Monday 14 August 2023

 لوک سبھا میں تحریکِ عدم اعتماد ناکام لیکن اپوزیشن اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب

اس کامیابی کے باوجود حزب اختلاف اس پلیٹ فارم کا استعمال مزید بہتر انداز میں کرسکتا تھا۔ حکومت کے دعوؤں کی پول کھولنے  اور ملک کے سامنے اسے بے نقاب کرنے کا اس کے پاس بہترین موقع تھا لیکن وہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکا
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
مودی حکومت کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک سے حزب اختلاف یا پھرحزب اقتدار کو کیا ملا؟ اور کتنا ملا؟اس کا جواب ’دو اور دو چار‘ کی طرح آسان نہیں ہے۔ اسے جاننے، سمجھنے  اور کسی نتیجے پرپہنچنے کیلئے ایک چھوٹی سی مثال کو ہم پیمانہ بناتے ہیں۔
ایک محلے میں۲؍ بچوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ دونوں لڑتے، جھگڑتے اور روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور ایک دوسرے کی شکایت کی۔ اتفاق کی بات تھی کہ دونوں کی والدہ ایک ساتھ ہی تھیں اوران کے ساتھ محلے کی ایک اور خاتون بھی تھیں۔ان دونوں میں سےغلطی کسی کی بھی رہی ہو،جھگڑے کی پہل کسی نے بھی کی ہو لیکن  اُن ماؤں کو اپنے بچوں کی غلطی نظر نہیں آئے گی۔ ایسے میں دونوں بچوں کی نظر وہاں موجود تیسری خاتون کی طرف جائے گی، اسلئے وہ اسے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔
لوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک کو بھی کچھ اسی طرح دیکھا جاسکتا ہےجہاں دونوں بچے (حزب اقتدار اور حزب اختلاف) تیسری خاتون (غیر جانب دار عوام) کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے تاکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ دراصل یہی غیر جانب دارعوام/ ووٹر جن کی تعداد ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد کے درمیان بتائی جاتی ہے، ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ملک کے ۸۰؍ فیصد سے زائد رائے دہندگان آنکھ بند کرکے کسی ایک کی حمایت کرتے ہیں، وہ اچھا اور برا نہیں دیکھتے۔ ان کا رویہ اُن ماؤں کی طرح ہوتا ہے جنہیں اپنے بچے کی غلطی نظر نہیں آتی۔ اگر وہ بی جےپی کے حامی ہیں تو ان کی نظر میںبی جے پی کے سات خون معاف ہوتے ہیں، اسلئے وہ اسی کے امیدوار کو ووٹ دیںگے، خواہ وہ کیسا بھی ہو؟ اسی طرح اگر وہ کانگریس یا کسی اور جماعت کے حامی ہیں تو ان کا بھی وہی رویہ ہوتا ہے۔  
  یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کانگریس کی تاریخ میں اس کیلئے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کا الیکشن بہت خراب تھا۔ اس الیکشن میں اسے بالترتیب ۱۹ء۳۱؍فیصد اور ۱۹ء۴۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس کے پکے ووٹر ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اسی طرح ۲۰۰۹ء میں بی جے پی کو ۱۸ء۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔اُس  دورکو بی جے پی کیلئے برا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ کہ وہ اس کے وفادار حامی ہیں جو ہر صورت میں اس کے ہی ساتھ رہیں گے، خواہ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان ہی کیوں نہ چھونے لگے۔ مودی کے وزیراعظم بننے  کے بعد ملک کا ماحول قدرے تبدیل ہوا ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافہ اتنا بھی نہیں ہے کہ۲۰۱۴ء یا ۲۰۱۹ء میں اسے جو  ووٹ ملے تھے،ان تمام کو اس کا حامی تسلیم کر لیا  جائے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کو ۳۱؍ فیصد اور ۲۰۱۹ء میں ۳۷ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ ان میں ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد وہ غیرجانب دار ووٹرس شامل ہیں جو ہر الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
  حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک کا نتیجہ واضح ہونے کے باوجود اگر اپوزیشن نے لوک سبھا میں یہ تحریک پیش کی تھی، تو اس کا مقصد وہی تھا۔ وہ ۱۰؍ سے۲۰؍ فیصد پر مشتمل   اُن غیرجانب دار ووٹروں کے سامنے یہ حقیقت لانا چاہتے تھے کہ ملک کی سالمیت کیلئے  بی جے پی کس حد تک نقصاندہ ہے؟
وہ ان کے سامنے حکومت کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور بتانا چاہتے تھے کہ ترقی کا دعویٰ صرف نعروں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، سچائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اپوزیشن کے لیڈران اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ وہ عوام  (وہی۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد عوام) کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ تین ماہ سے زائد  عرصے سے فساد کی آگ میں جھلس رہے منی پور کے تعلق سے مودی حکومت غیر سنجیدہ ہے  اور وزیراعظم مودی  اس کے تئیں بے حس ہیں۔
لیکن اپوزیشن اگرچاہتی تو اس پلیٹ فارم کو مزید بہتر انداز میں استعمال کرسکتی تھی۔ کانگریس لیڈر گورو گوگوئی اور راہل گاندھی نے یقیناً بہت اچھی تقریریں کیں لیکن انہوں نے صرف اپنی باتیں کیں۔ کیا ہی مناسب ہوتا اگر یہ لوگ حکمراں محاذ کی جانب سے کی جانے والی تقریروں کا پوسٹ مارٹم وہیں ایوان میں کرتے ا ورحکومت کو آئینہ دکھاتے۔   منی پور کے تعلق سے وزیراعظم مودی کی بے حسی کے اظہار کیلئے اپوزیشن کا واک آؤٹ کرنا مناسب تھا لیکن  اگر وہ کچھ دیر بعد واپس آجاتے اور وزیراعظم کی تقریر کے بعد وہیں ایوان میں اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتے تو شاید زیادہ موثر ہوتا۔
ویسے یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کے غیرجانب دار عوام اور رائے دہندگان تک حزب اختلاف اور 
حزب اقتدار کا وہ پیغام پہنچ ہی گیا ہے جو وہ  پہنچانا چاہتے تھے۔ اب فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق ۱۰؍ اہم سوالات

حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد کیوں پیش کیا؟
اپوزیشن کی جماعتیں حکومت  سے منی پور کے موضوع پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کررہی تھیں لیکن حکومت اس کیلئے تیار نہیں تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ مختصروقت کیلئے ہی اس موضوع پر بات کرے گی۔ اسی طرح سے اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ منی پور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وزیراعظم مودی آکر بیان دیں لیکن حکومت اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوئی۔اسلئے حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔ اس قانون کے تحت وزیراعظم کو ایوان میں آنا اور بیان دینا  لازمی ہوتا ہے۔
تحریک اعتماد پیش کرنے کیلئے کیا شرائط ہیں؟
کسی بھی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔ اس تحریک پر بحث کی منظوری کیلئے لوک سبھا کے ۵۰؍ اراکین کی منظوری ضروری ہے ۔ہندوستانی جمہوریت میں اسے برطانیہ کے ویسٹ منسٹر ماڈل کے پارلیمانی نظام سے لیا گیا ہے۔ پارلیمانی نظام کے قاعدہ نمبر۱۹۸؍ میں اس کا ذکر ہے۔
کیا اس بحث میں حکومت کو جواب دینے کیلئے مجبور کیا جاسکتا ہے؟
نہیں۔ حکومت سے سوال تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے جواب دینے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن کے سوال کے جواب میں حکومت کسی بھی موضوع پر بات کرسکتی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سوالات کو اس کے سامنے پیش کردے  اور حکومت سے جواب کی توقع کرے۔ حکومت سے جواب نہ ملنے کی صورت میں اپوزیشن، عوام  کے سامنے اس موضوع کو اٹھائے۔ 
کالنگ اٹیشن موشن‘ کیا ہے؟
اگرپارلیمنٹ میں ’کالنگ اٹینشن موشن‘ پیش کیا جاتا تو صرف ایک ہی موضوع پر بات ہوتی اوراس میں حکومت کیلئےجواب دینا ضروری ہوتا ۔ اسی لئے مودی حکومت  اس رول کے تحت منی پور کے موضوع پر بحث کیلئے آمادہ نہیں ہورہی تھی۔
کیا اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب رہی؟
بالکل۔ دونوں صورت میں۔  اول یہ کہ وزیراعظم کو ایوان میں آنا پڑا۔ دوم یہ کہ وزیراعظم یہاں آکر بھی منی پور پر کچھ نہیں بولے، اس طرح یہ ثابت کرنا آسان ہوا کہ وہ منی پور کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں۔
رول نمبر ۱۷۶؍ اور ۲۶۷؍ کیا ہے؟
اس کا براہ راست تعلق عدم اعتماد کی تحریک سے نہیں ہے۔ یہ دراصل راجیہ سبھا کے ضوابط ہیں لیکن اگر حکومت نے اپوزیشن کا ۲۶۷؍ کے تحت بحث کا مطالبہ منظور کرلیا ہوتا تولوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ضابطہ نمبر۱۷۶:  اس  ضابطےکے تحت ایوان میں کسی بھی معاملے پر ڈھائی گھنٹے تک بحث کی اجازت ہے۔اس سے زیادہ کسی مسئلے پر بات نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ممبر کسی خاص مسئلے پر تحریری نوٹس دے کر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس تحریک پر تحریک پیش کرنے والے کے علاوہ۲؍ اراکین کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے بعد چیئرمین اسی دن یا اگلے دن اس معاملے پر بحث کر سکتے ہیں۔ بحث کے بعد کسی بھی معاملے پر ووٹنگ نہیں کی جاتی۔
ضابطہ نمبر۲۶۷:  اس ضابطے کے تحت سارے کام چھوڑ کر جس موضوع کیلئے یہ تحریک پیش کی جاتی ہے،اس پربحث ہوتی ہے۔اس اصول کے تحت کوئی بھی رکن کسی بھی اہم معاملے پر بحث کیلئے تحریک پیش کر سکتا ہے۔ بحث کے بعد ووٹنگ بھی ہوتی ہے۔
وزیراعظم کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے بائیکاٹ کیوں کیا؟
اپوزیشن کا اول دن سے یہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں اور منی پور کی صورتحال پرگفتگو کریں لیکن ۹۰؍ منٹ کی تقریر کے بعد بھی جب وزیراعظم کچھ نہیں بولے تو اپوزیشن کے لیڈران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، اسلئےاس کے تمام اراکین وزیراعظم مودی کی تقریر کے دوران ہی بطور احتجاج ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔
امیت شاہ نے جس کلاوتی کا تذکرہ کیا ، وہ کون ہے؟
یہ مہاراشٹر کے ایوت محل سے تعلق  رکھنے والی ایک خاتون ہیں جن کے کسان شوہر نے ۲۰۰۸ء میں خود کشی کرلی تھی۔ اُس وقت راہل گاندھی نے ان کے گھر کا دورہ کیا تھا اور اس کی ہمت افزائی کی تھی۔  راہل گاندھی نے اس خاتون کا درد اُس وقت پارلیمنٹ میں بیان کیا تھا۔ امیت شاہ  نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ راہل گاندھی نے صرف جذباتیت سے کام لیا تھا اور مذکورہ خاتون کی کوئی مدد نہیں کی لیکن ان  کے بیان کے فوراً بعد اس طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں کہ راہل گاندھی نے نہ صرف اپنے ذرائع سے ان کی مدد کی تھی بلکہ اس کے بعد سے وہ مسلسل رابطے میں ہیں۔  یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران کلاوتی یاترا میں شامل ہوئی تھیں۔ امیت شاہ کے بیان کے بعد کلاوتی نے ضلع مجسٹریٹ کو مکتوب سونپتے ہوئے کہا کہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ راہل گاندھی کی وجہ سے آج میرے گھر کا گزر بسر ہورہا ہے اور میرے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔
وزیراعظم مودی نے ۱۹۶۶ء میں میزورم پر جس فوجی حملے کی بات کہی تھی، وہ کیاتھا؟
وزیراعظم  مودی نے  اندرا گاندھی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ۱۹۶۶ء میں میزورم پر ہوائی حملہ کیا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر عوام مارے گئے تھے۔ کانگریس نے اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب  میزو نیشنل فرنٹ کے باغیوں نے میزورم کے ایزول پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہیں بھگانے اور ملک کی سالمیت کیلئے ہندوستانی فضائیہ  کے ذریعہ ان پر بمباری ضروری تھی۔ فضائی بمباری کی وجہ سے ہی  ایم این ایف کے باغی بھاگنے پر مجبور ہوئے جس کے سبب ایک بار پھر خطے پر ہندوستان کی بالادستی قائم  ہوسکی۔ خیال رہے کہ ان دنوں ہندوستان ایک طرف چین سے تو دوسری طرف پاکستان سے برسرپیکار تھا۔ ایسے میں ایم این ایف کے باغیوں نے ایزول پر قبضہ کرلیاتھا، اسلئے حکومت کے پاس فضائی بمباری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمراں محاذ کو اپنی بات رکھنے کیلئے زیادہ اور اپوزیشن کے اراکین کو کم وقت کیوں ملا؟
یہ وقت دراصل اراکین کی تعداد کے حساب سے ملتا ہے۔ لوک سبھا میں حزب اقتدار کے اراکین کی تعداد چونکہ زیادہ ہے،اسلئے اس کے اراکین کو زیادہ وقت ملا اور حزب اختلاف کے اراکین کو کم ملا۔ وقت کا تعین پارلیمنٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی طے کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں کل ۲۶؍ اراکین ہوتے ہیں، جن میں ۱۵؍ لوک سبھا کے اور ۱۱؍ راجیہ سبھا کے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment