Saturday 20 April 2013

Nitish and Modi ka Drama

جنتادل متحدہ اور بی جے پی کی لفظی جنگ
حقیقت کم شعبدہ بازی زیادہ

ان دنوں جنتادل متحدہ اور بی جے پی میں ہائی پروفائل ڈراما جاری ہے۔ مکالمہ بازی زوروں پر ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کرانے پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے خیالات و نظریات سے سمجھوتہ کرنے والی نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کااتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے۔ یہ ڈراماہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
 
قطب الدین شاہد

آئندہ لوک سبھا انتخابات کی آمد میں ابھی ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اس کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے اپنے طورپر تمام قومی و علاقائی جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ کانگریس، بی جے پی، سماجوادی، بی ایس پی، ترنمول، سی پی ایم، سی پی آئی، ڈی ایم کے، اے آئی اے ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس اور جے ڈی یو..... سبھی انتخابی دُھنوں پر رقص میں مصروف ہیں۔ کہیں شدت تھوڑی کم ہے تو کہیں تھوڑی زیادہ۔ ان تمام کےدرمیان عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں جنتادل متحدہ دیگر جماعتوں کےمقابلے زیادہ کامیاب ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر اس نے ایک ہائی پروفائل ڈراما اسٹیج کیا ہے۔ اس میں عوام کی دلچسپی کے بہت سارے لوازمات ہیں۔ مضبوط پلاٹ، دلچسپ کردار اور برجستہ مکالموں کے ساتھ اس ڈرامے میںتجسس بھی ہے کہ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کایہ اتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے، لیکن جو لوگ ان کے ڈراموں کو دیکھتے رہے ہیں اور ان کی سوچ سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا یہ ڈراما ہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔  ان حقائق کے باوجود اگر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا سبب خیالات و نظریات کا تضاد نہیں ہوگا بلکہ اقتدار تک پہنچنے کی کوئی دوسری حکمت عملی ہوگی۔
    دراصل ۲۰۱۰ء میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں یہ فارمولہ بہت کامیاب رہا تھا۔ اس ڈرامے نے عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ جے ڈی یو کے ساتھ بی جے پی کی نشستوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ نتیش کمار اور نریندر مودی ایک بار پھر اسی کامیابی کو دُہرانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ابھی تک عوام کے حافظے میں ہے کہ بہار میں اسمبلی الیکشن کے دوران  انتخابی مہم میں مودی کی شرکت کو بنیاد بناکر ان دونوں(اتحادی) جماعتوں نے کتنی بیان بازیاں کی تھیں اور پھر انتخاب جیتنے  کے بعد کیا ہوا، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
    اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا؟اس پر گفتگو سے قبل آئیے صورتحال دیکھنےکوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی دراصل اس مرتبہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کیلئے وہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میںیہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جنتادل متحدہ کا ساتھ چھوڑنے کی حماقت نہیں کرے گی، کیونکہ اس صورت میں وہ نہ صرف ایک مضبوط اتحادی گنوادے گی، بلکہ بہار میں اس کیلئے موجودہ نشستوں پر دوبارہ فتح  حاصل کرنا بھی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں نے بہار کی ۴۰؍ سیٹوں پر مل کر انتخاب لڑا تھا، جس میں جے ڈی یو نے ۲۰؍ اور بی جے پی نے ۱۲؍ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں ۲۴۳؍  رکنی ایوان میں جے ڈی یو نے ۱۱۵؍ اور بی جے پی نے ۹۱؍ سیٹیں حاصل کی تھیں۔    جے ڈی یو نے ۱۴۱؍ اور بی جے پی نے ۱۰۲؍ نشستوں پرقسمت آزمائی کی تھی جس میںدونوں نے مجموعی طور پر ۳۹؍فیصد ووٹ حاصل کئےتھے۔ ظاہر ہے کہ اگر بی جے پی تنہا  انتخاب میں اُترنے کی کوشش کرے گی تو اس کیلئے ووٹوں کے اس تناسب تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے بمشکل ۱۵؍ سے ۲۰؍فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں اسے کتنی نشستیں ملیںگی،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے ۲۷ء۳۱؍ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، اس کے باوجود اسے صرف۲۲؍ نشستوں پر سمٹ جاناپڑا تھا  جبکہ لوک سبھا میں اسے ۴؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔
     ان حقائق کے باوجود اگر بی جے پی کے تیور قدرے جارحانہ  ہیں تو اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ وہ دراصل اس مرتبہ سخت ہندوتوا  کے تیور کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے بجائے  بی جے پی کو توانا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مودی کو اگر آگے بڑھایا گیا تو اس کے بنیادی رائے دہندگان اس کے ساتھ آئیںگے اور اس  طرح اس کی مجموعی نشستوںمیں اضافہ ہوگا، لیکن وہ مودی کے نام کااعلان اس لئے نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی ذاتی نشستوں کی تعداد اتنی کبھی نہیں ہوگی کہ وہ تنہاحکومت ساز ی کرسکے،  اں لئے  انتخابات کے بعد اسے این ڈی اے کو ’متحد‘ کرنے کی جوڑ توڑ بہرحال شروع کرنی ہوگی۔  بی جے پی کی کوشش ہے کہ مودی کو آگے بڑھاکر سخت ہندوتوا میں یقین رکھنےوالوں کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں اور پھر الیکشن بعد سشما سوراج، اڈوانی، راج ناتھ سنگھ،  یشونت سنہا یا پھر اور کسی نام کو آگے بڑھا کر ناراض این ڈی اے کے اراکین کو ’متحد‘کرلیا جائےگا۔ ہندوستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
    حالات بتارہے ہیں کہ بی جے پی  اپنے طور پر جے ڈی یو سے تعلق ختم نہیں کرے گی لیکن..... اگر جے ڈی یو نے بی جے پی  سے مودی  سے متعلق زیادہ وضاحت پر اصرار کیاتو بی جے پی اس تعلق کو ختم بھی کرسکتی ہے۔   بی جے پی کو اگر محسوس ہوا کہ مودی کو آگے بڑھاکر الیکشن لڑنے میں اسے پورے ملک میں ۲۵؍ سے ۳۰؍ سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ بہارمیں ۴؍ سے ۶؍ سیٹوں کانقصان گوارا کرلے گی،کیونکہ اسے پتہ ہے کہ الیکشن بعد ضرورت محسوس ہوئی تو    جنتادل یو کو این ڈی اے کے بینر تلے لانا کچھ مشکل کام نہیں ہوگا۔
    رہی بات جے ڈی یو کی، تو اس کیلئے بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ تنہاالیکشن لڑنے میںاس کابھی نقصان ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ  جے ڈی یو کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کرکے لوک سبھا الیکشن میں اُترے۔ دراصل یہاں کانگریس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے۔ یعنی  وہ بھی کچھ بھی کرکے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہونا چاہتی ہے۔ اس کی ۲؍وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اقتدار کااپنا مزہ ہے، دوسرے یہ کہ  اگراس مرتبہ شکست کا سامنا ہوا تو راہل گاندھی کا کریئر تباہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں کانگریس بہت کم سیٹیں پاکر بھی  بہار میں جے ڈی یو سے انتخابی مفاہمت کرسکتی ہے۔ اس کی وہاں پارلیمنٹ کی ۲؍ سیٹیں ہیں۔ جے ڈی یو سے انتخابی تال میل کی صورت میں اتنا تو طے ہے کہ اسے نقصان نہیں ہوگا۔ ایسے میں اسے آر جے ڈی سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور کانگریس کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنا فائدہ ہو تو، کسی کی اعتماد شکنی اس کیلئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔
     آثار بتار ہے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے امیدوار کے طورپربی جے پی کسی  کے نام کا باضابطہ اعلان نہیں کرے گی لیکن اپنے رائے دہندگان کو یہ پیغام ضرور دے گی کہ الیکشن بعدمودی ہی اس کے میرکارواں ہوںگے۔ ایسے میں گیند جے ڈی یو کے پالے میں آجاتی ہے کہ وہ کیاقدم اُٹھاتی ہے۔ اس کے سامنے  ۲؍ صورتیں ہوں گی۔ اول یہ کہ کانگریس سے اگر انتخابی مفاہمت ہوجاتی ہے تو وہ بی جے پی سے مودی کے نام پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ناطہ توڑ لینے کااعلان کرے گی۔ دوم یہ کہ اگر کانگریس سے اپنی شرطوں پر سمجھوتہ نہیں ہوا تو بی جے پی کے ساتھ مکالمہ بازی جاری رہے گی اور دونوں ایک دوسرے کے اتحادی بنے رہیں گے۔  تو کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے تھوڑا اور توقف کیجئے اور تب تک اس دلچسپ ڈرامے سے لطف  اندوز ہوئیے۔

Saturday 6 April 2013

Third front ki dastak se Qaumi partiyon ki neend haram

تیسرے محاذ کی دستک سے قومی پارٹیوں کی نیند حرام
بلاشبہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوںملائم سنگھ یادونےایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تیسرے محاذ کا ذکر کیا چھیڑدیا، بی جے پی اور کانگریس  جیسے حواس باختہ ہوگئیں اور لٹھ لے کر ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اس سے ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آئی کہ بی جے پی کو کانگریس سے یا کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ خطرہ نہیں ہے بلکہ سرے سے خطرہ ہی نہیں ہے.... البتہ ان دونوں کو تیسرے محاذ سے ضرور خطرہ ہے۔یہ دونوںجماعتیں نہیں چاہتیں کہ ان کے متبادل کے طور پر کوئی تیسری طاقت اُبھرسکے۔
     ملک میں کسی تیسرے محاذکی کتنی ضرورت ہے اور اس  کے کیا امکانات ہیں؟ اس کاجائزہ لیا جائے تویہ بات بڑی آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس وقت ملک کو کانگریس اور بی جے پی   کے  ایک مضبوط متبادل کی واقعی سخت ضرورت ہے اور موجودہ صورتحال اس کیلئے نہایت موزوں اور سازگار ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے ملک کے عوام نالاں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں میں جہاں عوام کے سامنے کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کوئی اورمتبادل  ہے، انہیں اقتدار میں آنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے۔  دراصل یہ دونوں جماعتیں عوام کے مفاد پر سرمایہ داروں کے مفاد کو ترجیح دیتی ہیں اور اقتدار ملتا ہے تو آمریت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے اور ایف ڈی آئی کا راستہ ہموار کرنے کے معاملے میں کانگریس  اور گجرات میں لوک آیکت سے متعلق بل کی منظوری کے وقت بی جے پی کی آمریت ہم دیکھ چکے ہیں۔ رہی بات سیکولرازم کی تو یہ محض دکھاوا ہے۔ کانگریس کا اس سے قربت کا اور بی جے پی کا اس سے فاصلےکا اظہار کرنا، ان کی مجبوری ہے، ورنہ دیکھاجائے تو دونوں کے طور طریقوں میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ بی جے پی نے رام مندر کی تحریک چلائی، کانگریس نے اس کا شیلا نیاس کروایا۔ بی جے پی نے بابری مسجد کے انہدام کی بات کی اور کانگریس کے دور اقتدار میں مسجد شہید کی گئی۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میںگجرات میں فساد ہوا تو کانگریس کے دوراقتدار میں ممبئی، بھیونڈی، میرٹھ، ملیانہ اور بھاگل پور جیسے سیکڑوں فساد ہوئے۔ بی جے پی نے اگر فساد کے مجرمین کی پشت پناہی کی تو کانگریس حکومت  میں بھی کبھی کسی فسادی کو سزا پاتے نہیں دیکھا گیا۔
       ان حالات میں عوام کا کسی تیسرے متبادل کی جانب دیکھنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ وہ خواہ ۱۹۷۷ء کی بات ہو، یا  ۱۹۸۹ء کی یا پھر۱۹۹۶ء کی۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔ قومی جماعتوںکے اس خوف سے تیسرے محاذ کی اہمیت و ضرورت اورعوام میںاس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئےمستحکم حکومتوں کی وکالت کرتا ر ہا ہے۔ اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رُکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
    معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ مستحکم حکومت یک جماعتی حکومت ہی دے سکتی ہے یعنی بی جے پی یا کانگریس۔ یہ تو یوپی اے اور این ڈی اے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ا ن کے نزدیک اس طرح کی حکومتیں’مجبور‘ ہوتی ہیں جن کاا نحصارچھوٹی چھوٹی جماعتوں پر ہوتا ہے۔
    ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑ دیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے...  مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
     یہی وجہ ہے کہ جب بھی تیسرے محاذ کی تشکیل کی بات ہوتی ہے یا انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو خاطر خواہ سیٹیں نہیں مل پاتیں  تو یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔ تیسرے محاذکی حکومت کی بات جانے دیں، یہ تو حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کو بھی ملک کی ترقی میں رُکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیں ہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں..... لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے اوروہ من  مانی کرنے لگتی ہیں۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے؟ پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے بے اطمینانی محسوس  ہوگی تو  نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہی دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدےاور ایف ڈی آئی کی منظوری کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی واحد جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ۸۴ء کے بعد سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی واحد جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئی تھیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی تھی۔ اس کے بعد بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ تو مجموعی پولنگ کا فیصد ہے، ویسے دیکھا جائے تو ان دونوں جماعتوں کو۱۲۰؍کروڑ کی آبادی والے ملک میں ۱۹؍کروڑ ۷۵؍ لاکھ  یعنی صرف ۱۵؍ فیصد عوام کی ہی حمایت حاصل ہے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔  ایسے میں اگر کوئی تیسرا محاذ بنتا ہے، تو یقینی طور پر اسے خاطرخواہ عوامی حمایت حاصل ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ تیسرے محاذ کی تشکیل میں علاقائی جماعتیں سنجیدہ ہوں اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔