Saturday 15 December 2012

Musalmano ko reservatiaon-waqt ka aham taqaza

مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا

  1.   مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضا ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی ۲؍اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہ مسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔

  • قطب الدین شاہد

    گزشتہ دنوں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے مسلم ریزرویشن کے موضوع کو ایک بار پھر جھاڑ پونچھ کر ٹھنڈے بستے سے باہر نکالا۔ مسلم ریزرویشن کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کچھ یقین دہانیاں بھی کرائیں لیکن ان کے بیانات سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کی تیاریاں کررہے ہیں۔اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں یہ موضوع خوب گرمایا تھا جب سماجوادی  اور کانگریس  نے نہایت شدومد کے ساتھ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی تھی۔۔۔۔۔ مگر انتخابات ختم ہوتے ہی یہ معاملہ ایک بار پھر سرد بستے میں چلا گیاتھا۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کو اس کی وجہ سے اترپردیش میں حکمرانی کا موقع بھی مل گیا۔  مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضہ ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہمسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل آئیے ایک چھوٹاسا واقعہ ملاحظہ کرتے چلیں۔
    ملّانصرالدین کو ایک بار قاضیٔ شہر کی عدالت میںطلب کیا گیا۔ان پر الزام تھا کہ ایک شخص نے انہیں سردی کے موسم میں عاریتاً کمبل د یاتھا۔موسم گزر جانے کے بعد جب وہ شخص کمبل واپس لینے آیا تو  اس کو پھٹا ہوا کمبل  ملا۔ اس نے شکایت کرنی چاہی مگر ملّا کو نہیں سننا تھا، نہیں سنے۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے۔ مجبوراً اسے قاضیٔ شہر کے پاس جانا پڑا۔ قاضی نے اس الزام پر ملّا کی صفائی چاہی،تو ملا نے اپنی ’بے گناہی‘ ثابت کرنے کیلئے تین باتیں کہیں:
ٓ    اول:میں نے ان سے کوئی کمبل ومبل نہیں لیا تھا۔
    دوم: اور جب کمبل لیا تھا، تو وہ پھٹا ہوا ہی تھا۔
    سوم: اور جب میں نے وہ کمبل انہیں واپس کیا  تھا،تو پوری طرح سے صحیح و سالم تھا۔
    حضور بھلا بتائیے ،  اب اگر وہ کمبل پھٹ جائے میں کیوںکر قصور وار ہوسکتا ہوں؟
    ملا نصرالدین کی یہ باتیں آپ کو بھلے ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہوں،مگر سچ تو یہ ہے کہ مسلم ریزرویشن کے نام پر ہماری مرکزی و ریاستی حکومتیں بھی کچھ اسی طرح کے ’جواز‘ پیش کرتی رہی ہیں اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر ملک کے ’اعلیٰ دماغ‘ سر دُھنتے ہیں۔ ہماری حکومتیںایک پل کچھ کہتی ہیں اور دوسرے پل  نہایت شدومد کے ساتھ اسی کی تردید بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
    آئیے ایک سرسری نظر تاریخی حقائق پر ڈالتے چلیں۔
    جس وقت آزاد ہندوستان کا دستور تشکیل دیا جارہا تھا، پسماندہ طبقات کی وضاحت کا موضوع ایک بار پھرابھرکر سامنے آیا تھا۔قانون ساز کونسل کے ایک رکن نے سردار پٹیل سے سوال کیا تھا کہ کیاپسماندہ طبقات کے زمرے میں اقلیتیں بھی شامل ہیں؟انہوںنے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔ مطلب یہ کہ اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کئے جانے کا وعدہ حکومت نے کیا تھا۔
    مگر اب
    حکومت کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے لئے وہ دستور کی مختلف شقوں کا حوالہ بھی دیتی ہے۔
    لیکن دوسری طرف
    دستور کی دفعہ ۳۴۱؍ اور ۱۹۵۰ ء کے صدارتی حکم نامے کے مطابق طبقۂ دلت میں صرف ہندوؤں، سکھوں اور بدھسٹوں کاشمار ہوتا ہے۔ یعنی دلت کے نام پر  حاصل مراعات سے صرف ہندو، سکھ اور بودھ ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔  یہاںسوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو،سکھ اوربودھ مذہبی گروہ نہیں ہیں۔ ان میں جہاں سکھ اور بودھ اقلیت ہیں، وہیں ہندو اکثریت ہیں۔
    کیا  ملا نصرالدین کی طرح حکومت کے یہ بیانات بھی تضادات سے پُر نہیں ہیں؟ حکومت کہتی ہے کہ :
     اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کیا جائے گا یعنی اقلیتوں(مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر) کو وہ تمام مراعات حاصل ہوں گی، جو دیگر پسماندہ طبقات کو میسر ہیں۔
    لیکن پھر اگلے ہی پل کہتی ہے کہ :
    مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔
    اور پھر اس کے فوراً بعد حکومت کہتی ہے کہ :
    دلت کے نام پر حاصل مراعات سے صرف ہندو ، سکھ اور بودھ مستفید ہوسکیںگے۔
    کیا حکومت کا یہ رویہ مساوات اور یکساں حقوق کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دو طرفہ مسابقت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک وہ اعلیٰ طبقہ جو بارسوخ  ہے اور تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے اور اندھوں کی طرح آپس میں ریوڑیاں تقسیم کرتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جسے ریزرویشن کی سہولت حاصل ہے اور اس کی مدد سے باصلاحیت افراد کو روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس دوطرفہ مقابلہ آرائی میں مسلمان بالکل پس کر رہ گیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بیحد کم ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سول سروسز میں مسلمانوں کا تناسب صرف ۲؍ فیصد کے آس پاس سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے درجے کے سرکاری ملازمتوںمیں یہ تناسب اور بھی کم ہے۔   برعکس اس کے آزادی کے وقت اوراس کے کچھ برسوں بعد تک سرکاری ملازمین میں مسلمانوں کا تناسب ۴۰؍ فیصد کے آس پاس تھا۔
    حالیہ چند برسوں میں حکومت کی ایما پر تشکیل دی گئی ۲؍ اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ثابت ہوچکی  ہے کہ آزادی کے بعد وطن عزیز میں مسلمانوں کی حالت بتدریج روبہ زوال ہے۔  سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت دستاویزی صورت میں ابھر کر سامنے  آئی کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہوکر رہ گئی ہے۔دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کیلئے تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن کی سفارش موجود ہے۔
    اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کیوں ضروری ہے ؟ اس مطالبے کی تین اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ  ریزرویشن  مسلمانوںکا بنیادی حق ہے۔ جب دیگر دو اقلیتوں (سکھ اوربودھ) کو یہ مراعات حاصل ہیں تو مسلمانوں کو کیوں نہیں؟
    دوم یہ کہ ریزرویشن کی سہولت حاصل ہوئے بغیر مسلمان مین اسٹریم میں شامل نہیں ہوسکیںگے۔ وہ دوطرفہ مقابلہ آرائی میں اسی طرح پستے رہیںگے نیزتعلیمی، سیاسی، معاشی اورسماجی سطح پر مزید پسماندہ ہوتے جائیںگے۔
    سوم یہ کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
    مذکورہ تین نکات میں سے ۲؍ پر بالائی سطروں میں مختصر بحث ہوچکی ہے، اب آئیے تیسرے نکتے پر بھی تھوڑی سی گفتگو کرلیںاور دیکھیں کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کئے بغیر ملک کی ترقی کا تصور کیوں کر نہیں کیاجاسکتا؟
    مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت باالفاظ دیگر دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۴ء۱۳؍ فیصد یعنی مجموعی آبادی تقریباً ۱۶؍ کروڑ ہے جبکہ غیرسرکاری رپورٹوں کے مطابق آبادی کا یہ تناسب ۱۸؍ فیصد یعنی ۲۰؍ کروڑ سے متجاوزہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اتنی بڑی آبادی کو ایک سازش کے تحت مین اسٹریم میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تو ملک کی ترقی میں تیز رفتاری بھلا کس طرح آسکے گی؟ذرا سوچئے!وہ طالب علم جو پانچویں تادسویں  اپنے ہم جماعتوںسے برابر کی ٹکر لیتا رہا ہے، بلکہ بسااوقات دو قدم آگے ہی رہا ہے، بارہویں اوراس کے بعد سی ای ٹی، نیٹ اوراس طرح کے دیگر انٹرنس امتحانات میں سہولیات کے فقدان کے سبب اعلیٰ طبقات کے طلبہ سے تھوڑا پیچھے ہوجاتا ہے، اس طرح میرٹ کی انتہاتک نہیں پہنچ پاتا لیکن اپنی محنت کے بل بوتے پرخاطر خواہ اسکورکرنے میں کامیاب رہتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔اسے اُس  وقت انتہائی مایوسی کاسامنا کرنا پڑتا ہے جب ریزرویشن کی سہولت پانے والے اس سے کم مارکس حاصل کرکے   بھی اسے پیچھے کردیتے ہیں اور اس کا منہ چڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہ اس سیٹ پر قابض ہوجاتے ہیں، جس کا وہ خواب دیکھتا رہاہے اورجس کاوہ حقدار بھی ہے۔ ذرا سوچئے ان طلبہ پر آخر کیا گزرتی ہوگی، جو  اِن حالات سے دوچار ہوتے ہیں؟ انجامِ کاراس زمرے میں آنے والے وہ طلبہ جو اپنی صلاحیتوں کااستعمال کرکے ملک کے سنہرے مستقبل کا حصہ بن سکتے تھے،   سازش، تعصب اور غلط پالیسیوں کے سبب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انھیں بھلا  ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے پر کس طرح آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ خدا نخواستہ ایسے میں اگر چند ذہین دماغ ’غلط‘ راستے پر لگ جائیں تو اس کی ذمہ داری  آخر کس کے سر جائے گی؟
    غرض کہ باتیں  توبہت کی جاسکتی ہیںلیکن صرف باتیںکرنے سے مسئلے کاحل تو نہیں نکلے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیلئے حکومت کو آمادہ کیا جائے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اورضروری ہے کہ قانونی سطح پر اس میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ حکومت چاہے تو اس کیلئے راستے نکل سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ اس تعلق سے سنجیدہ ہو اور ایماندارہو۔ کرناٹک اور کیرالا میں جس طرح مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولیت دستیاب ہے، پورے ملک کے مسلمانوں کو بھی ایسی سہولت مل سکتی ہے۔  یہ تمام دشواریاں سیاسی ہیں،قانونی نہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب  مذہب کی بنیاد پرمسلمانوں کو اسکالر شپ مل سکتی ہے تو ریزرویشن کی سہولت کیوں نہیں؟یاد کیجئے  اقلیتوں کے اسکالر شپ پر بھی سنگھ پریوار نے اعتراض کیاتھا اور  اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے اسکالر شپ دیئے جانے کے  حکومت کے فیصلے کو بحال رکھا۔
    مطلب یہ کہ اگر ہمیں ریزرویشن کی سہولت چاہئے تو  متحد و متفق ہوکر حکومت کو اس کیلئے مجبور کرنا ہوگا۔اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے سیاسی سطح پر اس دم خم کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ کام ابھی سے کرنا ہوگا اور اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر ۲۰۱۴ء کے انتخابات سے قبل اس کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو ہم تمام مسلمان متفقہ طور پر حکومت کے خلاف ووٹ دیںگے۔ایک بات اور۔۔۔۔۔۔ یہ ریزرویشن ذات برادری کے نام پر نہیںبلکہ معاشی صورت حال پر کی بنیاد ہونا چاہئے کیونکہ موجودہ سماج میں ذات برادری کا تصور نہیں ہے۔  بصورت دیگر باقی ماندہ مسلمانوں کے ساتھ پھر وہی ہوگا جو ابھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔آمدنی کی ایک معقول حد مقرر کی جائے اور اس سے کم آمدنی والوں کو اس کا حقدار قرار دیاجائے۔یہی مسئلہ کا حل ہے اوراسی میں ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

Saturday 20 October 2012

dictator democracy

جمہوری تاناشاہی

کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کیلئے خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
قطب الدین شاہد

    آگے بڑھنے سے قبل آئیے چند رپورٹس اور بیانات ملاحظہ کریں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ ہمارا ملک کس طرح جمہوریت سے تانا شاہی کی طرف رواں  دواںہے اور وطن عزیز میں عوام کی کتنی فکر کی جاتی ہے؟
     ہندوستان میں وہ لوگ غریب کہلانے کا حق نہیں رکھتے ، جن کی آمدنی شہری علاقوں میں ۲۸؍ روپے اور دیہی علاقوں میں ۲۲؍ روپے یومیہ سے زائد ہو۔
منصوبہ بندی کمیشن کی  ایک رپورٹ
    ملک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے زائد یعنی تقریباً ۵۰؍ کروڑ ہے۔
ایک سروے رپورٹ
    ۷۱؍ لاکھ روپے کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ ایک مرکزی وزیر کیلئے یہ بہت معمولی رقم ہے۔ بلا وجہ ہنگامہ مچا رکھا ہے۔
بینی پرساد ورما(مرکزی وزیر)
    ملک کے اخراجات کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سبسیڈی ختم کرنا ضروری ہے۔پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ (وزیراعظم)
    کیجریوال فرخ آباد آتو جائیںگے مگر کیا وہ یہاںسے جا بھی سکیں گے؟  میں قلم کے کام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں لیکن ضرورت پڑی تو خون سے بھی گریز نہیں کروں گا۔
سلمان خورشید (وزیرقانون)
    کیجریوال کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دو، ایک دن چلاچلا کرخاموش ہوجائے گا۔
ملائم سنگھ یادو (کانگریس کے اتحادی)
    یہاں چند ایسے بیانات نقل کئے گئے ہیں جو گزشتہ ایک ہفتے میں حکومت یا حکومت سے وابستہ شخصیتوں کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ان بیانات سےحکومت کی رعونت پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس نے جموریت کو تاناشاہی کی شکل عطا کردی ہے جہاں اختلاف کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے انتخابی وعدے میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  حکومت تشکیل پانے کے بعد  وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے تمام وزراء کو یہ ’حکم‘ دیا تھا کہ وہ تین مہینوں میں رپورٹ جاری کریں اور بتائیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں؟ اور ان کے کام کرنے کاطریقہ کیا ہوگا؟ اس حکم کے بدولت کانگریس کو مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میںبھی دوبارہ حکمرانی کا موقع مل گیا..... مگر افسوس کہ گزشتہ تین برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی اور نہ وزراء کے  احوال جاری ہوئے۔ا س کے برعکس اس دوران مہنگائی اوریوپی اے کے وزرا ء دونوں بے لگام ہوگئے۔
    یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۲؍ روپے یومیہ کمانے والے کو غریب نہیںسمجھاجاتا یعنی اسے سبسیڈی  کے فائدے سے محروم کردیا جاتاہے، اسی ملک کا ایک وزیریہ کہتا ہے کہ ۷۲۔۷۱؍ لاکھ روپے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک مرکزی وزیرکے شایان شان نہیں ہے۔  بینی پرساد ورما کے اس بیان میں کہیں نہ کہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ مرکزی وزراء چھوٹی موٹی رقمیں نہیں ہڑپتے  بلکہ وہ کروڑوں اور اربوں کے گھوٹالے کرتے ہیں۔   وزیراعظم بلا شبہ ایک نرم دل اور سلجھے ہوئے مزاج کے حامل شخص ہیں لیکن گزشتہ دنوں سبسیڈی ختم کرنے کااعلان کرتے ہوئے انہوں نے جو بیان دیا، اس سے ان کا ایک نیارخ سامنے آیا۔ ایسا محسوس ہواکہ ’ضرورت ‘ پڑی تو وہ سفاک بھی ہوسکتے ہیں۔ قیمتیں بڑھانے اور سبسیڈی ختم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا کہ پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا، کچھ اچھا نہیں لگا۔وہ اسی بات کو کسی اور انداز سے بھی کہہ سکتے تھے لیکن ...... جمہوریت جب تانا شاہی کی جانب گامزن ہو تو اس کے اثرات سے وہ بھلا کب تک محفوظ رہ سکتے تھے؟
    یوپی اے حکومت کی تاناشاہی کا سب سے کریہہ چہرہ اس وقت سامنے آیا جب کیجریوال نے سلمان خورشید کی جانب انگشت نمائی کی۔کیجریوال کتنے سچے ہیںاور کتنے جھوٹے؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں، ہم یہ بھی جانتے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، اس میں ان کی اپنی مرضی شامل ہے یا ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی نیت کیا ہے؟ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں ایک عام آدمی کو سوال کرنے کا حق ہے، جس کا جواب دینا عوامی نمائندوں پر لازم  ہے۔ سلمان خورشید سے اگر کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو انہیں اپنا آپااس طرح  بالکل نہیں کھونا چاہئے تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ میں سڑک پر پڑے ہوئے لوگوں کا جواب نہیں دینا چاہتا، ہندوستانی عوام کی توہین ہے۔  وزیرموصوف کو بہرحال یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہندوستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہی رہتی ہے اور انہیں  عام لوگوں کے ووٹوں کی بدولت کانگریس کو حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ملائم سنگھ جن کے تعلق سے یہ خوش گمانی تھی کہ وہ ’عوام‘ کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ کہنا کہ’ ’وہ چلّا چلّا کر ایک دن خاموش ہوجائے گا‘‘ .... جمہوری قدروں کے منافی اور مطلق العنانیت کی دلیل ہے۔
    دراصل ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ عوام نے واقعی اپنےنمائندوں کااحتساب کرنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح انہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔  ایسے میں اگر کوئی احتساب  کی بات کرتا ہے تو اسے اسی طرح کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں کانگریس کے یہ تیور نہیں تھے۔
    کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کی خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
    تو کیا ہمیں یہ فرمان قبول ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے ووٹوں کی اہمیت کو محسوس کریں۔ ہمیں اور کچھ اختیارات تو حاصل نہیں ہیں لیکن ....... جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں، ان ہاتھوں کو ہم نے ہی مضبوط کیا ہے اور  انہیں صرف ہم ہی کمزور کرسکتے ہیں۔

Saturday 6 October 2012

secular parties and gujrat

گجرات الیکشن سے سیکولر جماعتیں خوفزدہ کیوں ہیں؟

کیا گجرات ہندوستان سے باہر کی کوئی ریاست ہے؟ کیا گجرات کے عوام کی سوچ کچھ مختلف ہے؟ کیاگجرات کےعوامی مسائل ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے الگ ہیں؟  آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر جماعتیں انتخابات سےقبل ہی گجرات میں شکست تسلیم کرلیتی ہیں؟ وہ ڈٹ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا گاندھی نگرسے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے؟....... نہیں ایساقطعی نہیں ہے..... اوراس کے باوجود اگر ایسا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کیلئے سیکولر جماعتیں بالخصوص کانگریس سنجیدہ نہیں ہے..... وہ چاہتی ہی نہیں کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہو....

قطب الدین شاہد

ایک بہت مشہور فلمی ڈائیلاگ ہے ’’جو ڈر گیا، وہ مرگیا‘‘....گجرات انتخابات کے  پس منظر میں اگر سیکولر جماعتوں کی تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔  ظاہر ہے کہ جب ڈری سہمی یہ جماعتیں مقابلے میں جائیں گی، تو شکست سے انہیں کون بچا سکے گا۔ حالانکہ دفاعی پوزیشن میں مودی حکومت کو ہونا چاہئے مگرصاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر بداعمالیوں کے باوجود مرکز کی یوپی اے حکومت پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے سامنے سونیا گاندھی کی قیادت والا مرکزی لاؤ لشکر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ کانگریس کی یہ حالت دیکھ کر ہی شاید بال ٹھاکرے نے یہ بیان دیا ہے کہ ’ گجرات الیکشن میںمودی کے وجے رتھ کو روکنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا‘....
    تو کیا گجرات میں بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے کہ کانگریس یا دیگر سیکولر جماعتیں اس پر قابو نہیں پاسکتیں؟ اسے زیر نہیں کیا جاسکتا؟ اس قلع پر فتح پانا ممکن نہیں ہے؟....... ایسا بالکل نہیں ہے..... اوراگر اس کے باوجود ایسا ہے ... یعنی مودی کو ہٹانا مشکل لگ رہا ہے تو صرف اس لئے کہ کانگریس کی یہی منشاء ہے۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ مودی کی حکومت قائم ود ائم رہے۔اس کیلئے کسی اور سیکولر جماعت پر الزام اس لئے عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گجرات کی حد تک کسی اور جماعت میں وہ دم خم نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو اکھا ڑ پھینکے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کسی جماعت میں مودی سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے تو وہ وہاں انتخابی میدان میں کود کر کانگریس بمعنی سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب کیوں بنتی ہیں؟ ایک دو فیصد ووٹ لے کر یہ جماعتیں مودی کی جیت کا راستہ کیوں ہموار کرتی ہیں؟ ...... تو اس کا بھی جواب یہی ہوگا کہ کانگریس یہی چاہتی ہے۔ 
    دراصل کانگریس یہ سمجھتی ہے کہ مرکز میں اسے باقی رہنے کیلئے گجرات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کا قائم رہنا ضروری ہے۔مودی سے ڈرادھمکا کر کانگریس سیکولر ووٹوں کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ کانگریس یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ جب چوری نہیںہوگی تو چوکیدا ر کی ملازمت کیوںکر بحال رہ سکتی ہے؟ دہشت گردانہ واقعات نہیں ہوںگے تو  بڑی بڑی تفتیشی ایجنسیوں کی ضرورت کیوں کر محسوس کی جائے گی؟
    کانگریس پر یہ الزام بے بنیاد نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو بچائے رکھنا چاہتی ہے، لیکن ..... اس پر ہم گفتگو تھوڑی دیر بعد کریں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گجرات کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اور وہاں کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ کیا وہاں  بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے؟  یا پھر کانگریس اتنی ہی کمزور ہے، جتنی وہ ظاہر کرتی ہے؟
    ۲۰۰۲ء میں گجرات فساد کے بعد مودی حکومت اکثریت میں  آئی تھی۔  اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ مظلومین حالات سے خوف زدہ تھے لہٰذا وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لےسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں رہائش پذیرتھی، یعنی وہ  ووٹ دینے کے قابل نہیں تھے.... اور جو ووٹ دے سکتے تھے، ان کے سامنے مرحوم احسان جعفری کاانجام تھا، جنہیں بچانے کی کانگریس نے کوئی کوشش نہیں کی، اسلئےانہوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کے بجائے گھروں میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ دوم یہ کہ..... مجرمین اور ان کے حامی اپنے تحفظ کی خاطر مودی حکومت کی واپسی چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر پولنگ میں حصہ لیا۔ اس طرح مودی اکثریت سے منتخب ہوکر گجرات کے اقتدار پردوبارہ قابض ہوئے۔ اس الیکشن میں ۶۱ء۵۴؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی جس میں یقیناً مودی کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس الیکشن میں بی جے پی کو ۴۹ء۸۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۱۸۲؍ میں ۱۲۷؍ نشستیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو ۳۹ء۲۸؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵۱؍ نشستوں پراکتفا کرنا پڑاتھا۔
    ۲۰۰۴ء تک آتے آتے حالات تبدیل ہوئے۔ گجرات کا زخم  رِستا ہی رہا، جس کا کرب پورے ملک نے محسوس کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے خلاف پورے ملک میں ایک لہر چل پڑی۔ انڈیا شائننگ پر گجرات فساد کا دھبہ حاوی رہا۔ اورا س طرح بی جے پی کو اس کے گناہوں کی سزا ملی اور وہ مرکز سے بے دخل ہوگئی۔گجرات میں بھی بی جے پی مسترد کی گئی۔ ۲۶؍ پارلیمانی نشستوں میں بی جے پی کو ۱۴؍ اور کانگریس کو ۱۲؍ نشستیں ملیں۔ یعنی دونوں کی کارکردگی تقریباً برابر رہی۔ تقریباً ۹۲؍ اسمبلی نشستوں پر کانگریس بی جے پی سے آگے تھی۔ مطلب صاف تھا کہ تھوڑی سی کوشش میں کانگریس گجرات کا قلعہ فتح کرسکتی تھی۔ یہاں یہ بات واضح تھی کہ وہ تمام لوگ جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ  تھے، مودی کو  واپس لانے  کیلئے جان کی بازی لگانا چاہتے تھے ، مگر کانگریس کے حامیوں  بالخصوص سیکولر رائے دہندگان میں وہ جوش و خروش نہیں تھا کیونکہ یہ بات سب جانتے تھے کہ کانگریس کو ان مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیکولر رائے دہندگان کی یہ بے حسی ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں نظر آئی۔کہاں تو ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں کانگریس ۹۲؍  اسمبلی نشستوں پر بی جے پی سے آگے تھی، کہاں ۲۰۰۷ء میں اسے صرف ۵۹؍سیٹیں ہی مل سکیں۔  بی جے پی کو اس مرتبہ ۱۱۷؍ سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی الیکشن ہوا تو  بی جے پی کو ۱۵؍ اور کانگریس کو ۱۱؍ نشستیں ملیں۔ یہاں بھی زیادہ فرق نہیں تھا.... کانگریس اگرچاہتی توگزشتہ۳؍ برسوں میں سیکولر رائے دہندگان کا اعتماد بحال کرسکتی تھی، مگر افسوس کہ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
    یہ ہیں وہ زمینی حقائق، جو بہت واضح ہیں کہ بی جے پی گجرات میں بہت مضبوط نہیں  تھی اور نہ ہے....  یعنی اسے ناقابل تسخیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اگر اس کے باوجود بی جے پی کی حکومت وہاں قائم و دائم ہے، تو اس کی وجہ سمجھنی ہوگی۔ دراصل کانگریس اسی میں اپنی بھلائی سمجھتی ہے کہ ملک میں موت کا ایک سوداگر ہو، جس کا خوف دلا کر وہ باقی ماندہ ہندوستان کے سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان کو اپنے پالے میں رکھ سکے۔ کانگریس ، بی جے پی کے مقابلے سیکولر طاقتوں کو توڑنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتی ہے۔  ہم سب دیکھتے ہیں کہ مقابلہ اگر بائیں محاذ سے ہو، لالو کی آر جے ڈی سے ہو یاملائم کی سماجوادی سے ہو تو کانگریس کے تیور کیسے ہوتے ہیں اور جب بی جے پی سے ہو تو اس کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ شکست کے بعد کانگریس یہ الزام عائد کرتی ہے کہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے سیکولرووٹوں کو تقسیم کردیا، جس کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں، اس کیلئے کانگریس نے کیا کیا؟ کیا  ان چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی اس کی جانب سے کوئی پہل ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا تھا، تواس کیلئے ایک بڑی کوشش ہونی چاہئے تھی۔ یہ ذمہ داری صرف چھوٹی جماعتوں پر توعائد نہیں ہوتی کہ سیکولر ووٹوں کے اتحاد کا سبب وہی بنیں۔ کانگریس اُن ریاستوں میں اُن جماعتوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی، جہاں وہ بی جے پی سے مقابلہ کرتی ہیں اور کانگریس کی حیثیت ووٹ تقسیم کرنے کی ہوتی ہے۔
    کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بی جے پی اپنے عروج میں سب سے زیادہ  اترپردیش میں مضبوط تھی۔  ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب بی جے پی  ۸۰؍ پارلیمانی نشستوں میں سے تقریباً ۶۰؍ پر قابض ہوگئی تھی۔  اس نے کانگریس کو شکست دے کر وہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہاں بھی کانگریس نے گجرات جیسی ہی پالیسی اپنا رکھی تھی، جس کے نتیجے میں عوام نے ان دونوں کو اکھاڑ پھینکا اور پھر  سماجوادی اور بی ایس پی کی شکل میں تیسری اور چوتھی قوت کو اقتدار تک پہنچایا۔ گجرات میںاگر کانگریس کا یہی رویہ رہا، تو ایک دو انتخابات کے بعد وہاں بھی تیسری اورچوتھی قوت کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ پرست نہیں ہے۔

Saturday 11 August 2012

Har haath men mobile phone

ملک کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے حکومت کا نیا نعرہ
روٹی نہیں، موبائل لو

مرکزی حکومت نے ایک منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت  ۷؍ ہزار کروڑ روپے خرچ کرکے وہ ملک کے غریبوں کو موبائل فون دے گی۔کیا یہ ان غریبوں کے ساتھ بیہودہ مذاق نہیں ہے جو  دو وقت کی روٹی، پینے کے صاف پانی اور بیماری میں دواؤں کیلئے بھی ترستے  ہیں؟

قطب الدین شاہد
 
چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا........ ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہےگا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے، چنئی جا....‘‘۔
    کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت کا  ہے۔ عوام کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’ روٹی کیوں؟ یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں ، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلیٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔ عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتے ہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ، یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیر بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال ۶۲؍ ہزار کے مقابلے امسال ایسے لوگوں کی تعداد ۸۱؍ ہزار ہوگئی ہے، جن کی ملکیت  ۲۵؍ روپوںسے زائد ہے‘‘۔
    ہماری حکومت اعداد و شمار کے بل پرچلتی ہے۔حقیقت کچھ بھی ہو، کاغذ پر ترقی نظر آنی چاہئے۔یہ بیہودہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنےوالوں کو غریب تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے، اسی ملک میں حکومت ۲۰۰؍  روپے مہینے کے ٹاک ٹائم کے ساتھ مفت موبائل فراہم کرنے پر غور کررہی ہے۔ آخرحکومت کو کس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ بھوک سے روتے بلکتے بچے موبائل کے رِنگ ٹون سن کر خاموش ہوجائیں گے  اوراطمینان سے نیند کی آغوش میں چلے جائیںگے۔اس ملک میں جہاں کی ۳۷؍ فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے  زندگی گزارتی ہے یعنی ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی ، اس ملک میں موبائل فون عام کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ موبائل کمپنیوں کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔عوام کی فلاح کے نام پر عوام کے خزانے سے یہ ۷؍ ہزار کروڑ روپے بڑی آسانی سے موبائل کمپنیوں کی جیب میں چلے جائیںگے۔ بالکل اسی طرح جیسے پینے کے پانی کی فراہمی اور بیماریوںسے نجات کیلئے دواؤں کے چھڑکاؤ کے بجائے مقامی و بلدیاتی انتظامیہ فلائی اوور اور فوٹ اوور بریج کے منصوبے بناتی ہیں اور اسےبآسانی منظورکرالیتی ہیں۔ دراصل ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس طرح کے منصوبوں کی تکمیل میں وارے نیارے کرنے کے  مواقع  زیادہ رہتے ہیں۔
      دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ موبائل ’غریبوں‘ کو فراہم کئے جائیں گے..........اُن غریبوں کو جو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ اگرانہیں موبائل مل بھی جائے تو ان کیلئے اسے چارج کرنا مشکل ہوجائے گا۔شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کو پسند کررہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب  رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصد کسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہیں کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ۱۳؍ برسوں میں قرض کے بوجھ تلے دبے تقریباً ڈھائی  لاکھ کسان خود کشی کرچکے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب  ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے۔ حکومت کوفکرہے تو۱۲۳؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ۸۱؍ ہزار افراد کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہاںبدعنوانی کا پرچم اتنا بلند ہے۔ بدعنوانی کے معاملے میں ۱۸۳؍ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۹۵؍ویں پوزیشن پر ہے۔ ملک کے وسائل سے فیضیاب ہونے کے معاملے میں یہاں عدم مساوات بھی کافی ہے۔ ۱۸۷؍ ممالک کی اس فہرست میں ہمارا مقام ۱۳۴؍ واں ہے۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہم تمام ہندوستانیوں کیلئے روٹی ، کپڑا ، مکان، صحت اور تعلیم کاانتظام کرنا چاہتے ہیں یا شرح نمو، سنسیکس ، کرکٹ ریکارڈاور اولمپک میڈل کے سہارے خود کوترقی یافتہ بتانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کرکہ ریاست بہار کی ایک خاتون دو وقت کی روٹی کیلئے اپنے بچے کو ایک غیر اوراجنبی شخص کے ہاتھوں فروخت کر نے پر مجبور ہوتی  ہے، جبکہ اسی ملک میں اولمپک میڈل جیتنے کیلئے ملک کے خزانے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لندن اولمپکس کی تیاری پر حکومت نے ۵۵؍ کروڑ ۲۲؍ لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔ گزشتہ دنوںبی سی سی آئی نے کپل دیو کو ڈیڑھ کروڑ کا چیک دیا اور ماہانہ ۳۵؍ ہزار روپے کی پنشن جاری کی۔
    دراصل یہ سب اسلئے ہے کہ ہم خاموش  ہیں۔ہم اپنی حکومت اور اپنے نمائندوں کا احتساب نہیں کرتے، ہم انہیں یہ باور نہیں کراتے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔یقین جانئے یہ لوٹ کھسوٹ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم اپنی بیداری کا اعلان نہیں کریںگے۔

Saturday 16 June 2012

An open letter to politician

عوامی نمائندوں کے نام ایک شہری کا کھلا خط
 
ملک کے پہلے شہری کے انتخاب میں
 شہریوں کی بھی تو کچھ رائے  لیجئے جناب

مکرم و محترم، معزز عوامی نمائندوں کی خدمت میں حقیر و پُر تقصیر ایک ناچیز شہری کا آداب!
    یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ یعنی عوامی نمائندے، ہم یعنی عوام کی باتوں کو کم ہی خاطر میں لاتے ہیں،ہمارے جذبات و احساسات پر متوجہ ہونے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں.... پھر بھی کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ’شایدکہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات‘.....
     اور کچھ  نہ کہوں تو کیسے؟ خاموشی جہاں ہمارے نزدیک بے ایمانی کی علامت ہے، وہیں طبی نقطہ نظر سے یہ ہاضمے کی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے۔ویسے یہ مسئلہ صرف عوام کا ہے، آپ جیسے خواص کا نہیں، کہ خاموشی  ہی آپ کا خاصّہ ہے۔ آپ تب تک خاموشی میں یقین رکھتے ہیں جب تک کہ آپ کے ذاتی مفاد پر کوئی ضرب نہ پڑے..... اور آپ کے ہاضمے کی تو خیر دنیا قائل ہے.... توپ اور تابوت تک کا پتہ نہیں چلتا۔
    اب جبکہ پرنب مکھرجی کا رائے سینا ہل پہنچنا تقریباً یقینی ہوچکا ہے، کیونکہ تادم  ِ تحریر پی اے سنگما کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار میدان میں نظر نہیں آرہا ہے..... ذرا ۲؍ منٹ کیلئے ٹھہرجائیں، سینے پر ہاتھ رکھیں، ضمیر سویا ہوا ہو، تو  دو چار جھٹکے (تھپکی نہیں) دیں.... اور پھر غورکریں کہ جو کچھ بھی ہوا، یا ہونے جارہا ہے، اس میں عوامی جذبات و احساسات کا کتنا خیال رکھا گیا ہے؟ آپ کے فیصلے کو کتنے فیصد عوام کی تائید حاصل ہے؟  اور یہ کہ جب آپ   دوبارہ ہمارے رو برو آئیںگےتو ہمیں کس طرح  قائل کریںگے؟ یقین جانئے! ان سوالوں پر غور کریں گے تو ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں ہونے کے باوجود بھی پسینے میں نہا جائیںگے اور بے حسی کی عینک لگائے بغیر آپ ہم سے نظریں نہیں ملا سکیںگے۔
    پرنب داد ا کی امیدواری پر ہمیں قطعاًاعتراض نہیں، وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک ہیں، قابل ہیں، باصلاحیت بھی ہیں، مگر جس عہدے کیلئے ان کا انتخاب ہونےجارہا ہے، اس کیلئے ان کے مقابلے دیگر دونوں امیدوار یعنی ڈاکٹر عبدالکلام اور سومناتھ چٹرجی زیادہ موزوں ہیں۔یہ عوام کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ درست بھی ہو، اور آپ خواص کی سوچ و فکر سے میل بھی کھائے..... کیونکہ آپ کی فہم و ادراک اور عوام کے شعور میں زمین و آسمان کا فرق ہے... عوام کنوئیں کے مینڈک ہیں، وہ صرف ملک کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ آپ کی فکر کا دائرہ وسیع ہے، آپ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، اپنی پارٹی کے بارے میں سوچتے ہیں، دور اندیش ہوتے ہیں، نرم گرم سب سمجھتے ہیں اور کبھی کبھار ملک کے بارے میں بھی سوچ لیتے ہیں۔
    برا مت مانئے!  ہم پرنب دادا کی ایمانداری پر شبہ نہیں کررہے ہیں  اور کرنا بھی نہیں چاہئے....لیکن کانگریس کی ’ دادا گیری‘ پر ضرور شبہ ہورہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ کانگریس کے ایک بہترین ناخدا رہے ہیں۔ جب بھی اس کی کشتی منجدھار میں پھنستی ہے تو پرنب دادا  ہی اسے پار لگاتے ہیں، اور وہ وہی کرتے ہیں جو اُن سے توقع کی جاتی ہے۔ ان حالات میں شبہ پیدا ہونا لازمی ہے کہ کہیں اس باوقار عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی ......
    اس کے برعکس سومنا تھ چٹرجی اور ڈاکٹر عبدالکلام اپنی غیر جانب داری سے ہم عوام کا دل جیت چکے ہیں.... شاید اسی لئے وہ آپ کے ناپسندیدہ بھی ہیں۔ آپ بھلا یہ کیونکر چاہیںگے کہ جس عہدے کو ربراسٹامپ کے طور پر آپ نے شہرت بخشی ہو، کوئی اسے بااختیار ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ آپ نے ان دونوں کی ناقدری کرکے عوام کا دل دکھایا ہے۔
    یقین جانئے! آج اگر  صدر کےانتخاب کی ’آزادی‘  ہمیںمل جائے تو آپ کو پتہ چل جائےگا کہ آپ عوام میں کتنے مقبول ہیں؟ لیکن یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ آج نہیں تو کل آپ کو ایک بار پھر ہمارے سامنے آنا    ہے، تب آپ کو ان سوالوںکا جواب دینا ہوگا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ الیکٹورل کالج کا رکن ہوجانے کی وجہ سے آپ کومن مانی کااختیار مل گیا ہے، نہیں جناب! آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے ووٹوں کی قیمت بھی ہماری بدولت ہے۔یعنی جہاں کی جتنی آبادی ہے، وہاں کے عوامی نمائندے کے ووٹ کی  قدراُتنی  ہی ہے۔ ایسے میں کیا آپ کو ہمیں اس طرح نظر انداز کرنا چاہئے۔ 
    کہاں گئے وہ جو کہتے تھے کہ اس مرتبہ اس عہدے پر کوئی سیاست داں نہیں آنا چاہئے، کہاں گئے وہ جونائب صدر کو صدر بنانے کی وکالت کررہے تھے، اور کہاں گئے وہ جو کسی مسلم کو صدر بنانے کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کوبیوقوف بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ پرنب جی تو اس معیار پر کسی طرح پورے نہیں اُترتے۔ پھر ان کی حمایت کیوں؟ کیا اس پر کوئی بحث ہوئی ہے؟ اگر ہوئی ہے تو وہ ہم سے شیئر کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ ہماری بے چینی کو دور کیوں نہیں کیاجارہاہے؟ یا پھر سودے بازی کا معاملہ ہے؟
    جو بھی ہو.... جو ہونا تھا ، ہو چکا! یعنی اب وہی ہوگا جو طے پاچکا ہے،  ضمیر جاگنے یا کسی انقلاب کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی... البتہ اب جو کرنا ہے، وہ  ہمیں یعنی عوام کو کرنا ہے۔ بہرحال ہمیں وہ موقع ملے گا اور جلد ہی ملے گا، بالکل اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ملا تھا۔ یاد ہے نا! کچھ لوگ کہتے تھے کہ بنے گی تو ہماری حکومت، ورنہ صدر راج ہوگا..... پھر کیا ہوا، وہ ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی۔

احقر       
قطب الدین شاہد

Monday 21 May 2012

The three years of UPA IInd Govt.

 یوپی اے  حکومت کی دوسری میقات کے تین سال
عروج سے زوال کی داستان

یکے بعد دیگرے کئی گھوٹالوں نے گزشتہ تین برسوں میں یوپی اے حکومت کی شبیہ بری طرح خراب کی ہے۔  بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے...... مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔

قطب الدین شاہد

یوپی اے حکومت آئندہ دو دنوں میں اپنی  دوسری میقات کے تین سال مکمل کرلے گی۔ ۲۲؍مئی ۲۰۰۹ء کو وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ حلف لیا تھا۔ اس حلف برداری کے ساتھ ہی انہوں نے ایک تاریخ مرتب کی تھی۔ وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ایسے دوسرے وزیراعظم بن چکے تھے ، جو ۵؍ سال کی میعاد مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدے پر پہنچے ہوں۔اسی کے ساتھ اور بھی کئی ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن.....اس کے بعد اس پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا......  دراصل یہیں سے ان کااوران کی حکومت کا زوال  شروع ہوتا ہے۔
    وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اپنی شبیہ اس دوران کتنی خراب ہوچکی ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء کی انتخابی مہم میں جب بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے انہیں کمزور وزیراعظم کہہ دیا تھا تو خواص کے ساتھ عوام نے بھی ناراضگی کااظہار کیا تھا۔لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری تھی کہ شریف النفس قسم کے وزیراعظم کو کمزور کہا جائے...لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی سوچ میںخاصی تبدیلی آئی ہے۔ شرافت کا بھرم تو ہنوز قائم ہے لیکن اس دوران مضبوط وزیراعظم کا تصور پاش پاش ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی اس کمزوری کی تشہیر اپوزیشن سے تعلق رکھنےوالی جماعتیں اور اراکین ہی نہیں بلکہ خودکانگریسی بھی کرتے پھر رہے ہیں۔
    اس تعلق سے ایک لطیفہ سن لیجئے۔کہاجاتا ہے کہ ایک شاہراہ پر ایک شخص زور زور سے چلارہا تھا کہ’ ’وزیراعظم نکمّا ہے..... وزیراعظم نکما ہے....‘‘ اُدھر سے ایک وزیر کا گزر ہوا، اس نے اس شخص کو گرفتار کروادیا، کہا: تم وزیراعظم کو نکماکہتے ہو۔ اس نے کہا : حضور ہم اپنے نہیں برطانوی وزیراعظم کو نکما کہہ رہے ہیں۔ وزیرنے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، کیا میں نہیں جانتا ہوں کہ کون وزیراعظم نکما ہے۔‘‘ یہ بہرحال ایک تخلیقی لطیفہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے اپنے کابینی رفقا ہی ان کی ناکامی کی تشہیر بنے ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں اس کی ایک  مثال  اُس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب دگ وجے سنگھ اور پی چدمبرم بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے پر لن ترانی کررہے تھے ۔اس معاملے پر وزیراعظم کی خاموشی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ ان کا بس اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں ہے۔ 
    یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں بھی سرخاب کے پر نہیں لگے تھے، لیکن حال  اتنا برا بھی نہیں تھا جتنا اَب ہے۔کچھ کوششیں بہرحال اچھی تھیں،جس کی وجہ سے ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں کانگریس کو ۲۰۰۴ء کے مقابلے ۶۱؍ نشستیں زائد مل گئی تھیں۔   کانگریس نے اسے اپنی کارکردگی کاانعام سمجھا اور پھر یہیں سے کانگریس میں خود سری  بھی آنی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے نہ صرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں شروع کردیں بلکہ اس کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب حکومت نے عوام اوران کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔
    بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔
    بڑے بزرگوں نے بالکل درست ہی کہا ہے کہ کسی غافل کو بیدار کرنا آسان ہے لیکن اس شخص کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے جو بیدار ہے مگر غفلت کا مظاہر ہ کررہا ہے۔  یہ بات موجودہ یو پی اے حکومت پرصادق آتی ہے۔ اسے ملک کی بدقسمی سے ہی تعبیر کریںگے کہ اس وقت وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی، وزیرداخلہ پی چدمبرم، وزیر شہری ترقیات جے رام رمیش، منصوبہ بندی کمیشن کے چیئر مین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ اور وزیراعظم کے معاشی مشاورتی کونسل کے چیئر مین سی رنگ راجن   جیسے ماہر ین معاشیات ملک کو کنٹرول کررہے ہیں اور ملک کی حالت یہ ہے کہ ایک تہائی سے زائد آبادی بھوکی اور ننگی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک بیماری کا احساس نہیں ہوگا، اس کے علاج کی کوششیں نہیں ہوںگی اور جب علاج نہیں ہوگا تو شفا کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
    یہ تو ہے یوپی اے کی کارکردگی کا مجموعی تاثر۔ اگر ایک مسلم کی حیثیت سے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مزیدمایوسی کااحساس ہوتا ہے۔یوپی اے نے سچر کمیٹی کی رپورٹ تو طشت از بام کردی .. اور پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کی اوقات بتادی کہ ان کی حالت دلتوںسے بھی بدتر ہے لیکن ..... اس کیلئے بہتری کی کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وقت بہت جلد آئے گا، جب ہندوستانی شہریوں کو  یو پی اے حکومت کا گریبان پکڑ کر یہ پوچھنے کا موقع ملے گا کہ اقتدار پانے کے بعد تم نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اوراب ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں؟

Saturday 12 May 2012

President election 2

صدر جمہوریہ کے انتخاب  میں
اتنی خاموشی کیوں، اتنی رازداری کیوں؟

  ۱۲۱؍کروڑ کی آبادی والے ہندوستان کیلئے آئندہ ماہ ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جانا ہے مگر ہم  ہندوستانیوں کو  ہنوزیہ بھی پتہ نہیں کہ اس باوقار عہدے کیلئے  امیدوارکون کون ہیں؟  سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں غیرمعمولی رازداری برتی جارہی ہے۔بلاشبہ اس عہدے کیلئے عوام کو براہ راست ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہے لیکن ان خواص کو جنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ وہ کتنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔  ان حالات میں اس عمل سے عوام کو بالکل بے خبر رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ او ر اگر پھر بھی بے خبررکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنے نمائندوں سے جواب طلب کریں۔ 

قطب الدین شاہد

    ۲۴؍ جولائی کو ملک کی ۱۲؍ ویں صدرجمہوریہ پرتیبھا تائی پاٹل کے عہدے کی میعاد ختم ہورہی ہے۔اس سے قبل نئے صدر کا انتخاب ہوجانا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ جون کے آخری یا جولائی کے پہلے ہفتے تک اس باوقار اور آئینی عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت کاانتخاب کرلیا جائے گا....
    یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ یعنی وقت رہتے صدرکاانتخاب کرلیا جائے گا، کسی قسم کا کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا لیکن.... اس معاملے میںجس طرح کی پیش رفت ہے، کیا مناسب ہے؟  ایک ماہ کا قلیل عرصہ باقی بچا ہے لیکن ابھی تک ہم ہندوستانیوں کے سامنے مطلع صاف نہیں ہے کہ اس عہدہ ٔجلیلہ پر کون فائز ہوگا؟ ہندوستان کی دو بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی  اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے گریز کررہی ہیں۔ چھوٹی جماعتیں بھی کانا پھوسی سے کام چلارہی ہیں۔ کوئی کھل کر نہیں کہہ رہا ہے کہ ان کی جانب سے اس عہدے کیلئے کون امیدوار ہے اور وہ کیوں ہے؟ اس پر بحث کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا گیا ہے۔کھلے عام اس موضوع پر گفتگو کو گناہ تصور کرلیا گیا ہے۔ تحریک تو چل رہی ہے اور بہت زور شور سے چل رہی ہے لیکن نہایت خاموشی سے.... رازداری کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ شطرنج کی بساط بچھادی گئی ہے، چالیں چلی جارہی ہیں،سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہورہی ہیں،شہ اور مات کا کھیل  جاری ہے مگر عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگ پارہی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اُتنی ہی باتیں ’لیک‘ ہوتی ہیں، جتنی کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔اس پورے عمل میں عوام کو کہیں سے شریک کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ کیا یہ عوام کے ساتھ فریب نہیں ہے؟
     بلاشبہ ملک کے پہلے شہری کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اس عہدے کاانتخاب بالراست عوام ہی کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ووٹ دینے والے عوامی نمائندگان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پرطے ہوتی ہے کہ وہ کتنے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ اس پورے عمل میں عوام کو شریک کیا جائے، ان سے مشورے طلب کیے جائیں، ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائےاور اس کی بنیاد پر ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جائے؟ مگر افسوس کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب سے عوام کو کوسوں دور رکھاجاتا ہے، ان سے رائے مشورہ طلب کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، ان کی پسند نا پسند کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ وقت رہتے کسی امیدوار  کے نام کااعلان اسی لئے نہیں کیا جاتا کہ کہیںانہیںعوام کی ناراضگی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔اندر ہی اندر کھچڑی پکائی جاتی ہے اور پھر ایک دن  ۱۲۱؍ کروڑ ہندوستانیوںکو بتادیا جاتا ہے کہ یہ ہیں تمہارے نئے صدر، ان کااحترام کرو، ان کی تکریم کرو۔ کیا سیاسی جماعتوں کا یہ عمل جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟کیا یہ ہم عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟ کیا اس پر ہمیں سیاسی جماعتوںسے جواب طلب کرنے کا حق نہیں ہے؟
      دراصل  وطن عزیز میں اس عہدۂ صدارت کو نمائشی عہدہ بناکررکھ دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس اہم اور آئینی عہدے پر کوئی ایسا شخص آ جائے جو انہیں اس بات کا احساس دلانے لگے کہ وہ ۱۲۱؍کروڑ ہندوستانیوں کا نمائندہ ہے، ملک کی افواج کا کمانڈر ہے ، مخصوص حالات میں کسی بھی حکومت کو برخاست کرنےاور کسی نئی حکومت کو حلف دلانے کااختیار رکھتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اس عہدے پر کوئی ایسا شخص ہی بیٹھے جو اُن کے حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کرے، اپوزیشن کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے، جہاں تک ممکن ہو آنکھیں بند رکھے اور ضرورت پڑے تو ان کا دفاع بھی کرے۔
     ہونا تو یہ چاہئے کہ وقت رہتے سیاسی جماعتیں اس عہدے کیلئے  اپنے  اپنےامیدواروں کا اعلان کردیں اور یہ بتائیں بھی ....کہ انہوں نے کن بنیادوںپر یہ فیصلہ کیا ہے، تاکہ عوام میں اس پر بحث ہوسکے اور ملک کو ایک بہتر صدر مل سکے، لیکن .... کیا ہماری سیاسی جماعتیں ایسا کریںگی؟

Saturday 5 May 2012

President election

صدر جمہوریہ کے انتخاب کا معاملہ
اتفاق رائےکے شوشے کے ساتھ ہی سیاسی
جوڑ توڑ بھی جاری

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے اس مرتبہ عجیب و غریب کوششیں ہورہی ہیں۔ان کوششوں کو سیاسی جماعتوں نے  ’اتفاق رائے‘ کا نام دے رکھا ہے۔بلا شبہ اتفاق رائے کی اپنی اہمیت ہے اور اس میں  برکت بھی ہے ، مگرا س کے لئے اخلاص شرط ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے ہونے والی کوششوں میں اخلاص کم، سیاسی سودے بازی زیادہ نظر آرہی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار کی اہلیت و قابلیت  پر کسی جماعت کا اصرار نہیں ہے بلکہ سبھی کی کوشش یہی ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے پر بیٹھنے والی شخصیت ان کی پسندیدہ ہو، باالفاظ دیگر اُن کی سننے والی ہو...... کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟

قطب الدین شاہد

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کی آوازیں آرہی ہیں۔ عام حالات میں کانگریس جو اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتی، اتفاق رائے کا راگ الاپ رہی ہے، اوراس کیلئے اس نےاپوزیشن کی جماعتوںسے بھی گفتگو کرنے کاعندیہ ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی جسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، صدر کے امیدوار کے طور پر ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی حمایت کااعلان کیا ہے۔ بایاں محاذ جس نے اس سے قبل بطور صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے اس عہدے کیلئے کسی سیاسی شخصیت کی وکالت کی تھی، اس مرتبہ کسی غیر سیاسی شخص کو صدر بنانے کی تحریک چلا رہا ہے۔ ممتا بنرجی،کروناندھی، مایاوتی اور ملائم سنگھ بھی ’اتفاق رائے‘کی بات کررہے ہیں لیکن سیاسی حلقوں سے جس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں، اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ جماعتیں اتفاق رائے کے نام پر سیاسی سودے بازی کررہی ہیں۔ کانگریس کے امیدوار کی حمایت کی قیمت  پر ممتا بنرجی بنگال کےلئے اقتصادی پیکیج لینا چاہتی ہیں تو کرونا ندھی مختلف الزامات میں گھرے اپنے اعزہ کیلئے سیاسی پشت پناہی اور مایاوتی تاج کاریڈور معاملے میںاپنے لئے  راحت کی متمنی ہیں جبکہ ملائم سنگھ کے تعلق سے کہاجارہا ہے کہ وہ نائب صدر کا عہدہ اپنے بھائی کو دینا چاہتےہیں۔مطلب صاف ہے کہ یہ تمام جماعتیں کسی اصول اور کسی پیمانے کی بنیاد پر صدر کا انتخاب نہیں کررہی ہیں بلکہ ان تمام کا واحد اصول یہی ہے کہ اس عہدے پر  براجمان کوئی بھی ہو، فائدہ ان کا  ہونا چاہئے۔
      اب تک اس عہدے کیلئے کئی نام سامنے آچکے ہیں، جس میں حامد انصاری اور پرنب مکھرجی کا نام سرفہرست ہے۔   دراصل کانگریس کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آئندہ  ہونے والے عام انتخابات میں اُسے اتنی نشستیں نہیں مل سکیںگی کہ وہ آسانی سے حکومت سازی کا دعویٰ کرسکے۔ اس صورت  میں صدر کا رول کافی اہم ہوگا۔ وہ قطعی نہیں چاہے گی کہ اس عہدے پرکسی ایسی شخصیت کاانتخاب ہو، جو کانگریس کو ’اہمیت‘ نہ دے... .... یا یہ کہ کانگریس کو ’فوقیت‘ نہ دے۔ یہی خدشہ بی جے پی کو بھی ستارہا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں بلکہ دونوں اتحادوں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا صدر منتخب کرسکیں۔ ان حالات میںبی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ امیدوار  اگر اس کا پسندیدہ نہیں تو کم از کم   اس کا ناپسندیدہ بھی نہ ہو۔ اس کیلئے وہ بادل نخواستہ ہی سہی تیسرے محاذ کے کسی امیدوار کی حمایت پر راضی ہوجائے گی۔   ان حالات میں کانگریس کی کوشش یہی ہے کہ ’کچھ بھی کرکے‘ وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔  اطلاعات کے مطابق پرنب مکھر جی  کے نام پر  بایاں محاذ کے ساتھ ممتا، کرونا ندھی اورمایا وتی بھی تیار ہوسکتی ہیں اور کچھ ’جواز‘ پیدا کرکے ملائم سنگھ بھی حامی بھر سکتے ہیں۔ ملائم سنگھ کے سامنے مسئلہ صرف ایک ہے کہ ان کی جانب سے براہ راست نہ سہی مگر بالراست یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہ اس عہدے پرکسی مسلم کو بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایسی کوئی بات نہیں کہ اس کیلئے وہ کوئی ’جواز‘ نہ پید ا کرسکیں۔ یہ تصویر حالانکہ کچھ دنوں میں واضح ہوجائے گی لیکن سیاسی جماعتوں کی اب تک جو ’کسرت‘ چل رہی ہے، اس سے بہرحال یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے کیلئے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ رہی ہے۔ویسے موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوںسے اس طرح کی کوئی امیدکی بھی نہیں جانی چاہئے۔ یہاں جب ایک سرپنچ کے عہدے کیلئے  سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرگزرنے کی کوشش کرڈالتی ہیں، تو پھر یہ تو وطن عزیز کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔
    دیکھاجائے تو اس عہدے کیلئے کوئی ایسی ہی شخصیت ہونی چاہئے جو سیاسی جماعتوں کے دھونس میں نہ آئے، سب کے ساتھ انصاف کرے اور  ضرورت آن پڑے تو آئین کی حفاظت کرتے ہوئے حکومت کو من مانی کرنے سے روک  سکے۔  یہ عہدہ ابھی تک کسی بھی ایسی شخصیت کا انتظار کررہا ہے۔ بلاشبہ راجندر پرساد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، کے آر نارائنن اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے صدور گزرے ہیں جنہوں نے وقتِ ضرورت اپنی اہلیت ثابت کی ہے لیکن...... یہاں ٹی این سیشن اور جسٹس احمدی جیسا کوئی کردار چاہئے جو عوام و خواص کی اس غلط فہمی کود ور کرسکے کہ یہ عہدہ نمائشی نہیں بلکہ آئینی اور بااختیار ہے۔ ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی این سیشن سے قبل الیکشن کمیشن کے عہدے کو اور جسٹس احمد ی سے قبل چیف جسٹس کی اہمیت کو بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ 
    یہ بات درست ہے کہ بیشتر معاملات میں صدر کابینی فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب صدر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کئی معاملات میں وہ خصوصی اختیار رکھتا ہے اور اس کے اطلاق کیلئے وہ وزیراعظم یا اس کی کابینہ کے مشورے کا محتاج نہیںہوتا۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس عہدے کو کوئی ایسا شخص رونق بخشے جو اِن اختیارات  کے مناسب استعمال  سے واقف ہو۔
     اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر عبدالکلام ایک موزوں امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت پوری دنیا کے سامنے ہے، ان کی سوچ ، فکر اور ان کی سادگی کی دنیا قائل ہے۔ وہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار دیئے جاسکتے ہیں  اور اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ گزشتہ میقات میں انہوں نے اسے ثابت بھی کیا تھا۔  ہم سب کو یاد ہے کہ ملائم سنگھ کی سفارش پر بی جے پی نے انہیں نامزد کیا تھا اور اس کے بدلے بھیروں سنگھ شیخاوت کو نائب صدر کی کرسی دلائی تھی، لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے بی جے پی کو خاطر میں نہیں لایا۔ ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۲ء کوجب ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا، گجرات میں خونیں فساد جاری تھا ، جو۵؍ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔  ڈاکٹر عبدالکلام نے اس موضوع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ یہ وزیراعظم کااختیار ہے کہ وہ جوائنٹ  سیشن بلائے یا نہ بلائے، لہٰذا واجپئی نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد صدر نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے گجرات دورے کا اعلان کردیا۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ۱۲؍ اگست ۲۰۰۲ء کے اس دورے کے بعد ہی گجرات میں فساد پر ’قابو‘ پایا گیا تھا۔ اس دورےسے بی جے پی  نے کافی پیچ و تاب کھایا تھا لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتی تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی وہ کلام کو صدر بنانا چاہتی ہے تو صرف اسلئے کہ اس عہدے پر کوئی کانگریس حامی شخص نہ متمکن ہو جائے ۔
    ضروری نہیں کہ اس عہدے پر کوئی مسلم ہی فائز ہو جیسا کہ سماجوادی پارٹی نے اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے جاتی ہیں لیکن کم از کم ملائم سنگھ کو تو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ کھلونوںسے مسلمانوں کو بہلایا نہیں جاسکتا ۔ مسلم رائے دہندگان اب کافی باشعور ہوگئے ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر ، نائب صدر اور اسپیکر جیسے عہدوں سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے بلکہ انہیں عزت کی دو روٹی کیلئے مناسب ملازمتیں چاہئیں۔ ان حالات پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے کہ وطن عزیز میں کسی مسلم کو صدر بنانا آسان ہے لیکن کسی مسلم کو چپراسی کی ملازمت دلانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں کم از کم اس طرح مسلمانوں کااستحصال نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ سماجوادی پارٹی اگر واقعی مسلمانوں کا بھلاچاہتی ہے تواسے چاہئے کہ صدر کے عہدے پرکسی بھی  مناسب مسلم یا غیرمسلم  امیدوار کی حمایت کردے اور اس کے بدلے میں یوپی اے حکومت سے مسلمانوں کیلئے کوئی پیکیج طلب کرلے ، جس طرح ممتا بنرجی بنگال کیلئے کوشاں ہیں۔
    یہ بات اس لئے بھی کہی جارہی ہے کہ موجودہ الیکٹورل کالج کے لحاظ سے سماجوادی پارٹی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ صدر کے انتخاب میں جسے چاہے کامیاب کروادے۔ کانگریس اور بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ اسی کے پاس ہیں۔فی الحال اس کے پاس دونوں ایوانوں میں ۳۰؍اراکین پارلیمان اور ۲۲۴؍ اراکین اسمبلی ہیں۔  اس طرح اس کے پاس۲۳؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار ۲۳۵؍ ووٹوں میں ایک لاکھ ۵۷؍ ہزار ۱۷۰؍ یعنی ۶ء۵۶؍فیصد ووٹ ہیں۔اب دیکھنا  ہے کہ ملائم سنگھ کس طرح اس موقع  سےمسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟

الیکٹورل کالج کیا ہے؟
    صدر کے انتخاب کیلئے دونوں ایوانوں کے اراکین پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے منتخب نمائندے ووٹ دیتے ہیں۔ ان کےووٹوں کی قیمت مختلف ہے، جیسے اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت جہاں ۴۹۵؍ ہے وہیںسکم اور اروناچل پردیش کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت بالترتیب ۱۹؍ اور ۲۳؍ ہے۔ ان کے ووٹوں کی قیمت کا تعین ریاست کی آبادی سے کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی ریاست کی مجموعی آبادی  کو اراکین اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیاجاتا ہے اور پھر اسے ایک ہزا ر سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح تمام ریاستوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد کو اراکین پارلیمان کی تعداد سے تقسیم کرکے ان کے ووٹوں کا تعین کیا جاتا ہے۔  اس وقت ایک ایم پی کے ووٹ کی قیمت ۱۵۴۳؍ ہے۔  دیگرریاستوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت کچھ اس طرح ہے۔ بہار (۴۲۷)،مہاراشٹر (۳۹۰)، راجستھان (۳۴۳)، گجرات (۳۳۲)، مدھیہ پردیش (۳۱۶)، مغربی بنگال (۳۱۱)، تمل ناڈو (۳۰۸)، آندھرا پردیش (۲۸۸)، اڑیسہ (۲۸۵)، چھتیس گڑھ (۲۸۴)، ہریانہ (۲۸۲) اور کرناٹک (۲۷۳)... وغیرہ     (بشکریہ : وکی پیڈیا
)

Saturday 14 April 2012

shikast ke baad siyasi jamaton ki khud ehtesabi

انتخابات میں شکست کے بعد سیاسی جماعتوں کی خود احتسابی

دل بہلانے کا سامان یا عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک اور کوشش

انتخابات بلدیاتی نوعیت کے ہوں یا ریاستی،یا پھر قومی، اکثر دیکھاگیا ہے کہ نتائج ظاہر ہونے کے بعد جہاں فتح یاب ہونے والی جماعت عوام کا شکریہ ادا کرتی ہے اور ان کی امیدوں پر کھرا اُترنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کرتی ہے، وہیں شکست خوردہ ٹیم اپنا احتساب کرنےاور شکست کی وجوہات تلاش کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ اچھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں خلوص ہو۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاںاس کے ذریعہ محض ایک رسم ادا کرتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہو.......یعنی ان کے رویے میں اخلاص شامل ہوجائے تو جہاںجیتنے والی جماعت کو دوبارہ شکست دینا مشکل ہوجائے گا، وہیں شکست خوردہ جماعت کی اقتدار میں واپسی کا راستہ بالکل آسان ہوجائے گا۔  بہار میں نتیش کمار کی اقتدار بحالی اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی اقتدار میں واپسی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

قطب الدین شاہد

اترپردیش اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد گزشتہ دنوں کانگریس نے ایک جائزہ میٹنگ طلب کی تھی۔ اصولاً یہ احتسابی میٹنگ لکھنؤ میں منعقد کی جانی تھی لیکن راہل گاندھی کی ایماء پر اس کاانعقاد دہلی میں ہوا۔ اسی طرح بی جے پی نے بھی اپنی شکست کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے ایک میٹنگ طلب کی تھی۔دونوں جماعتوں کی احتسابی اور جائزہ میٹنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں وقت نہیں لگے گا کہ اس کی حیثیت محض ایک رسمی میٹنگ کی تھی، ورنہ کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں نے بھی شکست کے حقیقی اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی ۔باتیں خوب لمبی چوڑی ہوئیں اور بہت ساری وجوہات بھی تلاش کی گئیں لیکن جو مسائل اصل تھے، ان ہی سے چشم پوشی کی گئی۔ ’گرد چہرے پر جمی تھی، آئینہ دھوتے رہے ‘ کے مصداق ان کی پوری مشق اپنے چہرے کو چھپائے رکھنے اور آئینے پر الزام تراشی میں لگی تھی۔ سرسری طور پر دیکھیں توبات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخرکیا سبب ہے کہ شکست کی جن وجوہات سے ہر خاص و عام واقف ہوتا ہے،  سیاسی جماعتوں کے یہ جغادری، ان سے ناواقف ہوتے ہیں، اور پھرد ور کی کوڑی لاتے ہوئے چند غیر اہم اسباب تلاش کرلئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس پر غور کیا جائےتو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اصل وجوہات کوسمجھنے اور سمجھانے کے بجائے فروعات میں الجھنے اور  الجھانے میں ہی یقین رکھتی ہیں۔  یہ عوام کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے ، اپنی پسند اُن پر تھوپنا چاہتی ہیں، اس لئے سامنے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نئے مسائل کی شناخت کرتی ہیں اور اس طرح شکست کے بعد بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
      تنگی ٔ داماں کے پیش نظرہم  یہاںصرف کانگریس کی احتسابی میٹنگ پرگفتگو کریں گے۔ مذکورہ اجلاس میںکانگریس نے ’آتم چنتن‘ کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کو بنیادی وجہ قرار دیا نیز اسے مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یعنی اگر اترپردیش میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا تو وہ شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میںکانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط تھا جو  اُس وقت اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا؟ اور اگرمضبوط تھا تو اب کمزور کیوں ہوگیا؟  اصل بات تو یہ ہے کہ شکست کی یہ بنیادی  وجہ ہے ہی نہیں ۔ اگر تنظیمی ڈھانچے میں مضبوطی ہی  اقتدار میں آنے کا پیمانہ ہوتی تو کوئی بھی سیاسی جماعت شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔بلاشبہ کسی بھی سیاسی جماعت کی بہتر کارکردگی کیلئےاس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ راہل گاندھی گزشتہ ۵؍ برسوں سے آخر اسی مشن پر تو لگے تھے، پھر انہوں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟   ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے جواب دَہی طے کرنے کی بات بھی کہی لیکن اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی کہ یہ جواب دہی کس طرح کی ہوگی؟
     جواب دہی طے کرنے کا مطلب ہوگا کہ شکست کی ذمہ داری کسی کے سر ڈالی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے ؟ ریتا بہوگنا جوشی پر جو یوپی کانگریس کی صدر ہیں، دِگ وجے سنگھ پر جو یوپی انتخابات کے انچارج تھے یا پھرخود راہل گاندھی پر جنہوں نے پوری انتخابی مہم اپنے کندھوں پر سنبھال رکھی تھی اور بلاشبہ جیت کی صورت میں اس کی مکمل کریڈٹ لینے کے حقدار ہوتے، سلمان خورشید، سری پرکاش جیسوال اور بینی پرساد ورما پر، جو مرکزی وزیرہیں اور جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اہم کردار نبھایا تھا، پی چدمبرم پر جنہوں نے بٹلہ ہاؤس معاملے میں دگ وجے سنگھ کو جھٹلانے میں نہایت سرعت کا مظاہر ہ کیا  تھا، کانگریس صدر سونیا گاندھی پر یا پھر وزیراعظم منموہن سنگھ پر ، جن کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے  رائے دہندگان اُن سے دور رہے؟
    ہمیں اندازہ ہے کہ جواب دہی کی بات میٹنگ میں ضرور آئی ہوگی مگر سرسری طور پر، یعنی ان تمام ناموں کا تذکرہ وہاں قطعی نہیں ہوا ہوگا..... کیونکہ اگر ان ناموں پرتذکرہ ہوتا تو حقیقی مسائل خود بخود  سامنے آجاتے۔  یہ بات ہم ، آپ اور سب جانتے ہیںکہ کانگریس کی شکست میں ان تمام ناموں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ریتا بہوگنا جوشی، مایاوتی بننے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول بیٹھی تھیں۔ان میں عوام کو متاثر کرنے جیسی کوئی بات نظر ہی نہیں آئی۔ دگ وجے سنگھ صرف بیان بازی میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ میڈیا میں سنگھ پریوار پر خوب نشانہ لگاتے ہیں لیکن پارٹی کے اندر خاموش رہتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس معاملے میں یہ بھرم پوری طرح کھل گیا۔ راہل گاندھی نے انتخابی دنوں میں اینگری ینگ مین کا کردار نبھایا، جسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ عوامی نمائندگی کم ،فلموں کی ریہرسل  زیادہ کررہے ہیں۔ دریںاثنا بینی پرساد ورما، سلمان خورشید اورسری پرکاش جیسوال جیسے سنجیدہ قرار دیئے جارہے لیڈروں کی غیر سنجیدگی بھی کھل کرسامنے آئی، وہ خواہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات ہو یا صدر راج کی دھمکی کا معاملہ رہا ہو۔ اسی طرح مہنگائی اور مرکزی حکومت کی دیگر عوام مخالف پالیسیوں نے بھی اقتدار تک پہنچنے سے کانگریس کا راستہ روکا........ لیکن ہمیں اندازہ ہی نہیں بلکہ پورایقین ہے کہ مذکورہ احتسابی میٹنگ میں ان سب  باتوںکا  تذکرہ بالکل بھی نہیں ہوا ہوگا۔ 
     دراصل شکست کے بعد آئینہ دیکھنے کی طاقت صرف کانگریس ہی کیا، کسی بھی برسرِ اقتدار جماعت میں نہیں ہواکرتی۔ آئینہ دیکھنے کا مطلب ہوگا، اپنی غلطیوں کااعتراف، اور اپنی غلطیوں کے اعتراف کا مطلب ہوگا ، آئندہ اس کی تصحیح...... کیا ہم کانگریس جیسی ڈھیٹ جماعت سے اس کی توقع کرسکتے ہیں، جو مودی اور شیوراج سنگھ چوہان جیسوں کو گوارا کرسکتی ہے لیکن  ملائم سنگھ، مایا وتی، نتیش کمار، لالو پرساد،   پرکاش سنگھ بادل، بدھادیب بھٹاچاریہ اور محبوبہ مفتی جیسوں کو نہیں کیوں کہ یہ سب علاقائی جماعتوں کے لیڈر ہیں اور بی جے پی کی طرح کانگریس بھی چاہتی ہے کہ ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام قائم ہو۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی تھیں، ورنہ فی الحال ہمارا موضوع اترپردیش کی شکست کے پس منظر میں کانگریس کا محاسبہ ہے۔
     اترپردیش میں کانگریس کی شکست کی بنیادی وجہ  یوپی کے تئیں  کانگریس کارویہ اور مرکزی حکومت کی مجموعی ناقص کارکردگی رہی ہے۔ کانگریس اگر حقیقی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتی تو اسے اندازہ ہوتا کہ یوپی کے عوام، روزگار،  خود داری اور سیکوریٹی چاہتے ہیں۔ روز گار کی تلاش میں ممبئی آنے والوں کے ساتھ ایم این ایس کی ہنگامہ آرائی اور اس پر مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومت کی مجرمانہ خاموش رہی،  اسی طرح بٹلہ ہاؤس معاملے پر کانگریس کی مرکزی و ریاستی حکومتوں  کے اعتماد شکن رویے سے یوپی کے مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں کافی غم و غصہ پایا جارہاتھا۔ انتخابی مہم کے دوران حالانکہ کانگریس نےاس کا وعدہ کیا تھا، لیکن چونکہ اسی طرح کاوعدہ سماجوادی پارٹی نے بھی کیا تھا، لہٰذا رائے دہندگان نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا۔ کانگریس اگر تجزیہ کرنے بیٹھی تھی، تو ا سے اس پر غور کرناچاہئے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ اس کا تجزیہ کرتی تو  ضرورکسی نتیجے پرپہنچ پاتی۔

Saturday 7 April 2012

mustahkam nahi jawab dah sarkar ki zaroorat

حکمراں جماعتوں کی نکیل چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں رہنا ملک کیلئے زیادہ سود مند ہے، کیونکہ.......

  ملک کومستحکم نہیں، جواب دَہ سرکار کی ضرورت ہے

دولت مشترکہ کھیل ، ٹوجی، تھری جی، اسرو، آدرش سوسائٹی اور کوئلہ گھوٹالے کے بعد وزیراعظم کا اتحادی جماعتوں کو کوسنا اور یہ کہنا کہ بعض فیصلے مجبوری کے تحت لئے جاتے ہیں،بالکل مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ ان گھوٹالوں  سے مجبوری نہیں، حکومت کی نااہلی نمایاں ہوتی ہے۔۱۱؍ لاکھ کروڑ روپوں کے گھوٹالے کے انکشاف پر جس حکومت کی پیشانی پر شکن تک نہ آئے، وہی حکومت ریلوے کرائے میں ہوئے اضافے کے واپسی کے فیصلے کو مجبوری کو سودا قرار دیتے ہوئے خود کو مظلو م کے طورپر پیش کرے تو افسوس ہوتا ہے.......بلاشبہ  ان تمام گھوٹالوں  ( جو مطلق العنانیت کی علامت ہیں)کے درمیان ممتا بنرجی کی اس ’بلیک میلنگ‘ کو جمہوریت کی برکت ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے ۹۰؍ فیصد عوام حکومت کو درپیش اس طرح کی ’مجبوریوں‘ کا خیر مقدم کریں تو اس پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے .......کیونکہ ملک کو مستحکم سے زیادہ .....جواب دہ حکومت کی ضرورت ہے۔

قطب الدین شاہد
 گزشتہ دنوں ہندوستانی سیاست میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے چانکیائی سیاست کے علمبرداروں کو پریشان کردیا۔  ایک چھوٹی سی جماعت کاایک بڑی جماعت کو یوں آنکھیں دکھانا اور فیصلہ بدلنے پر اسے مجبورکردینے کا یہ ضرب کاری ثابت ہوا، جس سے یہ طبقہ بلبلا کررہ گیا۔ دراصل مرکزی حکومت میں شامل ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کی دھمکیوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے یوپی اے حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جو اسے قطعی پسند نہیں تھا۔ حکومت بالکل نہیں چاہتی تھی کہ ریلوے کرائے میں کئے گئے اضافے کو واپس لیا جائے... ....لیکن ایسا کرنے پر اسے مجبور ہونا پڑا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنی بے چارگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اتحادی حکومت کی مجبوری قرار دیا۔ اسی کے ساتھ ملک میں ایک بار پھر یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس طرح کی اتحادی حکومتیں ملک کیلئے مفید ہیں یا مضر؟
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئے مستحکم حکومتوں کی وکالت کرتار ہا ہے۔اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
     معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اسے اختلاج صرف اُس وقت ہوتا ہے جب بی جے پی اور کانگریس کو مکمل اکثریت نہیں مل پاتی لہٰذا  حکومت پردباؤ دبنائے رکھنے کیلئے کچھ چھوٹی پارٹیاںاُن کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ان چھوٹی جماعتوں کے ہر جائز و ناجائز مطالبات کو یہ طبقہ ’بلیک میلنگ‘ قرار دیتا ہے اوراس طرح ان کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مہم میں میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔
      ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑدیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے........ مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
    یہی وجہ ہے کہ جب بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آتا ہے ، یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کویہ طبقہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے اور یہ کہ ہندوستان جیسے کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام  یا مستحکم حکومتوں کا فلسفہ کتنا فائدے مند ہے اور کتنا نقصاندہ؟
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیںہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں۔
    لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں  ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے ! اسے مکمل اکثریت بھی حاصل نہیں ہے ، اس کے باوجود اہم فیصلوں میں اپوزیشن تو دور کی بات، اپنے اہم اتحادیوں تک کو شامل نہیں کرتی۔ لوک پال بل  او رریلوے کرائے میں اضافے کے موقع پر یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے۔ واضح اکثریت کا مطلب اپوزیشن کا کمزور ہونا ہے، ایسے میں  حکومت پر کوئی محتسب نہیں ہوتا، لہٰذا بدعنوانیاں بے روک ٹوک ہوتی ہیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے، پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے غیر اطمینانی محسوس  ہوگی تو جھک مار کر پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہیں دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی بھی ایک جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ ۸۴ء کے بعد   سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی بھی ایک جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔   یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی۔ بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں موقع دے رہے ہیں۔  دراصل ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویوںسے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اگر ان پر کسی کا دباؤ نہیں رہا تو یہ خواص کے مفاد پر عوام کو قربان کرنے میںکسی تکلف کا مظاہرہ نہیں کریںگی۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ صنعتی گھرانوں  پر خزانہ لٹا دیا جاتا ہے مگر  یہ اُف  تک نہیں کرتیں لیکن مسافر کرائے میں اضافے کوواپس لیے جانے پر ان کی بھنویں تن جاتی ہیں۔

Saturday 31 March 2012

April fool

اپریل فول: کون بیوقوف بنا اور کس نے بنایا؟
 
قطب الدین شاہد

عالمگیریت اور صارفیت  نے جب زمانے پر اپناشکنجہ کسا تو یوم پیدائش اوریوم وفات سے بات آگے بڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے یوم وجود میں آگئے..... جیسے یوم خواتین، یوم بزرگاں، یوم اطفال، یوم دوستی، یوم محبت، یوم آزادی  اور یوم شادی۔ جب سب نے اپنے اپنے دن مخصوص کرلیے تو بیوقوفوں اور احمقوں نے بھی آواز بلند کی کہ ہم نے کون سا گناہ کیا ہے جو دنیا ہمیں بھول گئی۔یہ مطالبہ یوں بھی ناجائز نہیں تھا کہ اسے یکسر مسترد کردیا جاتا، کم از کم جمہوری ملک میں تو قطعاً نہیں جہاں بندے گنے جاتے ہیں، تولے نہیں جاتے۔ یہاں اکثریت میں رہنے والوں کی ہر بات سنی جاتی ہے، انہیں چھینک بھی آئے تو سیاسی جماعتوں کو زکام ہونے لگتا ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ اُن کا حق تھا لہٰذا ’عقل مندوں‘ کا اخلاقی فرض بھی  تھا کہ اس مطالبے پر وہ سنجیدہ ہوں۔ سو اِس کا انتظام کردیا گیا اور بالاتفاق رائے یکم اپریل کی تاریخ طے کردی گئی۔ پوری دنیا میں تو نہیں کہہ سکتے مگرجہاں جہاں جمہوریت اپنے پیر پسارنے میں کامیاب رہی ہے ، وہاں  یہ دن ’دھوم دھام ‘ سے منایا جاتا ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ۔
     آپ چاہیں تو اس سے اختلاف کرسکتے ہیں تاہم بعض ’عقلمندوں‘ کا خیا  ل ہے کہ یکم اپریل کو چونکہ سالانہ بجٹ کا نفاذ  ہوتا ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سےاپریل فول منایا جاتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ترقی اور شرح نمو کے نام پر تمام نام نہاد حکومتیںعوام کو بیوقوف بنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ قیمتیں فوراً بڑھاتی ہیں اور  سبز باغ دکھاتی ہیں ایک سال بعد کی۔
     اپریل فون کے دن بہت سارے بیوقوف  دیگر  بیوقوفوں کو بیوقوف بنانے کی مہم پر نکلتے ہیں اورآخر میں بیوقوف بن کر گھر واپس ہوتے ہیں اورخوش ہوتے رہتے ہیں تاہم  یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس نے کس کو بیوقوف بنایا  بالکل اسی طرح جیسے رائے دہندگان  اور سیاسی پارٹیوں کا معاملہ ہے۔
    ویلنٹائن ڈے کی طرح یہ دن بھی اب ہر گھر اور ہر دفتر میں منایا جانے لگا ہے۔  صبح جب دسترخوان پر انواع و اقسام کے ناشتے دیکھا تو سمجھ میں نہیں آیا کہ معاملہ کیا ہے؟ بیگم نے بتایا کہ اپریل فول ہے۔ میںنے کہا کہ اس کا مطلب بھی سمجھتی ہو، انہوں نے کہا،میںتوسمجھتی ہوں اور تھوڑی دیر میںآپ بھی سمجھ جائیں گے۔ اس دھمکی پر بھلاکسے خوف نہیں آئے گا، ہرکسی کا جگر ، جگر مرادآبادی کے جیسا تھوڑے ہی ہے ، لہٰذا لقمہ جہاںتھا ، وہیں رہ گیا۔میری تشویش دور کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناشتہ کیجئے اور جی بھر کر کیجئے، اس میں کچھ نہیں ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ صبح ہی صبح میری جیب کی تلاشی ہوئی تھی اور اب پرس کی رقم ندارد تھی۔ اتنے  میں دیکھا میاں عبدالرشید بھی اسکول سے واپس آگئے۔ بولے ہیڈمسٹریس صاحبہ چل بسی ہیں،لہٰذا چھٹی ہوگئی ہے۔  مجھے لگا کہ یہ اپریل فول کا ہی حصہ ہے تاہم مزید تحقیق پر معلوم پڑاکہ اس میںجزوی سچائی ہے۔ ہوا یوں کہ بچوں میںسے کسی نے اپریل فول منانے  اور اس بہانے چھٹی  پانے کے مقصد سے ہیڈ مس کو یہ جھوٹی خبر سنادی کہ سکریٹری صاحب  نے دنیا کوالوداع کہہ دیا ہے۔  بیچاری ہیڈ مس اس خبر کی تاب نہیں لاسکیں، سوچی ہوںگی کہ جب ’دلبر‘ ہی نہیں تو دل کس کا م کا، لہٰذادل پر زبردست حملہ ہوا اورتھوڑی دیر میں لوگوں کو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھنا پڑا۔ پتہ چلا کہ تدفین کے بعد ہی سکریٹری صاحب نے اس مسند پرکسی اور کو اس شرط کے ساتھ براجمان کردیا کہ  میرے ’دل‘ کا خیال رکھنا۔ ترقی پانے کے لیے اسطرح کی سودے بازی تعلیمی اداروں میں آج کل عام بات ہے۔ اب اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
     یکم اپریل کو ہمارے دوست لیاقت علی زاہد بھی گھرسے اسی مقصد سے نکلے تھے کہ چلو کسی کو بیوقوف بنایاجائے۔ انہوں نے خود پر یہ شرط بھی عائد کرلی تھی کہ کام ہوئے بغیرگھر واپس نہیںہوںگے، گویا ناتواںکندھوں (دماغ بھی پڑھ سکتے ہیں) پر بہت بوجھ پڑگیا تھا۔ایک صاحب جو فون پرکسی سے بات کررہے تھے اور بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اپنا شکار سمجھ کر انہیں راستے میں ہی روک  لیا اور چہکتے ہوئے کہا  ’’بھائی صاحب ! مٹھائی کھلائیے، آپ کی اہلیہ محترمہ نے جڑواں بچوںکو جنم دیا ہے۔‘‘اس سے قبل کہ زاہد صاحب کچھ سمجھ پاتے، اس نوجوان نے ایک زوردار طمانچہ رسید کردیا۔پتہ چلاکہ وہ اپنی محبوبہ سے عشق و محبت کی باتیں اورمستقبل کی منصوبہ بندی کررہا تھا کہ موصوف نے بیوی  اورجڑواں بچوں کا تذکرہ کرکے اس کی قسمت پر سیاہی انڈیل دیا۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر وہ وہاںسے راہ فرار اختیار نہ کرتے تو واقعی گھر جانا نصیب نہ ہوتا۔تھوڑی ہی دور گئے ہوںگے کہ دیکھے آگے آگے ان کا ایک دور کا پڑوسی جارہا ہے۔سوچااسے بیوقوف بنانا چاہئے۔ دوڑ کر پیچھاکیا اور ہانپتے کانپتے بولے کب سے تمہیں تلاش کررہا ہوں،  ارے بھابھی نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے، محلے میں سب تمہارا انتظارکررہے ہیں، جلدی چلو اور ہاں مٹھائی بھی خرید لو۔ زاہد صاحب خیرایک سانس میں تو سب کچھ کہہ گئے لیکن تب تک موصوف کی حالت غیر ہوگئی تھی اوراس سے قبل کہ یہ کچھ سمجھ پاتے، وہ بے ہوش ہوکر زمین بوس ہوچکے تھے۔اسے دواخانے پہنچانے کے بعد انہیں معلوم پڑاکہ ان کا دور کا پڑوسی جب بھی کوئی ناقابل یقین بات سنتا ہے تو اس پراسی طرح کا دورہ پڑتا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے ناقابل یقین ہی تھی کیونکہ وہ  ایک عرصہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے پر عمل کررہا تھا، لہٰذا  جڑواں بچوں کا  ’صدمہ‘ برداشت نہیں کرسکا۔
    زاہد صاحب تھکے ہارے پارک میں جاکر بیٹھ گئے کہ کچھ دیر آرام کرلیں پھر اپنی مہم پر نکلیں۔کہتے ہیں کہ ارادے پختہ ہوںتو منزل خود چل کر آتی ہے، سو انہوں نے دیکھا کہ ایک جوڑا گارڈن میںداخل ہورہا ہے۔ان دونوں کو اپنی منزل سمجھ کر زاہد صاحب ابھی ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں پائے تھے کہ دونوں نے کچھ کانا پھوسی کی اور ایک لمحہ کے تؤقف میں اپنی بیوی کو وہیںچھوڑ کر وہ نوجوان ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔غصے سے اس کا چہر ہ لال بھبھوکا تھا، آتے ہی اس نے سوال کیا۔ تمہارا نام کامران ہے؟ان کے ہاں کہتے ہی اس نے ایک زوردار گھونسہ مارا۔پھر دوسرا سوال کیا کہ کیا تم ہی وہ شخص ہو جو شادی سے قبل ہماری بیوی کو چھیڑا کرتے تھے؟ انہوںنے پھرہاں کہا اور پھر زور دار گھونسے کا ضرب پڑا۔وہاں لوگوں نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی شخص مار کھانے کے بعد بھی ہنس رہا ہے اور بے تحاشا ہنستا جارہا ہے۔ وہ تو اچھاہواکہ بروقت میں پہنچ گیا جس کی و جہ سے معاملہ رفع اورنوجوان دفع ہوا ورنہ پتہ نہیں کیاہوتا۔ بعد میںلوگوں کے پوچھنے پر کہ تم مار کھاکر کیوںہنس رہے تھے؟انہوںنے کہا کہ میں تو اپریل فول منا رہاتھا۔یہ پوچھنے پر کہ کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ ’’وہ مجھے کامران سمجھ کرماررہا تھا جب کہ میرا نام لیاقت علی زاہد ہے۔‘‘
    مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہ شخص مار کھاکر بھی محض اس لیے خوش ہے کہ اس نے کسی کو بیوقوف بنایا ۔  نظر کا دائرہ وسیع کیا تو دیکھا کہ اسی طرح کی خوش فہمی کا شکار پورا سماج ہے۔خیال آیا کہ جس سماج میں مار کھا کر بھی خوش ہونے والے افراد موجود ہوںگے ، وہاں کے حکمراں بھلا کیونکر ان کی فلاح کی باتیں سوچیںگے، وہ تو مار مار کر ہی انہیں ’خوش ‘ رکھنے کی کوشش کریںگے۔
n

Saturday 10 March 2012

Good decision by Uttar Pardesh voters......

 یوپی کے باشعور رائے دہندگان کا مدبرانہ فیصلہ

 مبارکباد کےمستحق ہیں یوپی کے رائے دہندگان، جنہوں نے اپنے ووٹوں کی طاقت کو محسوس کیا،اس کا بہتر استعمال کیا اور مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مایاوتی کی مطلق العنان حکومت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتائی اورکانگریس کے پنجے کو بھی مروڑ دینے میں کامیابی حاصل کی .....جسے تعمیر سے زیادہ تخریب پر یقین تھا۔ اس مبارک سلامت کے حقدار بلاشبہ تمام رائے دہندگان ہیں لیکن مسلمانوں نے جس شعور و تدبر کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۱۸؍ فیصدمسلم نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچادینا اور بی جے پی کو محض ۱۱؍ فیصد نشستوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ پولنگ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت منظم انداز میں ہوئی ہے۔ سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داری بحسنِ خوبی انجام دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اور نومنتخب نمائندے رائے دہندگان کے معیار اور امیدوں پر کس حد تک پورے اُترتے ہیں؟

قطب الدین شاہد

حالیہ ریاستی انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ شعور و تدبر کے استعمال اور منظم پولنگ کے معاملے میں اترپردیش کے رائے دہندگان بہت اسمارٹ واقع ہوئے ہیں۔ایودھیا تحریک کے ذریعہ پورے ملک کی فضا کو مسموم کردینے والی بی جے پی کو غیر مؤثر کرنے نیز اس کے دانتوںسے زہر نکال کر اسے بے ضرر بنانے کاسہر ا  یوپی   کے عوام کے ہی سر بندھتا ہے۔کسے یقین تھا کہ جس بی جے پی نے  ۱۹۹۸ء  کے عام انتخابات میں  ۳۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸۲؍ میں سے ۵۷؍ سیٹیں ہتھیالینے میں کامیا بی حاصل کی تھی، اسی بی جے پی کو اُسی یوپی میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسمبلی کی محض ۴۷؍ نشستوں تک محدود کردیا جائے گا۔  یہ سیکولر رائے دہندگان کی بالغ نظری کا ثبوت ہی تو ہے جو یہ ممکن ہوسکا۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ملائم سنگھ کو سزا دینے کی بات ہو، مایاوتی کی تاجپوشی کا معاملہ ہو یا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایک موقع اور دیتے ہوئےریاست میں دوسرے نمبر پر پہنچا دینے کا واقعہ ہو یا پھر ابھی اختتام پذیر ہوئے انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی ندامت کو قبول کرتے ہوئے اسے معاف کردینے اور دوبارہ مسند ِ اقتدار تک پہنچا دینے کی بات ہو....... رائے دہندگان نے ہر جگہ اور ہر موقع  پر نہایت ہی سوجھ بوجھ اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
    عام طور پر شمالی ہند کو آر ایس ایس کا مضبوط علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی شمالی ہند کے سب سے مضبوط گڑھ  یوپی میں بی جے پی کو  ۱۱؍ فیصد یعنی ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں صرف ۴۷؍ نشستیں ہی مل سکیں، اس کے برعکس ۸۹؍ فیصد سیٹیں سیکولر طاقتوں کے قبضے میںگئیں۔سوجھ بوجھ کا مظاہرہ یوں توسبھی نے کیا لیکن مسلم رائے دہندگان کی حکمت عملی اپنی مثال آپ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸؍ فیصد ہے ، اس لحاظ سے دیکھیں تو انہوں نےاسمبلی میں (۶۹؍ اراکین کے ساتھ) اپنی( تقریباً)۱۸؍ فیصد نمائندگی اپنے ووٹوں کی طاقت کے بل پر حاصل کرلی ہے۔ یوپی میں یہ اب تک کی ریکارڈ مسلم نمائندگی ہے۔ حالانکہ اس پر افسوس نہیں کیا جاناچاہئے لیکن ....... اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اُن ۶۴؍ اسمبلی حلقوں میں جہاں مسلم نمائندے دوسری پوزیشن پر رہے ہیں، اگربیداری کا مظاہرہ تھوڑا سا اور کیا جاتا تو اس ریکارڈ کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ ان ۶۴؍ حلقوں میں کئی حلقے ایسے تھے، جہاں دو دو اور تین تین مضبوط مسلم امیدوار آپس میں ہی ٹکرا گئے تھے۔ تھوڑی سی محنت سے سکندر آباد سے سلیم اختر (بی ایس پی)،  تھانہ بھون سے اشرف علی خان (آر ایل ڈی)، غوری گنج سے محمد نعیم (کانگریس) ، پھول پور  پوئی سے ابو القیس اعظمی (بی ایس پی) اور رودولی سے عباس علی زیدی (سماجوادی ) کو ہم  آسانی سے کامیاب کرواسکتے تھے۔ (باکس میں دیکھئے  ، چند مسلم امیدواروں کی شکست کا فرق)۔
    کہاجاتا ہے کہ یوپی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی لہر تھی۔ یہ لہر کیوں تھی؟ اور کس نے پیدا کی تھی؟دیانت داری سے اس کا تجزیہ کیا جائے گا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ یہ لہریں مسلمانوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ سماجوادی پارٹی سے ناراضگی کے سبب مسلمانوں نے ۲۰۰۷ء کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کو اور ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کا ہاتھ مضبوط کیا تھا۔  سماجوادی سے مسلمانوں کی ناراضگی کیوں تھی؟  یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے  لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنے سے بہتر ہوگا کہ ’یہ ناراضگی دور کیوں ہوئی؟‘ پر گفتگو کی جائے۔
     آگےبڑھنےسے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد اس کایا پلٹ کا پوراکریڈٹ مسلمانوں کو دینا نہیں ہے .... اس کا اعتراف ہمیں بھی ہے کہ اس کے اور بھی کئی عوامل ہیں، مثلاً بی ایس پی کی بدعنوانی  اور مطلق العنانی  کے ساتھ کانگریس کی ناعاقبت اندیشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کی اس کی پرانی روِش (صدر راج کی دھمکی اس کی واضح مثال ہے)،جس کی وجہ سے عوام نے انہیں رد کردیا...... لیکن ان سب کے باوجود .... مسلمانوں کے جوش و خروش اور  سیاسی شعور کے مظاہرے کے بغیر محض انہی عوامل کی  وجہ سے سماجوادی پارٹی یوں بلا شرکت ِغیرے لکھنؤ کے تخت پر براجمان ہوپاتی،یہ ممکن نہیں تھا۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کی شکست کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں لیکن سماجوادی کی کامیابی کی بنیادی وجہ اسے مسلمانوں کی حمایت کا ملنا ہی ہے۔
    اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ سماجوادی پارٹی کا حق بھی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں سماجوادی پارٹی نے جو کام کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو.....غلطی کس سے نہیں ہوتی؟ غلطیاں کرنا انسان کے بشری تقاضے ہیں ..... لیکن بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں؟ ان پر نادم ہوتے ہیں، معافی تلافی کرتے ہیں اور اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ البتہ جو ایساکرتے ہیں وہ واقعی بڑے ہوتے ہیں اور پھر سرخروئی بھی حاصل کرتے ہیں ..... ملائم سنگھ اور ان کی ٹیم نے بھی غلطیاں کی تھیں لیکن انہوںنے ضد اور انا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی اور کلیان سنگھ کو اپنےساتھ رکھنے پر مسلمانوںسے سرِ عام معافی طلب کی۔ یہ بہت بڑی بات تھی.... اور اگر مسلمان ملائم کو معاف نہیں کرتے تو یقیناً یہ بری بات بھی ہوتی۔
    اب آئیے مسلمانوں کے سیاسی شعور کے ایک اور پہلو پر بھی گفتگو کرتے چلیں۔بلاشبہ مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ترجیح دی لیکن ..... پوری طرح  اس کی آواز پر آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کس طرح بہتر بنائی جائے؟   بھوجی پورہ میں سماجوادی پارٹی کے وریندر سنگھ گنگوار  کے مقابلے اتحاد ملت کونسل کے نمائندےشاذی الاسلام کی جیت ، بلسی میں ایس پی کے امیدوار ومل کرشن اگروال کے مقابلے مسرت علی بتّن،چیل میں بی ایس پی کے محمد آصف جعفری، مئو سے مختار انصاری اور محمد آباد سے صبغت اللہ انصاری اور اس طرح کے بہت سارے امیدواروں کی کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ یقیناً مسلمانوں نے  ایس پی کو ترجیح دی لیکن جہاںجہاں  اس کے مسلم امیدوار نہیں تھے، اور وہاں مسلمان اپنی طاقت کامظاہرہ کرسکتے تھے، انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا اور بہت منظم طریقے سے کیا۔
     الیکشن ہوچکا، نتائج آچکے، جیتنے اور جِتانے والے خوش ہولئے، مبارکبادیوں کا دور چلااور ختم بھی ہونے پر آیا،  ایک دو دن میں حکومت بھی بن جائے گی..... سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا؟ مسلم رائے دہندگان کو جو کرنا تھا، انہوں نے کیا اور پوری ذمہ داری سے کیا۔ اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے نئی حکومت اور نو منتخب نمائندوں پر۔ نئی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ مسلمان کسی پر بھروسہ کرتا ہے تو بہت گہرائی سے کرتا ہے لیکن جب اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ئی جاتی ہےتو وہ نفرت بھی اُتنی ہی شدت سے کرتا ہے۔ سماجوادی پارٹی نےمعافی طلب کی تو اسے معاف کردیا گیا لیکن کانگریس کا حشر ہمارے سامنے ہے جو آج بھی یوپی میں اپنی زمین کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہے۔  اسی کے ساتھ مسلم نمائندوں پر بھی بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح رائے دہندگان نے بلا لحاظ جماعت انہیں اپنے ووٹوں کا حقدار قرار دیا ہے، اسی طرح ان سے اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ مسلم مسائل پراسی طرح متحد ہوکر وہ بھی مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے۔اگر ایسا ہوا تو ایس پی کے ساتھ ہی تمام کامیاب مسلم نمائندوں کے بھی روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر انہیں عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

Tuesday 6 March 2012

U P men sadar raaj ka shosha..........4 March 2012

یوپی میں صدر راج کا شوشہ........

عوا م کو دھمکی یا شکست کااعتراف

اپنی غیر سنجیدگی کیلئے بدنام کانگریس کے بڑبولے قومی جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ اکثر و بیشترسچی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اگر ان پر اعتبار نہیں آتا  تو صرف اس لئے کہ ان میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اترپردیش انتخابات کے پس منظر میں انہوں نے ایک با ر پھر سچائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر یوپی میں کانگریس شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس کیلئے راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہوںگے۔ دگ وجے سنگھ بالکل درست فرمارہے ہیں، لیکن قدرے انکساری سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کو بخش دیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی کے انتخابی نتائج اگر کانگریس کی توقع کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں تو اس کیلئے دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم بھی ذمہ دار ہوںگے۔

قطب الدین شاہد
 
 یوپی میںووٹنگ کا عمل پورا ہوا۔ ۳؍مارچ کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ریکارڈ پولنگ کے ساتھ کانگریس، بی جے پی ، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے ساتھ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے  امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بیلٹ باکس میں محفوظ ہوگیا ہے۔دو دن بعد نتائج ظاہر ہوںگے۔ ان نتائج پر صرف یوپی کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نتائج حسب توقع برآمد ہوں یا غیر متوقع لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتیں بری طرح بوکھلائی ہوئی ہیں۔ دوران الیکشن یہ بات مشاہدے میں آئی کہ ووٹنگ کے تئیں عوامی جو ش و خروش سیاسی جماعتوں کو راس نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ بدحواسی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں۔گھبراہٹ کا یہ تناسب بعض سیاسی جماعتوں میں کم ہوتا ہے تو بعض میں زیادہ۔
    یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کی جائے تو کانگریس کی بوکھلاہٹ زیادہ نمایاں ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں مل جانے کی وجہ سے کانگریس اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ اترپردیش سے اس کی بے دخلی کا دور ختم ہوچلا ہے اور اس مرتبہ وہ وہاں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔  واضح رہے کہ  ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کو نارائن دت تیواری وزارت اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس کے بعد سے کانگریس وہاں اقتدار کیلئے ترس رہی ہے۔ تب سے اب تک وہ مسلسل کوششیں کررہی ہے لیکن اس کے تمام پینترے بیکار جارہے ہیں۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کو میدان میں اتار کربھی اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں  کانگریس کو ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں۸فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۲۲؍ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۱۸ء۲۵؍  فیصد ووٹ مل گئے جس کی وجہ سے اسے ۲۱؍ پارلیمانی نشستیں مل گئیں اور وہ یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی۔اس کامیابی نے کانگریس کی خوش فہمی میں اضافہ کردیا اوراسے لگنے لگا کہ عوام نے اس کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے۔
    ویسے کانگریس اگر یہ سوچ رہی تھی تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ عوام نے یقیناً اس کی غلطیوںکو معاف کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اترپردیش میں کانگریس کا جو ووٹ بینک رہا ہے، جس کی وجہ سے  وہ وہاں ۴۰؍ برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے، اس میںمسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ اپر کاسٹ کے ہندوؤں کا اہم رول رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے یہ تینوں ووٹ بینک دور ہوتے گئے۔ رام مندر کی تحریک سے اپر کاسٹ بی جے پی کے  خیمہ میں چلا گیا، تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے فاصلہ بنا لیا ۔ اسی طرح بی ایس پی کی آمد نے دلتوں کے دلوں سے کانگریس کا موہ بھنگ کردیا۔اس مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی تینوں کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے...... لیکن ان کے ’بزرگوں‘ نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔   ووٹوں کی کاشت کیلئے راہل نے یوپی کی زمین کو بہت اچھی طرح ہموار کردیا تھا لیکن   دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم  نے ان کا کھیل خراب کردیا اور اس قابل کاشت زمین میں کنکر پتھر ملاکر اسے بنجر بنانے  میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔    
  دلتوں کے گھر جانا اور ان کے گھر کا کھانا کھانا، اپنے آپ میں بڑا قدم تھا، راہل نے یہ کام کیا اورا س طرح دلتوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر بھی کیا۔  یہ اور بات ہے کہ انہیں ووٹ بینک میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ یہ یقینا ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔  راہل گاندھی نے اس برف کو پگھلانے کی ایک اچھی پہل ضرور کی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ہموار کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ ماضی میں کانگریس نے جو غلطیاں کی ہیں، جن کی وجہ سے یوپی کے مسلمانوں نے اسے ریاست سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا، اس میں لچک پیدا ہونے لگی تھی۔ راہل کی معصومیت پر لوگوں کو ترس آنے لگا تھا، اور لوگ یہ ذہن بنانے لگے تھے کہ کانگریس کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا جاسکتا ہے...... لیکن اسی درمیان کانگریس کی جانب سے اترپردیش انتخابات کی کمان سنبھالنے والے دگ وجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس کا تذکرہ چھیڑ کر مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کردیا۔ کانگریس کی کارستانیوں کو مسلمان یقینا ً بھولے نہیں تھے اور بھولنے کا ارادہ بھی نہیں تھا لیکن اس بیان سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتی بلکہ ان کے زخموں کو کرید کر انہیں ہرا بھی رکھنا چاہتی ہے۔ رہی سہی کسر چدمبرم کے فوری ’ری ایکشن‘ نے پوری کردی۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی خاموشی سے بھی مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ کانگریس کی ان بے وفائیوں کو مسلمان کسی طرح بھولنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ سلمان خورشید بھی درمیان میں کود پڑے۔ بٹلہ ہاؤس معاملے کے ساتھ  ہی ریزرویشن کے معاملے پر بھی انہوں نے کئی قلابازیاں کھائیں اور اپنے ساتھ مسلمانوں کو  بھی تذبذب میں مبتلا رکھا۔ان کا یہ کہنا کہ بٹلہ ہاؤس کا واقعہ سننے کے بعد سونیا گاندھی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں، کسی کوبھی ہضم نہیں ہوا ۔ اسی طرح مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے ان کے وعدے پر بھی اعتبار کرنا مشکل لگا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ۴۰؍ برسوں تک یوپی اور ۵۰؍ برسوں تک مرکز میں حکمرانی کی ہے   اور اس درمیان مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ سماجوادی پارٹی سے کانگریس میں آئے بینی پرساد ورما بھی اپنی سنجیدگی کو (جس کیلئے وہ مشہور تھے) بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا ’جرأت مندانہ‘ بیان دے ڈالا..... اور دودن کے بعد ہی ’زبان پھسلنے کی بات کہہ کر‘ اپنا بیان واپس بھی لے لیا۔ اس طرح کے بیانات دے کر کانگریس نے مسلمانوں میں اپنی شبیہ تو خراب کرہی لی تھی ....... ایسے میں رہی سہی کسر پوری کردی دگ وجے سنگھ اور مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال نے۔ ان کا یہ کہنا کہ اترپردیش میں یا تو کانگریس کی حکومت بنے گی یا پھر صدر راج نافذ ہوگا،کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں تھا ..... اور ہونا بھی نہیں چاہئے تھا۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ آپ رائے عامہ کی پروا نہیں کرتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ کی دھمکی دیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کانگریس کو عوام اس قابل نہیں سمجھتے ہیں کہ اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپیں تو وہ کیا وہ عقبی دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کی دھمکی دے گی۔ کانگریس  رہنماؤں کے اس بیان سے کسی اور کونہیں بلکہ صرف اور صرف کانگریس کو ہی نقصان پہنچے گا۔ نتائج تو بہرحال دو دن بعد ظاہر ہوںگے لیکن .... یہ طے ہے کہ کانگریس کو جتنی سیٹیں مل سکتی تھیں، اُتنی تو بہرحال نہیں ملیںگی اور اس کیلئے  بقول د گ وجے سنگھ ’راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ہی ذمہ دار ہوںگے‘۔

Wednesday 22 February 2012

UP election men record polling

اترپردیش میں ریکارڈ پولنگ

عوام کی بیداری سے سیاسی جماعتوں کی نیند حرام

Tuesday 7 February 2012

UP election and our responsibility

اترپردیش میں پہلے مرحلے کی پولنگ اور ہماری ذمہ داریاں
ووٹ نہ دینا ، ریاست، سماج اور خود کے ساتھ نا انصافی ہے
ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں  میں سے  ایک ایسی فہرست توبن  ہی سکتی ہے جس  سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا  فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔

قطب الدین شاہد
دو دن بعد  یوپی میں ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے پہلے مرحلے کی پولنگ ہے۔اس مرحلے میں ۵۵؍ امیدواروں کی قسمت کے فیصلے ہوںگے۔ان تمام کی قسمت کے فیصلے کا اختیار آئین و دستور نے جن رائے دہندگان کو سونپا ہے، ان میں  ۲۵؍ سے ۳۰؍ فیصدمسلم ہیں۔ جی ہاں ! سیتا پور، بارہ بنکی، فیض آباد، کانپور دیہات، بہرائچ، شراوستی، بلرام پور، گونڈہ، سدھارتھ نگر اور بستی  کے ان تمام ۵۵؍ اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد خاطر خواہ ہے اور وہ انتخابی نتائج پر پوری طرح سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میں سے بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں وہ، جسے چاہیں ، کامیاب کراسکتے  ہیں اور.... جہاں جِتانے کی طاقت نہیں رکھتے، وہاں بھی، اُن کی حیثیت بادشاہ گر کی ہے،یعنی اگر وہ کسی کو کامیاب نہیں کراسکتے، تو نہ سہی، مگر جسے چاہیں ، اسے شکست سے دوچار کرہی سکتے ہیں۔
    اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنی اس طاقت کو محسوس کرتے ہیں، ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کیلئے گھر سے باہر نکلتے ہیں اوراپنے امیدواروں   نیز سیاسی جماعتوں کا احتساب کرتے ہوئے اسے سزا یا جزا کا حقدار سمجھتے ہیں..... اورکتنے رائےدہندگان ایسے ہیں جو گھروں اور چائے خانوں میں بیٹھ کر سیاست  پر ’بصیر ت افروز‘ تبصروں   پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔  سچ تو یہ ہے کہ ان  آخرالذکر افراد کو ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔
    اگر کوئی کہے کہ آپ سے آپ کا حق رائے دہی چھین لیا گیا ہے،آپ ووٹ نہیںدے سکتے،تو ذرا سوچئے کہ آپ پر کیا گزرے گی؟  احتجاج، مظاہرے  ، دھرنے ، ہڑتال اور بھوک ہڑتال کے ساتھ ساتھ آپ انسانی حقوق کمیشن اورعدالتوں کے چکر لگائیں گے، انصاف کی دہائی دیںگے اور ناانصافیوں کا رونا  روئیں گے، اپنے ساتھ رَوا رکھے جانے والے تعصب کی بات کریںگے اور ووٹ دینے کے حق کی واپسی کا مطالبہ کریںگے...... امریکہ جیسی ریاست ہائے متحدہ میں ایک عرصے تک کالوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ خود ہمارے ملک میں۱۹۹۵ء  کے ایک معاملے میں الیکشن کمیشن نے   شیوسینا سپریموبال ٹھاکرے کو مجرم قرار دے کران سے ۶؍ برسوں تک کیلئے حق رائے دہی چھین لیا تھا......
    جمہوریت ایک نعمت ہے، اس کے ذریعہ عوام کو اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع دیا جاتاہے لیکن اس کی حقیقی اہمیت کا اندازہ انہی کو ہوگا جنہیں یہ نعمت میسر نہیں ہے  اور جو اپنے حکمرانوں کاانتخاب خود نہیں کرتے بلکہ وہ ان پر مسلط کیے جاتے ہیں۔جس طرح بیماری کے بعد صحت، مفلسی کے بعد دولت، پسینے کے بعد ہوا، بھوک کے بعد غذا ، اسیری کے بعد رہائی  اور غلامی کے بعد آزادی کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح   انہیں بھی ووٹوںکی اہمیت کااندازہ شاید اسی دن ہوگا، جس دن یہ حق ان سے چھین لیا جائے گا۔ خدا نہ کرے ہمارے ساتھ  ایسا ہو!!
    آج بحمداللہ ہمیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے مگر.... افسوس کہ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہے.....حالانکہ ہمارے ووٹوں کی قدر وقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام اور بلدیو سنگھ کے ووٹ کی ہوسکتی ہے۔ ووٹوں کی گنتی  کے دوران یہ کہیں نہیںدیکھاجاتاکہ جیتنے والا امیدوار عبداللہ یا عبدالرحمان کے ووٹوںسے فتحیاب ہوا ہے یاکسی اور کے ووٹ سے اور نہ ہی اس کی وجہ سے فاتح کی صحت پر کوئی اچھا یا برا اثر پڑتا ہے۔ یاد کیجئے کہ پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ ایک ووٹ (سیف الدین سوز) نے اٹل جی کی حکومت کی ساری اکڑفوں نکال کر رکھ دی تھی۔
      تین دن بعدیعنی۸؍ فروری کو ہمیں ایک بار پھر ووٹ دینے اور اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ انتخابات بھلے ہی اتر پردیش میں ہو، مگر اس پر نگاہیں پورے ملک کی ہیں اور وہ خواہ ممبئی ہو یا دہلی، وہاں کے اثرات یوپی الیکشن پر  ہمیشہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بیدار رہنا از حد ضروری ہے۔ ہمیشہ کی طرح اگر اس وقت بھی ہم نے خاموشی، غفلت اورتساہلی کا مظاہرہ کیا تو  پچھتانے کیلئے آئندہ پانچ برس ہی نہیںبلکہ بہت ممکن ہے کہ پوری زندگی بھی کم پڑے۔ یقین جانئے یہاںایک ایک ووٹ کی قیمت ہے۔ ایک ووٹ سے آپ کے پسندیدہ امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ہوسکتا ہے، وہ جیت سکتا ہے، ہار سکتا ہے۔اس کےبرعکس آپ کے ایک ووٹ نہ دینے سے آپ کا ناپسندیدہ امیدوار کامیاب ہوکرآپ کے سینے پر مونگ بھی دَل سکتا ہے۔ کُل ملا کر یہ کہ ملک کے عروج و زوال کا فیصلہ اب آپ کے ایک ووٹ پر ہے۔
    پولنگ کے دن ایک ایک ووٹ کی اہمیت  ہوتی ہے۔ آپ یہ قطعی نہ سمجھیں کہ’ بھلامیرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا؟‘قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں اس کا بھی خوب اندازہ ہے کہ ہماری اس گمرہی سے یعنی ہمارے ووٹ نہ دینے کے فیصلے سے خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، ہمارے اہل خانہ اور عزیز و اقارب بھی متاثرہوتے ہیں، اوروہ  ووٹ دینے نہیں جاتے۔
    بعض جگہوں پربوگس ووٹنگ ہوتی ہے اور بعض جگہوں پر ووٹ  خریدے اوربیچے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اچھے اور اہل امیدوار منتخب نہیں ہوپاتے..... اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس  کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ یقین جانئے غیر قانونی کام انجام دینے والے وہ عناصر اور چند سکوں کی خاطر بک جانے والے وہ بے ضمیر افراد بھی ہم میں سے ہی ہوتے ہیں اور ہماری خاموشی سے ہی انہیں شہ ملتی ہے۔  یہ کہہ کرہم خود کو تسلی دینے کی بھلے ہی کوشش لیں کہ’ہونہہ! اس میں میرا کیا؟‘، مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو یقیناً  اس جواب سے مطمئن نہیں ہوںگے کیونکہ ان واقعات سے  براہ راست  ہمارا تعلق ہے۔ وہ عناصر جو ہمارے حق پرڈاکہ ڈالتے ہیں اوراپنی غیر قانونی سرگرمیوں سے ہماری قانونی کوششوں کو زک پہنچاتے ہیں، انہیں بھلاکیسے اور کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ دراصل ہم اس کاحساب نہیں لگاتے کہ بوگس ووٹنگ ،  ہماری جائز ووٹنگ کو سبوتاژ کرنے کی ہی  ایک کوشش ہے۔
    ہمارے ملک کے اس کثیر جماعتی نظام میں چند فیصد ووٹوں کے  اِدھر اُدھر ہوجانے سے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ آئیے اس کاایک سرسری جائزہ لیتے چلیںکہ چند فیصد ووٹوں کے کم یا زیادہ ہوجانے سےپارلیمنٹ یا اسمبلیوں کی تصویریںکس طرح تبدیل ہوجایا کرتی ہیں؟
    ۱۹۹۹ء میں بی جے پی نے چند جماعتوں کی مدد سے ملک کے اقتدار  پر قبضہ کیا تھا  اور یہ قبضہ ۵؍ سال تک برقرار بھی رہا تھا لیکن آئندہ یعنی ۲۰۰۴ء میں اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ تیرہویں لوک سبھا میں اسے ۱۸۲؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ چودہویں لوک سبھا میں ۴۴؍ سیٹیں کم ہوکر محض ۱۳۸؍  رہ گئی تھیں..... حالانکہ اس کے ملنے والے ووٹوں میں زیادہ فرق واقع نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۹۹ء میں جہاں اسے ۸؍ کروڑ ۶۵؍ لاکھ ووٹ ملے تھے ، وہیں ۲۰۰۴ء میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد  ۸؍ کروڑ ۶۳؍ لاکھ تھی ۔  دیکھا آپ نے.... کہ کس طرح ۵۴۳؍ حلقوں میں ملنے والے ووٹوں میں صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کی کمی نےاسے برسراقتدار آنے سے روک دیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کے اقتدار میں آنے کا سبب بھی ووٹوں کی تھوڑی سی ہیر پھیر  ہے۔  ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو ۱۰؍ لاکھ ۳۱؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی۔ چودہویں لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کوصرف۳؍ لاکھ زائد ووٹ ملے تھے مگرحیرت انگیز طور پر اس کے نشستوں کی تعداد میں ۳۱؍ کااضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اوراسے اقتدار میں آنے کاموقع مل گیا تھا۔ کیا یہ حیران کردینے والی بات نہیں کہ بی جے پی نے صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کے خسارے  سے۴۴؍ سیٹیں گنوائیںجبکہ کانگریس کو۳؍ لاکھ ووٹوں کے اضافے سے ۳۱؍  نشستوں کا فائدہ ہوا۔  مزے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو کل پولنگ کا ۲۸ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملا تھا مگر اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی جبکہ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں ۲۸ء۵۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ اس کے نشستوں کی تعداد بڑھ کر ۲۰۶؍ ہوگئی تھی۔ اسی طرح دیکھئے کہ ۲۳ء۷۵؍ فیصد ووٹ لے کر بی جے پی نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا جبکہ۲۰۰۴ء میں ۲۲ء۱۶؍ فیصد ووٹ ملنے کی وجہ سے اسے اپوزیشن کی صف میں بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا۔
     ایسا اسلئے ہے کہ بعض نشستوں پر فتح و شکست بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے ہوا کرتی ہے۔کرناٹک کے اسمبلی حلقے میں سانتھے میراہلّی حلقے میں ہارجیت کے درمیان صرف ایک ووٹ کا فرق تھا۔ اسی طرح ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی انتخابات میںلکش دیپ حلقہ سے جنتادل متحدہ کا امیدوارمحض ۷۱؍ ووٹوں سے کامیاب ہوا تھا۔ کرناٹک کے رائچور حلقے سے کانگریس کے امیدوار وینکٹیش نائیک کو  ۵۰۸؍ اور کیرل کے مواتوپوزھا حلقے سے ایڈوکیٹ پی سی تھومس کو ۵۲۹؍ ووٹوں سے کامیابی ملی تھی۔ کچھ اسی طرح دمن اور دیو میں کانگریس امیدوار دیا بھائی پٹیل ۶۰۷؍ اور یوپی کے چھیل پارلیمانی حلقے سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار شیلندر کمار۶۳۰؍ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ کم ووٹوںسے ہار جیت کے سب سے زیادہ معاملے تمل ناڈو  میں سامنے آئے جس کی وجہ سے وہاں ۲۰۰۴ء  کے پارلیمانی انتخابات کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔جے للیتا کی پارٹی کو کل ۸۵؍ لاکھ ۴۷؍ ہزار ووٹ ملے مگر اسے ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں مل سکی تھی ، اس کے برعکس اس کی حریف جماعت ’ ڈی ایم کے‘ اور ’ ایم ڈی ایم کے‘ کو بالترتیب ۷۰؍ لاکھ ۶۴؍ ہزار اور ۱۶؍ لاکھ ۸۰؍ ہزار ووٹ ملے اور ان دونوں نے ۲۰؍ نشستوں پر قبضہ جمالیا۔ یعنی  بہت معمولی ووٹوں نے فتح و شکست کا راستہ ہموار کیا۔
     ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی  الیکشن میں بارہ بنکی، فیض آباد، امبیڈکر نگر، بہرائچ، قیصر گنج، شراوستی، گونڈہ، ڈومریاگنج، بستی، سنت کبیر نگر اور مہاراج گنج کے پارلیمانی حلقوں میں( جہاں ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے میں الیکشن ہونے جارہا ہے) ۲۵؍ سے ۳۵؍ فیصد ووٹ پانے والے امیدوار کامیاب ہوگئے تھے۔
    مذکورہ دوچار مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا ایک ایک ووٹ کس قدر قیمتی ہے؟ یعنی یہ ایک ووٹ نہ صرف امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر نے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ کا نقشہ بھی ترتیب پاتا ہے۔
    ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ ’’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں  میں سے  ایک ایسی فہرست توبن  ہی سکتی ہے جس  سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا  فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے کہ زیادہ برے شخص کو منتخب ہونے سے روکا جائے...... تو پھر معاف کیجئے ، ہمیں یہ کہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہمارے حکمراں اچھے نہیں ہیں یا  یہ کہ وہ غیر ذمہ دار ہیں۔
      دو دن بعد  پولنگ ہے۔ یعنی ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمارا حکمراں کون ہوگا؟کہنے کو تو یہ دن امیدواروں کے امتحان کا ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ امتحان رائے دہندگان کیلئے ہے۔ امیدوار ہارے یا جیتے،  دو چار دن یا بہت ہواتو ایک دو مہینے اس کا تذکرہ ہوگا لیکن رائے دہندگان کے شعوراور  بے شعوری کی باتیں پورے پانچ برسوںتک ہوتی رہیںگی۔بلاشبہ اس معاملے میں اتر پردیش کے رائے دہندگان کی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹنگ کرتے ہیں، لیکن جس قدر شعور کا مظاہرہ ہونا چاہئے، نہیں ہورہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو  ۴۰۳؍رکنی اسمبلی میں کم از کم ۷۵؍ مسلم اراکین ہوتے۔
    یہاں ایک سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا ووٹ کسے دیں؟ اس سلسلے میں ہمارا خیال ہے کہ سیاسی جماعت کے بجائے ہم امیدوار دیکھ کر ووٹ دیں.... ویسے بھی یوپی کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں آزمائی جاچکی ہیں۔آپ نے کانگریس کا دورِ اقتدار دیکھا ہے، سماجوادی اور بی ایس پی کو بھی مسند ِاقتدار تک پہنچایا ہے ، بی جے پی کا رام راج بھی دیکھ لیا ہے اور ان تمام جماعتوں کے ساتھ اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کو شریک اقتدار دیکھا ہے۔آزادی کے بعد کی گزشتہ ۶۰؍سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو شدیدمایوسی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہمارے حلقے میں جو امیدوار سب سے بہتر ہو،بلا لحاظ سیاسی جماعت اسے اپنا نمائندہ بنائیں۔ یوپی  میں مسلمانوں کی آبادی کم از کم۲۵؍ فیصد ہے لیکن آزادی کے بعد سے آج تک کسی جماعت نے کسی مسلم کو وزیراعلیٰ بنانے  کے بارے میں نہیں سوچا۔ ایسا اسلئے نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہم نے اپنی اہمیت اچھی طرح جتائی ہی نہیں۔
     جیسا کہ بالائی سطروں میں یہ بات آچکی ہے کہ ہمارے ووٹوں کی قدروقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام یا بلدیو سنگھ کی ہوسکتی ہے لیکن .... مگر افسوس کہ بحیثیت ووٹر ہماری وہ حیثیت نہیں ہے جو ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ پولنگ کے دن گھروںسے نکلنے اور پولنگ بوتھ تک جانے میں ہماری تساہلی اور غفلت ہے۔جس دن سیاسی جماعتوں کو ہم نے یہ باور کرادیا کہ آپ کی قسمت ہمارے ہاتھوں میں ہے.....یقین جانئے  وہ ہمارے اشاروں کی محتاج ہوجائیں گی۔ حالات کامشاہدہ کریں تو ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں سکھوں کے ایک اشارے پر کانگریس نے یقینی طور پر منتخب  ہوجانے والے اپنے ۲؍ ا ہم امیدواروں جگدیش ٹائٹلر اور سجن کمار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا ..... اس کے برعکس ہم لاکھ چلاتے رہے اور اپنے مطالبات پیش کرتے رہے لیکن ہمارے ان مطالبوں کو ہماری حکمراں جماعتوں نے جوتوں کی نوک پر ہی رکھا ۔ وہ خواہ مہاراشٹر کی کانگریس این سی پی حکومت ہو، مغربی بنگال کی کمیونسٹ اور ترنمول کی یا پھر بہار اور یوپی کی لالو، نتیش، ملائم اور مایاوتی کی حکومتیں رہی ہوں..... یعنی ہم ابھی تک سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرانے میں ناکام ہی رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ تمہاری فتح و شکست کا ضامن ہے ۔
     یقین جانئے، سیاسی جماعتوں کو ہم بھی اپنے اشاروں کا محتاج بنا سکتے ہیں، لیکن یہ اسی  دن ممکن  ہوگا  جس دن ہم انہیں یہ احساس دلاپانے میں کامیاب ہوںگے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پھر دیر کس بات کی ہے.... جب جاگے تب سویرا کے مصداق، دو دن بعدیعنی۸؍فروری کو  زیادہ سے زیادہ پولنگ کرکے ثابت کردیجئے کہ ہم ایک بیدار قوم ہیں لہٰذا ہمیں نظر انداز نہیں کیا جاناچاہئے ....... اُٹھو، بیدار ہوجاؤ،دیکھو! پولنگ بوتھ آپ کا انتظار کررہا ہے۔