Friday, 13 November 2015

Anchor_ Bihar election result

 بہار کا نتیجہ اُن سیاسی جماعتوں کیلئے باعث  احتساب  ہے جوسیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں
عوام نے اپنا فیصلہ صادر کردیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اب یہ فیصلہ بایاں محاذ، بی ایس پی، این سی پی، سماجوادی ، ایم آئی ایم اوراس طرح کی دیگر سیاسی پارٹیوں کو کرنا ہے کہ وہ  اپنی بقا چاہتی ہیں یانہیں؟

قطب الدین شاہد
 

اہلِ بہار نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہوش مندی اور دانشمندی کابہترین ثبوت دیا۔ انہوں نے ثابت کیاکہ وہ نہ صرف خود دار ہیں بلکہ سمجھدار اور ہوشیار بھی ہیں۔ نتائج دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پورے ملک کی آواز سن لی تھی اوراپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرلیا ہے۔اس آواز پر ا نہوں نے لبیک کہا اور اس طرح پورے ملک میںمسرت کاایک خوشگوار ماحول فراہم کیا۔ وہ کسی کے بہکاوے اور چھلاوے میں نہیں آئے اور وہی کیا جو وقت کا تقاضا اور ملک کی آواز تھی۔ اس کیلئے اہل بہار یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔
    بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج  کےکئی مثبت پہلو  ہیں۔ جیسے  یہ کہ عوام نے نہایت خاموشی سے اپنے حق کا استعمال کیا، فرقہ پرستوں کی سازش کے شکار نہیں ہوئے، گمراہ کن میڈیا پر توجہ نہیں دی،اس کی وجہ سے مایوس نہیں ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت نہیں برتی بلکہ بھرپور ووٹنگ کی۔ لیکن  ان تمام میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر سیکولرازم کا نام لینےو الی سیاسی جماعتیں تھوڑی دیر کیلئے اپنی اَنا کو بالائے طاق رکھ دیا کریں تو نہ صرف یہ کہ خود اقتدار کے مزے لوٹیںگی بلکہ وہ ہم خیال عوام کوان ذہنی پریشانیوں سے نجات بھی دلا نے کا کام کریںگی جن سے وہ بیچارے ہر بار انتخابی دنوں میں جوجھتے ہیں۔  اس مرتبہ بہار میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس نے کچھ ایسا ہی کیا جس کا انہیں خاطرخواہ فائدہ ملا۔اس کیلئے یہ تینوں جماعتیں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔
     بلاشبہ اس عظیم اتحاد کا کریڈٹ لالو پرساد یادو کو جاتا ہے جنہوں نے لوک سبھا الیکشن کے بعد ہی اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ آئندہ ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہے اور اس کی مدد سے مودی کے طلسم سے پہلے بہاراور پھر ملک کو آزاد کرانا ہے۔اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے لالو کو کئی باراپنی انا کو قربان کرنا پڑا۔ دوران انتخابات انہوں نے بار بار انکسار کا مظاہرہ کیا۔ لالو کو نہ صرف بی جے پی نے بھر پور نشانہ بنایا بلکہ میڈیا نے بھی انہیں  شروع سے آخر تک تنقید کی زد پر رکھا  ، یہاں تک کہ لالو کا وقار مجروح کرنے میں کانگریس نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن انہوں نے کسی موقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اپنے انداز میںمسکرا کر وہ زہر پیتے رہے۔
    یہ الیکشن بعض سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتۂ دیوار بھی ہیں۔ ضرورت ہے کہ بایاں محاذ، این سی پی ،ایس پی ، بی ایس پی اور ایم آئی ایم جیسی جماعتیں اب ہٹ دھرمی سے باز آکر شعوری فیصلےکریں ۔ ایسا کرنا، انہیںکے مفاد میں ہے۔ سیکولر عوام نے اپنا فیصلہ صادر کردیا ہے۔ انہوں نے بتادیا ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنااور اپنی پالیسیوں میں اصلاح کرنا، ان جماعتوں  کی مجبوری ہوسکتی ہے، عوام کی نہیں۔  اس الیکشن میں ایک چھوٹی سی مثال کانگریس کی ہے۔ اس نے ۴۰؍ نشستوں پر الیکشن لڑنے کیلئے رضا مندی کااظہار کیا جن میں سے ۲۷؍ سیٹوں پر قبضہ بھی جما لیا۔ یہ بات آنکھ بند کرکے کہی جاسکتی ہے کہ اگر وہ ۲۴۳؍ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی ضد کرتی تو بہت ممکن ہے کہ اس کا ووٹ شیئر ۶ء۷؍ کے فیصد کے بجائے ۸؍ سے  ۹؍  فیصد ہوجاتا لیکن اس کی جھولی میں دو تین سیٹیں بمشکل  آپا تیں۔  ایسے یہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس اتحاد میں بایاں محاذ، این سی پی اور سماجوادی بھی شامل ہوتیں تو نہ صرف آج ان کے چہروں پر بھی مسکان ہوتی بلکہ گئی گزری حالت میں  اسمبلی میں ان کے بھی ۴۔۲؍ نمائندے پہنچ جاتے۔ صورتحال یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے بعد لیفٹ فرنٹ کو صرف ۳ء۵؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے جبکہ ابھی چند سال قبل تک یہ محاذ ملک کو علاحدہ سیاسی نظام دینے کی بات کررہا تھا۔ سماجوادی کو صرف ایک فیصد ووٹ ملا جبکہ بی ایس پی کو  ۲؍ اورایم آئی ایم کو صرف اعشاریہ۲؍ فیصد ووٹ ملے ہیں۔  ضرورت ہے کہ اس طرح کی تمام جماعتیں اپنا احتساب کریں اور آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرتےوقت حالات کی نزاکتوں کو محسوس کریں اور عوام کا ذہن بھی پڑھنے کی کوشش کریں۔ ان تمام جماعتوںکو ملنےوالے ووٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اتحاد میں شامل ہونے سے مہا گٹھ بندھن کو شاید ہی کوئی فائدہ ہوتا لیکن انہیں اس کا صلہ ضرور ملتا
۔

Roznaamcha_ Naseehat aur mashvire

نصیحت اور مشورے
 
ہمارے یہاں مفت مشوروں کی زبردست فراوانی ہے۔جسےدیکھو،وہ دوسروں کو نصیحت کرتا اور مفت مشورے  دیتا نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نصیحت کرنےوالے خود اپنی باتوں پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کی باتوں کا دوسروں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔
    ہمارے ایک واقف کار ہیں جو اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ برسوں سے اپنے والدین سے الگ رہتے ہیں۔ جب ساتھ میں تھے تووالدین سے روزانہ کا جھگڑا ان کا معمول تھا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ وہ کئی بار والدین پر ہاتھ بھی اٹھا چکے ہیں۔  یہ اور بات ہے کہ ان کے والدین کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان کے اپنے اعمال کی سزا تھی۔ اپنے وقت میں  وہ بھی اپنے والدین کو کافی اذیتیں پہنچاچکے ہیں۔
    گزشتہ کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے واقف کار جو اپنے والدین سے جھگڑا کرکے علاحدہ ہو چکے ہیں، والدین کی عظمت سے متعلق فیس بک پر ایک سے بڑھ کر ایک نصیحت آموز باتیں پوسٹ کررہے ہیں۔ دلوں کو چھو لینےوالےواقعات و حکایات اور احادیث  پوسٹ کرکے یہ لوگوں کو مفت مشورے دیتے نظر آرہے ہیںکہ دنیا و آخرت میں فلاح چاہتے ہو تو والدین کو خوش رکھنے کی کوشش کرو۔ فیس بک پر پوسٹ کی جانے والی یہ تمام باتیں کافی پُر اثر ہیں لیکن  افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ مجھ پر ان باتوں کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔  جب اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ چونکہ ’ناصح‘ کا ماضی اور حال میرے سامنے ہے، اسلئے مجھ پر وہ باتیں اثر نہیں کررہی ہیں۔  ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔
    یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں اس طرح کے ناصح کا سامنا ہوتاہے اور ہم ہنستے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں گویا اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔  استاد کہتے ہیں کہ ’’بچو! وقت کی پابندی کرو‘‘ اور وہ صاحب خود کبھی وقت کی پابندی نہیں کرتے۔والد کہتے ہیں ’’بیٹا جھوٹ مت بولو‘‘ اور خود بیٹے سے کہتے ہیں کہ ’’ فون پر بول دو کہ ابو کی طبیعت خراب ہے، ابھی سو رہے ہیں‘‘۔امی کہتی ہیں کہ ’’بیٹی غیبت نہیں کرنی چاہئے‘‘ اور بیٹی دیکھتی ہے کہ اس کی ماں دن بھر پڑوسی خواتین کے ساتھ دوسروں کی خامیاں چٹخارے لے کر بیان  کیا کرتی  ہے۔خطیب صاحب منبر سے اعلان کرتے ہیں کہ ’’کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے‘‘ اور مسلکی اختلافات پر خود اس قدر لاف گزاف کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ ’’حرام مال کمانےوالوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے‘‘ اور انہیں دیکھو تو  ہر جمعرات کو ’خیرو برکت‘ کی دعائیں پڑھنے وہیں پہنچے رہتے ہیں۔
    غور کریں۔ ان حالات میں ان کی نصیحتیں دوسروں پر کیوں کر اثرا نداز ہوںگی جبکہ یہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔  یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں اسلامی قوانین نافذ ہوجائے لیکن ہم  خوداپنی زندگی پر اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں چاہتے۔

Roznaamcha_Imam aur Khateeb


 امام اور خطیب
 
گزشتہ دنوں وہاٹس ایپ کے ایک گروپ میں جس کے زیادہ تر اراکین علم دوست ہیں، ایک صاحب نے گروپ ممبران سے کہا کہ’’کبھی ہمارے علاقے میں جمعہ کی نماز پڑھنے آئیں، ہمیں امید ہے کہ آپ دوبارہ وہاں نماز پڑھنے کی زحمت نہیں کریںگے۔‘‘ یہ سن کر بہت عجیب سا لگا۔ پہلے تو  ذہن میں یہی سوال آیا کہ کیا ہمیں اس طرح کا اظہار خیال کرنا چاہئے؟ لیکن جب ان کے الفاظ پر غور کیا تو  اُن کے کرب کا اندازہ ہوا۔ بلاشبہ یہ بات یوں ہی سرسری طور پر نہیں کہہ دی گئی ہوگی بلکہ یہ کہنے سے قبل ان کا دل خون کے آنسو رویا ہوگا۔کئی جگہوں پر ہمیں بھی  اس کا اندازہ ہوا ہے اور ہم نے بھی یہی بات محسوس کی ہے اور بسا اوقات اس طرح کا فیصلہ کرنے پر مجبور بھی ہوئے ہیں کہ آئندہ کہیں اور نماز پڑھیں گے ۔
    نمازجمعہ میں خطبہ کا سننا واجب ہے۔ خطبے کے ساتھ ہی ہمارے یہاں تقریر اوربیان بھی ہوتے ہیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں اس طرح کے مواقع میسر ہیں۔ نماز جمعہ ہی کے بہانے ہمیں ہر ہفتے ایک ساتھ مل بیٹھنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اسلام میں کوئی حکم، کوئی رکن اور کوئی عبادت حکمت سے خالی نہیں۔ بلاشبہ نماز جمعہ میں ہونے والے ’بیان‘کی بھی  بہت ساری حکمتیں ہیں جن میں ایک اہم حکمت یہ ہے کہ اس موقع پر ضروری پیغامات کو سماج تک آسانی سے پہنچادیا جائے۔
     لیکن بہت افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم مساجد میں ’بیان‘ کا مثبت استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ تر مساجد میں دوسرے مسالک کی خامیاں اجاگر کی جاتی ہیں اور  اس قدر اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں کہ بسا اوقات فساد کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسا قصداً کرتے ہیں تو کچھ جہالت کی بنا پر کرتے ہیں۔  قصداً وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے مذہب کو تجارت بنا لیا  ہے اوراس کی وجہ سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں جو مال بکتا ہے، وہاں وہی بیچا جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد یہی کچھ سننا چاہتی ہو۔ اسی طرح کچھ ’عالم‘ اپنی جہالت کی بنا پر خطیب کے منصب کا غلط استعمال کرتے ہوئے ’اوٹ پٹانگ‘ بکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ نماز جمعہ میں خطبہ اور بیان سننے کیلئے بہت کم مقتدی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ۲؍رکعت پڑھنے کیلئے ہی آتے ہیں۔ ہم سب انہیں کوستے  ہیں اور طنز بھی کستے ہیں کہ یہ۲؍ رکعت کے نمازی ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے کہ یہاں  خطبے کی سماعت میں مقتدیوں کی تعداد کم کیوں ہوتی ہے؟  مساجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ داران اگر تھوڑا سا بھی نظر گھما کر اور بلا لحاظ مسلک  ان مساجد کی جانب دیکھیں جہاں خطبہ سننے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جہاں پڑھے لکھے اور صاحب شعور افراد جمع ہوتے ہیں ، تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں کے خطیب کیاکہتے ہیں؟ مساجد میں مسالک سے متعلق تعصب کی باتوں کو بیشتر غلط سمجھتے ہیں لیکن یہ سلسلہ اسلئے جاری رہتا ہے کیونکہ اس پر وہ خاموش رہتے ہیں    ۔

Wednesday, 4 November 2015

بِہار میں موسم بَہار کی دستک، سیکولر محاذ کیلئے راستہ آسان

بہار میں انتخابی نتائج بھلے ہی ۸؍ نومبر کو ظاہر ہوں لیکن اس سے قبل ہی خوشگوار نتائج کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ موسم کی طرح بہار کا سیاسی موسم بھی معتدل انداز میں رواں دواں ہے اور اب بس بہار آنے ہی والی ہے۔ ایک جانب جہاں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی خود اعتمادی ہے وہیں دوسری جانب امیت شاہ اور نریندر مودی کی بوکھلاہٹ ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہار کے انتخابی نتائج سے ملک کی سیاسی فضا میں ایک خوشگوار تبدیلی آنےوالی ہے
 
   قطب الدین شاہد
 
حالات کا اپنے طور پر جائزہ لینے سے قبل آئیے  ایک سینئر صحافی کا تجزیہ دیکھتے چلیںجس کی ملک اور ریاستوں کی سیاست بالخصوص بہار کے  سیاسی حالات  پر گہری نظر ہے ۔ مشہور محقق اور صحافی اجے بوس جنہوں نے مایاوتی کی سوانح حیات قلمبند کی ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ملک بھر میں ریاستی انتخابات کا احاطہ کرنے کے اپنے۴۰؍ سالہ تجربے اور مشاہدے کے دوران میں نے شاید ہی کبھی کسی حکمراں وزیر اعلیٰ کے تئیںعوام کا اس قدرمثبت رویہ دیکھا ہو۔ بہار میں انتخابی ماحول گرمانے کے ساتھ میں نے حال ہی میں پٹنہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں کا دورہ کیا۔ حکومت کی بے حسی اور غلط حکمرانی سے متعلق  رائے دہندگان میں انتخابات کے وقت عموماً جو ناراضگی پائی جاتی ہے، وہ یہاںقطعی نظر نہیں آئی۔ اس کے بجائے دھول بھرے گاؤں میں عورت  اورمرد، نوجوان اور بوڑھے، ہندو اورمسلم، اعلیٰ ذات اوردلت نتیش حکومت کی کامیابیاں گناتے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا معاملہ ہو، اسکولوں اوراسپتالوں  پر گفتگو ہو یا پھر گاؤں میں بجلی پہنچنے کی باتیں ہوں، نتیش راج میں ترقی کا پیمانہ بننےوالی یہ کامیابیاں لاکھوں بہاریوں کی زبان پر ہیں۔‘‘
    لوک سبھا الیکشن میں ہزیمت کے فوراً بعدلالو، نتیش اور کانگریس نے جس طرح بروقت ہوش کے ناخن لینےکا مظاہرہ کیا، اس نے عوام کا تذبذب اسی وقت ختم کردیا تھا۔ اسی دن سے بہار کےانتخابی نتائج کااندازہ ہوگیا تھا لیکن مودی کے حواری پروپیگنڈے کی طاقت سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ بھگوا محاذ نہ صرف مقابلے میں ہے بلکہ اسے سبقت بھی میسر ہے۔ حالانکہ یہ بات کسی بھی طرح ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ آخر کن بنیادوں پر اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں؟  لوک سبھا الیکشن میں جب مختلف وجوہات کی بنیاد پر مودی کی لہر چل رہی تھی، بی جے پی اوراس کی اتحادی جماعتوں کو مجموعی طور پر ۳۸؍ فیصد ہی ووٹ مل پائے تھے، پھر آج جبکہ اس مقبولیت میں کافی کمی آچکی ہے، کس طرح انتخابی سرویز میں اسے پہلے سے بھی زیادہ ووٹ ملنے کی بات کی جارہی ہے۔ دوسری طرف اُس الیکشن میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کو مجموعی طور پر     ۴۵؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے تھے۔ ظاہر ہے کہ لوک سبھا کے بعد سے اب تک ان تینوں جماعتوں کی مقبولیت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بات نتیش کے مخالفین بھی جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ مختلف سرویز میں جن میں بی جے پی کو سبقت دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی نتیش کو بہتر وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کرنے کیلئے مجبور ہیں، ایسے میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ سیکولر محاذ کو لوک سبھا  سے کم یعنی ۴۵؍ فیصد سے بھی کم ووٹ ملیںگے؟
    سچ تو یہ ہے کہ اتحاد کے بعد ہی یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوگی لہٰذا ان کی جیت یقینی ہے۔لالو اور نتیش کی اپنی اپنی مقبولیت ہے۔ سماج پر دونوں کے اپنے اثرات ہیں اور بہت مضبوط ہیں۔ ایسے میں کانگریس کے ساتھ نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اس کی وجہ سے عوام کا تذبذب ختم ہوگیا تھا۔ میڈیا اپنے طور پر لالو کی کتنی بھی برائی کیوں نہ کرلے، عوام کے دلوں سے ان کی محبت ختم کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی انتخابات میں ایک موقع ایسا آیاتھا جب   لالو کو بہت کم یعنی ۱۸ء۸۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے ، ورنہ  ۲۰۰۰ء سے اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں لالو کی پارٹی ہی کو ریاست میں سب سے  زیادہ ووٹ ملتے رہے ہیں۔۲۰۱۰ء میں لالو کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی گئی تھی جس میں کانگریس بھی شامل تھی۔
      بی جے پی نے اِس مرتبہ۳؍ محاذ پر اپنی  پوری توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ اول یہ کہ نتیش کو کسی طرح لالو سے متنفر کیا جائے تاکہ یہ اتحاد ختم ہوجائے، دوم یہ کہ لالو کے خلاف ایک بار پھر جنگل راج کی ترکیب استعمال کی جائے تاکہ عوام متنفر ہوں اور سوم یہ کہ اہل بہار کو بتایا جائے کہ وہ قابل حکمراں ثابت ہوںگے لیکن یہ تینوں باتیں اس کے خلاف ہی گئیں۔ لالو اور نتیش کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ اسی طرح جنگل راج کا پروپیگنڈہ بھی پوری طرح سے بے اثر رہا۔  بہار کے عوام یہ بات اچھی طرح جاننے لگے ہیں کہ جس پارٹی کا سربراہ ہی تڑی پار ہواورمجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے جیل کی ہوا کھا چکا ہو، وہ دوسروں کی برائی کرنے کا حق بھلا کس طرح رکھتا ہے؟ ویسے یہ بات بھی درست ہے کہ بہار اور اترپردیش کے عوام معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن ان کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا تسلیم کرتی ہے۔ بطور وزیر ریلوے لالو کی کارکردگی کا جادو آج بھی عوام کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور لوگ ان سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب لالو ریلوے وزیر تھے۔ اسی طرح نتیش کی حکمرانی کی تعریف ان کے ناقد بھی کرنے  پر مجبور ہیں۔
    ایک جانب جہاں بہار میں لالو اور نتیش کی اپنی مقبولیت ہے، وہیں دوسری جانب مودی اینڈ کمپنی کے تئیں عوام میں بے اعتباری اور ناراضگی بھی ہے۔ مودی حکومت کی ڈیڑھ سالہ حکمرانی  سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ سرکار صرف بیان بازیوں پر یقین رکھتی ہے۔ اچھے دنوں کا وعدہ کیاتھا لیکن ملک کے حالات مزید خراب کردیئے۔ مہنگائی پوری طرح بے لگام ہوگئی ہے،دال کو ڈرائے فروٹ بنادیا گیا ہے۔ عوام کے منہ سے نوالے چھینے جانے لگے ہیں۔غریبوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف امیروں اور کارپوریٹ گھرانوں کیلئے کام کئے جارہے ہیں۔ یہ صرف الزام نہیں ہے بلکہ بی جے پی نے خود ہی اپنی ایسی شناخت   بنائی ہے۔ تحویل اراضی بل کے تئیں بی جے پی کی ہٹ دھرمی نے اس پہچان کو استحکام بخشا ہے۔مودی میں انانیت اور خود سری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ دوسروں کو اہمیت نہ دینے کا مزاج پہلے بھی تھا لیکن اب  اس میں مزید سختی آگئی ہے۔ پورے ملک میں ادیبوں اور دانشوروں کے احتجاج کو اہمیت نہ دے کر بی جے پی سرکار   یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح انتخابی فائدے کیلئے بی جے پی نے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو بھی مسموم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ دادری سانحہ تو ملک کی پیشانی پر ایک داغ تھا ہی، اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے اس طرح کے کئی واقعات ہوئے لیکن بی جے پی نے ایک حکمراں جماعت کی طرح سے ان سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم کی طرح ہی کام کرتی رہی۔ اس کے اراکین آگ میں گھی ڈالنے اور ملک میں انارکی پیدا کرنے کی کوشش نہایت  بے خوفی سے کرتے رہے اور اس پر ناز بھی کرتے رہے۔
    اہل بہار کو  بی جے پی سے ناراضگی اس لئے بھی ہے کہ وہ بہار کو گجرات بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ گجرات کتنی بھی ترقی یافتہ ریاست کیوں نہ ہو لیکن اہل بہار یہ بات کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کی تہذیب کا مذاق اڑایا جائے اور گجراتی تہذیب کو بہار کی تہذیب سےبرتر ٹھہرایا جائے۔مودی اور امیت شاہ پتہ نہیں کس زعم میں تھے کہ الیکشن کے دوران باربار اس بات کو دہراتے رہے کہ انہیں اقتدار ملا تو وہ بہار کو گجرات بناد یںگے۔یہ بات اہل بہار کی خود داری کو ٹھیس پہنچانےوالی تھی۔اسی طرح انتخابی ذمہ داریوں کے معاملےمیں امیت شاہ اور نریندر مودی نے بہاری کارکنوں پر گجراتی کارکنوں کو ترجیح دے کر بھی بہاریوں کے وقار کو مجروح کیاتھا۔ بہار کے مقامی لیڈر اس بات سے بہت برہم تھے کہ انتظامی سطح کی تمام کلیدی ذمہ داریاں گجراتی لیڈروں کو سونپ دی گئی ہیں۔شتروگھن سنہا نے جو کچھ کہا ہے، وہ صرف اُن کی آواز نہیں ہے بلکہ بی  جے پی کے ایک بڑے حلقے کی ترجمانی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ سب ایک خوف اور مصلحت کے تحت خاموش ہیں لیکن یہ بات ووٹر اچھی طرح محسوس کررہے ہیں۔  مودی اور امیت شاہ کی خود سری کی وجہ سے بی جے پی میں اندر ہی اندر کافی انتشار ہے۔ سشما، جیٹلی، گڈکری اور راج ناتھ کی خاموشی سے یہ بات پوری طرح واضح ہورہی ہے۔
     ریزرویشن کے موضوع پر آر ایس ایس کے مؤقف نے بھی بی جے پی کو بیک فٹ پر کھڑا کردیا ہے۔ بی جے پی اس موضوع پر کتنی بھی صفائی کیوں نہ دے لیکن وہ یہ بات کھل کر نہیں کہہ سکتی کہ وہ ریزرویشن کی حامی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو بہار میں اس کا اپنا ووٹ بینک بھی کھسک جائے گا جس پر فی الحال پوری طرح سے اس کی اجارہ داری ہے۔ یہی سبب ہے کہ مانجھی اور پاسوان کی موجودگی کے بعد بھی ریزرویشن پانےوالا طبقہ بی جے پی کے قریب جانے سے جھجھک رہا ہے۔ یہ طبقہ اس  بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مانجھی اور پاسوان اپنے لئے بھلے ہی کچھ حاصل کرلیں، ان کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔ مودی کو ایسا لگا تھا کہ بہار کیلئے ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار کروڑ کے پیکیج کے اعلان سے وہ بہار کو فتح کرلیںگے لیکن اہل بہار جانتے تھے کہ یہ اعلان وہی شخص کررہا ہے جو لوک سبھا الیکشن سے قبل ہندوستان کے ہرشہری کے اکاؤنٹ میں ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن الیکشن کے بعد اسی کی  پارٹی کے صدر نے اس اعلان کو انتخابی جملہ کہہ کر عوام کی سادہ لوحی کا مذاق اڑایا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ اس اعلان میں کافی کچھ فریب ہےاوراس کے ذریعہ اہل بہار کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پر بی جے پی کی اس دھمکی نے زخم پر نمک کا کام کیا کہ یہ پیکیج بہار کواسی صورت میں ملے گا جب یہاں  اس کی حکومت بنے گی۔
    کل ملا کر بہار میں سیکولر محاذ کیلئے راستہ پوری طرح آسان ہے۔   ماحول مکمل طور پر آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کے حق میں ہے۔ ۲؍ ابتدائی مرحلوں میں ہی بی جے پی کے حواس ٹھکانے لگ گئے تھے جس کی وجہ سے تیسرے مرحلے کیلئے اسے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ بی جے پی کو جو کچھ فائدہ مل سکتا تھا، وہ شروع کے ۲؍ مرحلوں میں ہی مل پاتا۔ آخری کے تینوں مرحلوں میں ہونےوالے انتخابی حلقوں میں سیکولر محاذ کا بول بالا پہلے سے ہی تھا۔ تیسرے مرحلے میں جن ۵۰؍ اسمبلی حلقوں میں الیکشن ہوا، لوک سبھا الیکشن میں تقریباً تمام سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں لیکن اس صورت میں جبکہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے ووٹ تقسیم ہوئے تھے بصورت دیگر نالندہ، پاٹلی پتر، ویشالی، سارن اور بکسر لوک سبھا حلقوں میں بی جے پی کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔’پٹنہ صاحب‘ میں شترو گھن سنہا کی اپنی مقبولیت تھی، جس کی وجہ سے بی جے پی کو کامیابی مل گئی تھی مگر اس مرتبہ ان کے مداحوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اسمبلی الیکشن میں  ان کے اپنے انتخابی حلقے میں ان کی ناراضگی کا کچھ تو اثر ہوا ہوگا۔ اسی طرح آخری کے دو مرحلوں میں جن ۱۱۲؍ اسمبلی حلقوں میں پولنگ ہونےوالی ہے، وہاں بھی لو ک سبھا انتخابات میں سیکولر محاذ کو کافی کم سیٹیں ملی تھیں لیکن  دونوں کے ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو ۱۸؍میں سے ۱۱؍ پارلیمانی حلقوں میں سیکولر محاذ کو برتری حاصل تھی۔ مطلب صاف ہے کہ ماحول کے ساتھ ہی اعداد وشمار بھی گواہی دیتے ہیں کہ بہار کے ودھان بھون پر بھگوا لہرانے کا بی جے پی کا خواب کسی صورت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔
    بلاشبہ بی جے پی نے اس مرتبہ بھی کافی محنت کی ہے لیکن اس محاذ پر نہیں کی جہاں اسے کرنا چاہئے تھا۔ لالو نے بالکل درست کہا کہ اگر ڈیڑھ برسوں میں مودی  جی کچھ کام بھی کرلئے ہوتے توانہیں پرچار منتری نہیں بننا پڑتا۔ ایک جائزے کے مطابق بی جے پی نے انتخابات کے اعلان سے کئی ماہ قبل ہی ایک ایک بوتھ کے ذمہ داران طے کردیئے تھے اوراس طرح پورے بہار میں ۳؍ لاکھ کارکنان مقرر کر رکھے تھے لیکن کاش ! بی جے پی کے ذمہ داران سمجھتے کہ کامیابی کیلئے یہ باتیں صرف جزوی اہمیت کی حامل   ہیں۔  بہرحال بہار کے انتخابی نتائج دور رَس ہوںگے۔ اس کے اثرات جہاں آئندہ سال ہونے والے مغربی بنگال  کے اسمبلی الیکشن پر پڑیںگے وہیںاس کے بعد  ہونےوالے یوپی کے انتخابی رجحان پر بھی نظر آئیںگے اور ان سب سے زیادہ مرکزی حکومت کے تیوروں پر پڑے گا جو لوک سبھا میں اکثریت مل جانے کے سبب مطلق العنان ہوگئی ہے۔ اب تو ہر کسی کو بس ۸؍ نومبر کا انتظار ہے۔

Friday, 30 October 2015

Roznaamcha_ Hamare Maamlat

ہمارے  معاملات
!
بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان معاملات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ چوری، بے ایمانی،فریب دہی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے  کے عمل کو برا تو سمجھتے ہیں لیکن یہی کام بڑی ہنرمندی سے کرتے ہیںاور اپنے طور پر اپنے عمل کو ’جائز‘ بھی ٹھہراتے ہیں۔حاجی اور نمازی کے طور پر اپنی شناخت کو مشتہر کرنےوالے بعض لوگ اتنی چھوٹی سی بات نہیں سمجھتے کہ حرام کمائی سے بننےوالا خون جب رگوں میں دوڑے گا، تواس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوںگے۔  یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب یہ لوگ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ’’ایمانداری سے کاروبار کیا ہی نہیں جاسکتا۔‘‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ تجارت حضور اکرمؐ کی سنت ہے۔ ایسا کہہ کر یہ نہ صرف سنت نبویؐ کی توہین کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو ایمانداری سے کاروبار کرتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں، ان کی جانب انگشت نمائی کرتے ہیں اور بلا سبب ان کے تئیں بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
     مسلم دکانداروں اور غیر مسلم دکانداروں میں ایک واضح فرق ہے کہ صارفین کا غیرمسلم دکانداروں پر بھروسہ زیادہ ہوتا ہے۔ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکثر یہ بات محسوس کی گئی ہے مسلم دکانداروں کے یہاں ناقص مال ملتا ہے، وزن کم ہوتا ہے اور قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔  ہمارا اپنا ذاتی مشاہدہ کہ مسلم دکاندار سامان کو سونے کی  طرح تولتے ہیں۔ کیا مجال کہ ایک کلو سامان لینےوالے ۳۔۲؍گرام زیادہ چلا جائے جبکہ غیر مسلم دکاندار وزن برابر کرنے کے بعد ۱۵۔۱۰؍ گرام سامان یونہی ڈال دیتے ہیں۔ اس سے صارف کو اطمینان ہوتا ہے۔ چلو یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن کچھ لوگ مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے سامان کم بھی تولتے ہیں۔ بالخصوص بھنگار کا کاروبار کرنے والے اس طرح کی فریب دہی کو ہنر سمجھتے ہیں۔ اس پر پشیمانی اور شرمندگی  کے بجائے نہایت شان سے کھلے عام اظہار بھی کرتے ہیں۔
     ہم جس پیٹرول پمپ سے پیٹرول لیتے ہیں، وہ ایک نامی گرامی مسلمان کا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اس کی براہ راست آمدنی ان تک پہنچتی ہے یا کرائے پر دے رکھا ہے لیکن نام بہرحال انہیں کا چلتا ہے۔ ہم ایک عرصے سے دیکھتے  آرہے ہیں کہ وہاں پر ۱۰۰؍ روپے کا پیٹرول لیا جائے تو ۹۹؍ روپے اورکچھ پیسے کا پیٹرول ملتا ہے۔ شروع میں ہمیں لگا کہ اگر ہمیں کچھ کم ملتا ہے تو ممکن ہے بعض کو کچھ زیادہ بھی مل جاتا ہو لیکن بار بار کے مشاہدے کے بعد ایک بار میں ہم نے ملازم سے پوچھ ہی لیا تو پتہ چلا کہ وہ مشین اتنے پر سیٹ کی ہوئی ہے۔   ظاہر ہے کہ ۴۰۔۳۵؍ پیسے کیلئے صارف تکرار نہیں کرتا لیکن یہ بات  قابل غور ہے کہ اس طرح ایک پیٹرول پمپ پر دن بھر میں کتنا ’زائد‘ پیسہ جمع ہوجاتا ہوگا؟ اگر وہ رقم ’خیرات‘ بھی کردی جاتی ہو تو وہ حق ادا ہوجائے گا؟ کاش ! ہم سمجھ سکتے کہ حقوق العباد کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ اور یہ کہ ہم اپنے عمل سے اسلام کو کتنا بدنام کررہے ہیں؟

Roznaamcha_ Miss Use facebook

فیس بک کا غلط استعمال

ہم پر یہ الزام ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر کسی سے لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی اگر کچھ دنوں کیلئے موقوف رہے تو لڑائی کے نئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان الزامات کے مطابق مسلمان صرف ہندوؤں سے نہیں لڑتے بلکہ آپس میں بھی خوب لڑتے ہیں۔ کہیں مسلکی لڑائی ہوتی ہے تو کہیں علاقائی۔ یہ چین سے نہیں بیٹھتے۔
     بلاشبہ یہ ہم پر الزام  ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ الزام تراشی اس لئے کہ مسلمانوں کو جھگڑالو ثابت کیا جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ وطن عزیز میں جو سالانہ ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے ہیں، اس کیلئے فرقہ پرست عناصر نہیں بلکہ مسلمان ہی ذمہ دار  ہیں..... لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ان الزامات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ نادان ہیں۔اس نادانی کے سبب وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ملت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قوم کو اُن کی اِن حرکتوں کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف مٹھی بھر ہے لیکن ان مٹھی بھرعناصر کی وجہ سے یہ الزام پوری کمیونٹی کے سر تھوپا جارہا ہے اورحالات ایسے ہیں کہ ہم اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ  اب تحریری صورت اختیار کرگیا ہے۔
     ان دنوںفیس بک پر غلط تربیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے یہ عناصر سرگرم ہیں اور اپنے فاسد خیالات سے معاشرے کی فضا کو مسموم کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔مسلکی اختلافات کو یہ اس قدر بڑھا چڑھا کر اور اتنے تضحیک آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اور ان کے مخالفین دونوں طیش میں آجائیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کا تعلق کسی خاص جماعت یامسلک سے نہیں ہے بلکہ اس حمام میں  بیشتر ننگے نظر آتے ہیں۔
        سوال یہ ہے کہ کیا ان اختلافات کو ابھارے اور دوسرے مسالک پر تنقید کئے بغیر ہم اپنے  مسلک پر قائم نہیں رہ سکتے؟ اپنے راستے پر نہیں چل سکتے؟ اپنی بات نہیں کہہ سکتے؟ آخروہ کون سا جنون ہے جو انہیں اس پر آمادہ کرتا ہے ؟ کیا وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں؟
        فیس بک اگر کوئی بہت اچھی چیز نہیں تو بری بھی نہیں ہے، اس کے بہتر استعمال سے بہتر نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ آپسی میل جول اور پیغام رسانی کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ ہے۔ ایک بڑا طبقہ ہے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا قائل ہے اوراس کی مدد   سے قوم اور سماج کو فیض پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
         مسلکی اختلافات کو کرید کرسماج میں انتشار پیدا کرکے ذہنی تسکین حاصل کرنیوالے یہ نوجوان کافی باصلاحیت  ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کامنفی استعمال ہورہا ہے حالانکہ اس کامثبت استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ کاش ایسا ہو! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟

Roznaamcha_ Khushamad aur urdu

خوشامد اوراردو داں
 
ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایمان کی تین قسمیں ہیں۔ کسی غلط عمل کو طاقت سے روکنے کو اول، زبان سے منع کرنے کو دوم اور دل سے برا سمجھنے کو تیسرا درجہ دیا گیا ہے۔
    آج کی صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ   بیشتراردو والے ایمان کے اس تیسرے درجے میں بھی نہیں رہنا چاہتے۔ یہ صرف دوسروں پر تنقید کرنا جانتے  ہیں ۔ہمیں یاد ہے کہ جب دہلی میںاردو اکیڈمی کےنئے سربراہ کا اعلان ہوا تھا تو ممبئی کے اُردو والوں نے خوب ناک بھوں چڑھایا تھا۔  اس موقع پر بعض نے تو یہاں تک کہاتھا کہ دہلی کے اردو والوں کو اکیڈمی کا بائیکاٹ کرنا چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب مہاراشٹر میں اس سے بھی بدترین صورتحال پیدا ہوئی تو انہی میں سے بعض آگے بڑھ کر کار گزار صد ر کا خیر مقدم کرنے لگے۔
    ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں لہٰذا کسی غلط عمل کو طاقت سے روکنے کی بات نہیں کرسکتے لیکن کیا ہم کسی غلط عمل کو غلط بھی نہیں کہہ سکتے؟کیا ہم خود کو اتنا مجبور و بے بس پاتے ہیں؟کیا ایسا کرکے ہم نان شبینہ کے محتاج ہوجائیںگے؟ کیا ہمارا ضمیر اتنا مردہ ہوگیا ہے کہ ہم میں خودداری کی رمق بھی باقی نہیں رہی۔  
    ایک بات یہاں واضح ہوجانی چاہئے کہ مرکز میں مودی یا ریاست میں فرنویس سرکار کی مخالفت کی بات نہیں کی جارہی ہے کیونکہ اس کا انتخاب جمہوری انداز میں ہوا ہے۔ ایک جمہوری ملک کے شہری ہونے کی وجہ سے کسی بھی منتخب سرکار کو تسلیم کرنا ہماری مجبوری ہے لیکن اس سرکار کے تمام فیصلوں کو من و عن تسلیم کرلینا قطعی ہماری مجبوری نہیں ہے ۔ہم سے بھلے تو وہ ہیں جو ’ایمان‘ کا  دعویٰ نہیں کرتے۔ گجیندر چوہان کی مخالفت کی تو اسے آج تک دفتر نہیں آنے دیا۔ ہم اردو والوں کو موقع ملا تو اب تک نہ جانے اس کے اعزاز میں کتنے پروگرام کر چکے ہوتے اور اس کے کتنے قصیدے لکھ چکے ہوتے؟   دادری سانحہ کے بعد یکے بعد دیگرے ساہتیہ اکیڈمی کے ۱۷؍ ایوارڈ یافتگان بطور احتجاج اپنا ایوارڈ واپس کرچکے ہیں اور بعض نے اکیڈمی کی رکنیت سےاستعفیٰ تک دے دیا ہے لیکن ہم میں ایک مراسلہ لکھنے کی جرأت تک نظر نہیں آتی ہے کہ کہیںہم نظرمیں نہ آجائیں۔ اردو کے شاعر و ادیب بھی حساس ہونے دعویٰ کرتے ہیں لیکن افسوس کہ کبھی اس کا اظہار نہیں ہوپاتا۔  اس کے برعکس ان کے عمل سے نظیر اکبر آبادی کے اس شعر کی ترجمانی   ہوتی ہے کہ :
گر بھلا ہو تو  بھلے کی بھی خوشامد کیجئے
اور بر ا ہو تو برے کی بھی خوشامد کیجئے
پاک ناپاک سڑے کی بھی خوشامد کیجئے
کتّے، بلی و گدھے کی بھی خوشامد کیجئے
     ضروری نہیں کہ ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈ یافتگان کی طرح ہم بھی اپنے ایوارڈ واپس کردیں۔شاید ہم اس ’نقصان‘ کے متحمل نہیں ہیں لیکن اظہاررائے کی جرأت تو باقی رکھنی چاہئے۔غلط کو غلط سمجھنے کی ہمت تو ہونی چاہئے۔  کاش! کہ ایسا ہو، اب سے کچھ ایسا ہو۔

Wednesday, 7 October 2015

Teachers, students and parents

اساتذہ، طلبہ اور والدین

کسی بھی سماج میں تعلیمی ترقی کا راز عام طور پر اساتذہ، طلبہ اوروالدین  کے باہمی ربط میں تلاش کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ یہ تینوں زاویئے کافی اہم ہیں لیکن موجودہ دور میں صرف ان تین زاویوں کے متحرک ہونے سے کسی سماج کی کایا پلٹ نہیں ہوسکتی جب تک کہ تعلیمی اداروں کا انتظامیہ اور سماج بھی ان کے ساتھ معاونت نہ کرے۔   والدین اپنی بساط بھراپنے بچوں کو مواقع اور ماحول فراہم کرسکتے ہیں ، طلبہ جی جان لگا کر پڑھائی کر سکتے ہیں اور اساتذہ بھی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکتے ہیں لیکن صرف ا ن تینوں کی کوششوں سے انقلابی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کیلئے اسکول انتظامیہ بھی سر جوڑ کر بیٹھے اور سماج نہ صرف ان کی سرپرستی کرے بلکہ ان پر سخت نگرانی بھی رکھے۔ 
    اس کا شدیداحساس  اُس وقت ہوا  جب ایچ ایس سی کا رزلٹ ظاہر ہوا۔ ہمارے دفتر میں رپورٹ کی اشاعت کیلئے ۱۰۰؍ فیصد رزلٹ کا ڈھنڈورہ پیٹنےوالے تعلیمی اداروں کی ایک طویل لائن لگ گئی۔دیکھ کر ہم سب بہت خوش ہوئے کہ ہمارا تعلیمی گراف بلند ہورہا ہے۔ رپورٹس کی صورت میں ان تعلیمی اداروں کے قصیدے ایک ماہ تک شائع ہوتے رہے لیکن جب میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلوں کیلئے ضروری امتحان ’سی ای ٹی ‘ اور ’جے ای ای‘ کے نتائج ظاہر ہوئے تو میرٹ لسٹ میں ان تعلیمی اداروں کے بچے بہت پیچھے نظر آئے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ایم بی بی ایس  اور انجینئرنگ کے اچھے اداروں میں ان کالجز کے طلبہ کا تناسب کیا ہے؟ لیکن جہاں تک ہم تلاش کرسکے، جہاں تک ہماری نظر گئی، ہمیں ایک بھی طالب علم ایسا نہیں مل سکا جواس بات کا دعویٰ کرسکتا کہ پرائیویٹ کوچنگ کے بغیر اس کاکسی اچھے کالج میں داخلہ ہوا ہے۔ 
     ہم پرائیویٹ کوچنگ کی وکالت نہیں کرتے اور نہ ہی اس طرح کی کسی کوشش کی تائید و حمایت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں جب بارہویں کے رزلٹ کی اہمیت تقریباً ختم کردی گئی ہے اور اس کی جگہ انٹرنس امتحانات نے لے  رکھی ہے تو کیوں نہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس پر زیادہ فوکس کریں۔ ظاہر  ہے کہ یہ کام طلبہ، والدین اور اساتذہ نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے انتظامیہ اور سماج کو آگے آنا ہوگا اورانہیں وسائل  فراہم کرنے ہوںگے۔ 
    ہم دیکھ رہے ہیں کہ بیشتر جونیئر کالجوںکی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں ہے۔ طلبہ کو بارہویں پاس کرا دینا ہی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ بعض کالجزمیں ہے بھی تو وہ پروفیشنلزم نہیں ہے جس کا وقت تقاضا کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرائیویٹ کوچنگ کلاسیز کے پاس  ہمارے کالجز کے مقابلے زیادہ وسائل ہیں کہ ان میں کوچنگ کرنےوالے طلبہ بارہویں میں اچھے مارکس لاتے ہیں اور انٹرنس میں بھی۔اس پر غور کیا جانا چاہئے کہ جب وہ کرسکتے ہیں،تو ہم کیوں نہیں؟

Modi k lahaasil daure

وزیراعظم کے بین الاقوامی دورے ملک کیلئے نہیں، ذاتی شبیہ بہتر بنانے کیلئے ہیں
!
بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی اپنی ۱۶؍ ماہ کی مدت میں ۲۹؍ بین الاقوامی دورے کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ مزید ۶؍ دورے کرنے والے ہیں۔  وہ  لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن  ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس محسوس یہ ہوتا ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں  کے ذریعہ وہ اپنی شیبہ بہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں
 
قطب الدین شاہد

 چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا.... ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہے گا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے اور چل چنئی جا۔‘‘
        کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت اور ہمارے وزیراعظم کا ہے۔ ملک کو قحط سالی کا سامنا ہے اور وہ  ملک کو ڈیجیٹل انڈیا بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے ایک بڑے حصے میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہے اور وہ سلامتی کونسل میں ہندوستان کو مستقل رکنیت دلانے  کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ ملک میں مسلسل فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں اور وہ سرمایہ کاروں کو ہندوستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
    عوام سے اچھے دنوں کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنےوالے وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پوری توانائی بین الاقوامی دوروں اور انتخابی ریلیوں میں صرف کررہے ہیں۔ عوام شکایت کرتے ہیں تو وہ مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ ہماری حالت زار دیکھو، ہمیںاس سے باہر نکالو، ملک میں اچھے دن لاؤ، تو جواب ملتا ہے کہ ’’صبر کرو، عام انتخابات میں ابھی چار سال باقی ہیں۔‘‘لوگ کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’روٹی کیوں؟  یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔   عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتےہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ کالا دھن واپس لاؤ۔ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ،یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیروں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ صرف ایک سال میں۴۲؍ ہزارکروڑ پتیوں کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘  لوگ کہتے ہیں کہ سرکار! ہمارے ملک میں ۸۰۔۷۰؍ کروڑ افراد ایسے بھی ہیں جن کی فی کس آمدنی یومیہ ۱۰۰؍ روپے بھی نہیں تو جواب ملتا ہے کہ ’’ یہ بھی تو دیکھو ! وطن عزیز  میں ۱۰۰؍ ایسے امیر ہیں جن کی دولت     ۳۴۵؍ بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ عوام کہتے ہیں کہ یہ توخواص کی بات ہوئی توسرکار کہتی ہے کہ ’’ ہماری ذمہ داری صرف کاہلوں اور جاہلوں کی حالت بہتر بنانے کی نہیں ہے۔ ہمیں اڈانی اور امبانی کیلئے بھی تو کام کرنے ہیں۔‘‘ عوام کہتے ہیں کہ ملک قحط سالی سے دو چار ہے، کسان خود کشی کررہے ہیں، تو حکومت کہتی ہے کہ’’فکر مت کرو، سرکار کے پاس اناج کا خوب ذخیرہ ہے اور ضرورت پڑی تو درآمد بھی کرلیا جائے گا۔‘‘کہا جاتا ہے کہ لوگ گاؤں خالی کررہے ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ’’ کوئی بات نہیں، ہم ۱۰۰؍ اسمارٹ سٹی بنانے کا کانٹریکٹ تیار کررہے ہیں۔‘‘ غرض یہ کہ  ہر سوال کا قولاً اور عملاً’ مارو گھٹنا، پھوٹے آنکھ‘ والا جواب مل رہا ہے۔
    کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ملک  قحط سالی سے دوچار ہے اور ہمارے وزیراعظم دوروں پر دورے کئے جارہے ہیں۔ دنیادیکھ رہے ہیں، سیاسی سربراہان اور کارپوریٹ دنیا کے ’سی ای اوز‘ سے مل رہے ہیں، تصویریںکھنچوا رہے ہیں اور اس عمل میں اُتاولے پن کا مظاہرہ کرکے ملک کا وقار بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی۳۸؍ فیصد زمین بارش کی  شدید کمی کا شکار ہے اور  یہ عام خشک سالی بھی نہیں ہے بلکہ ملک کومسلسل دوسرے سال قحط سالی کا سامنا  ہے ۔ اعداد و شمار  کے ماہرین بتاتے ہیں کہ گزشتہ سو سال میںیہ تیسرا موقع  ہے کہ جب لگاتار دو سال تک پورا ملک خشک سالی کی زد پر رہا ہو۔  رپورٹ کے مطابق ملک کے ۶۴۱؍ میں سے۲۸۷؍ اضلاع  خشک سالی  کے شکار ہیں۔ کئی سو اضلاع  ایسے ہیں جہاں گزشتہ ۶؍ برسوں سے مسلسل بارش کی کمی کی شکایت رہی ہے۔اس کی وجہ سے کسان خود کشی کررہے ہیں لیکن وزیراعظم کو ملک کے کسانوں کی اور ان پر انحصار کرنے والے ۵۰؍ کروڑ افراد کی فکر نہیں ہے،  ان کے نزدیک سندر پچائی اور مارک زکربرگ کے ساتھ سیلفی زیادہ  اہم ہے۔
    مودی حامی ان کے دوروں کو ضروری قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ملک کو ’سپر پاور‘ بنانے کیلئے اس طرح کی لابئینگ  ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے بعد ہی ملک کی تصویر بدل سکےگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے دوروں اور سودوں سے ملک  سپر پاور بن سکے گا؟ بھوکے پیٹ سرحدوں کی حفاظت ہوسکے گی؟جنگی طیارے خریدکر غریب بچوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنایا جاسکے گا؟
      چلو یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ملک کی طاقت میں اضافے کیلئے اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت ضروری ہے اوراس کیلئے مختلف ممالک کو ہموار کرنا بھی ناگزیر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کن ممالک کو اپناہم خیال اور اپنا ہمنوا بنانا ہے اورکن کے سامنے دست تعاون دراز کرنا ہے ۔ ماریشس، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، منگولیا، جنوبی کوریا،  آئر لینڈ، فجی  اور  میانمار جیسے ممالک بھلا ہندوستان کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بات تو سیاست کاادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی فیصلہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کو ہموار  کئے بغیر نہیں ہوسکتا پھر ان تمام ملکوں کی رضامندی اورخوشنودی کی ضرورت کہاں آن پڑی جبکہ ابھی یہ ۵؍ ممالک ہی راضی نہیں۔  دوسروں کو ہموار کرنے کی ضرورت تو دوسرے مرحلے میں پڑے گی۔ گزشتہ دنوں جاپان، جرمنی اوربرازیل کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کرکے پتہ نہیں کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ سچائی یہ ہے کہ یہ تینوں ممالک  سیاسی اعتبار سے ہندوستان سے زیادہ مجبور اور بےبس ہیں۔ فی الوقت ہندوستان کی مستقل رکنیت کے دعوے کی واضح مخالفت صرف پاکستان کررہا ہے جبکہ ان تینوں ممالک کی مخالفت کرنےوالے درجنوں ممالک ہیں۔ اس لئے ان کی حمایت سے  فائدے کے بجائے نقصان کا  زیادہ خدشہ ہے۔
     مودی جی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کی خاطر در در بھٹک رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے اس دعوے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔سچائی یہ ہے کہ ابھی تک ملک میں  سرمایہ کاری کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں آئی ،اس کے برعکس امریکہ جانے سے قبل  ہندوستان نے واشنگٹن سے ۲۰؍ ہزار کروڑ روپوں میں ہیلی کاپٹر خریدا یعنی پیسہ ملک میں آنے کے بجائے ملک سے باہر جارہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ۱۶؍ مہینوں میں مودی ۲۹؍ ملکوں کا دور ہ کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ یعنی نومبر تک اسرائیل سمیت مزید ۶؍ ملکوں کے دوروں کا پروگرام ترتیب پاچکا ہے۔ ان دوروں پر عوامی خزانے کو نہایت  بے دردی کے ساتھ لٹایا جارہا ہے۔ آر ٹی آئی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شروع کے صرف ۱۶؍ ملکوں کے دوروں پر وزیراعظم ۳۷؍کروڑ روپوں کو دریا برد کرچکے تھے، جن میں سب سے مہنگا دورہ آسٹریلیا کاثابت ہوا تھا جہاں محض ٹیکسی کے کرائے پر ہی ڈھائی کروڑ روپے   پانی کی طرح بہا دیئےگئے تھے۔
     دعویٰ کچھ بھی کریں لیکن مودی نوازبھی یہ  بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر مودی کی واہ واہی اس لئے نہیں ہورہی ہے کہ وہ بہت ذہین اور مقبول ہیں بلکہ اس لئے ہورہی ہے کہ وہ ہندوستان کے وزیراعظم ہیں، جہاں کی آبادی ۱۵۰؍ کروڑ کے آس پاس ہے،جن میں نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ایک نوجوان ملک ہونے کی وجہ سے آج   یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی  ہے۔  یہی سبب ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں وطن عزیز کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہیںکیونکہ ان کیلئے یہاں بزنس کے بھرپور مواقع ہیں۔ ویسے مودی کیلئے یہ بات باعث شرم ہونی چاہئے کہ ان کمپنیوں نے ان کے منہ پر ہی یہ بات کہہ دی کہ سرمایہ کاری کیلئے ہندوستان کا ماحول سازگار نہیں۔مطلب صاف تھا کہ آپ پہلے ملک کی حالت بہتر کیجئے۔ ملک کے نوجوان وزیراعلیٰ اروند کیجریوال  نے بھی مودی جی کو کچھ اسی طرح کا  مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے  چین کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اس نے پہلے خود کو مضبوط کیا اور اس کے بعد دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانے سرمایہ کاری کیلئے خود چل کراس کے دروازے پر پہنچے۔ اسلئے ہمیں بھی پہلے ہندوستان کو مضبوط بنانا ہوگا۔‘‘خیال رہے کہ کیجریوال نے  اُس سے قبل ایک ٹوئٹ  میں مودی حکومت پر طنز کیا  تھا کہ ’ میک اِن انڈیا‘ کے بجائے ہمیں ’میک انڈیا‘ پر توجہ دینی ہوگی۔
    ملک کو سپر پاور بنانے اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے ساتھ ہی ایک اور دعویٰ کیا جارہاہے کہ وطن عزیز کو عالمی سطح پر باوقار بنانے کیلئے ملک کو ڈیجیٹل انڈیا میں تبدیل کرنا ہے، اس کیلئے بھی دنیا بھر کے کارپوریٹ سربراہوں سے ملاقات ضروری ہے۔ دعویٰ کیا جا رہاہے کہ امریکہ میں زکربرگ (فیس بک)، ستیہ ناڈیلا (مائیکرو سافٹ)، سندر پچائی (گوگل)،   سلمان خان (خان اکیڈمی) اور  دیگر عالمی سطح کی کمپنیوں کے سی ای اوز سے اس لئے ملاقات کی گئی کہ ان کے توسط سے ہندوستان کے پانچ لاکھ گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم ہوجائے ، ۵۰۰؍ ریلوے اسٹیشنوں پر وائی فائی لگ جائے،  کروڑوں ہندوستانیوں کو موبائل فون مل جائیں اورشمسی توانائی گھر گھر پہنچ جائے گی تاکہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ہوجائے...... لیکن کیا یہ اتنا آسان  ہے؟ کیا ہم  اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ یہ کمپنیاں خالص منافع کیلئے کام کرتی ہیں، خیرات ان کا اصول نہیں۔
    اس طرح کی باتیں کرکے مودی آخر کسے بیوقوف بنارہے ہیں، ان کو جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے یا انہیں جن پر اُن کی حقیقت  اول دن سے عیاں ہے۔ غریبی، بدعنوانی اور عدم مساوات کے خلاف اعلان جنگ کا ڈھونگ رچنے اور’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘  کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آنےوالی مودی حکومت سمجھتی ہے کہ ملک آج بھی اس کے طلسم میں گرفتار ہے۔  دہلی اسمبلی کےا نتخابی نتائج کو وہ محض اتفاق سمجھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہار کے اسمبلی الیکشن میںنئے وعدوں اور نئے انتخابی جملوں کےساتھ ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  
    شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔ اس کی کارستانیاں عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔  سچ  یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کی پالیسیوں کو پسند کر رہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب  رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصدکسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہ کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب  ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے،فکرہے تو۱۲۷؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ایک لاکھ ۹۸؍ ہزار کروڑ پتیوں کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔
          مودی لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس سچائی یہ ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں  کے ذریعہ وہ اپنی اُس خراب شیبہ کوبہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

Wednesday, 30 September 2015

Qurbani ki video graphy

قربانی کی ویڈیوگرافی

عید قرباں،اللہ کی محبت میں سب کچھ قربان کردینے اوراطاعت و فرمانبرداری کی انتہا تک پہنچنے کا پیغام دیتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت کم اس پیغام تک پہنچنے یا اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عید قرباں کو ایک طبقے نے نمائشی بنا کر تو رکھ ہی دیا تھا ، اب کچھ لوگ اسے سنگین بھی بنانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
    بلاشبہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رواداری کا حامل ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ برادران وطن کے ایک طبقےکی جانب سے  مذہب کے نام پر ہونے والی شر انگیزیاں خالص سیاسی ہیں،وہ  ان کے ’جذبات ‘ کا احترام کرتا ہے  ۔اور کیا بھی جانا چاہئے کیونکہ ہمارا مذہب رواداری  کی تعلیم دیتا ہے لیکن ہم میں بھی چند شرانگیز عناصر ایسے ہیں جن کی وجہ سے پوری قوم  پر حرف آتا ہے۔یہ طبقہ رواداری کو بزدلی سے تعبیر کرتا ہے لہٰذا کسی بھی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ قربانی کے بعدگوشت کو ایسے ہی ٹھیلے پر کھلا رکھ کر غیرمسلم محلوںسے گزرتے ہوئے دندناتے چلے جاتے ہیں۔ ہاتھ میں چھریاں بھی بے نیام رکھتے ہیں اور خون میں اپنے کپڑوں کو بھی لت پت رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے میں انہیں ’مزہ‘ آتا ہے۔  
     اس طرح کی حرکتیں قابل قبول ہرگز نہیں ہوسکتیں لیکن اس سے زیادہ قبیح حرکتیں امسال دیکھنے میں آئیں۔ ایام قربانی میں جانوروں کی قربانی سے لے کر ان کی کھال نکالنے اور بوٹیاں بنانے تک کے اس پورے عمل کی نوجوانوں کی جانب سے ویڈیو گرافی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ جیسے ہی کسی جانور کو قربانی کیلئے گرایا جاتا، اینڈرائیڈ فون رکھنےوالے نوجوان اس کی ویڈیو شوٹنگ کاآغاز کردیتے۔ خدا جانے، اس ویڈیو کا کیا مصرف  ہے اور وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ ایک دو نوجوان ہوں تو ڈانٹ ڈپٹ کر یا کسی سے کہہ سن کر انہیں منع بھی کردیں کہ بھائی میرے ! یہ کیا کررہے ہو؟ لیکن قربان گاہ میں جتنی چھریاں حرکت میں تھیں، اس سے کہیں زیادہ موبائل  سے’کام‘ ہورہا تھا۔   خدانخواستہ ان میں سے کسی  نادان نے اگر اس کا ویڈیو کسی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا تو کیا موضوع کی تلاش میں سرگرداں  فرقہ پرست عناصر اس کا’فائدہ‘ نہیں اٹھائیں گے۔ ابھی تو وقت گزر گیا ہے لیکن بڑے بزرگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے نوجوانوں کوباز رکھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بیلوں  کے ذبیحہ پر پابندی کا مسئلہ مذہبی نہیں، خالص سیاسی ہے اور تعصب کی بنیاد پر ہے لیکن ہم انہیں کیوں موقع دیں کہ قانون کے دائرے میں رہ کر ہونےوالی قربانی بھی ایک مسئلہ اور ایک ایشو بنے۔   اسی طرح جگہ جگہ گندگیوں کاانبار بھی دوسروں کو مسلمانوں کے ساتھ ہی عید قرباں اور اسلام پر انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔  حالانکہ ہمارا مذہب  امن، رواداری اور ایثار وقربانی کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم نہ صرف جانور قربان کریں بلکہ اپنے عمل سے قربانی کے اس پیغام کو بھی عام کریں جو اس سنت ابراہیمی کا مقصد ہے  ۔

Studenst and guardian

طلبہ اور سرپرست

والدین اور اساتذہ کی رسمی ملاقات جو پیرنٹس ٹیچر اسو سی ایشن (پی ٹی اے)کی میٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے،اس کا انعقاد عام طور پر اسکولی سطح تک ہوتا ہے البتہ کہیں کہیں جونیئر کالجوں میں بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے لیکن سینئر کالجز، بالخصوص پروفیشنل کالجز میں کبھی سننے میں نہیں آیا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ سے  والدین  نہ صرف اپنے بچوں کی پیش رفت سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ انہیں ان کے اساتذہ کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے، اسی طرح اساتذہ کو بھی بچوں کی خوبیوں اور خامیوں کو بتانے کا ایک موقع میسر آتا ہے۔ 
     یہی سبب ہے کہ گزشتہ دنوں جب مجھے کالسیکر انجینئرنگ کالج سے ’پی ٹی اے‘کی میٹنگ سے متعلق ایک فون آیا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ چلو کالج انتظامیہ اتنا تو بیدار ہے کہ وہ صرف فیس کے حصول ہی کو ضروری نہیں سمجھتا بلکہ کالج کی ترقی کیلئے طلبہ کی تعلیمی پیش رفت کو بھی ضروری سمجھتا ہے اور اس کیلئے وہ والدین کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔
    میٹنگ خوشگوار تھی۔ کالج انتظامیہ نے اپنا ویژن پیش کیا  اور طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کیلئے والدین سے تعاون کی درخواست کی۔ اس موقع پر ادارے  کے چیئرمین برہان حارث نے والدین کے عدم تعاون کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ۳۷۰؍والدین کو مدعو کیا گیا تھا جن میں سے ۳۰۰؍ نے دعوت قبول کی تھی لیکن آج یہاں صرف ۱۵۰؍ ہی شریک ہیں۔  حالانکہ سمینار ہال کی استعداد دیکھ کر یہی محسوس  ہواکہ اگر دعوت قبول کرنےوالے تمام کے تمام حاضر ہوجاتے تو ۱۰۰؍ سے زائد والدین کو کھڑے رہنا پڑتا۔   برہان حارث کی ایک بات اچھی لگی کہ اس طرح کی میٹنگ میں  والدہ کی شرکت  سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا کی والد سے ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی میٹنگوں میں طلبہ کی کارکردگی بیان کی جاتی ہے جس میں شکایات کے عناصر زیادہ ہوتے ہیں۔  ایسے میں والدہ کی شرکت سے زیادہ فائدہ اسلئے نہیں ہوتا کہ ۱۹۔۱۸؍ سال کے بچوں  پر  ان کا زیادہ دباؤ نہیں ہوتا۔ بقول برہان حارث ’’مائیں بچوں کی زیادہ’ہمدرد‘ ہوتی ہیں، اسلئے وہ ان کی خامیاں چھپاتی ہیں جبکہ والد کچھ حضرات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ یہیں کالج ہی میں بچوں کی پٹائی کرنے لگتے ہیں۔ ان دونوں باتوں سے بچوں کی اصلاح نہیں ہوپاتی۔ ‘‘ وہاں موجود والدین سے انہوں نے توازن برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی۔    
     لیکن ایک بات دیکھ کر افسوس ہوا کہ  پوری طرح سےپروفیشنل کالج ہونےکے باوجود میٹنگ میں  پروفیشنلزم نظر نہیںآیا۔میٹنگ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی اور اس کا الزام بھی والدین کے سر منڈھ دیا گیا کہ ان کی تعداد کم ہے لہٰذا مزید والدین کاانتظار کیا جارہا ہے۔  اس طرح وقت کی قدر کرنےوالے والدین  کوجو وہاں ۱۵؍ منٹ قبل ہی پہنچ چکے تھے، بلا وجہ ۲؍ بجے تک بیٹھے رہنا پڑا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا     ۔

Taleem niswaan and masayel

تعلیم نسواں اور مسائل
!
گزشتہ دنوں بھیونڈی میں منعقدہ تقسیم انعامات سے متعلق ایک تعلیمی پروگرام میں ایک معزز مہمان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انعام یافتگان میں سب لڑکیاںہی ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انعامات کی تقسیم کا یہ منظردیکھ کر میں حیران ہوں کہ تمام انعامات پر لڑکیاں قابض ہیں اور لڑکے بیٹھے صرف تالیاں بجا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ اگر لڑکیاں اسی طرح تعلیم میں آگے بڑھتی رہیں اور لڑکے اسی طرح پیچھے رہے تو ایک بڑا سماجی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ان لڑکیوں کیلئے مناسب رشتہ تلاش کرنا ابھی محال ہے، آگے  پتہ نہیں حالات کتنے خراب ہوںگے؟‘‘
    واقعی یہ بڑاحساس مسئلہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ لڑکیاں ، میٹرک فیل لڑکوں کے گلے باندھی جا رہی ہیں۔ ایم اے بی ایڈ لڑکیوں کے شوہر رکشا چلا رہے ہیں یا ٹھیلے پر سبزیاں فروخت کررہے ہیں۔ رکشا چلانا اور سبزیاں بیجنا  غلط نہیں ہے اور کسی بھی لحاظ سے  یہ کوئی معیوب پیشہ نہیں ہے لیکن اندازہ  یہی ہے اور مشاہدہ بھی کہ ان حالات میں میاں بیوی کے رشتوں میں توازن نہیں رہتا ہوگا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ بیوی ایم اے بی ایڈ ہے تو ملازمت ہی کرے لیکن  مناسب تو یہی ہے کہ اسے شوہر اس کے معیار کا ملے۔ ایم اے بی ایڈ نہ سہی ، پوسٹ گریجویٹ تو ہو اور اگر اس کے بھی لالے پڑے ہوں تو کم از کم گریجویٹ تو رہنا ہی چاہئے۔
    لیکن اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ لڑکیاں کم پڑھیں بلکہ کوشش یہ ہو کہ لڑکے زیادہ پڑھیں۔ اسی تقریب میں بطور مہمان تشریف لائی ایک خاتون ڈاکٹر بھی تھیںجو ایم بی بی ایس کے بعدابھی گائنا کولوجی میں پوسٹ گریجویشن کررہی ہیں۔ انہوں نے اس تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ یہی باتیں کہیں کہ ’’آپ کو افسوس اس بات پر کرنا چاہئے تھا کہ لڑکے انعام کیوں نہیں حاصل کررہے ہیں ، نہ کہ اس بات پر کہ لڑکیاں کیوں انعام حاصل کررہی ہیں؟‘‘  خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکے اگر پڑھتے ہیں تو خوشی ہمیں بھی ہوگی لیکن ان کے نہ پڑھنے سے ہم اپنی تعلیم کیوںمنقطع کردیں؟ بات بالکل درست  ہے۔یہ موضوع غور و فکر کا متقاضی ہے۔
    بہت مشہور مثال ہے کہ بلیک بورڈ پر استاذ نے ایک لکیرکھینچ کر طلبہ سے کہا کہ اس لکیر کو ہاتھ لگائے بغیر اسے چھوٹا کرو۔ طلبہ کو سانپ سونگھ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟  ہاتھ لگائے بغیر اسے بھلا چھوٹا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ پھر استاذ گرامی نے اس کے قریب ہی اس سے قدرے بڑی  ایک اور لکیر کھینچ دی اور کہا کہ ان میں چھوٹی کون سی ہے؟ سبھی نے پہلی لکیر کی طرف نشاندہی کی۔ استاد نے کہا کہ ہاتھ لگائے بغیر ہی یہ لکیر چھوٹی ہوگئی نا! پھر انہوں نے کہا کہ مسابقت کے زمانے میں اگر آپ کو کسی سے آگے بڑھنا ہے تو اس  سے بہتر کرنے کی کوشش کرو۔
    کچھ اسی طرح کی کوشش اس تعلیمی توازن کو بہتر کرنے کیلئے بھی کرنے کی ضرورت ہے       ۔

Teachers day prog

یوم ِاساتذہ کی تقاریب

 ہر سال کی طرح امسال بھی ۵؍ ستمبر کویوم اساتذہ کی تقریب پورے ملک میں نہایت زور و شور سے منائی گئی۔ اس سلسلے میں اردو اسکولیں بھی پیچھے نہیں تھیں بلکہ اگر یہ کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اردو اسکولیں پیش پیش تھیں۔  اس دن کو مختلف اسکولوں میں مختلف طریقوں سے  منایا گیا۔ کہیں اساتذہ کی شان میں تقریریں ہوئیں تو کہیں طلبہ کو ایک دن کیلئےٹیچرس کے کردار میں پیش کرکے انہیں ذمہ دار بنانے کی کوشش کی گئی۔ کہیں طلبہ میں مسابقتی پرواگرم منعقد ہوئے تو کہیں اساتذہ کے مابین  مقابلہ ہوا۔ کہیں اساتذہ کرام کو انعام و اعزاز سے نوازا گیا تو کہیں  انہیں احتساب کی بھی دعوت  دی گئی۔
     بھیونڈی اردو والوں کی بستی ہے۔ ممبئی اوردیگر شہروں کے مقابلے یہاں اردو اسکولیں زیادہ فعال ہیں۔ ایک جانب جہاں دوسروں شہروں میں اردو اسکولیں بند ہورہے ہیں یا اردو کے ڈویژن ختم ہو رہے ہیں، وہیں دوسری جانب بھیونڈی میں نہ صرف اردو اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ حکومت سے نئے  ڈویژن کی بھی مانگ کی جارہی ہے۔ یہاں کئی جونیئر کالج بھی اردو میڈیم میں بڑی شان سے چل رہے ہیں۔ ۵؍ ستمبر کو یہاں تقریباً ہرا سکول اور کالج میں پروگرام منعقد ہوئے۔صبح ۱۰؍ بجے سے دوپہر ایک بجے تک میں تین پروگرام میں  شریک ہوا جن میں سے ۲؍ پروگرام کی نوعیت کافی بڑی تھی۔ ایک اسکول جو نسبتاً  چھوٹا ہے، پسماندہ علاقے میںواقع ہے اور محدود وسائل رکھتا ہے،  میں وہاں زیادہ دیر تک رکا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کچھ خاص ہوگا لیکن میری سوچ غلط ثابت ہوئی، پروگرام بہت اچھا رہا۔ 
    نیونیشنل اردو ہائی اسکول، شانتی نگر میں اس دن تمام پروگرام اساتذہ کرام نے پیش کئے۔ حمد، نعت اور استقبالیہ گیت سے لے کر تقریر تک۔ سب کچھ  ٹیچرس  نے پیش کئے۔ عام طور پر اساتذہ صرف تقریریں  کرتے ہیں ، حمد ، نعت اور استقبالیہ گیت کی ذمہ داریاں طلبہ کے سر پر ہی ڈالی جاتی ہیں۔  ایک اچھی بات یہ بھی رہی کہ ٹیچرس کا پرفارمنس دیکھنے کیلئے طلبہ اور ان کے والدین موجود تھے۔ اس کے باوجود اساتذہ کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ وہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کررہے تھے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مرتضیٰ سر نے کہا کہ’’ اساتذہ کرام  میں بے پناہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں لیکن انہیں اپنے فن کے مظاہرے  کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یہ پورے سال صرف طلبہ کو تیار کراتے رہتے ہیں اور انعامات سے اسکول کے ریک سجاتے رہتے ہیں۔   اسلئے ہم نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ یوم اساتذہ کو پوری طرح سے اساتذہ ہی کے نام کردیا جائے اور ماشاءاللہ یہ کوشش بہت کامیاب رہی۔‘‘ میں محسوس کررہا تھا کہ جب کوئی  ٹیچر اسٹیج پر آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا تو تمام ساتھی اساتذہ کے چہروں پر مسرت کی لہریں دوڑتی تھیں اور طلبہ بھی نہال ہورہے تھے۔ وہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ اس طرح دیگر اسکولوں میں بھی اساتذہ کو اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملنا چاہئے       ۔

Teachers day and gift

یوم ِاساتذہ اور تحائف

 دو دن قبل وہاٹس ایپ کے ایک گروپ میں ہمیں ایک میسیج موصول ہوا جس میں ٹیچرس ڈے کے موقع پر اساتذہ کے ذریعہ طلبہ سے تحائف قبول کرنے پر اعتراض ظاہر کیا گیا ہے۔ مضمون فکر انگیز ہے اور طرز تحریر بھی بہت عمدہ اور پُر اثر ہے۔ میسیج کےاختتام پر مضمون نگار کا نام لکھا ہے۔ ایک دن بعد وہی مضمون وہاٹس ایپ کے ایک دوسرے گروپ میں نظر آیا۔ مضمون ہو بہو اور لفظ بہ لفظ وہی تھا لیکن مضمون نگار کا نام تبدیل تھا۔ پتہ نہیں ان دونوں میں سے اصل مضمون نگار کون ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ مضمون نگار کوئی تیسرا شخص ہو۔  یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ دوسروں کو نصیحت کرنےوالے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔  اساتذہ پر تنقید کرکے ایک گروپ میں تھوڑی واہ واہی تو ہوگئی لیکن جب یہ پتہ چلے گا کہ وہ مضمون چوری کا ہے، تو اسی گروپ میں ان کی کیا عزت رہے گی؟
     بہرحال اس گروپ میں اس میسیج پر تبصرے بھی ہوئے جن میں سےبیشتر نے ’مضمون نگار‘کی تائید کی۔ اس بات پر سبھی نے اتفاق کیا کہ ٹیچرس کے ذریعہ طلبہ سے گفٹ وصول نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسی گروپ میں بھیونڈی کے ایک معزز ٹیچر جوہمارے دوست بھی ہیں، نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ بھیونڈی کے کسی اسکول میں ایسا نہیں ہوتا۔لیکن جب ہم نے اس تعلق سے تھوڑی سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس بدعت سے بھیونڈی کے اسکول اور کالج بھی پاک نہیں ہیں،  بالخصوص ان اسکولوں اور کالجوں میں جہاں لڑکیاں پڑھاتی ہیں اور لڑکیاں ہی پڑھتی ہیں۔  یہ تمام اسکولوں میں رائج نہیں ہے لیکن کئی اسکول اور کالج اس مرض میں مبتلا ہیں۔
    بلاشبہ کسی اسکول میں طلبہ پر گفٹ دینے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا جاتا لیکن یہ بات ان اساتذہ کرام کوخود ہی سوچنی چاہئے کہ کیا ان طلبہ سے گفٹ وصول کرنا اچھی بات ہے جنہیں جیب خرچ کے نام پر محض پانچ، دس اور بیس روپے ملتے ہوں۔اسکول اور کالج میں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی رہتی ہے کہ بچے زرق برق اور مہنگے لباس میں اسکول نہ آئیں جس کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوں ، ایسے میں  ٹیچرس ڈے کے موقع پر اگر چند طلبہ قیمتی تحفہ دے کر اپنے استاد کے منظور نظر بننے کی کوشش کرتے ہیں تو دیگر طلبہ پراخلاقی  دباؤ پڑتا ہے کہ وہ بھی اپنے استاد کو ’خوش‘ کرنے کی کوشش کرے۔استاد اور طالب علم کا رشتہ بہت مقدس ہوتا ہے، لہٰذا کوئی طالب علم اپنے کسی استاد کو کتنا بھی کچھ دے دے، وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتا لیکن یہ استاد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تحائف خریدکردینے والے طلبہ کی حوصلہ شکنی کریں۔  طلبہ کو بھی چاہئے کہ اس موقع پر وہ استاد کو کوئی مادّی تحفہ دینے کے بجائے خلوص کا نذرانہ پیش کریں ۔ وہ انہیں  اپنے ہاتھ سے لکھ کر سپاس نامہ جیساکچھ دیں... لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیمتی تحائف کے درمیان کیا اس طرح کے تحائف قبول کئے جائیں گے     ۔

Taleemi bedaari

تعلیمی بیداری

حالیہ کچھ برسوں میں مسلمانوں میں کئی اچھی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔  اب یہ صرف مسائل کا رونا نہیں روتے بلکہ وسائل کی بھی بات کرتے ہیں، صرف کمزوریوں کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ صلاحیتوں کی بھی شناخت کرتے ہیں، صرف تعداد کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ استعداد پر بھی نظر رکھتے ہیں اور تعصب سے گھبرا کر میدان نہیں چھوڑتے بلکہ ڈٹ کرمقابلہ کرتے ہیں اور دستیاب مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
    اس کا بہت اچھا احساس گزشتہ دنوں ایک تعلیمی جلسے میں شریک ہونے کے بعد ہوا۔ یہ جلسہ ایک بہت ہی چھوٹی کمیونٹی کا تھا لیکن اس کے عزائم اتنے بلند نظر آئے کہ دل سے یہ آواز نکلی کہ کاش! یہی عزم و حوصلہ ہم سب کا ہوجائے تو کوئی سچر کمیٹی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کو دلتوں سے بدتر بتاکر ہمیں ہماری حیثیت نہیں جتائے گی۔ جلگاؤں سے تعلق رکھنےوالی یہ ایک بہت ہی چھوٹی سی کمیونٹی ہے جوخود کو کاغذی کہلواتے ہیں۔ نصف صدی قبل ان کے اجداد جو معاشی طور پر نہایت پسماندہ تھے، اپنی بستی میں کاغذ سازی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس کام میں پورا گھر مصروف رہتا تھا لیکن ملوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کی آمد کے بعد جب ان کا کاروبار متاثر ہونے لگا تو انہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا۔ ان میں سے جو پڑھے لکھے تھے، زیادہ تر درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تو کچھ نے ریلوے میں ملازمت اختیار کرلی اور بعض نے تجارت کی راہ اختیار کی۔اس طرح بیشترکو جلگاؤں سے ہجرت کرکے ممبئی، کلیان، بھیونڈی،  مالیگاؤں اور دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑا۔کچھ ہی دنوں میں اس طبقے کے بیشتر افراد پسماندگی کے دلدل سے باہر آئے اور خود کفیل ہوگئے۔ 
    ۵؍ سال قبل ان میں سے کچھ ذہین اور اچھی سوچ رکھنے والے افراد نےایک میٹنگ کی اوراس بات پر غور و خوض کیا کہ اپنی کمیونٹی کے باقی ماندہ افراد کو پسماندگی کے دلدل سے کس طرح باہر نکالا جائے؟ یہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کمیونٹی میں تعلیمی بیداری بہت ضروری ہے۔  یہ صرف ملے، بیٹھے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچے بلکہ اس کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل آوری بھی کی۔ گزشتہ دنوں بھیونڈی میں منعقدہ اجلاس ، ان کا پانچواں سالانہ جلسہ تھا۔  اس تقریب میں نہ صرف کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلبہ کو انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ معاشی طور پر کمزور طلبہ کی مالی اعانت بھی کرتے ہیں۔ ذمہ داران کے مطابق اس کی وجہ سے بہت سارے ایسے طلبہ کا تعلیمی سلسلہ چل پڑا ہے جو تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔
     یہ سالانہ جلسے کا مقام ہر سال تبدیل کرتے ہیں تاکہ اس میں  ہر شہر میں رہنےوالے کاغذی خاندان شریک ہوسکیں۔یہ صرف تعلیمی تقریب نہیں ہوتی بلکہ ان کیلئے مل بیٹھنے کا ایک  بہانہ بھی ہوتا ہے۔حرارت باقی رکھنے کیلئے اس طرح کی کوششیں ہوتی رہنی چاہئیں ۔

Power loom agitation

پاور لوم کا خاموش احتجاج

گاندھیائی اصول پر عمل کرتے ہوئے بھیونڈی کےپاورلوم مالکوں  نےحکومت اور استحصالی قوتوں کے خلاف اپنے کاروبارکو  بطور احتجاج  ۱۵؍دنوںتک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے.... اور اعلان کے مطابق  بندکا آغاز بھی ہوچکا ہے  جسےجزوی طور پرکامیاب کہا جا سکتا ہے۔   یہ ’بند‘ پوری طرح  سےکامیاب کیوں نہیں ہے، اس کی وجہ ’بند‘ کااہتمام کرنےوالوں کی ناقص منصوبہ بندی اور کچھ حد تک ان کی ’نیتوں‘ میں فتور کا بھی مسئلہ ہے لیکن ابھی اس پر گفتگو کا وقت نہیں ہے کیونکہ ابھی ضرورت اس بات کی ہےکہ جس مقصد کیلئے بند کیا گیا ہے، وہ حاصل کیا  جائے۔
    دن رات شور مچاکر زندگی کا ثبوت پیش کرنے والی اور مزدوروں کے ساتھ ۲۴؍ گھنٹوں تک مسلسل محنت و مشقت کرنے والی ان پاورلوم مشینوں نے پوری طرح سے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ صبح ان خاموش کارخانوں کو دیکھا تو ایک عجیب سی کیفیت ہوئی۔ ہر طرف سناٹے کا عالم تھا لیکن  یہ سناٹا ایسا نہیں تھا جس سے خوف آئے بلکہ یہ خاموشی ایسی تھی جس پر ترس آئے۔  ایسا لگ رہاتھا جیسے کوئی معصوم بچہ اس امید پر روٹھ گیا ہے کہ ابھی کوئی آئے گا، اسے منانے کی کوشش کرے گا، اس کے مطالبات سنے گا ، ا نہیں پورا کرنے کی یقین دہانی کرائے گا اور اس طرح اس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن ایساکچھ نہیں ہو رہا ہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے،  ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔کیا ہوگا؟ کیا کوئی منانے آئے گا یا اس روٹھے ہوئے بچے کو خود ہی مراجعت  اختیار کرنی پڑے گی؟ حکومت کے موجودہ اورسابقہ رویے کو دیکھتے ہوئے اس بات کی امید تو نہیں ہے کہ ان کی اشک شوئی کیلئے کوئی آئےگا؟
       بھیونڈی میں تقریباً ۷؍ لاکھ رجسٹرڈ پاور لوم ہیں جن پر یومیہ۴؍ کروڑ میٹر سے زائد کپڑے تیار ہوتے ہیں جن کی مالیت ۷۰؍ کروڑ روپوں سے زائد ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو صرف ویٹ کی صورت میں حکومت کو بھیونڈی  سے یومیہ تقریباً ۳؍ کروڑ روپے ملتے ہیں۔  پاور لوم کے اس خاموش احتجاج سے حکومت کو بھی ۵۰؍ کروڑ روپوں کا چونا لگنے والا ہے ..... لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
          ورنہ کیا بات ہے کہ ریلوے کے بعد سب  سے زیادہ روزگار فراہم کرنےوالی اس صنعت کے تعلق سے حکومت یوں غیر سنجیدہ  ہے؟ ۷؍ لاکھ پاور لومس کو جاری وساری رکھنے کیلئے تقریباً ۵؍ لاکھ کی افرادی قوت درکار ہوتی ہے اور ہر شخص اوسطاً ۱۰؍ افراد کی کفالت کرتا ہے۔  ڈائمنڈ مارکیٹ ایک دن کیلئے بندہوتو ریاست سے مرکز تک ہنگامہ برپا ہوجاتا  ہے اور یہاں ۵۰؍ لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں لیکن سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔  دراصل یہ ہماری سیاسی بے وقعتی ہے۔ ہم نے خود کو اس قابل رکھا ہی نہیں ہے کہ کوئی ہماری بات سنے۔  ہماری بات اس وقت سنی جائے گی جب سرکار کو یہ احساس ہو کہ  نہ سننے پر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

Hamare mamlaat

ہم اور ہمارے معاملات

ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق کے زور پر پھیلا ہے اوراپنی بساط بھر اس دعوے کی تشہیر بھی کرتےہیں لیکن کبھی اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس درمیان پل کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا۔  بلاشبہ ہمارا دعویٰ درست ہے لیکن آج ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اس دعوے پر کوئی بھلا کیوں کر یقین کرے گا؟
    ان دنوںفیس بک اور وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات ایک دوسرے کو خوب فارورڈ  کئے جارہے ہیں کہ اسلام صرف اور صرف اپنے اخلاق کی بدولت تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر چھا گیا تھا اور آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بڑی تیز سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔اس کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ ان پیغامات میں اس بات کا رونا بھی رویا جاتا ہے کہ اسلام کی ان اعلیٰ درجے کی تعلیمات کے باوجود اسلام کی غلط شبیہ پیش کی جارہی ہے۔ اس کیلئے ہم صہیونی اور برہمنی نظام کو ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔
    بلاشبہ کچھ حد تک یہ بات بھی درست ہے لیکن یہاںہمیں تھوڑی دیر ٹھہر کرسوچنا چاہئے کہ کیا ہم مسلمانوں کے تعلق سے جو باتیں آج کہی  جارہی ہیں، وہ پوری کی پوری غلط اورمسترد کردیئے جانے کے لائق ہیں یا یہ کہ اس میں کچھ ہماری اپنی غلطی بھی ہے۔
    ہمارا کوئی غیرمسلم پڑوسی جو ہمیں روزانہ مسجد آتے جاتے دیکھتا ہے اور ساتھ ہی دھڑلے سے کھڑکی کے ذریعہ سڑک پر کچرا پھینکتے ہوئے بھی روزانہ مشاہدہ کرتا ہے، وہ کیوں کر سمجھے گا کہ اسلام میں صاف صفائی کو نصف ایمان  کا درجہ حاصل ہے ۔
    ڈاڑھی ٹوپی اور کرتے پاجامے میں دیکھ کر کوئی غیر مسلم ہمارے اخلاق سے کیوں کر متاثر ہوگا ، اگروہ ہمیں کسی کو گالیاں دیتے ہوئے اور بات بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھے گا۔
    کاروباری اور لین دین کے معاملے میں ہماری بے ایمانی اور بد عہدی کو دیکھنے کے بعد کسی کو اس بات پر کیوں کر یقین آئے گا کہ اسلام میں ایمانداری اور ایفائے عہد کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
    مسلکی ، نسلی اور علاقائی  مسائل پر ہمیں آپس میں دست و گریباں دیکھنے اور ایک دوسرے کے تئیں بلا تکلف نفرت کے اظہار کے بعد کوئی یہ کیسے محسوس کرے گا کہ اسلام میں اتحاد کی بڑی اہمیت ہے  اور برادران وطن کے پاس  یہ پیغام کیسے پہنچے گا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے کسی بھی ایک اعضا کو تکلیف پہنچے تو اس شدت کو پورا جسم محسوس کرے۔
    صورتحال یہ ہے ہم معاملات میں بہت ناقص  ہیں بلکہ اس کی اہمیت ہی نہیں سمجھتے ۔ ظاہری عبادات کے تو قائل ہیں لیکن معاملات میں شفافیت کے نہیں۔ ایسے میں ہماری شبیہ کیوں کر بہتر ہوسکے گی؟

Raushan jahan

روشن جہاں نے ذہنوں کوروشن کردیا

تھوڑی سی خامی اور بہت ساری خوبیوں کےساتھ گزشتہ دنوں انجمن فروغ تعلیم بھیونڈی کا سالانہ جلسہ ٔ  تقسیم انعامات کا انعقاد عمل میں آیا۔ شہر بھیونڈی کی یہ ایک ایسی روایتی تعلیمی تقریب  ہوتی ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔امسال یہ ۲۶؍ واں سالانہ جلسہ تھا۔
    اس جلسے کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ جہاں طلبہ میں مسابقت کا رجحان پیدا کرتا ہے، وہیں بھیونڈی کے تمام ۳۴؍ اردو میڈیم ہائی اسکولوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بھی کام کرتا ہے۔ انعامات سے جہاں طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہیں اسٹیج پر موجود ’مثالی طلبہ‘ کو دیکھ کر کچھ کرگزرنے کاجذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔
    امسال کے جلسے نے ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی جب بالترتیب تنویر منیار( مہاراشٹر کے ایس ایس سی ٹاپر) اور الماس ناظم سید(ریاستی سطح پر ایچ ایس سی کی سیکنڈ ٹاپر) نے اس تقریب میں شریک ہوکر طلبہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس بار یہ کارنامہ ایم بی بی ایس کی فائنل ایئر کی طالبہ روشن جہاں نے انجام دیا۔  روشن   نے طلبہ کے ذہنوں کو روشن کردیا اور اپنی  روداد سنا کر یہ پیغام دیا کہ ’معذوری جسمانی نہیں، حوصلے کی ہوتی ہے‘۔ انہوں نے  ثابت کیا کہ جسمانی معذوری کوئی معنی نہیں رکھتی، حوصلوں سے معذور افراد ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔  روشن جہاں کا بھیونڈی آنا، اس تقریب کا حاصل رہا۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ بھیونڈی آکر انہوں نے یہاں کے طلبہ پر ایک بڑا احسان کیا ہے۔
     روشن کی کہانی بہت طویل ہے۔ مختصراً  یہ کہ یہ حوصلہ مند بچی جب ۱۱؍ ویں میں زیر تعلیم تھی تو ایک دن گھر سےکالج جاتے ہوئے ٹرین سے گر پڑی اور اس کے دونوں پیر گھٹنے کے اوپر سے کٹ کر جسم سے الگ ہوگئے۔ تین ماہ تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد روشن جہاں دونوں پیروں سے معذور ہوکر اپنے گھر واپس آئی۔ تب تک گیارہویں کے سالانہ امتحان کا وقت قریب آگیا تھا۔ والدین ، دوست و احباب اور اساتذہ کے ہمت دلانے پر اس نے دن رات محنت کرکے امتحان دیا اورکامیابی حاصل کی۔اس میں اس کی والدہ کا  بہت اہم رول رہا۔ وہ روزانہ اسے وہیل چیئر پر بٹھاکر کالج لے جاتیں اور پھرواپس گھر لاتیں۔ اس طرح روشن نے ۷۵؍ فیصد مارکس سے ایچ ایس سی کامیاب کیا اور سی ای ٹی کے امتحان میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممبئی کے معروف میڈیکل کالج ’کے ای ایم ‘ میں داخلہ لیا۔ آج وہ فائنل ایئر میں ہے۔
    روشن نے اپنی مثال دیتے ہوئے طلبہ سے کہا کہ مسائل اور پریشانیوں کا حوالہ دے کر زندگی کی گاڑی کو بریک مت دینا بلکہ میری طرح  ان پریشانیوں کوشکست دے کر آگے بڑھنا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ روشن جہاں کا ایک ایک لفظ وہاں طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہورہا تھا۔ جب وہ اپنی روداد سنا رہی تھی تو ہال کا سناٹا اور سامعین کی بھیگی آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں  ۔

bsu travel

بس کا سفر، پریشانی ہی پریشانی

سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
        ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے  پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ تر مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ اے سی اور سیمی لکژری بسیںقدرے غنیمت ہیں۔ 
          ایسا لگتا ہے کہ بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافربھٹکتے رہتےہیںلیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے  وہ یہی ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔ ریاست کے کئی بس ڈپو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوںکے سبب خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین  روزانہ ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے  ہوکر جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو ..... پولیس اسٹیشن تو ہر ڈپو میں ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی آنکھیں ہمیشہ بند ہی رہتی ہیں۔
          ایسا دراصل اسلئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے لہٰذا سرکار ان سے  زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری  اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے سرکار پر دباؤ ڈالے جبکہ جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔  بیسٹ بسیں اس کی واضح مثال ہیں۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

Genration gap

جنریشن گیپ

عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوںمیںبڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن  جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر باہر نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئے جانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوںکا احترام کرنا چھوڑ دیں گے، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔ آج ہماراموضوع یہی ہے کہ بزرگوں اور بچوںکے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟
    یہ شکایت عام ہے کہ بچے، بڑوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہیں۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیںاور چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں لیکن....
         یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟یہ جنریشن گیپ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں  ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اسلئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کردینے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتے ہوئے  انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوں گے۔   بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں کو اپنے بڑوں سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔

Bihar ke musalman aur election

بہار کے مسلمان فرقہ پرستوں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

  بہار میں الیکشن کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی کا خیمہ پوری طرح سے سرگرم ہوچکا ہے ۔ آر ایس ایس کے ساتھ اس کے اراکین بہار کے چپے چپے پر پھیل گئے ہیں اور دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔  بی جے پی کے سامنے دو باتیں نہایت واضح ہیں۔ اس الیکشن سے ایک جانب جہاں اسے دہلی کی ہزیمت کا داغ مٹانا ہے وہیں بہار اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھا کر راجیہ سبھا میں بھی اپنی پوزیشن بہترکرنی ہے تاکہ وہ من مانی کرنے کے قابل ہوسکے۔ ایسے میں بہار کے مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ   اس وقت  وہ فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

قطب الدین شاہد

 بہار کاانتخابی منظر نامہ ابھی پوری طرح صاف نہیں ہوا ہے۔ وہاں کے سیاسی حالات پل پل بدل رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ قطعی نہیں نکالا جاسکتا کہ آنےوالے اسمبلی الیکشن میں بھی وہ تمام ووٹ انہی جماعتوں یا اتحادوں کو ملیں گے۔آرجے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس اور این سی پی کے اتحاد سے  سیکولر حلقوں میں ایک آس بندھی تھی کہ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی سے پٹخنی کھانے کے بعد  ایک بار پھر رعونت کا مظاہرہ کرنےوالی بی جے پی کو بہار میں بھی دھوبی پچھاڑ کا سامنا ہوگا۔ اعداد وشمار ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ اس اتحاد کیلئے   این ڈی اے کو روند کر آگے بڑھنا کچھ مشکل نہیں ہوگا لیکن چھٹی حس کہتی ہے کہ معاملہ اتناآسان نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کے ساتھ ،کچھ غیرمرئی قوتیں بھی زعفرانی محاذ کی کامیابی کیلئے پورا زور لگا رہی ہیں۔ کچھ بی جے پی کی حمایت کرکے اسے فائدہ پہنچا رہی ہیںتو کچھ مخالفت کا ڈراما رچ کر اسے اقتدار تک پہنچانے کا سامان پیدا کررہی ہیں۔
     دراصل بی جے پی اوراس حکومت سے فائدہ اٹھانے والے قومی اور  بین الاقوامی صنعت کاروں کی نظریں بہار پر اس لئے مرکوز ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف ریاستی اسمبلی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر راجیہ سبھا میں نشستوں کی تعداد پر بھی پڑے گا۔ متازع تحویل اراضی بل، جی ایس ٹی بل اور انشورنس بل کو قانونی شکل اختیار کرنے میں راجیہ سبھا ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی  اور اس کے حامی جی جان لگارہے ہیں کہ نہ صرف بہاراسمبلی پر قبضہ ہو جائے بلکہ راجیہ سبھا میں اس کی نشستوں کی تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہوجائے۔
    اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ۲۴۵؍ رکنی ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس  ۴۸؍ سیٹیں ہیں  جبکہ ۷؍ پارٹیوں پر مشتمل این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد بھی صرف ۶۴؍ تک ہی پہنچتی ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے پاس ۶۸؍ اور جنتاپریوار کے پاس راجیہ سبھا کی ۳۰؍ سیٹیں ہیں۔  بی جے پی چاہتی ہے کہ  اپنی سرکار (مودی حکومت) کی میقات کے دوران ہی کسی طرح اس کی اور اس کی حامی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد ۱۰۰؍  پار کرجائے تاکہ جے للتا ، ممتا بنرجی اور ملائم سنگھ کو کسی بہانے راضی کر کے وہ کچھ اہم بلوں کو اپنی مرضی کے مطابق پاس کرواسکے۔  اس کیلئے بی جے پی کے تھنک ٹینک صرف بہار پر ہی نہیں بلکہ آئندہ ہونے والے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں اوراس طرح وہ راجیہ سبھا میںمضبوطی کیلئےابھی سے کوشاں ہیں۔ ان کا منصوبہ قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہے۔۲۰۱۸ءتک اترپردیش، مغربی بنگال، گجرات، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی چھوٹی بڑی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔اس درمیان مختلف ریاستوں میں کم و بیش راجیہ سبھا کی۱۵۳؍ نشستیں خالی ہوںگی ، جن پر بی  جے پی کے تھنک ٹینک  کی نظریں مرکوز ہیں۔  آئندہ سال بہار میں راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں جن کاانتخاب مجوزہ اسمبلی الیکشن  میں کامیاب۲۴۳؍ اراکین کریںگے۔ ۲۰۱۶ء میںسبکدوش ہونے والے  ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ خیال رہے کہ بہار  سے منتخب ہونے والے  راجیہ سبھا اراکین کی کل تعداد ۱۶؍ ہےجبکہ اترپردیش  سے ۳۱؍ اراکین منتخب ہوتے ہیں۔ یوپی میں اسمبلی انتخابات  ۲۰۱۷ء میں ہوںگے۔  
     بہار اور اس کے بعد ہونےوالے مختلف ریاستوں کے انتخابات کیلئے بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں بہت سنجیدہ  ہیں۔ بہار کے تئیں بی جے پی کے حوصلے اس لئے بھی بہت زیادہ بلند ہیں کہ لوک انتخابات میں اسے وہاں توقع سے زیادہ نشستیں مل گئی تھیں۔ لوک سبھا کی کل۴۰؍ نشستوں میں این ڈی اے نے ۳۱؍ سیٹیں حاصل کرلی تھیں جن میں سے ۲۲؍ سیٹیں تنہا بی جے پی کی تھیں۔  بی جے پی کو سب سے زیادہ یعنی ۲۹ء۸۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن تب اور اب کے حالات میں کافی فرق آچکا ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن سے ، حالیہ لوک سبھا الیکشن تک اور لوک سبھا الیکشن سے ابھی تک، بہار کے سیاسی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا  ہے، ان میں مزید تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن میں جہاں  بی جے پی اور جے ڈی یو کااتحاد تھا، وہیں  آر جے ڈی کے ساتھ ایل جے پی تھی لیکن لوک سبھا الیکشن میں مساوات یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ایل جے پی نے بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا تو آر جے ڈی اور جے ڈی یو تنہا انتخابی دنگل میں اُتری تھیں۔
     اب یہ بات بھی پرانی ہوچکی ہے۔  بہار کے رائے دہندگان کے سامنے اب نیا اتحاد اور نئی مساوات ہے۔ ایک جانب جہاں کانگریس، آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا عظیم اتحاد سامنے آیا ہے، وہیں اس اتحاد سے جیتن رام مانجھی اور پپو یادو جیسے  ذات برادری پر اثر و رسوخ رکھنےوالے کچھ لیڈروں کااخراج بھی عمل میں آیا ہے۔این سی پی اور سماجوادی پارٹی  کے مؤقف ہنوز واضح نہیں ہیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے ان دونوں جماعتوں کا بہار کی سیاست میں کچھ زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو وہاں کےعوام اس کی اوقات بتا چکے ہیں جب اس کے ۱۴۶؍ امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی اور تمام کے تمام کی ضمانت ضبط ہوئی تھی۔ البتہ مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) کے انتخابی میدان میں اتر جانے کے اشاروں سے سیکولر حلقوں میں تھوڑی تشویش ضرور پائی جارہی  ہے۔   ویسے اس بات کا امکان  ذراکم ہی ہے کہ بہار میں اسدالدین اویسی کی پارٹی کی دال گل سکے گی۔  یوپی اور بہار  معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن وہاں کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا مانتی ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں   سیکولر پارٹیوں کی انا پرستی کی وجہ سے بھلے ہی این ڈی اے کو زیادہ سیٹیں مل گئی ہوں لیکن اُس ناسازگار ماحول میں بھی کشن گنج کے مسلم رائے دہندگان  سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی اور جے ڈی یو کے امیدوار اخترالایمان کے درمیان مفاہمت کرانے میں کامیاب رہے تھے۔     چونکہ اس بار مقابلہ بہت سخت ہوگا لہٰذا اس بات کے خدشات پائے جارہے ہیں کہ ووٹوں کے تھوڑاسا اِدھر اُدھر ہونے سے کئی سیٹیں دوسرے خیمےمیں جا گریں گی۔ بی جے پی کی نظریں اسی پر ہیں کہ وہ کچھ جماعتوں کو اس بڑے اتحاد سے الگ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس کیلئے آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی کسی کو سا تھ رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کانگریس کا ساتھ مل جانے سے ان میں بھی کانگریسیت آگئی ہے۔ 
       بی جے پی کا  رام ولاس پاسوان کی  لوک جن شکتی پارٹی، اوپندر کشواہا کی  راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام پارٹی سے ابھی تک انتخابی سمجھوتہ نہیں ہوسکا ہے لیکن  بی جے پی اور آر ایس ایس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے  یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تاخیر سے ہی سہی، یہ تمام جماعتیں مل کر ہی انتخاب لڑیں گی اور بی جے پی کی شرطوں پر ہی لڑیںگی۔  بی جے پی انہیں زیادہ سیٹیں نہیں دے گی کیونکہ بی جے پی  کا مقصد صرف بہار اسمبلی پر بھگوا لہرانا نہیں ہے بلکہ اپنے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا ہے تاکہ وہ راجیہ سبھا میں اپنی تعداد بڑھا سکے۔ اس کے بدلے بی جے پی انہیں ’کچھ اور‘ دے سکتی ہے۔ اس ’کچھ‘ میں مرکزاور ریاست میں حکومت سازی کی صورت میں وزیروں کی اضافی تعداد بھی ہوسکتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس نے ریاست کو مختلف خطوں میں تقسیم کرکے ان علاقوں کے انچارج نامزد کردیئے ہیں اورایک ایک بوتھ پر ذمہ دار ان تعینات کردیئے گئے ہیں جو دن رات ایک کئے ہوئےہیں۔ اسی طرح  وزیراعظم مودی بھی  دبئی سے سیدھا بہار پہنچ کر یہی ثابت کرتے ہیں۔ 
     ان حالات میں بہار کے ۱۷؍ فیصد مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ حسب سابق سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ ان کی جانب پورے ملک کی نظریں ہیں کیونکہ بہار کے مسلمان اس وقت  فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کے غرور کو خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں۔  یہ بات درست ہے کہ سیکولر پارٹیوں کی کامیابی کیلئے جتنے کوشاں مسلمان ہوتے ہیں، اتنے دوسرے نہیں ہوتے اور یہ شکایت بھی بجا ہے کہ اس کا صلہ انہیں اتنا نہیں ملتا، جتنا کہ ملنا چاہئے لیکن  اسی کے ساتھ یہ  بات بھی ہمیں تسلیم کرکے چلنا چاہئے کہ جمہوری ملک میں ہم بذات خود اپنی طاقت پر کچھ نہیں کرسکتے لہٰذا سیکولر ازم کو نعمت یا مجبوری سمجھ کر  اسے  طاقت بخشنے کی کوشش بہرحال کرنی چاہئے۔ ایم آئی ایم کی نیت پر ہم شک نہیں کرسکتے اور اس کے انتخابی عمل میں حصہ لینے  کی کوشش کو ناحق بھی نہیں کہہ سکتے لیکن وقت کا تقاضا تو یہی کہ اسدالدین اویسی بہار اور یوپی  میں فی الحال انتخابی قسمت آزمائی سے قبل اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں  اور جب انتخابی میدان میں اتریں تو دیگر سیکولر پارٹیوں سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اتریں تاکہ اسمبلی میں وہ اُن افراد کی نمائندگی کرسکیں جنہوں نے انہیں اپنا قیمتی ووٹ دیا ہے اور ان کی حمایت کی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی اپنی پارٹی کے حق میں اچھا ہوگا بلکہ مسلم رائے دہندگان کیلئے بھی اچھا ہوگا اور  بی جے پی کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بننے پر سیکولر حلقوں سے مبارکباد کے مستحق بھی قرار پائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ انتخابی عمل میں کود نے سےمتعلق تذبذب کا شکار ہوں تو یوپی کی ۲؍ مسلم جماعتیں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی اور مولانا عامر رشادی کی مسلم کونسل کا حشر دیکھ لیں۔
    بہار کاانتخاب اگر دو طرفہ ہوتا ہے یعنی آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس  اتحاد کا مقابلہ  بی جے پی ، ایل جے پی ، آر ایل ایس پی اور ہندوستانی عوام کے اتحاد سے ہوتا ہے تو بلاشبہ سیکولر محاذ کا پلڑا بھاری رہے گا لیکن مقابلہ پھر بھی سخت ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں ان دونوں محاذ کو بالترتیب ۴۲؍ اور ۴۰؍ فیصد کے آس پاس ووٹ ملے تھے۔ بلاشبہ اس دوران  بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے لیکن اس کے طویل مدتی منصوبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیکولر طبقے بالخصوص مسلمانوں کو ہمہ وقت  بیدار،ہوشیار اور خبر دار رہناہوگا کیونکہ مقابلہ خرگوش اور کچھوے کا نہیں بلکہ تقریباً برابری کا ہے۔

بی جے پی کی طویل مدتی منصوبہ بندی

      زعفرانی محاذ کی خواہش  راجیہ سبھا میں اپنی سیٹوں کی تعداد بڑھانی ہے، اس لئے اس کا ریاستوں پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ آئندہ تین برسوں میںاترپردیش، مغربی بنگال، گجرات،تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔ ان تمام ریاستوں کے انتخابات پر بی جے پی  اوراس کے حامیوں کی نظریں مرکوز ہیں۔
کب  اورکہاں اسمبلی انتخابات ہوںگے؟
۲۰۱۵ء
بہار
۲۰۱۶ء
آسام، کیرالا، پانڈیچری، تمل ناڈو اور مغربی بنگال
۲۰۱۷ء
 گوا، گجرات، ہماچل پردیش، منی پور، پنجاب، اترپردیش اور اتر اکھنڈ
۲۰۱۸ء
چھتیس گڑھ، کرناٹک، ایم پی، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، راجستھان اور تریپورہ

     آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۷۵؍ نشستیں خالی ہورہی ہیں، جن میں بہار بھی شامل ہے۔  ۲۰۱۷ء میں صرف ۱۰؍ نشستیں خالی ہوںگی لیکن اس کے بعد یعنی ۲۰۱۸ء میں ایک بار پھر ۶۸؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں، کہاں کتنی سیٹیں خالی ہورہی ہیں۔
بہار
    بہار میں آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں اورسبکدوش ہونےوالے ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ بی جے پی کی کوشش کم از کم تین سیٹوں  پر قبضہ کرنے کی ہے۔
 اترپردیش
     یہاں  ۲۰۱۶ء میں راجیہ سبھا کی ۱۱؍ سیٹیں خالی ہوںگی لیکن یہاں بی جے پی کا خواب پورا نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ اسمبلی میں اس کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ وہ کوئی تیر مار سکے۔اس میں بہت مشکل سے بی جے پی ایک سیٹ لے سکے گی جبکہ باقی ماندہ سیٹوں پر ایس پی اور  بی ایس پی ہی قابض ہوںگی۔
مہاراشٹر
    آئندہ سال یہاں  ۶؍ سیٹوں پرالیکشن ہوگا۔ فی الحال ان میں سے کانگریس اوراین سی پی کی ۲۔۲؍ سیٹیں ہیں جبکہ بی جے پی اور شیوسینا کی ایک ایک۔  بی جے پی کا یہاں فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ اسے مزید ۳؍سیٹیں مل سکتی ہیں۔
مدھیہ پردیش
    یہاں ۳؍ سیٹیں خالی ہوں گی۔ ان میں سے ایک پرکانگریس اور ۲؍ پر بی جے پی قابض ہے۔ آئندہ بھی صورتحال کم و بیش ویسی  رہنے کی امید ہے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی تینوںسیٹیں جیت لے۔
    راجستھان
    آئندہ سال یہاں ۴؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا جن میں سے چاروں بی جے پی جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ فی الحال ان میں سے ایک پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ تین سیٹیں کانگریس کی ہیں۔
      علاوہ ازیں ان تین برسوں میں، تمل ناڈو ، پنجاب، مغربی بنگال، آسام اور آندھرا پردیش میں بھی راجیہ سبھاکی سیٹیں خالی ہوںگی لیکن تنہا بی جے پی کیلئے اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے۔ یوپی، بہار اور بنگال میں اس کی کارکردگی  بہت اچھی رہی تو بھی وہ ۷۰؍ نشستوں  سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ویسے بی جے پی کو اتنی سیٹیں مل گئیں تو بھی اس کی من مانی کافی بڑھ جائے گی

Tuesday, 21 July 2015

Modi ki bolti band

مودی کی بولتی بند
 
قطب الدین شاہد

بی جے پی کے اسٹار مقرر تھے لیکن آج چھپتے چھپاتے پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ صرف ایک سال میں’پھینکو ‘سے ’مون مودی‘ ہوگئے۔ یوپی اے کے دور حکومت میں بات بات پرسوال پوچھنے والے اور حکومت کوگھیرنےوالے نریندر مودی اب بڑے بڑے موضوعات پر بھی لب کشائی کی زحمت نہیں کررہے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ ہو یا للت مودی سے ان کی پارٹی کی ۲؍ اہم خاتون لیڈروں کے مراسم کی بات ہو، مہاراشٹر کا چکی گھوٹالہ ہو یا پھر منظم طور پر  مدھیہ پردیش کا ریاست گیر ویاپم اسکینڈل۔ ان تمام موضوعات پر وزیراعظم  نے چپی سادھ رکھی ہے۔
     بہت پرانی بات نہیں ہے، ابھی ایک سال قبل تک بی جے پی کی جانب سے صرف مودی بولتے تھے، ہرموضوع پر بولتے تھے اور بہت بولتے تھے، خواہ اس موضوع سے ان کی واقفیت ہو ، نہ ہو۔  بی جے پی نے انہیں اپنے لئے زندہ طلسمات سمجھ لیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاریخ اور جغرافیہ سے متعلق اپنی کم علمی کی بنا پر وہ کئی بار مذاق کا موضوع بھی بنے لیکن ، مودی، بی جے پی اور ان کے حامیوں کو اس وقت کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ مودی کی اسی یاوہ گویائی کی وجہ سے سوشیل میڈیا پر انہیں پھینکو کہا جانے لگا تھا لیکن ایک ہی سال میں مودی ، پھینکو سے مون مودی ہوگئے۔ ایک سال قبل نریندر مودی ،بات بات پر اُس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا مذاق اڑایاکرتے تھے، ان کی خاموش مزاجی پر طنزیہ فقرے کستے تھے اورانہیں مون مون سنگھ کہتے تھے۔ آج  مودی جی خود اپنے ہونٹ سی لینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
    مودی جی کی حالت دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک صاحب کہیں دعوت میں گئے تو کھانا کھانے کے بعدایک پیالے میں زردہ بھی پیش کیا گیا۔ یہ زردہ چمچ سے کھانا تھا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ گرم ہوگا۔ایک چمچ اٹھاکر منہ میں رکھا تو نانی یاد آگئی لیکن کریں تو کیا کریں؟ اگلنے پر بے عزتی کا خطرہ تھا۔ ایسے میں کسی طرح اسے نگل گئے لیکن اس عمل کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے قریب بیٹھے ایک صاحب پریشان ہوگئے کہ بھائی کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہے ہیں؟  اب یہ بیچارے اپنی کیفیت کیا بتاتے لہٰذا ایک کہانی گھڑی کہ ’’میرے پڑوس میں ایک بچہ بہت بیمار ہے۔ میں گھر سے نکل رہا تھا تو اس کےاہل خانہ اسے اسپتال لے جارہے تھے۔ابھی یہ لقمہ لیتے ہوئے مجھے اس کا  خیال آگیاتو آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ ‘‘ تب تک وہ صاحب بھی ایک چمچ زردہ اپنے منہ میں رکھ چکے تھے۔ لقمہ منہ میں ڈالتے ہی انہیں  اندازہ ہوگیا کہ کون بیمار ہے اور کتنا بیمار ہے؟ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔  اس پر ایک تیسرے صاحب نے استفسار کیا کہ بھئی آپ کو کیاہوا؟ توانہوں نے کہا کہ’’ مجھے بھی وہ بچہ یاد آگیا۔ پتہ نہیں اس کی طبیعت کیسی  ہے؟ اسپتال میں جانےوالوں کا خدا ہی نگہبان ہوتا ہے۔ ‘‘
    مسلسل اور بے تحاشہ بولنےوالے مودی جی کی خاموشی بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں جن سے ایک سال قبل تک منموہن سنگھ جوجھ رہے تھے۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے شاندار نتائج کے بعد للت گیٹ، ویاپم اسکینڈل، ساتھیوں کی فرضی ڈگریاں اور  مہاراشٹر سرکار کے چکی گھوٹالےنے ان کی بولتی بند کردی ہے۔  ایک ہی سال میں بی جے پی حکومت کی ساری قلعی اتر چکی ہے۔  وہ طبقہ جو بی جے پی کی حقیقت جانتا تھا،اسے مودی حکومت کے بے نقاب ہونے سے کچھ زیادہ تکلیف نہیں ہے لیکن وہ طبقہ جو بی جے پی اور مودی کے سحرمیں گرفتار ہوا تھا اوراس کی وجہ سے  اس نےحکومت تبدیل کرنے کیلئے اپنی توانائی صرف کی تھی، وہ آج بہت زیادہ مایوس ہے۔  ان میں سے بعض یہ کہنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ’’اس سے اچھی تو سابقہ حکومت ہی تھی۔‘‘   بلاشبہ لوٹ کھسوٹ اور انانیت کانگریسی حکومت کا بھی وطیرہ تھا لیکن اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حلف برداری کے بعد ہی مودی جی کارپوریٹ دنیا سے کئے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ بات ایف ڈی آئی کی ہو یا تحویل اراضی بل کا معاملہ ہو، مودی حکومت نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے عوام کی نہیں،خواص کی فکر ہے اور خواص میں بھی بس ایک مخصوص طبقے کی جس میں اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مودی کے بیشتر بین الاقوامی دورے انہیں کےمفادات کی تکمیل کی خاطر ہوئے ہیں۔ مودی کی انہیں ’کارگزاریوں‘ کے سبب مودی کے وہ بھکت بھی پریشان اور شرمندہ شرمندہ سے ہیں جنہوں نے انتخابات کے دوران   مودی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔
    تشہیر اورتقریر کے سہارے اقتدار میں آنے اور نظام حکومت چلانے کی کوشش کرنےوالے مودی جی کو شایداس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ لچھے دار باتوں سے حکومت نہیں چلتی۔  میڈیا کے بھر پور تعاون سے بی جے پی  عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب تو ہوگئی تھی کہ ملک کے باہر بہت سارا کالا دھن ہے اور یہ کہ اس کیلئے پوری طرح سے کانگریس کی سربراہی والی یوپی اے حکومت ذمہ دار ہے۔  تشہیر اور تقریر ہی کی کامیابی تھی کہ عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ امید ہوچلی تھی کہ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی ان کے ’اچھے دن‘ آجائیںگے لیکن اب جبکہ مودی سرکار نے اپنے قیام کی پہلی سالگرہ منا لی ہے، عوام اس طلسم سے آزاد ہوچکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب بی جے پی  لیڈروں کی لچھے دار تقریریں  انہیں اچھی نہیں لگتیں ، یہاں تک کہ مودی کے من کی بات بھی لوگوں کو نہیں بھاتی۔
    اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مودی نے تشہیری مہم کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی۔  وہ جن دھن یوجنا ہو،سوچھ بھارت ابھیان ہو، بیمہ پالیسی ہو ، ریڈیو  پر من کی بات ہو یا یوگا ڈے کے موقع پر کیا جانے والا ڈراما۔ ان تمام پر مودی سرکار نے عوام کی گاڑھی کمائی کو پانی کی طرح بہایا اوراسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ ابھی حال ہی ایک رپورٹ آئی کہ موجودہ لوک سبھا کے اراکین پارلیمان نے صرف ایک سال میں اپنی آسائش پراتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ سابقہ حکومت کے اراکین پارلیمان ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں کئےتھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان کی تشہیر پر ۱۰۰؍ کروڑ روپوں کے خرچ کی بات بھی سامنے آئی ہے۔اتنی رقم اگر واقعی صاف صفائی پر خرچ کی گئی ہوتی تو ملک کا ایک کونہ تو بہرحال صاف ستھرا ہوجاتا۔
    عوام کب تک خاموش رہیںگے؟ کب تک سوال نہیں کریں گے؟ ظاہر  ہے کہ بی جے پی کو صرف اس کے معتقدین  اور خاکی نیکر والوں ہی نے تو ووٹ نہیں دیا تھا کہ کچھ بھی کرنے کی آزادی رہے گی۔ یقیناً اس میں ایک بڑی تعداد ایسے رائے دہندگان کی بھی تھی جو ترقی کے نا م پر میڈیا کے بہکاوے میں آئے تھے۔  اب وہ سوال کررہے ہیں تو بی جے پی لیڈروں کی بولتی بند ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فرق ہے بی جے پی اور کانگریس میں، تو بی جے پی لیڈر آئیں بائیں اورشائیں بک رہے ہیں۔   دوران انتخابات مودی نے دعویٰ کیاتھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو پلک جھپکتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کیلئے وہی کالا دھن لانے کی بات کہی گئی تھی اور عوام کو ورغلایا تھا کہ اس مد میں بیرون ملک اتنی بڑی رقم جمع ہے کہ واپس آجائے تو وارے نیارے ہوجائیں گے اور ملک کے ہر شہری کو ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کی  خطیررقم ملے گی۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد   جب عوام نے سوال کیا کہ اچھے دن کب آئیںگے تو مودی نے یہ کہتے ہوئے  ۳؍ ماہ کا وقت لیا کہ ابھی تو ہماری حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم نہیں ہوا ۔ تین ماہ پورے ہوئے تو ایک سال کی بات کی گئی اور اب کہا جارہا ہے کہ کانگریس نے اس ملک پر ۶۰؍ سال حکومت کی ہے، بی جے پی کو ۶۰؍ ماہ کا موقع تو دیجئے۔ 
    اپنی حکومت کی ایک سالہ تکمیل کے موقع پر نریندر مودی نے ایک لچھے دار تقریر کی تھی۔ شاید وہ ان کی آخری تقریر تھی۔ اس پُرجوش تقریر میںانہوں نے بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کیاتھا کہ ایک سال گزر گیا، لیکن ایک بھی گھوٹالہ سامنے نہیں آیا اور پھر اپنے اسی جانے پہچانے انداز میں انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ کیا یہ اچھے دن نہیں ہیں؟  یہ اور بات ہے کہ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ اس سے پہلے ہی منظر عام پر آچکا تھا لیکن بی جے پی کی نظر میں وہ کوئی بدعنوانی اور بے ضابطگی نہیں ہے کیونکہ ایسی بے ضابطگیاں  تو مودی جی بھی اپنی بیوی کے تعلق سے برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔ بی جے پی اس طرح کی باتوں کو اُس وقت بے ضابطگی اوربدعنوانی قرار دیتی ہے جب معاملہ جتندر سنگھ تومر جیسے کسی دوسرے پارٹی کے لیڈر کا ہو۔ اس کیلئے بی جے پی استعفیٰ مانگنے کیلئے ہنگامہ بھی کرتی ہے اور سڑک سے لے کر سنسد تک روک دینے کی دھمکی بھی دیتی ہے لیکن بات جب سشما، وسندھرا ، شیوراج چوہان اور پنکجا منڈے کی ہو تو وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ نہیں دیتے، یہ تو یوپی اے حکومت  کا خاصہ رہا ہے۔ 
    بہرحال ابھی تو عوام نے بی جے پی کی بولتی بند کی ہے۔ بی جے پی نے  اگراپنی اصلاح نہیں کی تو یہی عوام انہیں اقتدار سے بھی بے دخل کردیں گے اور   انانیت  پھر بھی باقی رہی توتاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے بھی گریز نہیں کریںگے ۔ بی جے پی اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرسکتی ہے کہ ۱۹۷۱ء کی شاندارکامیابی کے بعد ۱۹۷۷ءمیں کانگریس کس طرح آسمان کی بلندی سے زمین پر پھینکی گئی تھی؟ اور۱۹۸۴ء کی ریکارڈکامیابی کے بعد ۱۹۸۹ء میں اس کا کیا حشر ہوا تھا؟۱۹۷۷ء میں جنتا پارٹی کو عوام نے سر آنکھوںپر بٹھایا تھا لیکن جب توقعات پر پوری نہیں اتری تو  ۱۹۸۰ء میں اُسےبھی اس کی اوقات بتادی ۔  بی جے پی چاہے توخود اپنا ہی انجام دیکھ لے کہ  ۱۹۹۹ء میں دہلی پر قابض ہونے کے بعد۲۰۰۴ء میں اسے کس طرح  باہر کا راستہ دکھا یا گیا تھا۔ بی جے پی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے اور وقت آنے پر کچھ بھی کرسکتی ہے۔

Hamne itna gussa kyun aata hai

ہمیں اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟

گزشتہ دنوں ایک خبر آئی کہ ایک مسجد میں وضومیں پہل کرنے کیلئے دو ’نمازیوں‘کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ دونوں روزے کی حالت میں تھے، اسلئے غصہ بھی بہت تھا لہٰذامعاملہ صرف ’تو تو میں میں‘ پرختم نہیں ہوا۔ دھکا مکی سے ہوتے ہوئے بات مار پیٹ تک پہنچ گئی۔ وہاں  وضو کیلئے قطار میں کچھ اور بھی  لوگ تھے، جن میں سے کچھ اِن کے اور کچھ اُن کے آدمی تھے، اس کی وجہ سے جھگڑ ا مزید شدت اختیار کرگیا اور تھوڑی ہی دیر میں ۲؍ افراد کا جھگڑا ،۲؍ گروپ کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ چونکہ سبھی روزے دار تھے، اسلئے غصے کی شدت بھی زیادہ تھی۔نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نماز کیلئے جماعت کھڑی ہونے سے قبل، وہاں سے۲؍ افراد کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
    یہ ایک سنگین واقعہ ہے لیکن اس سے تھوڑی کم شدت کے واقعات روزانہ ہماری اور آپ کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں’ روزہ داروں‘ کا غصہ سامنے آتا ہے۔  روزہ ’لگنے‘کی بات بچپن سے سنتے آرہے ہیں، بالخصوص اُس وقت جب کوئی ’روزے دار‘ غصے میں نظر آتا ہے ۔ اول تو ایسا ہے نہیں لیکن اگر ایسا ہے بھی یعنی بھوک پیاس کی شدت سےکسی کو غصہ آتا ہے تو یہ اس کی اپنی کمزوری  ہے۔ اس حالت میں اسے چاہئے کہ وہ اپنی کمزوری کو چھپائے ، نہ کہ اس کا اظہار کرتا پھرے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم قدم قدم پرلوگوں سے جھگڑا کرتے چلتے ہیں۔ اتوار کی صبح دیکھا تو۲؍ نوجوان ایک بائک سے جارہے تھے۔ دونوں ٹوپی لگائے تھے، جس سے پتہ چلا کہ مسلمان ہیں۔ ان کے آگے ایک  ٹرک تھا۔ راستہ خراب تھا اور راستے کے دونوں طرف آڑی ترچھی بہت ساری گاڑیاں پارک تھیں، جس کی وجہ سے ٹرک آگے نہیں بڑھ پار تھا۔ پیچھے بائک  پر بیٹھے دونوں نوجوان پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ٹرک کے پیچھے بہت ساری موٹر سائیکلیں تھیں لیکن  اُن ٹوپی والے جوانوں کو زیادہ غصہ آرہا تھا۔ان کی بیتابی دیکھ کر لوگ محظوظ بھی ہورہے تھے بلکہ کچھ کہہ بھی رہے تھے کہ ان کو روزہ لگ رہا ہے۔ کچھ دیرتک وہ زور زور سے ہارن بجاتا رہا اور پھر جھٹکے سے گاڑی کھڑی کرکے بائک چلانےوالا نوجوان آگے بڑھا اور ٹرک ڈارئیور کو گالیاں دینے لگا کہ وہ اتنے تنگ راستے میں اتنی بڑی گاڑی لے کر کیوں آگیا؟  نوجوان کی عمر ۲۰؍ سے  ۲۵؍ کے درمیان  رہی ہوگی لیکن گالیاں دینے کی مہارت دیکھ کر  یہ محسوس ہوا کہ کسی  تربیت یافتہ خاندان سےتعلق رکھتا ہے۔بعد میں کچھ  افراد نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے اس معاملے کورفع دفع کرادیا۔
    حالانکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمیںاتنا غصہ کیوں آتا ہے؟ روزہ رکھ کر ہم کسی پر احسان تو نہیں کر رہے ہیں۔اس کی وجہ سے برادران وطن میں بھی ہماری شبیہ بری طرح خراب ہوتی ہے۔روزے کا مقصد بھوکا پیاسا رہنا تو نہیں ہے بلکہ تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ روزے سے ہم میں تقویٰ آرہا ہے یا نہیں؟
  

Tuesday, 14 July 2015

شرم بھی نہیں آتی!

گزشتہ دنوں پونے سے ایک دوست نے صبح ہی صبح فون کیا اور اخبار میں شائع ہونےوالی ایک تصویر کی نشاندہی کرتے ہوئے سوال کیا کہ بھائی ان لوگوں کوشرم بھی آتی ہے کہ نہیں، اس طرح کی تصویریں چھپواتے ہوئے۔ تب تک ہم نے اخبار دیکھا نہیں تھا۔ ان کے لہجے میں غصہ تھا لیکن اس غصے میں بہت درد تھا کہ ہم کس پستی میں جارہے ہیں؟ ان کا فون آیا تو میں پوری طرح سے نیند میں تھا۔ صبح ۶؍ بجے سونےوالے کیلئے  دن کے ۱۱؍بجے کا وقت بھی بہرحال رات جیسا ہی رہتا ہے لیکن  ان سے ہونےوالی ایک دو منٹ کی گفتگو  کے بعد ہی نیند نے اپنا  بوریابستر لپیٹ لیا اور نودو گیارہ ہوگئی۔  ان سے بات چیت کرتے ہوئے ہم نے اخبار کا وہ صفحہ کھولا اور وہ تصویر دیکھی تو ہمیں بھی غصہ آیا۔  یہ تصویر غریبوں میں راشن کٹ کے تقسیم کے موقع کی تھی، جس میں تین چار مولانا قسم  کے لوگ ایک شخص کو راشن  کا پیکٹ دیتے ہوئے مسکرا کر پوز دے رہے تھے۔
    یہ تصویر تو محض ایک مثال ہے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب  ہمارا ہر کام نمائشی ہوکر رہ گیا ہے، حتیٰ کہ ہم میں سے بیشتر عبادت کو بھی نمائشی انداز میں ادا کرتے ہیں۔ نمازیوںسے مسجد تو بھر ی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو نماز کی طرح نماز ادا کرتے ہیں۔   خشوع خضوع کی بات جانے دیں، ارکان کی ادائیگی بھی ٹھیک سے نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں دینے لینے کی بات میں بھلا کیو ں کر نمائش نہیں ہوگی۔کتابوںاور بیاضوںکی تقسیم سے لے کر زکوٰۃ  و صدقات کی تقسیم تک میں پوری شوبازی کی جاتی ہے۔    ایسا لگتا ہے کہ انہیں ثواب سے زیادہ تشہیر کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کو رمضان تک موقوف رکھنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح سالانہ حساب کتاب ہوجاتا ہے لیکن رمضان میں بھی ۲۷؍ ویں شب میں تقسیم کرنے کا کیا مطلب؟ کیا یہ نمائش نہیں ہے کہ ان کے یہاں باقاعدہ قطار لگے اور پھر دیکھنے والے دیکھیں کہ فلاں سیٹھ کے یہاں زکوٰۃ کیلئے اتنی طویل قطار لگی تھی۔ اکثر زکوٰۃ و صدقات کیلئے آنے والوں کو ٹرخاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ۲۰؍ رمضان کے  بعد آنا۔ ۲۰؍ کے بعد ۲۵؍  اور پھر ۲۷؍ رمضان یا اس کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ انہیں دینا نہ پڑے، بلکہ اس کا مقصد صرف اپنے گھر اور دفتر کی بار بار زیارت کرانا ہوتا ہے اور دوسروں کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ ان کے یہاں کتنے سارے لوگ چندہ لینے آتے ہیں۔ کچھ تو چندہ جمع کرکے تقسیم کرتے ہیں اور وہ بھی بھرپور تشہیر کے ساتھ۔
    اس قسم کے افراد کودیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کیا ان کا تعلق اسی قوم سے ہے جسے  ہدایت دی گئی ہے کہ دائیں ہاتھ سے کسی کو کچھ  دو تو بائیں کو بھی خبر نہ ہو نے پائے۔ حالانکہ اسی سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس اصول پر پوری طرح سے عمل پیرا ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کاش! ہم سب اس پر عمل کرسکیں ۔