Saturday 23 July 2011

عوام کی خاموشی

عوام کی خاموشی ہی بدعنوانوں کو
بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے
ان دنوں صورتحال یہ ہے کوئی دن کوئی اخبار خالی نہیں جاتا کہ اس میں بدعنوانی کی کوئی خبر شامل نہ ہو۔ ٹوجی اسپیکٹرم  کی تقسیم میں بے ضابطگی کا معاملہ ہو، یا دولت مشترکہ کھیلوں کے انتظامات میں ہونے والی خرد برد کا، نوٹ کے بدلے ووٹ کا معاملہ ہو یا پھر کان کنی مافیا کا۔آئی پی ایل  گھوٹالے کی بات ہو یا پھر اسی طرح کا کوئی اور معاملہ..... افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گھوٹالوں کو پڑھ کر عوام چیں بہ جبیں ہونے کے بجائے محظوظ ہوتے ہیں.....  اور  اگر محظوظ نہیں ہوتے ، تب بھی کچھ ’ایکشن‘ نہیں لیتے، کسی رد عمل کااظہار نہیں کرتے۔ عوام کی یہی خاموشی دراصل  ان بدعنوانوں کو بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے۔
قطب الدین شاہد


بدعنوانی ہمارے سماج میں اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ وہ اس کاایک اٹوٹ حصہ معلوم ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں عیب اور گناہ تصور کی جانے والی بدعنوانی آج کے سماج میں فن اور ہنر کادرجہ حاصل کرگئی ہے۔موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کسی بڑے بدعنوان کا تذکرہ آتا ہے تو نفرت اور غم و غصہ کے اظہار کے بجائے  لوگ باگ اس پر عش عش کرتے ہیں اوراسے اس شخص کی قابلیت اور کارنامہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تاریخ اور جغرافیہ سے پوری واقفیت ہونے کے باوجود کسی تقریب کی افتتاح اور صدارت کے لئے ہم انہیں ہی بلاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ایسا کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو، خواہ یہ ہماری بے حسی ہو یا بے بسی لیکن ہمارے اس عمل سے سماج کے ان غیر سماجی عناصر کو تقویت ملتی ہے اور پھر وہ مزید جوش وخروش سے بدعنوانی کے نئے محل کی تعمیر میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔وہ براہ راست نہ سہی مگر بالراست ہمارا ہی خون چوستےہیں مگر افسوس کہ ہم اپنی تکلیف کاا ظہار بھی کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔اب توان میںشرم بھی باقی نہیں رہی کہ راز فاش ہوا تو عوام کو منہ کس طرح دکھائیںگے؟ بلکہ اس بات کا بھی خوف نہیں رہا کہ پکڑے گئے تو کیا ہوگا؟غالباً اکبر الہٰ آبادی نے ایسے لوگوں کے لئے ہی لکھاتھا  کہ ’دے کے رشوت پھنس گیا ، لے کے رشوت چھوٹ جا‘۔
    گزشتہ دنوں ٹرین میں تین افراد کے ایک گروپ کے درمیان  ہونے والی ایک بحث نے ہمیں اس طویل تمہید کی ضرورت پر اُکسایا، ورنہ اپنی بات سیدھے سیدھے بھی کہی جاسکتی تھی۔وہ بحث بہت دلچسپ تھی، جس میں ایک طرف دو لوگ  تھے جنہیں بطور علامت ہم اکثریت لکھیںگے جب کہ دوسری طرف ایک ہی شخص تھا جنہیں ہم اقلیت سے مخاطب کریںگے۔ اے راجا، سریش کلماڈی، کنی موزی، شرد کمار، دیاندھی مارن، شاہد بلوا، نیرا راڈیہ، برکھادت، اشوک چوان، سنجیو سکسینہ، سہیل ہندوستانی، امرسنگھ اوریدی یورپا جیسی ’بڑی‘ شخصیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان میں سے ایک ان سب کی تعریفیں کررہا تھا جب کہ اس کا دوسرا ساتھی اس کی تائید کررہا تھا۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ ان لوگوں  کے اندر اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ایک ’تڑپ‘ پائی جاتی ہے، لہٰذاوہ ان کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کوتیار رہتے ہیں۔  اقلیت نے اس کی سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ان کا انجام بھی تو دیکھو۔ عشرت کدوں  میں رہنے والے ان دنوں جیل میں کمبل کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘  اکثریت میں سے ایک نے پہلو بدلتے ہوئے  نئی تاویل پیش کی ، ’’اس طرح کی  خبریں آپ جیسوں کو ’مطمئن‘ کرنے کےلئے تخلیق کی جاتی ہیں ورنہ چند دن قبل کلماڈی کی جیلر کے ساتھ خوش گپی اور چائے نوشی کی خبر بھی آئی تھی۔‘‘
    بالکل نیکی اوربدی جیسا معرکہ تھا۔ اقلیت نے پھر ہمت مجتمع کی اور کہا کہ ’’ان کے لئے یہی سزا کیا کم ہے کہ محل سے انہیں جیل جانا پڑا۔ذرا سوچئے پُر تعیش اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے والوں پر اس وقت کیاقیامت گزرتی ہوگی جب ان کی عیاشی اور آزادی پر پہرہ بٹھایا گیا ہوگا۔اس موقع پر ہمیں اپنے بزرگ استاد اور معروف افسانہ نگار مشتاق بولنجکرکے ایک افسانے ’زنگ لگی تلوار‘ کاایک اقتباس یاد آیا، جس میں انہوں نے تکلیف سے آرام اور خوشحالی سے تنگدستی کی جانب سفر کرنے والوں کی بہت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ وہ اقتباس کچھ یوں ہے....... ’’ زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے بھی چھاؤں میسر ہو تو نعمت معلوم ہوتی ہے مگر زیادہ دیر تک چھاؤں میں رہنے والوںکو لمحہ بھر کی دھوپ بھی بے چین کردیتی ہے۔‘‘
    بحث بہت دلچسپ مرحلے میںداخل ہوچکی تھی۔ اکثریتی گروپنئے جواز کے ساتھ تیار بیٹھا تھا۔ ’’سیاست دانوں کا کچھ نہیں ہوتا۔ چند دنوں تک پریشانی ضرور ہوتی ہوگی مگر پھر ان کے لئے راوی چین ہی لکھتا ہے۔قانون کے جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں ہی پھنستی ہیں۔ بوفورس اور تابوت کے دلالوں کا کیا ہوا؟ حوالہ اسکینڈل، جین  ڈائری اور چارہ گھوٹالوں کے ملزمین میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ سکھ رام اور نرسمہاراؤ کے وارثین کو کس نے در در بھٹکتے دیکھا ہے؟ہرشد مہتا، کیتن پاریکھ اور تیلگی معاملے میں کتنے سیاست دانوں کی جائیدادیں قرق ہوئی ہیں؟جب ان لوگوں کا کچھ نہیں بگڑا تو کون سا نیا انقلاب آگیا ہے کہ موجودہ گھوٹالے بازوں کا کچھ بگڑے گا؟ یہ زمانہ پیسوں کا ہے، پیسہ پھینکو، تماشہ دیکھو، پیسہ نہیں ہے تو زندگی عذاب کی طرح جھیلو۔ جن کے پاس پیسہ ہے، انہی کی حکومت ہے، انہی کی دنیا ہے اور انہی کی زندگی ہے۔‘‘
    یہ بحث جاری تھی، مگر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے، سو ہمارے لئے ادھوری ہی رہی۔ پتہ نہیں کس کی جیت ہوئی اور کون شکست سے دوچار ہوا۔  خیر جب ہمیں دوبارہ تنہائی میسرہوئی تو ایک بار پھر خیالات کا سلسلہ وہیں پہنچ گیا جہاں سےمنقطع ہوا تھا۔ ہم نے سوچا کہ وہ دونوں جو غلط تھے، کیا غلط کہہ رہے تھے؟ سچ ہی تو بول رہے تھے۔  سیاستدانوں سے کیا امید کی جائے؟ وہ تو بس ہر معاملے کو سیاسی عینک سے ہی دیکھتے ہیں۔ کانگریس کو یدی یورپا کی بدعنوانی نظرآتی ہے لیکن اشوک چوان اور ولاس راؤ دیشمکھ میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، اسی طرح بی جے پی دیاندھی مارن  کے کابینہ سے اخراج کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے لیکن کرناٹک کے وزیراعلیٰ کابھرپور دفاع کرتی ہے۔
    ایسے میںہم یعنی عوام جب تک بیدار نہیں ہوںگے،  بدعنوانوں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے سیاست دانوں کےلئے راوی چین ہی لکھے گا۔اب یہ سوچنا ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے گھر میں ہونے والی چوریوں سے نجات پانے کاانتظام کب کرتے ہیں؟ اور یہ معلوم پڑ جانے کے بعد کہ چور فلاں فلاں ہیں،ان کے خلاف ’ایکشن‘ کب لیتے ہیں؟n