ کا معیار جانچا جانے لگے تو شبہ ہونا لازمی تھا۔فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی آف انڈیا کی جانب سے اس طرح کی جانچ معمول کی بات ہوتی ہے مگریہ جس قدر شور شرابے سے ہوا، اس کی وجہ سے اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا لازمی تھا۔
     حیرت اس لئے بھی ہوئی کہ ’اچھے دنوں‘ کاوعدہ کرکےاقتدار  میں آنےوالی اس حکومت نے  عوام کیلئے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن اس کے وزیروں نے ایک  ہی سال میں شاہ خرچی کا وہ مظاہرہ کیا  کہ سابقہ حکومت کے وزیر ۱۰؍ سال میں بھی نہیں کرسکے تھے۔ ایسی حکومت کو اچانک عوام کی صحت کی فکر کیوں لاحق ہوگئی؟ بہرحال جلد ہی رام دیو کی میگی نے یہ معمہ حل کردیا
Shab e Barat aur dheenga mushti
شب ِ برأت اور دھینگا مشتی
کیا یہ باعثِ شرم اور افسوس کی بات نہیں کہ شبِ برأت کی آمد کے ساتھ ہی پو لیس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہیں سیکوریٹی بڑھانے نیز نظم و نسق کی بحالی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔کیا ہم اُن چند سرپھرے نوجوانوں کو نہیں روک سکتے جن کی وجہ سے پوری قوم کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کر اور دیکھ کر کہ یہ تمام نوجوان اپنی پوری’مسلمانی‘ شناخت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جنہیں  پولیس شرپسند کہہ کر پکارتی ہے۔ یہ نماز روزے کی پابندی کرنے والے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ صرف کُرتے ٹوپی  پہنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری ’مسلمانیت‘ اسی میں ہے۔  ان بیچاروں کو  یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اور ایک مسلم نوجوان کی حیثیت سے اُن کی کیا جواب دہی ہے۔
    یہ رات میں بائک  دوڑاتے ہیں ، بے مقصد دوڑاتے ہیں اور خوب تیز دوڑاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ان پر کم،ان کے والدین اوران کے محلوں کے بڑے بزرگوں پر زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ کیا ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے لخت جگر کو بیہودگیوںسے باز رکھیں۔ اپنا نہیں تو کم از کم اپنی قوم کا خیال رکھیں کہ ان کی وجہ سے پوری قوم  بدنام ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بچوں پر ان کا کنڑول نہیں ہوتا ،  سچ تو  یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  یہ سب جانتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی کمائی  پر نہیں بلکہ ’جیب خرچ ‘کے بل بوتے پر یہ خرمستیاں کرتے ہیں۔ اسلئے تمام تر جواب دہی والدین پر ہی عائد ہوتی ہے۔
    ان شرپسندوں پر قابو پانے کیلئے محلے کے بڑے بزرگوںکو بھی  اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔  یہ کہہ کر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ وہ اپنے باپ کی بات نہیں سنتے تو ہماری کیا سنیںگے؟ اس طرح کی حرکتیں کون لوگ کرتے ہیں، محلے کے افراد ان سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی بدمعاشیوں سے صرف ان  بچوں کی شبیہ خراب نہیں ہوتی بلکہ وہ محلہ بھی بدنام ہوتا ہے اوراخیر میں پوری قوم پر تان ٹوٹتی ہے کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ان کے والدین پر انہیں دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو قابو میں رکھیں۔
    مسلمانوں کی اپنی علاحدہ شناخت ہر زمانے میں رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم  اچھے کردار کیلئے جانے پہچانے جاتے تھے لیکن آج برے کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔ وہ دن گئے جب ہماری  پہچان کاروبار میں ایمانداری،لین دین میںپاسداری، دیانتداری، اخلاقیات کا پاس رکھنے والے،والدین کی خدمت کرنیوالے، بڑے بزرگوں کی عزت کرنیوالے، صاف صفائی رکھنے والے، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کرنیوالے، عبادت گزار اور  ہر کسی کا لحاظ کرنیوالے افراد کی شکل میں ہوتی تھی۔افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ افسوس یہ کہ ہم اپنی اس   خراب شبیہ کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں؟
Naseehat aasan, amal mushkil
نصیحت آسان، عمل مشکل
دوسروں کو نصیحت کرنا جتناآسان ہوتا ہے، اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اس پر خود عمل کرنا۔ ہمارے یہاں یہی ایک چیز تو ہے جو مفت فراہم کی جاتی ہے اور نہایت فراخ دلی سے کی جاتی ہے۔ نصیحت کرنا برا نہیں ہے مگر یہ انہیںقطعی زیب نہیں دیتا جو خود اس پر عمل نہ کرتے ہوں۔
     صورتحال یہ ہے کہ ہم پوری دنیا کے درد میںشریک ہوتے ہیں لیکن اپنے آس پاس نہیں دیکھتے۔ ہمیں روہنگیائی مسلمانوں کا غم ستا رہا ہے، ہمیں فلسطینیوں کی تکالیف بھی سمجھ میں آتی ہیں۔ شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا اور اس طرح ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور پریشان حال ہیں، انہیں دیکھ کر ہم بھی نوحہ   کرتے ہیں۔ہم نہ صرف ان کی پریشانیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انہیں لعن طعن بھی کرتے ہیں جو اِ ن مسلم بھائیوں کی پریشانیوںکا سبب بنتے ہیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہم میں سے بعض تو اس قدر ’جذباتی‘ ہو اُٹھتے ہیں کہ مسلم ممالک کے خلاف  دھواں دھار تقریریں بھی کرتے ہیں کہ وہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟  کیوں نہیںاسرائیل اور امریکہ کی اینٹ سے اینٹ  بجا دیتے؟ اور پھر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں گے؟  وہ سب تو کافر وںاور یہودیوں کے ایجنٹ  ہیں لیکن  ہم میں سے بیشتراپنے عمل کا جائزہ  لینا ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور یہ کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم پر یہ الزام سچ  ہی ہے کہ ہم پوری دنیا میںاسلامی حکومت چاہتے ہیں لیکن خود پر اسلامی قانون کا نفاذ نہیں چاہتے۔
    گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست نے وہاٹس ایپ پر ایک میسیج بھیجا۔یہ پیغام ہمارے سماج کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔  وہ میسیج آپ بھی ملاحظہ کرلیں۔ ’’ گزشتہ دنوں  دوران ِگفتگو میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور بین الاقوامی سیاستدانوں کی پالیسی اور  بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے ایک صاحب کافی آنسو بہا رہے تھے۔ آج انہی صاحب کا فون آیا تو کسی اولڈ ایج ہوم کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ’اماں کی روزانہ کی پک پک  سے عاجزآ گیا ہوں۔ سوچتا ہوں انہیں کسی اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آؤں تو کچھ راحت ملے۔‘  میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جو شخص اپنی ماں کو  اپنے گھر میں برداشت نہیں کرپارہا ہے، اسے کیا حق ہے کہ وہ روہنگیا  ئی مسلمانوں کے تعلق سے ملائیشیا اوردیگر ملکوں پر تنقید کرتا پھرے کہ وہ انہیں پناہ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
    یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ ہمارا سماج  اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لوگ خود اچھا بننے کی کوشش نہیں کرتے لیکن دوسروں کو اچھا بنانا چاہتے ہیں اور نہ بننے پر تنقید بھی کرتے ہیں۔  بات اخلاقیات کی ہو یا معاملات کی، ہماری انگلیاں ہمیشہ دوسروں کی جانب   ہی اٹھتی ہیں مگر ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ذراسا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کسی پر تنقید کرتے وقت ہم اگر صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ اس کی جگہ پر ہم ہوتے تو کیا کرتے تو شاید ہماری کچھ اصلاح  ہوسکے۔
Bhiwandi railway Station
بھیونڈی ریلوے اسٹیشن
عام طور پر ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ آس پاس ہی ہوتے ہیں تاکہ بس سے اتر کر مسافر ٹرین کا سفر کرسکیں اور ٹرین سے اتر کر بس کے ذریعہ ان جگہوں پر پہنچ سکیں جہاں تک ٹرین کی رسائی نہیں ہے  لیکن۱۵؍ لاکھ سے زائد کی آبادی والے شہر بھیونڈی میں ایسا نہیں ہے۔یہاں  ایس ٹی اسٹینڈ سے ریلوے اسٹیشن  کے درمیان ۳؍ تا۴؍ کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ کسی بھی شہر کی ترقی میں ریلوے اسٹیشن کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے لیکن بھیونڈی کو اس کاکچھ فائدہ  ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔   سچ تو یہ ہے کہ یہاں کی ایک بڑی آبادی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ اس کے شہر میں ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔
    عروس البلاد ممبئی سے بھیونڈی کا صرف کاروباری تعلق نہیں ہے بلکہ سماجی، سیاسی اور تعلیمی بھی ہے ۔ اس کی وجہ سے روزانہ ہزاروں افراد بھیونڈی سے ممبئی کا سفر کرتے ہیںلیکن  زیادہ تر بس کے ذریعہ تھانے یا کلیان جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ممبئی کا رخ کرتے ہیں۔ بھیونڈی ریلوے اسٹیشن پر اگر تھوڑی سی توجہ دے دی جائے تو شہر میں ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔  اسٹیشن کو مفید بنانے اور شہریوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر یوں تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن ترجیحی بنیاد پر اگر۲؍ امور پر توجہ دی دے جائے تو شہریوں کوفوری طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔  
    اس وقت دہانو پنویل  روٹ پر صبح پانچ بج کر ۵۱؍ منٹ سے رات ۷؍ بج کر۴۹؍ منٹ تک چلنےوالی ۱۴؍ ایسی ٹرینیں ہیں جو بھیونڈی اسٹیشن سے ہوکر گزرتی ہیں   اور یہاں رکتی ہیں۔ اسٹیشن سے شہر کے اندر جانے کیلئے تمام تر پریشانیوں کے باوجود وسئی ، بوریولی اور میرا روڈ سے لے کر پنویل ، تلوجہ اور ڈومبیولی کے ہزاروں مسافر روزانہ  یہاں اُترتے ہیں۔
    اسٹیشن کو بھیونڈی والوں کیلئے کار آمد بنانے کی سمت پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ بس ڈپو سے اسٹیشن کیلئے ایک بس سروس کا آغاز کیا جائے جو ریلوے کے ٹائم ٹیبل کی مناسبت سے چلے ۔ یہ بس مسافروں کو اسٹیشن سے شہر تک اور شہر سے اسٹیشن تک پہنچائے۔   یہ بہت مشکل کام نہیں ہے اور نہ ہی اس کیلئے حکومت کو بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایس ٹی ڈپارٹمنٹ سے اگر بات نہیں بنے تو اس کام کا آغاز کارپوریشن بھی  کرسکتا ہے۔  مسافروں کیلئے رکشا کافی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ ایس ٹی سے اسٹیشن پہنچنے کیلئے تین مسافروں کو ۹۰؍ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کتنا مہنگا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وسئی سے آنے والے کچھ مسافر بھیونڈی میں اترنے کے بجائے کلیان جاتے ہیں،  پھروہاں سے بھیونڈی آتے ہیں ۔
    دوسرا کام یہ ہے کہ ٹرین کی فریکوینسی بڑھائی جائے تاکہ ممبئی کا سفر کرنےوالے تھانے اور کلیان کے بجائے بھیونڈی اسٹیشن سے استفادہ کرسکیں۔کیا ہمارے  سیاستداں اور سماجی کارکنان اس سمت غور کریںگے؟
Shadi aur barat
شادی اور بارات
شادیوںکا سیزن چل رہا ہے۔ اس سیزن میں باراتیوں کی خوب دھوم ہوتی ہے۔  بارات جانے والوں میں سے بیشتر ایسے ہیں جواُس دن اپنا مزاج تبدیل کرلینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ گھر میں کچھ بھی اور کیسا بھی کھاتے ہوں لیکن بارات کے کھانے میں عیب نکالنا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ صرف کھانا ہی نہیں کھاتے بلکہ کھانا کھانے سے زیادہ میزبان پر رعب جماتے ہیں۔ یہ کم ہے، وہ کم ہے،  یہ چیز اچھی نہیں ہے، وہ اچھی نہیں ہے،  بوٹی اچھی نہیں ہے،سالن پتلا ہے، چاول موٹا ہے، روٹی سوکھ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔  وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کل اُن کے یہاں یا ان کے کسی عزیز کے یہاں بھی بارات آئے گی اور تب اُن کی جگہ کچھ دوسرے لوگ بالکل اسی طرح اُن کے سینے پر مونگ دَلیںگے، جس طرح وہ آج دَل رہے ہیںلیکن وہ ایسا نہیں سوچتے کیونکہ انہیں اپنا کوئی عمل برا نہیں لگتا۔
      افسوس کی بات ہے کہ لڑکے والےلڑکی والوں سے اجازت نہیں لیتے بلکہ حکم دیتے ہیں کہ ہم  ۲۰۰؍ یا ۳۰۰؍ افراد آئیںگے۔ بعض تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیںکہ بارات میں ۵۰۰؍ افراد کو لے کر جاتے ہیں لیکن اپنے یہاں ولیمہ میں دو ڈھائی سو افراد  ہی کو دعوت دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ولیمہ بہت شان و شوکت سے کیا جائے اور بہت بڑی دعوت کی جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے مہمانوں کو خود کھلانے کی طاقت نہ ہو تو دوسرے کے سر منڈھ دیا جائے۔   یہ ہمارے سماج کا کمزور پہلو ہے کہ شادی  کے اس پورے عمل میں لڑکی والے شروع ہی سے دباؤ میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چوں چراں نہیں کرپاتے۔ لڑکے والوں کی شرائط کو تسلیم کرلینا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔
    گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں لڑکے والوں نے لڑکی والوں سے ’استدعا‘ کی تھی کہ شادی جب بھی ہو، وہ پیر کا دن ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس مارکیٹ میں اس کی دکان ہے، وہ پیر کو بند رہتی ہے۔اس کی یہ ’درخواست‘ اسلئے تھی کہ اس کی مارکیٹ کے تمام افراد اس کی شادی میں شریک ہوسکیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ولیمہ پیر کو کرتے لیکن اس صورت میں خرچ کا بار اُن کی جیب پر آتا۔
    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا یہ بے غیرتی صرف اُن کی ہے، جو بارات لے کر جاتے ہیں؟ کیا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے جو بارات میں شریک ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کی دعوت میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کوئی اپنے گھر کھلانے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر جاکر کھانے کی دعوت دے تو اسے کیوں قبول کیا جائے؟ کیا ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ کر ایسی دعوتوں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کرسکیں کہ بھائی، جب آپ کو اپنے یہاں کھلانے کی طاقت ہو جائے گی تو آپ ضرور دعوت د یجئے گا، ہم ضرور حاضر ہوں گے لیکن برائے مہربانی حلوائی کی دکان پر   دادا جی کا فاتحہ نہ کیجئے۔
Trainon men choriyan
 ٹرینوں میں چوریاں
گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے ان دنوں طویل مسافتی ٹرینوں میں کافی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے۔ جنرل بوگیوں کی بات جانے دیں، سلیپر کلاس اور تھرڈ اے سی میں بھی ویٹنگ لسٹ والے مسافروں کی کثرت ہوتی ہے۔ بھیڑ بھاڑ کے حوالے سے شمالی ہند کی ٹرینیںپہلے ہی سے بدنام ہیں لیکن اس وقت جنوبی ہند کی ٹرینوں میں بھی نشستوں کے مقابلے مسافروں کی تعداد دُگنی ہوتی ہے۔  ایک وقت تھا جب بھیڑ کی وجہ سے چوریاں کم ہوتی تھیں لیکن آج کے چور اسی بھیڑ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔  اس کی ۲؍ اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ ٹرین میں سیکوریٹی کے نام پر کچھ بھی انتظام نہیں ہوتا۔  اس سلسلے میں تمام وزیر برائے ریلویز صرف بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں، سریش پربھو بھی اپنے سابقہ پیش روؤں کی تقلید کررہے ہیں۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ ارباب اقتدار کی نظر میں راجدھانی ، شتابدی اور دورنتو کے علاوہ دیگر ٹرینوں کے مسافروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ان کی نظر کرم فرسٹ اے سی سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔   ایک دو حوالدار پوری ٹرین میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کے آنے سے مسافروں کو راحت کم، خوف زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ریلوے میں تعینات بیشتر حوالداروں کی توجہ مسافروں کی سیکوریٹی پر کم، اپنی ’اوپر‘ کی آمدنی پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے چوروں کے حوصلے کافی بلند رہتے ہیں۔مسافروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ چوروں سے ان کی سانٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔چوری کی دوسری بڑی وجہ ٹکٹ حاصل کرلینے  والے مسافروں کی رعونت ہوتی ہے۔   ۲۰؍ سے ۴۰؍ گھنٹے تک ایک ساتھ سفر کرنے والے مسافروں میں اتنی تلخی ہوتی ہے کہ سیزن کے دنوں میں ٹکٹ حاصل کرلینے والےمسافر دوسرے مسافروں کو اپنی سیٹ پر بیٹھنے تک کی اجازت نہیں دیتےجس کی وجہ سے چوری کرنے والوں کو بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔
    گزشتہ دنوں حیدرآباد سے ممبئی کی واپسی پر  گلبرگہ سے رات میں ڈیڑھ بجے ٹرین آگے بڑھی تو سیٹ حاصل کرلینے والے مسافروں میں سے بیشتر کے خراٹے گونجنے لگے۔ ایسے میں دو تین مشتبہ چور بوگی میں گھومتے دیکھے گئے لیکن اس بات کا پتہ بعد میں چلا کہ کچھ لوگوں نے انہیں گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔ شولا پور پہنچنے سے قبل ایک جگہ ٹرین رکی تو چور کا ایک ساتھی  دروازہ کھول کر گیٹ پر کھڑا ہوگیا اور پھر جیسے ہی ٹرین  آگے بڑھی، وہاں سیٹ نمبر ایک اور ۸؍ پر بے خبر سونے والے مسافروں کے بیگ لے کر اس کے دونوں ساتھی ٹرین سے کود گئے۔ پھر شور شرابہ ہوا لیکن تب تک ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی۔ بے خبر سونے والے مسافر اگر اپنی سیٹوں پر تھوڑی سی جگہ کی گنجائش نکال لیتے تو گیلری میں بیٹھے مسافر نہ صرف ان کے ممنون رہتے بلکہ رات بھر ان کے سامان کی نگرانی بھی کرتے  ۔کیا یہ نہیں ہوسکتا؟