Monday 28 August 2023

Is there anything for Muslims in the 'Mohabbat ki dukan'?/ Qutbuddin Shahid

 ’محبت کی دُکان‘ میں کیا مسلمانوں کیلئے بھی کچھ ہے؟

 نوح  فساد  کے بعد  ایک ہزار سے زائد دکان اور مکان زمین دوز کرکے ایک جھٹکے میں ہزاروں افراد کو بے گھر اور بے روزگار کردیا گیا لیکن کانگریس  نے مسلمانوں کی اشک سوئی تو دور، اس معاملے پر لب کشائی تک کی زحمت نہیں کی، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جارہی ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کا اعلان کیا توسب سے زیادہ خوشی کااظہار ہندوستانی مسلمانوں نے کیا۔انہیں لگا کہ اس دکان میں ان کی ضرورت کا بھی کچھ سامان ہوگا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ کانگریس کے رویے سے انہیں مایوسی ہوتی جارہی ہے۔ اس درمیان کانگریس کے بعض حلقوں سے کچھ اس قسم کے بھی سُر سنائی دیئے کہ نئی اور پرانی کانگریس ہی نہیں بلکہ کانگریس اور بی جے پی میں فرق کرنا بھی مشکل ہونے لگا۔
ایک ایسے جمہوری نظام میں جہاں محض ایک دو فیصد ووٹوں کے اِدھر اُدھر ہوجانے سے اقتدار کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے، وہاں پر ایک سازش کے تحت۱۵؍ فیصد سے زائد مسلمانوں کو سیاسی بیانیے سے پوری طرح باہر کردیا گیا ہے۔مسلم ووٹوں کی طلب تو سب کو ہے... اور صرف طلب ہی نہیں بلکہ اس پردعویٰ بھی ہے لیکن مسلمانوں کی بات کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمان، ترنمول کانگریس کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دے دیں، تو ممتا بنرجی برہم ہوجاتی ہیں۔ اُترپردیش میں مسلم رائے دہندگان کا رُخ بی ایس پی کی طرف ہوجائے تواکھلیش یادو ناراض ہوجاتے ہیںاور سماجوادی پارٹی کی طرف ہوجائے تو مایاوتی کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کو کوسنے لگتی ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ ان تمام جماعتوں کو دھکا دے کر اقتدار تک پہنچانے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے لیکن جب مسلمانوں پر کوئی آنچ آئے اور  وہ مصیبت میں ہوں توان کی حمایت میں کھڑا ہونے کی ذمہ داری کسی کی نہیں ہے۔
ایسے میں راہل گاندھی کی ’محبت کی دکان‘ سے مسلمانوں نے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔انہیں لگنے لگا تھا کہ نئی کانگریس ،  اب اسی راستے پرچلے گی، جس کا اعلان راہل گاندھی نے کیا ہے۔ یہ کانگریس کے تئیں مسلمانوں کے اعتماد ہی کا نتیجہ تھا کہ کرناٹک میں ان کایکطرفہ ووٹ کانگریس کو ملا۔ جے ڈی ایس کو مسلمانوں نے گھاس نہیں ڈالی۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے’ساگر دیگھی‘ میںبھی نظر آئی جہاں ضمنی اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی بدولت کانگریس  کے امیدوار کو کامیابی ملی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں اس حلقے سے ٹی ایم سی کا امیدوار۵۰؍ فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوا تھا لیکن ۲۰۲۳ء کے ضمنی الیکشن میں اس کے امیدوار کو محض ۳۵؍  فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔   یہاں پر کانگریس  کے امیدوار کو ۴۷؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے اور اس کا امیدوار کامیاب ہوا جبکہ ۲۰۲۱ء میں اس کے امیدوار کو محض ۱۹؍فیصد ووٹ ہی ملے تھے۔
  ملک کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی حکمت عملی کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ جہاں جوپارٹی بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہو، اسےووٹ دے کر مضبوط کریں لیکن یہ راہل کی’ محبت کی دکان‘ کا اثر تھا کہ ساگر دیگھی اور اس کے بعد مغربی بنگال کے پنچایتی انتخابات  میں مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اُن ریاستوں میں بھی، جہاں کانگریس کی پوزیشن نازک ہے، مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دینے کا ذہن بنا لیا ہے۔ اترپردیش کے پنچایتی انتخابات میں اس کی ایک جھلک دیکھی جاچکی ہے اور تلنگانہ میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں....مگر افسوس کہ کانگریس اپنے رویوں سے ایک بار پھر مسلمانوں کو مایوس کررہی ہے۔
  اس حوالے سے مثالیں تو بہت ساری دی جاسکتی ہیں لیکن ہم یہاں صرف نوح  کے فساد اور اس کے بعد کے حالات پر کانگریس کے رویے اور مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈروں کے بیانات  پر اکتفا کریںگے۔ نوح میں فساد کیسے ہوا؟ اور اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔  یہ اظہرمن الشمس ہے لیکن اس کے بعد وہاں پر جس طرح سے’سرکاری انتہا پسندی‘ ہوئی، وہ فساد سے بھی زیادہ تکلیف دہ رہا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اس دوران  ۱۲۴۸؍ مکان اوردکان زمین دوز کئے گئے۔ اس طرح ایک جھٹکے میں ہزاروں خاندانوں کو بے گھر ا ور بے روزگار کردیا گیا۔ یہ کوئی معمولی  بات نہیں ہے لیکن کانگریس نے اس کا نوٹس نہیں لیا یا کم از کم اُس طرح نہیں لیا، جس طرح سے لیا جانا چاہئے تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران راہل گاندھی اورگورو گوگوئی نے ’پاسنگ ریفرینس‘ کے طورپر نوح فساد کا تذکرہ ضرور کیا لیکن اس میں بھی  بلڈوزر کارروائی کا کوئی ذکرنہیں تھا۔ حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں مسلمانوںنے ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کو یکطرفہ ووٹ دیا تھا۔ میوات ضلع کے تینوں اسمبلی حلقوں (نوح، فیروز پور جھرکا اور پوناہانا)  میں کانگریس کے امیدواروں کو کامیابی ملی تھی۔ کانگریس لیڈروں کو یہاں مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ انہیں بتانا چاہئے تھا کہ محبت کی دکان میں مسلمانوں کیلئے بھی کچھ ہے لیکن افسوس کہ راہل گاندھی خود بھی۵۰؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے نوح نہیں جاسکے۔ اس کے برعکس ایک ہزار کلومیٹر کی دوری پر واقع لیہہ میں محبت کی دکان کھولنے چلے گئے۔    
کانپور میں ایک برہمن خاندان کے گھر پربلڈوزر چلا تھا جہاں ماں بیٹی کی موت ہوگئی تھی ، وہاں پرینکا گاندھی بذات خود پہنچ گئی تھیں لیکن دہلی سے متصل گروگرام میں ۲۴؍ سالہ امام کوقتل کر دیا گیا اور اس سےقبل جنید اور ناصر نام کے دو نوجوانوں کو  زندہ جلا دیاگیا، لیکن پرینکا اور راہل کو چھوڑیئے، ریاستی سطح کے لیڈران نے بھی ان مظلوموں کے گھروں تک جانے کی زحمت نہیں کی۔ ان ہنگامہ آرائیوں کی جڑ ’مونو مانیسر‘ نامی بجرنگ دل کے ایک شدت  پسند کارکن کو سمجھاجاتا ہے جس کے خلاف راجستھان میں ایف آئی آر درج ہے لیکن اشوک گہلوت کی حکومت اُس ایک معمولی ملزم کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے پارہی ہے اور دعویٰ بی جے پی سے ٹکرانے کا ہے ۔
راہل گاندھی نے ’محبت کی دکان‘ کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ملک میں نظریات کی ایک واضح لکیر ہے، جس کے ایک طرف گاندھی وادی کانگریس ہے تو دوسری طرف گوڈسے وادی بی جے پی ہے۔ تاریخ کے بدترین دور سے گزر چکی کانگریس کی کچھ حد تک بحالی اسی نعرے کے بعد ہوئی  ہے۔ ایسے میںامید تھی کہ کانگریس کے لیڈران اس لکیر کی پاسداری کریں گے لیکن افسوس کہ ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔
مدھیہ پردیش میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، وہاں پرینکا گاندھی نے ’نرمدا‘ کی  پوجا سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا، سی  ڈبلیو سی کے رُکن دگ وجے سنگھ نے بجرنگ دل پر پابندی کی مخالفت کی اور وزارت اعلیٰ کے دعویدار کمل ناتھ نے ملک کو ہندوراشٹر قرار دیتے ہوئے متنازع سادھو ’باگیشور‘ کی کتھا کا اہتمام کیا۔ یہ وہی باگیشو ر ہے،  جو اپنی زہرافشانی کیلئے بدنام ہے،جس کی فرقہ پرستی انتہا پر ہے، جو ہندوستانی مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری بتاتا ہے اور ان کے خلاف بلڈوزر کارروائیوں کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔  
کانگریس کا اگریہی رویہ رہا اور اسی طرح سیکولرازم کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک کا وہ طبقہ بھی جو کانگریس کو بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، امریکی مصنف اور دانشور جیمس بالڈوِن کا یہ قول دہرانے پرمجبور ہوگاکہ’’آپ جو کہتے ہیں، میں اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا کیونکہ آپ جو کررہے ہیں، وہ میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘n

No comments:

Post a Comment