Saturday 31 March 2012

April fool

اپریل فول: کون بیوقوف بنا اور کس نے بنایا؟
 
قطب الدین شاہد

عالمگیریت اور صارفیت  نے جب زمانے پر اپناشکنجہ کسا تو یوم پیدائش اوریوم وفات سے بات آگے بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے یوم وجود میں آگئے..... جیسے یوم خواتین، یوم بزرگاں، یوم اطفال، یوم دوستی، یوم محبت، یوم آزادی  اور یوم شادی۔ جب سب نے اپنے اپنے دن مخصوص کرلیے تو بیوقوفوں اور احمقوں نے بھی آواز بلند کی کہ ہم نے کون سا گناہ کیا ہے جو دنیا ہمیں بھول گئی۔یہ مطالبہ یوں بھی ناجائز نہیں تھا کہ اسے یکسر مسترد کردیا جاتا، کم از کم جمہوری ملک میں تو قطعاً نہیں جہاں بندے گنے جاتے ہیں، تولے نہیں جاتے۔ یہاں اکثریت میں رہنے والوں کی ہر بات سنی جاتی ہے، انہیں چھینک بھی آئے تو سیاسی جماعتوں کو زکام ہونے لگتا ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ اُن کا حق تھا لہٰذا ’عقل مندوں‘ کا اخلاقی فرض بھی  تھا کہ اس مطالبے پر وہ سنجیدہ ہوں۔ سو اِس کا انتظام کردیا گیا اور بالاتفاق رائے یکم اپریل کی تاریخ طے کردی گئی۔ پوری دنیا میں تو نہیں کہہ سکتے مگرجہاں جہاں جمہوریت اپنے پیر پسارنے میں کامیاب رہی ہے ، وہاں  یہ دن ’دھوم دھام ‘ سے منایا جاتا ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ۔
     آپ چاہیں تو اس سے اختلاف کرسکتے ہیں تاہم بعض ’عقلمندوں‘ کا خیا  ل ہے کہ یکم اپریل کو چونکہ سالانہ بجٹ کا نفاذ  ہوتا ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سےاپریل فول منایا جاتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ترقی اور شرح نمو کے نام پر تمام نام نہاد حکومتیںعوام کو بیوقوف بنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ قیمتیں فوراً بڑھاتی ہیں اور  سبز باغ دکھاتی ہیں ایک سال بعد کی۔
     اپریل فون کے دن بہت سارے بیوقوف  دیگر  بیوقوفوں کو بیوقوف بنانے کی مہم پر نکلتے ہیں اورآخر میں بیوقوف بن کر گھر واپس ہوتے ہیں اورخوش ہوتے رہتے ہیں تاہم  یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس نے کس کو بیوقوف بنایا  بالکل اسی طرح جیسے رائے دہندگان  اور سیاسی پارٹیوں کا معاملہ ہے۔
    ویلنٹائن ڈے کی طرح یہ دن بھی اب ہر گھر اور ہر دفتر میں منایا جانے لگا ہے۔  صبح جب دسترخوان پر انواع و اقسام کے ناشتے دیکھا تو سمجھ میں نہیں آیا کہ معاملہ کیا ہے؟ بیگم نے بتایا کہ اپریل فول ہے۔ میںنے کہا کہ اس کا مطلب بھی سمجھتی ہو، انہوں نے کہا،میںتوسمجھتی ہوں اور تھوڑی دیر میںآپ بھی سمجھ جائیں گے۔ اس دھمکی پر بھلاکسے خوف نہیں آئے گا، ہرکسی کا جگر ، جگر مرادآبادی کے جیسا تھوڑے ہی ہے ، لہٰذا لقمہ جہاںتھا ، وہیں رہ گیا۔میری تشویش دور کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناشتہ کیجئے اور جی بھر کر کیجئے، اس میں کچھ نہیں ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ صبح ہی صبح میری جیب کی تلاشی ہوئی تھی اور اب پرس کی رقم ندارد تھی۔ اتنے  میں دیکھا میاں عبدالرشید بھی اسکول سے واپس آگئے۔ بولے ہیڈمسٹریس صاحبہ چل بسی ہیں،لہٰذا چھٹی ہوگئی ہے۔  مجھے لگا کہ یہ اپریل فول کا ہی حصہ ہے تاہم مزید تحقیق پر معلوم پڑاکہ اس میںجزوی سچائی ہے۔ ہوا یوں کہ بچوں میںسے کسی نے اپریل فول منانے  اور اس بہانے چھٹی  پانے کے مقصد سے ہیڈ مس کو یہ جھوٹی خبر سنادی کہ سکریٹری صاحب  نے دنیا کوالوداع کہہ دیا ہے۔  بیچاری ہیڈ مس اس خبر کی تاب نہیں لاسکیں، سوچی ہوںگی کہ جب ’دلبر‘ ہی نہیں تو دل کس کا م کا، لہٰذادل پر زبردست حملہ ہوا اورتھوڑی دیر میں لوگوں کو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھنا پڑا۔ پتہ چلا کہ تدفین کے بعد ہی سکریٹری صاحب نے اس مسند پرکسی اور کو اس شرط کے ساتھ براجمان کردیا کہ  میرے ’دل‘ کا خیال رکھنا۔ ترقی پانے کے لیے اسطرح کی سودے بازی تعلیمی اداروں میں آج کل عام بات ہے۔ اب اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
     یکم اپریل کو ہمارے دوست لیاقت علی زاہد بھی گھرسے اسی مقصد سے نکلے تھے کہ چلو کسی کو بیوقوف بنایاجائے۔ انہوں نے خود پر یہ شرط بھی عائد کرلی تھی کہ کام ہوئے بغیرگھر واپس نہیںہوںگے، گویا ناتواںکندھوں (دماغ بھی پڑھ سکتے ہیں) پر بہت بوجھ پڑگیا تھا۔ایک صاحب جو فون پرکسی سے بات کررہے تھے اور بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اپنا شکار سمجھ کر انہیں راستے میں ہی روک  لیا اور چہکتے ہوئے کہا  ’’بھائی صاحب ! مٹھائی کھلائیے، آپ کی اہلیہ محترمہ نے جڑواں بچوںکو جنم دیا ہے۔‘‘اس سے قبل کہ زاہد صاحب کچھ سمجھ پاتے، اس نوجوان نے ایک زوردار طمانچہ رسید کردیا۔پتہ چلاکہ وہ اپنی محبوبہ سے عشق و محبت کی باتیں اورمستقبل کی منصوبہ بندی کررہا تھا کہ موصوف نے بیوی  اورجڑواں بچوں کا تذکرہ کرکے اس کی قسمت پر سیاہی انڈیل دیا۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر وہ وہاںسے راہ فرار اختیار نہ کرتے تو واقعی گھر جانا نصیب نہ ہوتا۔تھوڑی ہی دور گئے ہوںگے کہ دیکھے آگے آگے ان کا ایک دور کا پڑوسی جارہا ہے۔سوچااسے بیوقوف بنانا چاہئے۔ دوڑ کر پیچھاکیا اور ہانپتے کانپتے بولے کب سے تمہیں تلاش کررہا ہوں،  ارے بھابھی نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے، محلے میں سب تمہارا انتظارکررہے ہیں، جلدی چلو اور ہاں مٹھائی بھی خرید لو۔ زاہد صاحب خیرایک سانس میں تو سب کچھ کہہ گئے لیکن تب تک موصوف کی حالت غیر ہوگئی تھی اوراس سے قبل کہ یہ کچھ سمجھ پاتے، وہ بے ہوش ہوکر زمین بوس ہوچکے تھے۔اسے دواخانے پہنچانے کے بعد انہیں معلوم پڑاکہ ان کا دور کا پڑوسی جب بھی کوئی ناقابل یقین بات سنتا ہے تو اس پراسی طرح کا دورہ پڑتا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے ناقابل یقین ہی تھی کیونکہ وہ  ایک عرصہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے پر عمل کررہا تھا، لہٰذا  جڑواں بچوں کا  ’صدمہ‘ برداشت نہیں کرسکا۔
    زاہد صاحب تھکے ہارے پارک میں جاکر بیٹھ گئے کہ کچھ دیر آرام کرلیں پھر اپنی مہم پر نکلیں۔کہتے ہیں کہ ارادے پختہ ہوںتو منزل خود چل کر آتی ہے، سو انہوں نے دیکھا کہ ایک جوڑا گارڈن میںداخل ہورہا ہے۔ان دونوں کو اپنی منزل سمجھ کر زاہد صاحب ابھی ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں پائے تھے کہ دونوں نے کچھ کانا پھوسی کی اور ایک لمحہ کے تؤقف میں اپنی بیوی کو وہیںچھوڑ کر وہ نوجوان ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔غصے سے اس کا چہر ہ لال بھبھوکا تھا، آتے ہی اس نے سوال کیا۔ تمہارا نام کامران ہے؟ان کے ہاں کہتے ہی اس نے ایک زوردار گھونسہ مارا۔پھر دوسرا سوال کیا کہ کیا تم ہی وہ شخص ہو جو شادی سے قبل ہماری بیوی کو چھیڑا کرتے تھے؟ انہوںنے پھرہاں کہا اور پھر زور دار گھونسے کا ضرب پڑا۔وہاں لوگوں نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی شخص مار کھانے کے بعد بھی ہنس رہا ہے اور بے تحاشا ہنستا جارہا ہے۔ وہ تو اچھاہواکہ بروقت میں پہنچ گیا جس کی و جہ سے معاملہ رفع اورنوجوان دفع ہوا ورنہ پتہ نہیں کیاہوتا۔ بعد میںلوگوں کے پوچھنے پر کہ تم مار کھاکر کیوںہنس رہے تھے؟انہوںنے کہا کہ میں تو اپریل فول منا رہاتھا۔یہ پوچھنے پر کہ کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ ’’وہ مجھے کامران سمجھ کرماررہا تھا جب کہ میرا نام لیاقت علی زاہد ہے۔‘‘
    مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہ شخص مار کھاکر بھی محض اس لیے خوش ہے کہ اس نے کسی کو بیوقوف بنایا ۔  نظر کا دائرہ وسیع کیا تو دیکھا کہ اسی طرح کی خوش فہمی کا شکار پورا سماج ہے۔خیال آیا کہ جس سماج میں مار کھا کر بھی خوش ہونے والے افراد موجود ہوںگے ، وہاں کے حکمراں بھلا کیونکر ان کی فلاح کی باتیں سوچیںگے، وہ تو مار مار کر ہی انہیں ’خوش ‘ رکھنے کی کوشش کریںگے۔
n

Saturday 10 March 2012

Good decision by Uttar Pardesh voters......

 یوپی کے باشعور رائے دہندگان کا مدبرانہ فیصلہ

 مبارکباد کےمستحق ہیں یوپی کے رائے دہندگان، جنہوں نے اپنے ووٹوں کی طاقت کو محسوس کیا،اس کا بہتر استعمال کیا اور مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مایاوتی کی مطلق العنان حکومت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتائی اورکانگریس کے پنجے کو بھی مروڑ دینے میں کامیابی حاصل کی .....جسے تعمیر سے زیادہ تخریب پر یقین تھا۔ اس مبارک سلامت کے حقدار بلاشبہ تمام رائے دہندگان ہیں لیکن مسلمانوں نے جس شعور و تدبر کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۱۸؍ فیصدمسلم نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچادینا اور بی جے پی کو محض ۱۱؍ فیصد نشستوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ پولنگ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت منظم انداز میں ہوئی ہے۔ سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داری بحسنِ خوبی انجام دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اور نومنتخب نمائندے رائے دہندگان کے معیار اور امیدوں پر کس حد تک پورے اُترتے ہیں؟

قطب الدین شاہد

حالیہ ریاستی انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ شعور و تدبر کے استعمال اور منظم پولنگ کے معاملے میں اترپردیش کے رائے دہندگان بہت اسمارٹ واقع ہوئے ہیں۔ایودھیا تحریک کے ذریعہ پورے ملک کی فضا کو مسموم کردینے والی بی جے پی کو غیر مؤثر کرنے نیز اس کے دانتوںسے زہر نکال کر اسے بے ضرر بنانے کاسہر ا  یوپی   کے عوام کے ہی سر بندھتا ہے۔کسے یقین تھا کہ جس بی جے پی نے  ۱۹۹۸ء  کے عام انتخابات میں  ۳۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸۲؍ میں سے ۵۷؍ سیٹیں ہتھیالینے میں کامیا بی حاصل کی تھی، اسی بی جے پی کو اُسی یوپی میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسمبلی کی محض ۴۷؍ نشستوں تک محدود کردیا جائے گا۔  یہ سیکولر رائے دہندگان کی بالغ نظری کا ثبوت ہی تو ہے جو یہ ممکن ہوسکا۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ملائم سنگھ کو سزا دینے کی بات ہو، مایاوتی کی تاجپوشی کا معاملہ ہو یا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایک موقع اور دیتے ہوئےریاست میں دوسرے نمبر پر پہنچا دینے کا واقعہ ہو یا پھر ابھی اختتام پذیر ہوئے انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی ندامت کو قبول کرتے ہوئے اسے معاف کردینے اور دوبارہ مسند ِ اقتدار تک پہنچا دینے کی بات ہو....... رائے دہندگان نے ہر جگہ اور ہر موقع  پر نہایت ہی سوجھ بوجھ اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
    عام طور پر شمالی ہند کو آر ایس ایس کا مضبوط علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی شمالی ہند کے سب سے مضبوط گڑھ  یوپی میں بی جے پی کو  ۱۱؍ فیصد یعنی ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں صرف ۴۷؍ نشستیں ہی مل سکیں، اس کے برعکس ۸۹؍ فیصد سیٹیں سیکولر طاقتوں کے قبضے میںگئیں۔سوجھ بوجھ کا مظاہرہ یوں توسبھی نے کیا لیکن مسلم رائے دہندگان کی حکمت عملی اپنی مثال آپ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸؍ فیصد ہے ، اس لحاظ سے دیکھیں تو انہوں نےاسمبلی میں (۶۹؍ اراکین کے ساتھ) اپنی( تقریباً)۱۸؍ فیصد نمائندگی اپنے ووٹوں کی طاقت کے بل پر حاصل کرلی ہے۔ یوپی میں یہ اب تک کی ریکارڈ مسلم نمائندگی ہے۔ حالانکہ اس پر افسوس نہیں کیا جاناچاہئے لیکن ....... اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اُن ۶۴؍ اسمبلی حلقوں میں جہاں مسلم نمائندے دوسری پوزیشن پر رہے ہیں، اگربیداری کا مظاہرہ تھوڑا سا اور کیا جاتا تو اس ریکارڈ کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ ان ۶۴؍ حلقوں میں کئی حلقے ایسے تھے، جہاں دو دو اور تین تین مضبوط مسلم امیدوار آپس میں ہی ٹکرا گئے تھے۔ تھوڑی سی محنت سے سکندر آباد سے سلیم اختر (بی ایس پی)،  تھانہ بھون سے اشرف علی خان (آر ایل ڈی)، غوری گنج سے محمد نعیم (کانگریس) ، پھول پور  پوئی سے ابو القیس اعظمی (بی ایس پی) اور رودولی سے عباس علی زیدی (سماجوادی ) کو ہم  آسانی سے کامیاب کرواسکتے تھے۔ (باکس میں دیکھئے  ، چند مسلم امیدواروں کی شکست کا فرق)۔
    کہاجاتا ہے کہ یوپی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی لہر تھی۔ یہ لہر کیوں تھی؟ اور کس نے پیدا کی تھی؟دیانت داری سے اس کا تجزیہ کیا جائے گا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ یہ لہریں مسلمانوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ سماجوادی پارٹی سے ناراضگی کے سبب مسلمانوں نے ۲۰۰۷ء کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کو اور ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کا ہاتھ مضبوط کیا تھا۔  سماجوادی سے مسلمانوں کی ناراضگی کیوں تھی؟  یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے  لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنے سے بہتر ہوگا کہ ’یہ ناراضگی دور کیوں ہوئی؟‘ پر گفتگو کی جائے۔
     آگےبڑھنےسے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد اس کایا پلٹ کا پوراکریڈٹ مسلمانوں کو دینا نہیں ہے .... اس کا اعتراف ہمیں بھی ہے کہ اس کے اور بھی کئی عوامل ہیں، مثلاً بی ایس پی کی بدعنوانی  اور مطلق العنانی  کے ساتھ کانگریس کی ناعاقبت اندیشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کی اس کی پرانی روِش (صدر راج کی دھمکی اس کی واضح مثال ہے)،جس کی وجہ سے عوام نے انہیں رد کردیا...... لیکن ان سب کے باوجود .... مسلمانوں کے جوش و خروش اور  سیاسی شعور کے مظاہرے کے بغیر محض انہی عوامل کی  وجہ سے سماجوادی پارٹی یوں بلا شرکت ِغیرے لکھنؤ کے تخت پر براجمان ہوپاتی،یہ ممکن نہیں تھا۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کی شکست کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں لیکن سماجوادی کی کامیابی کی بنیادی وجہ اسے مسلمانوں کی حمایت کا ملنا ہی ہے۔
    اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ سماجوادی پارٹی کا حق بھی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں سماجوادی پارٹی نے جو کام کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو.....غلطی کس سے نہیں ہوتی؟ غلطیاں کرنا انسان کے بشری تقاضے ہیں ..... لیکن بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں؟ ان پر نادم ہوتے ہیں، معافی تلافی کرتے ہیں اور اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ البتہ جو ایساکرتے ہیں وہ واقعی بڑے ہوتے ہیں اور پھر سرخروئی بھی حاصل کرتے ہیں ..... ملائم سنگھ اور ان کی ٹیم نے بھی غلطیاں کی تھیں لیکن انہوںنے ضد اور انا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی اور کلیان سنگھ کو اپنےساتھ رکھنے پر مسلمانوںسے سرِ عام معافی طلب کی۔ یہ بہت بڑی بات تھی.... اور اگر مسلمان ملائم کو معاف نہیں کرتے تو یقیناً یہ بری بات بھی ہوتی۔
    اب آئیے مسلمانوں کے سیاسی شعور کے ایک اور پہلو پر بھی گفتگو کرتے چلیں۔بلاشبہ مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ترجیح دی لیکن ..... پوری طرح  اس کی آواز پر آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کس طرح بہتر بنائی جائے؟   بھوجی پورہ میں سماجوادی پارٹی کے وریندر سنگھ گنگوار  کے مقابلے اتحاد ملت کونسل کے نمائندےشاذی الاسلام کی جیت ، بلسی میں ایس پی کے امیدوار ومل کرشن اگروال کے مقابلے مسرت علی بتّن،چیل میں بی ایس پی کے محمد آصف جعفری، مئو سے مختار انصاری اور محمد آباد سے صبغت اللہ انصاری اور اس طرح کے بہت سارے امیدواروں کی کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ یقیناً مسلمانوں نے  ایس پی کو ترجیح دی لیکن جہاںجہاں  اس کے مسلم امیدوار نہیں تھے، اور وہاں مسلمان اپنی طاقت کامظاہرہ کرسکتے تھے، انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا اور بہت منظم طریقے سے کیا۔
     الیکشن ہوچکا، نتائج آچکے، جیتنے اور جِتانے والے خوش ہولئے، مبارکبادیوں کا دور چلااور ختم بھی ہونے پر آیا،  ایک دو دن میں حکومت بھی بن جائے گی..... سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا؟ مسلم رائے دہندگان کو جو کرنا تھا، انہوں نے کیا اور پوری ذمہ داری سے کیا۔ اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے نئی حکومت اور نو منتخب نمائندوں پر۔ نئی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ مسلمان کسی پر بھروسہ کرتا ہے تو بہت گہرائی سے کرتا ہے لیکن جب اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ئی جاتی ہےتو وہ نفرت بھی اُتنی ہی شدت سے کرتا ہے۔ سماجوادی پارٹی نےمعافی طلب کی تو اسے معاف کردیا گیا لیکن کانگریس کا حشر ہمارے سامنے ہے جو آج بھی یوپی میں اپنی زمین کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہے۔  اسی کے ساتھ مسلم نمائندوں پر بھی بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح رائے دہندگان نے بلا لحاظ جماعت انہیں اپنے ووٹوں کا حقدار قرار دیا ہے، اسی طرح ان سے اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ مسلم مسائل پراسی طرح متحد ہوکر وہ بھی مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے۔اگر ایسا ہوا تو ایس پی کے ساتھ ہی تمام کامیاب مسلم نمائندوں کے بھی روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر انہیں عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

Tuesday 6 March 2012

U P men sadar raaj ka shosha..........4 March 2012

یوپی میں صدر راج کا شوشہ........

عوا م کو دھمکی یا شکست کااعتراف

اپنی غیر سنجیدگی کیلئے بدنام کانگریس کے بڑبولے قومی جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ اکثر و بیشترسچی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اگر ان پر اعتبار نہیں آتا  تو صرف اس لئے کہ ان میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اترپردیش انتخابات کے پس منظر میں انہوں نے ایک با ر پھر سچائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر یوپی میں کانگریس شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس کیلئے راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہوںگے۔ دگ وجے سنگھ بالکل درست فرمارہے ہیں، لیکن قدرے انکساری سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کو بخش دیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی کے انتخابی نتائج اگر کانگریس کی توقع کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں تو اس کیلئے دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم بھی ذمہ دار ہوںگے۔

قطب الدین شاہد
 
 یوپی میںووٹنگ کا عمل پورا ہوا۔ ۳؍مارچ کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ریکارڈ پولنگ کے ساتھ کانگریس، بی جے پی ، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے ساتھ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے  امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بیلٹ باکس میں محفوظ ہوگیا ہے۔دو دن بعد نتائج ظاہر ہوںگے۔ ان نتائج پر صرف یوپی کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نتائج حسب توقع برآمد ہوں یا غیر متوقع لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتیں بری طرح بوکھلائی ہوئی ہیں۔ دوران الیکشن یہ بات مشاہدے میں آئی کہ ووٹنگ کے تئیں عوامی جو ش و خروش سیاسی جماعتوں کو راس نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ بدحواسی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں۔گھبراہٹ کا یہ تناسب بعض سیاسی جماعتوں میں کم ہوتا ہے تو بعض میں زیادہ۔
    یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کی جائے تو کانگریس کی بوکھلاہٹ زیادہ نمایاں ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں مل جانے کی وجہ سے کانگریس اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ اترپردیش سے اس کی بے دخلی کا دور ختم ہوچلا ہے اور اس مرتبہ وہ وہاں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔  واضح رہے کہ  ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کو نارائن دت تیواری وزارت اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس کے بعد سے کانگریس وہاں اقتدار کیلئے ترس رہی ہے۔ تب سے اب تک وہ مسلسل کوششیں کررہی ہے لیکن اس کے تمام پینترے بیکار جارہے ہیں۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کو میدان میں اتار کربھی اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں  کانگریس کو ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں۸فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۲۲؍ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۱۸ء۲۵؍  فیصد ووٹ مل گئے جس کی وجہ سے اسے ۲۱؍ پارلیمانی نشستیں مل گئیں اور وہ یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی۔اس کامیابی نے کانگریس کی خوش فہمی میں اضافہ کردیا اوراسے لگنے لگا کہ عوام نے اس کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے۔
    ویسے کانگریس اگر یہ سوچ رہی تھی تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ عوام نے یقیناً اس کی غلطیوںکو معاف کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اترپردیش میں کانگریس کا جو ووٹ بینک رہا ہے، جس کی وجہ سے  وہ وہاں ۴۰؍ برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے، اس میںمسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ اپر کاسٹ کے ہندوؤں کا اہم رول رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے یہ تینوں ووٹ بینک دور ہوتے گئے۔ رام مندر کی تحریک سے اپر کاسٹ بی جے پی کے  خیمہ میں چلا گیا، تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے فاصلہ بنا لیا ۔ اسی طرح بی ایس پی کی آمد نے دلتوں کے دلوں سے کانگریس کا موہ بھنگ کردیا۔اس مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی تینوں کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے...... لیکن ان کے ’بزرگوں‘ نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔   ووٹوں کی کاشت کیلئے راہل نے یوپی کی زمین کو بہت اچھی طرح ہموار کردیا تھا لیکن   دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم  نے ان کا کھیل خراب کردیا اور اس قابل کاشت زمین میں کنکر پتھر ملاکر اسے بنجر بنانے  میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔    
  دلتوں کے گھر جانا اور ان کے گھر کا کھانا کھانا، اپنے آپ میں بڑا قدم تھا، راہل نے یہ کام کیا اورا س طرح دلتوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر بھی کیا۔  یہ اور بات ہے کہ انہیں ووٹ بینک میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ یہ یقینا ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔  راہل گاندھی نے اس برف کو پگھلانے کی ایک اچھی پہل ضرور کی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ہموار کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ ماضی میں کانگریس نے جو غلطیاں کی ہیں، جن کی وجہ سے یوپی کے مسلمانوں نے اسے ریاست سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا، اس میں لچک پیدا ہونے لگی تھی۔ راہل کی معصومیت پر لوگوں کو ترس آنے لگا تھا، اور لوگ یہ ذہن بنانے لگے تھے کہ کانگریس کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا جاسکتا ہے...... لیکن اسی درمیان کانگریس کی جانب سے اترپردیش انتخابات کی کمان سنبھالنے والے دگ وجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس کا تذکرہ چھیڑ کر مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کردیا۔ کانگریس کی کارستانیوں کو مسلمان یقینا ً بھولے نہیں تھے اور بھولنے کا ارادہ بھی نہیں تھا لیکن اس بیان سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتی بلکہ ان کے زخموں کو کرید کر انہیں ہرا بھی رکھنا چاہتی ہے۔ رہی سہی کسر چدمبرم کے فوری ’ری ایکشن‘ نے پوری کردی۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی خاموشی سے بھی مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ کانگریس کی ان بے وفائیوں کو مسلمان کسی طرح بھولنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ سلمان خورشید بھی درمیان میں کود پڑے۔ بٹلہ ہاؤس معاملے کے ساتھ  ہی ریزرویشن کے معاملے پر بھی انہوں نے کئی قلابازیاں کھائیں اور اپنے ساتھ مسلمانوں کو  بھی تذبذب میں مبتلا رکھا۔ان کا یہ کہنا کہ بٹلہ ہاؤس کا واقعہ سننے کے بعد سونیا گاندھی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں، کسی کوبھی ہضم نہیں ہوا ۔ اسی طرح مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے ان کے وعدے پر بھی اعتبار کرنا مشکل لگا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ۴۰؍ برسوں تک یوپی اور ۵۰؍ برسوں تک مرکز میں حکمرانی کی ہے   اور اس درمیان مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ سماجوادی پارٹی سے کانگریس میں آئے بینی پرساد ورما بھی اپنی سنجیدگی کو (جس کیلئے وہ مشہور تھے) بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا ’جرأت مندانہ‘ بیان دے ڈالا..... اور دودن کے بعد ہی ’زبان پھسلنے کی بات کہہ کر‘ اپنا بیان واپس بھی لے لیا۔ اس طرح کے بیانات دے کر کانگریس نے مسلمانوں میں اپنی شبیہ تو خراب کرہی لی تھی ....... ایسے میں رہی سہی کسر پوری کردی دگ وجے سنگھ اور مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال نے۔ ان کا یہ کہنا کہ اترپردیش میں یا تو کانگریس کی حکومت بنے گی یا پھر صدر راج نافذ ہوگا،کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں تھا ..... اور ہونا بھی نہیں چاہئے تھا۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ آپ رائے عامہ کی پروا نہیں کرتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ کی دھمکی دیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کانگریس کو عوام اس قابل نہیں سمجھتے ہیں کہ اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپیں تو وہ کیا وہ عقبی دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کی دھمکی دے گی۔ کانگریس  رہنماؤں کے اس بیان سے کسی اور کونہیں بلکہ صرف اور صرف کانگریس کو ہی نقصان پہنچے گا۔ نتائج تو بہرحال دو دن بعد ظاہر ہوںگے لیکن .... یہ طے ہے کہ کانگریس کو جتنی سیٹیں مل سکتی تھیں، اُتنی تو بہرحال نہیں ملیںگی اور اس کیلئے  بقول د گ وجے سنگھ ’راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ہی ذمہ دار ہوںگے‘۔