Saturday 14 January 2012

U P election and political parties......

اترپردیش میں رائے دہندگان کو رِجھانے کی کوششیں شروع

تمام  سیاسی جماعتیں پریشان مگر ووٹر ابھی مٹھی کھولنے کو تیار نہیں،چھوٹی جماعتوں کی موجودگی کے سبب  غیر متوقع  نتائج کی امید

قطب الدین شاہد
 
    ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے ملک کی نگاہیں اتر پردیش الیکشن پرمرکوز دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ اب وہ بات نہیں رہی  جو کسی زمانے میں ضرب المثل کی صورت اختیار کرگئی تھی کہ دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر جاتا ہے..... لیکن یوپی  انتخابات کی اہمیت سے انکار پھر بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لوک سبھا میں پہنچنے والے ہر ۶؍ اراکین پارلیمان میں سے ایک کا تعلق  وہیں سے ہوتا ہے۔
    کُل ۷؍ مرحلوں میں ہونے والےانتخابات کا بگل بج چکا ہے۔  ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے کا الیکشن ہوگا اور اس طرح ۳؍ مارچ کو ساتویں مرحلے کے ساتھ اختتام پذیرہوگا۔ اس دوران ۱۲؍ کروڑ سے زائد رائے دہندگان ۴۰۳؍رکنی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کریںگے۔  پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں، بعض جائزے معلق اسمبلی کی بات کررہے ہیں تو بعض  بی ایس پی پر مہربان ہیں  البتہ کچھ ایسے بھی ہیں جوکانگریس کی مدد سے سماجوادی پارٹی کی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔  ویسے انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پر ۶؍ مارچ سے قبل کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہوگی۔ اس انتخاب میں وہ جماعتیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہےبہت پُرجوش ہیں لیکن وہ جماعتیں جو خود اقتدار میں آنے یاکسی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے کام کررہی ہیں، بہت بری طرح بے چین ہیں۔
     لکھنؤ، گونڈہ، بارہ بنکی، بستی، گورکھپور اوراس سے متصل اضلاع میں   جہاں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی کا زور ہے وہیں اعظم گڑھ، مئو اور اس کے قریب کے علاقوں میں مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل  انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ  باغپت، متھرا اور امروہہ جیسے دہلی کے نواحی علاقوں میں اجیت سنگھ کی زور آزمائی انتخابی نتائج کا رخ موڑ سکتی ہے۔ سونے لال پٹیل کی اپنا دل اور امر سنگھ کی راشٹریہ لوک منچ جیسی جماعتیں بھی سیاسی مساوات بگاڑنے میں اہم رول اد ا کرسکتی ہیں۔  ان تمام جماعتوں میں راشٹریہ لوک دل کے علاوہ کسی کےپاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی میں آر ایل ڈی کے ۱۰؍ اراکین ہیں اوراس مرتبہ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اُتری ہے۔جہاں تک بڑی جماعتوں کی بات ہے، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اقتدار پر قابض ہونے کی بھر پور کوشش کریںگی لیکن کانگریس اور بی جے پی کی ترجیح اپنا پرفارمنس بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسی کو اقتدار  میں آنے سے روکنے کی بھی  ہوگی۔ بی جے پی جہاں سماجواوی پارٹی کو لکھنؤسے دور رکھنے کا لائحہ عمل ترتیب دے گی وہیں کانگریس کی خواہش ہوگی کہ ہوسکے تو وہ  بی ایس پی کے ہاتھی کوراستے میں ہی کہیں روک لے۔
     مضبوط ووٹ بینک کی وجہ سے بلا شبہ اس مرتبہ بھی مایاوتی کا پلڑا بھاری رہنے کاامکان ہے لیکن وہ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوسکیں گی، اس میں شبہ ہے۔ خود اُن کی گھبراہٹ بتارہی ہے کہ وہ بہت ’پُر امید‘ نہیں ہیں۔دلت ووٹ تو خیر اُن کے ساتھ  ہے لیکن ان کا  سوشل انجینئر نگ والا  وہ فارمولہ جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئی تھیں، اب بری طرح فیل ہوچکاہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو اور مسلم ووٹوں کی بدولت  ۲۰۰۷ء کے  الیکشن میں ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں ۲۰۶؍ نشستیں انہوں نے ضرور حاصل کرلی تھیں لیکن یہ طلسم بہت جلد ٹوٹ گیا ، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں ۸۰؍ لوک سبھا سیٹوں میں بی ایس پی کو محض۲۰؍ نشستوں پرہی اکتفا کرنا پڑا۔ بی ایس پی سپریمو کی پیشانی پر آئی شکنیں ۲۰۰۷ء کے الیکشن سے قبل ملائم سنگھ کے خوف زدہ چہرے کی یاد دلا رہی ہیں جب وہ نٹھاری قتل عام کی وجہ سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ملائم سنگھ کرائم کی بڑھتی شرح کی وجہ سے پریشان تھے اوراسی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو مایاوتی کرپشن  کے سبب فکر مند ہیں۔ وزیراعلیٰ کی پریشانیوں کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ۶؍ماہ میں انہوں نے تقریباً ۲۰؍ وزیروں کو باہر کا راستہ دکھایا ہے اور اس طرح اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں جو بدعنوانی کے سبب گزشتہ ۴؍ برسوں میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
    کلیان سنگھ اور امرسنگھ سے چھٹکا راپانے نیز اعظم خان کو دوبارہ اپنے ساتھ لے آنے میں کامیاب ملائم سنگھ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی طرف پُر امید نگاہوںسے دیکھ رہے ہیں..... مختلف دروازوں پر دستک دینے کے بعد ملائم سنگھ کو شاید اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مسلم رائے دہندگان کا اعتماد بحال کئے بغیر وہ لکھنؤ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوسکیںگے۔  یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں نے ہنوز انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے اور یہی بات کانگریس کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہے۔  بی ایس پی سے اقتدار چھیننے میں سماجوادی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب جہاں اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس ہے وہیں پیس پارٹی، علماء کونسل ، اپنا دل اور امرسنگھ کی لوک منچ  بھی اُسے کم نقصان نہیں پہنچائیںگی۔  مشہور سرجن ڈاکٹر ایوب کی پارٹی ابھی نوزائیدہ ہے اور یہ اس کا پہلا اسمبلی الیکشن ہے لیکن ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن اوراس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیس پارٹی نے جس طرح کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۲۱؍ پارلیمانی نشستوں پر پیس پارٹی نے قسمت آزمائی کی تھی، سیٹیں تو ایک بھی ہاتھ نہیں آئیں لیکن ۴ء۵؍ فیصد ووٹ لے کر ۱۸؍ اسمبلی نشستوں پر اپنی برتری درج کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ پیس پارٹی کی جانب سے فی الحال ۲۳۰؍ اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا گیاہے۔ اسی طرح کرمی ووٹوں کی ایک مضبوط دعویدار اپنا دل بھی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں ہے لیکن ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ۱۰ء۴۹؍ فیصد ووٹ لے کر اس نے کئی اہم امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روک دیا تھا، جس میں بیشتر سماجوادی پارٹی کے ہی تھے جبکہ ۲۰۰۲ء کے اسمبلی الیکشن میں اسے ۱۰؍ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
    بدعنوانی کی علامت بن گئے بی ایس پی  کے برطرف وزیر بابو سنگھ کشواہا کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے  بی جے پی کچھ اس بری طرح  سے پھنس گئی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا اُسے کوئی راستہ ہی نہیں سجھائی دے رہاہے۔ کشواہاہندوستانی تاریخ کے شایدایسے واحد لیڈرہیں جنہیں ان کی جماعت (بی جے پی) نے ان کے ’بے گناہ‘ ثابت ہونے تک معطل کررکھا ہے۔ اس طرح کی عجیب و غریب معطلی اس سے قبل   دیکھی گئی تھی، نہ ہی کہیں سنی گئی تھی۔ ان حالات میںبی جے پی کا چوتھے نمبر پر رہنا تقریباً طے مانا جارہا ہے۔کچھ اُلٹ پھیر ہوجائے تو مزید پیچھے جاسکتی ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کی پوری کوشش سماجوادی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی  ہوگی، اس لئے جہاں بھی اسے موقع ملے گا، خاموشی سے بی ایس پی کی مدد کرنا چاہے گی۔
    گزشتہ انتخابات کے مقابلے کانگریس نے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنالی ہے لیکن ۱۹۸۹ء سے قبل کی پوزیشن بحال ہوجائے گی، اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ راہل گاندھی اور دگ وجے سنگھ اپنی بساط بھر کوشش تو کررہے ہیں لیکن اس سے کچھ بہت زیادہ فرق  پڑنے والا نہیں ہے۔ دلتوں سے ہمدردی جتانے کا کام جہاں راہل گاندھی کررہے ہیں وہیں مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کی کمان دگ وجے سنگھ نے سنبھال رکھی ہے ۔لیکن اگریہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپنے اپنے محاذ پر دونوں ناکام ہیں۔ دگ وجے سنگھ سمجھتے ہیں کہ بٹلہ  محض ہاؤس انکاونٹر کو جعلی قرار دے دینےسےمسلمان ان کےساتھ  آجائیں  گے تو راہل کی یہ خام خیالی ہے کہ دلتوں کے گھر جاکر وہ انہیں اپنا ہمنوا بنالیںگے۔حالانکہ کسی نے یہ بات مذاقاً کہی ہے مگر  اس میں پوشیدہ طنز کی نشتریت کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یوپی کے دلت بیچارے اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ بڑی کوششوںسے وہ جو ۲؍ روٹی کا انتظام کرپاتے ہیں، راہل گاندھی کھا کرچلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ  ۲۰۰۹ء  کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اسمبلی میں بھی وہ وہی تاریخ دوہرا پائے گی، اس کی امید کم ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی کوشش  بی ایس پی کواقتدار سے بے دخل کرنے کی ہوگی، اس کیلئے وہ سماجوادی کو سہار ا بھی دے سکتی ہے تاکہ ترنمول پراس کاانحصار کم ہوجائے۔
    ویسے جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آئیںگی، حالات میں مزید تبدیلیوں کاامکان ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

No comments:

Post a Comment