Saturday 23 February 2013

Tanqeed hi nahi, Tareef bhi kijiye.....

یوپی حکومت کے مناسب و متوازن اور اقلیت نواز بجٹ پر بھی ناراضگی،کیا مسلمان شکایت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں؟
ہمیشہ تنقید ہی نہیں، کبھی کبھار تعریف بھی تو کیجئے
گزشتہ دنوں اترپردیش حکومت نے ۲؍لاکھ کروڑ روپوںسے زائد کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں ۱۱۴۲؍ کروڑ  روپےصرف اقلیتوں کیلئے مخصوص ہیں۔ سابقہ بجٹ کے مقابلے اس مرتبہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ میں ۳۰؍ فیصد کااضافہ کیاگیا ہے۔ یہ اضافہ معمولی نہیں ہے۔ ایسے میںضرورت اس بات کی تھی کہ اس اضافے پر اکھلیش حکومت کی تعریف کی جاتی تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اس سے ان تمام دیگر حکومتوں کو ترغیب بھی ملے جو مسلمانوں کی غمگساری کا دعویٰ تو کرتی ہیں، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ خیال رہے کہ اگر ہم صرف تنقید ہی کر تے ر ہےاور اچھے کاموں پر بھی انگشت نمائی کرنےلگے تو کوئی حکومت اورسیاسی جماعت مسلمانوں سے متعلق مسائل پر غور نہیں کرے گی۔ وہ سوچے گی کہ برا کرو تو برا ہوتا ہی ہے، اچھا کرو تو بھی برا ہوتا ہے، پھر کیوں کچھ کیا جائے؟ لہٰذا ہمیں اپنی روش تبدیل کرنی ہوگی اور تنقید کے ساتھ ساتھ تعریف کی بھی عادت ڈالنی ہوگی۔
  • قطب الدین شاہد

ایک شوہرنامدار تھے جنہیں بیوی کے ہر کام میں نقص نکالنے میں مہارت حاصل تھی۔ جس دن کھانے میں وہ آملیٹ بناتی، وہ کہتے کہ آج انڈا اُبال کربنانا چاہئے تھا۔ جس دن وہ انڈا اُبال کربناتی ، اس دن کہتے کہ آج آملیٹ ہونا چاہئے تھا۔  پریشان بیوی نے ایک دن عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آملیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ انڈا ابال کر بھی رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ شوہر نامدار کو پہلے آملیٹ پیش کروں گی، اگر حسب سابق اعتراض ہوا تو اُبلا ہوا، انڈا بھی لاکررکھ دوںگی۔ مگر ناقد شوہر کے آگے بیوی کی ایک نہ چلی۔ دونوں چیزیں ایک ساتھ دیکھ کرشوہر نے کہا کہ’’یہ کیا کیا تم نے! اس انڈے کو اُبالنا چاہئے تھااور اس کا آملیٹ بنانا چاہئے تھا۔‘‘
    کیاکچھ یہی کیفیت ہماری نہیں ہوگئی ہے۔  بات بات پر ہمیں تنقید کی عادت سی نہیں پڑ گئی ہے؟ گزشتہ دنوں  اترپردیش حکومت نے سالانہ بجٹ پیش کیا ۔ تسلیم کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ اور ہونا چاہئے تھا لیکن جتنا کچھ ہے، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اترپردیش کےسالانہ بجٹ میں ۱۰؍ فیصد کا اضافہ ہو اہے جبکہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ  میں۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ ہوا ہے۔ یہاں اقلیتوں سے مراد مسلمان ہی سمجھئےکیوں کہ یوپی میں سکھ، عیسائی، بدھ اور جین مذہب کے ماننے والوں کی آبادی بہت کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اس بجٹ کا مطالعہ کیا جاتااور اس بجٹ کے مناسب استعمال سے قوم کی پسماندگی کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی.......... مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بجٹ پیش کئے جانے کے فوراً بعد ہی بعض مسلم حلقوں سے اس پر تنقیدیں شروع ہوگئیں کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں ہے۔  بلا شبہ کچھ اورہونا چاہئے تھا۔ کئی  شعبے ایسے رہ گئے ہیں، جنہیں اکھلیش حکومت نے قصداً ، سہواً یا مصلحتاً نظر انداز کیا ہے، اس پرگفتگو ہونی چاہئے۔ انہوںنے اُردو اوراُردو میڈیم اسکولوںکے تعلق سے کچھ نہیں کہا بلکہ پوری طرح انہیں نظرانداز کیا ہے۔ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ اپنا حق طلب کرنے میں ہمیں قطعی پیچھے نہیں رہنا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اچھا ہوا ہے، اسے بھی برا کہا جائے۔ ذرا سوچئے کہ ان حالات میں دوسری حکومتیں مسلم کاز کیلئے کیوںکرسنجیدہ ہوںگی؟
    آگے بڑھنےسےقبل ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں سماجوادی پارٹی کا دفاع مقصود  ہے، نہ ہی ہمیں اکھلیش یادو اورملائم سنگھ سے کوئی ہمدردی ہے۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت  یا سیاسی جماعت ہو، اگر وہ کچھ اچھا کرتی ہے تو اس کا اعتراف کیاجائے، اس کی تعریف  اور پذیرائی کی جائے اور اگر کچھ غلط کرتی ہے تو فوری طور پر اسے ٹوکا بھی جائے۔ اس کے کام پر تنقید ہو، دباؤ ڈالا جائے اوراس پر لگام کسنے کی کوشش کی جائے اور اگر بات تب بھی نہ بنے تو انتخابات کے موقع پر اپنی ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اس عمل کی سزا دی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے عمل کو ہم سیاسی عینک سے ہی دیکھنے کی کوشش کرتےہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت سے کسی طرح کی ہماری  وابستگی ہے تو اس کا ہر عمل محبوب کی اداؤں کی طرح ہمیں اچھا اور پیارا لگتا ہے۔ اس کی خامیوں اور کوتاہیوں میں ہمیں خوبیوں کے کئی پہلو نظر آتے ہیں، اس کے اوٹ پٹانگ بیانات سے بھی طمانیت کااحساس ہوتا ہے، اس کے عیوب میں حسن کی جھلک نظر آتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر سطح پراس کا دفاع کرتے ہیں..... اس کے برعکس اگر ہمارا تعلق اس سیاسی جماعت کی کسی مخالف جماعت سے ہے تو رقیب روسیاہ کی مانند اس کی تمام اچھی باتیں بھی ہمیںبری معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے ہر عمل میں ہمیں فریب کے پہلو دکھائی دیتے ہیں، اس طرح ہم  اس کے ہر قدم پر تنقید کے کچھ نہ کچھ  بہانے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
    آج صورتحال یہ ہے کہ ہم کانگریس، سماجوادی، کمیونسٹ، آر جے ڈی، بی ایس پی، این سی پی، ایم این ایس، جے ڈی یو، تیلگو دیشم اور اس طرح کی دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں میں خود کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہمارے لئے ملت کا مسئلہ کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔  بات ہم ملت  ہی کی کرتے ہیں لیکن لب و لہجہ ہمارا سیاسی ہوتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب یوپی اے کی پہلی میقات میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سچر کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا، بعض حلقوں نے اس پر بھی تنقید کی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک اہم رکن  اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد سے ہم نے وہی سوال دُہرایا تھا کہ ’’اس کمیٹی کی تشکیل کا کیا مطلب؟ کیا اس سے مسلمانوں کو کچھ فائدہ ہوگا؟‘‘ اس کے جواب میںانہوں نے بہت اچھی بات کہی تھی۔انہوں نے کہاتھا کہ’’ کسی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ کمیٹی اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دے گی۔اس پر حکومت کچھ کرے گی یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا اوراس تعلق سے کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتا لیکن اس کمیٹی کی تشکیل سے بہر حال یہ فائدہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس بات کی نشاندہی ہوجائے گی کہ ہمیں کہاں اورکن پہلوؤں پرزیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘ بات بالکل درست ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کی جانب سے اقلیتوں کیلئے اعلان کئے گئے ۱۵؍  نکاتی پروگرام پر بھی تنقید کی گئی۔  اقلیتوں کودیئے جانے والے اسکالرشپ پربھی انگشت نمائی ہوئی۔ کہا گیا کہ کیا اس سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی؟ کیا مسلم طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی؟  اس کا جواب یہی ہے کہ نہ تو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی اور نہ ہی تمام طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی لیکن  اتنا تو ہوگا کہ ایک بڑا طبقہ اس سے ضرور فیضیاب ہوگا.... اورآج  ہوبھی رہا ہے۔
     آئیے ایک بار پھر آتے ہیں  اصل موضوع یعنی یوپی کے بجٹ پر۔ معترضین کا کہنا ہے کہ یوپی حکومت نے اقلیتوں  کے بجٹ میں صرف ۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ پھر کتنے فیصد کا اضافہ کیا جانا چاہئے تھا؟ اس کی توضیح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اقلیتوں کیلئے مخصوص کیاگیا بجٹ مجموعی بجٹ کا صرف ایک فیصد ہے جبکہ اقلیتوں کی آبادی ۱۸؍ سے ۲۰؍ فیصد ہے، لہٰذاآبادی کے تناسب سے ہی ان کیلئے بجٹ مخصوص کیا جاناچاہئے تھا۔  یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجموعی بجٹ سے ہونے والے کاموں سے اقلیتیں مستفیض نہیں ہوںگی؟ مجموعی بجٹ سے لکھنؤمیں اگر میٹرو ریل شروع ہوگی تو کیا اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ سبھی سرکاری اور امداد یافتہ پرائیویٹ ڈگری کالجوں میں طالبات کو گریجویشن تک کی تعلیم مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کیا اس سے مسلم طالبات فائدہ نہیں اٹھائیںگی؟ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے رام پور میں ۲؍ فلائی اووَر تعمیر کئے جائیںگے۔ کیا اس سے رام پور کی مسلم آبادی کا کوئی بھلا نہیں ہوگا؟  اعظم گڑھ میں  اگرڈگری زرعی کالج، مویشی میڈیکل سائنس ڈگری کالج اورپیرامیڈیکل کالج نیز الہ آباد  اورسدھارتھ نگر میں یونیورسٹیاں قائم کی جاتی ہیں تو کیا اس سے مسلم طلبہ کو آسانیاں نہیں ہوںگی؟ بجلی سے محروم  ہزاروں گاؤں میں اگر بجلی سپلائی کی جاتی ہے تو ان روشنیوںسے کیا مسلم گھروں کے اندھیرے دور نہیں ہوںگے؟ لکھنؤ میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی  پارک اور آئی ٹی سٹی قائم کی جاتی ہے کہ تو کیا  مسلم نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا اوران کے گھروں میں خوشحالی نہیں آئے گی؟بنیادی تعلیم کی مختلف اسکیموںکیلئے اگر ۲۱؍ ہزار ۵۲۰؍ کروڑروپے خرچ ہوںگے تو کیا ان سے ہمارے طلبہ کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ ریاست میں ۲۱؍ نئے گورنمنٹ آئی ٹی آئی کالج کھولے جائیںگے۔ کیا اسے ہمارے بچوں کوخود کفیل ہونے کا موقع نہیں ملے گا؟.......... ان تمام اسکیموںسے  یقیناً  ہم مسلمان بھی اتنا ہی  فائدہ اٹھائیںگے جتنا کہ دوسرے لوگ اٹھائیںگے۔ رہی بات اقلیتوں کے بجٹ کی تو وہ صرف ہمارا اپنا ہے۔
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ منظور شدہ بجٹ کو اقلیتوں کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس کیلئے نہ صرف حکومت سے رجوع ہوناچاہئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کے نمائندوں بالخصوص مسلم نمائندوںسے بھی ملاقات کرتے رہنا چاہئے تاکہ سال کے اختتام تک۱۱۴۲؍ کروڑ کی رقم سے کچھ تعمیری کام ہوسکیں۔

Thursday 7 February 2013

Urdu ki haq talfi ke liye ahl e urdu hi zimmedar

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُردو کے مسائل پر زور دار آواز بلند  ہونے کے بعد بھی اگر مسائل حل نہیں ہوئے تو کہنا پڑے گا کہ:
اُردو کی حق تلفی کیلئے اہل ِ اُردو ہی ذمہ دار ہیں!
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو زبان سے متعلق بڑی مثبت گفتگو ہوئی۔ اُردو کے قصیدے پڑھے گئے،اس کی مرثیہ خوانی بھی ہوئی اورتمام جماعتوں کے اراکین نے مل کر اس کی ترویج و اشاعت کیلئے آواز بھی بلند کی۔ ۲؍سال قبل کچھ اسی طرح کاخوشگوار منظر لوک سبھا میں بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ الزام درست ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میںسنجیدگی کم اور نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کی ’فراخدلی‘ کا مظاہرہ کیا اور اُردو کو اس کا جائز حق دلانے  کی بات پارلیمنٹ  میں کی۔ اب یہاں سے اہل اُردو کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ اُردو والوں کو چاہئے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کریں اور یہ دباؤ تب تک قائم رکھیں جب تک اس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوجائیں۔ اُردو کیلئے ماحول سازگار ہے، لوہا گرم ہے، بس ہتھوڑا مارنے کی دیر ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا تو یقینا اس کیلئے اہل اُردو ہی ذمہ دار اور قصور وار قرار پائیںگے۔

قطب الدین شاہد

اگریہ کہاجاتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت اُردو کو اس کے اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا گیا، تویہ الزام قطعی غلط نہیں ہے۔ بلا شبہ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے، جس کی  پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ یہیں کی گنگا جمنی تہذیب کی گود میں پلی بڑھی اوریہیں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھی۔ امیر خسروسے لے کر منشی پریم چند اور سرسید احمدخاں سے لے کر گوپی چند نارنگ تک  بلا لحاظ مذہب و مسلک اس زبان کی آبیاری میں تمام لوگوں نے خون و جگر ایک کیا، جس کا یہ خوشگوار نتیجہ ہے کہ اُردو زبان صرف  ہندوستان اور بر صغیر  میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک شیریں زبان کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ اس  ہندوستانی زبان کو آزاد ہندوستان میں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جاسکا، جس کی یہ حقدار ہے۔ جس زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے تھی، اس کے ساتھ سرکاری سطح پر کھلا متعصبانہ  رویہ اختیار کیا گیااور کیا  جا رہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسے  خالص مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار سرکاری   اور آئینی ادارے میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کی آواز بلند کی جائے اوراس آواز پر تمام سیاسی جماعتیں آمنّا و صدّقناکہیں تو اس سے بڑی مسرت کی بات اورکیا ہوگی؟
     اس لحاظ سے ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء اور اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء کی تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس  روز بالترتیب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے آواز بلند کی گئی جس کی حمایت بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین  نے کی۔ اس کے باوجود اگر اُردو کے مسائل جوں کے توں ہیں تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم اُردو والے ہی ذمہ دار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی پہلی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب یہاں سے ہم اُردو والوں کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اُردو کے مسائل کا ادراک ہے، جس کااعتراف انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی کیا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اس کا ’فالو اَپ‘ کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ  وہ صرف مسائل پر آواز بلند  کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ  پارلیمنٹ میں  اردو سے جس محبت کا انہوں نے اظہار کیا ہے اس کا حق بھی ادا کریں اور  اس زبان کو اس کا وہ جائز حق دلائیں جس سے یہ  اب  تک محروم ہے۔
     یہ بات درست ہے کہ ہمارے  سیاست داں بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مسائل اوران کے حل کے تئیں بہت کم سنجیدہ ہوتے ہیںبلکہ ان کی ذہنیت تاجرانہ ہے اور یہ   ہر بات میں اپنا نفع  نقصان دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جائے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو جب سماجوادی پارٹی کے رُکن پارلیمان چودھری منور سلیم نے اُردو کو قومی سطح پردوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا، جس کی تائید بی جے پی کے ارون جیٹلی سمیت دیگر تمام جماعتوں کے قائدین نے کی تو ہم میں سے بیشتر نے اسے ایک سیاسی پینترہ بازی ہی تصور کیا۔ اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہمارے قائد بھی ذمہ دار ہیں۔  بلا شبہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتا ہے لیکن ایک بار جل جانے کے بعد دودھ کی افادیت سے ہی انکار کردینا دانشمندی تو نہیں ہے۔  اسے ’کفرانِ نعمت‘ کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
    یہ بات بھی صحیح ہے کہ انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو  لیڈروں کی زنبیل سے وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں جو انتخابات ختم ہوتے ہوتے راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی  ان پھلجھڑیوں کی روشنی میں چند بھٹکے ہوئے مسافرو  ں کو اپنا راستہ نظر آجاتا ہے  اور وہ ان وقتی اور عارضی روشنیوں کی مدد سے اپنا سفر آسان بنا لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب انتخابات کی آمد ہوتی ہے، تو ووٹوں کی لالچ کے خاطر ہی سہی ہمارے سیاست داں کچھ کام کرتے ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اُن سے کچھ کام لیا جاسکتا ہے۔
    ان حالات میں گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو کو دوسری قومی زبان کا درجہ دیئے جانے کا جو مطالبہ ہوا، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور متحرک ہوجانا چاہئے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سر پر ہیں اور اس سے قبل سیاست دانوں سے چند کام کروائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں یہ مطالبہ سماجوادی پارٹی نے کیا۔ اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء میں بھی سماجوادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے اُردو کے حق سے متعلق لوک سبھا میں آواز بلند کی تھی۔ دونوں مرتبہ بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید و حمایت کی۔ خود حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ اُردو کواس کا جائز حق ملنا چاہئے۔ ممکن ہے اُردو کے نام پر سیاست  ہورہی ہو اور سیاست داں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کررہے ہوں، مگر ان منفی پہلوؤں کے علاوہ ہمیں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ یہ گفتگو پارلیمنٹ میں ہورہی ہے، جہاں ایک ایک لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے اورجس کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کوئی سیاسی اسٹیج نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہونے والی گفتگو سیاسی جماعتوں کے  انتخابی منشور جیسی ہے۔ اور پھرسیاست دانوںسے ہماری توقعات بھی کیا ہیں؟ یہی ناکہ وہ ایوان میں ہمارے مسائل پر آواز بلند کریں اورانہیں حل کروائیں۔ اس طرح دیکھیں تو پہلا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔۔۔۔۔۔ یعنی اُردو کے حق میں سبھی متفق نظر آئے۔  اب رہادوسرا مسئلہ ۔۔۔۔ تو یہاں گیند پوری طرح سے حکومت اور اہل اُردو کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی حکومت کو کام کرنا ہے لیکن یہ کام اہل اُردو کو کروانا ہے۔ یوپی اے حکومت تو یہی دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اُردو کیلئے کچھ کرنا ہے لیکن بظاہر وہ بی جے پی سے خوف زدہ  نظر آتی ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ کہیں  ایسا کرتے ہوئے اس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی اور خوشامد پسندی کا الزام عائد نہ ہو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کو یہ یاد دلائیں کہ اب تو وہ خوف بھی نہیں رہا کیونکہ بی جے پی بھی اُردو کو اس کا جائز حق دیئے جانے کے حق میں ہے۔
    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس گفتگو کو یوں سرسری طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ آج اگر اس پر کچھ عمل نہیں بھی ہوا۔۔۔۔۔ تب بھی اس مباحثے کی اہمیت باقی رہے گی۔ آئندہ کچھ دنوں میں اسے ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے گا اوراس کی روشنی میں فیصلے ہوںگے۔ اس گفتگو کی اہمیت اس لئے کم نہیں ہونی چاہئے کہ اس موضوع کو سماجوادی پارٹی کے چودھری منور سلیم نے اُٹھایا ہے  اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام وِلاس پاسوان اور آزاد رُکن پارلیمان محمدادیب نے اس کی حمایت کی ہے بلکہ اسے اس طرح دیکھنا چاہئے کہ اس کی تائیدبی جے پی نے بھی کی ہے جسے ہم اُردو کا دشمن اور اس کی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے رہے ہیں۔  یعنی ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردووالے اس کا ’فالواَپ‘ کریں۔ سیاست دانوں کواس بات کیلئے آمادہ کریںکہ آئندہ پارلیمانی اجلاس میںاس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد ہوں۔ حکومت سے پوچھیں کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ وہ اس کا جائز حق دینے سے کترارہی ہے؟ ملائم سنگھ یادو، ممتا بنرجی  اور فاروق عبداللہ سے سوال کریں کہ ۲۰۱۰ء میں اُردو کی حالت زار پر لوک سبھا میں آپ نے بھی مرثیہ پڑھا تھا، اب کیا کررہے ہیں کہ جبکہ اس دوران  اپنی اپنی ریاستوں میں آپ کی حکومتیں بن چکی ہیں۔یقین جانئے کہ ووٹوں کی لالچ میں سیاست  داں  بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے انہیں مجبور کرنے کی۔ توکیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟n