Wednesday 27 September 2023

Modi criticizes Nehru and also wants to be Nehru/ Qutbuddin Shahid

نہرو پر تنقید بھی کرتےہیں اور نہرو بھی بننا چاہتے ہیں وزیراعظم مودی   

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

وزیراعظم مودی خبروں میں رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ خبروں میں ہیں اور اس کی وجہ ہے  ۱۸؍ ستمبر کو پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں دی گئی ان کی الوداعی تقریر۔اس تقریر کو ان کی سابقہ تقریروں سے مختلف قرار دیا جارہا ہے۔ تقریر سن کر مودی کے مخالفین بھی حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا؟ اور ان کے حامیوں کا تو خیربرا حال تھا ہی۔ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے ۶؍ مرتبہ ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا نام لیا اورحیرت انگیز طورپر ’مثبت انداز‘ میں لیا۔ اسی طرح درمیان میں سابق وزرائے اعظم کے طورپر لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، نرسمہا راؤ، وی پی سنگھ، دیوے گوڑا، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ کابھی نام لیا۔ تقریر ختم ہوئی اوراس پرتبصرہ اور تجزیہ کا دور چلا تو عقدہ کھلا کہ تقریر کے صرف الفاظ بدلے ہیں، انداز نہیں بدلا۔  ہندوستان کی ۷۵؍ برسوں کی جمہوری تاریخ بیان کرتے ہوئےاگرانہوں نے اپنے علاوہ کچھ اور ’شخصیات‘  کا نام لیا ہے تو  اس میں ان شخصیات کی خدمات کا اعتراف کم، اُن کے سامنے اپنی موجودگی کااظہار زیادہ ہے۔اس تقریر کے ذریعہ ایک بار پھر ان کی اُس دبی ہوئی خواہش کا اظہار ہوگیا کہ ہندوستان کی تاریخ میں وہ نہرو کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔  وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک کا سفر طے کرلینے کے بعد نریندر مودی  کے دل میں جوخواہش شدت کے ساتھ اُبھری اور جسے اکثر و بیشتر عوام نے بھی محسوس کیا، وہ یہی تھی۔ تاریخ میں وہ پنڈت نہرو سے اگر آگے نہیں بڑھ سکتے تو کم از کم ان کے برابرکھڑا ہونا چاہتے ہیں ۔اس کیلئے وہ کبھی تنقید کا تو کبھی جھوٹ کا اور کبھی تعریف کا سہارا لیتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی نئی عمار ت میں منتقلی سے قبل  پرانی عمارت میں وزیراعظم مودی  الوداعی خطاب کرکے اپنی تقریر کا موازنہ پنڈت جواہر لال نہرو کی اُس یادگار تقریر (ٹریسٹ وِد ڈیسٹنی) سے کروانا چاہتے تھے جو انہوں نے ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے وقت ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی شب میں کی تھی۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم مودی نے اُس شہرہ آفاق تقریر کا حوالہ  دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسی ایوان میں پنڈت نہرو کے ذریعہ کی گئی تقریر ’اَیٹ دی اسٹروک آف مڈنائٹ‘ کی گونج ہمیں متحرک کرتی رہے گی۔‘‘ وزیراعظم مودی نے شاید قصداً اُن کا آدھا ہی جملہ دُہرایا کیونکہ اس پورے جملے میں لفظ ’انڈیا‘ بھی آتا ہے جو آج کل مودی، بی جے پی اور حکمراں محاذ کوبہت زیادہ پریشان کررہا ہے۔ پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ ’’ نصف شب کے وقت، جب دنیا سوئی ہوئی ہو گی، ہندوستان زندگی اور آزادی کیلئے بیدار ہوگا۔‘‘  
وزیراعظم مودی کی اس تقریر کو ’مثبت‘ بتایا جارہا ہےاور اس کیلئے ان کے حامی ان کی تعریف بھی کررہے ہیں لیکن  اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی منفی رویوں کی کثرت ہے۔ سابق وزرائے اعظم کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پنڈت نہرو جی اور شاستری جی  سے لے کر اٹل جی اور منموہن جی تک ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اس ایوان کی قیادت کی ہے اور اس ایوان کے ذریعہ ملک کو ایک سمت عطا کی ہے۔ ملک کو نئے رنگ و روپ میں ڈھالنے کیلئے انہوں نے کافی محنت کی ہے،اسلئے ہمیں ان کی خدمات کاا عتراف کرنا چاہئے۔‘‘ لیکن اگلے ہی پل وہ پھر تنقید پر بھی اُتر آتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چل پارہا تھا کہ وہ تعریف کر رہے ہیں  یا تنقید؟ ۷۵؍ سالہ ہندوستانی جمہوریت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی حمایت اسی ایوان نے اندرا گاندھی کی قیادت میں کی اور اسی ایوان نے ایمرجنسی میں جمہوریت پر ہوتا ہوا حملہ بھی دیکھا اور یہی ایوان ہندوستانیوں کی طاقت کا احساس کراتے ہوئے ایک مضبوط جمہوریت کی واپسی کا گواہ بھی بنا۔‘‘ وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی حکومتوں کے تعلق سے  یہ کہتے  ہوئےاپنے انداز میں انہوں نے مذاق بھی اڑایا کہ ’’اتحادی حکومتوں کا ایک سلسلہ سا چل پڑا۔‘‘
اسی  طرح مرار جی دیسائی اور وی پی سنگھ کی خدمات کا’اعتراف‘ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ زندگی بھر کانگریس میں رہے اور کانگریس مخالف حکومت کی قیادت کی۔‘‘ 
   وزیراعظم مودی نےنیوکلیائی تجربے کا پورا کریڈٹ  اٹل بہاری واجپئی کو دے دیا جبکہ منموہن سنگھ کی حکومت کو ’کیش فار ووٹ‘کیلئے یاد کیا حالانکہ’آر ٹی آئی، آر ٹی ای،منریگا اور فوڈ سیکوریٹی‘ جیسی کئی باتیں تھیں جن کے حوالے سے منموہن سنگھ حکومت کو یاد کیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک نیوکلیائی تجربے کیلئے کریڈٹ دینے کی بات ہے، وزیراعظم مودی کا دعویٰ نہ تو تکنیکی اعتبار سے درست ہے، نہ ہی حقائق کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ملک میں پہلا نیوکلیائی تجربہ وزیراعظم اندرا گاندھی کی قیادت میں۱۸؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ہوا تھا جبکہ دوسرا تجربہ اٹل بہاری واجپئی کی بطور وزیراعظم حلف برداری کے محض ۵۳؍ دن بعد یعنی ۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ہوا تھا۔ واجپئی سے قبل ملک میں اندر کمار گجرال کی حکومت تھی۔ اس کے بعد وہ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘کی بات کرتے ہوئے  اپنی تعریف پرآگئے اور’تاریخی‘ فیصلوں کا تذکرہ کرنے لگے۔دفعہ۳۷۰؍ کے خاتمے کی بات کی، اعلیٰ ذات والوں  کو دیئے گئے (ای ڈبلیو ایس) ریزرویشن کا تذکرہ کیا اور ون نیشن ون رینک اور  ون نیشن ون ٹیکس (جی ایس ٹی) کیلئے بھی اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔
اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو کوسنے اور اس کے لیڈروں کا مذاق اُڑانے والے وزیراعظم مودی  نے مذکورہ الوداعی خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’ہم یہاں ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔  یہ اس ایوان کی طاقت ہے۔ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے لیکن ... اپنی اسی تقریر میں انہوں نے ’واٹر پالیسی ‘کیلئے بھیم راؤ  امبیڈکر کو یاد کیا اور ’انڈسٹری پالیسی‘ کیلئے شیاما پرساد مکھرجی کے گن گان کئے لیکن ’ایجوکیشن پالیسی‘ کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد کو یاد نہیں کیا جنہوں نے ملک میں آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی  جیسے موقر اداروں کی بنیاد ڈالی۔وقفے وقفے سے انہوں نے  پنڈت نہرو کا ۶؍ مرتبہ نام ضرور لیا لیکن وہ اس بات کیلئے اُن کی تعریف نہیں کرسکے کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں اپنے مخالف نظریات کے لیڈروں (شیاما پرساد مکھرجی، بی آر امبیڈکر اور بلدیو سنگھ) کو بھی شامل کیا تھا لیکن تکنیکی وجوہات کی آڑ لے کرمودی حکومت اپنے مخالف لیڈروں کو اپوزیشن لیڈر تک کا عہدہ دینے کیلئے تیار نہیں  ہے۔
اپنی اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی وزیراعظم مودی نے کانگریس پرتنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔  آندھر ا پردیش کی تقسیم  اور تلنگانہ کی تشکیل پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واجپئی کے دور میں چھتیس گڑھ،  جھارکھنڈ اور اترا کھنڈ کا قیام نہایت خوش اسلوبی سے ہوگیا تھا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اُس  وقت مذکورہ ریاستوں کے ساتھ ہی  مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں بھی جشن کا ماحول تھا جبکہ یہاں پر نہ توآندھرا کے عوام خوش تھے، نہ ہی تلنگانہ کے عوام کو اطمینان تھا۔ حالانکہ ریاستوں کی تقسیم کے وقت مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں ماحول کافی کشیدہ تھا اور عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی تھی۔جی ۔۲۰؍ کے حوالے سے کہا کہ’’ملک کے تئیں شک کرنے کا ایک رویہ بھی  یہاںہے  اور یہ ملک کی آزادی کے وقت ہی سے چلا آرہا ہے۔ اس بار بھی یہی تھا۔ کہا جارہا تھا کہ کوئی قرار دار منظور نہیں ہوپائے گی، یہ ناممکن ہے... لیکن یہ ہندوستان کی طاقت ہے کہ سب کچھ ہوا۔‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان ’عالمی دوست‘کی شکل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ جی۔۲۰؍ کا اجلاس ختم ہوتےہی وزیراعظم کے اس دعوے کی قلعی اُترگئی کیونکہ امریکہ، کنیڈا اور ترکی سے اختلافات کی خبریں منظر عام پرآنے لگی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے جس طرح سے دوسروں بالخصوص پنڈت نہرو کو یاد کیا، کیا اس سےان کی شبیہ میں کوئی تبدیلی آپائے گی؟ کیا ان کی وہ خواہش پوری ہوپائے گی کہ لوگ انہیں نہرو کی طرح یاد کریں؟   فی الحال یہ اتنا آسان تو نہیں لگ رہا ہے۔معروف صحافی اجے شکلا   نےان کیلئے ایک اچھا مشورہ دیا ہےکہ مودی جی اگر واقعی پنڈت نہرو سے اپنا موازنہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ ’ڈسکوری آف انڈیا‘ کامطالعہ کرلیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔n

Monday 18 September 2023

By-election results and prospects for 'INDIA' alliance / Qutbuddin Shahid

 ضمنی انتخابات کے نتائج اور اس میں

 ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے امکانات

 اُترپردیش کی گھوسی اسمبلی  سیٹ جیتنے کیلئے بی جے پی نے پوری توانائی صرف کردی تھی لیکن جیت نہیں پائی۔  اتراکھنڈ اورجھارکھنڈ کی سیٹ کیلئےبھی اس نے خاصی محنت کی لیکن بہت مشکل سے ان میں سے ایک سیٹ  پر قبضہ کرپائی۔ اسلئے ان نتائج نے جہاں بی جے پی کی صفوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، وہیں ’انڈیا‘ اتحاد کو پُرجوش کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

 

گزشتہ دنوں گھوسی اسمبلی حلقہ سمیت  ۶؍ ریاستوں کے ۷؍ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے۔عام طور پر ہمارےیہاں ضمنی انتخابات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ کب آتے ہیں اور کب چلے جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا  لیکن ان نتائج پرپورے ملک کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس الیکشن کو سیاسی جماعتوں کیلئے ایک ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پردیکھا گیا،اسلئے اس پر دورانِ انتخابات خوب باتیں ہوئیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ ضمنی انتخابات کی یہ نشستیں اُترپردیش، اُتراکھنڈ، جھارکھنڈ، کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملک گیرحیثیت ہوگئی تھی،اس لئےیہ بات بھی کہی گئی کہ ان نتائج سے شمالی ہند، جنوبی ہند اور شمال مشرق کی ریاستوںکے عوام کی سوچ ظاہر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر اس سے ملک کے سیاسی رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے.... اور جب ہم اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا تو اس کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش کی گھوسی سیٹ پر بھگوا لہرانے کیلئے  ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہ سیٹ جیتنا چاہتی تھی۔ وہ قطعی نہیں چاہتی تھی کہ اس ایک سیٹ کی وجہ سے ’مودی، امیت شاہ اور یوگی‘ کی طاقت کو چیلنج کیا جائے اور قومی سطح پر ’این ڈی اے‘ پر ’انڈیا‘کی بالادستی نظر آئے.... لیکن گھوسی کے عوام نے ثابت کیاکہ کسی اور کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، ہوگا وہی جو عوام چاہیں گے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ جب تک ملک میں جمہوری نظام قائم ہے، عوام کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
۷؍ اسمبلی حلقوں میں سے۴؍ سیٹیں ’انڈیا‘ اتحاد نے حاصل کیں جبکہ این ڈی اے کے حصے میں صرف ۳؍ سیٹیں آئیں۔ سیٹوں کے اُلٹ پھیر کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے دونوں محاذ کی سیٹیںبرقرار رہیں۔مغربی بنگال میں ٹی ایم سی سے بی جے پی  اپنی سیٹ ہار گئی لیکن تریپورہ میں سی پی ایم کو ہرا کر اس نے سیٹوں کی تعداد برابر کرلی۔ آئیے ! دیکھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے یہ نتائج کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ۶؍ ریاستوں کے عوام نے ملک کو کیا پیغام  دیا ہے؟ اور یہ کہ ان نتائج سے ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کس طرح کے امکانات پیدا ہوتے ہیں؟ 
گھوسی ،اترپردیش
ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ اہمیت یوپی کی گھوسی سیٹ کو حاصل تھی ۔ بی جے پی نے اسے اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور محض اس ایک سیٹ پرمودی،امیت شاہ ،یوگی  اور اوم پرکاش راج بھر کی ساکھ داؤ پر لگا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہی  راج بھر کو  ’اتحاد‘ میں شامل کیا گیاتھا کہ گھوسی کی سیٹ جیتنی ہے۔ اس کیلئےحکومت کی جانب سے ’سام دام دنڈ بھید‘  کے سارے حربے استعمال کئے گئے۔ الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی لیڈروں نے گھوسی کا چپہ چپہ چھان مارا اور ایک ایک ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کی۔ وہاں پرنہ صرف وزیراعلیٰ یوگی  نے انتخابی ریلیاں کیں بلکہ ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ کیشوپرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کے ساتھ تقریباً ۲؍ درجن وزراء  اور چار درجن ایم ایل ایز ہفتوں خیمہ زن رہے ۔اراکین پارلیمان نے بھی اپنی طاقت دکھائی۔ ضلع  انتظامیہ  پر بھی الزام عائد ہوا کہ اس نےبی جے پی کے امیدوار کی کامیابی کیلئے ہر ممکن مدد کی۔ یہ بات بار بار کہی گئی کہ رام پور اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی طرح انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ تمام رائے دہندگان جن پر  بی جےپی کے خلاف ووٹ دینے کا شبہ ہو، انہیں بوتھ تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اس کے اثرات نظر بھی آئے۔ دونوں جانب سے دھواں دھار انتخابی مہم چلنے کے باوجود ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے ۳۸؍ ہزار ۸۳۵؍  ووٹ کم پڑے، جبکہ اس مرتبہ پہلے کے مقابلے زیادہ پولنگ کی امید تھی۔ اپوزیشن کاالزام ہے کہ ایسا اسلئے ہوا کہ مسلم علاقوں میں پولنگ نہیں ہونے دی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان کیلئے رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی ہوتی تو ہارجیت کا فرق اورزیادہ ہوتا۔ بعض کا کہنا ہے کہ مایاوتی کی اپیل پر دلتوں نے پولنگ کم کی۔  اگر ایسا ہے تب بھی  یہ نتیجہ بی جے پی لیڈروں کی نیند حرام کرنے کیلئے کافی ہے۔  ایک سال قبل ہونیوالے الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار کو ۸۶؍ ہزار۲۱۴؍ ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ اسے ۸۱؍ ہزار ۶۶۸؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا جبکہ اس نے سماجوادی پارٹی کا امیدوار بھی ’چُرا‘ لیا تھا۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ دارا سنگھ چوہان کی وجہ سے اسے  پسماندہ طبقات کے ووٹ بڑی تعداد میں ملیں گے لیکن ووٹوں کی گنتی ہوئی تو اس کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔
اس نتیجے میں بی جے پی کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی اور ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے بھی پیغام ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہندو مسلم کرکے، نفرت کا بازار گرم کرکے اورآمریت کا مظاہرہ کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہے گی تو اسے اب اپنی سوچ تبدیل کرلینی چاہئے۔ گھوسی کے نتائج نے اکھلیش یادو کو پیغام دیا ہے کہ اگر انہیں عوامی حمایت چاہئے توانہیں اے سی سے باہر نکل کر عوام کے درمیان جانا ہوگا اوران کے دکھ درد میں ان کے ساتھ رہنا ہوگا۔اس نتیجے نے یہ بھی ثابت کیا کہ رام پور اور اعظم گڑھ میں سماجوادی کی شکست کی وجہ اکھلیش کی لاپروائی تھی۔اسی کے ساتھ ایک پیغام اور ہے کہ یہ جیت صرف سماجوادی کی جیت نہیں ہے بلکہ یہ ’انڈیا‘کی جیت ہے،اسلئے اس کامیابی کاخمار اُن کے سر نہیں چڑھنا چاہئےبلکہ آئندہ متحدہ طاقت کے ساتھ ہی میدان میں اُترنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے۔
ڈمری ،جھارکھنڈ
یہاں بھی مقابلہ ’این ڈی اے‘ بنام ’انڈیا‘اتحاد تھا۔ ’انڈیا‘ کی  طرف سے ’جے ایم ایم‘کا امیدوار تھا جبکہ ’این ڈی اے‘کی طرف سے ’اے جے ایس یو‘ کا امیدوار تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بھی جے ایم ایم ہی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا لیکن اس مرتبہ  اسے پہلے کے مقابلے کافی زیادہ ووٹ ملے ۔ ضمنی الیکشن میں جے ایم ایم کی امیدوار بے بی دیوی کو ایک لاکھ ۳۱۷؍ ووٹ ملے جبکہ ’اے جے ایس یو‘ کی امیدوار یشودا دیوی کو ۸۳؍ ہزار۱۶۴؍ ووٹ ملے ۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی اور اے جے ایس یو کے درمیان اتحاد نہیں تھا لیکن اس مرتبہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر بھی الیکشن نہیں جیت پائیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر ووٹوں نے بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ’انڈیا‘ کو پیغام دیا کہ اتحاد ہی میں طاقت ہے۔ ۲۰۱۹ء کے اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم کو یہاں پر۲۴؍ ہزار ۱۳۲؍ ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اس کے امیدوار کو صرف  ۳؍ ہزار ۴۷۲؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
باگیشور ،اُتراکھنڈ
یہاں پر بی جے پی اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہی لیکن اس کی کامیابی کا سہرا کانگریس کے سر باندھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے امیدوار کو یہاں پر۳۳؍ ہزار ۲۴۷؍ ووٹ ملے جبکہ کانگریس کے امیدوار کو ۳۰؍ ہزار ۸۴۲؍ ووٹ ملے۔اس طرح ۲۴۰۵؍ ووٹوں سےکانگریس کو شکست ہوگئی۔یہاں پرکانگریس کے کسی بڑے لیڈر نے انتخابی مہم نہیںچلائی۔
 دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے علاوہ اتراکھنڈ پریورتن پارٹی اوراتراکھنڈ کرانتی دل کی صورت میں کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی یہاں میدان میں تھے جنہیںآسانی سے رام کیا جاسکتا تھا لیکن کہا جاتاہے کہ کانگریس نے یہاں پہلے ہی سے شکست تسلیم کرلی تھی،اسلئے زیادہ محنت نہیں کی۔۲۰۲۲ء کے الیکشن میں باگیشور میں  بی جے پی کو ۳۲؍ ہزار اور کانگریس کو محض ۲۰؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔دلچسپ  بات یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے  جس امیدوار کو ۱۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے  ،وہ  اس مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہا تھا۔
دھوپ گڑی ،مغربی بنگال
دھوپ گڑی کی یہ سیٹ ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی ۔ یہ ریاست میں ٹی ایم سی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ سیٹ  بی جے پی کے امیدوارکی موت کی وجہ سےخالی ہوئی تھی۔  زعفرانی پارٹی نے  یہاں پر پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے ایک فوجی کی بیوہ کو ٹکٹ دے کر عوام کا جذباتی استحصال کرنے کی کوشش کی تھی،اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی۔ لیکن اگرممتا بنرجی نے اپنی ’انا‘ کو قربان نہیں کیاتو کامیابی کا یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ممتا بنرجی کے اسی رویے کی وجہ سے رائے دہندگان میں سردمہری پائی  جارہی تھی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی الیکشن میں ۲؍ لاکھ ۲۹؍ ہزار ۳۲۳؍ ووٹ پڑے تھے لیکن اس مرتبہ ۲؍ لاکھ ۱۰؍ ہزار ۹۳۵؍ افراد ہی ووٹ دینے کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ یہاں پر سی پی ایم کو دونوں مرتبہ ۱۳؍ ہزار سے کچھ زائد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے ووٹوں میں واضح کمی دکھائی دی۔ ٹی ایم سی تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے اگر ’انڈیا‘ اتحاد کے بینر تلے الیکشن لڑتی تو اس کی کامیابی یقیناً بڑی ہوتی۔یہ ایک طرح سے ممتا بنرجی کیلئے رائے دہندگان کا انتباہ ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اس پیغام کو کتنا سمجھتی ہیں  اور اس پر آئندہ کس حد تک عمل کرتی ہیں۔
دیگر اسمبلی نشستیں
کیرالا میں کانگریس جیتی اوربڑے فرق سے جیتی۔ وہاں دوسری پوزیشن پر سی پی ایم کا امیدوار تھا جسے ۴۲؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوار کو صرف ۶؍ ہزار ووٹ  ملے۔تریپورہ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی نے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ وہاں پر ایک سیٹ بی جے پی کی اور ایک سی پی ایم کی تھی۔دونوں جگہ پر سی پی ایم کو پہلے کے مقابلے ووٹ کم ملے۔ ایسےمیں سی پی ایم کوسر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اس کی عوامی طاقت مسلسل کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کا کیڈرکمزور کیوں ہورہا ہے؟ کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ میں برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود نئی نسل میں اس کیلئے جگہ کیوں نہیں بن پارہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اسے کھلے دل سے غور کرنا ہوگا۔
مجموعی طور پرضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک کا ماحول تبدیل ہورہا ہے جس میں ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کافی امکانات ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لیڈران عوام کے درمیان رہ کر عوام کی نمائندگی کرتے  رہیں۔ n

Saturday 16 September 2023

Corrections of documents and responsibility of schools/ Qutbuddin Shahid / Roznaamcha

 دستاویزات کی درستگی میں اسکولوں کا اہم کردار

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ایک بینک میں ایک صارف کی کلرک سے بحث ہورہی تھی۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا انداز بتا رہا تھا کہ ان میں شناسائی ہے۔ صارف کوئی پیسے والا آدمی تھا، جس کی وجہ سے کلرک  ذرا ’دب‘ کر بات کررہاتھا، ورنہ بینک اور وہ بھی سرکاری بینک کا ملازم کسی صارف  سے دب کر بات کرے،  اس کی بھلا کون توقع کرسکتا ہے۔ کلرک کہہ رہا تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے۔ہم اس چیک کو پاس نہیں کر سکتے۔‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ صارف کے چیک پر لکھے گئے نام میں شامل ’احمد‘ کی اسپیلنگ میں ’ای‘ اور ’اے‘ کا فرق تھا۔ ’احمد‘ نام میں ’ڈی‘ سے قبل ’ای‘ اور ’اے‘   کا مسئلہ ہمارے یہاں عام بات ہے لیکن اب اس کا خمیازہ لوگوں کو کس طرح سے بھگتنا پڑرہا ہے، اس کی ایک مثال بینک کا مذکورہ واقعہ ہے۔
اگرالگ الگ دستاویزات میں آپ کے نام  کے املا میں فرق ہے، خواہ یہ فرق کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، تو قدم قدم پر مسائل سے جوجھنے کیلئے  آپ کوتیار رہنا چاہئے۔  اگر وقت رہتے آپ نے اس مسئلے کوحل نہیں کیا تو یہ کئی نسلوں تک آپ کا تعاقب کرے گا۔ اللہ نہ کرے، اگر ملک میں ’این آر سی‘ اور’سی اے اے‘ کا قانون  نافذ ہوگیا، جیسا کہ سرکار چاہتی ہے تو کاغذات میں خامیوں سے پیدا ہونے والے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین سب سے پہلے  اپنے کاغذات کو درست کرائیں۔ جہاں تک اور جس طرح سے بھی ممکن ہو، وہ اپنے نام کے  املامیں یکسانیت لانے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد بچوں کے دستاویزات میں موجود خامیوں کو دور کرانے کی کوشش کریں۔ بچوں کے ناموں میں آجانے والی  خامیوں کی درستگی کا پہلا مرحلہ اس کے اسکول ہوتے ہیں۔ برتھ سرٹیفکیٹ  میں اگر کوئی خامی رہ گئی ہے اور اسی خامی کے ساتھ آدھار کارڈ بن گیا ہے اور اسکول میں نام درج ہوگیا ہے تو اس غلطی کا احساس ہوتے ہی  اسکول سے رابطہ قائم کرنے اورغلطی کی اصلا ح کی کوشش کرنی چاہئے۔
میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں  اسکولوں کے ذمہ داران اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر اسکولوں کے کلاس ٹیچر، کلرک، ایچ ایم اور سوسائٹی کے عہدیداران ، جن کے زیراہتمام اسکول چلتے ہیں، یہ ٹھان لیںکہ وہ اپنے اسکولوں میں زیر تعلیم کسی بچے کے دستاویز میں کوئی خامی نہیں رہنے دیں گے، تو اس طرح کی غلطیاں اُسی ایک جگہ سے  بڑی حد تک اور بڑی آسانی سے دور ہوجائیں گی۔ لیکن یہ کام اسکول کی ڈیوٹی سمجھ کرنہیں بلکہ قوم کی خدمت سمجھ کر کرنی ہوگی۔ اگر یہ احساس نہیں رہا تو ان ’ذمہ داران‘کی آنکھوں کے سامنے غلطیاں ہونے  اور والدین کی جانب سے درخواست کئے جانے کے باوجود  وہ دور نہیں کی جائیں گی۔ والدین  کی جانب سے اس طرح کی شکایتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ درخواست دینے، منت سماجت کرنے ، یہاں تک رونے ،گڑگڑانے کے باوجود اسکول کی سطح  سے درست ہونے والی غلطیاں بھی ٹھیک نہیں کی جاتیں۔ اس سلسلے میں بیشتراسکولوں کے ذمہ داران کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ ’گزٹ‘ کروا لیں،  حالانکہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ گزٹ کروانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے ممبئی کے ’مدنی ہائی اسکول‘ نے گزشتہ دنوں ایک قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ اسے مثالی کارنامہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ۲۶؍ اگست کو اسکول نے ’ڈاکیو مینٹ ڈے‘ کے نام سے ایک بیداری پروگرام منعقدہ کیا تھا جس میںپیدائشی سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ،آدھار کارڈاور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی خامیوں کو دور کرنے یا نیا بنانے سے متعلق والدین اور طلبہ کی رہنمائی کی گئی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ اسکول کے ذمہ داران نے صرف اپنے طلبہ کی مدد نہیں کی بلکہ دیگر بچوں کی بھی رہنمائی کی اور صرف زبانی رہنمائی  نہیں بلکہ سرکاری دفاتر سے ان کے کام بھی کروائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس طرح کی پیش رفت ہمارے دوسرے ادارے بھی کرسکتے ہیں  ۔

Monday 11 September 2023

Special session of Parliament and Sonia Gandhi's letter to the Prime Minister/ Qutbuddin Shahid

 پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور سونیا گاندھی کا وزیراعظم کے نام خط

مودی حکومت  نہ تو عوام کو اہمیت دیتی ہے، نہ ہی اپوزیشن کو خاطر میں لاتی ہے لیکن اس باراس کی حرکت اس پر بھاری پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

  آج سے پچیس پچاس سال بعد مورخ جب ہندوستان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو مودی حکومت کو ایک ’چونکانے‘ والی حکومت کے طور پر ہی لکھے گا۔ اس حکومت نے ملک کیلئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن عوام کو چونکانے اور انہیں پریشان کرنے کا کام بار بارکیا ہے۔  نوٹ بندی کا فیصلہ ہو یا کچے پکے انداز میں جی ایس ٹی کا نفاذ، لاک ڈاؤن لگانا ہو یا جموںکشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ کا خاتمہ، کسانوں سے متعلق تینوں متنازع  قوانین واپس لینے کی بات ہو یا پھر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنا، جمہوری طور پر منتخب اس حکومت کے یہ تمام فیصلے غیر جمہوری انداز میں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اکثر اپوزیشن کی تنقیدوں  پر بھی رہی  ہے لیکن اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔۱۸؍ سے ۲۲؍ ستمبر کے دوران طلب کئے جانے والے خصوصی اجلاس کی وجہ سے مودی حکومت ایک بار پھر حزب اختلاف کے نشانے پر ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے اس حوالے سے وزیراعظم مودی کے نام ایک خط لکھا ہے  جس میں ایجنڈہ ظاہر نہ کرنے پر شکایت کرتے ہوئے اپنی جانب سے ۹؍ نکاتی ایک ایجنڈہ بھی پیش کیا ہے۔اس خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’اب تک خصوصی اجلاس طلب کئے جانے سے قبل حزب اختلاف  سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی روایت رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نہ تو ایجنڈہ بتایا گیا ہے، نہ ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ سونیا گاندھی کے اس خط کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ماحول سازی کیلئے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
  مانسون اجلاس ختم ہوئےابھی ٹھیک سے ۲۰؍ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ پارلیمانی امور کے وزیرنے ’خصوصی اجلاس‘ کا شگوفہ چھوڑ دیا۔ اس اعلان نے عوام کو چونکانے اور اپوزیشن کو پریشان کرنے کے علاوہ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کو قیاس آرائیوں کا بازار گرم کرنے کا موقع بھی  فراہم کردیا۔حالانکہ میڈیا کے تعلق سے یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ اس کی قیاس آرائیاں بھی مودی حکومت کے ایجنڈے کا ایک اہم جزہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر وہی موضوعات چھیڑے جاتے ہیں ، جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اتنی عجلت میں’خصوصی اجلاس‘  طلب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ایسا کون سا مسئلہ رہ گیا تھا، جسے وہ مانسون اجلاس میں نہیں حل کرسکی؟ اور اگر یہ اجلاس اتنا ہی اہم اورضروری ہے تو اس کا ایجنڈہ اتنا خفیہ کیوں؟ اپوزیشن کو اندھیرے میں کیوں رکھا جارہا ہے؟پانچ روزہ اجلاس کا مطلب ہے کہ اس دوران کئی موضوعات پیش ہوں گے، پھر ان موضوعات پر اراکین پارلیمان کو تیاری کا موقع کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ پارلیمنٹ میں ان موضوعات پر بحث ہوگی یا اراکین پارلیمان سے صرف مہر تصدیق ثبت کرانے کاارادہ ہے؟ یا اور کوئی مقصد ہے؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جوحزب اختلاف کے ساتھ ہی عوام کے ذہنوں میں بھی اُٹھ رہے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب حکمراں طبقے کا طاقت ور ہوجانا اور صرف اس کی مرضی سے کام ہونا نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو سننا اور اس کی باتوں کو اہمیت دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن آج کی بی جے پی حکومت ان باتوں کی پروا نہیں کرتی۔ وہ اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے جہاں  اسے اپوزیشن کو ’بے وقعت‘ ثابت کرنے کا کوئی موقع مل سکے۔ وزیراعظم کے نام سونیا گاندھی کے خط کے بعد بھی اس نے یہی حرکت کی ہے۔ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کی لیڈر کو اہمیت دی جاتی اور اس خط کا جواب وہی دیتے، جن کے نام خط لکھاگیاتھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم یا پی ایم او کے بجائے اس خط کا جواب پارلیمانی امور کے وزیر  نے دیا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ روایتوں کی پاسداری  کے معاملے میں کانگریس کی نقل کی بات جانے دیں، بی جے پی اٹل بہاری واجپئی کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہتی۔  واجپئی اور نہرو کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ ایک مرتبہ لوک سبھا میں واجپئی نے پنڈت نہرو  پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی شخصیت بہت ملی جلی ہے۔آپ کبھی چرچل نظر آتے ہیں تو کبھی چیمبرلین۔ پنڈت نہرو اس تبصرے پر بھی ناراض نہیں  ہوئے۔ اس تقریر کے بعد شام کو ایک ضیافت میںپنڈت نہرو کی  واجپئی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں دیکھ کرمسکراتے ہوئے نہرو اُن کے پاس گئےاور بولے کہ آج تو آپ نے بڑی زبردست تقریر کی۔ نہرو کے سامنے واجپئی بہت جونیئر تھے اور نہرو کی پارٹی کے سامنے واجپئی کی پارٹی کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن وہ  اختلاف رائے کی قدر کرتے تھے۔اسی واقعے کو یاد کرتے ہوئے  واجپئی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ آج کل اُس طرح کی تنقید کا مطلب دشمنی کو دعوت دینا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت نہرو کے انتقال کے وقت واجپئی نے اپنے کرب کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج ایک خواب نے دم توڑ دیا۔‘‘ 
آج کل مودی حکومت کا بالکل وہی رویہ ہے جس کی طرف واجپئی نے اشارہ کیا تھا۔ یہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حکومت سے آمریت کی بو آنے لگی ہے۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لانا چاہتی، وہ خواہ عوام ہوں یا پھر حزب اختلاف کی جماعتیں۔ اس کے نزدیک احتجاج، شکایت اور مطالبے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لئے تو وہ’راج دنڈ‘ لے کر آئی ہے اور نئی پارلیمنٹ میں ’سینگول‘ نصب کیا ہے۔ اس طرز حکومت میں اپوزیشن کیلئے بھلا کہاں کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ رہی بات عوام کی تو اب ان کی بھی سمجھ میں آنے لگا ہے کہ یہاں ’راجا اور پرجا‘ والی بات ہے جہاں انصاف عدالتوں سے نہیں بلڈوزروں سے ہوتے ہیں۔اب ان بلڈوزروں کو مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کے پتے بھی معلوم ہوگئے ہیں۔ ’نیوز لانڈری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’جی۔۲۰؍  کے پیش نظر دارالحکومت دہلی کو خوبصورت اور دلکش بنانے کیلئے۱۰؍ سے زیادہ جھگی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں جس کی وجہ سے۲۰؍  ہزار سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔‘‘
سونیا گاندھی نے اپنے خط کے ذریعہ دراصل عوام کے اسی طبقے کو جگانے اور اسےسمجھانے کی کوشش کی ہے، ورنہ اتنا تو وہ بھی جانتی ہیں کہ موجودہ حکومت ان کی سننے والی نہیں ہے۔ ملک کے ۹؍ اہم اور سنگین موضوعات کو پیش کرکے اپوزیشن اتحاد نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے مفاد میں کیا ہے؟ این ڈی اے یا پھر انڈیا اتحاد؟ ان موضوعات کو اٹھا کر اپوزیشن اتحاد نے ملک کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔  مہنگائی اور بے روزگاری  ایک عوامی مسئلہ ہے جس سے پورا ملک پریشان ہے۔  ذات کی بنیاد پرمردم شماری سے اوبی سی اوردلت طبقے کا دل جیتنے اور فرقہ وارانہ فسادات  اور منی پور تشدد کا ذکر کرکے اقلیتوںکے آنسو پونچھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح قدرتی آفات کے شکار خاندانوں کو معاوضہ دینے اور کسانوں  کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بات کرکے اپوزیشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ اپنے خط میں اڈانی سے متعلق تنازع اور چین کی دراندازی کا موضوع چھیڑکر سونیا گاندھی نےمودی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ  دیا ہے۔ یہ  ۲؍ ایسے نکات ہیں جن کی مدد سے جہاں بی جے پی کی بدعنوانی ظاہر ہوتی ہے،وہیں اس کی قوم پرستی  کی قلعی بھی اُتر جاتی ہے۔ 
      اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس پیغام کو عوام تک کس طرح پہنچاتی ہیں؟ اور پہنچا بھی پاتی ہیں یا نہیں؟

Monday 4 September 2023

Afsos! Medical students also started committing suicide/ Qutbuddin Shahid

دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے والے ، اپنی ہی جان لینے لگ  جائیں تو سمجھ لیں کہ معاملہ سنگین ہے

 قطب الدین شاہد

shahid.qutbuddin@mid-day.com

نیشنلکرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں یومیہ ۳۶؍ طلبہ خود کشی کرتے ہیں یعنی ہر گھنٹے ایک سے زائد گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد اُن طلبہ کی ہوتی ہے جو دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی تگ  و دو میں اس انجام کو پہنچتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو  راجستھان کے شہر’ کوٹا‘  میںجسے ملک میں ’ایجوکیشن ہب‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، دو طلبہ نے خود کشی کرلی۔ یہ دونوں ڈاکٹربن کرملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ان میں سے ایک کا تعلق مہاراشٹر کے لاتور ضلع  سے اور دوسرے کا تعلق بہار کے روہتاس ضلع سے تھا۔ سوچئے! اس سانحہ کے بعد ان دونوں کے گھروں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کتنے ارمان سے اُن دونوں نے ’نیٹ‘ کی کوچنگ جوائن کی  ہوگی   تاکہ میڈیکل میں داخلہ لے کر ڈاکٹر بن سکیں۔ان کے گھر والوں نے کیا کیا جتن کرکے  انہیں وہاں بھیجا ہوگا؟ اور ان کے والدین نے اپنے بچوں کے تعلق سے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے؟

ایک جھٹکے میں نہ صرف ان کے خواب چکنا چور ہوگئےبلکہ ان کی زندگی ہی تاریک ہوگئی۔ کوٹا میں اتوار کو پیش آنے والا  وہ سانحہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔یہ ایک طرح سے وہاں کا معمول بن چکا ہے۔صرف اگست ماہ میں  ۷؍ اور امسال جنوری سے اب تک میڈیکل میں داخلہ پانے کے خواہش مند  ۲۴؍طلبہ اپنی جان لے چکے ہیں۔ ملک کی مجموعی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ملک بھر میں ۱۳۰۸۹؍ طلبہ خود کشی کرچکے ہیں۔ان میں سے بیشتر کا تعلق اُن ریاستوں سے ہے جنہیںہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔اس معاملے  میں مہاراشٹر سرفہرست  ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے  ۱۸۳۴؍  طلبہ کی خود کشی کے معاملات درج کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش اور تمل ناڈو کا نمبر آتا ہے۔ کرناٹک اور اترپردیش کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے توخود کشی کرنے والے۴۴؍ فیصد طلبہ کا تعلق انہیں ۵؍ ریاستوں  سے ہے۔مطلب صاف ہے کہ خود کشی کی وجہ غریبی اور معاشی کسمپرسی کم اور دوسری وجوہات زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ وجوہات کیا ہیں؟ اور اس افسوس ناک اور درد ناک صورتحال کا حل کیا ہے؟

کسی کی جان لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس کیلئے مزاجاً سفاک ہوناضروری ہے۔ کسی اور کی جان لینے سے کہیں زیادہ مشکل اپنی جان لینا ہے۔ہم سوچ سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے، اس کی کوشش کرنے والے اور اس کے بارے میں سوچنے والے کسی شخص کوکس حد تک سفاک ہونا پڑتا ہوگا۔خود کشی کرنے والا صرف اپنی جان نہیں لیتا بلکہ اس سے  پہلے وہ ان تمام رشتوں کا خون کرتا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں، اس کی خوشی میں اپنی خوشی  دیکھتے ہیں او ر اس کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔اپنی خود کشی سے قبل وہ اپنے والدین کے ارمانوں کا گلا گھونٹتا ہے اور بڑھاپے میں تڑپ تڑپ کرمرجانے کیلئے انہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں سے ان کے خواب نوچ لیتا ہے۔ کچھ طلبہ شادی شدہ بھی ہوتے ہیں یا پھران کے رشتے طے ہوچکے ہوتے ہیں۔خود کشی کرنے والے یہ طلبہ انہیں بھی اپنی سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصومیت کی عمر سے تھوڑا آگے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے والے ان طلبہ میں آخر اتنی سفاکیت آتی کہاں سے ہے؟وہ اس حد تک کیوں چلے جاتے ہیں؟وہ کیوں نہیں سوچ پاتے کہ ان کے جان دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے؟دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنی جان بچانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ اور اتنا بڑاقدم اٹھانے سے پہلے وہ اس پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ان کے بعد ان کے متعلقین کا کیا ہوگا؟

درحقیقت ان معصوموں کو سفاک ہمارے تعلیمی نظام نے بنایا ہے ، جس میں سیکھنے اور سمجھنے سے زیادہ نمبرات کے حصول کو اہمیت دی جاتی ہے۔اس نظام میں کامیابی کی پیش گوئی صرف اُن طلبہ کیلئے کی جاتی ہے جو نتائج کی فہرست میں بلندی پر ہوتے ہیں، باقی طلبہ کو ناکارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس نظام نے ہمارے طلبہ کو  مارکس حاصل کرنے کی مشین بنا دیا ہے اور انہیں کوچنگ کلاسیز کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ ملک میں ایم بی بی ایس میں داخلے کیلئے صرف ایک لاکھ ایک ہزار نشستیں ہیں  جبکہ ’نیٹ‘ کے امتحان میں ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار سے زائد طلبہ نے شرکت کی تھی۔ کچھ کہے بغیر ہمارا تعلیمی نظام ان ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار  میں سے ۱۹؍ لاکھ سے زائد طلبہ کو ناکارہ قرار دے دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ طلبہ محض اس وجہ سے اپنے والدین کا سامنا نہیں کر پاتے کہ اُن کی وجہ سے سماج میں ان کے والدین کی ’ناک نیچی‘ ہو جائے گی جبکہ کچھ طلبہ اس وجہ سے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے زمین، زیور بیچ کر اور اپنی  بنیادی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی فیس ادا کی تھی۔ سفاکیت اور بے رحمی اس تعلیمی نظام ہی میں ہے، یہی سبب ہے کہ کامیاب ہونے اورڈاکٹر بن جانے والوں میں بھی صلہ رحمی کم کم ہی دیکھنے کو ملتی  ہے۔      

 اس مسئلے کا حل کیا ہے؟طلبہ کو ہم ملک کا مستقبل کہتے ہیں تو اس مستقبل کی حفاظت کا طریقہ کیا ہے؟ تمل ناڈو کی حکومت نیٹ کو ختم کردینا چاہتی ہے، اس کیلئے وہ گورنرسے متصادم بھی ہے .... لیکن کیا یہی اس کاحل ہے؟ اس بات کی کیا گارنٹی کہ نیٹ ختم ہوگا تو ’تعلیمی مافیاؤں‘کی نگرانی میںامتحان کا کوئی دوسرا ظالمانہ طریقہ پیش نہیں کردیا جائے گا؟ راجستھان کے ایک وزیر مہیش جوشی نے کوچنگ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے؟ لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے اور اس پرفیصلہ کرنا کسی ایک ریاستی حکومت کے بس کی بات ہے؟ کوٹا سانحہ کے بعد راجستھان حکومت نے آئی اے ایس افسر بھوانی سنگھ ڈیٹھا کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔اس کمیٹی نے کچھ ایسی تجاویز پیش کی ہیں جنہیں  ٹانگ تڑوا  بیٹھے کسی مریض کا علاج کرنے کے بجائے اسے بیساکھی تھما دینے کے مترادف ہے۔ کمیٹی نےکوچنگ سینٹرس میں ۲؍ ماہ تک ٹیسٹ پر پابندی عائد کردی ہے۔اس کے علاوہ سینٹرس میں طلبہ کیلئے تفریحی پروگرام کا انعقاد کرنے اورآن لائن پورٹل پردستیاب ترغیبی مواد طلبہ کو فراہم کرنے کی بات کہی ہے۔اسی کے ساتھ ’نیٹ‘ کےنصاب کا بوجھ کم کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ کیا ان تجاویز سے مسئلہ حل ہوگا؟
یہ  ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر حکومت کو سر جوڑ کر اور نہایت سنجیدگی سے کچھ فیصلہ کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس پر ایمانداری سے عمل ہو۔ کوچنگ سینٹر س کو اپنے کام کاج کو ہموار کرنے اور طلبہ کے ذہنوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے والے طریقوں سے  بچنےکی ضرورت ہے۔اس معاملے میں سب سے اہم کردار والدین کو ادا کرنا ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنےبچوں کی صلاحیتوں کو پہچانیں اور اسی کے مطابق ان کیلئے کریئر کا انتخاب کریں۔ دوسروں کی ’مانگ کا سندور‘ دیکھ کر اپنا سر نہ پھوڑیں۔ انسانی زندگی بہت قیمتی ہے،اسلئے اسے بچانا او ر اسے انسانیت نواز بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔n