Monday 7 August 2023

Is there a fire in Noah or is it set? Qutbuddin Shahid

نوح میں آگ لگی ہے یا لگائی گئی ہے؟

ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو کسی نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی لیکن ’فسادات کی روایت‘ کے مطابق ہریانہ
 میں بھی کسی کو بچانے اور کسی کو پھنسانے کی کوششیں شروع ہوگئی  ہیں تاکہ سیاست کا کاروبار جاری رہے اور اقتدار سلامت رہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
نوح میں کیا ہوا؟کیسے ہوا؟ کس کی وجہ سے ہوا؟ اور اب کیا صورتحال ہے؟  اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ آئیے پہلے  اس تعلق سے کچھ بیانات کا جائزہ  لیتے ہیں اور ا س کی ’کرونولوجی‘ دیکھتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ نوح  کے حالات کس رُخ پر جارہے ہیں ؟
وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹرکہتے ہیں کہ :
nفساد یوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس کیلئے جو بھی ذمہ دار ہے، اسے بخشا نہیں جائے گا۔ حکومت کی نظر میں سب کچھ ہے۔ تشدد میں جو بھی نقصا ن ہوا ہے، وہ فسادیوں سے وصول کیا جائے گا۔
nمونو مانیسر کے یاترا میں شامل ہونے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔
nیہ ایک سازش ہے جس کی جانچ کی جائے گی؟
وزیرداخلہ انل وِج کا کہنا ہے کہ:
nمیں نے مونو مانیسر کا ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا ہے ۔ اس میں عام لوگوں سے۳۱؍ جولائی کو ہونے والی  یاترا میں شامل ہونے کی اپیل کے سوا کچھ بھی نہیں  ہے۔ 
nکیا کسی کی طرف سے پوسٹ کیا گیا کوئی ویڈیو کسی کو مذہبی جلوس اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کا حق دیتا ہے؟
nکانگریس کے ایم ایل اے (انجینئر مامن خان) کےٹویٹ کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، جس نے بھی سازش رچی ہے اور جس نے بھی یہ انجینئرنگ کی ہے، اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
ریاست کے ڈی جی پی ’پی کے اگروال‘ کہتے ہیں کہ:
n اب تک۴۱؍ ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں،۱۱۶؍ افراد کو گرفتار اور۹۰؍ کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایس پی نریندر سنگھ بزارنیا کا کہنا ہے کہ:
nابتدائی پوچھ تاچھ سے پتہ چلا ہے کہ مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کے ویڈیو کے بعد ان نوجوانوں نے برج منڈل یاترا کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرنے کیلئے واٹس ایپ کے ذریعے لوگوں کو منظم کرنے سے قبل چھوٹے چھوٹے گروپ میں کئی میٹنگیں کیں۔  
ان بیانات سے یقیناً اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ نوح فساد کے تعلق  سے حکومت کیا سوچتی ہے؟ اور پولیس کی ’تحقیقات‘کس رُخ پر جارہی ہیں؟
n وزیراعلیٰ نے ’فسادیوں ‘ کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ہی انہیں سے ہرجانہ وصول کرنے کی بات بھی کہی.... اور اگلے ہی بیان میں یہ بھی واضح کردیا کہ مونو مانیسر وہاں موجود نہیں تھا ، یعنی وہ فسادی نہیں ہے۔
nاس کے بعد  وزیرداخلہ نے مونو کے ویڈیو کو غیر اہم بتانے کی کوشش کے ساتھ ہی یہ سوال کیا کہ کیا اس کی بنیاد پر کسی کو ’فساد‘ برپا کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟  مطلب یہ کہ مونو کے ویڈیو کی بنیاد پر فساد’کسی اور‘ نے برپا کیا۔
nرکن اسمبلی مامن خان کے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کو بھی گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ مذکورہ ویڈیو میں مامن خان نے ناصر، جنید اور وارث  کے قتل کے بعد اسمبلی میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے ریاست میں نظم ونسق کی صورتحال پر سوال اٹھایا تھا۔ اسی گفتگو میں مامن خان نے مونومانیسر اور بٹو بجرنگی کو میوات میں آنے کیلئے چیلنج بھی کیا تھا۔ 
   وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کے ان بیانات نے پولیس کا راستہ آسان کردیا کہ انہیں کس رُخ پر ’جانچ‘ کرنی ہے۔      ڈی جی پی اور ایس پی کے اقدامات سے وہ بات ظاہر بھی ہونے لگی ہے۔ مخصوص طبقے کے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں کے بعد نوح میں ۲۰۰؍ سے زائد جھوپڑوں اور دکانوں پر بلڈوزر بھی چلا دیا گیا۔  ان پر فساد میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیاہے۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ نوح میں آگ لگی یا لگائی گئی ، اگر لگائی گئی تو کس نے لگائی؟
   ۳۱؍ جولائی کو نوح کا علاقہ شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ تصویریں دیکھ کر یوکرین اورشام (سیریا) کا گمان ہورہا تھا۔ لیکن یہ آگ اچانک نہیں لگی تھی۔   ۱۵؍فروری کو ناصر، جنید اوروارث نامی ۳؍ نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد ہی سے میوات کے پورے خطے میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔اس قتل کا الزام مونو مانیسر پر ہے ۔ اب و ہی مونو  اہل میوات کو دھمکی دے رہا تھا کہ  وہ ’یاترا‘ میں شریک ہونے کیلئے آرہا ہے۔  یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ’روک سکو تو روک لو‘۔  اس کا ایک ساتھی بٹو بجرنگی ہے جس نے اس کا ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’جیجا جی آرہے ہیں، استقبال کیلئے تیار رہو۔‘‘ مونو اور بٹو بجرنگی کے اس چیلنج کا جواب اہل میوات نے یہ لکھ کر دیا کہ ’’چیلنج قبول ہے۔‘‘ اب ایسے میں حالات کا اندازہ ایک عام آدمی بھی کرسکتا تھا کہ میوات میں کیا صورتحال تھی ... لیکن حکومت خاموش رہی...  اور اس وقت بھی خاموش رہی جب نوح میں امن کمیٹی کے ذمہ داران نےانتظامیہ  کو اس چنگاری کی جانکاری دی اور اسے شعلہ بننے سے روکنے کی اپیل کی۔ حکومت جانتی تھی کہ گزشتہ سال جبکہ ماحول اس طرح کشیدہ نہیں تھا، یاتریوں نے ایک مزار کو نقصان پہنچایا تھا لیکن انتظامی سطح پر کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی اور   ۳۱؍ جولائی کو یاترا نکل گئی۔ تصویروں اور ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ  ’یاتریوں‘ کے پاس لاٹھی اور تلوار کے ساتھ جدید اسلحہ بھی تھا۔ یہ سوال مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر ’راؤ اندر جیت سنگھ‘ نے بھی اٹھایا ہے۔   
ان حالات میں یاترا پر سنگ باری  غیر متوقع نہیں تھی۔  اس کے بعد فساد شروع ہوا تو ۶؍ گھنٹے تک بلا ’روک ٹوک‘ جاری رہا۔اس درمیان فائرنگ ہوئی، ۱۵۰؍ سے زائد گاڑیاں جلائی گئیں، دکانوں اور گھروں کے ساتھ عبادت گاہوں پر بھی حملے ہوئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ۷؍ انسانی جانوں کااتلاف بھی ہوا جن میں ۲؍ ہوم گارڈ اور ایک مسجد کے امام شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موقع پر ۹۰۰؍ پولیس اہلکار تعینات تھے لیکن اس سوال پر کہ فساد کے وقت  وہ کیا کررہے تھے؟ پلول کے ایس پی لوکیندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اُس وقت شاید اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں گے۔‘‘
اور یہی تھوڑی دیر کیلئے ’اِدھر اُدھر‘ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ فساد منصوبہ بند تھا۔ فساد کے دوسرے دن  یوگیندر سنگھ وہاں دورے پر  گئے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’فساد ہوانہیں، کروایا گیا ہے اور وہاں جو کچھ بھی ہوا،اس کے ذمہ دار ہندو اور مسلمان نہیں بلکہ مفاد پرست ٹولہ ہے۔‘‘ 
اس میں کس کا مفاد ہے اور اس سے کس کا فائدہ ہونے  والا ہے؟ بتانے کی ضرور ت نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ یہاں فسادات کی ایک ’روایت‘ رہی ہے۔ سابق آئی پی ایس  افسر اور ہندی کے مشہو ر مصنف وبھوتی نارائن رائے کہتے ہیں کہ ’’فرقہ پرستوں کی ایک حکمت عملی ہے۔ وہ پہلے کسی علاقے کو اپنا ہدف بناتے ہیں، پھر وہاں کے مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیانات دیتے ہیں، جلوس میں اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں اور جب مسلمانوں  کی طرف سے فطری رد ِعمل کا اظہار ہوتا ہے، تو اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ فساد کے دوران بھی اور  اس کے بعد بھی نقصان سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوتا ہے۔‘‘
ہریانہ کے نوح ضلع میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔بقول  امیرقزلباش:
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا n

Community-verified icon

No comments:

Post a Comment