بہار کا نتیجہ اُن سیاسی جماعتوں کیلئے باعث احتساب ہے جوسیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں
عوام نے اپنا فیصلہ صادر کردیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اب یہ فیصلہ بایاں محاذ، بی ایس پی، این سی پی، سماجوادی ، ایم آئی ایم اوراس طرح کی دیگر سیاسی پارٹیوں کو کرنا ہے کہ وہ اپنی بقا چاہتی ہیں یانہیں؟
قطب الدین شاہد
اہلِ بہار نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہوش مندی اور دانشمندی کابہترین ثبوت دیا۔ انہوں نے ثابت کیاکہ وہ نہ صرف خود دار ہیں بلکہ سمجھدار اور ہوشیار بھی ہیں۔ نتائج دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پورے ملک کی آواز سن لی تھی اوراپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرلیا ہے۔اس آواز پر ا نہوں نے لبیک کہا اور اس طرح پورے ملک میںمسرت کاایک خوشگوار ماحول فراہم کیا۔ وہ کسی کے بہکاوے اور چھلاوے میں نہیں آئے اور وہی کیا جو وقت کا تقاضا اور ملک کی آواز تھی۔ اس کیلئے اہل بہار یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔
بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج کےکئی مثبت پہلو ہیں۔ جیسے یہ کہ عوام نے نہایت خاموشی سے اپنے حق کا استعمال کیا، فرقہ پرستوں کی سازش کے شکار نہیں ہوئے، گمراہ کن میڈیا پر توجہ نہیں دی،اس کی وجہ سے مایوس نہیں ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت نہیں برتی بلکہ بھرپور ووٹنگ کی۔ لیکن ان تمام میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر سیکولرازم کا نام لینےو الی سیاسی جماعتیں تھوڑی دیر کیلئے اپنی اَنا کو بالائے طاق رکھ دیا کریں تو نہ صرف یہ کہ خود اقتدار کے مزے لوٹیںگی بلکہ وہ ہم خیال عوام کوان ذہنی پریشانیوں سے نجات بھی دلا نے کا کام کریںگی جن سے وہ بیچارے ہر بار انتخابی دنوں میں جوجھتے ہیں۔ اس مرتبہ بہار میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس نے کچھ ایسا ہی کیا جس کا انہیں خاطرخواہ فائدہ ملا۔اس کیلئے یہ تینوں جماعتیں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔
بلاشبہ اس عظیم اتحاد کا کریڈٹ لالو پرساد یادو کو جاتا ہے جنہوں نے لوک سبھا الیکشن کے بعد ہی اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ آئندہ ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہے اور اس کی مدد سے مودی کے طلسم سے پہلے بہاراور پھر ملک کو آزاد کرانا ہے۔اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے لالو کو کئی باراپنی انا کو قربان کرنا پڑا۔ دوران انتخابات انہوں نے بار بار انکسار کا مظاہرہ کیا۔ لالو کو نہ صرف بی جے پی نے بھر پور نشانہ بنایا بلکہ میڈیا نے بھی انہیں شروع سے آخر تک تنقید کی زد پر رکھا ، یہاں تک کہ لالو کا وقار مجروح کرنے میں کانگریس نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن انہوں نے کسی موقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اپنے انداز میںمسکرا کر وہ زہر پیتے رہے۔
یہ الیکشن بعض سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتۂ دیوار بھی ہیں۔ ضرورت ہے کہ بایاں محاذ، این سی پی ،ایس پی ، بی ایس پی اور ایم آئی ایم جیسی جماعتیں اب ہٹ دھرمی سے باز آکر شعوری فیصلےکریں ۔ ایسا کرنا، انہیںکے مفاد میں ہے۔ سیکولر عوام نے اپنا فیصلہ صادر کردیا ہے۔ انہوں نے بتادیا ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنااور اپنی پالیسیوں میں اصلاح کرنا، ان جماعتوں کی مجبوری ہوسکتی ہے، عوام کی نہیں۔ اس الیکشن میں ایک چھوٹی سی مثال کانگریس کی ہے۔ اس نے ۴۰؍ نشستوں پر الیکشن لڑنے کیلئے رضا مندی کااظہار کیا جن میں سے ۲۷؍ سیٹوں پر قبضہ بھی جما لیا۔ یہ بات آنکھ بند کرکے کہی جاسکتی ہے کہ اگر وہ ۲۴۳؍ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی ضد کرتی تو بہت ممکن ہے کہ اس کا ووٹ شیئر ۶ء۷؍ کے فیصد کے بجائے ۸؍ سے ۹؍ فیصد ہوجاتا لیکن اس کی جھولی میں دو تین سیٹیں بمشکل آپا تیں۔ ایسے یہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس اتحاد میں بایاں محاذ، این سی پی اور سماجوادی بھی شامل ہوتیں تو نہ صرف آج ان کے چہروں پر بھی مسکان ہوتی بلکہ گئی گزری حالت میں اسمبلی میں ان کے بھی ۴۔۲؍ نمائندے پہنچ جاتے۔ صورتحال یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے بعد لیفٹ فرنٹ کو صرف ۳ء۵؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے جبکہ ابھی چند سال قبل تک یہ محاذ ملک کو علاحدہ سیاسی نظام دینے کی بات کررہا تھا۔ سماجوادی کو صرف ایک فیصد ووٹ ملا جبکہ بی ایس پی کو ۲؍ اورایم آئی ایم کو صرف اعشاریہ۲؍ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس طرح کی تمام جماعتیں اپنا احتساب کریں اور آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرتےوقت حالات کی نزاکتوں کو محسوس کریں اور عوام کا ذہن بھی پڑھنے کی کوشش کریں۔ ان تمام جماعتوںکو ملنےوالے ووٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اتحاد میں شامل ہونے سے مہا گٹھ بندھن کو شاید ہی کوئی فائدہ ہوتا لیکن انہیں اس کا صلہ ضرور ملتا۔
بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج کےکئی مثبت پہلو ہیں۔ جیسے یہ کہ عوام نے نہایت خاموشی سے اپنے حق کا استعمال کیا، فرقہ پرستوں کی سازش کے شکار نہیں ہوئے، گمراہ کن میڈیا پر توجہ نہیں دی،اس کی وجہ سے مایوس نہیں ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت نہیں برتی بلکہ بھرپور ووٹنگ کی۔ لیکن ان تمام میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر سیکولرازم کا نام لینےو الی سیاسی جماعتیں تھوڑی دیر کیلئے اپنی اَنا کو بالائے طاق رکھ دیا کریں تو نہ صرف یہ کہ خود اقتدار کے مزے لوٹیںگی بلکہ وہ ہم خیال عوام کوان ذہنی پریشانیوں سے نجات بھی دلا نے کا کام کریںگی جن سے وہ بیچارے ہر بار انتخابی دنوں میں جوجھتے ہیں۔ اس مرتبہ بہار میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس نے کچھ ایسا ہی کیا جس کا انہیں خاطرخواہ فائدہ ملا۔اس کیلئے یہ تینوں جماعتیں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔
بلاشبہ اس عظیم اتحاد کا کریڈٹ لالو پرساد یادو کو جاتا ہے جنہوں نے لوک سبھا الیکشن کے بعد ہی اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ آئندہ ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہے اور اس کی مدد سے مودی کے طلسم سے پہلے بہاراور پھر ملک کو آزاد کرانا ہے۔اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے لالو کو کئی باراپنی انا کو قربان کرنا پڑا۔ دوران انتخابات انہوں نے بار بار انکسار کا مظاہرہ کیا۔ لالو کو نہ صرف بی جے پی نے بھر پور نشانہ بنایا بلکہ میڈیا نے بھی انہیں شروع سے آخر تک تنقید کی زد پر رکھا ، یہاں تک کہ لالو کا وقار مجروح کرنے میں کانگریس نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن انہوں نے کسی موقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اپنے انداز میںمسکرا کر وہ زہر پیتے رہے۔
یہ الیکشن بعض سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتۂ دیوار بھی ہیں۔ ضرورت ہے کہ بایاں محاذ، این سی پی ،ایس پی ، بی ایس پی اور ایم آئی ایم جیسی جماعتیں اب ہٹ دھرمی سے باز آکر شعوری فیصلےکریں ۔ ایسا کرنا، انہیںکے مفاد میں ہے۔ سیکولر عوام نے اپنا فیصلہ صادر کردیا ہے۔ انہوں نے بتادیا ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنااور اپنی پالیسیوں میں اصلاح کرنا، ان جماعتوں کی مجبوری ہوسکتی ہے، عوام کی نہیں۔ اس الیکشن میں ایک چھوٹی سی مثال کانگریس کی ہے۔ اس نے ۴۰؍ نشستوں پر الیکشن لڑنے کیلئے رضا مندی کااظہار کیا جن میں سے ۲۷؍ سیٹوں پر قبضہ بھی جما لیا۔ یہ بات آنکھ بند کرکے کہی جاسکتی ہے کہ اگر وہ ۲۴۳؍ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی ضد کرتی تو بہت ممکن ہے کہ اس کا ووٹ شیئر ۶ء۷؍ کے فیصد کے بجائے ۸؍ سے ۹؍ فیصد ہوجاتا لیکن اس کی جھولی میں دو تین سیٹیں بمشکل آپا تیں۔ ایسے یہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس اتحاد میں بایاں محاذ، این سی پی اور سماجوادی بھی شامل ہوتیں تو نہ صرف آج ان کے چہروں پر بھی مسکان ہوتی بلکہ گئی گزری حالت میں اسمبلی میں ان کے بھی ۴۔۲؍ نمائندے پہنچ جاتے۔ صورتحال یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے بعد لیفٹ فرنٹ کو صرف ۳ء۵؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے جبکہ ابھی چند سال قبل تک یہ محاذ ملک کو علاحدہ سیاسی نظام دینے کی بات کررہا تھا۔ سماجوادی کو صرف ایک فیصد ووٹ ملا جبکہ بی ایس پی کو ۲؍ اورایم آئی ایم کو صرف اعشاریہ۲؍ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس طرح کی تمام جماعتیں اپنا احتساب کریں اور آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرتےوقت حالات کی نزاکتوں کو محسوس کریں اور عوام کا ذہن بھی پڑھنے کی کوشش کریں۔ ان تمام جماعتوںکو ملنےوالے ووٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اتحاد میں شامل ہونے سے مہا گٹھ بندھن کو شاید ہی کوئی فائدہ ہوتا لیکن انہیں اس کا صلہ ضرور ملتا۔