Thursday 31 August 2023

Appropriate use of resources/Roznaamcha/ Qutbuddin Shahid

 وسائل کا مناسب استعمال

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
 عام طور پر یہ مصرعہ منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر آج ہم اسے مثبت معنوں میں استعمال کریں  گے کہ ’’ایک ڈھونڈو ، ہزار ملتے ہیں۔‘‘ جی ہاں! خود غرضی اور مفاد پرستی کے اس دور میں اچھے انسانوں کی کمی نہیں ہے، ایک ڈھونڈو ، ہزار ملیں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ زاویہ نگاہ مثبت ہو۔ یہ اچھے انسان انہیں نظر نہیں آئیں گےجو کسی فرد کی ۹۰؍ خوبیوں کو نظر انداز کرکے اس کی ۱۰؍ خامیوں کی تشہیر میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم ان کی خوبیوںکو دیکھیں، اس کی پزیرائی کریں اور جہاں تک ممکن ہو،اس کی تشہیر بھی کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی  ان خوبیوں کو اپنا سکیں۔
وسائل کی قلت اور مسائل کی بہتات کی شکایتیں اکثر سننے کوملتی ہیں لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شکایت کئے بغیر دستیاب وسائل کا مناسب استعمال کرتے ہیں اور مقدور بھر دوسروں کے مسائل کو حل کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔ وسائل کا مناسب استعمال لوگ کیسے کرتے ہیں، اس کی ایک مثال  ملاحظہ کریں۔
گزشتہ دنوں  ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ممکن ہے کہ آپ میں سے بھی کچھ لوگوں نے اسے دیکھا ہو۔ایک صاحب اپنی کار کے پاس ایک ’پلے کارڈ‘ لے کر کھڑے ہیں۔ اس پر لکھا ہوا ہے ’’دہلی سے کرنال... ۲۰۰؍ روپے فی سیٹ۔‘‘ یہ فاصلہ تقریباً ۱۳۰؍ کلومیٹر کا ہے۔ دہلی سے کرنال تک بس کا کرایہ بھی دو سوروپے سے زائد ہے۔ مطلب یہ کہ وہ صاحب رعایتی شرح  پر مسافروں کو دہلی سے کرنال پہنچا رہے  ہیں۔  وقفے وقفے سے وہ ’کرنال کرنال‘ کی آواز بھی لگاتے ہیں۔ دریں اثنا وہاں ایک نوجوان پہنچا جو اُن کا شناسا  ہے۔ اس نے حیرت سے کہا’’سر! آپ؟آپ ٹیکسی چلا رہے  ہیں؟‘‘وہ بھی اسے پہچان گئے۔ انہوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا نام لیا اور اثبات میں جواب ملنے پر بولے’ارے تم تو کافی بڑے  ہوگئے۔‘ رسمی گفتگو کے بعدنوجوان نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا’’سر! آپ کی ملازمت تو سرکاری ہے نا؟ پھر آپ یہ ٹیکسی کیوں چلا  رہے ہیں؟‘‘انہوں نے کہا کہ ’’بیٹا! میں ہر ہفتے اپنی بہن کے پاس کرنال جاتا ہوں۔ اتنی دور تک گاڑی خالی نہ جائے، اسلئے میں تین چار سواریاں لے لیتا ہوں تاکہ کچھ روپے مل جائیں۔‘‘ نوجوان نے مزید حیرت کااظہار کیاکہ ’’سر! آپ کی تنخواہ تو اچھی خاصی ہوگی، پھر آپ کو کرائے کی رقم کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس کے بعد انہوں  نے اپنے شاگرد کو تفصیل بتائی کہ یہ میرا ہر ہفتے کا معمول ہے۔ ان سواریوں سے مجھے جو  رقم ملتی ہے  میں اس سے پنسل ، کمپاس اور کچھ کاپیاں خریدلیتا ہوں اور اسے اُن بچوں میں تقسیم کر دیتا ہوں جو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن یہ لوازمات خرید نہیں پاتے۔  انہوں  نے کہا کہ اس میں میری جیب سے کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن کچھ طلبہ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے ایک بات کہی جواُس ویڈیو کا حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اس سفر میںمجھے اپنی خالی گاڑی کا اس سے بہتر اورکوئی استعمال نظر نہیں آتا۔‘‘ 
یہیں ممبئی میں میرے ایک شناسا ہیں۔ وہ ایکٹیوا سے چلتے ہیں۔ ان کا بھی کچھ اسی طرح کا معمول ہے۔ وہ جس راستے سے گزرتے ہیں، اس راستے پر اگر ان کا کوئی واقف کار، کوئی بزرگ یا کوئی شریف نظر آنے والا نوجوان دکھائی دیتا ہے تو وہ گاڑی روک کر سلام کرتے ہیں، پوچھتےہیں کہ کہاں  جانا ہے؟ اگر وہ اسی راستے کا مسافر ہے تو اسے وہاں تک چھوڑ دیتے ہیں، جہاں تک انہیں خود جانا ہوتا ہے۔ اس میں ان کاکچھ نقصان نہیں ہوتا لیکن ان کے وسائل سے کسی کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟ کیاہم اپنے وسائل کا اسی طرح مناسب استعمال نہیں کرسکتے؟ ضروری نہیں کی گاڑی ہی ہو، غور کریں تو ہمارے پاس بھی اس قسم کے کچھ وسائل ضرور ہوں گے جو دوسروں کے مسائل کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں  ۔

No comments:

Post a Comment