Saturday 23 February 2013

Tanqeed hi nahi, Tareef bhi kijiye.....

یوپی حکومت کے مناسب و متوازن اور اقلیت نواز بجٹ پر بھی ناراضگی،کیا مسلمان شکایت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں؟
ہمیشہ تنقید ہی نہیں، کبھی کبھار تعریف بھی تو کیجئے
گزشتہ دنوں اترپردیش حکومت نے ۲؍لاکھ کروڑ روپوںسے زائد کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں ۱۱۴۲؍ کروڑ  روپےصرف اقلیتوں کیلئے مخصوص ہیں۔ سابقہ بجٹ کے مقابلے اس مرتبہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ میں ۳۰؍ فیصد کااضافہ کیاگیا ہے۔ یہ اضافہ معمولی نہیں ہے۔ ایسے میںضرورت اس بات کی تھی کہ اس اضافے پر اکھلیش حکومت کی تعریف کی جاتی تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اس سے ان تمام دیگر حکومتوں کو ترغیب بھی ملے جو مسلمانوں کی غمگساری کا دعویٰ تو کرتی ہیں، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ خیال رہے کہ اگر ہم صرف تنقید ہی کر تے ر ہےاور اچھے کاموں پر بھی انگشت نمائی کرنےلگے تو کوئی حکومت اورسیاسی جماعت مسلمانوں سے متعلق مسائل پر غور نہیں کرے گی۔ وہ سوچے گی کہ برا کرو تو برا ہوتا ہی ہے، اچھا کرو تو بھی برا ہوتا ہے، پھر کیوں کچھ کیا جائے؟ لہٰذا ہمیں اپنی روش تبدیل کرنی ہوگی اور تنقید کے ساتھ ساتھ تعریف کی بھی عادت ڈالنی ہوگی۔
  • قطب الدین شاہد

ایک شوہرنامدار تھے جنہیں بیوی کے ہر کام میں نقص نکالنے میں مہارت حاصل تھی۔ جس دن کھانے میں وہ آملیٹ بناتی، وہ کہتے کہ آج انڈا اُبال کربنانا چاہئے تھا۔ جس دن وہ انڈا اُبال کربناتی ، اس دن کہتے کہ آج آملیٹ ہونا چاہئے تھا۔  پریشان بیوی نے ایک دن عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آملیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ انڈا ابال کر بھی رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ شوہر نامدار کو پہلے آملیٹ پیش کروں گی، اگر حسب سابق اعتراض ہوا تو اُبلا ہوا، انڈا بھی لاکررکھ دوںگی۔ مگر ناقد شوہر کے آگے بیوی کی ایک نہ چلی۔ دونوں چیزیں ایک ساتھ دیکھ کرشوہر نے کہا کہ’’یہ کیا کیا تم نے! اس انڈے کو اُبالنا چاہئے تھااور اس کا آملیٹ بنانا چاہئے تھا۔‘‘
    کیاکچھ یہی کیفیت ہماری نہیں ہوگئی ہے۔  بات بات پر ہمیں تنقید کی عادت سی نہیں پڑ گئی ہے؟ گزشتہ دنوں  اترپردیش حکومت نے سالانہ بجٹ پیش کیا ۔ تسلیم کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ اور ہونا چاہئے تھا لیکن جتنا کچھ ہے، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اترپردیش کےسالانہ بجٹ میں ۱۰؍ فیصد کا اضافہ ہو اہے جبکہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ  میں۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ ہوا ہے۔ یہاں اقلیتوں سے مراد مسلمان ہی سمجھئےکیوں کہ یوپی میں سکھ، عیسائی، بدھ اور جین مذہب کے ماننے والوں کی آبادی بہت کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اس بجٹ کا مطالعہ کیا جاتااور اس بجٹ کے مناسب استعمال سے قوم کی پسماندگی کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی.......... مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بجٹ پیش کئے جانے کے فوراً بعد ہی بعض مسلم حلقوں سے اس پر تنقیدیں شروع ہوگئیں کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں ہے۔  بلا شبہ کچھ اورہونا چاہئے تھا۔ کئی  شعبے ایسے رہ گئے ہیں، جنہیں اکھلیش حکومت نے قصداً ، سہواً یا مصلحتاً نظر انداز کیا ہے، اس پرگفتگو ہونی چاہئے۔ انہوںنے اُردو اوراُردو میڈیم اسکولوںکے تعلق سے کچھ نہیں کہا بلکہ پوری طرح انہیں نظرانداز کیا ہے۔ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ اپنا حق طلب کرنے میں ہمیں قطعی پیچھے نہیں رہنا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اچھا ہوا ہے، اسے بھی برا کہا جائے۔ ذرا سوچئے کہ ان حالات میں دوسری حکومتیں مسلم کاز کیلئے کیوںکرسنجیدہ ہوںگی؟
    آگے بڑھنےسےقبل ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں سماجوادی پارٹی کا دفاع مقصود  ہے، نہ ہی ہمیں اکھلیش یادو اورملائم سنگھ سے کوئی ہمدردی ہے۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت  یا سیاسی جماعت ہو، اگر وہ کچھ اچھا کرتی ہے تو اس کا اعتراف کیاجائے، اس کی تعریف  اور پذیرائی کی جائے اور اگر کچھ غلط کرتی ہے تو فوری طور پر اسے ٹوکا بھی جائے۔ اس کے کام پر تنقید ہو، دباؤ ڈالا جائے اوراس پر لگام کسنے کی کوشش کی جائے اور اگر بات تب بھی نہ بنے تو انتخابات کے موقع پر اپنی ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اس عمل کی سزا دی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے عمل کو ہم سیاسی عینک سے ہی دیکھنے کی کوشش کرتےہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت سے کسی طرح کی ہماری  وابستگی ہے تو اس کا ہر عمل محبوب کی اداؤں کی طرح ہمیں اچھا اور پیارا لگتا ہے۔ اس کی خامیوں اور کوتاہیوں میں ہمیں خوبیوں کے کئی پہلو نظر آتے ہیں، اس کے اوٹ پٹانگ بیانات سے بھی طمانیت کااحساس ہوتا ہے، اس کے عیوب میں حسن کی جھلک نظر آتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر سطح پراس کا دفاع کرتے ہیں..... اس کے برعکس اگر ہمارا تعلق اس سیاسی جماعت کی کسی مخالف جماعت سے ہے تو رقیب روسیاہ کی مانند اس کی تمام اچھی باتیں بھی ہمیںبری معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے ہر عمل میں ہمیں فریب کے پہلو دکھائی دیتے ہیں، اس طرح ہم  اس کے ہر قدم پر تنقید کے کچھ نہ کچھ  بہانے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
    آج صورتحال یہ ہے کہ ہم کانگریس، سماجوادی، کمیونسٹ، آر جے ڈی، بی ایس پی، این سی پی، ایم این ایس، جے ڈی یو، تیلگو دیشم اور اس طرح کی دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں میں خود کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہمارے لئے ملت کا مسئلہ کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔  بات ہم ملت  ہی کی کرتے ہیں لیکن لب و لہجہ ہمارا سیاسی ہوتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب یوپی اے کی پہلی میقات میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سچر کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا، بعض حلقوں نے اس پر بھی تنقید کی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک اہم رکن  اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد سے ہم نے وہی سوال دُہرایا تھا کہ ’’اس کمیٹی کی تشکیل کا کیا مطلب؟ کیا اس سے مسلمانوں کو کچھ فائدہ ہوگا؟‘‘ اس کے جواب میںانہوں نے بہت اچھی بات کہی تھی۔انہوں نے کہاتھا کہ’’ کسی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ کمیٹی اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دے گی۔اس پر حکومت کچھ کرے گی یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا اوراس تعلق سے کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتا لیکن اس کمیٹی کی تشکیل سے بہر حال یہ فائدہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس بات کی نشاندہی ہوجائے گی کہ ہمیں کہاں اورکن پہلوؤں پرزیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘ بات بالکل درست ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کی جانب سے اقلیتوں کیلئے اعلان کئے گئے ۱۵؍  نکاتی پروگرام پر بھی تنقید کی گئی۔  اقلیتوں کودیئے جانے والے اسکالرشپ پربھی انگشت نمائی ہوئی۔ کہا گیا کہ کیا اس سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی؟ کیا مسلم طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی؟  اس کا جواب یہی ہے کہ نہ تو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی اور نہ ہی تمام طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی لیکن  اتنا تو ہوگا کہ ایک بڑا طبقہ اس سے ضرور فیضیاب ہوگا.... اورآج  ہوبھی رہا ہے۔
     آئیے ایک بار پھر آتے ہیں  اصل موضوع یعنی یوپی کے بجٹ پر۔ معترضین کا کہنا ہے کہ یوپی حکومت نے اقلیتوں  کے بجٹ میں صرف ۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ پھر کتنے فیصد کا اضافہ کیا جانا چاہئے تھا؟ اس کی توضیح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اقلیتوں کیلئے مخصوص کیاگیا بجٹ مجموعی بجٹ کا صرف ایک فیصد ہے جبکہ اقلیتوں کی آبادی ۱۸؍ سے ۲۰؍ فیصد ہے، لہٰذاآبادی کے تناسب سے ہی ان کیلئے بجٹ مخصوص کیا جاناچاہئے تھا۔  یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجموعی بجٹ سے ہونے والے کاموں سے اقلیتیں مستفیض نہیں ہوںگی؟ مجموعی بجٹ سے لکھنؤمیں اگر میٹرو ریل شروع ہوگی تو کیا اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ سبھی سرکاری اور امداد یافتہ پرائیویٹ ڈگری کالجوں میں طالبات کو گریجویشن تک کی تعلیم مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کیا اس سے مسلم طالبات فائدہ نہیں اٹھائیںگی؟ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے رام پور میں ۲؍ فلائی اووَر تعمیر کئے جائیںگے۔ کیا اس سے رام پور کی مسلم آبادی کا کوئی بھلا نہیں ہوگا؟  اعظم گڑھ میں  اگرڈگری زرعی کالج، مویشی میڈیکل سائنس ڈگری کالج اورپیرامیڈیکل کالج نیز الہ آباد  اورسدھارتھ نگر میں یونیورسٹیاں قائم کی جاتی ہیں تو کیا اس سے مسلم طلبہ کو آسانیاں نہیں ہوںگی؟ بجلی سے محروم  ہزاروں گاؤں میں اگر بجلی سپلائی کی جاتی ہے تو ان روشنیوںسے کیا مسلم گھروں کے اندھیرے دور نہیں ہوںگے؟ لکھنؤ میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی  پارک اور آئی ٹی سٹی قائم کی جاتی ہے کہ تو کیا  مسلم نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا اوران کے گھروں میں خوشحالی نہیں آئے گی؟بنیادی تعلیم کی مختلف اسکیموںکیلئے اگر ۲۱؍ ہزار ۵۲۰؍ کروڑروپے خرچ ہوںگے تو کیا ان سے ہمارے طلبہ کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ ریاست میں ۲۱؍ نئے گورنمنٹ آئی ٹی آئی کالج کھولے جائیںگے۔ کیا اسے ہمارے بچوں کوخود کفیل ہونے کا موقع نہیں ملے گا؟.......... ان تمام اسکیموںسے  یقیناً  ہم مسلمان بھی اتنا ہی  فائدہ اٹھائیںگے جتنا کہ دوسرے لوگ اٹھائیںگے۔ رہی بات اقلیتوں کے بجٹ کی تو وہ صرف ہمارا اپنا ہے۔
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ منظور شدہ بجٹ کو اقلیتوں کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس کیلئے نہ صرف حکومت سے رجوع ہوناچاہئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کے نمائندوں بالخصوص مسلم نمائندوںسے بھی ملاقات کرتے رہنا چاہئے تاکہ سال کے اختتام تک۱۱۴۲؍ کروڑ کی رقم سے کچھ تعمیری کام ہوسکیں۔

No comments:

Post a Comment