Thursday 31 August 2023

Appropriate use of resources/Roznaamcha/ Qutbuddin Shahid

 وسائل کا مناسب استعمال

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
 عام طور پر یہ مصرعہ منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر آج ہم اسے مثبت معنوں میں استعمال کریں  گے کہ ’’ایک ڈھونڈو ، ہزار ملتے ہیں۔‘‘ جی ہاں! خود غرضی اور مفاد پرستی کے اس دور میں اچھے انسانوں کی کمی نہیں ہے، ایک ڈھونڈو ، ہزار ملیں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ زاویہ نگاہ مثبت ہو۔ یہ اچھے انسان انہیں نظر نہیں آئیں گےجو کسی فرد کی ۹۰؍ خوبیوں کو نظر انداز کرکے اس کی ۱۰؍ خامیوں کی تشہیر میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم ان کی خوبیوںکو دیکھیں، اس کی پزیرائی کریں اور جہاں تک ممکن ہو،اس کی تشہیر بھی کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی  ان خوبیوں کو اپنا سکیں۔
وسائل کی قلت اور مسائل کی بہتات کی شکایتیں اکثر سننے کوملتی ہیں لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شکایت کئے بغیر دستیاب وسائل کا مناسب استعمال کرتے ہیں اور مقدور بھر دوسروں کے مسائل کو حل کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔ وسائل کا مناسب استعمال لوگ کیسے کرتے ہیں، اس کی ایک مثال  ملاحظہ کریں۔
گزشتہ دنوں  ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ممکن ہے کہ آپ میں سے بھی کچھ لوگوں نے اسے دیکھا ہو۔ایک صاحب اپنی کار کے پاس ایک ’پلے کارڈ‘ لے کر کھڑے ہیں۔ اس پر لکھا ہوا ہے ’’دہلی سے کرنال... ۲۰۰؍ روپے فی سیٹ۔‘‘ یہ فاصلہ تقریباً ۱۳۰؍ کلومیٹر کا ہے۔ دہلی سے کرنال تک بس کا کرایہ بھی دو سوروپے سے زائد ہے۔ مطلب یہ کہ وہ صاحب رعایتی شرح  پر مسافروں کو دہلی سے کرنال پہنچا رہے  ہیں۔  وقفے وقفے سے وہ ’کرنال کرنال‘ کی آواز بھی لگاتے ہیں۔ دریں اثنا وہاں ایک نوجوان پہنچا جو اُن کا شناسا  ہے۔ اس نے حیرت سے کہا’’سر! آپ؟آپ ٹیکسی چلا رہے  ہیں؟‘‘وہ بھی اسے پہچان گئے۔ انہوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا نام لیا اور اثبات میں جواب ملنے پر بولے’ارے تم تو کافی بڑے  ہوگئے۔‘ رسمی گفتگو کے بعدنوجوان نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا’’سر! آپ کی ملازمت تو سرکاری ہے نا؟ پھر آپ یہ ٹیکسی کیوں چلا  رہے ہیں؟‘‘انہوں نے کہا کہ ’’بیٹا! میں ہر ہفتے اپنی بہن کے پاس کرنال جاتا ہوں۔ اتنی دور تک گاڑی خالی نہ جائے، اسلئے میں تین چار سواریاں لے لیتا ہوں تاکہ کچھ روپے مل جائیں۔‘‘ نوجوان نے مزید حیرت کااظہار کیاکہ ’’سر! آپ کی تنخواہ تو اچھی خاصی ہوگی، پھر آپ کو کرائے کی رقم کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس کے بعد انہوں  نے اپنے شاگرد کو تفصیل بتائی کہ یہ میرا ہر ہفتے کا معمول ہے۔ ان سواریوں سے مجھے جو  رقم ملتی ہے  میں اس سے پنسل ، کمپاس اور کچھ کاپیاں خریدلیتا ہوں اور اسے اُن بچوں میں تقسیم کر دیتا ہوں جو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن یہ لوازمات خرید نہیں پاتے۔  انہوں  نے کہا کہ اس میں میری جیب سے کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن کچھ طلبہ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے ایک بات کہی جواُس ویڈیو کا حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اس سفر میںمجھے اپنی خالی گاڑی کا اس سے بہتر اورکوئی استعمال نظر نہیں آتا۔‘‘ 
یہیں ممبئی میں میرے ایک شناسا ہیں۔ وہ ایکٹیوا سے چلتے ہیں۔ ان کا بھی کچھ اسی طرح کا معمول ہے۔ وہ جس راستے سے گزرتے ہیں، اس راستے پر اگر ان کا کوئی واقف کار، کوئی بزرگ یا کوئی شریف نظر آنے والا نوجوان دکھائی دیتا ہے تو وہ گاڑی روک کر سلام کرتے ہیں، پوچھتےہیں کہ کہاں  جانا ہے؟ اگر وہ اسی راستے کا مسافر ہے تو اسے وہاں تک چھوڑ دیتے ہیں، جہاں تک انہیں خود جانا ہوتا ہے۔ اس میں ان کاکچھ نقصان نہیں ہوتا لیکن ان کے وسائل سے کسی کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟ کیاہم اپنے وسائل کا اسی طرح مناسب استعمال نہیں کرسکتے؟ ضروری نہیں کی گاڑی ہی ہو، غور کریں تو ہمارے پاس بھی اس قسم کے کچھ وسائل ضرور ہوں گے جو دوسروں کے مسائل کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں  ۔

Monday 28 August 2023

Is there anything for Muslims in the 'Mohabbat ki dukan'?/ Qutbuddin Shahid

 ’محبت کی دُکان‘ میں کیا مسلمانوں کیلئے بھی کچھ ہے؟

 نوح  فساد  کے بعد  ایک ہزار سے زائد دکان اور مکان زمین دوز کرکے ایک جھٹکے میں ہزاروں افراد کو بے گھر اور بے روزگار کردیا گیا لیکن کانگریس  نے مسلمانوں کی اشک سوئی تو دور، اس معاملے پر لب کشائی تک کی زحمت نہیں کی، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جارہی ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کا اعلان کیا توسب سے زیادہ خوشی کااظہار ہندوستانی مسلمانوں نے کیا۔انہیں لگا کہ اس دکان میں ان کی ضرورت کا بھی کچھ سامان ہوگا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ کانگریس کے رویے سے انہیں مایوسی ہوتی جارہی ہے۔ اس درمیان کانگریس کے بعض حلقوں سے کچھ اس قسم کے بھی سُر سنائی دیئے کہ نئی اور پرانی کانگریس ہی نہیں بلکہ کانگریس اور بی جے پی میں فرق کرنا بھی مشکل ہونے لگا۔
ایک ایسے جمہوری نظام میں جہاں محض ایک دو فیصد ووٹوں کے اِدھر اُدھر ہوجانے سے اقتدار کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے، وہاں پر ایک سازش کے تحت۱۵؍ فیصد سے زائد مسلمانوں کو سیاسی بیانیے سے پوری طرح باہر کردیا گیا ہے۔مسلم ووٹوں کی طلب تو سب کو ہے... اور صرف طلب ہی نہیں بلکہ اس پردعویٰ بھی ہے لیکن مسلمانوں کی بات کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمان، ترنمول کانگریس کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دے دیں، تو ممتا بنرجی برہم ہوجاتی ہیں۔ اُترپردیش میں مسلم رائے دہندگان کا رُخ بی ایس پی کی طرف ہوجائے تواکھلیش یادو ناراض ہوجاتے ہیںاور سماجوادی پارٹی کی طرف ہوجائے تو مایاوتی کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کو کوسنے لگتی ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ ان تمام جماعتوں کو دھکا دے کر اقتدار تک پہنچانے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے لیکن جب مسلمانوں پر کوئی آنچ آئے اور  وہ مصیبت میں ہوں توان کی حمایت میں کھڑا ہونے کی ذمہ داری کسی کی نہیں ہے۔
ایسے میں راہل گاندھی کی ’محبت کی دکان‘ سے مسلمانوں نے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔انہیں لگنے لگا تھا کہ نئی کانگریس ،  اب اسی راستے پرچلے گی، جس کا اعلان راہل گاندھی نے کیا ہے۔ یہ کانگریس کے تئیں مسلمانوں کے اعتماد ہی کا نتیجہ تھا کہ کرناٹک میں ان کایکطرفہ ووٹ کانگریس کو ملا۔ جے ڈی ایس کو مسلمانوں نے گھاس نہیں ڈالی۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے’ساگر دیگھی‘ میںبھی نظر آئی جہاں ضمنی اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی بدولت کانگریس  کے امیدوار کو کامیابی ملی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں اس حلقے سے ٹی ایم سی کا امیدوار۵۰؍ فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوا تھا لیکن ۲۰۲۳ء کے ضمنی الیکشن میں اس کے امیدوار کو محض ۳۵؍  فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔   یہاں پر کانگریس  کے امیدوار کو ۴۷؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے اور اس کا امیدوار کامیاب ہوا جبکہ ۲۰۲۱ء میں اس کے امیدوار کو محض ۱۹؍فیصد ووٹ ہی ملے تھے۔
  ملک کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی حکمت عملی کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ جہاں جوپارٹی بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہو، اسےووٹ دے کر مضبوط کریں لیکن یہ راہل کی’ محبت کی دکان‘ کا اثر تھا کہ ساگر دیگھی اور اس کے بعد مغربی بنگال کے پنچایتی انتخابات  میں مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اُن ریاستوں میں بھی، جہاں کانگریس کی پوزیشن نازک ہے، مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دینے کا ذہن بنا لیا ہے۔ اترپردیش کے پنچایتی انتخابات میں اس کی ایک جھلک دیکھی جاچکی ہے اور تلنگانہ میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں....مگر افسوس کہ کانگریس اپنے رویوں سے ایک بار پھر مسلمانوں کو مایوس کررہی ہے۔
  اس حوالے سے مثالیں تو بہت ساری دی جاسکتی ہیں لیکن ہم یہاں صرف نوح  کے فساد اور اس کے بعد کے حالات پر کانگریس کے رویے اور مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈروں کے بیانات  پر اکتفا کریںگے۔ نوح میں فساد کیسے ہوا؟ اور اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔  یہ اظہرمن الشمس ہے لیکن اس کے بعد وہاں پر جس طرح سے’سرکاری انتہا پسندی‘ ہوئی، وہ فساد سے بھی زیادہ تکلیف دہ رہا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اس دوران  ۱۲۴۸؍ مکان اوردکان زمین دوز کئے گئے۔ اس طرح ایک جھٹکے میں ہزاروں خاندانوں کو بے گھر ا ور بے روزگار کردیا گیا۔ یہ کوئی معمولی  بات نہیں ہے لیکن کانگریس نے اس کا نوٹس نہیں لیا یا کم از کم اُس طرح نہیں لیا، جس طرح سے لیا جانا چاہئے تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران راہل گاندھی اورگورو گوگوئی نے ’پاسنگ ریفرینس‘ کے طورپر نوح فساد کا تذکرہ ضرور کیا لیکن اس میں بھی  بلڈوزر کارروائی کا کوئی ذکرنہیں تھا۔ حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں مسلمانوںنے ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کو یکطرفہ ووٹ دیا تھا۔ میوات ضلع کے تینوں اسمبلی حلقوں (نوح، فیروز پور جھرکا اور پوناہانا)  میں کانگریس کے امیدواروں کو کامیابی ملی تھی۔ کانگریس لیڈروں کو یہاں مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ انہیں بتانا چاہئے تھا کہ محبت کی دکان میں مسلمانوں کیلئے بھی کچھ ہے لیکن افسوس کہ راہل گاندھی خود بھی۵۰؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے نوح نہیں جاسکے۔ اس کے برعکس ایک ہزار کلومیٹر کی دوری پر واقع لیہہ میں محبت کی دکان کھولنے چلے گئے۔    
کانپور میں ایک برہمن خاندان کے گھر پربلڈوزر چلا تھا جہاں ماں بیٹی کی موت ہوگئی تھی ، وہاں پرینکا گاندھی بذات خود پہنچ گئی تھیں لیکن دہلی سے متصل گروگرام میں ۲۴؍ سالہ امام کوقتل کر دیا گیا اور اس سےقبل جنید اور ناصر نام کے دو نوجوانوں کو  زندہ جلا دیاگیا، لیکن پرینکا اور راہل کو چھوڑیئے، ریاستی سطح کے لیڈران نے بھی ان مظلوموں کے گھروں تک جانے کی زحمت نہیں کی۔ ان ہنگامہ آرائیوں کی جڑ ’مونو مانیسر‘ نامی بجرنگ دل کے ایک شدت  پسند کارکن کو سمجھاجاتا ہے جس کے خلاف راجستھان میں ایف آئی آر درج ہے لیکن اشوک گہلوت کی حکومت اُس ایک معمولی ملزم کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے پارہی ہے اور دعویٰ بی جے پی سے ٹکرانے کا ہے ۔
راہل گاندھی نے ’محبت کی دکان‘ کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ملک میں نظریات کی ایک واضح لکیر ہے، جس کے ایک طرف گاندھی وادی کانگریس ہے تو دوسری طرف گوڈسے وادی بی جے پی ہے۔ تاریخ کے بدترین دور سے گزر چکی کانگریس کی کچھ حد تک بحالی اسی نعرے کے بعد ہوئی  ہے۔ ایسے میںامید تھی کہ کانگریس کے لیڈران اس لکیر کی پاسداری کریں گے لیکن افسوس کہ ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔
مدھیہ پردیش میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، وہاں پرینکا گاندھی نے ’نرمدا‘ کی  پوجا سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا، سی  ڈبلیو سی کے رُکن دگ وجے سنگھ نے بجرنگ دل پر پابندی کی مخالفت کی اور وزارت اعلیٰ کے دعویدار کمل ناتھ نے ملک کو ہندوراشٹر قرار دیتے ہوئے متنازع سادھو ’باگیشور‘ کی کتھا کا اہتمام کیا۔ یہ وہی باگیشو ر ہے،  جو اپنی زہرافشانی کیلئے بدنام ہے،جس کی فرقہ پرستی انتہا پر ہے، جو ہندوستانی مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری بتاتا ہے اور ان کے خلاف بلڈوزر کارروائیوں کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔  
کانگریس کا اگریہی رویہ رہا اور اسی طرح سیکولرازم کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک کا وہ طبقہ بھی جو کانگریس کو بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، امریکی مصنف اور دانشور جیمس بالڈوِن کا یہ قول دہرانے پرمجبور ہوگاکہ’’آپ جو کہتے ہیں، میں اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا کیونکہ آپ جو کررہے ہیں، وہ میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘n

Tuesday 22 August 2023

Social media has destroyed social life

 سوشل میڈیا نے سماجی زندگی تباہ کردی ہے

اس پلیٹ فارم کے بے جا استعمال کی وجہ  سے ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، ہمارا وقت برباد ہوتا ہے 
اور سماج میں انتشار بھی پیدا ہوتا ہے،اسلئے اس کے خلاف ایک باقاعدہ مہم کی ضرورت ہے

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

گزشتہ دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے گردن میں کپڑے کاموٹا والا بیلٹ لگا ہو ا تھا تاکہ گردن سیدھی رہے۔ وجہ پوچھی تو انہوں نےبتایا کہ رات میں بستر پر لیٹ کر موبائل دیکھنے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، اسلئے ڈاکٹرنے انہیں یہ بیلٹ لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے ’ٹیکسٹ نیک سنڈورم‘ کہا جاتا ہے۔
کچھ دنوں قبل کی بات ہے،ایک ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے پاس ایک مریض آیا جس کا بایاں ہاتھ ٹھیک سے اوپر نہیں اُٹھ رہا تھا۔  ہاتھ  میں تو درد تھا ہی، کندھا اور  بائیںجانب کا سینہ بھی درد کررہا تھا۔ مریض یہ سوچ کر  خوف زدہ تھا کہ کہیں ’فالج‘ اور ’ ہارٹ اٹیک‘ کا مسئلہ تو نہیں ہے۔ مختلف رپورٹیں دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ موبائل فون کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
آنکھوں کا خشک ہونا ایک ایسی بیماری ہے جس میں آنکھوں سے مناسب مقدار میں آنسو باہر نہیں نکل پاتے۔  اس کی وجہ سے آنکھوں میں نمی کم ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے خواہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا۔ آنکھوں میں خشکی کے اس مسئلے کو ’ڈرائی آئی سنڈورم‘ کہتے ہیں۔  اس بیماری کی مختلف وجوہات میںسے ایک بڑی وجہ موبائل کا  بہت زیادہ استعمال ہے۔
موبائل  کے کثرت استعمال کی وجہ سے ہونے والی  یہ چند ایسی  بیماریاں ہیں جن کی نوعیت انفرادی ہے اورجن کا ازالہ کسی حد تک ممکن ہے لیکن اس کی وجہ سے جوسماجی بیماری پیدا ہورہی ہے، وہ بہت سنگین ہے۔ لوگ سماج میں رہتے ہوئے بھی سماج سے دور ہوجاتے ہیں  بلکہ ان میں سے بیشتر کو اپنے گھر تک کی بھی خبر نہیں رہتی۔ ابھی حال ہی میں اس تعلق سے ایک چشم کشا رپورٹ آئی ہے جس سےظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا نے سماجی  زندگی تباہ کردی ہے۔ ڈیجیٹل مشاورتی ادارے ’کے پیوس‘ کی رپورٹ کے مطابق  دنیا کی ۶۴؍ فیصد سے زیادہ آبادی سوشل میڈیا  پر فعال ہے اور اپنا بہت سار ا وقت وہاں پر’ضائع‘ کرتی ہے۔اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شرح میں سالانہ طور پر ۳ء۷؍ فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ  کے مطابق  دنیا کی ۷۹۰؍ کروڑ کی آبادی میں سے ۵۲۰؍ کروڑ افراد سوشل میڈیا کے  چنگل میں پھنسے ہوئےہیں۔ یہاں چنگل کا لفظ اسلئے استعمال کیا جارہا ہے کہ ان میں سے بیشتر ’کوشش کے باوجود‘ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہے ہیں۔  
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت برباد کرنے والوں کی فہرست میں ہم ہندوستانیوں کا نمبر دوسرا ہے۔ پہلے نمبر پرچین اور تیسرے نمبر  پرامریکہ ہے۔رپورٹ کے مطابق  چین میں  ۱۰۲؍ کروڑ،  ہندوستان میں ۷۶؍ کروڑ اور امریکہ میں۳۰؍ کروڑ سے زائد افراد سوشل میڈیا کااستعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک اس پلیٹ فارم پر وقت گزارنے کی بات ہے، ہماری پوزیشن اوسط سے زیادہ ہے۔  عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے استعمال کا اوسط وقت ۱۵۱؍ منٹ یومیہ ہے جبکہ  ہندوستان میں ۱۹۴؍ منٹ یعنی ۳؍ گھنٹے ۱۴؍ منٹ ہے۔ اسی طرح ہم ہندوستانیوں کے’ اسکرین ٹائم‘ کا اوسط یومیہ ۶؍ گھنٹے  سے زائد کا ہے اوران میں اکثریت ۱۸؍ سے ۲۰؍ سال کے نوجوانوں کی ہے۔
سوشل میڈیاجیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ایک اچھی چیز ہے۔ اگر اس کااستعمال  مثبت  ہو تو اس کی مدد سے ہم بہت سارا فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور اپنے سماجی رابطے میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں لیکن افسوس کہ سوشل میڈیا ہم میں سے بیشتر کیلئے ایک لت بن چکا ہے۔ صرف نوجوان  ہی نہیں بلکہ بچے اور بوڑھے حتیٰ کہ گھریلو خواتین بھی اس لت کی شکار ہیں۔اس  لت نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا لیا ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم  سوشل میڈیا کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہونے لگے ہیں۔ اس کا تباہ کن نتیجہ ہم سماج میں اور اپنے آس پاس آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ پوسٹ پرلائک ، شیئر اور تبصرہ کی گنتی میں ہم کچھ اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ اپنا اصل مقصد اور اپنی ذمہ داریاں فراموش کر بیٹھتےہیں۔اس کی وجہ سے ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی شکایت عام ہے۔ والدین اپنے بچوں سے ، بیویاں اپنے شوہروں سے، اساتذہ اپنے طلبہ سے اور مالکان اپنے ملازمین سے نالاں نظر آتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی  ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جب کوئی شخص سوشل میڈیا پر مصروف ہوتا ہےتو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ بھی متحرک ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دماغ کا وہی حصہ ہے جو کسی فرد کے نشہ آور اشیاء کے استعمال کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک طرح کا نشہ ہے اورجب کوئی ’نشے‘ میں ہو تو اسے اچھے اور برے کی تمیز کیوں کر ہوسکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ اس نشے کا خمیازہ ہم روز بھگت رہے ہیں۔ تین ماہ سے منی پور جل رہا ہے  اور ہریانہ میں ہزاروں کی آبادی بے گھر اور بے روزگار ہوگئی ہے۔ حکومت کی نااہلی یا اس کی زیادتی اپنی جگہ، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ہی جگہوں پر جو آگ لگی، اس کی چنگاری سوشل میڈیا ہی نے ڈالی تھی۔ کچھ تو سازش کے تحت ایساکرتے ہیں، کچھ سادہ لوحی میں بھی اس سازش کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر یہ دیکھے بغیر کہ میسیج میں کیا ہے؟  اس کی سچائی کتنی ہے؟ اورسماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے،  اسے فارورڈ کردیتے ہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ کام ، ہم نہایت ذمہ داری سے کرتے ہیں۔
     اس معاملےمیں سرسری جائزے سے بھی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے کثرت استعمال سے:
   (۱)ہماری صحت متاثر ہوتی ہے، جس کے علاج پر پیسہ اور وقت دونوں برباد ہوتا ہے۔ 
(۲) ہمارا وقت برباد ہوتا ہے، ہم امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں، ہماری ملازمت چلی جاتی ہے، گھروالوں کی نظروں میں ہم گر جاتے ہیں اور ہمارا ’کانفیڈنس لیول‘ کم ہوجاتا ہے۔
  (۳) سماج میں انتشا ر کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہم یہ جانے بغیر کہ سچ کیا ہے، ’فارورڈ فارورڈ‘ کھیلنے لگتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا کم سے کم استعمال اور اس کے مثبت استعمال  کیلئے باقاعدہ ایک مہم کی ضرورت ہے، جس میں ہر اُس فرد کو حصہ لینا چاہئے جو خود کو سماج کا ذمہ دار فرد سمجھتا ہو۔اس مہم کا آغاز انفرادی طورپر ہونا چاہئے کیونکہ انفرادی کامیابی ہی، اجتماعی کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔

Monday 14 August 2023

 لوک سبھا میں تحریکِ عدم اعتماد ناکام لیکن اپوزیشن اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب

اس کامیابی کے باوجود حزب اختلاف اس پلیٹ فارم کا استعمال مزید بہتر انداز میں کرسکتا تھا۔ حکومت کے دعوؤں کی پول کھولنے  اور ملک کے سامنے اسے بے نقاب کرنے کا اس کے پاس بہترین موقع تھا لیکن وہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکا
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
مودی حکومت کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک سے حزب اختلاف یا پھرحزب اقتدار کو کیا ملا؟ اور کتنا ملا؟اس کا جواب ’دو اور دو چار‘ کی طرح آسان نہیں ہے۔ اسے جاننے، سمجھنے  اور کسی نتیجے پرپہنچنے کیلئے ایک چھوٹی سی مثال کو ہم پیمانہ بناتے ہیں۔
ایک محلے میں۲؍ بچوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ دونوں لڑتے، جھگڑتے اور روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور ایک دوسرے کی شکایت کی۔ اتفاق کی بات تھی کہ دونوں کی والدہ ایک ساتھ ہی تھیں اوران کے ساتھ محلے کی ایک اور خاتون بھی تھیں۔ان دونوں میں سےغلطی کسی کی بھی رہی ہو،جھگڑے کی پہل کسی نے بھی کی ہو لیکن  اُن ماؤں کو اپنے بچوں کی غلطی نظر نہیں آئے گی۔ ایسے میں دونوں بچوں کی نظر وہاں موجود تیسری خاتون کی طرف جائے گی، اسلئے وہ اسے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔
لوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک کو بھی کچھ اسی طرح دیکھا جاسکتا ہےجہاں دونوں بچے (حزب اقتدار اور حزب اختلاف) تیسری خاتون (غیر جانب دار عوام) کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ دراصل یہی غیر جانب دارعوام/ ووٹر جن کی تعداد ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد کے درمیان بتائی جاتی ہے، ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ملک کے ۸۰؍ فیصد سے زائد رائے دہندگان آنکھ بند کرکے کسی ایک کی حمایت کرتے ہیں، وہ اچھا اور برا نہیں دیکھتے۔ ان کا رویہ اُن ماؤں کی طرح ہوتا ہے جنہیں اپنے بچے کی غلطی نظر نہیں آتی۔ اگر وہ بی جےپی کے حامی ہیں تو ان کی نظر میںبی جے پی کے سات خون معاف ہوتے ہیں، اسلئے وہ اسی کے امیدوار کو ووٹ دیںگے، خواہ وہ کیسا بھی ہو؟ اسی طرح اگر وہ کانگریس یا کسی اور جماعت کے حامی ہیں تو ان کا بھی وہی رویہ ہوتا ہے۔  
  یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کانگریس کی تاریخ میں اس کیلئے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کا الیکشن بہت خراب تھا۔ اس الیکشن میں اسے بالترتیب ۱۹ء۳۱؍فیصد اور ۱۹ء۴۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس کے پکے ووٹر ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اسی طرح ۲۰۰۹ء میں بی جے پی کو ۱۸ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اُس  دورکو بی جے پی کیلئے برا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ کہ وہ اس کے وفادار حامی ہیں جو ہر صورت میں اس کے ہی ساتھ رہیں گے، خواہ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان ہی کیوں نہ چھونے لگے۔ مودی کے وزیراعظم بننے  کے بعد ملک کا ماحول قدرے تبدیل ہوا ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافہ اتنا بھی نہیں ہے کہ۲۰۱۴ء یا ۲۰۱۹ء میں اسے جو  ووٹ ملے تھے،ان تمام کو اس کا حامی تسلیم کر لیا  جائے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کو ۳۱؍ فیصد اور ۲۰۱۹ء میں ۳۷ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ ان میں ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد وہ غیرجانب دار ووٹرس شامل ہیں جو ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
  حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک کا نتیجہ واضح ہونے کے باوجود اگر اپوزیشن نے لوک سبھا میں یہ تحریک پیش کی تھی، تو اس کا مقصد وہی تھا۔ وہ ۱۰؍ سے۲۰؍ فیصد پر مشتمل   اُن غیرجانب دار ووٹروں کے سامنے یہ حقیقت لانا چاہتے تھے کہ ملک کی سالمیت کیلئے  بی جے پی کس حد تک نقصاندہ ہے؟
وہ ان کے سامنے حکومت کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور بتانا چاہتے تھے کہ ترقی کا دعویٰ صرف نعروں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، سچائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اپوزیشن کے لیڈران اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ وہ عوام  (وہی۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد عوام) کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ تین ماہ سے زائد  عرصے سے فساد کی آگ میں جھلس رہے منی پور کے تعلق سے مودی حکومت غیر سنجیدہ ہے  اور وزیراعظم مودی  اس کے تئیں بے حس ہیں۔
لیکن اپوزیشن اگرچاہتی تو اس پلیٹ فارم کو مزید بہتر انداز میں استعمال کرسکتی تھی۔ کانگریس لیڈر گورو گوگوئی اور راہل گاندھی نے یقیناً بہت اچھی تقریریں کیں لیکن انہوں نے صرف اپنی باتیں کیں۔ کیا ہی مناسب ہوتا اگر یہ لوگ حکمراں محاذ کی جانب سے کی جانے والی تقریروں کا پوسٹ مارٹم وہیں ایوان میں کرتے ا ورحکومت کو آئینہ دکھاتے۔   منی پور کے تعلق سے وزیراعظم مودی کی بے حسی کے اظہار کیلئے اپوزیشن کا واک آؤٹ کرنا مناسب تھا لیکن  اگر وہ کچھ دیر بعد واپس آجاتے اور وزیراعظم کی تقریر کے بعد وہیں ایوان میں اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتے تو شاید زیادہ موثر ہوتا۔
ویسے یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کے غیرجانب دار عوام اور رائے دہندگان تک حزب اختلاف اور 
حزب اقتدار کا وہ پیغام پہنچ ہی گیا ہے جو وہ  پہنچانا چاہتے تھے۔ اب فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق ۱۰؍ اہم سوالات

حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد کیوں پیش کیا؟
اپوزیشن کی جماعتیں حکومت  سے منی پور کے موضوع پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کررہی تھیں لیکن حکومت اس کیلئے تیار نہیں تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ مختصروقت کیلئے ہی اس موضوع پر بات کرے گی۔ اسی طرح سے اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ منی پور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وزیراعظم مودی آکر بیان دیں لیکن حکومت اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوئی۔اسلئے حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔ اس قانون کے تحت وزیراعظم کو ایوان میں آنا اور بیان دینا  لازمی ہوتا ہے۔
تحریک اعتماد پیش کرنے کیلئے کیا شرائط ہیں؟
کسی بھی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ اس تحریک پر بحث کی منظوری کیلئے لوک سبھا کے ۵۰؍ اراکین کی منظوری ضروری ہے ۔ہندوستانی جمہوریت میں اسے برطانیہ کے ویسٹ منسٹر ماڈل کے پارلیمانی نظام سے لیا گیا ہے۔ پارلیمانی نظام کے قاعدہ نمبر۱۹۸؍ میں اس کا ذکر ہے۔
کیا اس بحث میں حکومت کو جواب دینے کیلئے مجبور کیا جاسکتا ہے؟
نہیں۔ حکومت سے سوال تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے جواب دینے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن کے سوال کے جواب میں حکومت کسی بھی موضوع پر بات کرسکتی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سوالات کو اس کے سامنے پیش کردے  اور حکومت سے جواب کی توقع کرے۔ حکومت سے جواب نہ ملنے کی صورت میں اپوزیشن، عوام  کے سامنے اس موضوع کو اٹھائے۔ 
کالنگ اٹیشن موشن‘ کیا ہے؟
اگرپارلیمنٹ میں ’کالنگ اٹینشن موشن‘ پیش کیا جاتا تو صرف ایک ہی موضوع پر بات ہوتی اوراس میں حکومت کیلئےجواب دینا ضروری ہوتا ۔ اسی لئے مودی حکومت  اس رول کے تحت منی پور کے موضوع پر بحث کیلئے آمادہ نہیں ہورہی تھی۔
کیا اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب رہی؟
بالکل۔ دونوں صورت میں۔  اول یہ کہ وزیراعظم کو ایوان میں آنا پڑا۔ دوم یہ کہ وزیراعظم یہاں آکر بھی منی پور پر کچھ نہیں بولے، اس طرح یہ ثابت کرنا آسان ہوا کہ وہ منی پور کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں۔
رول نمبر ۱۷۶؍ اور ۲۶۷؍ کیا ہے؟
اس کا براہ راست تعلق عدم اعتماد کی تحریک سے نہیں ہے۔ یہ دراصل راجیہ سبھا کے ضوابط ہیں لیکن اگر حکومت نے اپوزیشن کا ۲۶۷؍ کے تحت بحث کا مطالبہ منظور کرلیا ہوتا تولوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ضابطہ نمبر۱۷۶:  اس  ضابطےکے تحت ایوان میں کسی بھی معاملے پر ڈھائی گھنٹے تک بحث کی اجازت ہے۔اس سے زیادہ کسی مسئلے پر بات نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ممبر کسی خاص مسئلے پر تحریری نوٹس دے کر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس تحریک پر تحریک پیش کرنے والے کے علاوہ۲؍ اراکین کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے بعد چیئرمین اسی دن یا اگلے دن اس معاملے پر بحث کر سکتے ہیں۔ بحث کے بعد کسی بھی معاملے پر ووٹنگ نہیں کی جاتی۔
ضابطہ نمبر۲۶۷:  اس ضابطے کے تحت سارے کام چھوڑ کر جس موضوع کیلئے یہ تحریک پیش کی جاتی ہے،اس پربحث ہوتی ہے۔اس اصول کے تحت کوئی بھی رکن کسی بھی اہم معاملے پر بحث کیلئے تحریک پیش کر سکتا ہے۔ بحث کے بعد ووٹنگ بھی ہوتی ہے۔
وزیراعظم کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے بائیکاٹ کیوں کیا؟
اپوزیشن کا اول دن سے یہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں اور منی پور کی صورتحال پرگفتگو کریں لیکن ۹۰؍ منٹ کی تقریر کے بعد بھی جب وزیراعظم کچھ نہیں بولے تو اپوزیشن کے لیڈران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، اسلئےاس کے تمام اراکین وزیراعظم مودی کی تقریر کے دوران ہی بطور احتجاج ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
امیت شاہ نے جس کلاوتی کا تذکرہ کیا ، وہ کون ہے؟
یہ مہاراشٹر کے ایوت محل سے تعلق  رکھنے والی ایک خاتون ہیں جن کے کسان شوہر نے ۲۰۰۸ء میں خود کشی کرلی تھی۔ اُس وقت راہل گاندھی نے ان کے گھر کا دورہ کیا تھا اور اس کی ہمت افزائی کی تھی۔  راہل گاندھی نے اس خاتون کا درد اُس وقت پارلیمنٹ میں بیان کیا تھا۔ امیت شاہ  نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ راہل گاندھی نے صرف جذباتیت سے کام لیا تھا اور مذکورہ خاتون کی کوئی مدد نہیں کی لیکن ان  کے بیان کے فوراً بعد اس طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں کہ راہل گاندھی نے نہ صرف اپنے ذرائع سے ان کی مدد کی تھی بلکہ اس کے بعد سے وہ مسلسل رابطے میں ہیں۔  یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران کلاوتی یاترا میں شامل ہوئی تھیں۔ امیت شاہ کے بیان کے بعد کلاوتی نے ضلع مجسٹریٹ کو مکتوب سونپتے ہوئے کہا کہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ راہل گاندھی کی وجہ سے آج میرے گھر کا گزر بسر ہورہا ہے اور میرے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔
وزیراعظم مودی نے ۱۹۶۶ء میں میزورم پر جس فوجی حملے کی بات کہی تھی، وہ کیاتھا؟
وزیراعظم  مودی نے  اندرا گاندھی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ۱۹۶۶ء میں میزورم پر ہوائی حملہ کیا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر عوام مارے گئے تھے۔ کانگریس نے اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب  میزو نیشنل فرنٹ کے باغیوں نے میزورم کے ایزول پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہیں بھگانے اور ملک کی سالمیت کیلئے ہندوستانی فضائیہ  کے ذریعہ ان پر بمباری ضروری تھی۔ فضائی بمباری کی وجہ سے ہی  ایم این ایف کے باغی بھاگنے پر مجبور ہوئے جس کے سبب ایک بار پھر خطے پر ہندوستان کی بالادستی قائم  ہوسکی۔ خیال رہے کہ ان دنوں ہندوستان ایک طرف چین سے تو دوسری طرف پاکستان سے برسرپیکار تھا۔ ایسے میں ایم این ایف کے باغیوں نے ایزول پر قبضہ کرلیاتھا، اسلئے حکومت کے پاس فضائی بمباری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمراں محاذ کو اپنی بات رکھنے کیلئے زیادہ اور اپوزیشن کے اراکین کو کم وقت کیوں ملا؟
یہ وقت دراصل اراکین کی تعداد کے حساب سے ملتا ہے۔ لوک سبھا میں حزب اقتدار کے اراکین کی تعداد چونکہ زیادہ ہے،اسلئے اس کے اراکین کو زیادہ وقت ملا اور حزب اختلاف کے اراکین کو کم ملا۔ وقت کا تعین پارلیمنٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی طے کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں کل ۲۶؍ اراکین ہوتے ہیں، جن میں ۱۵؍ لوک سبھا کے اور ۱۱؍ راجیہ سبھا کے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہیں۔

Monday 7 August 2023

Is there a fire in Noah or is it set? Qutbuddin Shahid

نوح میں آگ لگی ہے یا لگائی گئی ہے؟

ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو کسی نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی لیکن ’فسادات کی روایت‘ کے مطابق ہریانہ
 میں بھی کسی کو بچانے اور کسی کو پھنسانے کی کوششیں شروع ہوگئی  ہیں تاکہ سیاست کا کاروبار جاری رہے اور اقتدار سلامت رہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
نوح میں کیا ہوا؟کیسے ہوا؟ کس کی وجہ سے ہوا؟ اور اب کیا صورتحال ہے؟  اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ آئیے پہلے  اس تعلق سے کچھ بیانات کا جائزہ  لیتے ہیں اور ا س کی ’کرونولوجی‘ دیکھتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ نوح  کے حالات کس رُخ پر جارہے ہیں ؟
وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹرکہتے ہیں کہ :
nفساد یوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس کیلئے جو بھی ذمہ دار ہے، اسے بخشا نہیں جائے گا۔ حکومت کی نظر میں سب کچھ ہے۔ تشدد میں جو بھی نقصا ن ہوا ہے، وہ فسادیوں سے وصول کیا جائے گا۔
nمونو مانیسر کے یاترا میں شامل ہونے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔
nیہ ایک سازش ہے جس کی جانچ کی جائے گی؟
وزیرداخلہ انل وِج کا کہنا ہے کہ:
nمیں نے مونو مانیسر کا ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا ہے ۔ اس میں عام لوگوں سے۳۱؍ جولائی کو ہونے والی  یاترا میں شامل ہونے کی اپیل کے سوا کچھ بھی نہیں  ہے۔ 
nکیا کسی کی طرف سے پوسٹ کیا گیا کوئی ویڈیو کسی کو مذہبی جلوس اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کا حق دیتا ہے؟
nکانگریس کے ایم ایل اے (انجینئر مامن خان) کےٹویٹ کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، جس نے بھی سازش رچی ہے اور جس نے بھی یہ انجینئرنگ کی ہے، اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
ریاست کے ڈی جی پی ’پی کے اگروال‘ کہتے ہیں کہ:
n اب تک۴۱؍ ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں،۱۱۶؍ افراد کو گرفتار اور۹۰؍ کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایس پی نریندر سنگھ بزارنیا کا کہنا ہے کہ:
nابتدائی پوچھ تاچھ سے پتہ چلا ہے کہ مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کے ویڈیو کے بعد ان نوجوانوں نے برج منڈل یاترا کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرنے کیلئے واٹس ایپ کے ذریعے لوگوں کو منظم کرنے سے قبل چھوٹے چھوٹے گروپ میں کئی میٹنگیں کیں۔  
ان بیانات سے یقیناً اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ نوح فساد کے تعلق  سے حکومت کیا سوچتی ہے؟ اور پولیس کی ’تحقیقات‘کس رُخ پر جارہی ہیں؟
n وزیراعلیٰ نے ’فسادیوں ‘ کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ہی انہیں سے ہرجانہ وصول کرنے کی بات بھی کہی.... اور اگلے ہی بیان میں یہ بھی واضح کردیا کہ مونو مانیسر وہاں موجود نہیں تھا ، یعنی وہ فسادی نہیں ہے۔
nاس کے بعد  وزیرداخلہ نے مونو کے ویڈیو کو غیر اہم بتانے کی کوشش کے ساتھ ہی یہ سوال کیا کہ کیا اس کی بنیاد پر کسی کو ’فساد‘ برپا کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟  مطلب یہ کہ مونو کے ویڈیو کی بنیاد پر فساد’کسی اور‘ نے برپا کیا۔
nرکن اسمبلی مامن خان کے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کو بھی گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ مذکورہ ویڈیو میں مامن خان نے ناصر، جنید اور وارث  کے قتل کے بعد اسمبلی میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے ریاست میں نظم ونسق کی صورتحال پر سوال اٹھایا تھا۔ اسی گفتگو میں مامن خان نے مونومانیسر اور بٹو بجرنگی کو میوات میں آنے کیلئے چیلنج بھی کیا تھا۔ 
   وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کے ان بیانات نے پولیس کا راستہ آسان کردیا کہ انہیں کس رُخ پر ’جانچ‘ کرنی ہے۔      ڈی جی پی اور ایس پی کے اقدامات سے وہ بات ظاہر بھی ہونے لگی ہے۔ مخصوص طبقے کے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں کے بعد نوح میں ۲۰۰؍ سے زائد جھوپڑوں اور دکانوں پر بلڈوزر بھی چلا دیا گیا۔  ان پر فساد میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیاہے۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ نوح میں آگ لگی یا لگائی گئی ، اگر لگائی گئی تو کس نے لگائی؟
   ۳۱؍ جولائی کو نوح کا علاقہ شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ تصویریں دیکھ کر یوکرین اورشام (سیریا) کا گمان ہورہا تھا۔ لیکن یہ آگ اچانک نہیں لگی تھی۔   ۱۵؍فروری کو ناصر، جنید اوروارث نامی ۳؍ نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد ہی سے میوات کے پورے خطے میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔اس قتل کا الزام مونو مانیسر پر ہے ۔ اب و ہی مونو  اہل میوات کو دھمکی دے رہا تھا کہ  وہ ’یاترا‘ میں شریک ہونے کیلئے آرہا ہے۔  یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ’روک سکو تو روک لو‘۔  اس کا ایک ساتھی بٹو بجرنگی ہے جس نے اس کا ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’جیجا جی آرہے ہیں، استقبال کیلئے تیار رہو۔‘‘ مونو اور بٹو بجرنگی کے اس چیلنج کا جواب اہل میوات نے یہ لکھ کر دیا کہ ’’چیلنج قبول ہے۔‘‘ اب ایسے میں حالات کا اندازہ ایک عام آدمی بھی کرسکتا تھا کہ میوات میں کیا صورتحال تھی ... لیکن حکومت خاموش رہی...  اور اس وقت بھی خاموش رہی جب نوح میں امن کمیٹی کے ذمہ داران نےانتظامیہ  کو اس چنگاری کی جانکاری دی اور اسے شعلہ بننے سے روکنے کی اپیل کی۔ حکومت جانتی تھی کہ گزشتہ سال جبکہ ماحول اس طرح کشیدہ نہیں تھا، یاتریوں نے ایک مزار کو نقصان پہنچایا تھا لیکن انتظامی سطح پر کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی اور   ۳۱؍ جولائی کو یاترا نکل گئی۔ تصویروں اور ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ  ’یاتریوں‘ کے پاس لاٹھی اور تلوار کے ساتھ جدید اسلحہ بھی تھا۔ یہ سوال مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر ’راؤ اندر جیت سنگھ‘ نے بھی اٹھایا ہے۔   
ان حالات میں یاترا پر سنگ باری  غیر متوقع نہیں تھی۔  اس کے بعد فساد شروع ہوا تو ۶؍ گھنٹے تک بلا ’روک ٹوک‘ جاری رہا۔اس درمیان فائرنگ ہوئی، ۱۵۰؍ سے زائد گاڑیاں جلائی گئیں، دکانوں اور گھروں کے ساتھ عبادت گاہوں پر بھی حملے ہوئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ۷؍ انسانی جانوں کااتلاف بھی ہوا جن میں ۲؍ ہوم گارڈ اور ایک مسجد کے امام شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موقع پر ۹۰۰؍ پولیس اہلکار تعینات تھے لیکن اس سوال پر کہ فساد کے وقت  وہ کیا کررہے تھے؟ پلول کے ایس پی لوکیندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اُس وقت شاید اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں گے۔‘‘
اور یہی تھوڑی دیر کیلئے ’اِدھر اُدھر‘ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ فساد منصوبہ بند تھا۔ فساد کے دوسرے دن  یوگیندر سنگھ وہاں دورے پر  گئے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’فساد ہوانہیں، کروایا گیا ہے اور وہاں جو کچھ بھی ہوا،اس کے ذمہ دار ہندو اور مسلمان نہیں بلکہ مفاد پرست ٹولہ ہے۔‘‘ 
اس میں کس کا مفاد ہے اور اس سے کس کا فائدہ ہونے  والا ہے؟ بتانے کی ضرور ت نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ یہاں فسادات کی ایک ’روایت‘ رہی ہے۔ سابق آئی پی ایس  افسر اور ہندی کے مشہو ر مصنف وبھوتی نارائن رائے کہتے ہیں کہ ’’فرقہ پرستوں کی ایک حکمت عملی ہے۔ وہ پہلے کسی علاقے کو اپنا ہدف بناتے ہیں، پھر وہاں کے مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیانات دیتے ہیں، جلوس میں اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں اور جب مسلمانوں  کی طرف سے فطری رد ِعمل کا اظہار ہوتا ہے، تو اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ فساد کے دوران بھی اور  اس کے بعد بھی نقصان سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوتا ہے۔‘‘
ہریانہ کے نوح ضلع میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔بقول  امیرقزلباش:
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا n

Community-verified icon

Wednesday 2 August 2023

No Confidence Motion against Modi government by INDIA Alliance

  عدم اعتماد کی تحریک  پیش کرنے کا مقصد سرکار گرانا نہیں ،  اسے بے نقاب کرنا ہے

 اپوزیشن جماعتوں نے اس حربے کا استعمال مجبور ہوکر کیا ہے، وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں  منی پور کے حالات پر تفصیلی بحث اور  وزیراعظم سے جواب  چاہتی تھیں لیکن اکثریت کے زعم میں حکومت نے اس مطالبے کو ٹھکرادیا
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
لوک سبھا میں  ۲۶؍ جولائی کو  عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گوروگوگوئی نے یہ بات واضح کردی تھی کہ ان کے پاس حکومت گرانے کی طاقت نہیں ہے۔  انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ لوک سبھا میں ہماری تعداد کتنی ہے؟ لیکن بات صرف  تعداد کی نہیں ہے۔ یہ تحریک منی پور میں انصاف کی لڑائی کیلئے ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے ہم نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگرچہ وزیراعظم مودی منی پور کو بھول چکے ہیں لیکن ’انڈیا اتحاد‘ دُکھ کی  اس گھڑی میںمنی پوری عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم اس معاملے میں ایوان کے اندر وزیر اعظم سے ان کا جواب چاہتے ہیں۔‘‘
حالات حالانکہ مختلف ہیں لیکن اپوزیشن کی اس تحریک نے۱۹۶۳ء کے اُس بیان کی یاد تازہ کردی جو پارلیمنٹ میں جواہر لال نہرو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر جے بی کرپلانی نے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میرے لئے یہ انتہائی افسوس کا مقام ہےکہ مجھے ایک ایسی حکومت کے خلاف قرارداد پیش کرنی پڑ رہی ہے جس میں میرے۳۰؍ سال سے زیادہ پرانے کئی دوست شامل ہیں۔ اس کے باوجود میں اپنے فرائض اور ضمیر کی بنیاد پر حکومت کی جواب دہی کیلئے یہ تحریک پیش کررہا ہوں۔‘‘دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کی طرح اُس وقت کی حکومت نے اس کیلئے اپوزیشن کو طنز وتشنیع کا نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ اس تحریک کا خیر مقدم کیا تھا اور ایوان میں صحت مند بحث  کا موقع فراہم کیا تھا۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کہاتھا کہ ’’اس طرح کی تحریکوں کے ذریعے وقتاً فوقتاً حکومتوں  کو جواب دہی کے دائرے میں لانا اچھی بات ہے، خاص کر اُن حالات میں بھی جبکہ حکومت کے گرنے کا کوئی امکان نہ ہو۔‘‘ یہ آزاد ہندوستان کی پہلی تحریک عدم اعتماد تھی جس میں حکمراں جماعت نہ صرف اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہی بلکہ اعلیٰ اقدار اور سیاسی اخلاق کا ایک ایسا نمونہ بھی پیش کیا  جو بعد والوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوتی لیکن.... آج حالات پوری طرح سے بدل چکے ہیں۔ سیاسی اخلاقیات کا اب کوئی خاص معنی نہیں۔ افسوس کہ عوام کا  ایک بڑا طبقہ بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اپوزیشن کو اپنی طاقت کا اندازہ ہے اور وہ یہ بات جانتی ہے کہ حکومت گرا نہیں سکتی تو اس نے پھر اس راستے کاانتخاب کیوں کیا جس میں اس  کی شکست یقینی ہے۔ اس سوال کاکچھ کچھ جواب آر  جے ڈ ی لیڈر پروفیسرمنوج جھا اور ادھو گروپ کی شیوسینا لیڈر پرینکا چترویدی کے بیان  سے مل جاتا ہے۔ الگ الگ بیان میں دونوں لیڈروں نے واضح کیا ہے کہ حزب اختلاف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ منی پور  کے معاملے پر مودی حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کااحساس دلائے۔ پروفیسر منوج جھا کہتے ہیں کہ ’’اس تحریک کے بہانے اگر ہم وزیراعظم کو منی پور معاملے پر بولنے کیلئے مجبور کرسکے تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔‘‘کچھ اسی طرح کااظہار خیال پرینکا چترویدی نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعظم پارلیمنٹ   سے دور بھاگتے ہیں، اگر ہم انہیں اس تحریک کے ذریعہ پارلیمنٹ میں لاسکے تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔‘‘  
یہ واقعی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں لانے اور کسی مسئلے پر اُن کی رائے جاننے کیلئے اپوزیشن کو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنی پڑرہی ہے۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق۲۰۱۹ء کے انتخابات کے بعد نئی  لوک سبھا میں وزیراعظم مودی نے مجموعی طور پر صرف ۷؍ مرتبہ بحث میں حصہ لیا ہے۔ ان میں سے پانچ مواقع ایسے ہیں جب  انہوں نے صدر جمہوریہ کے خطاب کے بعد جواب دیا۔ اس کےعلاوہ   ایک بار انہوں نےایودھیا میں رام مندر سے متعلق ٹرسٹ کے قیام کے بارے میں بات کی اور دوسری بار لوک سبھا اسپیکر کے طور پر اوم برلا کی حلف برداری کی تقریب کے دوران گفتگو کی۔
اب جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی ہے اور اسپیکر نے اسے قبول بھی کرلیا ہے،  دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کسے کیا حاصل ہوگا؟  حکمراں محاذ کو معلوم ہے کہ اس تحریک سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، اس کے باوجود اس کے خیمے میں ہلچل ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ اس تحریک پر بحث میں جس قدر ممکن ہو، تاخیر کی جائے،اس دوران وہ پوری ’تیاری‘ کرلینا چاہتی ہے۔قانون کی رو سے اسپیکر کے ذریعہ قبول کرلئے جانے کے بعد۱۰؍ دن کے اندر اندر اس پر بحث لازمی ہے،اس طرح ۴؍ اگست تک اس پر بحث کا امکان ہے جبکہ  پارلیمنٹ کا یہ مانسون اجلاس ۱۱؍ اگست کو ختم ہوگا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر آخرتیاری کس بات کی ہے؟ یہ تو طے ہے کہ حکومت  گرے گی نہیں اور اپوزیشن کامقصد بھی اسے گرانا نہیں ہے۔
   اسے کچھ یوںسمجھاجائے تو شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ تحریک عدم اعتماد نہیں بلکہ لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کا آغاز ہے۔ حکمراں محاذ اور اپوزیشن دونوں ہی اس تحریک کو رائے دہندگان کو لبھانے  اور اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک بہترین موقع تصور کررہے ہیں۔ ان کی نگاہیں ملک میں رائے دہندگان کے اُس طبقے پر ہیں جنہیں  ’غیر جانب دار‘  اور’نظریاتی دباؤ‘ سے آزادکہا جاتا ہے اور جو آخر میں طے کرتا ہے کہ اس کا ووٹ کس جانب ہوگا؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسے ووٹرس کی تعداد تقریباً ۱۵؍ سے۲۰؍ فیصد ہے۔ ان میں سے اکثریت کا جھکاؤ جس طرف ہوتا ہے، وہ پارٹی جیت جاتی ہے۔ ہم یہ مان کر چل سکتے ہیں کہ کانگریس کیلئے ۲۰۱۹ء بہت برا دور تھا۔ اُس وقت اسے جو ۱۹ء۴۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے،وہ اس کے وفادارووٹر ہیں جو کسی بھی صورت میں اِدھر اُدھر نہیں جاسکتے۔ اسی طرح ۲۰۰۹ء میں بی جے پی کو ۱۸ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ وہ بی جے پی کا برا دور تھا۔  ۲۰۰۹ء میں کانگریس کو ۲۸ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے، یعنی بی جے پی سے تقریباً ۱۰؍ فیصد زیادہ۔  یہ۱۰؍ فیصد والا طبقہ ہی وہ ہے جو حالات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔    ۲۰۱۴ء میں کانگریس کو ۱۹ء۳۱؍ فیصد ووٹ ملے یعنی گزشتہ الیکشن سے ۹ء۲۴؍ فیصد کم جبکہ بی جے پی کو ۳۱؍ فیصد ووٹ ملے یعنی گزشتہ الیکشن سے ۱۲؍ فیصد زیادہ۔ مطلب صاف ہے کہ مذکورہ ’غیرجانب دار‘ ووٹروں کے اِدھر اُدھر ہونے سے حکومت تبدیل ہوجاتی ہے،اسلئے ساری جماعتیں اس طبقے کی فکر میں رہتی ہیں۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ملک کی تقریباً تمام جماعتوں کو اپنی بات کہنے کا موقع ملے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی باتوں اور اپنے دلائل سے اس طبقے کو کون اور کس حد تک متاثر کرسکتا ہے