Tuesday 17 October 2023

BJP worried about its rebels/ Qutbuddin Shahid

 راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جےپی کی حالت ابتر، کانگریس کے عزائم اور اپنے باغیوں سے پریشان

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
بہت دنوں بعد ایساکچھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ انتخابی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم شروع کر دی  ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی ۹؍ اکتوبر کو پانچ ریاستوں  میں انتخابی شیڈول کااعلان کیا ہے لیکن اس سے بہت پہلے ہی کئی ریاستوں میں امیدواروں کے نام اعلان کئے جاچکے ہیں۔ اس معاملے میں تلنگانہ کی ’بی آر ایس‘  نے دوسری جماعتوں پر بازی مار لی ہے۔ اس نے ڈیڑھ ماہ قبل ۲۱؍ اگست کو ہی ریاست کے  ۱۱۹؍ میں سے ۱۱۵؍ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ دوسرے نمبر پر بی جے پی ہے جس کی جانب سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے کئی انتخابی حلقوں کیلئے امیدواروں کے نام ظاہر کئے جاچکے ہیں لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی میں بغاوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
تاریخوں کے اعلان سے قبل انتخابی مہم کے آغاز کے علاوہ بھی اس بار کے انتخابات میں کئی نئی باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ’پارٹی وِد اے ڈِفرینس‘ کا نعرہ بلند کرنےوالی بی جے پی کو اپنی پارٹی میں نظم و نسق پر بہت ناز تھا لیکن اس مرتبہ سب سے زیادہ بد نظمی بی جے پی ہی میں دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کچھ فرق کے ساتھ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل جیسا سماں نظرآ رہا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ اُس وقت کانگریس کے لیڈران ، بی جے پی کی طرف جا رہے تھے اور اب بی جے پی سے نکل کر لوگ کانگریس میں پناہ لے رہے ہیں۔ ہوا کا رُخ بدل رہا ہے،   یہ صاف  دکھائی دے رہا ہے۔
بی جے پی میں مچی یہ بھگدڑ اور افراتفری کا ماحول کیا صرف ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہے؟ یا اور کوئی بات ہے؟  بات اگر صرف امیدواری کی ہوتی تو ٹکٹوں کے اعلان سے قبل یہ لیڈران پارٹی نہیں چھوڑتے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے کئی بڑے لیڈروں نے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے سے قبل ہی پارٹی چھوڑ دی ہے جبکہ راجستھان میں ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ چھتیس گڑھ  کے ۷۷؍ سالہ سینئر قبائیلی لیڈر’نند کمار سائی‘ نے  بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں جب شمولیت اختیار کی تھی، تب تک بی جے پی کی طرف سے ٹکٹوں کااعلان نہیں کیا گیا تھا۔ تین بار لوک سبھا اور تین بار اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کرنے والے نند کمار سائی چھتیس گڑھ بی جے پی اور متحدہ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔  اسی طرح  مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر سمندر پٹیل نے ۸۰۰؍ گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سمندر پٹیل سے قبل دوسرے کئی لیڈران بھی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں جن میں پرمود ٹنڈن،رام کشور شکلا، دنیش ملہار، وریندر رگھوونشی، بھنور سنگھ شیخاوت،ماکھن سنگھ سولنکی اور گرجا شنکر شرما کے نام قابل ذکر ہیں۔ بی جےپی میں اس بھگدڑ کا آغاز مئی ۲۰۲۳ء میں اُس وقت ہوا تھا جب مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کیلاش چندر جوشی کے بیٹے  دیپک جوشی نے کانگریس جوائن کی تھی۔ انتخابات سے قبل لیڈروں کا پالا بدلنا معمول کی بات ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن لیڈروں کے اس طرح پالا بدلنے ہی سے ، اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی ہوا کس طرف بہہ رہی ہے؟
پانچ ریاستوں کے اس الیکشن میں ایک اور نئی بات دیکھنے کو مل رہی ہے۔  برسوں بعدکانگریس کے رویے میں  ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب وہ دم خم کے ساتھ الیکشن لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسے گزشتہ انتخابات میں بھی کامیابی ملی تھی لیکن اُس کامیابی میں کانگریس کا کردار کم، خود بی جے پی کا کردار زیادہ تھا۔ تینو ں ہی ریاستوں میں کانگریس کو ’حکومت مخالف لہر‘ کا فائدہ ملا تھا لیکن اس بار وہ بات نہیں ہے۔ تین میں سے ۲؍ ریاستوں میں خود کانگریس کی حکومت ہے جہاں اسے ’اینٹی اِن کم بینسی‘ کا سامنا ہے لیکن کانگریس اِن حالات سے قطعی خوف زدہ معلوم نہیں ہوتی۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی کے سامنے کھڑی ہے۔ یہ حوصلہ اسے ہماچل  اور کرناٹک کے انتخابات میں نمایاں کامیابی سے ملا ہے۔ کرناٹک کی جیت کا سب سے زیادہ اثر تلنگانہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں کانگریس پورے فارم میں ہے جبکہ اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی ہے۔ کانگریس کے اس عزم  نے بی جے پی کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اسے اپنی جیت کا سلسلہ رُکتا ہوا  محسوس ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر اب اس کے باغیوں نے پوری کردی ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اس حالت کو کیوں کرپہنچی؟ کیا وہ کمزور ہوگئی ہے؟ کیا  اس کا طلسم ٹوٹ چکا ہے؟ کیا عوام سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں؟ کیا کانگریس کے تئیں لوگوں کا رویہ بدل گیا ہے؟ یا اور کوئی وجہ ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر سوالوں کے جواب ’نہ‘ میں ہیں۔ بی جے پی کمزور نہیں ہوئی ہے اور جب تک اس کے پاس سی بی آئی،  ای ڈی، انکم ٹیکس جیسے محکموں کی باگ ڈور اور ’پی ایم کیئر فنڈ‘ جیسا خزانہ ہے، اس کی کمزوری کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی طرح اس کا طلسم بھی پوری طرح سے نہیں ٹوٹا ہے،اسلئے آخرالذکر دونوں سوالوں کے جواب بھی ’نہ‘ میںملتےہیں۔
اس کے باوجود اگر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اجستھان میں زعفرانی پارٹی  کی حالت دگرگوں ہے تواس کیلئے نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی ذمہ دار ہے جسے پارٹی کو یہاں تک پہنچانےکا کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ دراصل یہ پارٹی پر بالادستی کی جنگ ہے۔ مودی اور شاہ کا ہدف ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی ہے،اس کیلئے انہیں  اسمبلی انتخابات میں ناکامی بھی گوارا ہے۔ یہ بات تھوڑی عجیبضرور ہے لیکن اس پہلوکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں کامیاب ہونے کے بعد بھی لوک سبھا انتخابات میں جیت کی خواہش کی  جاسکتی ہے، پھر ناکامی جیسی صورتحال کیوں پیدا کی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ قطعی نہیں چاہتے کہ راجستھان،  مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں کامیابی کی صورت میں اس کا کریڈٹ کسی بھی طرح سے وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان   اور ڈاکٹر رمن سنگھ کو ملے۔ اس جوڑی کے نزدیک ’مقامی لیڈروں کے سر سہرا بندھے‘ اس سے بہتر ان ریاستوںمیں پارٹی کا ہار جانا ٹھیک ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں یا اس کے بعدان کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے۔ مودی اور شاہ  جانتے ہیں کہ انہیں کنارےلگادینے کے بعد بھی ہار جیت کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں رہنے والا ہے،لہٰذا لوک سبھا انتخابات متاثرنہیں ہوںگے۔ یہی سبب ہے کہ مودی اورامیت شاہ نے تینوں ریاستوں کی ’اعلیٰ قیادت‘ کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ اب انہیں اپنی اپنی ریاستوں سے باہر دیکھنے کی نہ ضرورت محسوس ہورہی ہے، نہ ہی ان میں اس کی جرأت رہ گئی ہے۔
یہ مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ان کی ہرحکمت عملی کامیاب ہی ہو اور ہر بار اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہو۔

Monday 9 October 2023

Caste Survey Opposition and Government / Qutbuddin Shahid

 ذات پر مبنی سروے، اپوزیشن کا ایک تیر سے کئی شکار

خواتین کیلئے ریزرویشن کا شوشہ چھوڑنے  اور جنوری میںرام مندر کے افتتاح کا  اعلان کرکے مودی سرکار بہت خوش اورمطمئن تھی لیکن ان حربوں سے وہ جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتی تھی، وہ اب آسان نہیں رہا، ذات پر مبنی سروے کی رپورٹ سے اپوزیشن نے اس کا سارا کھیل خراب کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ہندوستان میں سیاست کامیدان سماجی خدمت کا شعبہ نہ ہوکر شطرنج کا کھیل ہو گیا ہے جہاں بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پارٹیوں کا نفع نقصان دیکھ کر  چالیں چل رہی ہیں ۔یہاںحکومتی سطح پر ہونے والے فیصلے بھی اکثر سیاسی ہوتے ہیں، جس کے محور و مرکز میں ملک اور عوام نہیں ہوتےبلکہ اپنی پارٹی اور اس کا مفاد ہوتا ہے۔ان فیصلوں سے عوام کا فائدہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ لیکن  مقصدعوام کا فائدہ نہیں ہوتا۔ حالیہ کچھ مہینوں  کے دوران  ملک میںہونے والی سیاسی سرگرمیوں کاجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کس طرح سے شہ اور مات کا کھیل چلا ہے۔
وطن عزیز میں حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن  اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ۲۶؍ جماعتوں  کے اتحاد نے جس دن  اپنے گروپ کا نام ’انڈیا‘ رکھا،اسی دن سے یہ کھیل دلچسپ ہوگیا اور چالیں تیزی کے ساتھ چلی جانے لگیں۔ یہیں سے حکمراں محاذ کی بوکھلاہٹ کا اظہار بھی ہونے لگا۔ مہاراشٹر کی سیاست میں شہ اور مات کا کھیل جاری ہی تھا۔ اسی دوران ’انڈیا‘ اتحاد کی ممبئی میں تیسری میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ پرعوام کی توجہ مرکوز نہ ہو اور اسے میڈیا میں زیادہ کوریج نہ مل سکے،اسلئے مودی حکومت  نے ایک چال چلی اور پانچ روزہ ’خصوصی اجلاس‘ کاا علان کردیا۔اسے مودی سرکار کا ’ماسٹراسٹروک‘ قرار دیا گیا اور پھر اس پر مباحثوں اور قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو گیا۔  اس دوران ’ذرائع‘ سے ملک کو کئی ایجنڈے فراہم کئے گئے جن میں ملک کے نام سے انڈیا کو ختم کرکے صرف بھارت کرنے، ملک میں وَن نیشن ، وَن الیکشن نافذ کرنے، خواتین ریزرویشن بل پاس کرنے، روہنی کمیشن کی سفارشات کو عام کرنے، جی۔۲۰؍کو بڑی کامیابی کے طورپرپیش کرنے  اور اُس وقت کے ای ڈی سربراہ سنجے مشرا کیلئے ایک نئی پوسٹ ’چیف انویسٹی گیشن آفیسر‘ تخلیق کرنے جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔اسی دوران مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں تین وزیروں سمیت ۷؍ اراکین پارلیمان کوامیدوار بنا دیا گیا۔ حکمراں جماعت کا خیال تھا کہ ان چالوں سے اپوزیشن اتحاد سراسیمہ ہوجائے گا اور  ان بھاری بھرکم موضوعات کی آندھی میں اس کی سیاست خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائے گی.... لیکن ایسا نہیں ہوا۔  
ان تمام چالوں پربہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو کی چال بھاری پڑی۔  ذات کی بنیاد پر سروے کرواکروہ پہلے ہی بی جے پی پر سبقت حاصل کرچکے تھے۔  رہی سہی کسر انہوںنے سروے کی رپورٹ پیش کرکے پوری کردی۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ۲۰۲۴ء سے قبل ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جاسکے گی۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین کیلئے ریزرویشن بل پیش کرکے وہ بہت خوش تھی۔اپنی دانست میں اس نے’ملک کی آدھی آبادی کو رام کر کے‘ بڑا تیر مار لیا تھا۔  اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ۵؍  ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں خواتین ریزرویشن کی مدد سے کم از کم ۲؍ ریاستوں (راجستھان اور مدھیہ پردیش) میں  وہ فتح حاصل کرلے گی اور پھر جنوری میں رام مندر کا افتتاح کرکے لوک سبھا انتخابات میں بھی بازی مار لے گی، لیکن ذات پر مبنی سروے رپورٹ نے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ کانگریس سمیت ’انڈیا‘ اتحاد میںشامل تمام جماعتوں  نے اس رپورٹ کی تائید کرکے اور قومی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ کرکے بی جے پی سے دن کا سکون اورراتوں کی نیند چھین لی ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کہہ کر اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ ’’ذات کی بنیاد پر مردم شماری دراصل ملک کا سماجی ایکسرے  ہے۔ اس تعلق سے ڈیٹا آنے کے بعد ملک سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکے گا۔ او بی سی خواتینکی حصہ داری بھی طے ہوگی۔ آبادی کے لحاظ سے اگر سب کو ان کا حصہ دینا ہے تو ذات کی بنیاد پر مردم شماری لازمی ہے۔‘‘
۲۰۱۹ء کے لوک سبھا اور ۲۰۲۲ء کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی جس ۲۰۔۸۰؍ کا فارمولہ استعمال کرکے اقتدار میں آئی تھی، اب وہی فارمولہ اس پر پلٹ گیا ہے۔  وہ ۲۰؍فیصد مسلمانوں کے خلاف ۸۰؍ فیصد ہندوؤں  کو صف آرا کرنا چاہتی تھی لیکن ذات پرمبنی سروے رپورٹ کے آنے کے بعد ۲۰؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کے خلاف جس کی بی جے پی نمائندگی کر رہی ہے،۸۰؍ فیصد پسماندہ طبقات کے ایک ساتھ آجانے کے پورے آثار ہیں اور اسی آثار نے اس کے اوسان خطا کررکھے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رپورٹ میں آخر ایسی کون سے بات ہے کہ خود کوہندوتوا کے ساتھ ہی او بی سی کا چمپئن  سمجھنے والی بی جے پی اتنی زیادہ خوفزدہ ہے؟’سی ایس ڈی ایس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ء  کے لوک سبھا   الیکشن تک بی جے پی کو  ۲۳۔۲۲؍ فیصد او بی سی  ووٹ ملا کرتے تھے لیکن ۲۰۱۴ء میں اسے۳۴؍ فیصد ووٹ ملے  اور ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد  دگنی ہوگئی یعنی اسے ۴۴؍ فیصد سے زائد او بی سی  ووٹ ملے۔ اب وہ یہ سوچ کر خوفزدہ ہے کہ کہیں  اس رپورٹ کے آئینے میں یہ۴۴؍ فیصد لوگ خود کو دیکھنے نہ لگیں۔ ابھی تو صرف اعدادو شمار سامنے آئے ہیں جبکہ ڈیڑھ دو ماہ میں ذات کی بنیاد پر سماج کا معاشی ڈیٹا بھی سامنے آجائے گا۔ بہار کی حد تک ہی سہی، یہ بات سامنے آئے گی کہ کس ذات کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟ کارپوریٹس گھرانوں پر کس ذات کا غلبہ ہے؟ 
زمینوں پر مالکانہ حقوق کس کے ہیں؟  یونیورسٹیز میں کس کی کتنی نمائندگی ہے؟ اعلیٰ افسران اور ارب پتیوں کی تعداد کا تناسب کیا ہے؟پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور منتخب نمائندوں میں کس  ذات کی کتنی نمائندگی ہے؟
  یقینی طور پر ’مین اسٹریم میڈیا‘ میں  اس کا تذکرہ نہیں ہوگاکیونکہ وہاں پر بھی اعلیٰ ذات کا غلبہ ہے ۔ مطلب یہ کہ اس رپورٹ سے میڈیا کی قلعی بھی اُتر جائے گی۔ ڈیٹا سے نظریں چرانے والی  بی جے پی کو ڈراِس بات کا ہے کہ کہیں بحث کا رُ خ اس جانب نہ مڑ جائے کہ ملک کے ۸۴؍ فیصد پسماندہ طبقات کو آخر کب تک پسماندہ رکھا جائے گا اور ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کا ملک کے ۸۰؍ فیصد وسائل پر  یہ قبضہ آخر کب تک رہے گا؟ وہ اس وجہ سے بھی ڈر ی اور سہمی ہوئی ہے کہ کہیں اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ ملک کے وسائل پر پوری طرح سے قابض ان ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کو ’ای ڈبلیو ایس‘ کے تحت ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا حقدار کیوں قرار دیا گیا جبکہ ۶۳؍ فیصد او بی سی کو صرف ۲۷؍ فیصد ہی ریزرویشن حاصل ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ خوف اسے اس بات کا ہے کہ اس  رپورٹ کی وجہ سے کہیں اس کا آزمودہ ’ہندو مسلم‘ نامی  برہماستر ناکام نہ ہوجائے،جس کی وجہ سے وہ ابھی تک الیکشن میں کامیابیاں حاصل کرتی آرہی ہے؟وہ اسلئے کہ اس سروے میں مسلمانوں کی آبادی کوبھی او بی سی اور اعلیٰ ذاتوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے....  ایسا کرکے نتیش اور تیجسوی نے اس غبارے کی ہوا نکال دی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ملک میں ہندوتوا کی سیاست پرواز کرتی رہی  ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوری میں بی جے پی کی رام مندر کے افتتاح کی چال کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ کیونکہ گمان غالب ہے کہ اسی دوران نتیش اور تیجسوی ذات پرمبنی سروے  کے بعد اس کا معاشی اور سماجی ڈیٹا جاری کریں گے اور بہت ممکن ہے کہ یہی وہ وقت ہو جب ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اقتدار والی ریاستوں میں ذات کی بنیاد پر سروے کاحکم نامہ جاری کردیں۔گویا ذات پر مبنی سروے کو موضوع بحث بنا کر اپوزیشن نے نہ صرف ہندوتوا کی سیاست کی دھار کند کردی ہے بلکہ 
ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔

 ذات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن سے متعلق اہم نکات

nہندوستان میں ۱۸۸۱ء سے ہر دس سال پر باقاعدہ مردم شماری ہوتی  رہی ہے۔ اس میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری بھی شامل ہے۔ ۱۹۳۱ء  میں ہونے والی مردم شماری کے بعد سے ذات کا کالم ہٹا دیا گیا۔
nآزادی کے بعد ایس سی /ایس ٹی کی الگ سے مردم شماری ہوتی رہی ہے، لیکن اس میں بھی ان کی ذاتوں کی نشاندہی نہیں کی گئی بلکہ اس کی تمام ذاتوں کو ’ایک‘ مان کر ان کی آبادی کا شمار کیاگیا۔ 
nایک اندازے کے مطابق ملک میں ۴؍ ہزار سے زائد ذاتیں ہیں۔
nایس سی ایس ٹی کے بعد دیگر پسماندہ ذاتوں کی نشاندہی کیلئے ۱۹۵۳ء میں ’کاکا کالیلکر‘ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ایک فہرست تیار کی اور اسے’او بی سی‘ کا نام دیا۔ کمیٹی نے اس کیلئے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن دینے کی بھی سفارش کی۔
nمرکز نے اُ س وقت اس رپورٹ پرعمل نہیں کیا البتہ تمل ناڈو اورآندھرا پردیش جیسی کچھ ریاستوں میں اسے کچھ حد تک نافذکیا گیا۔
nملک میں ۱۹۷۷ء میں پہلی غیر کانگریسی حکومت تشکیل پائی توایک بار پھر یہ مطالبہ زورپکڑا۔ اس طرح ۱۹۷۸ء میں بہار کے سابق وزیراعلیٰ بندیشوری پرساد منڈل کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بتایا کہ ملک میں او بی سی کی آبادی ۵۲؍ فیصد ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب ۱۲ء۵؍ فیصد اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں صرف ۴ء۷؍ فیصد  ہے۔ آبادی سے متعلق جانکاری کیلئے انہوں نے بھی ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے ڈیٹا ہی سے استفادہ کیا تھا۔
nانہوں نے او بی سی کیلئے تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں۵۲؍ فیصد او بی سی آبادی کیلئے۲۷؍ فیصد ریزرویشن کی سفارش کی۔ ۲۷؍ فیصد پرمحدود کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل ایس سی کو ۱۵؍ فیصد اور ایس ٹی کو ۷ء۵؍ فیصد  ریزرویشن دیا جارہا تھا اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا تھا۔
nاس سے قبل ۱۹۶۲ء میں’ ایم آر بالا جی بنام اسٹیٹ آف میسور‘ کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ ۵۰؍ فیصد کی حد مقرر کی تھی۔
nاس فیصلے کو ۱۹۹۲ء میں ’اندرا ساہنی‘ معاملے میں سپریم کورٹ کی ایک ۹؍ رُکنی بنچ نے بھی توثیق کردی تھی۔اس کے بعد   ریزرویشن کے معاملے پراکثراسی ۵۰؍ فیصد کی حد سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔
 nلیکن ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن سے قبل مرکزی حکومت نے اعلیٰ ذاتوں کیلئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا راستہ ہموار   کرتے ہوئے ’ای ڈبلیو ایس‘ کا قانون متعارف کرایا۔ اس طرح قانون  سازی کے ذریعہ۵۰؍ فیصد کی حد (صرف ایک معاملے میں) توڑ دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی سے اب اس حد کو قانون سازی کے ذریعہ پوری طرح سے ختم کئے جانے کا    مطالبہ کیا جارہا ہے اور اس کیلئے ’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘ کا مطالبہ کیاجارہاہے۔

Monday 2 October 2023

Wali Rahmani a courageous young man who dreams and sacrifices his sleep for the children of the nation/ Qutbuddin Shahid

 ولی رحمانی 

قوم کے بچوں کیلئے خواب دیکھنے  اور اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کرنے والا حوصلہ مند نوجوان

قطب الدین شاہد

shahid.qutbuddin@mid-day.com


کلکتہ  کےایک خوشحال اور متمول گھرانے سے تعلق رکھنے  والا ۱۷؍ سال کا ایک نوعمر ایک خواب دیکھتا ہے۔ ایک بڑا خواب، ایک ایساخواب جو اسے بے چین کردیتا ہے۔ یہ خواب وہ اپنے لئے نہیں، قوم کے بچوں کیلئے دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کردیتا ہے۔  اس نوعمر کا نام ولی رحمانی ہے۔  وطن عزیز میں عام طور پر یہ عمرکھانے اور کھیلنے کی قرار دی جاتی ہے۔ کوئی لڑکا اگر بہت زیادہ ذمہ دار رہا تو اسے اپنے کریئراور اپنے والدین کے ارمان کی فکرستاتی ہے، جس کیلئے وہ محنت کرتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کردیتا ہے۔

لیکن ولی رحمانی ان لڑکوں اور نوجوانوں  سے کچھ مختلف ہے۔ اس نوجوان کا عزم اس کی عمر سے کہیں زیادہ جوان اور اس کا حوصلہ اس کے قد سے کئی گنا زیادہ بلند ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تو آج کی نسل اس بات پر فخر کرے گی کہ اس نے سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کا دور تو نہیں دیکھا لیکن ہمارے ان  اکابرین نے مسلمانوں  سے جس رُخ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس پر چلنے والے نوجوان ولی رحمانی کا دور دیکھا ہے۔

ولی رحمانی کی عمر اب ۲۲؍ سال ہوگئی ہے،اسی سال انہوں نے ’جامعہ ہمدرد‘ سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک ویڈیو   بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے قوم  سے قوم کیلئے فنڈ کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کے بعد محض ایک ہفتے میں انہیں ساڑھے پانچ کروڑ روپے مل گئے۔ ان کا ٹارگیٹ ۱۰؍کروڑ روپوں کا تھا لیکن محض ایک ہفتےمیں ملک کے طول و عرض سے کسی ایک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ دوسرے اکاؤنٹس سے پیسوں کی منتقلی ایک نئی اور غیر معمولی بات تھی۔ اس کی وجہ سے پورا بینک اَلرٹ ہوگیا، ’اے آئی‘ بھی حرکت میں آئی اور اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کے تمام ذرائع مسدود کردیئے گئے۔ 

انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ولی رحمانی نے بتایا کہ اس کے بعد بینک  کے ذمہ داران نے ہم سے رابطہ قائم کیاتو ہم نے انہیں اپنی اپیل اور اپنے پروجیکٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ انہوں نے زیر تعمیر اسکول کی جگہ کا دورہ کیا او ر ساری روداد سن کر متاثر بھی ہوئے۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ مستقبل میں وہ ’کارپوریٹ سوشل رسپانس بلیٹی ‘ (سی ایس آر ) فنڈ کی سفارش بھی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ اکاؤنٹ میں رقموں کی منتقلی کے ذرائع بلاک کردیئے گئے تھے، جو فوری طورپر ’اوپن‘ نہیں ہوسکتے تھے،اسلئے دوسرا اکاؤنٹ کھولنا پڑا۔ اس اکاؤنٹ میں بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے آچکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طورپر ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے ہیں۔ان کا پروجیکٹ بہت بڑا ہے لیکن وہ فی الحال ۲؍ ایکڑ زمین پر ایک اسکول بلڈنگ، لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ ہوسٹل اور کھیل کا میدان بنانا چاہتےہیں، جہاں اسلامی ماحول میں عالمی معیار کی تعلیم کا انتظام ہوسکے۔

۱۷؍ سال کے ایک لڑکے کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی؟ اس راہ پر وہ آگے کیسے بڑھا؟ اس راستے میں اسے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟ اسے حوصلہ کہاں سے ملا؟ ان سارے سوالوں کا جواب انہوں نے نہایت اطمینان سے دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بات ۲۰۱۸ء کی ہے جب میں دہلی کے ایک انٹرنیشنل اسکول میں بارہویں جماعت کا  طالب علم تھا۔ ذاتی طورپر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں اپنی کار میں ہیٹرلگا کر سردیوں کا بہ آسانی مقابلہ کر رہا تھا لیکن دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے جب میں سردیوں میں ٹھٹھرتے اور اپنی ماؤں کی گود میں دُبکتے ہوئے بچوں کو دیکھتا تو نظریں چرانی پڑتی تھیں۔ میں انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا لیکن میرے پاس انہیں اس ’عذاب‘ سے باہر نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ اسلئے میں نظریں پھر لیتا تھا۔ ان کی غربت پر مجھے ترس آتاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری طرح یہ بھی تعلیم حاصل کریں  اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے حصہ دار بنیں لیکن غریبوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔ پھراچانک خیال آیا کہ سب نہیں تو کم از کم  ۱۰؍ بچوں کی کفالت تو کر ہی سکتا ہوں۔ اس کے بعد ۲۰؍ سال کی عمر میں ۱۰؍ یتیم بچوں کا ’باپ‘ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ ان ۱۰؍ بچوں پر ۲۰۔۱۵؍ سال تک محنت کروں گا، انہیں تعلیم دلاؤں گا اور سماج میں قابل ذکر مقام دلانے کی کوشش کروں گا اور پھران کے ساتھ مل کر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کروں گالیکن بچوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ۱۰؍ سے ۱۱؍ ہوئے، پھر ۱۳۔۱۲؍ ہوتے ہوئے ۲۰؍ تک پہنچے۔ میں انہیں منع نہیں کرسکا۔ اس کے بعدہم نے باقاعدہ اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں آج ۳۰۰؍ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ۱۵۰۰؍ بچے داخلے کے منتظر ہیں۔‘‘  

ولی رحمانی  نے بتایا کہ جب اس مہم کا خاکہ ہم نے اپنے اہل خانہ کے روبرو پیش کیا تو سب سے پہلے میری والدہ نے میری حوصلہ افزائی کی اوربطور فنڈ انہوں نے ۵۰؍ہزار روپے کی رقم عنایت کی۔ اس کے بعد میرے گھر کی ایک ملازمہ نے ۵۰۰؍ روپے دیئے۔ خاندان اور احباب کی کچھ اور خواتین بھی آگے آئیں، کسی نے اپنی انگوٹھی دی تو کسی نے کچھ اور بیچ کر رقم فراہم کی.... اور اس طرح میرے حوصلے کو مہمیز ملی۔‘‘ کاغذات اور دستاویزات کے مرحلے پر ولی رحمانی نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے چیریٹی کمشنر میں ٹرسٹ کے رجسٹریشن کے ساتھ ہی انکم ٹیکس محکمے سے بھی ادارے کو رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ اسی طرح ادارے کیلئے پین نمبر، ۸۰؍ جی اور سی ایس آر نمبر بھی حاصل کرلیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج یہ نوجوان نہ صرف قوم کیلئے ایک بڑی امید بن کرسامنے آیا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کا رول ماڈل بھی بن گیا ہے۔ 

  یہاں تک پہنچنے کیلئے ولی رحمانی کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ عمر کے اس مرحلے پرجبکہ لوگ اپنے کریئر کے تئیں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو ایک سال کیلئے موخر کردیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے’الہادی ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کی تشکیل کی اوراس کے تحت ’امیداکیڈمی‘ قائم کی ، جہاں آج ۳۰۰؍ غریبوں کے بچے امیروں جیسی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہاں ’اسمارٹ کلاسیز‘ میں سی بی ایس ای  بورڈ کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں فی الحال نرسری سے ششم جماعت تک تعلیم  کا نظم ہے جو’ فطری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ چند برسوں میں بارہویں جماعت تک پہنچ جائے گا۔  انہوں نے بتایا کہ ’’ان کے تمام کلاسیز جدید ٹیکنالوجی  سے ہم آہنگ ہیں جہاں آئندہ  برسوں میں اے آئی، کوڈنگ اور روبوٹکس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ فی الحال یہاں عربی بطور ایک زبان پڑھائی جاتی ہے۔‘‘

’اُمید اکیڈمی‘کی ایک خاص بات جو اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر پہلی ’گھنٹی‘ اساتذہ کیلئے لگتی ہے جس میں تمام اسٹاف کودینیات کے ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

ولی رحمانی آج ایک مقبول نام ہیں۔ فیس بک پر اُن کے۸؍ لاکھ ، یوٹیوب پر۵؍ لاکھ ۲۶؍ ہزار، انسٹا گرام پر ایک لاکھ ۶۳؍ ہزار اور ٹویٹر پر ۷۰؍ ہزار سے زائد فالوورس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج ان کی ایک اپیل پر۷؍ کروڑ روپوں کا فنڈ آسانی سے جمع ہوگیالیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر میںتھک گیا تھا۔  لوگ بلاتے تھے لیکن گھنٹوں باہر بٹھا کر ہزار پانچ سو دے کر رخصت کردیتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ’کراؤنڈ فنڈنگ‘ کے ذریعہ پیسے جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اس دوران کچھ عناصرکی جانب سے رکاوٹیں بھی کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے عقیدے پرحملے کئے گئے۔ کچھ نے مجھے بریلوی تو کچھ نے دیوبندی کہہ کرفنڈ روکنے کی اپیل کی۔ کچھ نے خاتون ٹیچرس کا چہرہ کھلا ہونے پر مجھے لبرل ہونے کا طعنہ دیا تو کچھ نے طالبات کو حجاب پہننے پرمجبور کرنے کاالزام عائد کیا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ میرے یہاں تقریباً ہرمسلک کے اساتذہ ہیں۔‘‘ 

انہوں نےعوام سے وعدہ کیا ہے کہ۸؍ ماہ میں وہ اس بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوکر ویڈیو بنائیں گے جس کا انہوں  نے خواب دیکھا ہے اوراس کے بعد وہ کسی اور شہر میں اسکول کی دوسری عمارت سے متعلق منصوبہ بنائیں گے۔  انہوں نے کہا کہ ’’یہ میری پہلی اپیل ہے ۔ اگر یہ مہم کامیاب رہی تو  اس طرح سے آئندہ میں باربار اپیل کروں گا اور امیدکرتا ہوں کہ میری ہر اپیل پر لوگ لبیک کہیں گے ان شا ء اللہ۔‘‘

۲۲؍ سالہ اس نوجوان کے عزائم کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی پریشانی انہیں ان کے مقصد سے روک سکے گی۔  بیکل اُتساہی نے شاید اسی قبیل کے نوجوانوں کیلئے یہ بات کہی تھی کہ :

عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا

کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا