Saturday 14 January 2012

U P election and political parties......

اترپردیش میں رائے دہندگان کو رِجھانے کی کوششیں شروع

تمام  سیاسی جماعتیں پریشان مگر ووٹر ابھی مٹھی کھولنے کو تیار نہیں،چھوٹی جماعتوں کی موجودگی کے سبب  غیر متوقع  نتائج کی امید

قطب الدین شاہد
 
    ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے ملک کی نگاہیں اتر پردیش الیکشن پرمرکوز دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ اب وہ بات نہیں رہی  جو کسی زمانے میں ضرب المثل کی صورت اختیار کرگئی تھی کہ دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر جاتا ہے..... لیکن یوپی  انتخابات کی اہمیت سے انکار پھر بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لوک سبھا میں پہنچنے والے ہر ۶؍ اراکین پارلیمان میں سے ایک کا تعلق  وہیں سے ہوتا ہے۔
    کُل ۷؍ مرحلوں میں ہونے والےانتخابات کا بگل بج چکا ہے۔  ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے کا الیکشن ہوگا اور اس طرح ۳؍ مارچ کو ساتویں مرحلے کے ساتھ اختتام پذیرہوگا۔ اس دوران ۱۲؍ کروڑ سے زائد رائے دہندگان ۴۰۳؍رکنی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کریںگے۔  پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں، بعض جائزے معلق اسمبلی کی بات کررہے ہیں تو بعض  بی ایس پی پر مہربان ہیں  البتہ کچھ ایسے بھی ہیں جوکانگریس کی مدد سے سماجوادی پارٹی کی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔  ویسے انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پر ۶؍ مارچ سے قبل کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہوگی۔ اس انتخاب میں وہ جماعتیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہےبہت پُرجوش ہیں لیکن وہ جماعتیں جو خود اقتدار میں آنے یاکسی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے کام کررہی ہیں، بہت بری طرح بے چین ہیں۔
     لکھنؤ، گونڈہ، بارہ بنکی، بستی، گورکھپور اوراس سے متصل اضلاع میں   جہاں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی کا زور ہے وہیں اعظم گڑھ، مئو اور اس کے قریب کے علاقوں میں مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل  انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ  باغپت، متھرا اور امروہہ جیسے دہلی کے نواحی علاقوں میں اجیت سنگھ کی زور آزمائی انتخابی نتائج کا رخ موڑ سکتی ہے۔ سونے لال پٹیل کی اپنا دل اور امر سنگھ کی راشٹریہ لوک منچ جیسی جماعتیں بھی سیاسی مساوات بگاڑنے میں اہم رول اد ا کرسکتی ہیں۔  ان تمام جماعتوں میں راشٹریہ لوک دل کے علاوہ کسی کےپاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی میں آر ایل ڈی کے ۱۰؍ اراکین ہیں اوراس مرتبہ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اُتری ہے۔جہاں تک بڑی جماعتوں کی بات ہے، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اقتدار پر قابض ہونے کی بھر پور کوشش کریںگی لیکن کانگریس اور بی جے پی کی ترجیح اپنا پرفارمنس بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسی کو اقتدار  میں آنے سے روکنے کی بھی  ہوگی۔ بی جے پی جہاں سماجواوی پارٹی کو لکھنؤسے دور رکھنے کا لائحہ عمل ترتیب دے گی وہیں کانگریس کی خواہش ہوگی کہ ہوسکے تو وہ  بی ایس پی کے ہاتھی کوراستے میں ہی کہیں روک لے۔
     مضبوط ووٹ بینک کی وجہ سے بلا شبہ اس مرتبہ بھی مایاوتی کا پلڑا بھاری رہنے کاامکان ہے لیکن وہ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوسکیں گی، اس میں شبہ ہے۔ خود اُن کی گھبراہٹ بتارہی ہے کہ وہ بہت ’پُر امید‘ نہیں ہیں۔دلت ووٹ تو خیر اُن کے ساتھ  ہے لیکن ان کا  سوشل انجینئر نگ والا  وہ فارمولہ جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئی تھیں، اب بری طرح فیل ہوچکاہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو اور مسلم ووٹوں کی بدولت  ۲۰۰۷ء کے  الیکشن میں ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں ۲۰۶؍ نشستیں انہوں نے ضرور حاصل کرلی تھیں لیکن یہ طلسم بہت جلد ٹوٹ گیا ، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں ۸۰؍ لوک سبھا سیٹوں میں بی ایس پی کو محض۲۰؍ نشستوں پرہی اکتفا کرنا پڑا۔ بی ایس پی سپریمو کی پیشانی پر آئی شکنیں ۲۰۰۷ء کے الیکشن سے قبل ملائم سنگھ کے خوف زدہ چہرے کی یاد دلا رہی ہیں جب وہ نٹھاری قتل عام کی وجہ سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ملائم سنگھ کرائم کی بڑھتی شرح کی وجہ سے پریشان تھے اوراسی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو مایاوتی کرپشن  کے سبب فکر مند ہیں۔ وزیراعلیٰ کی پریشانیوں کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ۶؍ماہ میں انہوں نے تقریباً ۲۰؍ وزیروں کو باہر کا راستہ دکھایا ہے اور اس طرح اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں جو بدعنوانی کے سبب گزشتہ ۴؍ برسوں میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
    کلیان سنگھ اور امرسنگھ سے چھٹکا راپانے نیز اعظم خان کو دوبارہ اپنے ساتھ لے آنے میں کامیاب ملائم سنگھ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی طرف پُر امید نگاہوںسے دیکھ رہے ہیں..... مختلف دروازوں پر دستک دینے کے بعد ملائم سنگھ کو شاید اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مسلم رائے دہندگان کا اعتماد بحال کئے بغیر وہ لکھنؤ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوسکیںگے۔  یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں نے ہنوز انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے اور یہی بات کانگریس کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہے۔  بی ایس پی سے اقتدار چھیننے میں سماجوادی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب جہاں اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس ہے وہیں پیس پارٹی، علماء کونسل ، اپنا دل اور امرسنگھ کی لوک منچ  بھی اُسے کم نقصان نہیں پہنچائیںگی۔  مشہور سرجن ڈاکٹر ایوب کی پارٹی ابھی نوزائیدہ ہے اور یہ اس کا پہلا اسمبلی الیکشن ہے لیکن ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن اوراس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیس پارٹی نے جس طرح کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۲۱؍ پارلیمانی نشستوں پر پیس پارٹی نے قسمت آزمائی کی تھی، سیٹیں تو ایک بھی ہاتھ نہیں آئیں لیکن ۴ء۵؍ فیصد ووٹ لے کر ۱۸؍ اسمبلی نشستوں پر اپنی برتری درج کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ پیس پارٹی کی جانب سے فی الحال ۲۳۰؍ اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا گیاہے۔ اسی طرح کرمی ووٹوں کی ایک مضبوط دعویدار اپنا دل بھی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں ہے لیکن ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ۱۰ء۴۹؍ فیصد ووٹ لے کر اس نے کئی اہم امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روک دیا تھا، جس میں بیشتر سماجوادی پارٹی کے ہی تھے جبکہ ۲۰۰۲ء کے اسمبلی الیکشن میں اسے ۱۰؍ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
    بدعنوانی کی علامت بن گئے بی ایس پی  کے برطرف وزیر بابو سنگھ کشواہا کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے  بی جے پی کچھ اس بری طرح  سے پھنس گئی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا اُسے کوئی راستہ ہی نہیں سجھائی دے رہاہے۔ کشواہاہندوستانی تاریخ کے شایدایسے واحد لیڈرہیں جنہیں ان کی جماعت (بی جے پی) نے ان کے ’بے گناہ‘ ثابت ہونے تک معطل کررکھا ہے۔ اس طرح کی عجیب و غریب معطلی اس سے قبل   دیکھی گئی تھی، نہ ہی کہیں سنی گئی تھی۔ ان حالات میںبی جے پی کا چوتھے نمبر پر رہنا تقریباً طے مانا جارہا ہے۔کچھ اُلٹ پھیر ہوجائے تو مزید پیچھے جاسکتی ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کی پوری کوشش سماجوادی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی  ہوگی، اس لئے جہاں بھی اسے موقع ملے گا، خاموشی سے بی ایس پی کی مدد کرنا چاہے گی۔
    گزشتہ انتخابات کے مقابلے کانگریس نے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنالی ہے لیکن ۱۹۸۹ء سے قبل کی پوزیشن بحال ہوجائے گی، اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ راہل گاندھی اور دگ وجے سنگھ اپنی بساط بھر کوشش تو کررہے ہیں لیکن اس سے کچھ بہت زیادہ فرق  پڑنے والا نہیں ہے۔ دلتوں سے ہمدردی جتانے کا کام جہاں راہل گاندھی کررہے ہیں وہیں مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کی کمان دگ وجے سنگھ نے سنبھال رکھی ہے ۔لیکن اگریہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپنے اپنے محاذ پر دونوں ناکام ہیں۔ دگ وجے سنگھ سمجھتے ہیں کہ بٹلہ  محض ہاؤس انکاونٹر کو جعلی قرار دے دینےسےمسلمان ان کےساتھ  آجائیں  گے تو راہل کی یہ خام خیالی ہے کہ دلتوں کے گھر جاکر وہ انہیں اپنا ہمنوا بنالیںگے۔حالانکہ کسی نے یہ بات مذاقاً کہی ہے مگر  اس میں پوشیدہ طنز کی نشتریت کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یوپی کے دلت بیچارے اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ بڑی کوششوںسے وہ جو ۲؍ روٹی کا انتظام کرپاتے ہیں، راہل گاندھی کھا کرچلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ  ۲۰۰۹ء  کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اسمبلی میں بھی وہ وہی تاریخ دوہرا پائے گی، اس کی امید کم ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی کوشش  بی ایس پی کواقتدار سے بے دخل کرنے کی ہوگی، اس کیلئے وہ سماجوادی کو سہار ا بھی دے سکتی ہے تاکہ ترنمول پراس کاانحصار کم ہوجائے۔
    ویسے جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آئیںگی، حالات میں مزید تبدیلیوں کاامکان ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

Thursday 12 January 2012

Lok pal and political parties

سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

لوک پال بل پر لوک سبھااور راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح کی ہنگامہ آرائی کی،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بہت زیادہ خوف زدہ ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہتیں یہ بل منظور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ۴۳؍ برسوںسے یہ بل التوا میں ہے اور پتہ نہیں کب تک رہے؟ 

قطب الدین شاہد
 
  بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک بار پھر لوک پال بل کے ٹھنڈے بستے میں چلے جانے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ لوک سبھا میں بل کی لولی لنگڑی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی اور جس کمال ہوشیاری کے ساتھ اسے ’ٹھکانے‘ لگایاگیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں  ہے۔بظاہر تو سبھی اس کی حمایت میں بول رہی ہیں لیکن ..... عملاً کوئی بھی اس کے حق میں نہیں،سبھی  اس سے نجات پانا چاہتی ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہوا، اس کی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ کی نہیںتھی۔  اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کہیں لوک پال کا انجام بھی خواتین ریزرویشن بل جیسا نہ ہو۔ بل کی آئینی حیثیت نہ ہونے اور راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ کی نوبت نہ آنے کیلئے کانگریس بی جے پی پر الزام لگارہی ہے اور بی جے پی کانگریس پر، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں دونوں کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہیں لیکن.....کیا یہی سچ ہے؟ یا اس بظاہر سچ کے پیچھے کوئی اور سچائی بھی ہے؟ 
    سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے  ایک سرسری نظرلوک پال کی تاریخ پر  بھی ڈالتے چلیں۔لوک پال سنسکرت لفظ سے بنا ہے جس کے لفظی معنی ہوتے ہیں عوام کا محافظ۔  یہ ایک ایسے عہدے کی تشکیل کا معاملہ ہے جسے سویڈن میں ’اومبڈس مین‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔سویڈن نے اسے ۱۸۰۹ء میں متعارف کرایاتھا جس کا کام شکایت موصول ہونے کی صورت  میں بدعنوانوں پر شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بدانتظامی پر بھی نظر رکھنا تھا۔ تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ اومبڈس مین آج دنیا کے مختلف ملکوں میں الگ الگ ناموںسے جاناجاتا ہے۔ سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک  اور ناروے میں اومبڈس مین کی شناخت اسی نام سے ہے جبکہ برطانیہ میں اسےپارلیمنٹری کمشنر کا نام دیا گیا ہے جو صرف اراکین پارلیمان کی جانب سے موصول ہونے والی شکایتوں کی  سماعت کرسکتا ہے۔  
    وہ ۶۰؍ کی دہائی تھی جب وطن عزیز میں کرپشن کی دخل اندازی کی شدت محسوس کی گئی۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے حکومت نے ۱۹۶۶ء میں پہلا ایڈمنسٹریٹیو ریفارمس کمیشن (اے آر سی) تشکیل دیا جس نے ۲؍ سطحی مشینری تشکیل دینے کی سفارش کی۔  اس سفارش کے تحت مرکز میں لوک پال اور ریاستوں میں لوک آیکت کا قیام تھا۔ سفارش منظور کی گئی اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۸ء میں اسے چوتھی لوک سبھا میں پیش کیا گیا،جہاں اُسے  ۱۹۶۹ء میں منظوری بھی مل گئی ..... مگر راجیہ سبھا میں یہ بل پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔ دریں اثنا لوک سبھا تحلیل کردی گئی اور اس طرح لوک پال بل اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس بل نے کئی بار ایوان کا منہ دیکھا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اسے گلے لگا کر اس کا خیر مقدم کرنے کے بجائے افسر شاہوں کی طرح اس بل کو اِس ٹیبل سے اُس ٹیبل تک دوڑانے اور اس بہانے عوام کو الجھائے رکھنے کا کام کیا ۔دوسری بار ۱۹۷۱ء اور پھر بالترتیب ۱۹۷۷ء، ۱۹۸۵ء،۱۹۸۹ء، ۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء ،  ۲۰۰۵ء اور  ۲۰۰۸ء میں اسے ایوان میں پیش کیا گیا۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران ہندوستان کی تقریباً تمام اہم سیاسی  جماعتوں  نے اقتدار کے مزے لوٹے لیکن اس بل کو  پاس نہیں ہونا تھا، نہیں ہوا۔ جب بھی اس بل کو ایوان میں پیش کیا گیا ، اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کردیا گیا یا پھر ’نظر ثانی‘ کے بہانے وزرات داخلہ  کی محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس مرتبہ انا ہزارے کی تحریک کی وجہ سے امید ہوچلی تھی کہ اسے قانونی حیثیت مل جائے گی، مگر افسوس ! کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر سیاسی داؤ پیچ میں عوام کوالجھا دیا گیا۔ قارئین جانتے ہیں کہ کچھ اسی طرح کا حشرخواتین ریزرویشن بل کابھی ہوا تھا۔
    لوک پال بل کا انجام دیکھ کر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کی منظوری اور اس طرح اپنے اوپر کوئی محتسب نہیں چاہتیں۔ ملاحظہ کریں سیاسی جماعتوں کے مطالبات اور اپنا سر دُھنیں۔ بی جے پی کہتی  ہے کہ وہ  لوک پال کی خواہش مند ہے لیکن اس بل کی نہیں جو حکومت نے پیش کیا ہے بلکہ ایک ’ مضبوط‘ لوک پال بل چاہتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا مطالبہ بایاں محاذ، آر جے ڈی ، سماجوادی اور بی ایس پی نے بھی کیا ہے۔ ترنمول بھی لوک پال کی ’مخالف‘ نہیں ہے لیکن موجودہ بل کے تئیں اس کی رائے بھی اچھی نہیں ہے۔ کانگریس نے بی جے پی پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اسے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ اس نے لوک پال کو ’مضبوط‘ نہیں ہونے دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سبھی ’مضبوط‘ لوک پال بل کیلئے ’کوشاں‘ اور اس پر’ متفق‘ ہیں تو لوک پال مضبوط کیوں نہیں ہوپارہا ہے۔ راجیہ سبھا کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کرتے وقت حکومت نے کہا کہ ترمیمات کیلئے اسے ۱۸۷؍ نوٹس موصول ہوئے ہیں، جس کے مطالعہ میںکافی وقت لگے گا۔ اس ’کافی وقت‘ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کی موجودہ میعا د میں یہ کام ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟.... صرف ۴۳؍ سال۔  ملائم سنگھ یادو نے لوک سبھا میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا  بھی کہ ’’ اس بل میں بہت خامیاں ہیں،جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت نے انا کے خوف سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
    ملائم سنگھ کی اس ’جلد بازی‘ سے متعلق ایک لطیفہ سنا کر ہم اپنی بات ختم کرنا چاہیںگے۔ ایک شخص نے اپنی شادی کے موقع پر ایک ٹیلر کو کوٹ کی سلائی کا آرڈر دیا تھا جو وقت پر تیار نہیں ہوسکا۔ شادی کے دن تھوڑی سی ہنگامہ آرائی ہوئی، دولہے کے گھر والے اور ٹیلر کے مابین’ توتو میں میں ‘ ہوئی اور بات ختم ہوگئی۔ وقت نکل گیا تو دونوں بھول گئے۔ ۳؍ سال بعد دولہے کے بعد یہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ ولیمہ میں کوٹ نہیں پہن سکا تو سوچا عقیقے میں پہن لوں، لہٰذا پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا۔ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ ایک ہفتے میں سِل دے گا مگر حسب سابق تیار نہیں ہوسکا۔  فریقین میں ایک بار پھر بحث مباحثہ ہوا.... اور اس طرح  ایک بار پھر بات آئی گئی اور ختم ہوگئی۔ اس شخص کو کوٹ کی یاد اُس وقت آئی جب بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ اس نے سوچا کہ چلو میں نہیں پہن سکا ، تو میرا بیٹا ہی پہن لے۔ وہ ایک بار پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا اور اس مرتبہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لے کر گیا۔ ٹیلر نے پھر وعدہ کرلیا اور کہا کہ اس کے پاس کام تو بہت ہے مگر وہ اس کوٹ کواس بار ضرور سل  دے گا..... مگر وہ وقت آیاتو ایک بار پھر کام ادھورا تھا۔ جب دونوں میں بحث تیز ہوئی تو گھر کے اندر سے ٹیلر کی بہو نے اپنے خسر کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’کتنی بار آپ سے کہا  ہےکہ ارجنٹ کام مت لیا کرو‘‘۔
    کچھ یہی صورتحال ہمارے لوک پال بل کی بھی ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہی ہمیں اس کی یاد آتی ہے ورنہ ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اوراس کی اتحادیوں کو یہ کام ’ارجنٹ‘ لگتا ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں ہماری خاموشی کابھی   دخل ہے۔ دراصل یہ ہماری بے حسی کا مذاق ہے۔کیا ہم اس کا نوٹس لینے کی طاقت رکھتے ہیں؟ n