Tuesday 7 January 2014

Roznaamcha_ SMS

ایس ایم ایس فارورڈ کرنے سے قبل غور کرلیں


 قطب الدین شاہد

 کچھ دنوں قبل ’کوبرا پوسٹ‘ نے ایک انکشاف کیا تھا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پیسے لے کر سوشل میڈیا کے  ذریعہ لوگوں کی شبیہ بنانے اور بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔ ۲۲؍ دسمبر کو ’سائنس اور سماج‘ کے کالم میں اسی موضوع پر پروفیسر سید اقبال صاحب نےبھی  ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون تحریر کیا ہےجس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سیاستداں اور کارپوریٹ گھرانے عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں اور سچ پر جھوٹ کا ملمع چڑھا کر  انہیںگمراہ کرتے ہیں۔ خیر یہ ان کا کام ہے، وہ کرتے رہیں گےکیونکہ اس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے مگر افسوس تو یہ جان کر ہوتا ہے کہ نادانستگی میں  ہم بھی ان کا  آلہ کار بنتے ہیں۔  ان دنوں ایس ایم ایس اور ای میل  فارورڈ کرنے کاایک رجحان سا چل پڑا ہے۔ وہاٹس اپ نے اس سلسلے کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ یہ ایک طرح سے ہماری کمزوری بن گئی ہے کہ کہیں سے ہمیں کوئی ’اچھا‘ میسیج موصول ہوا توہم اسے پہلی فرصت میں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ دیکھنے اور غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ اس میں سچائی کتنی ہے ؟سماج اور قوم پراس کےکس طرح کے اثرات مرتب ہوںگے اور یہ کہ کہیں ہم کسی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں؟
       یہ بات ہم بہت دنوںسے سنتے آرہے ہیں کہ بی جے پی نے بڑے پیمانے پرایسے لوگوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو سوشل میڈیا کی مدد سے  اس کی اوراس کے لیڈروں کی شبیہ کو بہتر بنانے نیز مخالف جماعتوں کی شبیہ کو خراب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے لیکن انتخابی دنوں میں اس میں شدت آجاتی ہے۔ان ’شبیہ سازوں‘ کوچونکہ ہماری کمزوری کا پوری طرح سے علم ہے اس لئے وہ اس قدر ’خوبصورت‘ میسیج تخلیق کرتے ہیں کہ جب تک ہم انہیں دوسروں تک  پہنچا  نہ دیں، چین و قرار نہیں آتا۔
    گزشتہ دنوں مجھےکچھ ’پیغامات‘موصول ہوئے جنہیں اسی مہم کا حصہ کہا جاسکتا ہے لیکن جن صاحبان کی طرف سے مجھے  یہ میسیج ملے، ان کے تعلق سے قطعی نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جان بوجھ کر اس مہم کا حصہ بنے ہوں گے ۔ وہ کانگریس سے ناراض تو ہوسکتے ہیں لیکن بی جے پی کی حمایت کسی صور ت میں نہیں کرسکتے۔ملاحظہ کریں وہ ایس ایم ایس۔
    nایک آدمی مچھلی پکڑ کر لایا۔ بیوی دیکھتے ہی برہم ہوگئی، بولی: گھرمیں نہ گیس ہے نہ تیل۔ نہ نمک ہے نہ مسالہ، کیسے بناؤں مچھلی؟ اس شخص نے جھلاہٹ میں مچھلی کو اٹھایا اور جاکر تالاب میںپھینک دیا۔ پانی میں جاتے ہی مچھلی نے نعرہ بلند کیا ’’کانگریس زندہ باد۔‘‘
    nواہ کیا لاجک ہے: رام نے راون کو مارا ( آر  سے آر)، کشن نے کنس کو  (کے سے کے)، گوڈسے نے گاندھی کو (جی سے جی) ، اوبامہ نے اوسامہ کو ( او سے او) کرپشن مارے گا کانگریس کو(سی سے سی) اور مودی مارے گا منموہن کو ( ایم سے ایم )۔
    اس طرح کے ایس ایم ایس چونکہ صوتی اعتبار سے  اچھے لگتے ہیں، اس لئے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف فارورڈ کرتے ہیں بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ وہ بھی دوسروں کو اسے فارورڈ کریں۔
    اسی درمیان ایک اچھا ایس ایم ایس بھی موصول ہوا:
    nکانگریس  نے دس سال قبل جو  وعدہ کیا تھا ، اسے اب پورا کیا یعنی ’’ کانگریس کا ہاتھ ، عام آدمی کے ساتھ۔‘‘    
     اخیر میں بس یہی کہنا ہے کہ ایس ایم ایس اور ای میل ضرور فارورڈ کریں لیکن  اس سے  پہلے  ان پرغور کرلیں ۔

Aap ki hukumat ki tashkeel, tareekhi waqya

کیجریوال کی قیاد ت میں آپ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی اور انقلابی واقعہ
بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری، کانگریس خوش فہمی کا شکار، میڈیا تذبذب میں مبتلا
 
دہلی کے اسمبلی الیکشن میں’آپ‘ کی کارکردگی سے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا بھی حواس باختہ ہوگیا ہے لہٰذا کیجریوال اوران کے ساتھیوں کو گھیرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔ بی جے پی اوٹ پٹانگ بیانات کے ذریعہ جہاں اپنی بوکھلاہٹ ثابت کررہی ہے، وہیں کانگریس اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گر جائے گی اور ایک بار پھر دہلی کے پایۂ تخت پر اس کا قبضہ ہوگا۔ میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے
 
قطب الدین شاہد

دہلی انتخابات کی صورت میںعوام نے سیاسی جماعتوں کونہایت واضح انداز میں اپنا پیغام دے دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتہ ٔ دیوار ہے، اگر وہ اپنی بقا کی متمنی ہوں تو انہیں چاہئے کہ اسے پڑھ لیں، بصورت دیگربوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کرلیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاست داں اور سیاسی جماعتیں آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہیں اور اپنی اسی کج روی کا اظہار کررہی ہیں جو اناہزارے کی قیادت میں عوامی تحریک کے ساتھ کیا تھا۔ بلاشبہ اناہزارے کچھ ’طاقتوں‘ کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے تھے، اس لئے وہ تحریک بری طرح ناکام بھی رہی لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس نے عوامی جذبات کو جس طرح اپنی سیاسی پینترے بازیوں سے کچلنے کی کوشش کی تھی، اسے اس کا خاطر خواہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
    بی جے پی کی ذہنی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ تین ریاستوں میں حکومت بنا لینے اور دہلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرلینے کے باوجود ’آپ‘ کی کامیابی نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا ہے اوراسے اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ہے۔مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا کی مدد سے وہ جس تیزی سے اپنے مہرے کو آگے بڑھارہی تھی اور ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے منصوبے بنارہی تھی، دہلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی وہ مہرہ بری طرح پٹ گیا ہے۔تین ریاستوں میں کامیابی کو بی جے پی مودی کا کرشمہ ثابت کرنا چاہتی تھی اوراس طرح اپنے حامیوں کویہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اب دلی دور نہیں! لیکن کیجریوال کی حقیقی عوامی مقبولیت کے آگے بی جے پی کا طلسم ٹوٹ گیا اوریہ ثابت ہوا کہ عوام کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی سے بھی ناراض ہیں لہٰذا جہاں بھی انہیں کوئی بہتر متبادل ملتا ہے، وہ ان دونوں کوخاک چٹانے میںکسی تکلف  و توقف سے کام نہیں لیتے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار میں واپسی،  راجستھان کو کانگریس سے چھین لینے نیز دہلی میں  پہلے کے۲۳؍ کے مقابلے۳۱؍ نشستیں جیت لینے کے بعد بی جے پی لیڈروں کو جس پزیرائی کی امید تھی، وہ نہیں مل پائی جس کی وجہ سے  وہ بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؟’بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ‘ کے مصداق ارون جیٹلی کچھ کہہ رہے ہیں تو سشما سوراج اور راج ناتھ کچھ اور، اسی طرح وجے گوئل اور ہرش وردھن بھی الگ الگ سُروں میں راگ الاپ رہے ہیں۔
    ایک ہفتہ قبل تک یعنی جب تک کیجریوال کی پارٹی نے حکومت سازی کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے کی بات کہہ رہی تھی، بی جے پی لیڈران اس پر عوام سے فریب دہی کاالزام عائد کررہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ جب کانگریس بلاشرط  حمایت دے رہی ہے، تو وہ حکومت سازی سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟اور یہ کہ اگر دہلی میں دوبارہ انتخابات کی نوبت آئی تو اس صورتحال کی تنہا ذمہ داری ’آپ‘ پر ہوگی۔ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ’آپ‘ کے لیڈروں میں انتظامی صلاحیت نہیں ہے اس لئے وہ ذمہ داری لینے سے کترا رہے ہیں۔کچھ اسی طرح کی باتیں کانگریس کی جانب سے بھی آئیں..... اور اب جبکہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت سازی کا فیصلہ کیا گیا تو بی جے پی کی جانب سے ایک بار پھر عوام کے ساتھ فریب دہی کاالزام عائد کیا جارہاہے۔ کہا جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی بنیادی طورپر کانگریس کے خلاف  الیکشن جیت کر کامیاب ہوئی ہے، ایسے میں اسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ، عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔
     کیجریوال پر بیٹے کی قسم توڑ دینے کا ابھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ انتخابات کے دوران انہوں نے اپنے بیٹے کی قسم کھائی تھی کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیںگے۔  بی جے پی لیڈروں کے یہ تمام الزامات اس لئے بے بنیاد ہیں کہ یہاں ’آپ‘کی کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت سازی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ صرف اور صرف دہلی کو دوبارہ انتخابی اخراجات سے بچانے کی کوشش محض ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس اہم فیصلے کیلئے  کیجریوال نے عوام سے رجوع کیا،  بی جے پی اور کانگریس کی طرح  من مانی نہیں کی۔ ویسے بی جے پی اور کانگریس ہی کیا، دیگر علاقائی سیاسی جماعتیں بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں اوران کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہےکیونکہ یکے بعد دیگرے اپنے فیصلوں سے  کیجریوال ہندوستانی سیاست کو اس جانب لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، جہاں عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، ان کی بات سنی جاتی ہے اور حتی الامکان اس پرعمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  یہ باتیں آمریت پسند سیاسی جماعتوں کو بھلا کیوں کر راس آئیںگی۔؟
ٍ    ایک جانب جہاں بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہے، وہیںدوسری جانب کانگریس خوش فہمی کی شکار ہے۔ شروع شروع میں کانگریس کو لگا تھا کہ حکومت سازی کے اعلان ہی سے ’آپ‘ میں انتشار شروع ہوجائے گا اور وزارتوں کی تقسیم تک پوری پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس سمت میں کچھ کوششیں ہوئیں بھی لیکن ابھی تک ’آپ‘ کی جانب سے استقامت ہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کانگریس کے قدموں تلے سے بھی زمین کھسکنی شروع ہوگئی ہے۔ ’آپ‘ کے بجائے  کانگریس میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔ بہرحال کانگریس کاایک بڑا طبقہ آج بھی خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گرجائے گی، دوبارہ الیکشن ہوںگے اور پھر نتائج ان کے حق میں ہوںگے۔ ممکن ہے کہ یہ حکومت گرجائے اوریہ بھی ممکن ہے کہ  دوبارہ انتخابات ہوں لیکن مستقبل قریب میں کانگریس کی اقتدار میں واپسی کا امکان بہت کم ہے۔اس کیلئے کانگریس کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف مغربی بنگال، اترپردیش اور بہار میں اپنی تاریخ کا سرسری کا مطالعہ کرلے۔ ایک وقت تھا جب ان ریاستوں کی کانگریس بلا شرکت غیر ے مالک ہوا کرتی تھی مگر اب وہ وقت آن پڑا ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے کیلئے ابھی کسی بیساکھی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس کے باوجود وہ ٹھیک سے اپنی موجودگی درج نہیں کراپاتی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ دہلی میں انہی تینوں ریاستوں کے باشندوں کی اکثریت ہے۔  درمیان کے ایک دو سال کو چھوڑ دیا جائے تو مغربی بنگال میں ۱۹۷۷ء تک، اترپردیش میں ۱۹۸۹ء تک اور بہار میں ۱۹۹۰ء تک کانگریس کی حکومت رہی ہے، لیکن اس کے بعد جب عوام کوان ریاستوں میں کانگریس کا کوئی متبادل مل گیا تو آج تک اسے پھر موقع نہیں دیا۔ کانگریس اگر واقعی اقتدار میں واپسی چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے اوران کے انتشار سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرے۔
    ’آپ‘ کی کامیابی سے سیاسی جماعتوں کی بوکھلاہٹ فطری ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ میڈیا بھی اس میں ایک فریق بن کر سامنے آرہا ہے۔انتخابی منشور میں ’آپ‘ نے عوام سے کچھ ایسے وعدے کئے ہیں، جنہیں پورا کرنا قدرے مشکل ہے  (لیکن ناممکن نہیں)۔ میڈیانے ان وعدوںکی تکمیل کیلئے ’آپ‘ کو گھیرناشروع کردیا ہے۔ میڈیا کے اس قدم پر تنقید نہیں کی جاسکتی لیکن اس کی بدنیتی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نشانے پر صرف ’آپ‘ ہی کیوں؟ کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار کی پہلی میقات میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی پر قابو پانے کی بات کہی تھی، میڈیا نے اس کا ’کاؤنٹ ڈاؤن‘ کیوں نہیں کیا؟ کاؤنٹ ڈاؤن کی بات جانے دیں، یہی میڈیا اب یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ مہنگائی پرقابو پانے کا مطالبہ ہی ناجائز ہے اور یہ حکومت کو بلیک میل کرنے جیسا ہے۔ ریلوے کرائے میں  اضافے کی مخالفت پر ممتا بنرجی کو کچھ اسی طرح کے جواب دیئے جارہے تھے۔
     میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔