Saturday 11 August 2012

Har haath men mobile phone

ملک کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے حکومت کا نیا نعرہ
روٹی نہیں، موبائل لو

مرکزی حکومت نے ایک منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت  ۷؍ ہزار کروڑ روپے خرچ کرکے وہ ملک کے غریبوں کو موبائل فون دے گی۔کیا یہ ان غریبوں کے ساتھ بیہودہ مذاق نہیں ہے جو  دو وقت کی روٹی، پینے کے صاف پانی اور بیماری میں دواؤں کیلئے بھی ترستے  ہیں؟

قطب الدین شاہد
 
چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا........ ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہےگا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے، چنئی جا....‘‘۔
    کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت کا  ہے۔ عوام کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’ روٹی کیوں؟ یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں ، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلیٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔ عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتے ہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ، یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیر بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال ۶۲؍ ہزار کے مقابلے امسال ایسے لوگوں کی تعداد ۸۱؍ ہزار ہوگئی ہے، جن کی ملکیت  ۲۵؍ روپوںسے زائد ہے‘‘۔
    ہماری حکومت اعداد و شمار کے بل پرچلتی ہے۔حقیقت کچھ بھی ہو، کاغذ پر ترقی نظر آنی چاہئے۔یہ بیہودہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنےوالوں کو غریب تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے، اسی ملک میں حکومت ۲۰۰؍  روپے مہینے کے ٹاک ٹائم کے ساتھ مفت موبائل فراہم کرنے پر غور کررہی ہے۔ آخرحکومت کو کس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ بھوک سے روتے بلکتے بچے موبائل کے رِنگ ٹون سن کر خاموش ہوجائیں گے  اوراطمینان سے نیند کی آغوش میں چلے جائیںگے۔اس ملک میں جہاں کی ۳۷؍ فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے  زندگی گزارتی ہے یعنی ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی ، اس ملک میں موبائل فون عام کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ موبائل کمپنیوں کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔عوام کی فلاح کے نام پر عوام کے خزانے سے یہ ۷؍ ہزار کروڑ روپے بڑی آسانی سے موبائل کمپنیوں کی جیب میں چلے جائیںگے۔ بالکل اسی طرح جیسے پینے کے پانی کی فراہمی اور بیماریوںسے نجات کیلئے دواؤں کے چھڑکاؤ کے بجائے مقامی و بلدیاتی انتظامیہ فلائی اوور اور فوٹ اوور بریج کے منصوبے بناتی ہیں اور اسےبآسانی منظورکرالیتی ہیں۔ دراصل ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس طرح کے منصوبوں کی تکمیل میں وارے نیارے کرنے کے  مواقع  زیادہ رہتے ہیں۔
      دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ موبائل ’غریبوں‘ کو فراہم کئے جائیں گے..........اُن غریبوں کو جو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ اگرانہیں موبائل مل بھی جائے تو ان کیلئے اسے چارج کرنا مشکل ہوجائے گا۔شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کو پسند کررہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب  رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصد کسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہیں کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ۱۳؍ برسوں میں قرض کے بوجھ تلے دبے تقریباً ڈھائی  لاکھ کسان خود کشی کرچکے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب  ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے۔ حکومت کوفکرہے تو۱۲۳؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ۸۱؍ ہزار افراد کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہاںبدعنوانی کا پرچم اتنا بلند ہے۔ بدعنوانی کے معاملے میں ۱۸۳؍ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۹۵؍ویں پوزیشن پر ہے۔ ملک کے وسائل سے فیضیاب ہونے کے معاملے میں یہاں عدم مساوات بھی کافی ہے۔ ۱۸۷؍ ممالک کی اس فہرست میں ہمارا مقام ۱۳۴؍ واں ہے۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہم تمام ہندوستانیوں کیلئے روٹی ، کپڑا ، مکان، صحت اور تعلیم کاانتظام کرنا چاہتے ہیں یا شرح نمو، سنسیکس ، کرکٹ ریکارڈاور اولمپک میڈل کے سہارے خود کوترقی یافتہ بتانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کرکہ ریاست بہار کی ایک خاتون دو وقت کی روٹی کیلئے اپنے بچے کو ایک غیر اوراجنبی شخص کے ہاتھوں فروخت کر نے پر مجبور ہوتی  ہے، جبکہ اسی ملک میں اولمپک میڈل جیتنے کیلئے ملک کے خزانے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لندن اولمپکس کی تیاری پر حکومت نے ۵۵؍ کروڑ ۲۲؍ لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔ گزشتہ دنوںبی سی سی آئی نے کپل دیو کو ڈیڑھ کروڑ کا چیک دیا اور ماہانہ ۳۵؍ ہزار روپے کی پنشن جاری کی۔
    دراصل یہ سب اسلئے ہے کہ ہم خاموش  ہیں۔ہم اپنی حکومت اور اپنے نمائندوں کا احتساب نہیں کرتے، ہم انہیں یہ باور نہیں کراتے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔یقین جانئے یہ لوٹ کھسوٹ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم اپنی بیداری کا اعلان نہیں کریںگے۔

No comments:

Post a Comment