Monday 9 October 2023

Caste Survey Opposition and Government / Qutbuddin Shahid

 ذات پر مبنی سروے، اپوزیشن کا ایک تیر سے کئی شکار

خواتین کیلئے ریزرویشن کا شوشہ چھوڑنے  اور جنوری میںرام مندر کے افتتاح کا  اعلان کرکے مودی سرکار بہت خوش اورمطمئن تھی لیکن ان حربوں سے وہ جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتی تھی، وہ اب آسان نہیں رہا، ذات پر مبنی سروے کی رپورٹ سے اپوزیشن نے اس کا سارا کھیل خراب کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ہندوستان میں سیاست کامیدان سماجی خدمت کا شعبہ نہ ہوکر شطرنج کا کھیل ہو گیا ہے جہاں بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پارٹیوں کا نفع نقصان دیکھ کر  چالیں چل رہی ہیں ۔یہاںحکومتی سطح پر ہونے والے فیصلے بھی اکثر سیاسی ہوتے ہیں، جس کے محور و مرکز میں ملک اور عوام نہیں ہوتےبلکہ اپنی پارٹی اور اس کا مفاد ہوتا ہے۔ان فیصلوں سے عوام کا فائدہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ لیکن  مقصدعوام کا فائدہ نہیں ہوتا۔ حالیہ کچھ مہینوں  کے دوران  ملک میںہونے والی سیاسی سرگرمیوں کاجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کس طرح سے شہ اور مات کا کھیل چلا ہے۔
وطن عزیز میں حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن  اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ۲۶؍ جماعتوں  کے اتحاد نے جس دن  اپنے گروپ کا نام ’انڈیا‘ رکھا،اسی دن سے یہ کھیل دلچسپ ہوگیا اور چالیں تیزی کے ساتھ چلی جانے لگیں۔ یہیں سے حکمراں محاذ کی بوکھلاہٹ کا اظہار بھی ہونے لگا۔ مہاراشٹر کی سیاست میں شہ اور مات کا کھیل جاری ہی تھا۔ اسی دوران ’انڈیا‘ اتحاد کی ممبئی میں تیسری میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ پرعوام کی توجہ مرکوز نہ ہو اور اسے میڈیا میں زیادہ کوریج نہ مل سکے،اسلئے مودی حکومت  نے ایک چال چلی اور پانچ روزہ ’خصوصی اجلاس‘ کاا علان کردیا۔اسے مودی سرکار کا ’ماسٹراسٹروک‘ قرار دیا گیا اور پھر اس پر مباحثوں اور قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو گیا۔  اس دوران ’ذرائع‘ سے ملک کو کئی ایجنڈے فراہم کئے گئے جن میں ملک کے نام سے انڈیا کو ختم کرکے صرف بھارت کرنے، ملک میں وَن نیشن ، وَن الیکشن نافذ کرنے، خواتین ریزرویشن بل پاس کرنے، روہنی کمیشن کی سفارشات کو عام کرنے، جی۔۲۰؍کو بڑی کامیابی کے طورپرپیش کرنے  اور اُس وقت کے ای ڈی سربراہ سنجے مشرا کیلئے ایک نئی پوسٹ ’چیف انویسٹی گیشن آفیسر‘ تخلیق کرنے جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔اسی دوران مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں تین وزیروں سمیت ۷؍ اراکین پارلیمان کوامیدوار بنا دیا گیا۔ حکمراں جماعت کا خیال تھا کہ ان چالوں سے اپوزیشن اتحاد سراسیمہ ہوجائے گا اور  ان بھاری بھرکم موضوعات کی آندھی میں اس کی سیاست خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائے گی.... لیکن ایسا نہیں ہوا۔  
ان تمام چالوں پربہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو کی چال بھاری پڑی۔  ذات کی بنیاد پر سروے کرواکروہ پہلے ہی بی جے پی پر سبقت حاصل کرچکے تھے۔  رہی سہی کسر انہوںنے سروے کی رپورٹ پیش کرکے پوری کردی۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ۲۰۲۴ء سے قبل ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جاسکے گی۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین کیلئے ریزرویشن بل پیش کرکے وہ بہت خوش تھی۔اپنی دانست میں اس نے’ملک کی آدھی آبادی کو رام کر کے‘ بڑا تیر مار لیا تھا۔  اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ۵؍  ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں خواتین ریزرویشن کی مدد سے کم از کم ۲؍ ریاستوں (راجستھان اور مدھیہ پردیش) میں  وہ فتح حاصل کرلے گی اور پھر جنوری میں رام مندر کا افتتاح کرکے لوک سبھا انتخابات میں بھی بازی مار لے گی، لیکن ذات پر مبنی سروے رپورٹ نے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ کانگریس سمیت ’انڈیا‘ اتحاد میںشامل تمام جماعتوں  نے اس رپورٹ کی تائید کرکے اور قومی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ کرکے بی جے پی سے دن کا سکون اورراتوں کی نیند چھین لی ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کہہ کر اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ ’’ذات کی بنیاد پر مردم شماری دراصل ملک کا سماجی ایکسرے  ہے۔ اس تعلق سے ڈیٹا آنے کے بعد ملک سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکے گا۔ او بی سی خواتینکی حصہ داری بھی طے ہوگی۔ آبادی کے لحاظ سے اگر سب کو ان کا حصہ دینا ہے تو ذات کی بنیاد پر مردم شماری لازمی ہے۔‘‘
۲۰۱۹ء کے لوک سبھا اور ۲۰۲۲ء کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی جس ۲۰۔۸۰؍ کا فارمولہ استعمال کرکے اقتدار میں آئی تھی، اب وہی فارمولہ اس پر پلٹ گیا ہے۔  وہ ۲۰؍فیصد مسلمانوں کے خلاف ۸۰؍ فیصد ہندوؤں  کو صف آرا کرنا چاہتی تھی لیکن ذات پرمبنی سروے رپورٹ کے آنے کے بعد ۲۰؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کے خلاف جس کی بی جے پی نمائندگی کر رہی ہے،۸۰؍ فیصد پسماندہ طبقات کے ایک ساتھ آجانے کے پورے آثار ہیں اور اسی آثار نے اس کے اوسان خطا کررکھے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رپورٹ میں آخر ایسی کون سے بات ہے کہ خود کوہندوتوا کے ساتھ ہی او بی سی کا چمپئن  سمجھنے والی بی جے پی اتنی زیادہ خوفزدہ ہے؟’سی ایس ڈی ایس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ء  کے لوک سبھا   الیکشن تک بی جے پی کو  ۲۳۔۲۲؍ فیصد او بی سی  ووٹ ملا کرتے تھے لیکن ۲۰۱۴ء میں اسے۳۴؍ فیصد ووٹ ملے  اور ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد  دگنی ہوگئی یعنی اسے ۴۴؍ فیصد سے زائد او بی سی  ووٹ ملے۔ اب وہ یہ سوچ کر خوفزدہ ہے کہ کہیں  اس رپورٹ کے آئینے میں یہ۴۴؍ فیصد لوگ خود کو دیکھنے نہ لگیں۔ ابھی تو صرف اعدادو شمار سامنے آئے ہیں جبکہ ڈیڑھ دو ماہ میں ذات کی بنیاد پر سماج کا معاشی ڈیٹا بھی سامنے آجائے گا۔ بہار کی حد تک ہی سہی، یہ بات سامنے آئے گی کہ کس ذات کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟ کارپوریٹس گھرانوں پر کس ذات کا غلبہ ہے؟ 
زمینوں پر مالکانہ حقوق کس کے ہیں؟  یونیورسٹیز میں کس کی کتنی نمائندگی ہے؟ اعلیٰ افسران اور ارب پتیوں کی تعداد کا تناسب کیا ہے؟پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور منتخب نمائندوں میں کس  ذات کی کتنی نمائندگی ہے؟
  یقینی طور پر ’مین اسٹریم میڈیا‘ میں  اس کا تذکرہ نہیں ہوگاکیونکہ وہاں پر بھی اعلیٰ ذات کا غلبہ ہے ۔ مطلب یہ کہ اس رپورٹ سے میڈیا کی قلعی بھی اُتر جائے گی۔ ڈیٹا سے نظریں چرانے والی  بی جے پی کو ڈراِس بات کا ہے کہ کہیں بحث کا رُ خ اس جانب نہ مڑ جائے کہ ملک کے ۸۴؍ فیصد پسماندہ طبقات کو آخر کب تک پسماندہ رکھا جائے گا اور ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کا ملک کے ۸۰؍ فیصد وسائل پر  یہ قبضہ آخر کب تک رہے گا؟ وہ اس وجہ سے بھی ڈر ی اور سہمی ہوئی ہے کہ کہیں اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ ملک کے وسائل پر پوری طرح سے قابض ان ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کو ’ای ڈبلیو ایس‘ کے تحت ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا حقدار کیوں قرار دیا گیا جبکہ ۶۳؍ فیصد او بی سی کو صرف ۲۷؍ فیصد ہی ریزرویشن حاصل ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ خوف اسے اس بات کا ہے کہ اس  رپورٹ کی وجہ سے کہیں اس کا آزمودہ ’ہندو مسلم‘ نامی  برہماستر ناکام نہ ہوجائے،جس کی وجہ سے وہ ابھی تک الیکشن میں کامیابیاں حاصل کرتی آرہی ہے؟وہ اسلئے کہ اس سروے میں مسلمانوں کی آبادی کوبھی او بی سی اور اعلیٰ ذاتوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے....  ایسا کرکے نتیش اور تیجسوی نے اس غبارے کی ہوا نکال دی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ملک میں ہندوتوا کی سیاست پرواز کرتی رہی  ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوری میں بی جے پی کی رام مندر کے افتتاح کی چال کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ کیونکہ گمان غالب ہے کہ اسی دوران نتیش اور تیجسوی ذات پرمبنی سروے  کے بعد اس کا معاشی اور سماجی ڈیٹا جاری کریں گے اور بہت ممکن ہے کہ یہی وہ وقت ہو جب ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اقتدار والی ریاستوں میں ذات کی بنیاد پر سروے کاحکم نامہ جاری کردیں۔گویا ذات پر مبنی سروے کو موضوع بحث بنا کر اپوزیشن نے نہ صرف ہندوتوا کی سیاست کی دھار کند کردی ہے بلکہ 
ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔

 ذات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن سے متعلق اہم نکات

nہندوستان میں ۱۸۸۱ء سے ہر دس سال پر باقاعدہ مردم شماری ہوتی  رہی ہے۔ اس میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری بھی شامل ہے۔ ۱۹۳۱ء  میں ہونے والی مردم شماری کے بعد سے ذات کا کالم ہٹا دیا گیا۔
nآزادی کے بعد ایس سی /ایس ٹی کی الگ سے مردم شماری ہوتی رہی ہے، لیکن اس میں بھی ان کی ذاتوں کی نشاندہی نہیں کی گئی بلکہ اس کی تمام ذاتوں کو ’ایک‘ مان کر ان کی آبادی کا شمار کیاگیا۔ 
nایک اندازے کے مطابق ملک میں ۴؍ ہزار سے زائد ذاتیں ہیں۔
nایس سی ایس ٹی کے بعد دیگر پسماندہ ذاتوں کی نشاندہی کیلئے ۱۹۵۳ء میں ’کاکا کالیلکر‘ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ایک فہرست تیار کی اور اسے’او بی سی‘ کا نام دیا۔ کمیٹی نے اس کیلئے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن دینے کی بھی سفارش کی۔
nمرکز نے اُ س وقت اس رپورٹ پرعمل نہیں کیا البتہ تمل ناڈو اورآندھرا پردیش جیسی کچھ ریاستوں میں اسے کچھ حد تک نافذکیا گیا۔
nملک میں ۱۹۷۷ء میں پہلی غیر کانگریسی حکومت تشکیل پائی توایک بار پھر یہ مطالبہ زورپکڑا۔ اس طرح ۱۹۷۸ء میں بہار کے سابق وزیراعلیٰ بندیشوری پرساد منڈل کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بتایا کہ ملک میں او بی سی کی آبادی ۵۲؍ فیصد ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب ۱۲ء۵؍ فیصد اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں صرف ۴ء۷؍ فیصد  ہے۔ آبادی سے متعلق جانکاری کیلئے انہوں نے بھی ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے ڈیٹا ہی سے استفادہ کیا تھا۔
nانہوں نے او بی سی کیلئے تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں۵۲؍ فیصد او بی سی آبادی کیلئے۲۷؍ فیصد ریزرویشن کی سفارش کی۔ ۲۷؍ فیصد پرمحدود کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل ایس سی کو ۱۵؍ فیصد اور ایس ٹی کو ۷ء۵؍ فیصد  ریزرویشن دیا جارہا تھا اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا تھا۔
nاس سے قبل ۱۹۶۲ء میں’ ایم آر بالا جی بنام اسٹیٹ آف میسور‘ کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ ۵۰؍ فیصد کی حد مقرر کی تھی۔
nاس فیصلے کو ۱۹۹۲ء میں ’اندرا ساہنی‘ معاملے میں سپریم کورٹ کی ایک ۹؍ رُکنی بنچ نے بھی توثیق کردی تھی۔اس کے بعد   ریزرویشن کے معاملے پراکثراسی ۵۰؍ فیصد کی حد سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔
 nلیکن ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن سے قبل مرکزی حکومت نے اعلیٰ ذاتوں کیلئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا راستہ ہموار   کرتے ہوئے ’ای ڈبلیو ایس‘ کا قانون متعارف کرایا۔ اس طرح قانون  سازی کے ذریعہ۵۰؍ فیصد کی حد (صرف ایک معاملے میں) توڑ دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی سے اب اس حد کو قانون سازی کے ذریعہ پوری طرح سے ختم کئے جانے کا    مطالبہ کیا جارہا ہے اور اس کیلئے ’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘ کا مطالبہ کیاجارہاہے۔

No comments:

Post a Comment