Saturday 28 May 2011

کانگریس اور کرپشن

کانگریس اور کرپشن
کیا دونوں لازم و ملزوم ہیں؟
کانگریس کے سابقہ ادوار میں بھی کرپشن کے بڑے بڑے معاملات سامنے آئے ہیں، لیکن اس مرتبہ محض دو سال کے قلیل عرصے میں جتنے گھوٹالے منظر عام پر آئے ہیں،آزاد ہندوستان بلکہ غلام ہندوستان کی تاریخ میں بھی شاید کبھی نہیں ہوئے ہوںگے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوپی اے حکومت میں شامل وزرا کو بہت جلدی ہے، لہٰذا   لوٹ کھسوٹ میں جلد بازی کےمظاہرے کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے لئے تنہا حکومت ہی ذمہ دار ہے یا اس گناہ میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں؟اس سے قبل کہ ہماری رگوں سے تمام خون نچوڑ لیا جائے یا ہم پر بے حسی طاری ہوجائے، اس موضوع پر ہمیں سنجیدگی سے کچھ سوچنا پڑے گا۔
قطب الدین شاہد
    ے 2009کےعام انتخابات میں کانگریس کا نعرہ تھا’’کانگریس کا ہاتھ،عوام کے ساتھ‘‘.........مگر اقتدارملتے ہی انتخابی منشور کے ساتھ اس نعرے کو ایک مضبوط پوٹلی میں باندھ کر ایسی جگہ رکھ دیا گیا ، جہاں کسی کا ہاتھ تو کیا، نظر کی رسائی بھی آسان نہ ہو۔پھر کرپشن کا وہ دور دورہ شروع ہوا ، وہ لوٹ کھسوٹ مچی کہ اللہ کی پناہ۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کوئی سخت مقابلہ ہے، جہاں ہر کوئی دوسرے پر سبقت  لے جانے کی جدوجہد کررہا ہے۔نقصان تو خیر پورے ملک کا ہورہا ہے، لیکن عام آدمی کی حالت زیادہ دگرگوں ہے کہ اس کے منہ سے نوالے تک چھن گئے ہیں۔اس نعرے کا احساس وقت کے ساتھ ہورہا ہے کہ اس ’ہاتھ‘ سے کیا مراد تھا؟  دراصل وہ ہاتھ نہیں ، طمانچہ ہے جو عام آدمی کی گالوں پر تواتر کے ساتھ پڑرہا ہے۔
    یوپی اے حکومت کی دوسری اننگز کی دوسری سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے ساتھیوںسے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’بدعنوانیوں کاارتکاب کرنیوالوں کو بخشا نہیں جائے گا،قانون کے مطابق انہیں سز ا دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں‘‘۔
    اس موقع پر یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بھی  بدعنوانی سے جنگ  لڑنے کی بات دوہرائی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم کرپشن کے  خاتمے کی کوششوں کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیںگے اور ان تمام پر سخت کارروائی کریںگے جنہوں نے ملک کے خزانے کو لوٹا ہے........اور یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں، اس پر کام ہوگا۔‘‘
     کہاتو یہی گیا کہ اس میں لفاظی نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو اس میں علاوہ لفاظی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔یوپی اے حکومت کے دونوں ذمہ داروں نے باتیں تو بہت اچھی اچھی کیں، لیکن اگران کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔  اول  یہ کہ ان کے ساتھی ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے،  دوم یہ کہ ان کے دو ایجنڈے ہوں۔ یعنی ایک کااظہار کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ دوسرے کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس پرعمل کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ دو سال کے معمولی عرصے میںعوام کی کتنی دولت لوٹی گئی ؟ اور ا س پر حکومت نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ؟بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوا کہ اگرعدالت عظمیٰ انہیں بار بارڈانٹ پھٹکار نہیںلگاتی تو شاید اتنی بھی کارروائی نہیں ہوئی ہوتی جتنی کی ہوئی ہے۔ یعنی جو ہوئی ہے، وہ ملک و عوام کی محبت اور بدعنوانی و بدعنوانوںسے نفرت کے سبب نہیں بلکہ بادل نخواستہ اور مجبوری میں ہوئی ہے۔
    دوسری میقات میں کمان سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے وزرا سے کہا تھا کہ وہ ۱۰۰؍ دنوں میں اپنے اپنے محکموں کا رپورٹ کارڈ پیش کریں اور بتائیں کہ وہ ملک و عوام کی ترقی کے لئے کیا کررہے ہیں؟ عوام نے وزیراعظم کی اس تڑپ کا بہت پُرجوش خیرمقدم کیا تھا، جس کا ثبوت اس کے بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں نظر آیا۔عام انتخابات کے بعد مہاراشٹر، آندھرا پردیش، ہریانہ، اروناچل پردیش اور اڑیسہ میں الیکشن ہوئے تھے اور تمام مقامات پر کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
    شاید یہی وہ وقت تھا، جب کانگریس تکبر کے احساس میں مبتلا ہوگئی۔ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوںسے قبل حکومت کو بار بار متنبہ کیا گیا کہ لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، عوام و خواص کے ساتھ ساتھ میڈیا یہاں تک کہ بعض کانگریسی اراکین نے بھی اس جانب حکومت کی توجہ دلائی مگر، حکومت کے کانوں پر جوںتک نہ رینگی۔اس کے بعد ٹوجی اسپیکٹرم ، اسرو، راشن تقسیم (پی ڈی ایس)، تھومس کی تقرری اورکالے دھن کے معاملات میں بھی حکومت کی بے حسی اور بے توجہی نمایاں رہی۔ایسا لگا جیسے لٹیروںکو اس بات کا اشارہ ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
    مزے کی بات یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے بدعنوانیوں کے کئی معاملات کے انکشاف کے باوجود یوپی اے کے بیشتر کرداروں کو ’پاک صاف اور ا یماندار‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یوپی اے دوم کی کارکردگی کا  سرسری جائزہ لیاجائے تو اس کا پلاٹ تجسس سے پُر بالی ووڈ کے کسی فلم جیسا نظر آتا ہے۔اس طرح کی فلموں میں جن پر شک ہوتا ہے،  آخر میںوہ بے گناہ ٹھہرتے ہیں اور جن پر نظر نہیں جاتی، وہی مجرم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے مرکزی کردار ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں، جنہیں ’مسٹرکلین‘ کا خطاب  حاصل ہے۔ ان کے صاف شفاف دامن پر کرپشن کا ایک ہلکا سا داغ بھی نہیں ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر سے پلاننگ کمیشن کے چیئر مین تک اوروزارت مالیات سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ان کا کریئر بے داغ رہا ہے........ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ گھوٹالے انہی کی سرپرستی میں انجام پائے ہیں۔ عوام کی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے سسپنس فلموں کی طرح چند چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ضرور پکڑی جاتی ہیں لیکن اصل مجرم گرفت سے دور ہی رہتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند دنوں بعد ایک نیا گھوٹالہ منظر عام پر آجاتا ہے۔
    یوپی اے حکومت کی چیئر پرسن نہروگاندھی خاندان کی وارث سونیا گاندھی ہیں۔ان کی ’قربانیوں‘ کی تاریخ پرانی اور فہرست بہت طویل ہے۔کرپشن سے دور دور ان کا بھی کوئی واسطہ نظر نہیں آتا......مگر ان کی سربراہی میں کرپشن کا سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں۔ یوپی اے حکومت میں اختیارات کے اعتبار سے تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل ہیں۔ کرپشن سے ان کا بھی چھتیس کا آنکڑہ بتایا جاتا ہے۔ان تینوںکو وطن عزیز کے کئی اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے مگر کرپشن کے جِن کو بوتل میں  اتارنے  کے معاملے میں یہ سب لاچار نظر آتے ہیں۔
    یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ چلئے تسلیم کہ یہ تمام صاف شفاف ہیں اور کرپشن سے ان کا واقعی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یعنی کرپشن کا دیو ہی اتنا طاقتور ہے کہ اسے یہ سب مل کر بھی قابو میں نہیں کرپارہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے، تب بھی  ان کے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔یہ بہر طور مجرم ہیں کہ انہیں جو ذمہ داری  عوام نے سپرد کی ہے، اسے ادا نہیں کرپارہے ہیں، یعنی اس کے اہل نہیں ہیں۔
     اس سکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی سرپرستی میں یہ گھوٹالے انجام پارہے  ہیں۔منموہن سنگھ، سونیا گاندھی، پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل جیسے رہنماؤں پر لب کشائی کرتے ہوئے حالانکہ زبان لڑکھڑاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی سسپنس فلم میں قبل از وقت کسی سفید پوش پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر ایساہوا تو...... ٹوجی گھوٹالے میں سبرامنیم سوامی  کے ذریعہ پی  چدمبرم پر اور اسرو معاملے میں وزیراعظم پر انگشت نمائی تو ہوہی چکی ہے۔
    افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمیں کرپشن کی باتیں سن کر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ سماج نے کرپشن کو پوری طرح سے قبول کرلیا ہے۔اسے معیوب سمجھنا ترک کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف باتیں کرنےوالوں کو احمق تصور کیا جانے لگا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ہم صرف اور صرف حکومت کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرائیں؟جن کی جیب کاٹی جاتی ہے، جب وہی چیں بہ جبیں نہیں ہوتے تو جیب کتروں کو کیوں کر لعن طعن کی جائے؟بدعنوانی پر روک لگانی ہے تو حکومتوں کے احتساب سے قبل عوام کو خودا پنا احتساب کرنا ہوگا۔

Saturday 14 May 2011

اسمبلی انتخابات کے نتائج


اسمبلی انتخابات کے نتائج
نوشتۂ دیوار ہیں سیاسی جماعتوں کے لئے
عوام نے  ابھی صرف ’تبدیلی‘ کا حربہ آزمایا ہے اورسیاست دانوںکو موقع فراہم کیا ہے کہ وقت رہتے سنبھل جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں..... بصورت دیگر وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ’تبدیلی‘ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
قطب الدین شاہد
  ہندوستانی سیاست دانوں کے لئے یہ بات باعث تشویش ہونی چاہئےکہ وطن عزیز میں اب ووٹنگ محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ نفرت کی بنیاد پرہونے لگی ہے۔ ان حالات میں جیتنے والی جماعتیں اگر یہ سوچتی ہیں کہ  ان کی عوامی مقبولیت  نے انہیں مسنداقتدا ر تک پہنچایا ہے اور یہ کہ عوام میں ان کی پسندیدگی کا گراف بلند ہوا ہے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا.... بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ان کے حریف کے تئیں عوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام نے انہیں اقتدارسے بے دخل کیا ہے۔عوام کے پاس چونکہ زیادہ متبادلات نہیں ہیں لہٰذا وہ ایک دائرے میں ہی گھومتے رہتے ہیں اوراس طرح باری باری تمام جماعتوں کو اقتدار کے تالاب میں غوطہ لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یاد رکھیں کہ جس دن عوام نے دائرے سے باہر نکلنے کا ذہن بنالیا، سیاست دانوں کا قافیہ تنگ ہوجائے گا۔ اس کاایک ہلکاسا اشارہ انا ہزارے کی تحریک کی صورت میں دیا جاچکا ہے۔
    مگر افسوس کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔انتخابی نتائج جہاں ہارنے والی جماعتوں کے لئے عبرت کا سامان ہیں، وہیں جیتنے والی جماعتوں کے لئے باعث امتحان بھی ہیں..... مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ عبرت سمجھ کر نہ کو ئی اپنا محاسبہ کررہا ہے اور نہ ہی کوئی امتحان سمجھ کر سنجیدہ ہونا چاہتا ہے۔انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد جہاں جیتنے والی جماعتوں کے اراکین بردباری کے مظاہرے کے بجائے زمین چھوڑ کر ہوا میں اُڑنے لگے ہیں، وہیں ہارنے والوں نے اپنے احتساب کے بجائے تاویلات اور بہانوں کی تلاش شروع کردی ہے۔  ممتا بنرجی اور جے للیتا کو اگر تھوڑے وقت کیلئے نظر انداز بھی کردیں کہ ان دونوں نے  بالترتیب  بایاں محاذ اور ڈی ایم کے کو شکست دینا ہی  اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا رکھا ہے، سی پی ایم، کانگریس اور بی جے پی جیسی قومی جماعتیں بھی اپنے محاسبے کے بجائے ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کررہی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ تینوں بڑی جماعتیں اپنے گریبان میں جھانکتیں اوراس بات کا جائزہ لیتیں کہ عوام کی جانب سے انہیں دُھتکار کیوں ملی؟مگر اس کے برعکس یہ اپنی محدود کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے حریفوں کی ناکامیوں پر ان کا مضحکہ اُڑا رہی ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ جماعتیں اپنی کامیابیوں پر شاداں و فرحاں ہونے کے بجائے دوسروں کی ناکامیوں میں اپنے لئے راحت کا سامان ڈھونڈ رہی ہیں۔
    اس سے قبل کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات پر تبصرہ  ہو، آئیے ایک کہانی سن لیتے ہیں۔ ایک شخص کی تپسیا سے ایک سادھو بہت خوش ہوئے توانہوں نے اس سے کہا کہ ’’بیٹا! ہم تم سے بہت خوش ہوئے، آج تم جو مانگوگے، تمہیں ملے گا.... لیکن ایک شرط ہے... اور وہ یہ ہے کہ تمہیں جو ملے گا، تمہارے پڑوسی کو اس سے دوگنا ملے گا....  بول، کیا مانگتا ہے؟‘‘ کہانی کے مطابق بہت غور و خوض کے بعد وہ شخص اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی ایک آنکھ ضائع کرنے کا ’وَردان‘ مانگ لے۔ اس کی وجہ سے اس کے پڑوسی کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجائیںگی جو اس کے لئے باعث مسرت ہوگی۔کہاجاتا ہے کہ وہ یقینا ہندوستانی سیاست داں رہا ہوگا کیونکہ یہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔
     خیر آئیے اب آتے ہیں، اپنے اصل موضوع پر۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے متعلق رجحانات پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس نے اپنی آنکھوں میں موجود شہتیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ان اہم انتخابات میں بی جے پی کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔کانگریس کے ترجمان منیش یتواری نے کہا کہ انتخابی نتائج سے اگر کوئی اشارہ ملتا ہے ....تو وہ یہ کہ بی جے پی کی بحیثیت پارٹی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ آسام کےعلاوہ کانگریس کو کہیں بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی۔اسی طرح بی جے پی نے بھی بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کو ’بے اوقات‘ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان انتخابات میں بی جے پی حالانکہ خود تو کچھ نہیں کرپائی مگر دشمن کے دشمن کی تعریف کرکے اپنے لئے راحت کا سامان تلاش کرنے کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے سے باز بھی نہیں آئی۔ تمل ناڈو میںجے للتا کی کامیابی پر بغلیں بجاتے ہوئے بی جے پی نے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کی جیت کا بھی  خیر مقدم کیا۔ اور اسی کے ساتھ  بی جے پی یہ کہنے سے نہیں چوکی کہ اتحاد کے رہنما کی حیثیت سے کانگریس بری طرح ناکام  ثابت ہوئی ہے۔
    بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے کہا کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس امیدواروں کی جیت کی شرح بہت کم ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اسے جو جیت ملی ہے، وہ ممتا کی مرہون منت ہے۔  بقول روی شنکر پرساد آسام میں کانگریس  اس لئے جیتی کہ بی جے پی اور آسام گن پریشد میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔
    ۵؍ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حالانکہ این سی پی اور شیوسینا کا کوئی رول نہیں تھا، یعنی یہاں ہونے والی ہار جیت سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن  بال ٹھاکرے اور شرد پوار دونوں نے بایاں محاذ کی شکست کا ’خیر مقدم‘ کیا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی فکر نہیں ہے  بلکہ دوسروں کی دونوں آنکھوں کے ضیاع کی خوشی ہے۔ ان  کے ان بیانات اوران کے خوش ہونے کے اندازسے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بایاں محاذ کو شکست دینے کیلئے کس ’ وسیع پیمانے پر اتحاد‘ کا مظاہرہ ہوا ہے۔
    بہرحال اب جبکہ نتائج سامنے آچکے ہیں ،تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑکر بیٹھنا  اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ان  انتخابات کے نتائج یقیناً تمام بالخصوص  قومی جماعتوں کے لئے نوشتۂ دیوار ہیں۔
    مغربی بنگال میں۳۴؍ سال بعد بایاں محاذ کے قلعے میں سیندھ لگی ہے  اورکچھ اس طرح لگی کہ ’لال دُرگ‘ پوری طرح سے زمین بوس ہو گیا ہے۔ کیا یہ سب اچانک ہوا ہے؟ بایاں محاذ کواس پر غور کرنا چاہئے  اور اس سوال کا جواب تلاش کرناچاہئے کہ ایسا کیوں کر ہوا؟آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ گزشتہ ۷؍ مرتبہ سے بایاں محاذ کے حق میں ووٹنگ کرنے والے آج ان کے خلاف ہوگئے؟ اپنے دفاع میںاور اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں بعض کمیونسٹوں کا کہنا ہے کہ نیوکلیائی معاہدے کے وقت امریکہ کی مخالفت انہیں مہنگی پڑی۔ ان کے مطابق اس مرتبہ الیکشن میں امریکی پٹھوؤں نے بایاں محاذ کوشکست دینے کے لئے  نوٹوں کے دریا بہادیئے تھے۔ ممکن ہے ، اس میں کچھ حد تک سچائی بھی ہو لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا ریت میں سرچھپانے کے مصداق ہوگا۔لوک سبھا کے سابق اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے  اس کا بہتر تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ محاذ کو اسمبلی انتخابات میں اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ عوام سے دور ہوگیا تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ عوام سے دوری ہوگئی تھی اور پارٹی کے عہدیداران عوام کے مزاج کو سمجھ نہیں پائے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ چند غلطیاں کی گئیں اور اس کا مناسب جائزہ نہیں لیا گیا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس رجحان کا پتہ لوک سبھا کے انتخاب میں ہی چل گیا تھا لیکن محاذ نے پردہ پوشی کی کوشش کی تھی۔  سومنا تھ چٹر جی کا جائزہ بالکل درست ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ہی اس کااندازہ ہوگیا تھا۔ دراصل سچر کمیٹی کی رپورٹ آجانے کے بعد مسلمانوں کو زبردست صدمہ پہنچا کہ جس جماعت پر وہ اب تک اندھا اعتماد کرتے آئے تھے، ان کا استحصال کرنے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اسی طرح سنگور اور نندی گرام کے معاملوںمیں بھی لیفٹ کے رویے کو مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا۔اب جبکہ بایاں محاذ کے ہاتھ سے اقتدار چلا گیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ  اپنے (بد)اعمال کا جائزہ لیں اوراس کی اصلاح کریں۔
    اس الیکشن میں کانگریس کو زبردست شکست سے سابقہ پڑا ہے۔ آسام میں وہ ضرور کامیاب ہوئی مگر وہ صرف اسلئے کہ وہاں کوئی قابل ذکر  حزب اختلاف نہیں تھا۔کیرالہ میں ہارتے ہارتے بچی، حالانکہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے خلاف جس طرح کی رائے عامہ تھی، اس کی وجہ سے اس کے مکمل اکثریت میں آنے کاامکان تھا۔ تمل ناڈو میں کانگریس محاذ کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پانڈیچری میںبھی شکست فاش ہوئی۔ بنگال میں کانگریس کےہاتھ جو کچھ لگا،اس میں اس کی کوششیں کم، ممتا کی کاوشیں زیادہ ہیں۔کل ملا کر کانگریس کو زبردستی مسکرانے کے بجائے نہایت سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔  اس کے لئے کانگریس کو جہاں ایک جانب بدعنوانوں اور بدعنوانیوںسے فاصلہ بنانا ہوگا ،وہیں اپنے سیاسی اور سرکاری فیصلوں کے وقت عوامی مفاد کا مناسب خیال رکھنا ہوگا کیونکہ اس کی امیج  ’عوام مخالف‘ کی بن گئی ہے۔ ایسا کرکے ہی آئندہ سال اترپردیش، پنجاب ، گجرات، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش،گوا اور منی پور کے  اسمبلی انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
    حالیہ ۵؍ ریاستوں میں بی جے پی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا.... اوراگر اس نے اپنی روش تبدیل نہیں کی، تو آئندہ بھی اس کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے۔اسے ایک ہندوسیاسی جماعت کے بجائے ایک ہندوستانی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنا ہوگا ... بصورت دیگر اسے آئندہ مزید جھٹکوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
    مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نے صرف اور صرف تبدیلی کا ذائقہ چکھنے کے لئے اس طرح کے اُلٹ پھیر کی مشق کی ہے......  لیکن اقتدار پر قابض جماعتیں اس اصول کو فراموش نہ کریں کہ تبدیلی کو ہی انقلاب کا پیش خیمہ کہا جاتا ہے۔