Monday 2 October 2023

Wali Rahmani a courageous young man who dreams and sacrifices his sleep for the children of the nation/ Qutbuddin Shahid

 ولی رحمانی 

قوم کے بچوں کیلئے خواب دیکھنے  اور اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کرنے والا حوصلہ مند نوجوان

قطب الدین شاہد

shahid.qutbuddin@mid-day.com


کلکتہ  کےایک خوشحال اور متمول گھرانے سے تعلق رکھنے  والا ۱۷؍ سال کا ایک نوعمر ایک خواب دیکھتا ہے۔ ایک بڑا خواب، ایک ایساخواب جو اسے بے چین کردیتا ہے۔ یہ خواب وہ اپنے لئے نہیں، قوم کے بچوں کیلئے دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کردیتا ہے۔  اس نوعمر کا نام ولی رحمانی ہے۔  وطن عزیز میں عام طور پر یہ عمرکھانے اور کھیلنے کی قرار دی جاتی ہے۔ کوئی لڑکا اگر بہت زیادہ ذمہ دار رہا تو اسے اپنے کریئراور اپنے والدین کے ارمان کی فکرستاتی ہے، جس کیلئے وہ محنت کرتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کردیتا ہے۔

لیکن ولی رحمانی ان لڑکوں اور نوجوانوں  سے کچھ مختلف ہے۔ اس نوجوان کا عزم اس کی عمر سے کہیں زیادہ جوان اور اس کا حوصلہ اس کے قد سے کئی گنا زیادہ بلند ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تو آج کی نسل اس بات پر فخر کرے گی کہ اس نے سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کا دور تو نہیں دیکھا لیکن ہمارے ان  اکابرین نے مسلمانوں  سے جس رُخ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس پر چلنے والے نوجوان ولی رحمانی کا دور دیکھا ہے۔

ولی رحمانی کی عمر اب ۲۲؍ سال ہوگئی ہے،اسی سال انہوں نے ’جامعہ ہمدرد‘ سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک ویڈیو   بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے قوم  سے قوم کیلئے فنڈ کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کے بعد محض ایک ہفتے میں انہیں ساڑھے پانچ کروڑ روپے مل گئے۔ ان کا ٹارگیٹ ۱۰؍کروڑ روپوں کا تھا لیکن محض ایک ہفتےمیں ملک کے طول و عرض سے کسی ایک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ دوسرے اکاؤنٹس سے پیسوں کی منتقلی ایک نئی اور غیر معمولی بات تھی۔ اس کی وجہ سے پورا بینک اَلرٹ ہوگیا، ’اے آئی‘ بھی حرکت میں آئی اور اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کے تمام ذرائع مسدود کردیئے گئے۔ 

انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ولی رحمانی نے بتایا کہ اس کے بعد بینک  کے ذمہ داران نے ہم سے رابطہ قائم کیاتو ہم نے انہیں اپنی اپیل اور اپنے پروجیکٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ انہوں نے زیر تعمیر اسکول کی جگہ کا دورہ کیا او ر ساری روداد سن کر متاثر بھی ہوئے۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ مستقبل میں وہ ’کارپوریٹ سوشل رسپانس بلیٹی ‘ (سی ایس آر ) فنڈ کی سفارش بھی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ اکاؤنٹ میں رقموں کی منتقلی کے ذرائع بلاک کردیئے گئے تھے، جو فوری طورپر ’اوپن‘ نہیں ہوسکتے تھے،اسلئے دوسرا اکاؤنٹ کھولنا پڑا۔ اس اکاؤنٹ میں بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے آچکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طورپر ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے ہیں۔ان کا پروجیکٹ بہت بڑا ہے لیکن وہ فی الحال ۲؍ ایکڑ زمین پر ایک اسکول بلڈنگ، لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ ہوسٹل اور کھیل کا میدان بنانا چاہتےہیں، جہاں اسلامی ماحول میں عالمی معیار کی تعلیم کا انتظام ہوسکے۔

۱۷؍ سال کے ایک لڑکے کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی؟ اس راہ پر وہ آگے کیسے بڑھا؟ اس راستے میں اسے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟ اسے حوصلہ کہاں سے ملا؟ ان سارے سوالوں کا جواب انہوں نے نہایت اطمینان سے دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بات ۲۰۱۸ء کی ہے جب میں دہلی کے ایک انٹرنیشنل اسکول میں بارہویں جماعت کا  طالب علم تھا۔ ذاتی طورپر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں اپنی کار میں ہیٹرلگا کر سردیوں کا بہ آسانی مقابلہ کر رہا تھا لیکن دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے جب میں سردیوں میں ٹھٹھرتے اور اپنی ماؤں کی گود میں دُبکتے ہوئے بچوں کو دیکھتا تو نظریں چرانی پڑتی تھیں۔ میں انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا لیکن میرے پاس انہیں اس ’عذاب‘ سے باہر نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ اسلئے میں نظریں پھر لیتا تھا۔ ان کی غربت پر مجھے ترس آتاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری طرح یہ بھی تعلیم حاصل کریں  اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے حصہ دار بنیں لیکن غریبوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔ پھراچانک خیال آیا کہ سب نہیں تو کم از کم  ۱۰؍ بچوں کی کفالت تو کر ہی سکتا ہوں۔ اس کے بعد ۲۰؍ سال کی عمر میں ۱۰؍ یتیم بچوں کا ’باپ‘ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ ان ۱۰؍ بچوں پر ۲۰۔۱۵؍ سال تک محنت کروں گا، انہیں تعلیم دلاؤں گا اور سماج میں قابل ذکر مقام دلانے کی کوشش کروں گا اور پھران کے ساتھ مل کر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کروں گالیکن بچوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ۱۰؍ سے ۱۱؍ ہوئے، پھر ۱۳۔۱۲؍ ہوتے ہوئے ۲۰؍ تک پہنچے۔ میں انہیں منع نہیں کرسکا۔ اس کے بعدہم نے باقاعدہ اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں آج ۳۰۰؍ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ۱۵۰۰؍ بچے داخلے کے منتظر ہیں۔‘‘  

ولی رحمانی  نے بتایا کہ جب اس مہم کا خاکہ ہم نے اپنے اہل خانہ کے روبرو پیش کیا تو سب سے پہلے میری والدہ نے میری حوصلہ افزائی کی اوربطور فنڈ انہوں نے ۵۰؍ہزار روپے کی رقم عنایت کی۔ اس کے بعد میرے گھر کی ایک ملازمہ نے ۵۰۰؍ روپے دیئے۔ خاندان اور احباب کی کچھ اور خواتین بھی آگے آئیں، کسی نے اپنی انگوٹھی دی تو کسی نے کچھ اور بیچ کر رقم فراہم کی.... اور اس طرح میرے حوصلے کو مہمیز ملی۔‘‘ کاغذات اور دستاویزات کے مرحلے پر ولی رحمانی نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے چیریٹی کمشنر میں ٹرسٹ کے رجسٹریشن کے ساتھ ہی انکم ٹیکس محکمے سے بھی ادارے کو رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ اسی طرح ادارے کیلئے پین نمبر، ۸۰؍ جی اور سی ایس آر نمبر بھی حاصل کرلیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج یہ نوجوان نہ صرف قوم کیلئے ایک بڑی امید بن کرسامنے آیا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کا رول ماڈل بھی بن گیا ہے۔ 

  یہاں تک پہنچنے کیلئے ولی رحمانی کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ عمر کے اس مرحلے پرجبکہ لوگ اپنے کریئر کے تئیں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو ایک سال کیلئے موخر کردیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے’الہادی ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کی تشکیل کی اوراس کے تحت ’امیداکیڈمی‘ قائم کی ، جہاں آج ۳۰۰؍ غریبوں کے بچے امیروں جیسی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہاں ’اسمارٹ کلاسیز‘ میں سی بی ایس ای  بورڈ کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں فی الحال نرسری سے ششم جماعت تک تعلیم  کا نظم ہے جو’ فطری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ چند برسوں میں بارہویں جماعت تک پہنچ جائے گا۔  انہوں نے بتایا کہ ’’ان کے تمام کلاسیز جدید ٹیکنالوجی  سے ہم آہنگ ہیں جہاں آئندہ  برسوں میں اے آئی، کوڈنگ اور روبوٹکس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ فی الحال یہاں عربی بطور ایک زبان پڑھائی جاتی ہے۔‘‘

’اُمید اکیڈمی‘کی ایک خاص بات جو اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر پہلی ’گھنٹی‘ اساتذہ کیلئے لگتی ہے جس میں تمام اسٹاف کودینیات کے ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

ولی رحمانی آج ایک مقبول نام ہیں۔ فیس بک پر اُن کے۸؍ لاکھ ، یوٹیوب پر۵؍ لاکھ ۲۶؍ ہزار، انسٹا گرام پر ایک لاکھ ۶۳؍ ہزار اور ٹویٹر پر ۷۰؍ ہزار سے زائد فالوورس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج ان کی ایک اپیل پر۷؍ کروڑ روپوں کا فنڈ آسانی سے جمع ہوگیالیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر میںتھک گیا تھا۔  لوگ بلاتے تھے لیکن گھنٹوں باہر بٹھا کر ہزار پانچ سو دے کر رخصت کردیتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ’کراؤنڈ فنڈنگ‘ کے ذریعہ پیسے جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اس دوران کچھ عناصرکی جانب سے رکاوٹیں بھی کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے عقیدے پرحملے کئے گئے۔ کچھ نے مجھے بریلوی تو کچھ نے دیوبندی کہہ کرفنڈ روکنے کی اپیل کی۔ کچھ نے خاتون ٹیچرس کا چہرہ کھلا ہونے پر مجھے لبرل ہونے کا طعنہ دیا تو کچھ نے طالبات کو حجاب پہننے پرمجبور کرنے کاالزام عائد کیا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ میرے یہاں تقریباً ہرمسلک کے اساتذہ ہیں۔‘‘ 

انہوں نےعوام سے وعدہ کیا ہے کہ۸؍ ماہ میں وہ اس بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوکر ویڈیو بنائیں گے جس کا انہوں  نے خواب دیکھا ہے اوراس کے بعد وہ کسی اور شہر میں اسکول کی دوسری عمارت سے متعلق منصوبہ بنائیں گے۔  انہوں نے کہا کہ ’’یہ میری پہلی اپیل ہے ۔ اگر یہ مہم کامیاب رہی تو  اس طرح سے آئندہ میں باربار اپیل کروں گا اور امیدکرتا ہوں کہ میری ہر اپیل پر لوگ لبیک کہیں گے ان شا ء اللہ۔‘‘

۲۲؍ سالہ اس نوجوان کے عزائم کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی پریشانی انہیں ان کے مقصد سے روک سکے گی۔  بیکل اُتساہی نے شاید اسی قبیل کے نوجوانوں کیلئے یہ بات کہی تھی کہ :

عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا

کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا


No comments:

Post a Comment