Tuesday 17 October 2023

BJP worried about its rebels/ Qutbuddin Shahid

 راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جےپی کی حالت ابتر، کانگریس کے عزائم اور اپنے باغیوں سے پریشان

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
بہت دنوں بعد ایساکچھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ انتخابی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم شروع کر دی  ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی ۹؍ اکتوبر کو پانچ ریاستوں  میں انتخابی شیڈول کااعلان کیا ہے لیکن اس سے بہت پہلے ہی کئی ریاستوں میں امیدواروں کے نام اعلان کئے جاچکے ہیں۔ اس معاملے میں تلنگانہ کی ’بی آر ایس‘  نے دوسری جماعتوں پر بازی مار لی ہے۔ اس نے ڈیڑھ ماہ قبل ۲۱؍ اگست کو ہی ریاست کے  ۱۱۹؍ میں سے ۱۱۵؍ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ دوسرے نمبر پر بی جے پی ہے جس کی جانب سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے کئی انتخابی حلقوں کیلئے امیدواروں کے نام ظاہر کئے جاچکے ہیں لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی میں بغاوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
تاریخوں کے اعلان سے قبل انتخابی مہم کے آغاز کے علاوہ بھی اس بار کے انتخابات میں کئی نئی باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ’پارٹی وِد اے ڈِفرینس‘ کا نعرہ بلند کرنےوالی بی جے پی کو اپنی پارٹی میں نظم و نسق پر بہت ناز تھا لیکن اس مرتبہ سب سے زیادہ بد نظمی بی جے پی ہی میں دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کچھ فرق کے ساتھ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل جیسا سماں نظرآ رہا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ اُس وقت کانگریس کے لیڈران ، بی جے پی کی طرف جا رہے تھے اور اب بی جے پی سے نکل کر لوگ کانگریس میں پناہ لے رہے ہیں۔ ہوا کا رُخ بدل رہا ہے،   یہ صاف  دکھائی دے رہا ہے۔
بی جے پی میں مچی یہ بھگدڑ اور افراتفری کا ماحول کیا صرف ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہے؟ یا اور کوئی بات ہے؟  بات اگر صرف امیدواری کی ہوتی تو ٹکٹوں کے اعلان سے قبل یہ لیڈران پارٹی نہیں چھوڑتے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے کئی بڑے لیڈروں نے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے سے قبل ہی پارٹی چھوڑ دی ہے جبکہ راجستھان میں ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ چھتیس گڑھ  کے ۷۷؍ سالہ سینئر قبائیلی لیڈر’نند کمار سائی‘ نے  بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں جب شمولیت اختیار کی تھی، تب تک بی جے پی کی طرف سے ٹکٹوں کااعلان نہیں کیا گیا تھا۔ تین بار لوک سبھا اور تین بار اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کرنے والے نند کمار سائی چھتیس گڑھ بی جے پی اور متحدہ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔  اسی طرح  مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر سمندر پٹیل نے ۸۰۰؍ گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سمندر پٹیل سے قبل دوسرے کئی لیڈران بھی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں جن میں پرمود ٹنڈن،رام کشور شکلا، دنیش ملہار، وریندر رگھوونشی، بھنور سنگھ شیخاوت،ماکھن سنگھ سولنکی اور گرجا شنکر شرما کے نام قابل ذکر ہیں۔ بی جےپی میں اس بھگدڑ کا آغاز مئی ۲۰۲۳ء میں اُس وقت ہوا تھا جب مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کیلاش چندر جوشی کے بیٹے  دیپک جوشی نے کانگریس جوائن کی تھی۔ انتخابات سے قبل لیڈروں کا پالا بدلنا معمول کی بات ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن لیڈروں کے اس طرح پالا بدلنے ہی سے ، اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی ہوا کس طرف بہہ رہی ہے؟
پانچ ریاستوں کے اس الیکشن میں ایک اور نئی بات دیکھنے کو مل رہی ہے۔  برسوں بعدکانگریس کے رویے میں  ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب وہ دم خم کے ساتھ الیکشن لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسے گزشتہ انتخابات میں بھی کامیابی ملی تھی لیکن اُس کامیابی میں کانگریس کا کردار کم، خود بی جے پی کا کردار زیادہ تھا۔ تینو ں ہی ریاستوں میں کانگریس کو ’حکومت مخالف لہر‘ کا فائدہ ملا تھا لیکن اس بار وہ بات نہیں ہے۔ تین میں سے ۲؍ ریاستوں میں خود کانگریس کی حکومت ہے جہاں اسے ’اینٹی اِن کم بینسی‘ کا سامنا ہے لیکن کانگریس اِن حالات سے قطعی خوف زدہ معلوم نہیں ہوتی۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی کے سامنے کھڑی ہے۔ یہ حوصلہ اسے ہماچل  اور کرناٹک کے انتخابات میں نمایاں کامیابی سے ملا ہے۔ کرناٹک کی جیت کا سب سے زیادہ اثر تلنگانہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں کانگریس پورے فارم میں ہے جبکہ اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی ہے۔ کانگریس کے اس عزم  نے بی جے پی کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اسے اپنی جیت کا سلسلہ رُکتا ہوا  محسوس ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر اب اس کے باغیوں نے پوری کردی ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اس حالت کو کیوں کرپہنچی؟ کیا وہ کمزور ہوگئی ہے؟ کیا  اس کا طلسم ٹوٹ چکا ہے؟ کیا عوام سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں؟ کیا کانگریس کے تئیں لوگوں کا رویہ بدل گیا ہے؟ یا اور کوئی وجہ ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر سوالوں کے جواب ’نہ‘ میں ہیں۔ بی جے پی کمزور نہیں ہوئی ہے اور جب تک اس کے پاس سی بی آئی،  ای ڈی، انکم ٹیکس جیسے محکموں کی باگ ڈور اور ’پی ایم کیئر فنڈ‘ جیسا خزانہ ہے، اس کی کمزوری کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی طرح اس کا طلسم بھی پوری طرح سے نہیں ٹوٹا ہے،اسلئے آخرالذکر دونوں سوالوں کے جواب بھی ’نہ‘ میںملتےہیں۔
اس کے باوجود اگر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اجستھان میں زعفرانی پارٹی  کی حالت دگرگوں ہے تواس کیلئے نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی ذمہ دار ہے جسے پارٹی کو یہاں تک پہنچانےکا کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ دراصل یہ پارٹی پر بالادستی کی جنگ ہے۔ مودی اور شاہ کا ہدف ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی ہے،اس کیلئے انہیں  اسمبلی انتخابات میں ناکامی بھی گوارا ہے۔ یہ بات تھوڑی عجیبضرور ہے لیکن اس پہلوکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں کامیاب ہونے کے بعد بھی لوک سبھا انتخابات میں جیت کی خواہش کی  جاسکتی ہے، پھر ناکامی جیسی صورتحال کیوں پیدا کی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ قطعی نہیں چاہتے کہ راجستھان،  مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں کامیابی کی صورت میں اس کا کریڈٹ کسی بھی طرح سے وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان   اور ڈاکٹر رمن سنگھ کو ملے۔ اس جوڑی کے نزدیک ’مقامی لیڈروں کے سر سہرا بندھے‘ اس سے بہتر ان ریاستوںمیں پارٹی کا ہار جانا ٹھیک ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں یا اس کے بعدان کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے۔ مودی اور شاہ  جانتے ہیں کہ انہیں کنارےلگادینے کے بعد بھی ہار جیت کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں رہنے والا ہے،لہٰذا لوک سبھا انتخابات متاثرنہیں ہوںگے۔ یہی سبب ہے کہ مودی اورامیت شاہ نے تینوں ریاستوں کی ’اعلیٰ قیادت‘ کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ اب انہیں اپنی اپنی ریاستوں سے باہر دیکھنے کی نہ ضرورت محسوس ہورہی ہے، نہ ہی ان میں اس کی جرأت رہ گئی ہے۔
یہ مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ان کی ہرحکمت عملی کامیاب ہی ہو اور ہر بار اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہو۔

No comments:

Post a Comment