Thursday 7 February 2013

Urdu ki haq talfi ke liye ahl e urdu hi zimmedar

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُردو کے مسائل پر زور دار آواز بلند  ہونے کے بعد بھی اگر مسائل حل نہیں ہوئے تو کہنا پڑے گا کہ:
اُردو کی حق تلفی کیلئے اہل ِ اُردو ہی ذمہ دار ہیں!
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو زبان سے متعلق بڑی مثبت گفتگو ہوئی۔ اُردو کے قصیدے پڑھے گئے،اس کی مرثیہ خوانی بھی ہوئی اورتمام جماعتوں کے اراکین نے مل کر اس کی ترویج و اشاعت کیلئے آواز بھی بلند کی۔ ۲؍سال قبل کچھ اسی طرح کاخوشگوار منظر لوک سبھا میں بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ الزام درست ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میںسنجیدگی کم اور نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کی ’فراخدلی‘ کا مظاہرہ کیا اور اُردو کو اس کا جائز حق دلانے  کی بات پارلیمنٹ  میں کی۔ اب یہاں سے اہل اُردو کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ اُردو والوں کو چاہئے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کریں اور یہ دباؤ تب تک قائم رکھیں جب تک اس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوجائیں۔ اُردو کیلئے ماحول سازگار ہے، لوہا گرم ہے، بس ہتھوڑا مارنے کی دیر ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا تو یقینا اس کیلئے اہل اُردو ہی ذمہ دار اور قصور وار قرار پائیںگے۔

قطب الدین شاہد

اگریہ کہاجاتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت اُردو کو اس کے اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا گیا، تویہ الزام قطعی غلط نہیں ہے۔ بلا شبہ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے، جس کی  پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ یہیں کی گنگا جمنی تہذیب کی گود میں پلی بڑھی اوریہیں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھی۔ امیر خسروسے لے کر منشی پریم چند اور سرسید احمدخاں سے لے کر گوپی چند نارنگ تک  بلا لحاظ مذہب و مسلک اس زبان کی آبیاری میں تمام لوگوں نے خون و جگر ایک کیا، جس کا یہ خوشگوار نتیجہ ہے کہ اُردو زبان صرف  ہندوستان اور بر صغیر  میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک شیریں زبان کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ اس  ہندوستانی زبان کو آزاد ہندوستان میں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جاسکا، جس کی یہ حقدار ہے۔ جس زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے تھی، اس کے ساتھ سرکاری سطح پر کھلا متعصبانہ  رویہ اختیار کیا گیااور کیا  جا رہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسے  خالص مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار سرکاری   اور آئینی ادارے میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کی آواز بلند کی جائے اوراس آواز پر تمام سیاسی جماعتیں آمنّا و صدّقناکہیں تو اس سے بڑی مسرت کی بات اورکیا ہوگی؟
     اس لحاظ سے ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء اور اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء کی تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس  روز بالترتیب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے آواز بلند کی گئی جس کی حمایت بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین  نے کی۔ اس کے باوجود اگر اُردو کے مسائل جوں کے توں ہیں تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم اُردو والے ہی ذمہ دار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی پہلی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب یہاں سے ہم اُردو والوں کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اُردو کے مسائل کا ادراک ہے، جس کااعتراف انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی کیا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اس کا ’فالو اَپ‘ کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ  وہ صرف مسائل پر آواز بلند  کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ  پارلیمنٹ میں  اردو سے جس محبت کا انہوں نے اظہار کیا ہے اس کا حق بھی ادا کریں اور  اس زبان کو اس کا وہ جائز حق دلائیں جس سے یہ  اب  تک محروم ہے۔
     یہ بات درست ہے کہ ہمارے  سیاست داں بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مسائل اوران کے حل کے تئیں بہت کم سنجیدہ ہوتے ہیںبلکہ ان کی ذہنیت تاجرانہ ہے اور یہ   ہر بات میں اپنا نفع  نقصان دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جائے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو جب سماجوادی پارٹی کے رُکن پارلیمان چودھری منور سلیم نے اُردو کو قومی سطح پردوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا، جس کی تائید بی جے پی کے ارون جیٹلی سمیت دیگر تمام جماعتوں کے قائدین نے کی تو ہم میں سے بیشتر نے اسے ایک سیاسی پینترہ بازی ہی تصور کیا۔ اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہمارے قائد بھی ذمہ دار ہیں۔  بلا شبہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتا ہے لیکن ایک بار جل جانے کے بعد دودھ کی افادیت سے ہی انکار کردینا دانشمندی تو نہیں ہے۔  اسے ’کفرانِ نعمت‘ کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
    یہ بات بھی صحیح ہے کہ انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو  لیڈروں کی زنبیل سے وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں جو انتخابات ختم ہوتے ہوتے راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی  ان پھلجھڑیوں کی روشنی میں چند بھٹکے ہوئے مسافرو  ں کو اپنا راستہ نظر آجاتا ہے  اور وہ ان وقتی اور عارضی روشنیوں کی مدد سے اپنا سفر آسان بنا لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب انتخابات کی آمد ہوتی ہے، تو ووٹوں کی لالچ کے خاطر ہی سہی ہمارے سیاست داں کچھ کام کرتے ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اُن سے کچھ کام لیا جاسکتا ہے۔
    ان حالات میں گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو کو دوسری قومی زبان کا درجہ دیئے جانے کا جو مطالبہ ہوا، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور متحرک ہوجانا چاہئے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سر پر ہیں اور اس سے قبل سیاست دانوں سے چند کام کروائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں یہ مطالبہ سماجوادی پارٹی نے کیا۔ اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء میں بھی سماجوادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے اُردو کے حق سے متعلق لوک سبھا میں آواز بلند کی تھی۔ دونوں مرتبہ بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید و حمایت کی۔ خود حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ اُردو کواس کا جائز حق ملنا چاہئے۔ ممکن ہے اُردو کے نام پر سیاست  ہورہی ہو اور سیاست داں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کررہے ہوں، مگر ان منفی پہلوؤں کے علاوہ ہمیں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ یہ گفتگو پارلیمنٹ میں ہورہی ہے، جہاں ایک ایک لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے اورجس کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کوئی سیاسی اسٹیج نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہونے والی گفتگو سیاسی جماعتوں کے  انتخابی منشور جیسی ہے۔ اور پھرسیاست دانوںسے ہماری توقعات بھی کیا ہیں؟ یہی ناکہ وہ ایوان میں ہمارے مسائل پر آواز بلند کریں اورانہیں حل کروائیں۔ اس طرح دیکھیں تو پہلا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔۔۔۔۔۔ یعنی اُردو کے حق میں سبھی متفق نظر آئے۔  اب رہادوسرا مسئلہ ۔۔۔۔ تو یہاں گیند پوری طرح سے حکومت اور اہل اُردو کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی حکومت کو کام کرنا ہے لیکن یہ کام اہل اُردو کو کروانا ہے۔ یوپی اے حکومت تو یہی دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اُردو کیلئے کچھ کرنا ہے لیکن بظاہر وہ بی جے پی سے خوف زدہ  نظر آتی ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ کہیں  ایسا کرتے ہوئے اس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی اور خوشامد پسندی کا الزام عائد نہ ہو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کو یہ یاد دلائیں کہ اب تو وہ خوف بھی نہیں رہا کیونکہ بی جے پی بھی اُردو کو اس کا جائز حق دیئے جانے کے حق میں ہے۔
    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس گفتگو کو یوں سرسری طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ آج اگر اس پر کچھ عمل نہیں بھی ہوا۔۔۔۔۔ تب بھی اس مباحثے کی اہمیت باقی رہے گی۔ آئندہ کچھ دنوں میں اسے ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے گا اوراس کی روشنی میں فیصلے ہوںگے۔ اس گفتگو کی اہمیت اس لئے کم نہیں ہونی چاہئے کہ اس موضوع کو سماجوادی پارٹی کے چودھری منور سلیم نے اُٹھایا ہے  اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام وِلاس پاسوان اور آزاد رُکن پارلیمان محمدادیب نے اس کی حمایت کی ہے بلکہ اسے اس طرح دیکھنا چاہئے کہ اس کی تائیدبی جے پی نے بھی کی ہے جسے ہم اُردو کا دشمن اور اس کی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے رہے ہیں۔  یعنی ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردووالے اس کا ’فالواَپ‘ کریں۔ سیاست دانوں کواس بات کیلئے آمادہ کریںکہ آئندہ پارلیمانی اجلاس میںاس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد ہوں۔ حکومت سے پوچھیں کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ وہ اس کا جائز حق دینے سے کترارہی ہے؟ ملائم سنگھ یادو، ممتا بنرجی  اور فاروق عبداللہ سے سوال کریں کہ ۲۰۱۰ء میں اُردو کی حالت زار پر لوک سبھا میں آپ نے بھی مرثیہ پڑھا تھا، اب کیا کررہے ہیں کہ جبکہ اس دوران  اپنی اپنی ریاستوں میں آپ کی حکومتیں بن چکی ہیں۔یقین جانئے کہ ووٹوں کی لالچ میں سیاست  داں  بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے انہیں مجبور کرنے کی۔ توکیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟n

No comments:

Post a Comment