Tuesday 17 October 2023

BJP worried about its rebels/ Qutbuddin Shahid

 راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جےپی کی حالت ابتر، کانگریس کے عزائم اور اپنے باغیوں سے پریشان

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
بہت دنوں بعد ایساکچھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ انتخابی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم شروع کر دی  ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی ۹؍ اکتوبر کو پانچ ریاستوں  میں انتخابی شیڈول کااعلان کیا ہے لیکن اس سے بہت پہلے ہی کئی ریاستوں میں امیدواروں کے نام اعلان کئے جاچکے ہیں۔ اس معاملے میں تلنگانہ کی ’بی آر ایس‘  نے دوسری جماعتوں پر بازی مار لی ہے۔ اس نے ڈیڑھ ماہ قبل ۲۱؍ اگست کو ہی ریاست کے  ۱۱۹؍ میں سے ۱۱۵؍ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ دوسرے نمبر پر بی جے پی ہے جس کی جانب سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے کئی انتخابی حلقوں کیلئے امیدواروں کے نام ظاہر کئے جاچکے ہیں لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی میں بغاوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
تاریخوں کے اعلان سے قبل انتخابی مہم کے آغاز کے علاوہ بھی اس بار کے انتخابات میں کئی نئی باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ’پارٹی وِد اے ڈِفرینس‘ کا نعرہ بلند کرنےوالی بی جے پی کو اپنی پارٹی میں نظم و نسق پر بہت ناز تھا لیکن اس مرتبہ سب سے زیادہ بد نظمی بی جے پی ہی میں دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کچھ فرق کے ساتھ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل جیسا سماں نظرآ رہا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ اُس وقت کانگریس کے لیڈران ، بی جے پی کی طرف جا رہے تھے اور اب بی جے پی سے نکل کر لوگ کانگریس میں پناہ لے رہے ہیں۔ ہوا کا رُخ بدل رہا ہے،   یہ صاف  دکھائی دے رہا ہے۔
بی جے پی میں مچی یہ بھگدڑ اور افراتفری کا ماحول کیا صرف ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہے؟ یا اور کوئی بات ہے؟  بات اگر صرف امیدواری کی ہوتی تو ٹکٹوں کے اعلان سے قبل یہ لیڈران پارٹی نہیں چھوڑتے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے کئی بڑے لیڈروں نے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے سے قبل ہی پارٹی چھوڑ دی ہے جبکہ راجستھان میں ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ چھتیس گڑھ  کے ۷۷؍ سالہ سینئر قبائیلی لیڈر’نند کمار سائی‘ نے  بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں جب شمولیت اختیار کی تھی، تب تک بی جے پی کی طرف سے ٹکٹوں کااعلان نہیں کیا گیا تھا۔ تین بار لوک سبھا اور تین بار اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کرنے والے نند کمار سائی چھتیس گڑھ بی جے پی اور متحدہ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔  اسی طرح  مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر سمندر پٹیل نے ۸۰۰؍ گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سمندر پٹیل سے قبل دوسرے کئی لیڈران بھی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں جن میں پرمود ٹنڈن،رام کشور شکلا، دنیش ملہار، وریندر رگھوونشی، بھنور سنگھ شیخاوت،ماکھن سنگھ سولنکی اور گرجا شنکر شرما کے نام قابل ذکر ہیں۔ بی جےپی میں اس بھگدڑ کا آغاز مئی ۲۰۲۳ء میں اُس وقت ہوا تھا جب مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کیلاش چندر جوشی کے بیٹے  دیپک جوشی نے کانگریس جوائن کی تھی۔ انتخابات سے قبل لیڈروں کا پالا بدلنا معمول کی بات ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن لیڈروں کے اس طرح پالا بدلنے ہی سے ، اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی ہوا کس طرف بہہ رہی ہے؟
پانچ ریاستوں کے اس الیکشن میں ایک اور نئی بات دیکھنے کو مل رہی ہے۔  برسوں بعدکانگریس کے رویے میں  ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب وہ دم خم کے ساتھ الیکشن لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسے گزشتہ انتخابات میں بھی کامیابی ملی تھی لیکن اُس کامیابی میں کانگریس کا کردار کم، خود بی جے پی کا کردار زیادہ تھا۔ تینو ں ہی ریاستوں میں کانگریس کو ’حکومت مخالف لہر‘ کا فائدہ ملا تھا لیکن اس بار وہ بات نہیں ہے۔ تین میں سے ۲؍ ریاستوں میں خود کانگریس کی حکومت ہے جہاں اسے ’اینٹی اِن کم بینسی‘ کا سامنا ہے لیکن کانگریس اِن حالات سے قطعی خوف زدہ معلوم نہیں ہوتی۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی کے سامنے کھڑی ہے۔ یہ حوصلہ اسے ہماچل  اور کرناٹک کے انتخابات میں نمایاں کامیابی سے ملا ہے۔ کرناٹک کی جیت کا سب سے زیادہ اثر تلنگانہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں کانگریس پورے فارم میں ہے جبکہ اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی ہے۔ کانگریس کے اس عزم  نے بی جے پی کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اسے اپنی جیت کا سلسلہ رُکتا ہوا  محسوس ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر اب اس کے باغیوں نے پوری کردی ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اس حالت کو کیوں کرپہنچی؟ کیا وہ کمزور ہوگئی ہے؟ کیا  اس کا طلسم ٹوٹ چکا ہے؟ کیا عوام سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں؟ کیا کانگریس کے تئیں لوگوں کا رویہ بدل گیا ہے؟ یا اور کوئی وجہ ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر سوالوں کے جواب ’نہ‘ میں ہیں۔ بی جے پی کمزور نہیں ہوئی ہے اور جب تک اس کے پاس سی بی آئی،  ای ڈی، انکم ٹیکس جیسے محکموں کی باگ ڈور اور ’پی ایم کیئر فنڈ‘ جیسا خزانہ ہے، اس کی کمزوری کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی طرح اس کا طلسم بھی پوری طرح سے نہیں ٹوٹا ہے،اسلئے آخرالذکر دونوں سوالوں کے جواب بھی ’نہ‘ میںملتےہیں۔
اس کے باوجود اگر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اجستھان میں زعفرانی پارٹی  کی حالت دگرگوں ہے تواس کیلئے نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی ذمہ دار ہے جسے پارٹی کو یہاں تک پہنچانےکا کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ دراصل یہ پارٹی پر بالادستی کی جنگ ہے۔ مودی اور شاہ کا ہدف ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی ہے،اس کیلئے انہیں  اسمبلی انتخابات میں ناکامی بھی گوارا ہے۔ یہ بات تھوڑی عجیبضرور ہے لیکن اس پہلوکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں کامیاب ہونے کے بعد بھی لوک سبھا انتخابات میں جیت کی خواہش کی  جاسکتی ہے، پھر ناکامی جیسی صورتحال کیوں پیدا کی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ قطعی نہیں چاہتے کہ راجستھان،  مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں کامیابی کی صورت میں اس کا کریڈٹ کسی بھی طرح سے وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان   اور ڈاکٹر رمن سنگھ کو ملے۔ اس جوڑی کے نزدیک ’مقامی لیڈروں کے سر سہرا بندھے‘ اس سے بہتر ان ریاستوںمیں پارٹی کا ہار جانا ٹھیک ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں یا اس کے بعدان کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے۔ مودی اور شاہ  جانتے ہیں کہ انہیں کنارےلگادینے کے بعد بھی ہار جیت کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں رہنے والا ہے،لہٰذا لوک سبھا انتخابات متاثرنہیں ہوںگے۔ یہی سبب ہے کہ مودی اورامیت شاہ نے تینوں ریاستوں کی ’اعلیٰ قیادت‘ کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ اب انہیں اپنی اپنی ریاستوں سے باہر دیکھنے کی نہ ضرورت محسوس ہورہی ہے، نہ ہی ان میں اس کی جرأت رہ گئی ہے۔
یہ مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ان کی ہرحکمت عملی کامیاب ہی ہو اور ہر بار اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہو۔

Monday 9 October 2023

Caste Survey Opposition and Government / Qutbuddin Shahid

 ذات پر مبنی سروے، اپوزیشن کا ایک تیر سے کئی شکار

خواتین کیلئے ریزرویشن کا شوشہ چھوڑنے  اور جنوری میںرام مندر کے افتتاح کا  اعلان کرکے مودی سرکار بہت خوش اورمطمئن تھی لیکن ان حربوں سے وہ جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتی تھی، وہ اب آسان نہیں رہا، ذات پر مبنی سروے کی رپورٹ سے اپوزیشن نے اس کا سارا کھیل خراب کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ہندوستان میں سیاست کامیدان سماجی خدمت کا شعبہ نہ ہوکر شطرنج کا کھیل ہو گیا ہے جہاں بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پارٹیوں کا نفع نقصان دیکھ کر  چالیں چل رہی ہیں ۔یہاںحکومتی سطح پر ہونے والے فیصلے بھی اکثر سیاسی ہوتے ہیں، جس کے محور و مرکز میں ملک اور عوام نہیں ہوتےبلکہ اپنی پارٹی اور اس کا مفاد ہوتا ہے۔ان فیصلوں سے عوام کا فائدہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ لیکن  مقصدعوام کا فائدہ نہیں ہوتا۔ حالیہ کچھ مہینوں  کے دوران  ملک میںہونے والی سیاسی سرگرمیوں کاجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کس طرح سے شہ اور مات کا کھیل چلا ہے۔
وطن عزیز میں حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن  اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ۲۶؍ جماعتوں  کے اتحاد نے جس دن  اپنے گروپ کا نام ’انڈیا‘ رکھا،اسی دن سے یہ کھیل دلچسپ ہوگیا اور چالیں تیزی کے ساتھ چلی جانے لگیں۔ یہیں سے حکمراں محاذ کی بوکھلاہٹ کا اظہار بھی ہونے لگا۔ مہاراشٹر کی سیاست میں شہ اور مات کا کھیل جاری ہی تھا۔ اسی دوران ’انڈیا‘ اتحاد کی ممبئی میں تیسری میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ پرعوام کی توجہ مرکوز نہ ہو اور اسے میڈیا میں زیادہ کوریج نہ مل سکے،اسلئے مودی حکومت  نے ایک چال چلی اور پانچ روزہ ’خصوصی اجلاس‘ کاا علان کردیا۔اسے مودی سرکار کا ’ماسٹراسٹروک‘ قرار دیا گیا اور پھر اس پر مباحثوں اور قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو گیا۔  اس دوران ’ذرائع‘ سے ملک کو کئی ایجنڈے فراہم کئے گئے جن میں ملک کے نام سے انڈیا کو ختم کرکے صرف بھارت کرنے، ملک میں وَن نیشن ، وَن الیکشن نافذ کرنے، خواتین ریزرویشن بل پاس کرنے، روہنی کمیشن کی سفارشات کو عام کرنے، جی۔۲۰؍کو بڑی کامیابی کے طورپرپیش کرنے  اور اُس وقت کے ای ڈی سربراہ سنجے مشرا کیلئے ایک نئی پوسٹ ’چیف انویسٹی گیشن آفیسر‘ تخلیق کرنے جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔اسی دوران مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں تین وزیروں سمیت ۷؍ اراکین پارلیمان کوامیدوار بنا دیا گیا۔ حکمراں جماعت کا خیال تھا کہ ان چالوں سے اپوزیشن اتحاد سراسیمہ ہوجائے گا اور  ان بھاری بھرکم موضوعات کی آندھی میں اس کی سیاست خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائے گی.... لیکن ایسا نہیں ہوا۔  
ان تمام چالوں پربہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو کی چال بھاری پڑی۔  ذات کی بنیاد پر سروے کرواکروہ پہلے ہی بی جے پی پر سبقت حاصل کرچکے تھے۔  رہی سہی کسر انہوںنے سروے کی رپورٹ پیش کرکے پوری کردی۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ۲۰۲۴ء سے قبل ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جاسکے گی۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین کیلئے ریزرویشن بل پیش کرکے وہ بہت خوش تھی۔اپنی دانست میں اس نے’ملک کی آدھی آبادی کو رام کر کے‘ بڑا تیر مار لیا تھا۔  اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ۵؍  ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں خواتین ریزرویشن کی مدد سے کم از کم ۲؍ ریاستوں (راجستھان اور مدھیہ پردیش) میں  وہ فتح حاصل کرلے گی اور پھر جنوری میں رام مندر کا افتتاح کرکے لوک سبھا انتخابات میں بھی بازی مار لے گی، لیکن ذات پر مبنی سروے رپورٹ نے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ کانگریس سمیت ’انڈیا‘ اتحاد میںشامل تمام جماعتوں  نے اس رپورٹ کی تائید کرکے اور قومی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ کرکے بی جے پی سے دن کا سکون اورراتوں کی نیند چھین لی ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کہہ کر اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ ’’ذات کی بنیاد پر مردم شماری دراصل ملک کا سماجی ایکسرے  ہے۔ اس تعلق سے ڈیٹا آنے کے بعد ملک سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکے گا۔ او بی سی خواتینکی حصہ داری بھی طے ہوگی۔ آبادی کے لحاظ سے اگر سب کو ان کا حصہ دینا ہے تو ذات کی بنیاد پر مردم شماری لازمی ہے۔‘‘
۲۰۱۹ء کے لوک سبھا اور ۲۰۲۲ء کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی جس ۲۰۔۸۰؍ کا فارمولہ استعمال کرکے اقتدار میں آئی تھی، اب وہی فارمولہ اس پر پلٹ گیا ہے۔  وہ ۲۰؍فیصد مسلمانوں کے خلاف ۸۰؍ فیصد ہندوؤں  کو صف آرا کرنا چاہتی تھی لیکن ذات پرمبنی سروے رپورٹ کے آنے کے بعد ۲۰؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کے خلاف جس کی بی جے پی نمائندگی کر رہی ہے،۸۰؍ فیصد پسماندہ طبقات کے ایک ساتھ آجانے کے پورے آثار ہیں اور اسی آثار نے اس کے اوسان خطا کررکھے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رپورٹ میں آخر ایسی کون سے بات ہے کہ خود کوہندوتوا کے ساتھ ہی او بی سی کا چمپئن  سمجھنے والی بی جے پی اتنی زیادہ خوفزدہ ہے؟’سی ایس ڈی ایس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ء  کے لوک سبھا   الیکشن تک بی جے پی کو  ۲۳۔۲۲؍ فیصد او بی سی  ووٹ ملا کرتے تھے لیکن ۲۰۱۴ء میں اسے۳۴؍ فیصد ووٹ ملے  اور ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد  دگنی ہوگئی یعنی اسے ۴۴؍ فیصد سے زائد او بی سی  ووٹ ملے۔ اب وہ یہ سوچ کر خوفزدہ ہے کہ کہیں  اس رپورٹ کے آئینے میں یہ۴۴؍ فیصد لوگ خود کو دیکھنے نہ لگیں۔ ابھی تو صرف اعدادو شمار سامنے آئے ہیں جبکہ ڈیڑھ دو ماہ میں ذات کی بنیاد پر سماج کا معاشی ڈیٹا بھی سامنے آجائے گا۔ بہار کی حد تک ہی سہی، یہ بات سامنے آئے گی کہ کس ذات کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟ کارپوریٹس گھرانوں پر کس ذات کا غلبہ ہے؟ 
زمینوں پر مالکانہ حقوق کس کے ہیں؟  یونیورسٹیز میں کس کی کتنی نمائندگی ہے؟ اعلیٰ افسران اور ارب پتیوں کی تعداد کا تناسب کیا ہے؟پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور منتخب نمائندوں میں کس  ذات کی کتنی نمائندگی ہے؟
  یقینی طور پر ’مین اسٹریم میڈیا‘ میں  اس کا تذکرہ نہیں ہوگاکیونکہ وہاں پر بھی اعلیٰ ذات کا غلبہ ہے ۔ مطلب یہ کہ اس رپورٹ سے میڈیا کی قلعی بھی اُتر جائے گی۔ ڈیٹا سے نظریں چرانے والی  بی جے پی کو ڈراِس بات کا ہے کہ کہیں بحث کا رُ خ اس جانب نہ مڑ جائے کہ ملک کے ۸۴؍ فیصد پسماندہ طبقات کو آخر کب تک پسماندہ رکھا جائے گا اور ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کا ملک کے ۸۰؍ فیصد وسائل پر  یہ قبضہ آخر کب تک رہے گا؟ وہ اس وجہ سے بھی ڈر ی اور سہمی ہوئی ہے کہ کہیں اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ ملک کے وسائل پر پوری طرح سے قابض ان ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کو ’ای ڈبلیو ایس‘ کے تحت ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا حقدار کیوں قرار دیا گیا جبکہ ۶۳؍ فیصد او بی سی کو صرف ۲۷؍ فیصد ہی ریزرویشن حاصل ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ خوف اسے اس بات کا ہے کہ اس  رپورٹ کی وجہ سے کہیں اس کا آزمودہ ’ہندو مسلم‘ نامی  برہماستر ناکام نہ ہوجائے،جس کی وجہ سے وہ ابھی تک الیکشن میں کامیابیاں حاصل کرتی آرہی ہے؟وہ اسلئے کہ اس سروے میں مسلمانوں کی آبادی کوبھی او بی سی اور اعلیٰ ذاتوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے....  ایسا کرکے نتیش اور تیجسوی نے اس غبارے کی ہوا نکال دی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ملک میں ہندوتوا کی سیاست پرواز کرتی رہی  ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوری میں بی جے پی کی رام مندر کے افتتاح کی چال کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ کیونکہ گمان غالب ہے کہ اسی دوران نتیش اور تیجسوی ذات پرمبنی سروے  کے بعد اس کا معاشی اور سماجی ڈیٹا جاری کریں گے اور بہت ممکن ہے کہ یہی وہ وقت ہو جب ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اقتدار والی ریاستوں میں ذات کی بنیاد پر سروے کاحکم نامہ جاری کردیں۔گویا ذات پر مبنی سروے کو موضوع بحث بنا کر اپوزیشن نے نہ صرف ہندوتوا کی سیاست کی دھار کند کردی ہے بلکہ 
ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔

 ذات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن سے متعلق اہم نکات

nہندوستان میں ۱۸۸۱ء سے ہر دس سال پر باقاعدہ مردم شماری ہوتی  رہی ہے۔ اس میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری بھی شامل ہے۔ ۱۹۳۱ء  میں ہونے والی مردم شماری کے بعد سے ذات کا کالم ہٹا دیا گیا۔
nآزادی کے بعد ایس سی /ایس ٹی کی الگ سے مردم شماری ہوتی رہی ہے، لیکن اس میں بھی ان کی ذاتوں کی نشاندہی نہیں کی گئی بلکہ اس کی تمام ذاتوں کو ’ایک‘ مان کر ان کی آبادی کا شمار کیاگیا۔ 
nایک اندازے کے مطابق ملک میں ۴؍ ہزار سے زائد ذاتیں ہیں۔
nایس سی ایس ٹی کے بعد دیگر پسماندہ ذاتوں کی نشاندہی کیلئے ۱۹۵۳ء میں ’کاکا کالیلکر‘ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ایک فہرست تیار کی اور اسے’او بی سی‘ کا نام دیا۔ کمیٹی نے اس کیلئے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن دینے کی بھی سفارش کی۔
nمرکز نے اُ س وقت اس رپورٹ پرعمل نہیں کیا البتہ تمل ناڈو اورآندھرا پردیش جیسی کچھ ریاستوں میں اسے کچھ حد تک نافذکیا گیا۔
nملک میں ۱۹۷۷ء میں پہلی غیر کانگریسی حکومت تشکیل پائی توایک بار پھر یہ مطالبہ زورپکڑا۔ اس طرح ۱۹۷۸ء میں بہار کے سابق وزیراعلیٰ بندیشوری پرساد منڈل کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بتایا کہ ملک میں او بی سی کی آبادی ۵۲؍ فیصد ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب ۱۲ء۵؍ فیصد اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں صرف ۴ء۷؍ فیصد  ہے۔ آبادی سے متعلق جانکاری کیلئے انہوں نے بھی ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے ڈیٹا ہی سے استفادہ کیا تھا۔
nانہوں نے او بی سی کیلئے تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں۵۲؍ فیصد او بی سی آبادی کیلئے۲۷؍ فیصد ریزرویشن کی سفارش کی۔ ۲۷؍ فیصد پرمحدود کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل ایس سی کو ۱۵؍ فیصد اور ایس ٹی کو ۷ء۵؍ فیصد  ریزرویشن دیا جارہا تھا اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا تھا۔
nاس سے قبل ۱۹۶۲ء میں’ ایم آر بالا جی بنام اسٹیٹ آف میسور‘ کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ ۵۰؍ فیصد کی حد مقرر کی تھی۔
nاس فیصلے کو ۱۹۹۲ء میں ’اندرا ساہنی‘ معاملے میں سپریم کورٹ کی ایک ۹؍ رُکنی بنچ نے بھی توثیق کردی تھی۔اس کے بعد   ریزرویشن کے معاملے پراکثراسی ۵۰؍ فیصد کی حد سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔
 nلیکن ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن سے قبل مرکزی حکومت نے اعلیٰ ذاتوں کیلئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا راستہ ہموار   کرتے ہوئے ’ای ڈبلیو ایس‘ کا قانون متعارف کرایا۔ اس طرح قانون  سازی کے ذریعہ۵۰؍ فیصد کی حد (صرف ایک معاملے میں) توڑ دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی سے اب اس حد کو قانون سازی کے ذریعہ پوری طرح سے ختم کئے جانے کا    مطالبہ کیا جارہا ہے اور اس کیلئے ’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘ کا مطالبہ کیاجارہاہے۔

Monday 2 October 2023

Wali Rahmani a courageous young man who dreams and sacrifices his sleep for the children of the nation/ Qutbuddin Shahid

 ولی رحمانی 

قوم کے بچوں کیلئے خواب دیکھنے  اور اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کرنے والا حوصلہ مند نوجوان

قطب الدین شاہد

shahid.qutbuddin@mid-day.com


کلکتہ  کےایک خوشحال اور متمول گھرانے سے تعلق رکھنے  والا ۱۷؍ سال کا ایک نوعمر ایک خواب دیکھتا ہے۔ ایک بڑا خواب، ایک ایساخواب جو اسے بے چین کردیتا ہے۔ یہ خواب وہ اپنے لئے نہیں، قوم کے بچوں کیلئے دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کردیتا ہے۔  اس نوعمر کا نام ولی رحمانی ہے۔  وطن عزیز میں عام طور پر یہ عمرکھانے اور کھیلنے کی قرار دی جاتی ہے۔ کوئی لڑکا اگر بہت زیادہ ذمہ دار رہا تو اسے اپنے کریئراور اپنے والدین کے ارمان کی فکرستاتی ہے، جس کیلئے وہ محنت کرتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کردیتا ہے۔

لیکن ولی رحمانی ان لڑکوں اور نوجوانوں  سے کچھ مختلف ہے۔ اس نوجوان کا عزم اس کی عمر سے کہیں زیادہ جوان اور اس کا حوصلہ اس کے قد سے کئی گنا زیادہ بلند ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تو آج کی نسل اس بات پر فخر کرے گی کہ اس نے سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کا دور تو نہیں دیکھا لیکن ہمارے ان  اکابرین نے مسلمانوں  سے جس رُخ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس پر چلنے والے نوجوان ولی رحمانی کا دور دیکھا ہے۔

ولی رحمانی کی عمر اب ۲۲؍ سال ہوگئی ہے،اسی سال انہوں نے ’جامعہ ہمدرد‘ سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک ویڈیو   بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے قوم  سے قوم کیلئے فنڈ کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کے بعد محض ایک ہفتے میں انہیں ساڑھے پانچ کروڑ روپے مل گئے۔ ان کا ٹارگیٹ ۱۰؍کروڑ روپوں کا تھا لیکن محض ایک ہفتےمیں ملک کے طول و عرض سے کسی ایک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ دوسرے اکاؤنٹس سے پیسوں کی منتقلی ایک نئی اور غیر معمولی بات تھی۔ اس کی وجہ سے پورا بینک اَلرٹ ہوگیا، ’اے آئی‘ بھی حرکت میں آئی اور اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کے تمام ذرائع مسدود کردیئے گئے۔ 

انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ولی رحمانی نے بتایا کہ اس کے بعد بینک  کے ذمہ داران نے ہم سے رابطہ قائم کیاتو ہم نے انہیں اپنی اپیل اور اپنے پروجیکٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ انہوں نے زیر تعمیر اسکول کی جگہ کا دورہ کیا او ر ساری روداد سن کر متاثر بھی ہوئے۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ مستقبل میں وہ ’کارپوریٹ سوشل رسپانس بلیٹی ‘ (سی ایس آر ) فنڈ کی سفارش بھی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ اکاؤنٹ میں رقموں کی منتقلی کے ذرائع بلاک کردیئے گئے تھے، جو فوری طورپر ’اوپن‘ نہیں ہوسکتے تھے،اسلئے دوسرا اکاؤنٹ کھولنا پڑا۔ اس اکاؤنٹ میں بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے آچکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طورپر ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے ہیں۔ان کا پروجیکٹ بہت بڑا ہے لیکن وہ فی الحال ۲؍ ایکڑ زمین پر ایک اسکول بلڈنگ، لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ ہوسٹل اور کھیل کا میدان بنانا چاہتےہیں، جہاں اسلامی ماحول میں عالمی معیار کی تعلیم کا انتظام ہوسکے۔

۱۷؍ سال کے ایک لڑکے کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی؟ اس راہ پر وہ آگے کیسے بڑھا؟ اس راستے میں اسے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟ اسے حوصلہ کہاں سے ملا؟ ان سارے سوالوں کا جواب انہوں نے نہایت اطمینان سے دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بات ۲۰۱۸ء کی ہے جب میں دہلی کے ایک انٹرنیشنل اسکول میں بارہویں جماعت کا  طالب علم تھا۔ ذاتی طورپر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں اپنی کار میں ہیٹرلگا کر سردیوں کا بہ آسانی مقابلہ کر رہا تھا لیکن دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے جب میں سردیوں میں ٹھٹھرتے اور اپنی ماؤں کی گود میں دُبکتے ہوئے بچوں کو دیکھتا تو نظریں چرانی پڑتی تھیں۔ میں انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا لیکن میرے پاس انہیں اس ’عذاب‘ سے باہر نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ اسلئے میں نظریں پھر لیتا تھا۔ ان کی غربت پر مجھے ترس آتاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری طرح یہ بھی تعلیم حاصل کریں  اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے حصہ دار بنیں لیکن غریبوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔ پھراچانک خیال آیا کہ سب نہیں تو کم از کم  ۱۰؍ بچوں کی کفالت تو کر ہی سکتا ہوں۔ اس کے بعد ۲۰؍ سال کی عمر میں ۱۰؍ یتیم بچوں کا ’باپ‘ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ ان ۱۰؍ بچوں پر ۲۰۔۱۵؍ سال تک محنت کروں گا، انہیں تعلیم دلاؤں گا اور سماج میں قابل ذکر مقام دلانے کی کوشش کروں گا اور پھران کے ساتھ مل کر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کروں گالیکن بچوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ۱۰؍ سے ۱۱؍ ہوئے، پھر ۱۳۔۱۲؍ ہوتے ہوئے ۲۰؍ تک پہنچے۔ میں انہیں منع نہیں کرسکا۔ اس کے بعدہم نے باقاعدہ اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں آج ۳۰۰؍ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ۱۵۰۰؍ بچے داخلے کے منتظر ہیں۔‘‘  

ولی رحمانی  نے بتایا کہ جب اس مہم کا خاکہ ہم نے اپنے اہل خانہ کے روبرو پیش کیا تو سب سے پہلے میری والدہ نے میری حوصلہ افزائی کی اوربطور فنڈ انہوں نے ۵۰؍ہزار روپے کی رقم عنایت کی۔ اس کے بعد میرے گھر کی ایک ملازمہ نے ۵۰۰؍ روپے دیئے۔ خاندان اور احباب کی کچھ اور خواتین بھی آگے آئیں، کسی نے اپنی انگوٹھی دی تو کسی نے کچھ اور بیچ کر رقم فراہم کی.... اور اس طرح میرے حوصلے کو مہمیز ملی۔‘‘ کاغذات اور دستاویزات کے مرحلے پر ولی رحمانی نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے چیریٹی کمشنر میں ٹرسٹ کے رجسٹریشن کے ساتھ ہی انکم ٹیکس محکمے سے بھی ادارے کو رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ اسی طرح ادارے کیلئے پین نمبر، ۸۰؍ جی اور سی ایس آر نمبر بھی حاصل کرلیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج یہ نوجوان نہ صرف قوم کیلئے ایک بڑی امید بن کرسامنے آیا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کا رول ماڈل بھی بن گیا ہے۔ 

  یہاں تک پہنچنے کیلئے ولی رحمانی کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ عمر کے اس مرحلے پرجبکہ لوگ اپنے کریئر کے تئیں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو ایک سال کیلئے موخر کردیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے’الہادی ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کی تشکیل کی اوراس کے تحت ’امیداکیڈمی‘ قائم کی ، جہاں آج ۳۰۰؍ غریبوں کے بچے امیروں جیسی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہاں ’اسمارٹ کلاسیز‘ میں سی بی ایس ای  بورڈ کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں فی الحال نرسری سے ششم جماعت تک تعلیم  کا نظم ہے جو’ فطری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ چند برسوں میں بارہویں جماعت تک پہنچ جائے گا۔  انہوں نے بتایا کہ ’’ان کے تمام کلاسیز جدید ٹیکنالوجی  سے ہم آہنگ ہیں جہاں آئندہ  برسوں میں اے آئی، کوڈنگ اور روبوٹکس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ فی الحال یہاں عربی بطور ایک زبان پڑھائی جاتی ہے۔‘‘

’اُمید اکیڈمی‘کی ایک خاص بات جو اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر پہلی ’گھنٹی‘ اساتذہ کیلئے لگتی ہے جس میں تمام اسٹاف کودینیات کے ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

ولی رحمانی آج ایک مقبول نام ہیں۔ فیس بک پر اُن کے۸؍ لاکھ ، یوٹیوب پر۵؍ لاکھ ۲۶؍ ہزار، انسٹا گرام پر ایک لاکھ ۶۳؍ ہزار اور ٹویٹر پر ۷۰؍ ہزار سے زائد فالوورس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج ان کی ایک اپیل پر۷؍ کروڑ روپوں کا فنڈ آسانی سے جمع ہوگیالیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر میںتھک گیا تھا۔  لوگ بلاتے تھے لیکن گھنٹوں باہر بٹھا کر ہزار پانچ سو دے کر رخصت کردیتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ’کراؤنڈ فنڈنگ‘ کے ذریعہ پیسے جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اس دوران کچھ عناصرکی جانب سے رکاوٹیں بھی کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے عقیدے پرحملے کئے گئے۔ کچھ نے مجھے بریلوی تو کچھ نے دیوبندی کہہ کرفنڈ روکنے کی اپیل کی۔ کچھ نے خاتون ٹیچرس کا چہرہ کھلا ہونے پر مجھے لبرل ہونے کا طعنہ دیا تو کچھ نے طالبات کو حجاب پہننے پرمجبور کرنے کاالزام عائد کیا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ میرے یہاں تقریباً ہرمسلک کے اساتذہ ہیں۔‘‘ 

انہوں نےعوام سے وعدہ کیا ہے کہ۸؍ ماہ میں وہ اس بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوکر ویڈیو بنائیں گے جس کا انہوں  نے خواب دیکھا ہے اوراس کے بعد وہ کسی اور شہر میں اسکول کی دوسری عمارت سے متعلق منصوبہ بنائیں گے۔  انہوں نے کہا کہ ’’یہ میری پہلی اپیل ہے ۔ اگر یہ مہم کامیاب رہی تو  اس طرح سے آئندہ میں باربار اپیل کروں گا اور امیدکرتا ہوں کہ میری ہر اپیل پر لوگ لبیک کہیں گے ان شا ء اللہ۔‘‘

۲۲؍ سالہ اس نوجوان کے عزائم کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی پریشانی انہیں ان کے مقصد سے روک سکے گی۔  بیکل اُتساہی نے شاید اسی قبیل کے نوجوانوں کیلئے یہ بات کہی تھی کہ :

عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا

کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا


Wednesday 27 September 2023

Modi criticizes Nehru and also wants to be Nehru/ Qutbuddin Shahid

نہرو پر تنقید بھی کرتےہیں اور نہرو بھی بننا چاہتے ہیں وزیراعظم مودی   

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

وزیراعظم مودی خبروں میں رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ خبروں میں ہیں اور اس کی وجہ ہے  ۱۸؍ ستمبر کو پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں دی گئی ان کی الوداعی تقریر۔اس تقریر کو ان کی سابقہ تقریروں سے مختلف قرار دیا جارہا ہے۔ تقریر سن کر مودی کے مخالفین بھی حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا؟ اور ان کے حامیوں کا تو خیربرا حال تھا ہی۔ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے ۶؍ مرتبہ ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا نام لیا اورحیرت انگیز طورپر ’مثبت انداز‘ میں لیا۔ اسی طرح درمیان میں سابق وزرائے اعظم کے طورپر لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، نرسمہا راؤ، وی پی سنگھ، دیوے گوڑا، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ کابھی نام لیا۔ تقریر ختم ہوئی اوراس پرتبصرہ اور تجزیہ کا دور چلا تو عقدہ کھلا کہ تقریر کے صرف الفاظ بدلے ہیں، انداز نہیں بدلا۔  ہندوستان کی ۷۵؍ برسوں کی جمہوری تاریخ بیان کرتے ہوئےاگرانہوں نے اپنے علاوہ کچھ اور ’شخصیات‘  کا نام لیا ہے تو  اس میں ان شخصیات کی خدمات کا اعتراف کم، اُن کے سامنے اپنی موجودگی کااظہار زیادہ ہے۔اس تقریر کے ذریعہ ایک بار پھر ان کی اُس دبی ہوئی خواہش کا اظہار ہوگیا کہ ہندوستان کی تاریخ میں وہ نہرو کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔  وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک کا سفر طے کرلینے کے بعد نریندر مودی  کے دل میں جوخواہش شدت کے ساتھ اُبھری اور جسے اکثر و بیشتر عوام نے بھی محسوس کیا، وہ یہی تھی۔ تاریخ میں وہ پنڈت نہرو سے اگر آگے نہیں بڑھ سکتے تو کم از کم ان کے برابرکھڑا ہونا چاہتے ہیں ۔اس کیلئے وہ کبھی تنقید کا تو کبھی جھوٹ کا اور کبھی تعریف کا سہارا لیتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی نئی عمار ت میں منتقلی سے قبل  پرانی عمارت میں وزیراعظم مودی  الوداعی خطاب کرکے اپنی تقریر کا موازنہ پنڈت جواہر لال نہرو کی اُس یادگار تقریر (ٹریسٹ وِد ڈیسٹنی) سے کروانا چاہتے تھے جو انہوں نے ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے وقت ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی شب میں کی تھی۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم مودی نے اُس شہرہ آفاق تقریر کا حوالہ  دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسی ایوان میں پنڈت نہرو کے ذریعہ کی گئی تقریر ’اَیٹ دی اسٹروک آف مڈنائٹ‘ کی گونج ہمیں متحرک کرتی رہے گی۔‘‘ وزیراعظم مودی نے شاید قصداً اُن کا آدھا ہی جملہ دُہرایا کیونکہ اس پورے جملے میں لفظ ’انڈیا‘ بھی آتا ہے جو آج کل مودی، بی جے پی اور حکمراں محاذ کوبہت زیادہ پریشان کررہا ہے۔ پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ ’’ نصف شب کے وقت، جب دنیا سوئی ہوئی ہو گی، ہندوستان زندگی اور آزادی کیلئے بیدار ہوگا۔‘‘  
وزیراعظم مودی کی اس تقریر کو ’مثبت‘ بتایا جارہا ہےاور اس کیلئے ان کے حامی ان کی تعریف بھی کررہے ہیں لیکن  اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی منفی رویوں کی کثرت ہے۔ سابق وزرائے اعظم کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پنڈت نہرو جی اور شاستری جی  سے لے کر اٹل جی اور منموہن جی تک ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اس ایوان کی قیادت کی ہے اور اس ایوان کے ذریعہ ملک کو ایک سمت عطا کی ہے۔ ملک کو نئے رنگ و روپ میں ڈھالنے کیلئے انہوں نے کافی محنت کی ہے،اسلئے ہمیں ان کی خدمات کاا عتراف کرنا چاہئے۔‘‘ لیکن اگلے ہی پل وہ پھر تنقید پر بھی اُتر آتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چل پارہا تھا کہ وہ تعریف کر رہے ہیں  یا تنقید؟ ۷۵؍ سالہ ہندوستانی جمہوریت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی حمایت اسی ایوان نے اندرا گاندھی کی قیادت میں کی اور اسی ایوان نے ایمرجنسی میں جمہوریت پر ہوتا ہوا حملہ بھی دیکھا اور یہی ایوان ہندوستانیوں کی طاقت کا احساس کراتے ہوئے ایک مضبوط جمہوریت کی واپسی کا گواہ بھی بنا۔‘‘ وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی حکومتوں کے تعلق سے  یہ کہتے  ہوئےاپنے انداز میں انہوں نے مذاق بھی اڑایا کہ ’’اتحادی حکومتوں کا ایک سلسلہ سا چل پڑا۔‘‘
اسی  طرح مرار جی دیسائی اور وی پی سنگھ کی خدمات کا’اعتراف‘ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ زندگی بھر کانگریس میں رہے اور کانگریس مخالف حکومت کی قیادت کی۔‘‘ 
   وزیراعظم مودی نےنیوکلیائی تجربے کا پورا کریڈٹ  اٹل بہاری واجپئی کو دے دیا جبکہ منموہن سنگھ کی حکومت کو ’کیش فار ووٹ‘کیلئے یاد کیا حالانکہ’آر ٹی آئی، آر ٹی ای،منریگا اور فوڈ سیکوریٹی‘ جیسی کئی باتیں تھیں جن کے حوالے سے منموہن سنگھ حکومت کو یاد کیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک نیوکلیائی تجربے کیلئے کریڈٹ دینے کی بات ہے، وزیراعظم مودی کا دعویٰ نہ تو تکنیکی اعتبار سے درست ہے، نہ ہی حقائق کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ملک میں پہلا نیوکلیائی تجربہ وزیراعظم اندرا گاندھی کی قیادت میں۱۸؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ہوا تھا جبکہ دوسرا تجربہ اٹل بہاری واجپئی کی بطور وزیراعظم حلف برداری کے محض ۵۳؍ دن بعد یعنی ۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ہوا تھا۔ واجپئی سے قبل ملک میں اندر کمار گجرال کی حکومت تھی۔ اس کے بعد وہ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘کی بات کرتے ہوئے  اپنی تعریف پرآگئے اور’تاریخی‘ فیصلوں کا تذکرہ کرنے لگے۔دفعہ۳۷۰؍ کے خاتمے کی بات کی، اعلیٰ ذات والوں  کو دیئے گئے (ای ڈبلیو ایس) ریزرویشن کا تذکرہ کیا اور ون نیشن ون رینک اور  ون نیشن ون ٹیکس (جی ایس ٹی) کیلئے بھی اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔
اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو کوسنے اور اس کے لیڈروں کا مذاق اُڑانے والے وزیراعظم مودی  نے مذکورہ الوداعی خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’ہم یہاں ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔  یہ اس ایوان کی طاقت ہے۔ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے لیکن ... اپنی اسی تقریر میں انہوں نے ’واٹر پالیسی ‘کیلئے بھیم راؤ  امبیڈکر کو یاد کیا اور ’انڈسٹری پالیسی‘ کیلئے شیاما پرساد مکھرجی کے گن گان کئے لیکن ’ایجوکیشن پالیسی‘ کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد کو یاد نہیں کیا جنہوں نے ملک میں آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی  جیسے موقر اداروں کی بنیاد ڈالی۔وقفے وقفے سے انہوں نے  پنڈت نہرو کا ۶؍ مرتبہ نام ضرور لیا لیکن وہ اس بات کیلئے اُن کی تعریف نہیں کرسکے کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں اپنے مخالف نظریات کے لیڈروں (شیاما پرساد مکھرجی، بی آر امبیڈکر اور بلدیو سنگھ) کو بھی شامل کیا تھا لیکن تکنیکی وجوہات کی آڑ لے کرمودی حکومت اپنے مخالف لیڈروں کو اپوزیشن لیڈر تک کا عہدہ دینے کیلئے تیار نہیں  ہے۔
اپنی اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی وزیراعظم مودی نے کانگریس پرتنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔  آندھر ا پردیش کی تقسیم  اور تلنگانہ کی تشکیل پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واجپئی کے دور میں چھتیس گڑھ،  جھارکھنڈ اور اترا کھنڈ کا قیام نہایت خوش اسلوبی سے ہوگیا تھا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اُس  وقت مذکورہ ریاستوں کے ساتھ ہی  مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں بھی جشن کا ماحول تھا جبکہ یہاں پر نہ توآندھرا کے عوام خوش تھے، نہ ہی تلنگانہ کے عوام کو اطمینان تھا۔ حالانکہ ریاستوں کی تقسیم کے وقت مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں ماحول کافی کشیدہ تھا اور عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی تھی۔جی ۔۲۰؍ کے حوالے سے کہا کہ’’ملک کے تئیں شک کرنے کا ایک رویہ بھی  یہاںہے  اور یہ ملک کی آزادی کے وقت ہی سے چلا آرہا ہے۔ اس بار بھی یہی تھا۔ کہا جارہا تھا کہ کوئی قرار دار منظور نہیں ہوپائے گی، یہ ناممکن ہے... لیکن یہ ہندوستان کی طاقت ہے کہ سب کچھ ہوا۔‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان ’عالمی دوست‘کی شکل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ جی۔۲۰؍ کا اجلاس ختم ہوتےہی وزیراعظم کے اس دعوے کی قلعی اُترگئی کیونکہ امریکہ، کنیڈا اور ترکی سے اختلافات کی خبریں منظر عام پرآنے لگی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے جس طرح سے دوسروں بالخصوص پنڈت نہرو کو یاد کیا، کیا اس سےان کی شبیہ میں کوئی تبدیلی آپائے گی؟ کیا ان کی وہ خواہش پوری ہوپائے گی کہ لوگ انہیں نہرو کی طرح یاد کریں؟   فی الحال یہ اتنا آسان تو نہیں لگ رہا ہے۔معروف صحافی اجے شکلا   نےان کیلئے ایک اچھا مشورہ دیا ہےکہ مودی جی اگر واقعی پنڈت نہرو سے اپنا موازنہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ ’ڈسکوری آف انڈیا‘ کامطالعہ کرلیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔n

Monday 18 September 2023

By-election results and prospects for 'INDIA' alliance / Qutbuddin Shahid

 ضمنی انتخابات کے نتائج اور اس میں

 ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے امکانات

 اُترپردیش کی گھوسی اسمبلی  سیٹ جیتنے کیلئے بی جے پی نے پوری توانائی صرف کردی تھی لیکن جیت نہیں پائی۔  اتراکھنڈ اورجھارکھنڈ کی سیٹ کیلئےبھی اس نے خاصی محنت کی لیکن بہت مشکل سے ان میں سے ایک سیٹ  پر قبضہ کرپائی۔ اسلئے ان نتائج نے جہاں بی جے پی کی صفوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، وہیں ’انڈیا‘ اتحاد کو پُرجوش کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

 

گزشتہ دنوں گھوسی اسمبلی حلقہ سمیت  ۶؍ ریاستوں کے ۷؍ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے۔عام طور پر ہمارےیہاں ضمنی انتخابات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ کب آتے ہیں اور کب چلے جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا  لیکن ان نتائج پرپورے ملک کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس الیکشن کو سیاسی جماعتوں کیلئے ایک ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پردیکھا گیا،اسلئے اس پر دورانِ انتخابات خوب باتیں ہوئیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ ضمنی انتخابات کی یہ نشستیں اُترپردیش، اُتراکھنڈ، جھارکھنڈ، کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملک گیرحیثیت ہوگئی تھی،اس لئےیہ بات بھی کہی گئی کہ ان نتائج سے شمالی ہند، جنوبی ہند اور شمال مشرق کی ریاستوںکے عوام کی سوچ ظاہر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر اس سے ملک کے سیاسی رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے.... اور جب ہم اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا تو اس کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش کی گھوسی سیٹ پر بھگوا لہرانے کیلئے  ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہ سیٹ جیتنا چاہتی تھی۔ وہ قطعی نہیں چاہتی تھی کہ اس ایک سیٹ کی وجہ سے ’مودی، امیت شاہ اور یوگی‘ کی طاقت کو چیلنج کیا جائے اور قومی سطح پر ’این ڈی اے‘ پر ’انڈیا‘کی بالادستی نظر آئے.... لیکن گھوسی کے عوام نے ثابت کیاکہ کسی اور کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، ہوگا وہی جو عوام چاہیں گے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ جب تک ملک میں جمہوری نظام قائم ہے، عوام کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
۷؍ اسمبلی حلقوں میں سے۴؍ سیٹیں ’انڈیا‘ اتحاد نے حاصل کیں جبکہ این ڈی اے کے حصے میں صرف ۳؍ سیٹیں آئیں۔ سیٹوں کے اُلٹ پھیر کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے دونوں محاذ کی سیٹیںبرقرار رہیں۔مغربی بنگال میں ٹی ایم سی سے بی جے پی  اپنی سیٹ ہار گئی لیکن تریپورہ میں سی پی ایم کو ہرا کر اس نے سیٹوں کی تعداد برابر کرلی۔ آئیے ! دیکھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے یہ نتائج کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ۶؍ ریاستوں کے عوام نے ملک کو کیا پیغام  دیا ہے؟ اور یہ کہ ان نتائج سے ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کس طرح کے امکانات پیدا ہوتے ہیں؟ 
گھوسی ،اترپردیش
ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ اہمیت یوپی کی گھوسی سیٹ کو حاصل تھی ۔ بی جے پی نے اسے اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور محض اس ایک سیٹ پرمودی،امیت شاہ ،یوگی  اور اوم پرکاش راج بھر کی ساکھ داؤ پر لگا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہی  راج بھر کو  ’اتحاد‘ میں شامل کیا گیاتھا کہ گھوسی کی سیٹ جیتنی ہے۔ اس کیلئےحکومت کی جانب سے ’سام دام دنڈ بھید‘  کے سارے حربے استعمال کئے گئے۔ الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی لیڈروں نے گھوسی کا چپہ چپہ چھان مارا اور ایک ایک ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کی۔ وہاں پرنہ صرف وزیراعلیٰ یوگی  نے انتخابی ریلیاں کیں بلکہ ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ کیشوپرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کے ساتھ تقریباً ۲؍ درجن وزراء  اور چار درجن ایم ایل ایز ہفتوں خیمہ زن رہے ۔اراکین پارلیمان نے بھی اپنی طاقت دکھائی۔ ضلع  انتظامیہ  پر بھی الزام عائد ہوا کہ اس نےبی جے پی کے امیدوار کی کامیابی کیلئے ہر ممکن مدد کی۔ یہ بات بار بار کہی گئی کہ رام پور اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی طرح انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ تمام رائے دہندگان جن پر  بی جےپی کے خلاف ووٹ دینے کا شبہ ہو، انہیں بوتھ تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اس کے اثرات نظر بھی آئے۔ دونوں جانب سے دھواں دھار انتخابی مہم چلنے کے باوجود ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے ۳۸؍ ہزار ۸۳۵؍  ووٹ کم پڑے، جبکہ اس مرتبہ پہلے کے مقابلے زیادہ پولنگ کی امید تھی۔ اپوزیشن کاالزام ہے کہ ایسا اسلئے ہوا کہ مسلم علاقوں میں پولنگ نہیں ہونے دی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان کیلئے رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی ہوتی تو ہارجیت کا فرق اورزیادہ ہوتا۔ بعض کا کہنا ہے کہ مایاوتی کی اپیل پر دلتوں نے پولنگ کم کی۔  اگر ایسا ہے تب بھی  یہ نتیجہ بی جے پی لیڈروں کی نیند حرام کرنے کیلئے کافی ہے۔  ایک سال قبل ہونیوالے الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار کو ۸۶؍ ہزار۲۱۴؍ ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ اسے ۸۱؍ ہزار ۶۶۸؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا جبکہ اس نے سماجوادی پارٹی کا امیدوار بھی ’چُرا‘ لیا تھا۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ دارا سنگھ چوہان کی وجہ سے اسے  پسماندہ طبقات کے ووٹ بڑی تعداد میں ملیں گے لیکن ووٹوں کی گنتی ہوئی تو اس کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔
اس نتیجے میں بی جے پی کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی اور ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے بھی پیغام ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہندو مسلم کرکے، نفرت کا بازار گرم کرکے اورآمریت کا مظاہرہ کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہے گی تو اسے اب اپنی سوچ تبدیل کرلینی چاہئے۔ گھوسی کے نتائج نے اکھلیش یادو کو پیغام دیا ہے کہ اگر انہیں عوامی حمایت چاہئے توانہیں اے سی سے باہر نکل کر عوام کے درمیان جانا ہوگا اوران کے دکھ درد میں ان کے ساتھ رہنا ہوگا۔اس نتیجے نے یہ بھی ثابت کیا کہ رام پور اور اعظم گڑھ میں سماجوادی کی شکست کی وجہ اکھلیش کی لاپروائی تھی۔اسی کے ساتھ ایک پیغام اور ہے کہ یہ جیت صرف سماجوادی کی جیت نہیں ہے بلکہ یہ ’انڈیا‘کی جیت ہے،اسلئے اس کامیابی کاخمار اُن کے سر نہیں چڑھنا چاہئےبلکہ آئندہ متحدہ طاقت کے ساتھ ہی میدان میں اُترنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے۔
ڈمری ،جھارکھنڈ
یہاں بھی مقابلہ ’این ڈی اے‘ بنام ’انڈیا‘اتحاد تھا۔ ’انڈیا‘ کی  طرف سے ’جے ایم ایم‘کا امیدوار تھا جبکہ ’این ڈی اے‘کی طرف سے ’اے جے ایس یو‘ کا امیدوار تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بھی جے ایم ایم ہی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا لیکن اس مرتبہ  اسے پہلے کے مقابلے کافی زیادہ ووٹ ملے ۔ ضمنی الیکشن میں جے ایم ایم کی امیدوار بے بی دیوی کو ایک لاکھ ۳۱۷؍ ووٹ ملے جبکہ ’اے جے ایس یو‘ کی امیدوار یشودا دیوی کو ۸۳؍ ہزار۱۶۴؍ ووٹ ملے ۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی اور اے جے ایس یو کے درمیان اتحاد نہیں تھا لیکن اس مرتبہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر بھی الیکشن نہیں جیت پائیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر ووٹوں نے بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ’انڈیا‘ کو پیغام دیا کہ اتحاد ہی میں طاقت ہے۔ ۲۰۱۹ء کے اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم کو یہاں پر۲۴؍ ہزار ۱۳۲؍ ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اس کے امیدوار کو صرف  ۳؍ ہزار ۴۷۲؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
باگیشور ،اُتراکھنڈ
یہاں پر بی جے پی اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہی لیکن اس کی کامیابی کا سہرا کانگریس کے سر باندھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے امیدوار کو یہاں پر۳۳؍ ہزار ۲۴۷؍ ووٹ ملے جبکہ کانگریس کے امیدوار کو ۳۰؍ ہزار ۸۴۲؍ ووٹ ملے۔اس طرح ۲۴۰۵؍ ووٹوں سےکانگریس کو شکست ہوگئی۔یہاں پرکانگریس کے کسی بڑے لیڈر نے انتخابی مہم نہیںچلائی۔
 دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے علاوہ اتراکھنڈ پریورتن پارٹی اوراتراکھنڈ کرانتی دل کی صورت میں کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی یہاں میدان میں تھے جنہیںآسانی سے رام کیا جاسکتا تھا لیکن کہا جاتاہے کہ کانگریس نے یہاں پہلے ہی سے شکست تسلیم کرلی تھی،اسلئے زیادہ محنت نہیں کی۔۲۰۲۲ء کے الیکشن میں باگیشور میں  بی جے پی کو ۳۲؍ ہزار اور کانگریس کو محض ۲۰؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔دلچسپ  بات یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے  جس امیدوار کو ۱۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے  ،وہ  اس مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہا تھا۔
دھوپ گڑی ،مغربی بنگال
دھوپ گڑی کی یہ سیٹ ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی ۔ یہ ریاست میں ٹی ایم سی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ سیٹ  بی جے پی کے امیدوارکی موت کی وجہ سےخالی ہوئی تھی۔  زعفرانی پارٹی نے  یہاں پر پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے ایک فوجی کی بیوہ کو ٹکٹ دے کر عوام کا جذباتی استحصال کرنے کی کوشش کی تھی،اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی۔ لیکن اگرممتا بنرجی نے اپنی ’انا‘ کو قربان نہیں کیاتو کامیابی کا یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ممتا بنرجی کے اسی رویے کی وجہ سے رائے دہندگان میں سردمہری پائی  جارہی تھی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی الیکشن میں ۲؍ لاکھ ۲۹؍ ہزار ۳۲۳؍ ووٹ پڑے تھے لیکن اس مرتبہ ۲؍ لاکھ ۱۰؍ ہزار ۹۳۵؍ افراد ہی ووٹ دینے کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ یہاں پر سی پی ایم کو دونوں مرتبہ ۱۳؍ ہزار سے کچھ زائد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے ووٹوں میں واضح کمی دکھائی دی۔ ٹی ایم سی تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے اگر ’انڈیا‘ اتحاد کے بینر تلے الیکشن لڑتی تو اس کی کامیابی یقیناً بڑی ہوتی۔یہ ایک طرح سے ممتا بنرجی کیلئے رائے دہندگان کا انتباہ ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اس پیغام کو کتنا سمجھتی ہیں  اور اس پر آئندہ کس حد تک عمل کرتی ہیں۔
دیگر اسمبلی نشستیں
کیرالا میں کانگریس جیتی اوربڑے فرق سے جیتی۔ وہاں دوسری پوزیشن پر سی پی ایم کا امیدوار تھا جسے ۴۲؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوار کو صرف ۶؍ ہزار ووٹ  ملے۔تریپورہ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی نے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ وہاں پر ایک سیٹ بی جے پی کی اور ایک سی پی ایم کی تھی۔دونوں جگہ پر سی پی ایم کو پہلے کے مقابلے ووٹ کم ملے۔ ایسےمیں سی پی ایم کوسر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اس کی عوامی طاقت مسلسل کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کا کیڈرکمزور کیوں ہورہا ہے؟ کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ میں برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود نئی نسل میں اس کیلئے جگہ کیوں نہیں بن پارہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اسے کھلے دل سے غور کرنا ہوگا۔
مجموعی طور پرضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک کا ماحول تبدیل ہورہا ہے جس میں ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کافی امکانات ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لیڈران عوام کے درمیان رہ کر عوام کی نمائندگی کرتے  رہیں۔ n

Saturday 16 September 2023

Corrections of documents and responsibility of schools/ Qutbuddin Shahid / Roznaamcha

 دستاویزات کی درستگی میں اسکولوں کا اہم کردار

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ایک بینک میں ایک صارف کی کلرک سے بحث ہورہی تھی۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا انداز بتا رہا تھا کہ ان میں شناسائی ہے۔ صارف کوئی پیسے والا آدمی تھا، جس کی وجہ سے کلرک  ذرا ’دب‘ کر بات کررہاتھا، ورنہ بینک اور وہ بھی سرکاری بینک کا ملازم کسی صارف  سے دب کر بات کرے،  اس کی بھلا کون توقع کرسکتا ہے۔ کلرک کہہ رہا تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے۔ہم اس چیک کو پاس نہیں کر سکتے۔‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ صارف کے چیک پر لکھے گئے نام میں شامل ’احمد‘ کی اسپیلنگ میں ’ای‘ اور ’اے‘ کا فرق تھا۔ ’احمد‘ نام میں ’ڈی‘ سے قبل ’ای‘ اور ’اے‘   کا مسئلہ ہمارے یہاں عام بات ہے لیکن اب اس کا خمیازہ لوگوں کو کس طرح سے بھگتنا پڑرہا ہے، اس کی ایک مثال بینک کا مذکورہ واقعہ ہے۔
اگرالگ الگ دستاویزات میں آپ کے نام  کے املا میں فرق ہے، خواہ یہ فرق کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، تو قدم قدم پر مسائل سے جوجھنے کیلئے  آپ کوتیار رہنا چاہئے۔  اگر وقت رہتے آپ نے اس مسئلے کوحل نہیں کیا تو یہ کئی نسلوں تک آپ کا تعاقب کرے گا۔ اللہ نہ کرے، اگر ملک میں ’این آر سی‘ اور’سی اے اے‘ کا قانون  نافذ ہوگیا، جیسا کہ سرکار چاہتی ہے تو کاغذات میں خامیوں سے پیدا ہونے والے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین سب سے پہلے  اپنے کاغذات کو درست کرائیں۔ جہاں تک اور جس طرح سے بھی ممکن ہو، وہ اپنے نام کے  املامیں یکسانیت لانے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد بچوں کے دستاویزات میں موجود خامیوں کو دور کرانے کی کوشش کریں۔ بچوں کے ناموں میں آجانے والی  خامیوں کی درستگی کا پہلا مرحلہ اس کے اسکول ہوتے ہیں۔ برتھ سرٹیفکیٹ  میں اگر کوئی خامی رہ گئی ہے اور اسی خامی کے ساتھ آدھار کارڈ بن گیا ہے اور اسکول میں نام درج ہوگیا ہے تو اس غلطی کا احساس ہوتے ہی  اسکول سے رابطہ قائم کرنے اورغلطی کی اصلا ح کی کوشش کرنی چاہئے۔
میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں  اسکولوں کے ذمہ داران اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر اسکولوں کے کلاس ٹیچر، کلرک، ایچ ایم اور سوسائٹی کے عہدیداران ، جن کے زیراہتمام اسکول چلتے ہیں، یہ ٹھان لیںکہ وہ اپنے اسکولوں میں زیر تعلیم کسی بچے کے دستاویز میں کوئی خامی نہیں رہنے دیں گے، تو اس طرح کی غلطیاں اُسی ایک جگہ سے  بڑی حد تک اور بڑی آسانی سے دور ہوجائیں گی۔ لیکن یہ کام اسکول کی ڈیوٹی سمجھ کرنہیں بلکہ قوم کی خدمت سمجھ کر کرنی ہوگی۔ اگر یہ احساس نہیں رہا تو ان ’ذمہ داران‘کی آنکھوں کے سامنے غلطیاں ہونے  اور والدین کی جانب سے درخواست کئے جانے کے باوجود  وہ دور نہیں کی جائیں گی۔ والدین  کی جانب سے اس طرح کی شکایتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ درخواست دینے، منت سماجت کرنے ، یہاں تک رونے ،گڑگڑانے کے باوجود اسکول کی سطح  سے درست ہونے والی غلطیاں بھی ٹھیک نہیں کی جاتیں۔ اس سلسلے میں بیشتراسکولوں کے ذمہ داران کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ ’گزٹ‘ کروا لیں،  حالانکہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ گزٹ کروانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے ممبئی کے ’مدنی ہائی اسکول‘ نے گزشتہ دنوں ایک قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ اسے مثالی کارنامہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ۲۶؍ اگست کو اسکول نے ’ڈاکیو مینٹ ڈے‘ کے نام سے ایک بیداری پروگرام منعقدہ کیا تھا جس میںپیدائشی سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ،آدھار کارڈاور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی خامیوں کو دور کرنے یا نیا بنانے سے متعلق والدین اور طلبہ کی رہنمائی کی گئی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ اسکول کے ذمہ داران نے صرف اپنے طلبہ کی مدد نہیں کی بلکہ دیگر بچوں کی بھی رہنمائی کی اور صرف زبانی رہنمائی  نہیں بلکہ سرکاری دفاتر سے ان کے کام بھی کروائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس طرح کی پیش رفت ہمارے دوسرے ادارے بھی کرسکتے ہیں  ۔

Monday 11 September 2023

Special session of Parliament and Sonia Gandhi's letter to the Prime Minister/ Qutbuddin Shahid

 پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور سونیا گاندھی کا وزیراعظم کے نام خط

مودی حکومت  نہ تو عوام کو اہمیت دیتی ہے، نہ ہی اپوزیشن کو خاطر میں لاتی ہے لیکن اس باراس کی حرکت اس پر بھاری پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

  آج سے پچیس پچاس سال بعد مورخ جب ہندوستان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو مودی حکومت کو ایک ’چونکانے‘ والی حکومت کے طور پر ہی لکھے گا۔ اس حکومت نے ملک کیلئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن عوام کو چونکانے اور انہیں پریشان کرنے کا کام بار بارکیا ہے۔  نوٹ بندی کا فیصلہ ہو یا کچے پکے انداز میں جی ایس ٹی کا نفاذ، لاک ڈاؤن لگانا ہو یا جموںکشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ کا خاتمہ، کسانوں سے متعلق تینوں متنازع  قوانین واپس لینے کی بات ہو یا پھر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنا، جمہوری طور پر منتخب اس حکومت کے یہ تمام فیصلے غیر جمہوری انداز میں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اکثر اپوزیشن کی تنقیدوں  پر بھی رہی  ہے لیکن اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔۱۸؍ سے ۲۲؍ ستمبر کے دوران طلب کئے جانے والے خصوصی اجلاس کی وجہ سے مودی حکومت ایک بار پھر حزب اختلاف کے نشانے پر ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے اس حوالے سے وزیراعظم مودی کے نام ایک خط لکھا ہے  جس میں ایجنڈہ ظاہر نہ کرنے پر شکایت کرتے ہوئے اپنی جانب سے ۹؍ نکاتی ایک ایجنڈہ بھی پیش کیا ہے۔اس خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’اب تک خصوصی اجلاس طلب کئے جانے سے قبل حزب اختلاف  سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی روایت رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نہ تو ایجنڈہ بتایا گیا ہے، نہ ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ سونیا گاندھی کے اس خط کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ماحول سازی کیلئے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
  مانسون اجلاس ختم ہوئےابھی ٹھیک سے ۲۰؍ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ پارلیمانی امور کے وزیرنے ’خصوصی اجلاس‘ کا شگوفہ چھوڑ دیا۔ اس اعلان نے عوام کو چونکانے اور اپوزیشن کو پریشان کرنے کے علاوہ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کو قیاس آرائیوں کا بازار گرم کرنے کا موقع بھی  فراہم کردیا۔حالانکہ میڈیا کے تعلق سے یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ اس کی قیاس آرائیاں بھی مودی حکومت کے ایجنڈے کا ایک اہم جزہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر وہی موضوعات چھیڑے جاتے ہیں ، جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اتنی عجلت میں’خصوصی اجلاس‘  طلب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ایسا کون سا مسئلہ رہ گیا تھا، جسے وہ مانسون اجلاس میں نہیں حل کرسکی؟ اور اگر یہ اجلاس اتنا ہی اہم اورضروری ہے تو اس کا ایجنڈہ اتنا خفیہ کیوں؟ اپوزیشن کو اندھیرے میں کیوں رکھا جارہا ہے؟پانچ روزہ اجلاس کا مطلب ہے کہ اس دوران کئی موضوعات پیش ہوں گے، پھر ان موضوعات پر اراکین پارلیمان کو تیاری کا موقع کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ پارلیمنٹ میں ان موضوعات پر بحث ہوگی یا اراکین پارلیمان سے صرف مہر تصدیق ثبت کرانے کاارادہ ہے؟ یا اور کوئی مقصد ہے؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جوحزب اختلاف کے ساتھ ہی عوام کے ذہنوں میں بھی اُٹھ رہے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب حکمراں طبقے کا طاقت ور ہوجانا اور صرف اس کی مرضی سے کام ہونا نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو سننا اور اس کی باتوں کو اہمیت دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن آج کی بی جے پی حکومت ان باتوں کی پروا نہیں کرتی۔ وہ اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے جہاں  اسے اپوزیشن کو ’بے وقعت‘ ثابت کرنے کا کوئی موقع مل سکے۔ وزیراعظم کے نام سونیا گاندھی کے خط کے بعد بھی اس نے یہی حرکت کی ہے۔ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کی لیڈر کو اہمیت دی جاتی اور اس خط کا جواب وہی دیتے، جن کے نام خط لکھاگیاتھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم یا پی ایم او کے بجائے اس خط کا جواب پارلیمانی امور کے وزیر  نے دیا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ روایتوں کی پاسداری  کے معاملے میں کانگریس کی نقل کی بات جانے دیں، بی جے پی اٹل بہاری واجپئی کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہتی۔  واجپئی اور نہرو کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ ایک مرتبہ لوک سبھا میں واجپئی نے پنڈت نہرو  پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی شخصیت بہت ملی جلی ہے۔آپ کبھی چرچل نظر آتے ہیں تو کبھی چیمبرلین۔ پنڈت نہرو اس تبصرے پر بھی ناراض نہیں  ہوئے۔ اس تقریر کے بعد شام کو ایک ضیافت میںپنڈت نہرو کی  واجپئی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں دیکھ کرمسکراتے ہوئے نہرو اُن کے پاس گئےاور بولے کہ آج تو آپ نے بڑی زبردست تقریر کی۔ نہرو کے سامنے واجپئی بہت جونیئر تھے اور نہرو کی پارٹی کے سامنے واجپئی کی پارٹی کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن وہ  اختلاف رائے کی قدر کرتے تھے۔اسی واقعے کو یاد کرتے ہوئے  واجپئی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ آج کل اُس طرح کی تنقید کا مطلب دشمنی کو دعوت دینا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت نہرو کے انتقال کے وقت واجپئی نے اپنے کرب کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج ایک خواب نے دم توڑ دیا۔‘‘ 
آج کل مودی حکومت کا بالکل وہی رویہ ہے جس کی طرف واجپئی نے اشارہ کیا تھا۔ یہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حکومت سے آمریت کی بو آنے لگی ہے۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لانا چاہتی، وہ خواہ عوام ہوں یا پھر حزب اختلاف کی جماعتیں۔ اس کے نزدیک احتجاج، شکایت اور مطالبے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لئے تو وہ’راج دنڈ‘ لے کر آئی ہے اور نئی پارلیمنٹ میں ’سینگول‘ نصب کیا ہے۔ اس طرز حکومت میں اپوزیشن کیلئے بھلا کہاں کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ رہی بات عوام کی تو اب ان کی بھی سمجھ میں آنے لگا ہے کہ یہاں ’راجا اور پرجا‘ والی بات ہے جہاں انصاف عدالتوں سے نہیں بلڈوزروں سے ہوتے ہیں۔اب ان بلڈوزروں کو مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کے پتے بھی معلوم ہوگئے ہیں۔ ’نیوز لانڈری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’جی۔۲۰؍  کے پیش نظر دارالحکومت دہلی کو خوبصورت اور دلکش بنانے کیلئے۱۰؍ سے زیادہ جھگی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں جس کی وجہ سے۲۰؍  ہزار سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔‘‘
سونیا گاندھی نے اپنے خط کے ذریعہ دراصل عوام کے اسی طبقے کو جگانے اور اسےسمجھانے کی کوشش کی ہے، ورنہ اتنا تو وہ بھی جانتی ہیں کہ موجودہ حکومت ان کی سننے والی نہیں ہے۔ ملک کے ۹؍ اہم اور سنگین موضوعات کو پیش کرکے اپوزیشن اتحاد نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے مفاد میں کیا ہے؟ این ڈی اے یا پھر انڈیا اتحاد؟ ان موضوعات کو اٹھا کر اپوزیشن اتحاد نے ملک کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔  مہنگائی اور بے روزگاری  ایک عوامی مسئلہ ہے جس سے پورا ملک پریشان ہے۔  ذات کی بنیاد پرمردم شماری سے اوبی سی اوردلت طبقے کا دل جیتنے اور فرقہ وارانہ فسادات  اور منی پور تشدد کا ذکر کرکے اقلیتوںکے آنسو پونچھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح قدرتی آفات کے شکار خاندانوں کو معاوضہ دینے اور کسانوں  کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بات کرکے اپوزیشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ اپنے خط میں اڈانی سے متعلق تنازع اور چین کی دراندازی کا موضوع چھیڑکر سونیا گاندھی نےمودی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ  دیا ہے۔ یہ  ۲؍ ایسے نکات ہیں جن کی مدد سے جہاں بی جے پی کی بدعنوانی ظاہر ہوتی ہے،وہیں اس کی قوم پرستی  کی قلعی بھی اُتر جاتی ہے۔ 
      اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس پیغام کو عوام تک کس طرح پہنچاتی ہیں؟ اور پہنچا بھی پاتی ہیں یا نہیں؟

Monday 4 September 2023

Afsos! Medical students also started committing suicide/ Qutbuddin Shahid

دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے والے ، اپنی ہی جان لینے لگ  جائیں تو سمجھ لیں کہ معاملہ سنگین ہے

 قطب الدین شاہد

shahid.qutbuddin@mid-day.com

نیشنلکرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں یومیہ ۳۶؍ طلبہ خود کشی کرتے ہیں یعنی ہر گھنٹے ایک سے زائد گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد اُن طلبہ کی ہوتی ہے جو دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی تگ  و دو میں اس انجام کو پہنچتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو  راجستھان کے شہر’ کوٹا‘  میںجسے ملک میں ’ایجوکیشن ہب‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، دو طلبہ نے خود کشی کرلی۔ یہ دونوں ڈاکٹربن کرملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ان میں سے ایک کا تعلق مہاراشٹر کے لاتور ضلع  سے اور دوسرے کا تعلق بہار کے روہتاس ضلع سے تھا۔ سوچئے! اس سانحہ کے بعد ان دونوں کے گھروں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کتنے ارمان سے اُن دونوں نے ’نیٹ‘ کی کوچنگ جوائن کی  ہوگی   تاکہ میڈیکل میں داخلہ لے کر ڈاکٹر بن سکیں۔ان کے گھر والوں نے کیا کیا جتن کرکے  انہیں وہاں بھیجا ہوگا؟ اور ان کے والدین نے اپنے بچوں کے تعلق سے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے؟

ایک جھٹکے میں نہ صرف ان کے خواب چکنا چور ہوگئےبلکہ ان کی زندگی ہی تاریک ہوگئی۔ کوٹا میں اتوار کو پیش آنے والا  وہ سانحہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔یہ ایک طرح سے وہاں کا معمول بن چکا ہے۔صرف اگست ماہ میں  ۷؍ اور امسال جنوری سے اب تک میڈیکل میں داخلہ پانے کے خواہش مند  ۲۴؍طلبہ اپنی جان لے چکے ہیں۔ ملک کی مجموعی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ملک بھر میں ۱۳۰۸۹؍ طلبہ خود کشی کرچکے ہیں۔ان میں سے بیشتر کا تعلق اُن ریاستوں سے ہے جنہیںہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔اس معاملے  میں مہاراشٹر سرفہرست  ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے  ۱۸۳۴؍  طلبہ کی خود کشی کے معاملات درج کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش اور تمل ناڈو کا نمبر آتا ہے۔ کرناٹک اور اترپردیش کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے توخود کشی کرنے والے۴۴؍ فیصد طلبہ کا تعلق انہیں ۵؍ ریاستوں  سے ہے۔مطلب صاف ہے کہ خود کشی کی وجہ غریبی اور معاشی کسمپرسی کم اور دوسری وجوہات زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ وجوہات کیا ہیں؟ اور اس افسوس ناک اور درد ناک صورتحال کا حل کیا ہے؟

کسی کی جان لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس کیلئے مزاجاً سفاک ہوناضروری ہے۔ کسی اور کی جان لینے سے کہیں زیادہ مشکل اپنی جان لینا ہے۔ہم سوچ سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے، اس کی کوشش کرنے والے اور اس کے بارے میں سوچنے والے کسی شخص کوکس حد تک سفاک ہونا پڑتا ہوگا۔خود کشی کرنے والا صرف اپنی جان نہیں لیتا بلکہ اس سے  پہلے وہ ان تمام رشتوں کا خون کرتا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں، اس کی خوشی میں اپنی خوشی  دیکھتے ہیں او ر اس کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔اپنی خود کشی سے قبل وہ اپنے والدین کے ارمانوں کا گلا گھونٹتا ہے اور بڑھاپے میں تڑپ تڑپ کرمرجانے کیلئے انہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں سے ان کے خواب نوچ لیتا ہے۔ کچھ طلبہ شادی شدہ بھی ہوتے ہیں یا پھران کے رشتے طے ہوچکے ہوتے ہیں۔خود کشی کرنے والے یہ طلبہ انہیں بھی اپنی سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصومیت کی عمر سے تھوڑا آگے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے والے ان طلبہ میں آخر اتنی سفاکیت آتی کہاں سے ہے؟وہ اس حد تک کیوں چلے جاتے ہیں؟وہ کیوں نہیں سوچ پاتے کہ ان کے جان دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے؟دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنی جان بچانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ اور اتنا بڑاقدم اٹھانے سے پہلے وہ اس پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ان کے بعد ان کے متعلقین کا کیا ہوگا؟

درحقیقت ان معصوموں کو سفاک ہمارے تعلیمی نظام نے بنایا ہے ، جس میں سیکھنے اور سمجھنے سے زیادہ نمبرات کے حصول کو اہمیت دی جاتی ہے۔اس نظام میں کامیابی کی پیش گوئی صرف اُن طلبہ کیلئے کی جاتی ہے جو نتائج کی فہرست میں بلندی پر ہوتے ہیں، باقی طلبہ کو ناکارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس نظام نے ہمارے طلبہ کو  مارکس حاصل کرنے کی مشین بنا دیا ہے اور انہیں کوچنگ کلاسیز کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ ملک میں ایم بی بی ایس میں داخلے کیلئے صرف ایک لاکھ ایک ہزار نشستیں ہیں  جبکہ ’نیٹ‘ کے امتحان میں ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار سے زائد طلبہ نے شرکت کی تھی۔ کچھ کہے بغیر ہمارا تعلیمی نظام ان ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار  میں سے ۱۹؍ لاکھ سے زائد طلبہ کو ناکارہ قرار دے دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ طلبہ محض اس وجہ سے اپنے والدین کا سامنا نہیں کر پاتے کہ اُن کی وجہ سے سماج میں ان کے والدین کی ’ناک نیچی‘ ہو جائے گی جبکہ کچھ طلبہ اس وجہ سے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے زمین، زیور بیچ کر اور اپنی  بنیادی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی فیس ادا کی تھی۔ سفاکیت اور بے رحمی اس تعلیمی نظام ہی میں ہے، یہی سبب ہے کہ کامیاب ہونے اورڈاکٹر بن جانے والوں میں بھی صلہ رحمی کم کم ہی دیکھنے کو ملتی  ہے۔      

 اس مسئلے کا حل کیا ہے؟طلبہ کو ہم ملک کا مستقبل کہتے ہیں تو اس مستقبل کی حفاظت کا طریقہ کیا ہے؟ تمل ناڈو کی حکومت نیٹ کو ختم کردینا چاہتی ہے، اس کیلئے وہ گورنرسے متصادم بھی ہے .... لیکن کیا یہی اس کاحل ہے؟ اس بات کی کیا گارنٹی کہ نیٹ ختم ہوگا تو ’تعلیمی مافیاؤں‘کی نگرانی میںامتحان کا کوئی دوسرا ظالمانہ طریقہ پیش نہیں کردیا جائے گا؟ راجستھان کے ایک وزیر مہیش جوشی نے کوچنگ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے؟ لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے اور اس پرفیصلہ کرنا کسی ایک ریاستی حکومت کے بس کی بات ہے؟ کوٹا سانحہ کے بعد راجستھان حکومت نے آئی اے ایس افسر بھوانی سنگھ ڈیٹھا کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔اس کمیٹی نے کچھ ایسی تجاویز پیش کی ہیں جنہیں  ٹانگ تڑوا  بیٹھے کسی مریض کا علاج کرنے کے بجائے اسے بیساکھی تھما دینے کے مترادف ہے۔ کمیٹی نےکوچنگ سینٹرس میں ۲؍ ماہ تک ٹیسٹ پر پابندی عائد کردی ہے۔اس کے علاوہ سینٹرس میں طلبہ کیلئے تفریحی پروگرام کا انعقاد کرنے اورآن لائن پورٹل پردستیاب ترغیبی مواد طلبہ کو فراہم کرنے کی بات کہی ہے۔اسی کے ساتھ ’نیٹ‘ کےنصاب کا بوجھ کم کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ کیا ان تجاویز سے مسئلہ حل ہوگا؟
یہ  ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر حکومت کو سر جوڑ کر اور نہایت سنجیدگی سے کچھ فیصلہ کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس پر ایمانداری سے عمل ہو۔ کوچنگ سینٹر س کو اپنے کام کاج کو ہموار کرنے اور طلبہ کے ذہنوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے والے طریقوں سے  بچنےکی ضرورت ہے۔اس معاملے میں سب سے اہم کردار والدین کو ادا کرنا ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنےبچوں کی صلاحیتوں کو پہچانیں اور اسی کے مطابق ان کیلئے کریئر کا انتخاب کریں۔ دوسروں کی ’مانگ کا سندور‘ دیکھ کر اپنا سر نہ پھوڑیں۔ انسانی زندگی بہت قیمتی ہے،اسلئے اسے بچانا او ر اسے انسانیت نواز بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔n

Thursday 31 August 2023

Appropriate use of resources/Roznaamcha/ Qutbuddin Shahid

 وسائل کا مناسب استعمال

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
 عام طور پر یہ مصرعہ منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر آج ہم اسے مثبت معنوں میں استعمال کریں  گے کہ ’’ایک ڈھونڈو ، ہزار ملتے ہیں۔‘‘ جی ہاں! خود غرضی اور مفاد پرستی کے اس دور میں اچھے انسانوں کی کمی نہیں ہے، ایک ڈھونڈو ، ہزار ملیں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ زاویہ نگاہ مثبت ہو۔ یہ اچھے انسان انہیں نظر نہیں آئیں گےجو کسی فرد کی ۹۰؍ خوبیوں کو نظر انداز کرکے اس کی ۱۰؍ خامیوں کی تشہیر میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم ان کی خوبیوںکو دیکھیں، اس کی پزیرائی کریں اور جہاں تک ممکن ہو،اس کی تشہیر بھی کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی  ان خوبیوں کو اپنا سکیں۔
وسائل کی قلت اور مسائل کی بہتات کی شکایتیں اکثر سننے کوملتی ہیں لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شکایت کئے بغیر دستیاب وسائل کا مناسب استعمال کرتے ہیں اور مقدور بھر دوسروں کے مسائل کو حل کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔ وسائل کا مناسب استعمال لوگ کیسے کرتے ہیں، اس کی ایک مثال  ملاحظہ کریں۔
گزشتہ دنوں  ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ممکن ہے کہ آپ میں سے بھی کچھ لوگوں نے اسے دیکھا ہو۔ایک صاحب اپنی کار کے پاس ایک ’پلے کارڈ‘ لے کر کھڑے ہیں۔ اس پر لکھا ہوا ہے ’’دہلی سے کرنال... ۲۰۰؍ روپے فی سیٹ۔‘‘ یہ فاصلہ تقریباً ۱۳۰؍ کلومیٹر کا ہے۔ دہلی سے کرنال تک بس کا کرایہ بھی دو سوروپے سے زائد ہے۔ مطلب یہ کہ وہ صاحب رعایتی شرح  پر مسافروں کو دہلی سے کرنال پہنچا رہے  ہیں۔  وقفے وقفے سے وہ ’کرنال کرنال‘ کی آواز بھی لگاتے ہیں۔ دریں اثنا وہاں ایک نوجوان پہنچا جو اُن کا شناسا  ہے۔ اس نے حیرت سے کہا’’سر! آپ؟آپ ٹیکسی چلا رہے  ہیں؟‘‘وہ بھی اسے پہچان گئے۔ انہوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا نام لیا اور اثبات میں جواب ملنے پر بولے’ارے تم تو کافی بڑے  ہوگئے۔‘ رسمی گفتگو کے بعدنوجوان نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا’’سر! آپ کی ملازمت تو سرکاری ہے نا؟ پھر آپ یہ ٹیکسی کیوں چلا  رہے ہیں؟‘‘انہوں نے کہا کہ ’’بیٹا! میں ہر ہفتے اپنی بہن کے پاس کرنال جاتا ہوں۔ اتنی دور تک گاڑی خالی نہ جائے، اسلئے میں تین چار سواریاں لے لیتا ہوں تاکہ کچھ روپے مل جائیں۔‘‘ نوجوان نے مزید حیرت کااظہار کیاکہ ’’سر! آپ کی تنخواہ تو اچھی خاصی ہوگی، پھر آپ کو کرائے کی رقم کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس کے بعد انہوں  نے اپنے شاگرد کو تفصیل بتائی کہ یہ میرا ہر ہفتے کا معمول ہے۔ ان سواریوں سے مجھے جو  رقم ملتی ہے  میں اس سے پنسل ، کمپاس اور کچھ کاپیاں خریدلیتا ہوں اور اسے اُن بچوں میں تقسیم کر دیتا ہوں جو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن یہ لوازمات خرید نہیں پاتے۔  انہوں  نے کہا کہ اس میں میری جیب سے کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن کچھ طلبہ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے ایک بات کہی جواُس ویڈیو کا حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اس سفر میںمجھے اپنی خالی گاڑی کا اس سے بہتر اورکوئی استعمال نظر نہیں آتا۔‘‘ 
یہیں ممبئی میں میرے ایک شناسا ہیں۔ وہ ایکٹیوا سے چلتے ہیں۔ ان کا بھی کچھ اسی طرح کا معمول ہے۔ وہ جس راستے سے گزرتے ہیں، اس راستے پر اگر ان کا کوئی واقف کار، کوئی بزرگ یا کوئی شریف نظر آنے والا نوجوان دکھائی دیتا ہے تو وہ گاڑی روک کر سلام کرتے ہیں، پوچھتےہیں کہ کہاں  جانا ہے؟ اگر وہ اسی راستے کا مسافر ہے تو اسے وہاں تک چھوڑ دیتے ہیں، جہاں تک انہیں خود جانا ہوتا ہے۔ اس میں ان کاکچھ نقصان نہیں ہوتا لیکن ان کے وسائل سے کسی کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟ کیاہم اپنے وسائل کا اسی طرح مناسب استعمال نہیں کرسکتے؟ ضروری نہیں کی گاڑی ہی ہو، غور کریں تو ہمارے پاس بھی اس قسم کے کچھ وسائل ضرور ہوں گے جو دوسروں کے مسائل کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں  ۔

Monday 28 August 2023

Is there anything for Muslims in the 'Mohabbat ki dukan'?/ Qutbuddin Shahid

 ’محبت کی دُکان‘ میں کیا مسلمانوں کیلئے بھی کچھ ہے؟

 نوح  فساد  کے بعد  ایک ہزار سے زائد دکان اور مکان زمین دوز کرکے ایک جھٹکے میں ہزاروں افراد کو بے گھر اور بے روزگار کردیا گیا لیکن کانگریس  نے مسلمانوں کی اشک سوئی تو دور، اس معاملے پر لب کشائی تک کی زحمت نہیں کی، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جارہی ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کا اعلان کیا توسب سے زیادہ خوشی کااظہار ہندوستانی مسلمانوں نے کیا۔انہیں لگا کہ اس دکان میں ان کی ضرورت کا بھی کچھ سامان ہوگا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ کانگریس کے رویے سے انہیں مایوسی ہوتی جارہی ہے۔ اس درمیان کانگریس کے بعض حلقوں سے کچھ اس قسم کے بھی سُر سنائی دیئے کہ نئی اور پرانی کانگریس ہی نہیں بلکہ کانگریس اور بی جے پی میں فرق کرنا بھی مشکل ہونے لگا۔
ایک ایسے جمہوری نظام میں جہاں محض ایک دو فیصد ووٹوں کے اِدھر اُدھر ہوجانے سے اقتدار کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے، وہاں پر ایک سازش کے تحت۱۵؍ فیصد سے زائد مسلمانوں کو سیاسی بیانیے سے پوری طرح باہر کردیا گیا ہے۔مسلم ووٹوں کی طلب تو سب کو ہے... اور صرف طلب ہی نہیں بلکہ اس پردعویٰ بھی ہے لیکن مسلمانوں کی بات کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمان، ترنمول کانگریس کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دے دیں، تو ممتا بنرجی برہم ہوجاتی ہیں۔ اُترپردیش میں مسلم رائے دہندگان کا رُخ بی ایس پی کی طرف ہوجائے تواکھلیش یادو ناراض ہوجاتے ہیںاور سماجوادی پارٹی کی طرف ہوجائے تو مایاوتی کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کو کوسنے لگتی ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ ان تمام جماعتوں کو دھکا دے کر اقتدار تک پہنچانے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے لیکن جب مسلمانوں پر کوئی آنچ آئے اور  وہ مصیبت میں ہوں توان کی حمایت میں کھڑا ہونے کی ذمہ داری کسی کی نہیں ہے۔
ایسے میں راہل گاندھی کی ’محبت کی دکان‘ سے مسلمانوں نے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔انہیں لگنے لگا تھا کہ نئی کانگریس ،  اب اسی راستے پرچلے گی، جس کا اعلان راہل گاندھی نے کیا ہے۔ یہ کانگریس کے تئیں مسلمانوں کے اعتماد ہی کا نتیجہ تھا کہ کرناٹک میں ان کایکطرفہ ووٹ کانگریس کو ملا۔ جے ڈی ایس کو مسلمانوں نے گھاس نہیں ڈالی۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے’ساگر دیگھی‘ میںبھی نظر آئی جہاں ضمنی اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی بدولت کانگریس  کے امیدوار کو کامیابی ملی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں اس حلقے سے ٹی ایم سی کا امیدوار۵۰؍ فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوا تھا لیکن ۲۰۲۳ء کے ضمنی الیکشن میں اس کے امیدوار کو محض ۳۵؍  فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔   یہاں پر کانگریس  کے امیدوار کو ۴۷؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے اور اس کا امیدوار کامیاب ہوا جبکہ ۲۰۲۱ء میں اس کے امیدوار کو محض ۱۹؍فیصد ووٹ ہی ملے تھے۔
  ملک کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی حکمت عملی کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ جہاں جوپارٹی بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہو، اسےووٹ دے کر مضبوط کریں لیکن یہ راہل کی’ محبت کی دکان‘ کا اثر تھا کہ ساگر دیگھی اور اس کے بعد مغربی بنگال کے پنچایتی انتخابات  میں مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اُن ریاستوں میں بھی، جہاں کانگریس کی پوزیشن نازک ہے، مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دینے کا ذہن بنا لیا ہے۔ اترپردیش کے پنچایتی انتخابات میں اس کی ایک جھلک دیکھی جاچکی ہے اور تلنگانہ میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں....مگر افسوس کہ کانگریس اپنے رویوں سے ایک بار پھر مسلمانوں کو مایوس کررہی ہے۔
  اس حوالے سے مثالیں تو بہت ساری دی جاسکتی ہیں لیکن ہم یہاں صرف نوح  کے فساد اور اس کے بعد کے حالات پر کانگریس کے رویے اور مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈروں کے بیانات  پر اکتفا کریںگے۔ نوح میں فساد کیسے ہوا؟ اور اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔  یہ اظہرمن الشمس ہے لیکن اس کے بعد وہاں پر جس طرح سے’سرکاری انتہا پسندی‘ ہوئی، وہ فساد سے بھی زیادہ تکلیف دہ رہا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اس دوران  ۱۲۴۸؍ مکان اوردکان زمین دوز کئے گئے۔ اس طرح ایک جھٹکے میں ہزاروں خاندانوں کو بے گھر ا ور بے روزگار کردیا گیا۔ یہ کوئی معمولی  بات نہیں ہے لیکن کانگریس نے اس کا نوٹس نہیں لیا یا کم از کم اُس طرح نہیں لیا، جس طرح سے لیا جانا چاہئے تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران راہل گاندھی اورگورو گوگوئی نے ’پاسنگ ریفرینس‘ کے طورپر نوح فساد کا تذکرہ ضرور کیا لیکن اس میں بھی  بلڈوزر کارروائی کا کوئی ذکرنہیں تھا۔ حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں مسلمانوںنے ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کو یکطرفہ ووٹ دیا تھا۔ میوات ضلع کے تینوں اسمبلی حلقوں (نوح، فیروز پور جھرکا اور پوناہانا)  میں کانگریس کے امیدواروں کو کامیابی ملی تھی۔ کانگریس لیڈروں کو یہاں مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ انہیں بتانا چاہئے تھا کہ محبت کی دکان میں مسلمانوں کیلئے بھی کچھ ہے لیکن افسوس کہ راہل گاندھی خود بھی۵۰؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے نوح نہیں جاسکے۔ اس کے برعکس ایک ہزار کلومیٹر کی دوری پر واقع لیہہ میں محبت کی دکان کھولنے چلے گئے۔    
کانپور میں ایک برہمن خاندان کے گھر پربلڈوزر چلا تھا جہاں ماں بیٹی کی موت ہوگئی تھی ، وہاں پرینکا گاندھی بذات خود پہنچ گئی تھیں لیکن دہلی سے متصل گروگرام میں ۲۴؍ سالہ امام کوقتل کر دیا گیا اور اس سےقبل جنید اور ناصر نام کے دو نوجوانوں کو  زندہ جلا دیاگیا، لیکن پرینکا اور راہل کو چھوڑیئے، ریاستی سطح کے لیڈران نے بھی ان مظلوموں کے گھروں تک جانے کی زحمت نہیں کی۔ ان ہنگامہ آرائیوں کی جڑ ’مونو مانیسر‘ نامی بجرنگ دل کے ایک شدت  پسند کارکن کو سمجھاجاتا ہے جس کے خلاف راجستھان میں ایف آئی آر درج ہے لیکن اشوک گہلوت کی حکومت اُس ایک معمولی ملزم کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے پارہی ہے اور دعویٰ بی جے پی سے ٹکرانے کا ہے ۔
راہل گاندھی نے ’محبت کی دکان‘ کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ملک میں نظریات کی ایک واضح لکیر ہے، جس کے ایک طرف گاندھی وادی کانگریس ہے تو دوسری طرف گوڈسے وادی بی جے پی ہے۔ تاریخ کے بدترین دور سے گزر چکی کانگریس کی کچھ حد تک بحالی اسی نعرے کے بعد ہوئی  ہے۔ ایسے میںامید تھی کہ کانگریس کے لیڈران اس لکیر کی پاسداری کریں گے لیکن افسوس کہ ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔
مدھیہ پردیش میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، وہاں پرینکا گاندھی نے ’نرمدا‘ کی  پوجا سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا، سی  ڈبلیو سی کے رُکن دگ وجے سنگھ نے بجرنگ دل پر پابندی کی مخالفت کی اور وزارت اعلیٰ کے دعویدار کمل ناتھ نے ملک کو ہندوراشٹر قرار دیتے ہوئے متنازع سادھو ’باگیشور‘ کی کتھا کا اہتمام کیا۔ یہ وہی باگیشو ر ہے،  جو اپنی زہرافشانی کیلئے بدنام ہے،جس کی فرقہ پرستی انتہا پر ہے، جو ہندوستانی مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری بتاتا ہے اور ان کے خلاف بلڈوزر کارروائیوں کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔  
کانگریس کا اگریہی رویہ رہا اور اسی طرح سیکولرازم کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک کا وہ طبقہ بھی جو کانگریس کو بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، امریکی مصنف اور دانشور جیمس بالڈوِن کا یہ قول دہرانے پرمجبور ہوگاکہ’’آپ جو کہتے ہیں، میں اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا کیونکہ آپ جو کررہے ہیں، وہ میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘n

Tuesday 22 August 2023

Social media has destroyed social life

 سوشل میڈیا نے سماجی زندگی تباہ کردی ہے

اس پلیٹ فارم کے بے جا استعمال کی وجہ  سے ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، ہمارا وقت برباد ہوتا ہے 
اور سماج میں انتشار بھی پیدا ہوتا ہے،اسلئے اس کے خلاف ایک باقاعدہ مہم کی ضرورت ہے

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

گزشتہ دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے گردن میں کپڑے کاموٹا والا بیلٹ لگا ہو ا تھا تاکہ گردن سیدھی رہے۔ وجہ پوچھی تو انہوں نےبتایا کہ رات میں بستر پر لیٹ کر موبائل دیکھنے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، اسلئے ڈاکٹرنے انہیں یہ بیلٹ لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے ’ٹیکسٹ نیک سنڈورم‘ کہا جاتا ہے۔
کچھ دنوں قبل کی بات ہے،ایک ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے پاس ایک مریض آیا جس کا بایاں ہاتھ ٹھیک سے اوپر نہیں اُٹھ رہا تھا۔  ہاتھ  میں تو درد تھا ہی، کندھا اور  بائیںجانب کا سینہ بھی درد کررہا تھا۔ مریض یہ سوچ کر  خوف زدہ تھا کہ کہیں ’فالج‘ اور ’ ہارٹ اٹیک‘ کا مسئلہ تو نہیں ہے۔ مختلف رپورٹیں دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ موبائل فون کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
آنکھوں کا خشک ہونا ایک ایسی بیماری ہے جس میں آنکھوں سے مناسب مقدار میں آنسو باہر نہیں نکل پاتے۔  اس کی وجہ سے آنکھوں میں نمی کم ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے خواہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا۔ آنکھوں میں خشکی کے اس مسئلے کو ’ڈرائی آئی سنڈورم‘ کہتے ہیں۔  اس بیماری کی مختلف وجوہات میںسے ایک بڑی وجہ موبائل کا  بہت زیادہ استعمال ہے۔
موبائل  کے کثرت استعمال کی وجہ سے ہونے والی  یہ چند ایسی  بیماریاں ہیں جن کی نوعیت انفرادی ہے اورجن کا ازالہ کسی حد تک ممکن ہے لیکن اس کی وجہ سے جوسماجی بیماری پیدا ہورہی ہے، وہ بہت سنگین ہے۔ لوگ سماج میں رہتے ہوئے بھی سماج سے دور ہوجاتے ہیں  بلکہ ان میں سے بیشتر کو اپنے گھر تک کی بھی خبر نہیں رہتی۔ ابھی حال ہی میں اس تعلق سے ایک چشم کشا رپورٹ آئی ہے جس سےظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا نے سماجی  زندگی تباہ کردی ہے۔ ڈیجیٹل مشاورتی ادارے ’کے پیوس‘ کی رپورٹ کے مطابق  دنیا کی ۶۴؍ فیصد سے زیادہ آبادی سوشل میڈیا  پر فعال ہے اور اپنا بہت سار ا وقت وہاں پر’ضائع‘ کرتی ہے۔اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شرح میں سالانہ طور پر ۳ء۷؍ فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ  کے مطابق  دنیا کی ۷۹۰؍ کروڑ کی آبادی میں سے ۵۲۰؍ کروڑ افراد سوشل میڈیا کے  چنگل میں پھنسے ہوئےہیں۔ یہاں چنگل کا لفظ اسلئے استعمال کیا جارہا ہے کہ ان میں سے بیشتر ’کوشش کے باوجود‘ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہے ہیں۔  
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت برباد کرنے والوں کی فہرست میں ہم ہندوستانیوں کا نمبر دوسرا ہے۔ پہلے نمبر پرچین اور تیسرے نمبر  پرامریکہ ہے۔رپورٹ کے مطابق  چین میں  ۱۰۲؍ کروڑ،  ہندوستان میں ۷۶؍ کروڑ اور امریکہ میں۳۰؍ کروڑ سے زائد افراد سوشل میڈیا کااستعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک اس پلیٹ فارم پر وقت گزارنے کی بات ہے، ہماری پوزیشن اوسط سے زیادہ ہے۔  عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے استعمال کا اوسط وقت ۱۵۱؍ منٹ یومیہ ہے جبکہ  ہندوستان میں ۱۹۴؍ منٹ یعنی ۳؍ گھنٹے ۱۴؍ منٹ ہے۔ اسی طرح ہم ہندوستانیوں کے’ اسکرین ٹائم‘ کا اوسط یومیہ ۶؍ گھنٹے  سے زائد کا ہے اوران میں اکثریت ۱۸؍ سے ۲۰؍ سال کے نوجوانوں کی ہے۔
سوشل میڈیاجیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ایک اچھی چیز ہے۔ اگر اس کااستعمال  مثبت  ہو تو اس کی مدد سے ہم بہت سارا فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اپنے سماجی رابطے میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں لیکن افسوس کہ سوشل میڈیا ہم میں سے بیشتر کیلئے ایک لت بن چکا ہے۔ صرف نوجوان  ہی نہیں بلکہ بچے اور بوڑھے حتیٰ کہ گھریلو خواتین بھی اس لت کی شکار ہیں۔اس  لت نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا لیا ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم  سوشل میڈیا کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہونے لگے ہیں۔ اس کا تباہ کن نتیجہ ہم سماج میں اور اپنے آس پاس آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ پوسٹ پرلائک ، شیئر اور تبصرہ کی گنتی میں ہم کچھ اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ اپنا اصل مقصد اور اپنی ذمہ داریاں فراموش کر بیٹھتےہیں۔اس کی وجہ سے ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی شکایت عام ہے۔ والدین اپنے بچوں سے ، بیویاں اپنے شوہروں سے، اساتذہ اپنے طلبہ سے اور مالکان اپنے ملازمین سے نالاں نظر آتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی  ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جب کوئی شخص سوشل میڈیا پر مصروف ہوتا ہےتو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ بھی متحرک ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دماغ کا وہی حصہ ہے جو کسی فرد کے نشہ آور اشیاء کے استعمال کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک طرح کا نشہ ہے اورجب کوئی ’نشے‘ میں ہو تو اسے اچھے اور برے کی تمیز کیوں کر ہوسکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ اس نشے کا خمیازہ ہم روز بھگت رہے ہیں۔ تین ماہ سے منی پور جل رہا ہے  اور ہریانہ میں ہزاروں کی آبادی بے گھر اور بے روزگار ہوگئی ہے۔ حکومت کی نااہلی یا اس کی زیادتی اپنی جگہ، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ہی جگہوں پر جو آگ لگی، اس کی چنگاری سوشل میڈیا ہی نے ڈالی تھی۔ کچھ تو سازش کے تحت ایساکرتے ہیں، کچھ سادہ لوحی میں بھی اس سازش کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر یہ دیکھے بغیر کہ میسیج میں کیا ہے؟  اس کی سچائی کتنی ہے؟ اورسماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے،  اسے فارورڈ کردیتے ہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ کام ، ہم نہایت ذمہ داری سے کرتے ہیں۔
     اس معاملےمیں سرسری جائزے سے بھی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے کثرت استعمال سے:
   (۱)ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، جس کے علاج پر پیسہ اور وقت دونوں برباد ہوتا ہے۔ 
(۲) ہمارا وقت برباد ہوتا ہے، ہم امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں، ہماری ملازمت چلی جاتی ہے، گھروالوں کی نظروں میں ہم گر جاتے ہیں اور ہمارا ’کانفیڈنس لیول‘ کم ہوجاتا ہے۔
  (۳) سماج میں انتشا ر کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہم یہ جانے بغیر کہ سچ کیا ہے، ’فارورڈ فارورڈ‘ کھیلنے لگتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا کم سے کم استعمال اور اس کے مثبت استعمال  کیلئے باقاعدہ ایک مہم کی ضرورت ہے، جس میں ہر اُس فرد کو حصہ لینا چاہئے جو خود کو سماج کا ذمہ دار فرد سمجھتا ہو۔اس مہم کا آغاز انفرادی طورپر ہونا چاہئے کیونکہ انفرادی کامیابی ہی، اجتماعی کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔

Monday 14 August 2023

 لوک سبھا میں تحریکِ عدم اعتماد ناکام لیکن اپوزیشن اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب

اس کامیابی کے باوجود حزب اختلاف اس پلیٹ فارم کا استعمال مزید بہتر انداز میں کرسکتا تھا۔ حکومت کے دعوؤں کی پول کھولنے  اور ملک کے سامنے اسے بے نقاب کرنے کا اس کے پاس بہترین موقع تھا لیکن وہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکا
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
مودی حکومت کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک سے حزب اختلاف یا پھرحزب اقتدار کو کیا ملا؟ اور کتنا ملا؟اس کا جواب ’دو اور دو چار‘ کی طرح آسان نہیں ہے۔ اسے جاننے، سمجھنے  اور کسی نتیجے پرپہنچنے کیلئے ایک چھوٹی سی مثال کو ہم پیمانہ بناتے ہیں۔
ایک محلے میں۲؍ بچوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ دونوں لڑتے، جھگڑتے اور روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور ایک دوسرے کی شکایت کی۔ اتفاق کی بات تھی کہ دونوں کی والدہ ایک ساتھ ہی تھیں اوران کے ساتھ محلے کی ایک اور خاتون بھی تھیں۔ان دونوں میں سےغلطی کسی کی بھی رہی ہو،جھگڑے کی پہل کسی نے بھی کی ہو لیکن  اُن ماؤں کو اپنے بچوں کی غلطی نظر نہیں آئے گی۔ ایسے میں دونوں بچوں کی نظر وہاں موجود تیسری خاتون کی طرف جائے گی، اسلئے وہ اسے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔
لوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک کو بھی کچھ اسی طرح دیکھا جاسکتا ہےجہاں دونوں بچے (حزب اقتدار اور حزب اختلاف) تیسری خاتون (غیر جانب دار عوام) کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ دراصل یہی غیر جانب دارعوام/ ووٹر جن کی تعداد ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد کے درمیان بتائی جاتی ہے، ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ملک کے ۸۰؍ فیصد سے زائد رائے دہندگان آنکھ بند کرکے کسی ایک کی حمایت کرتے ہیں، وہ اچھا اور برا نہیں دیکھتے۔ ان کا رویہ اُن ماؤں کی طرح ہوتا ہے جنہیں اپنے بچے کی غلطی نظر نہیں آتی۔ اگر وہ بی جےپی کے حامی ہیں تو ان کی نظر میںبی جے پی کے سات خون معاف ہوتے ہیں، اسلئے وہ اسی کے امیدوار کو ووٹ دیںگے، خواہ وہ کیسا بھی ہو؟ اسی طرح اگر وہ کانگریس یا کسی اور جماعت کے حامی ہیں تو ان کا بھی وہی رویہ ہوتا ہے۔  
  یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کانگریس کی تاریخ میں اس کیلئے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کا الیکشن بہت خراب تھا۔ اس الیکشن میں اسے بالترتیب ۱۹ء۳۱؍فیصد اور ۱۹ء۴۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس کے پکے ووٹر ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اسی طرح ۲۰۰۹ء میں بی جے پی کو ۱۸ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اُس  دورکو بی جے پی کیلئے برا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ کہ وہ اس کے وفادار حامی ہیں جو ہر صورت میں اس کے ہی ساتھ رہیں گے، خواہ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان ہی کیوں نہ چھونے لگے۔ مودی کے وزیراعظم بننے  کے بعد ملک کا ماحول قدرے تبدیل ہوا ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافہ اتنا بھی نہیں ہے کہ۲۰۱۴ء یا ۲۰۱۹ء میں اسے جو  ووٹ ملے تھے،ان تمام کو اس کا حامی تسلیم کر لیا  جائے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کو ۳۱؍ فیصد اور ۲۰۱۹ء میں ۳۷ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ ان میں ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد وہ غیرجانب دار ووٹرس شامل ہیں جو ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
  حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک کا نتیجہ واضح ہونے کے باوجود اگر اپوزیشن نے لوک سبھا میں یہ تحریک پیش کی تھی، تو اس کا مقصد وہی تھا۔ وہ ۱۰؍ سے۲۰؍ فیصد پر مشتمل   اُن غیرجانب دار ووٹروں کے سامنے یہ حقیقت لانا چاہتے تھے کہ ملک کی سالمیت کیلئے  بی جے پی کس حد تک نقصاندہ ہے؟
وہ ان کے سامنے حکومت کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور بتانا چاہتے تھے کہ ترقی کا دعویٰ صرف نعروں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، سچائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اپوزیشن کے لیڈران اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ وہ عوام  (وہی۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد عوام) کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ تین ماہ سے زائد  عرصے سے فساد کی آگ میں جھلس رہے منی پور کے تعلق سے مودی حکومت غیر سنجیدہ ہے  اور وزیراعظم مودی  اس کے تئیں بے حس ہیں۔
لیکن اپوزیشن اگرچاہتی تو اس پلیٹ فارم کو مزید بہتر انداز میں استعمال کرسکتی تھی۔ کانگریس لیڈر گورو گوگوئی اور راہل گاندھی نے یقیناً بہت اچھی تقریریں کیں لیکن انہوں نے صرف اپنی باتیں کیں۔ کیا ہی مناسب ہوتا اگر یہ لوگ حکمراں محاذ کی جانب سے کی جانے والی تقریروں کا پوسٹ مارٹم وہیں ایوان میں کرتے ا ورحکومت کو آئینہ دکھاتے۔   منی پور کے تعلق سے وزیراعظم مودی کی بے حسی کے اظہار کیلئے اپوزیشن کا واک آؤٹ کرنا مناسب تھا لیکن  اگر وہ کچھ دیر بعد واپس آجاتے اور وزیراعظم کی تقریر کے بعد وہیں ایوان میں اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتے تو شاید زیادہ موثر ہوتا۔
ویسے یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کے غیرجانب دار عوام اور رائے دہندگان تک حزب اختلاف اور 
حزب اقتدار کا وہ پیغام پہنچ ہی گیا ہے جو وہ  پہنچانا چاہتے تھے۔ اب فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق ۱۰؍ اہم سوالات

حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد کیوں پیش کیا؟
اپوزیشن کی جماعتیں حکومت  سے منی پور کے موضوع پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کررہی تھیں لیکن حکومت اس کیلئے تیار نہیں تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ مختصروقت کیلئے ہی اس موضوع پر بات کرے گی۔ اسی طرح سے اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ منی پور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وزیراعظم مودی آکر بیان دیں لیکن حکومت اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوئی۔اسلئے حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔ اس قانون کے تحت وزیراعظم کو ایوان میں آنا اور بیان دینا  لازمی ہوتا ہے۔
تحریک اعتماد پیش کرنے کیلئے کیا شرائط ہیں؟
کسی بھی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ اس تحریک پر بحث کی منظوری کیلئے لوک سبھا کے ۵۰؍ اراکین کی منظوری ضروری ہے ۔ہندوستانی جمہوریت میں اسے برطانیہ کے ویسٹ منسٹر ماڈل کے پارلیمانی نظام سے لیا گیا ہے۔ پارلیمانی نظام کے قاعدہ نمبر۱۹۸؍ میں اس کا ذکر ہے۔
کیا اس بحث میں حکومت کو جواب دینے کیلئے مجبور کیا جاسکتا ہے؟
نہیں۔ حکومت سے سوال تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے جواب دینے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن کے سوال کے جواب میں حکومت کسی بھی موضوع پر بات کرسکتی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سوالات کو اس کے سامنے پیش کردے  اور حکومت سے جواب کی توقع کرے۔ حکومت سے جواب نہ ملنے کی صورت میں اپوزیشن، عوام  کے سامنے اس موضوع کو اٹھائے۔ 
کالنگ اٹیشن موشن‘ کیا ہے؟
اگرپارلیمنٹ میں ’کالنگ اٹینشن موشن‘ پیش کیا جاتا تو صرف ایک ہی موضوع پر بات ہوتی اوراس میں حکومت کیلئےجواب دینا ضروری ہوتا ۔ اسی لئے مودی حکومت  اس رول کے تحت منی پور کے موضوع پر بحث کیلئے آمادہ نہیں ہورہی تھی۔
کیا اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب رہی؟
بالکل۔ دونوں صورت میں۔  اول یہ کہ وزیراعظم کو ایوان میں آنا پڑا۔ دوم یہ کہ وزیراعظم یہاں آکر بھی منی پور پر کچھ نہیں بولے، اس طرح یہ ثابت کرنا آسان ہوا کہ وہ منی پور کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں۔
رول نمبر ۱۷۶؍ اور ۲۶۷؍ کیا ہے؟
اس کا براہ راست تعلق عدم اعتماد کی تحریک سے نہیں ہے۔ یہ دراصل راجیہ سبھا کے ضوابط ہیں لیکن اگر حکومت نے اپوزیشن کا ۲۶۷؍ کے تحت بحث کا مطالبہ منظور کرلیا ہوتا تولوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ضابطہ نمبر۱۷۶:  اس  ضابطےکے تحت ایوان میں کسی بھی معاملے پر ڈھائی گھنٹے تک بحث کی اجازت ہے۔اس سے زیادہ کسی مسئلے پر بات نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ممبر کسی خاص مسئلے پر تحریری نوٹس دے کر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس تحریک پر تحریک پیش کرنے والے کے علاوہ۲؍ اراکین کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے بعد چیئرمین اسی دن یا اگلے دن اس معاملے پر بحث کر سکتے ہیں۔ بحث کے بعد کسی بھی معاملے پر ووٹنگ نہیں کی جاتی۔
ضابطہ نمبر۲۶۷:  اس ضابطے کے تحت سارے کام چھوڑ کر جس موضوع کیلئے یہ تحریک پیش کی جاتی ہے،اس پربحث ہوتی ہے۔اس اصول کے تحت کوئی بھی رکن کسی بھی اہم معاملے پر بحث کیلئے تحریک پیش کر سکتا ہے۔ بحث کے بعد ووٹنگ بھی ہوتی ہے۔
وزیراعظم کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے بائیکاٹ کیوں کیا؟
اپوزیشن کا اول دن سے یہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں اور منی پور کی صورتحال پرگفتگو کریں لیکن ۹۰؍ منٹ کی تقریر کے بعد بھی جب وزیراعظم کچھ نہیں بولے تو اپوزیشن کے لیڈران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، اسلئےاس کے تمام اراکین وزیراعظم مودی کی تقریر کے دوران ہی بطور احتجاج ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
امیت شاہ نے جس کلاوتی کا تذکرہ کیا ، وہ کون ہے؟
یہ مہاراشٹر کے ایوت محل سے تعلق  رکھنے والی ایک خاتون ہیں جن کے کسان شوہر نے ۲۰۰۸ء میں خود کشی کرلی تھی۔ اُس وقت راہل گاندھی نے ان کے گھر کا دورہ کیا تھا اور اس کی ہمت افزائی کی تھی۔  راہل گاندھی نے اس خاتون کا درد اُس وقت پارلیمنٹ میں بیان کیا تھا۔ امیت شاہ  نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ راہل گاندھی نے صرف جذباتیت سے کام لیا تھا اور مذکورہ خاتون کی کوئی مدد نہیں کی لیکن ان  کے بیان کے فوراً بعد اس طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں کہ راہل گاندھی نے نہ صرف اپنے ذرائع سے ان کی مدد کی تھی بلکہ اس کے بعد سے وہ مسلسل رابطے میں ہیں۔  یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران کلاوتی یاترا میں شامل ہوئی تھیں۔ امیت شاہ کے بیان کے بعد کلاوتی نے ضلع مجسٹریٹ کو مکتوب سونپتے ہوئے کہا کہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ راہل گاندھی کی وجہ سے آج میرے گھر کا گزر بسر ہورہا ہے اور میرے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔
وزیراعظم مودی نے ۱۹۶۶ء میں میزورم پر جس فوجی حملے کی بات کہی تھی، وہ کیاتھا؟
وزیراعظم  مودی نے  اندرا گاندھی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ۱۹۶۶ء میں میزورم پر ہوائی حملہ کیا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر عوام مارے گئے تھے۔ کانگریس نے اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب  میزو نیشنل فرنٹ کے باغیوں نے میزورم کے ایزول پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہیں بھگانے اور ملک کی سالمیت کیلئے ہندوستانی فضائیہ  کے ذریعہ ان پر بمباری ضروری تھی۔ فضائی بمباری کی وجہ سے ہی  ایم این ایف کے باغی بھاگنے پر مجبور ہوئے جس کے سبب ایک بار پھر خطے پر ہندوستان کی بالادستی قائم  ہوسکی۔ خیال رہے کہ ان دنوں ہندوستان ایک طرف چین سے تو دوسری طرف پاکستان سے برسرپیکار تھا۔ ایسے میں ایم این ایف کے باغیوں نے ایزول پر قبضہ کرلیاتھا، اسلئے حکومت کے پاس فضائی بمباری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمراں محاذ کو اپنی بات رکھنے کیلئے زیادہ اور اپوزیشن کے اراکین کو کم وقت کیوں ملا؟
یہ وقت دراصل اراکین کی تعداد کے حساب سے ملتا ہے۔ لوک سبھا میں حزب اقتدار کے اراکین کی تعداد چونکہ زیادہ ہے،اسلئے اس کے اراکین کو زیادہ وقت ملا اور حزب اختلاف کے اراکین کو کم ملا۔ وقت کا تعین پارلیمنٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی طے کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں کل ۲۶؍ اراکین ہوتے ہیں، جن میں ۱۵؍ لوک سبھا کے اور ۱۱؍ راجیہ سبھا کے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہیں۔

Monday 7 August 2023

Is there a fire in Noah or is it set? Qutbuddin Shahid

نوح میں آگ لگی ہے یا لگائی گئی ہے؟

ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو کسی نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی لیکن ’فسادات کی روایت‘ کے مطابق ہریانہ
 میں بھی کسی کو بچانے اور کسی کو پھنسانے کی کوششیں شروع ہوگئی  ہیں تاکہ سیاست کا کاروبار جاری رہے اور اقتدار سلامت رہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
نوح میں کیا ہوا؟کیسے ہوا؟ کس کی وجہ سے ہوا؟ اور اب کیا صورتحال ہے؟  اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ آئیے پہلے  اس تعلق سے کچھ بیانات کا جائزہ  لیتے ہیں اور ا س کی ’کرونولوجی‘ دیکھتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ نوح  کے حالات کس رُخ پر جارہے ہیں ؟
وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹرکہتے ہیں کہ :
nفساد یوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس کیلئے جو بھی ذمہ دار ہے، اسے بخشا نہیں جائے گا۔ حکومت کی نظر میں سب کچھ ہے۔ تشدد میں جو بھی نقصا ن ہوا ہے، وہ فسادیوں سے وصول کیا جائے گا۔
nمونو مانیسر کے یاترا میں شامل ہونے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔
nیہ ایک سازش ہے جس کی جانچ کی جائے گی؟
وزیرداخلہ انل وِج کا کہنا ہے کہ:
nمیں نے مونو مانیسر کا ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا ہے ۔ اس میں عام لوگوں سے۳۱؍ جولائی کو ہونے والی  یاترا میں شامل ہونے کی اپیل کے سوا کچھ بھی نہیں  ہے۔ 
nکیا کسی کی طرف سے پوسٹ کیا گیا کوئی ویڈیو کسی کو مذہبی جلوس اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کا حق دیتا ہے؟
nکانگریس کے ایم ایل اے (انجینئر مامن خان) کےٹویٹ کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، جس نے بھی سازش رچی ہے اور جس نے بھی یہ انجینئرنگ کی ہے، اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
ریاست کے ڈی جی پی ’پی کے اگروال‘ کہتے ہیں کہ:
n اب تک۴۱؍ ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں،۱۱۶؍ افراد کو گرفتار اور۹۰؍ کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایس پی نریندر سنگھ بزارنیا کا کہنا ہے کہ:
nابتدائی پوچھ تاچھ سے پتہ چلا ہے کہ مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کے ویڈیو کے بعد ان نوجوانوں نے برج منڈل یاترا کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرنے کیلئے واٹس ایپ کے ذریعے لوگوں کو منظم کرنے سے قبل چھوٹے چھوٹے گروپ میں کئی میٹنگیں کیں۔  
ان بیانات سے یقیناً اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ نوح فساد کے تعلق  سے حکومت کیا سوچتی ہے؟ اور پولیس کی ’تحقیقات‘کس رُخ پر جارہی ہیں؟
n وزیراعلیٰ نے ’فسادیوں ‘ کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ہی انہیں سے ہرجانہ وصول کرنے کی بات بھی کہی.... اور اگلے ہی بیان میں یہ بھی واضح کردیا کہ مونو مانیسر وہاں موجود نہیں تھا ، یعنی وہ فسادی نہیں ہے۔
nاس کے بعد  وزیرداخلہ نے مونو کے ویڈیو کو غیر اہم بتانے کی کوشش کے ساتھ ہی یہ سوال کیا کہ کیا اس کی بنیاد پر کسی کو ’فساد‘ برپا کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟  مطلب یہ کہ مونو کے ویڈیو کی بنیاد پر فساد’کسی اور‘ نے برپا کیا۔
nرکن اسمبلی مامن خان کے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کو بھی گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ مذکورہ ویڈیو میں مامن خان نے ناصر، جنید اور وارث  کے قتل کے بعد اسمبلی میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے ریاست میں نظم ونسق کی صورتحال پر سوال اٹھایا تھا۔ اسی گفتگو میں مامن خان نے مونومانیسر اور بٹو بجرنگی کو میوات میں آنے کیلئے چیلنج بھی کیا تھا۔ 
   وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کے ان بیانات نے پولیس کا راستہ آسان کردیا کہ انہیں کس رُخ پر ’جانچ‘ کرنی ہے۔      ڈی جی پی اور ایس پی کے اقدامات سے وہ بات ظاہر بھی ہونے لگی ہے۔ مخصوص طبقے کے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں کے بعد نوح میں ۲۰۰؍ سے زائد جھوپڑوں اور دکانوں پر بلڈوزر بھی چلا دیا گیا۔  ان پر فساد میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیاہے۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ نوح میں آگ لگی یا لگائی گئی ، اگر لگائی گئی تو کس نے لگائی؟
   ۳۱؍ جولائی کو نوح کا علاقہ شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ تصویریں دیکھ کر یوکرین اورشام (سیریا) کا گمان ہورہا تھا۔ لیکن یہ آگ اچانک نہیں لگی تھی۔   ۱۵؍فروری کو ناصر، جنید اوروارث نامی ۳؍ نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد ہی سے میوات کے پورے خطے میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔اس قتل کا الزام مونو مانیسر پر ہے ۔ اب و ہی مونو  اہل میوات کو دھمکی دے رہا تھا کہ  وہ ’یاترا‘ میں شریک ہونے کیلئے آرہا ہے۔  یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ’روک سکو تو روک لو‘۔  اس کا ایک ساتھی بٹو بجرنگی ہے جس نے اس کا ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’جیجا جی آرہے ہیں، استقبال کیلئے تیار رہو۔‘‘ مونو اور بٹو بجرنگی کے اس چیلنج کا جواب اہل میوات نے یہ لکھ کر دیا کہ ’’چیلنج قبول ہے۔‘‘ اب ایسے میں حالات کا اندازہ ایک عام آدمی بھی کرسکتا تھا کہ میوات میں کیا صورتحال تھی ... لیکن حکومت خاموش رہی...  اور اس وقت بھی خاموش رہی جب نوح میں امن کمیٹی کے ذمہ داران نےانتظامیہ  کو اس چنگاری کی جانکاری دی اور اسے شعلہ بننے سے روکنے کی اپیل کی۔ حکومت جانتی تھی کہ گزشتہ سال جبکہ ماحول اس طرح کشیدہ نہیں تھا، یاتریوں نے ایک مزار کو نقصان پہنچایا تھا لیکن انتظامی سطح پر کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی اور   ۳۱؍ جولائی کو یاترا نکل گئی۔ تصویروں اور ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ  ’یاتریوں‘ کے پاس لاٹھی اور تلوار کے ساتھ جدید اسلحہ بھی تھا۔ یہ سوال مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر ’راؤ اندر جیت سنگھ‘ نے بھی اٹھایا ہے۔   
ان حالات میں یاترا پر سنگ باری  غیر متوقع نہیں تھی۔  اس کے بعد فساد شروع ہوا تو ۶؍ گھنٹے تک بلا ’روک ٹوک‘ جاری رہا۔اس درمیان فائرنگ ہوئی، ۱۵۰؍ سے زائد گاڑیاں جلائی گئیں، دکانوں اور گھروں کے ساتھ عبادت گاہوں پر بھی حملے ہوئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ۷؍ انسانی جانوں کااتلاف بھی ہوا جن میں ۲؍ ہوم گارڈ اور ایک مسجد کے امام شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موقع پر ۹۰۰؍ پولیس اہلکار تعینات تھے لیکن اس سوال پر کہ فساد کے وقت  وہ کیا کررہے تھے؟ پلول کے ایس پی لوکیندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اُس وقت شاید اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں گے۔‘‘
اور یہی تھوڑی دیر کیلئے ’اِدھر اُدھر‘ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ فساد منصوبہ بند تھا۔ فساد کے دوسرے دن  یوگیندر سنگھ وہاں دورے پر  گئے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’فساد ہوانہیں، کروایا گیا ہے اور وہاں جو کچھ بھی ہوا،اس کے ذمہ دار ہندو اور مسلمان نہیں بلکہ مفاد پرست ٹولہ ہے۔‘‘ 
اس میں کس کا مفاد ہے اور اس سے کس کا فائدہ ہونے  والا ہے؟ بتانے کی ضرور ت نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ یہاں فسادات کی ایک ’روایت‘ رہی ہے۔ سابق آئی پی ایس  افسر اور ہندی کے مشہو ر مصنف وبھوتی نارائن رائے کہتے ہیں کہ ’’فرقہ پرستوں کی ایک حکمت عملی ہے۔ وہ پہلے کسی علاقے کو اپنا ہدف بناتے ہیں، پھر وہاں کے مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیانات دیتے ہیں، جلوس میں اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں اور جب مسلمانوں  کی طرف سے فطری رد ِعمل کا اظہار ہوتا ہے، تو اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ فساد کے دوران بھی اور  اس کے بعد بھی نقصان سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوتا ہے۔‘‘
ہریانہ کے نوح ضلع میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔بقول  امیرقزلباش:
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا n

Community-verified icon