Wednesday, 17 June 2015

Bihar men Janta parivar k ittehaad se bhagwa taqton ki neend haraam

بہار میںجنتا پریوار کے اتحاد سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام

نتیش کمار کی مسلسل کوششوں  اور لالو پرساد کی دور اندیشی نے بہار میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔  بی جے پی کو لگتا تھا کہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کی لڑائی میں وہ بہ آسانی پٹنہ پر قابض ہوجائے گی لیکن اب بہار اسمبلی پر بھگوالہرانے کا خواب تو دور کی بات ، موجودہ نشستوں کو بچاپا نا بھی اس کیلئے محال ثابت ہوگا۔    اسے خوف اس بات کا ہے کہ اس کے نتائج صرف بہار تک ہی محدود نہیںرہیںگے بلکہ اس کے  اثرات ملک گیر ہوںگے

قطب الدین شاہد
 
لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی  سے اس کے لیڈروں کے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے تھے۔ حالانکہ  یہ بات بی جے پی اور اس کے حامی بھی  بہت اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی  کارکردگی اور شبیہ کی وجہ سے یہاں تک نہیں پہنچی ہے اور نہ ہی یہ اس کے سیاسی فلسفے کی کامیابی ہے۔اس کامیابی کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ کانگریس کا مسلسل ۱۰؍ سالہ اقتدار تھا، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر اسے کافی ناراضگی کا سامنا  تھا۔عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ علاوہ ازیں کانگریس کی بہت ساری کمزوریاں اورخامیاں بھی تھیں ،جس نے عوام کو اس سے دور کردیا تھا۔  ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کا ایک بڑا طبقہ اس مرتبہ مودی کا حامی تھا۔ اس نے مودی کی تشہیر پردل کھول کر خرچ کیا۔  یہ اسی تشہیر کا نتیجہ تھا کہ بی جے پی بالخصوص مودی کو عوام کے ایک بڑے طبقے نے نجات دہندہ تسلیم کرلیا تھا۔ اپوزیشن بری طرح منتشر تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو کافی فائدہ ہوا۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر بی جے پی کے تئیں ایک سیاسی ہمدردی بھی تھی کہ ایک باراسے بھی موقع دیا جانا چاہئے اورکچھ حد تک ہندوتوا وادی طاقتوں کا اتحاد تھا کہ اگر اس مرتبہ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکے تو پھر آئندہ بہت مشکل ہوگی۔ اس کے باوجود  بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں صرف ۳۱ء۳۴؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔
     اس طرح کئی وجوہات نے بی جے پی کو اقتدار کی منزل تک پہنچا دیا تھا لیکن اب وہ حالات باقی نہیں رہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بڑی تیزی   کے ساتھ تبدیل ہوچکی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بھلے ہی اچھی رہی ہو لیکن  یوپی اوربہار کے ضمنی انتخابات میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور دہلی کے اسمبلی الیکشن میں تو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لوک سبھا انتخابات کے فوراً  بعدہونے والے بہار کے ضمنی الیکشن میںبی جے پی کو ۱۰؍ میں سے صرف ۴؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ اِس  میں اُس کی ۶؍ سیٹیں تھیں اور ان میں سے ۵؍ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔   یوپی میں تو اور بری دُرگت ہوئی ۔ یہاں ۱۱؍ میں سے بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا  جبکہ یہ تمام کی تمام سیٹیںاسی کی تھیں اوراستعفیٰ دینے والے تمام اراکین اسمبلی لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج بی جے پی کو اس کی اوقات بتانے کیلئے کافی تھا جس میں  اسے ۷۰؍ میں سے صرف ۳؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ ایک سال قبل اسے ۳۲؍ سیٹیں ملی تھیں اور لوک سبھا الیکشن میں پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر اسی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے۔
    مطلب بالکل صاف ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے حق میں اب  وہ لہر نہیں ر ہی جو کچھ دن قبل اپوزیشن کو بہا لے گئی تھی۔ اب تو  اس کے حامی بھی  بی جے پی کی سحر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ایک ہی سال میں بی جے پی کا طلسم بری طرح ٹوٹ گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ داؤد ابراہیم، پاکستان، گنگا کی صفائی، رام مندر، دفعہ ۳۷۰؍ یکساں سول کوڈ اور ۵۶؍ انچ کے سینے کی بات آتی ہے تو اس کے سخت گیر حامی بھی نظریں جھکا لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کالا دھن کی واپسی اور ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کے ملنے کی لالچ میں  بی جے پی کےقریب گئے تھے اور وہ جو اچھے دن کا انتظار کرتے کرتے اب بری طرح تھک چکے ہیں ، وہ بھی مودی حکومت کو کوس رہے ہیں۔  بی جے پی اراکین پارلیمان کے شاہی خرچ اور مودی کے مسلسل بیرون ملک دوروں سے بھی ایک بڑا طبقہ نالاں ہوچکا ہے۔  ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ اراکین پارلیمان نے محض ایک سال میں اپنے اوپر اتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ یوپی اےسرکار کے ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان، من کی بات  اور یوگا دِوس کے نام پر ہونے والی غیرضروری تشہیر کو بھی لوگ سمجھنے لگے ہیںکہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ’گجرات ماڈل‘ کی وجہ سے بی جے پی اور مودی  کے قریب جانے والے بھی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی ،گری راج سنگھ اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈروں کے سطحی اور فرقہ پرستانہ بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔
     آئیے دیکھتے ہیں کہ بہار کی سطح پر سیاسی صورتحال کیا ہے؟ اور اعداد و شمارکیا کہتے ہیں؟  ۲۰۱۴ء کےلوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ۲۹ء۸۶؍ فیصدہی ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹیں کافی زیادہ ہوگئی تھیں۔ اسے نصف سے زائد یعنی ۴۰؍ میں سے ۲۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں۔ بی جے پی کی اتحادی  جماعت  رام ولاس پاسوان کی  ایل جے پی کو ۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۶؍ سیٹیں ملی تھیں ۔اس الیکشن میں آر جے ڈی  اور جے ڈی یو کو بالترتیب ۴؍ اور ۲؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں لیکن ان کے ووٹوں کا تناسب بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۱۶ء۰۴؍ فیصد تھا جبکہ ۸ء۵۶؍ فیصد ووٹوںکے ساتھ کانگریس کو ۲؍  اور این سی پی کو ایک سیٹ ملی تھی۔ اس کے ووٹوں کا تناب ۱ء۲۲؍ فیصد تھا۔
      یہ اُس وقت کی بات تھی جب میڈیا کی مدد سے پورے ملک میں مودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔  اس سحر سے بہار بھی آزاد نہیں تھا   ۔ بی جے پی کیلئے ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ اپوزیشن بری طرح بکھرا ہوا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مانجھی اور پپو یادو جیسے لوگ وابستہ ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے بی جے پی کو کچھ  زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس وقت مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کے گراف میں کافی کمی آئی ہے ۔  بی جے پی کیلئے بہار، یوں بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کے نام پرسبھی متفق ہوسکیں یا اس میں عوام کو اپنی جانب کھینچنےکی صلاحیت ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ ریاستی الیکشن ہے جس کے موضوعات لوک سبھا کے مقابلے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر لوک سبھا میں ملنے والے ووٹوں کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو  بی جے پی اور ایل جے پی کو ۳۶ء۳۶؍ فیصد ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس، این سی پی اور سی پی ایم کے کھاتے میں ۴۷ء۳۵؍ فیصد ووٹ آسکتے ہیں۔اس واضح فرق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کیا نتائج ہوںگے ؟ ہم جانتے ہیں کہ ایک دو فیصد ووٹوں کے بھی اِدھر اُدھر ہوجانے سے سیٹوں میں کافی فرق آجاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال بہار کی موجودہ اسمبلی کا انتخابی نتیجہ ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں  جے ڈی یو کو ۲۲ء۵۸؍ فیصد ووٹوں کی بدولت ۱۱۵؍ سیٹیں مل گئی تھیں جبکہ آر جے ڈی کو تھوڑا ہی کم یعنی ۱۸ء۸۴ء فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹوں کی تعداد محض ۲۲؍ تھی۔
    اس بار لالو اور نتیش کا پلڑا بھاری  رہنے کا امکان اس لئے بھی ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران نامواقف حالات میں بھی لالو کی پارٹی کے امیدوار تقریباً ۱۴۵؍ اسمبلی نشستوں پر اول اور دوم پوزیشن پر تھے جبکہ اس مقام پر نتیش کی پارٹی کے ۴۳؍ امیدوار تھے۔  اب جبکہ حالات پوری طرح سے مواقف ہیں،۱۹۰؍سیٹیں تو مل ہی سکتی ہیں۔ ایک جانب جہاں بی جے پی  بڑی تیزی سے  زوال پزیر ہے وہیں اتحاد کی وجہ سے جنتاپریوار کے اراکین کے ساتھ ہی سیکولر رائے دہندگان بھی پُرجوش ہیں۔اس اتحاد کیلئے یقیناً ملائم سنگھ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہار میں حالانکہ ان کی سماجوادی پارٹی کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ،بالکل اسی طرح، جس طرح آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا یوپی میں کچھ نہیں ہے ، اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس اتحاد  سے دونوں ریاستوں میں سیکولر ووٹروں کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔
    اس اتحاد کیلئے لالو پرساد نے یقیناًقربانی دی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب کانگریس کے ساتھ نتیش کمار اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ لالو کے اس مدبرانہ اور دوراندیشانہ فیصلے نے ان کے سیاسی قد کو مزید بلند کردیا ہے۔ ویسے بھی بہار کی سطح پر نتیش کے مقابلے لالو عوام میں زیادہ مقبول رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ووٹ بھی زیادہ ملتے رہے ہیں۔ صرف ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن کو چھوڑ دیا جائے تو آج تک جتنے بھی انتخابی نتائج ظاہر ہوئے ہیں،اس میں لالو کا ہی پلڑا بھاری رہا ہے۔ فروری ۲۰۰۵ء میں جے ڈی یو کو ۱۴ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ آر جے ڈی کو ملنےوالوں ووٹوں کاتناسب ۲۵ء۰۷؍ فیصدتھا۔ کوئی سرکار نہیں بن سکی تو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں پھر انتخابات ہوئے جس میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۲۳ء۴۵؍ فیصد ووٹ ملے۔ اس سے قبل یعنی ۲۰۰۰ء کے انتخابی نتائج میں نتیش کمار کی پارٹی کو صرف ۶ء۴۷؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ لالو کی پارٹی کو ۲۸ء۳۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو نتیش کی قیادت کو قبول کرکے لالو نے تاریخی قدم اٹھایا ہے، اس قربانی کا صلہ انہیں یقیناً ملے گا۔
Bhai Ramzaan baad
 بھائی رمضان بعد
ابھی رمضان شروع بھی نہیں ہوا کہ ہم نے کام بند کردیا اور کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ جس کسی سے کچھ کام کیلئے کہو تو جواب ملتا ہے کہ’بھائی رمضان بعد‘۔اسی طرح دکانوں پر دیکھو تو رمضان کی مناسبت سے خریداری بھی زوروں پر ہے۔ ہماری ان حرکتوں سے دیگر اقوام کے سامنے ہماری شبیہ بہت بری طرح خراب ہورہی ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں مسلمان کام کم کرتے ہیں لیکن کھاتے پیتے زیادہ ہیں۔
     اگر ایسا لوگ سوچتے ہیں تو شاید وہ غلط بھی نہیں کرتےحالانکہ یہ دونوں باتیں رمضان کی روح کے منافی ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کام نہ کرنا یا کام کم کرنے کا کوئی جوازہی نہیں بنتا۔    افسوس کی بات یہ ہے کہ کام کم کرنے کا جواز وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جو آرام دہ کاموں سے وابستہ ہیں۔  وہ لوگ جو بیچارے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں یعنی روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں، وہ اس طرح کی بہانے بازیاں نہیں کرتے۔
      دوران سفراکثر ایک انجینئرسے ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک دن  کہنے لگے کہ میں نے  ایک ماہ قبل ہی رمضان کی مناسبت سے ۱۰؍ رمضان سے عید کے ۵؍ دن بعد تک   ۲۵؍ دنوں کی چھٹی کیلئے اپلائی کردیا  ہے۔  میں نے کہا کہ چھٹی مل جائےگی؟ تو کہنے لگے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں مسلمان ذرا کم ہیں، اسلئے آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں  نے بتایا کہ یہ اُن کا ہر سال کا معمول  ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال سے وہ کمپنی سے وابستہ  ہیں اور ہر سال رمضان میں اسی طرح چھٹیاں لیتے  ہیں۔   انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان میں آغاز کے ۱۰؍ دنوں تک جب وہ آفس جاتے ہیں تو وہ کتنی بھی دیر سے  دفتر جائیں ،ان سے باز پرس نہیں ہوتی اوررات میں بھی جلدی چھٹی  مل جاتی ہے۔   میں نے کہا ، کیا یہ مناسب ہے؟ روزے آپ اپنے لئے رکھتے ہیں یا اپنی کمپنی کیلئے؟   اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، اس پرافسوس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب فائدہ مل رہا ہے، تو اٹھانے میں کیا حرج ہے؟‘‘یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ کم یا زیادہ ،اس طرح کا فائدہ بہت سارے لوگ اٹھارہے ہیں اور افسوس کہ اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتے۔  
    بلاشبہ رمضان  کے روزے عبادت  ہیںلیکن اس عبادت کا ایک مقصد بھی ہے۔ وہ یہ کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم اپنے اُن بھائیوں کا خیال رکھیں جو کسی وجہ سے بھوکے اور پیاسے رہنے پر مجبور ہیں اور پھران کی مدد کریں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی افادیت ہے کہ روزہ رکھنے سے پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے لیکن ہم جس طرح کھاتےپیتے ہیں، اس سے جہاں بھوکے پیاسے رہنے کی تکلیف کااحساس نہیں ہوتا، وہیں بیماریوں  سے نجات ملنے کے بجائے نئی بیماریوں کو دعوت بھی دے بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم اس  نکتے پر غور کریںگے؟
Ram dev ki maggie
رام دیو کی میگی
میگی پر جب شور شرابہ ہوا تو ایک لمحے کیلئے یقین نہیں آیا کہ یہ سچ بھی ہے۔ پہلے تو یہی محسوس ہوا کہ  اس طرح کی منفی تشہر خود نیسلے کی جانب سے کی جارہی  ہے، جسے بعد میں افواہ قرار دے دیا جائے گااور اس طرح ’میگی‘ کی ساکھ مزید مضبوط ہوجائے گی لیکن  ایسا نہیں ہوا۔  سرکار، سرکاری ادارے اور میڈیا نے ثابت کردیا کہ نیسلے کی میگی میں مضراثرات پائے جاتے ہیں ۔
    اس تعلق سےسرکار کی سنجیدگی اور دلچسپی دیکھ کر ایک بار پھر شبہ ہوا کہ کیا واقعی یہی سچ ہے جو حکومت اور میڈیا کے ذریعہ بتایا جارہا ہے۔  یہ بر سوں کے تجربے کا نتیجہ ہے کہ ہم ہندوستانیوں کا یقین کسی بات پر سے اُس وقت متزلزل ہونےلگتا  ہے جب اُس کے تئیں سرکار دلچسپی دکھانے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو نظر آرہا ہے، وہی سچ نہیں ہے بلکہ ’کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘۔
    میگی سےمتعلق بھی یہی گمان گزرا کہ کیا واقعی سرکار اس پر اسلئے کارروائی کررہی ہے کہ وہ انسانی صحت کیلئے مضر  ہے یا اور کوئی بات ہے؟ زیادہ عرصہ نہیں لگا جب سرکار کی سنجیدگی کاراز فاش ہوگیا۔  نیسلے کی میگی پر بعض ریاستوں میں پابندی لگتے ہی بی جے پی کے چہیتے بابا رام دیو کی کمپنی پتن جلی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ بہت جلد آیورویدک نوڈلس پیش کرنے والی ہے۔
      ویسے  رام دیو کی جانب سے  باقاعدہ اعلان ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پرطرح طرح کے سوالات کئے جانے لگے تھے۔ ہندوستانیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ آخر حکومت کو یہ ہو کیا گیا ہے کہ وہ عوام کی صحت کے تئیں اچانک فکر مند نظر آنے لگی ہے۔  وطن عزیز جہاں دھڑلے سے شراب، گٹکھا ، تمباکو اور دیگر نشیلی اشیاء  فروخت ہورہی ہیں،جس میں مضر اثرات کی موجودگی پر کسی کو شبہ نہیں ہے، وہاں’ میگی‘ کے تعلق سے اتنی چھان بین کیوں ہورہی ہے؟
    وطن عزیز جہاں  راشن کے نام پر سڑے گیہوں تقسیم کئے جاتے ہوں، مڈ ڈے میل کے نام پر طلبہ کو باسی کھچڑیاں کھلائی جاتی ہوں،  پینے کیلئے گھروں میں گندہ پانی سپلائی کیا جاتا ہو اور اسکولوںکی کمی کی وجہ سے بچوں کی ایک  بڑی تعداد حصول تعلیم سےمحروم ہو، وہاں اگر ’میگی‘ کا معیار جانچا جانے لگے تو شبہ ہونا لازمی تھا۔فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی آف انڈیا کی جانب سے اس طرح کی جانچ معمول کی بات ہوتی ہے مگریہ جس قدر شور شرابے سے ہوا، اس کی وجہ سے اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا لازمی تھا۔
     حیرت اس لئے بھی ہوئی کہ ’اچھے دنوں‘ کاوعدہ کرکےاقتدار  میں آنےوالی اس حکومت نے  عوام کیلئے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن اس کے وزیروں نے ایک  ہی سال میں شاہ خرچی کا وہ مظاہرہ کیا  کہ سابقہ حکومت کے وزیر ۱۰؍ سال میں بھی نہیں کرسکے تھے۔ ایسی حکومت کو اچانک عوام کی صحت کی فکر کیوں لاحق ہوگئی؟ بہرحال جلد ہی رام دیو کی میگی نے یہ معمہ حل کردیا
Shab e Barat aur dheenga mushti
شب ِ برأت اور دھینگا مشتی
کیا یہ باعثِ شرم اور افسوس کی بات نہیں کہ شبِ برأت کی آمد کے ساتھ ہی پو لیس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہیں سیکوریٹی بڑھانے نیز نظم و نسق کی بحالی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔کیا ہم اُن چند سرپھرے نوجوانوں کو نہیں روک سکتے جن کی وجہ سے پوری قوم کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کر اور دیکھ کر کہ یہ تمام نوجوان اپنی پوری’مسلمانی‘ شناخت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جنہیں  پولیس شرپسند کہہ کر پکارتی ہے۔ یہ نماز روزے کی پابندی کرنے والے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ صرف کُرتے ٹوپی  پہنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری ’مسلمانیت‘ اسی میں ہے۔  ان بیچاروں کو  یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اور ایک مسلم نوجوان کی حیثیت سے اُن کی کیا جواب دہی ہے۔
    یہ رات میں بائک  دوڑاتے ہیں ، بے مقصد دوڑاتے ہیں اور خوب تیز دوڑاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ان پر کم،ان کے والدین اوران کے محلوں کے بڑے بزرگوں پر زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ کیا ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے لخت جگر کو بیہودگیوںسے باز رکھیں۔ اپنا نہیں تو کم از کم اپنی قوم کا خیال رکھیں کہ ان کی وجہ سے پوری قوم  بدنام ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بچوں پر ان کا کنڑول نہیں ہوتا ،  سچ تو  یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  یہ سب جانتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی کمائی  پر نہیں بلکہ ’جیب خرچ ‘کے بل بوتے پر یہ خرمستیاں کرتے ہیں۔ اسلئے تمام تر جواب دہی والدین پر ہی عائد ہوتی ہے۔
    ان شرپسندوں پر قابو پانے کیلئے محلے کے بڑے بزرگوںکو بھی  اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔  یہ کہہ کر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ وہ اپنے باپ کی بات نہیں سنتے تو ہماری کیا سنیںگے؟ اس طرح کی حرکتیں کون لوگ کرتے ہیں، محلے کے افراد ان سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی بدمعاشیوں سے صرف ان  بچوں کی شبیہ خراب نہیں ہوتی بلکہ وہ محلہ بھی بدنام ہوتا ہے اوراخیر میں پوری قوم پر تان ٹوٹتی ہے کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ان کے والدین پر انہیں دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو قابو میں رکھیں۔
    مسلمانوں کی اپنی علاحدہ شناخت ہر زمانے میں رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم  اچھے کردار کیلئے جانے پہچانے جاتے تھے لیکن آج برے کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔ وہ دن گئے جب ہماری  پہچان کاروبار میں ایمانداری،لین دین میںپاسداری، دیانتداری، اخلاقیات کا پاس رکھنے والے،والدین کی خدمت کرنیوالے، بڑے بزرگوں کی عزت کرنیوالے، صاف صفائی رکھنے والے، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کرنیوالے، عبادت گزار اور  ہر کسی کا لحاظ کرنیوالے افراد کی شکل میں ہوتی تھی۔افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ افسوس یہ کہ ہم اپنی اس   خراب شبیہ کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں؟
Naseehat aasan, amal mushkil
نصیحت آسان، عمل مشکل
دوسروں کو نصیحت کرنا جتناآسان ہوتا ہے، اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اس پر خود عمل کرنا۔ ہمارے یہاں یہی ایک چیز تو ہے جو مفت فراہم کی جاتی ہے اور نہایت فراخ دلی سے کی جاتی ہے۔ نصیحت کرنا برا نہیں ہے مگر یہ انہیںقطعی زیب نہیں دیتا جو خود اس پر عمل نہ کرتے ہوں۔
     صورتحال یہ ہے کہ ہم پوری دنیا کے درد میںشریک ہوتے ہیں لیکن اپنے آس پاس نہیں دیکھتے۔ ہمیں روہنگیائی مسلمانوں کا غم ستا رہا ہے، ہمیں فلسطینیوں کی تکالیف بھی سمجھ میں آتی ہیں۔ شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا اور اس طرح ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور پریشان حال ہیں، انہیں دیکھ کر ہم بھی نوحہ   کرتے ہیں۔ہم نہ صرف ان کی پریشانیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انہیں لعن طعن بھی کرتے ہیں جو اِ ن مسلم بھائیوں کی پریشانیوںکا سبب بنتے ہیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہم میں سے بعض تو اس قدر ’جذباتی‘ ہو اُٹھتے ہیں کہ مسلم ممالک کے خلاف  دھواں دھار تقریریں بھی کرتے ہیں کہ وہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟  کیوں نہیںاسرائیل اور امریکہ کی اینٹ سے اینٹ  بجا دیتے؟ اور پھر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں گے؟  وہ سب تو کافر وںاور یہودیوں کے ایجنٹ  ہیں لیکن  ہم میں سے بیشتراپنے عمل کا جائزہ  لینا ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور یہ کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم پر یہ الزام سچ  ہی ہے کہ ہم پوری دنیا میںاسلامی حکومت چاہتے ہیں لیکن خود پر اسلامی قانون کا نفاذ نہیں چاہتے۔
    گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست نے وہاٹس ایپ پر ایک میسیج بھیجا۔یہ پیغام ہمارے سماج کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔  وہ میسیج آپ بھی ملاحظہ کرلیں۔ ’’ گزشتہ دنوں  دوران ِگفتگو میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور بین الاقوامی سیاستدانوں کی پالیسی اور  بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے ایک صاحب کافی آنسو بہا رہے تھے۔ آج انہی صاحب کا فون آیا تو کسی اولڈ ایج ہوم کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ’اماں کی روزانہ کی پک پک  سے عاجزآ گیا ہوں۔ سوچتا ہوں انہیں کسی اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آؤں تو کچھ راحت ملے۔‘  میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جو شخص اپنی ماں کو  اپنے گھر میں برداشت نہیں کرپارہا ہے، اسے کیا حق ہے کہ وہ روہنگیا  ئی مسلمانوں کے تعلق سے ملائیشیا اوردیگر ملکوں پر تنقید کرتا پھرے کہ وہ انہیں پناہ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
    یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ ہمارا سماج  اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لوگ خود اچھا بننے کی کوشش نہیں کرتے لیکن دوسروں کو اچھا بنانا چاہتے ہیں اور نہ بننے پر تنقید بھی کرتے ہیں۔  بات اخلاقیات کی ہو یا معاملات کی، ہماری انگلیاں ہمیشہ دوسروں کی جانب   ہی اٹھتی ہیں مگر ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ذراسا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کسی پر تنقید کرتے وقت ہم اگر صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ اس کی جگہ پر ہم ہوتے تو کیا کرتے تو شاید ہماری کچھ اصلاح  ہوسکے۔
Bhiwandi railway Station
بھیونڈی ریلوے اسٹیشن
عام طور پر ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ آس پاس ہی ہوتے ہیں تاکہ بس سے اتر کر مسافر ٹرین کا سفر کرسکیں اور ٹرین سے اتر کر بس کے ذریعہ ان جگہوں پر پہنچ سکیں جہاں تک ٹرین کی رسائی نہیں ہے  لیکن۱۵؍ لاکھ سے زائد کی آبادی والے شہر بھیونڈی میں ایسا نہیں ہے۔یہاں  ایس ٹی اسٹینڈ سے ریلوے اسٹیشن  کے درمیان ۳؍ تا۴؍ کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ کسی بھی شہر کی ترقی میں ریلوے اسٹیشن کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے لیکن بھیونڈی کو اس کاکچھ فائدہ  ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔   سچ تو یہ ہے کہ یہاں کی ایک بڑی آبادی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ اس کے شہر میں ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔
    عروس البلاد ممبئی سے بھیونڈی کا صرف کاروباری تعلق نہیں ہے بلکہ سماجی، سیاسی اور تعلیمی بھی ہے ۔ اس کی وجہ سے روزانہ ہزاروں افراد بھیونڈی سے ممبئی کا سفر کرتے ہیںلیکن  زیادہ تر بس کے ذریعہ تھانے یا کلیان جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ممبئی کا رخ کرتے ہیں۔ بھیونڈی ریلوے اسٹیشن پر اگر تھوڑی سی توجہ دے دی جائے تو شہر میں ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔  اسٹیشن کو مفید بنانے اور شہریوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر یوں تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن ترجیحی بنیاد پر اگر۲؍ امور پر توجہ دی دے جائے تو شہریوں کوفوری طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔  
    اس وقت دہانو پنویل  روٹ پر صبح پانچ بج کر ۵۱؍ منٹ سے رات ۷؍ بج کر۴۹؍ منٹ تک چلنےوالی ۱۴؍ ایسی ٹرینیں ہیں جو بھیونڈی اسٹیشن سے ہوکر گزرتی ہیں   اور یہاں رکتی ہیں۔ اسٹیشن سے شہر کے اندر جانے کیلئے تمام تر پریشانیوں کے باوجود وسئی ، بوریولی اور میرا روڈ سے لے کر پنویل ، تلوجہ اور ڈومبیولی کے ہزاروں مسافر روزانہ  یہاں اُترتے ہیں۔
    اسٹیشن کو بھیونڈی والوں کیلئے کار آمد بنانے کی سمت پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ بس ڈپو سے اسٹیشن کیلئے ایک بس سروس کا آغاز کیا جائے جو ریلوے کے ٹائم ٹیبل کی مناسبت سے چلے ۔ یہ بس مسافروں کو اسٹیشن سے شہر تک اور شہر سے اسٹیشن تک پہنچائے۔   یہ بہت مشکل کام نہیں ہے اور نہ ہی اس کیلئے حکومت کو بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایس ٹی ڈپارٹمنٹ سے اگر بات نہیں بنے تو اس کام کا آغاز کارپوریشن بھی  کرسکتا ہے۔  مسافروں کیلئے رکشا کافی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ ایس ٹی سے اسٹیشن پہنچنے کیلئے تین مسافروں کو ۹۰؍ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کتنا مہنگا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وسئی سے آنے والے کچھ مسافر بھیونڈی میں اترنے کے بجائے کلیان جاتے ہیں،  پھروہاں سے بھیونڈی آتے ہیں ۔
    دوسرا کام یہ ہے کہ ٹرین کی فریکوینسی بڑھائی جائے تاکہ ممبئی کا سفر کرنےوالے تھانے اور کلیان کے بجائے بھیونڈی اسٹیشن سے استفادہ کرسکیں۔کیا ہمارے  سیاستداں اور سماجی کارکنان اس سمت غور کریںگے؟
Shadi aur barat
شادی اور بارات
شادیوںکا سیزن چل رہا ہے۔ اس سیزن میں باراتیوں کی خوب دھوم ہوتی ہے۔  بارات جانے والوں میں سے بیشتر ایسے ہیں جواُس دن اپنا مزاج تبدیل کرلینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ گھر میں کچھ بھی اور کیسا بھی کھاتے ہوں لیکن بارات کے کھانے میں عیب نکالنا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ صرف کھانا ہی نہیں کھاتے بلکہ کھانا کھانے سے زیادہ میزبان پر رعب جماتے ہیں۔ یہ کم ہے، وہ کم ہے،  یہ چیز اچھی نہیں ہے، وہ اچھی نہیں ہے،  بوٹی اچھی نہیں ہے،سالن پتلا ہے، چاول موٹا ہے، روٹی سوکھ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔  وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کل اُن کے یہاں یا ان کے کسی عزیز کے یہاں بھی بارات آئے گی اور تب اُن کی جگہ کچھ دوسرے لوگ بالکل اسی طرح اُن کے سینے پر مونگ دَلیںگے، جس طرح وہ آج دَل رہے ہیںلیکن وہ ایسا نہیں سوچتے کیونکہ انہیں اپنا کوئی عمل برا نہیں لگتا۔
      افسوس کی بات ہے کہ لڑکے والےلڑکی والوں سے اجازت نہیں لیتے بلکہ حکم دیتے ہیں کہ ہم  ۲۰۰؍ یا ۳۰۰؍ افراد آئیںگے۔ بعض تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیںکہ بارات میں ۵۰۰؍ افراد کو لے کر جاتے ہیں لیکن اپنے یہاں ولیمہ میں دو ڈھائی سو افراد  ہی کو دعوت دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ولیمہ بہت شان و شوکت سے کیا جائے اور بہت بڑی دعوت کی جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے مہمانوں کو خود کھلانے کی طاقت نہ ہو تو دوسرے کے سر منڈھ دیا جائے۔   یہ ہمارے سماج کا کمزور پہلو ہے کہ شادی  کے اس پورے عمل میں لڑکی والے شروع ہی سے دباؤ میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چوں چراں نہیں کرپاتے۔ لڑکے والوں کی شرائط کو تسلیم کرلینا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔
    گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں لڑکے والوں نے لڑکی والوں سے ’استدعا‘ کی تھی کہ شادی جب بھی ہو، وہ پیر کا دن ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس مارکیٹ میں اس کی دکان ہے، وہ پیر کو بند رہتی ہے۔اس کی یہ ’درخواست‘ اسلئے تھی کہ اس کی مارکیٹ کے تمام افراد اس کی شادی میں شریک ہوسکیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ولیمہ پیر کو کرتے لیکن اس صورت میں خرچ کا بار اُن کی جیب پر آتا۔
    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا یہ بے غیرتی صرف اُن کی ہے، جو بارات لے کر جاتے ہیں؟ کیا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے جو بارات میں شریک ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کی دعوت میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کوئی اپنے گھر کھلانے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر جاکر کھانے کی دعوت دے تو اسے کیوں قبول کیا جائے؟ کیا ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ کر ایسی دعوتوں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کرسکیں کہ بھائی، جب آپ کو اپنے یہاں کھلانے کی طاقت ہو جائے گی تو آپ ضرور دعوت د یجئے گا، ہم ضرور حاضر ہوں گے لیکن برائے مہربانی حلوائی کی دکان پر   دادا جی کا فاتحہ نہ کیجئے۔