Wednesday 30 September 2015

Qurbani ki video graphy

قربانی کی ویڈیوگرافی

عید قرباں،اللہ کی محبت میں سب کچھ قربان کردینے اوراطاعت و فرمانبرداری کی انتہا تک پہنچنے کا پیغام دیتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت کم اس پیغام تک پہنچنے یا اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عید قرباں کو ایک طبقے نے نمائشی بنا کر تو رکھ ہی دیا تھا ، اب کچھ لوگ اسے سنگین بھی بنانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
    بلاشبہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رواداری کا حامل ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ برادران وطن کے ایک طبقےکی جانب سے  مذہب کے نام پر ہونے والی شر انگیزیاں خالص سیاسی ہیں،وہ  ان کے ’جذبات ‘ کا احترام کرتا ہے  ۔اور کیا بھی جانا چاہئے کیونکہ ہمارا مذہب رواداری  کی تعلیم دیتا ہے لیکن ہم میں بھی چند شرانگیز عناصر ایسے ہیں جن کی وجہ سے پوری قوم  پر حرف آتا ہے۔یہ طبقہ رواداری کو بزدلی سے تعبیر کرتا ہے لہٰذا کسی بھی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ قربانی کے بعدگوشت کو ایسے ہی ٹھیلے پر کھلا رکھ کر غیرمسلم محلوںسے گزرتے ہوئے دندناتے چلے جاتے ہیں۔ ہاتھ میں چھریاں بھی بے نیام رکھتے ہیں اور خون میں اپنے کپڑوں کو بھی لت پت رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے میں انہیں ’مزہ‘ آتا ہے۔  
     اس طرح کی حرکتیں قابل قبول ہرگز نہیں ہوسکتیں لیکن اس سے زیادہ قبیح حرکتیں امسال دیکھنے میں آئیں۔ ایام قربانی میں جانوروں کی قربانی سے لے کر ان کی کھال نکالنے اور بوٹیاں بنانے تک کے اس پورے عمل کی نوجوانوں کی جانب سے ویڈیو گرافی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ جیسے ہی کسی جانور کو قربانی کیلئے گرایا جاتا، اینڈرائیڈ فون رکھنےوالے نوجوان اس کی ویڈیو شوٹنگ کاآغاز کردیتے۔ خدا جانے، اس ویڈیو کا کیا مصرف  ہے اور وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ ایک دو نوجوان ہوں تو ڈانٹ ڈپٹ کر یا کسی سے کہہ سن کر انہیں منع بھی کردیں کہ بھائی میرے ! یہ کیا کررہے ہو؟ لیکن قربان گاہ میں جتنی چھریاں حرکت میں تھیں، اس سے کہیں زیادہ موبائل  سے’کام‘ ہورہا تھا۔   خدانخواستہ ان میں سے کسی  نادان نے اگر اس کا ویڈیو کسی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا تو کیا موضوع کی تلاش میں سرگرداں  فرقہ پرست عناصر اس کا’فائدہ‘ نہیں اٹھائیں گے۔ ابھی تو وقت گزر گیا ہے لیکن بڑے بزرگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے نوجوانوں کوباز رکھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بیلوں  کے ذبیحہ پر پابندی کا مسئلہ مذہبی نہیں، خالص سیاسی ہے اور تعصب کی بنیاد پر ہے لیکن ہم انہیں کیوں موقع دیں کہ قانون کے دائرے میں رہ کر ہونےوالی قربانی بھی ایک مسئلہ اور ایک ایشو بنے۔   اسی طرح جگہ جگہ گندگیوں کاانبار بھی دوسروں کو مسلمانوں کے ساتھ ہی عید قرباں اور اسلام پر انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔  حالانکہ ہمارا مذہب  امن، رواداری اور ایثار وقربانی کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم نہ صرف جانور قربان کریں بلکہ اپنے عمل سے قربانی کے اس پیغام کو بھی عام کریں جو اس سنت ابراہیمی کا مقصد ہے  ۔

Studenst and guardian

طلبہ اور سرپرست

والدین اور اساتذہ کی رسمی ملاقات جو پیرنٹس ٹیچر اسو سی ایشن (پی ٹی اے)کی میٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے،اس کا انعقاد عام طور پر اسکولی سطح تک ہوتا ہے البتہ کہیں کہیں جونیئر کالجوں میں بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے لیکن سینئر کالجز، بالخصوص پروفیشنل کالجز میں کبھی سننے میں نہیں آیا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ سے  والدین  نہ صرف اپنے بچوں کی پیش رفت سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ انہیں ان کے اساتذہ کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے، اسی طرح اساتذہ کو بھی بچوں کی خوبیوں اور خامیوں کو بتانے کا ایک موقع میسر آتا ہے۔ 
     یہی سبب ہے کہ گزشتہ دنوں جب مجھے کالسیکر انجینئرنگ کالج سے ’پی ٹی اے‘کی میٹنگ سے متعلق ایک فون آیا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ چلو کالج انتظامیہ اتنا تو بیدار ہے کہ وہ صرف فیس کے حصول ہی کو ضروری نہیں سمجھتا بلکہ کالج کی ترقی کیلئے طلبہ کی تعلیمی پیش رفت کو بھی ضروری سمجھتا ہے اور اس کیلئے وہ والدین کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔
    میٹنگ خوشگوار تھی۔ کالج انتظامیہ نے اپنا ویژن پیش کیا  اور طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کیلئے والدین سے تعاون کی درخواست کی۔ اس موقع پر ادارے  کے چیئرمین برہان حارث نے والدین کے عدم تعاون کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ۳۷۰؍والدین کو مدعو کیا گیا تھا جن میں سے ۳۰۰؍ نے دعوت قبول کی تھی لیکن آج یہاں صرف ۱۵۰؍ ہی شریک ہیں۔  حالانکہ سمینار ہال کی استعداد دیکھ کر یہی محسوس  ہواکہ اگر دعوت قبول کرنےوالے تمام کے تمام حاضر ہوجاتے تو ۱۰۰؍ سے زائد والدین کو کھڑے رہنا پڑتا۔   برہان حارث کی ایک بات اچھی لگی کہ اس طرح کی میٹنگ میں  والدہ کی شرکت  سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا کی والد سے ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی میٹنگوں میں طلبہ کی کارکردگی بیان کی جاتی ہے جس میں شکایات کے عناصر زیادہ ہوتے ہیں۔  ایسے میں والدہ کی شرکت سے زیادہ فائدہ اسلئے نہیں ہوتا کہ ۱۹۔۱۸؍ سال کے بچوں  پر  ان کا زیادہ دباؤ نہیں ہوتا۔ بقول برہان حارث ’’مائیں بچوں کی زیادہ’ہمدرد‘ ہوتی ہیں، اسلئے وہ ان کی خامیاں چھپاتی ہیں جبکہ والد کچھ حضرات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ یہیں کالج ہی میں بچوں کی پٹائی کرنے لگتے ہیں۔ ان دونوں باتوں سے بچوں کی اصلاح نہیں ہوپاتی۔ ‘‘ وہاں موجود والدین سے انہوں نے توازن برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی۔    
     لیکن ایک بات دیکھ کر افسوس ہوا کہ  پوری طرح سےپروفیشنل کالج ہونےکے باوجود میٹنگ میں  پروفیشنلزم نظر نہیںآیا۔میٹنگ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی اور اس کا الزام بھی والدین کے سر منڈھ دیا گیا کہ ان کی تعداد کم ہے لہٰذا مزید والدین کاانتظار کیا جارہا ہے۔  اس طرح وقت کی قدر کرنےوالے والدین  کوجو وہاں ۱۵؍ منٹ قبل ہی پہنچ چکے تھے، بلا وجہ ۲؍ بجے تک بیٹھے رہنا پڑا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا     ۔

Taleem niswaan and masayel

تعلیم نسواں اور مسائل
!
گزشتہ دنوں بھیونڈی میں منعقدہ تقسیم انعامات سے متعلق ایک تعلیمی پروگرام میں ایک معزز مہمان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انعام یافتگان میں سب لڑکیاںہی ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انعامات کی تقسیم کا یہ منظردیکھ کر میں حیران ہوں کہ تمام انعامات پر لڑکیاں قابض ہیں اور لڑکے بیٹھے صرف تالیاں بجا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ اگر لڑکیاں اسی طرح تعلیم میں آگے بڑھتی رہیں اور لڑکے اسی طرح پیچھے رہے تو ایک بڑا سماجی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ان لڑکیوں کیلئے مناسب رشتہ تلاش کرنا ابھی محال ہے، آگے  پتہ نہیں حالات کتنے خراب ہوںگے؟‘‘
    واقعی یہ بڑاحساس مسئلہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ لڑکیاں ، میٹرک فیل لڑکوں کے گلے باندھی جا رہی ہیں۔ ایم اے بی ایڈ لڑکیوں کے شوہر رکشا چلا رہے ہیں یا ٹھیلے پر سبزیاں فروخت کررہے ہیں۔ رکشا چلانا اور سبزیاں بیجنا  غلط نہیں ہے اور کسی بھی لحاظ سے  یہ کوئی معیوب پیشہ نہیں ہے لیکن اندازہ  یہی ہے اور مشاہدہ بھی کہ ان حالات میں میاں بیوی کے رشتوں میں توازن نہیں رہتا ہوگا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ بیوی ایم اے بی ایڈ ہے تو ملازمت ہی کرے لیکن  مناسب تو یہی ہے کہ اسے شوہر اس کے معیار کا ملے۔ ایم اے بی ایڈ نہ سہی ، پوسٹ گریجویٹ تو ہو اور اگر اس کے بھی لالے پڑے ہوں تو کم از کم گریجویٹ تو رہنا ہی چاہئے۔
    لیکن اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ لڑکیاں کم پڑھیں بلکہ کوشش یہ ہو کہ لڑکے زیادہ پڑھیں۔ اسی تقریب میں بطور مہمان تشریف لائی ایک خاتون ڈاکٹر بھی تھیںجو ایم بی بی ایس کے بعدابھی گائنا کولوجی میں پوسٹ گریجویشن کررہی ہیں۔ انہوں نے اس تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ یہی باتیں کہیں کہ ’’آپ کو افسوس اس بات پر کرنا چاہئے تھا کہ لڑکے انعام کیوں نہیں حاصل کررہے ہیں ، نہ کہ اس بات پر کہ لڑکیاں کیوں انعام حاصل کررہی ہیں؟‘‘  خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکے اگر پڑھتے ہیں تو خوشی ہمیں بھی ہوگی لیکن ان کے نہ پڑھنے سے ہم اپنی تعلیم کیوںمنقطع کردیں؟ بات بالکل درست  ہے۔یہ موضوع غور و فکر کا متقاضی ہے۔
    بہت مشہور مثال ہے کہ بلیک بورڈ پر استاذ نے ایک لکیرکھینچ کر طلبہ سے کہا کہ اس لکیر کو ہاتھ لگائے بغیر اسے چھوٹا کرو۔ طلبہ کو سانپ سونگھ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟  ہاتھ لگائے بغیر اسے بھلا چھوٹا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ پھر استاذ گرامی نے اس کے قریب ہی اس سے قدرے بڑی  ایک اور لکیر کھینچ دی اور کہا کہ ان میں چھوٹی کون سی ہے؟ سبھی نے پہلی لکیر کی طرف نشاندہی کی۔ استاد نے کہا کہ ہاتھ لگائے بغیر ہی یہ لکیر چھوٹی ہوگئی نا! پھر انہوں نے کہا کہ مسابقت کے زمانے میں اگر آپ کو کسی سے آگے بڑھنا ہے تو اس  سے بہتر کرنے کی کوشش کرو۔
    کچھ اسی طرح کی کوشش اس تعلیمی توازن کو بہتر کرنے کیلئے بھی کرنے کی ضرورت ہے       ۔

Teachers day prog

یوم ِاساتذہ کی تقاریب

 ہر سال کی طرح امسال بھی ۵؍ ستمبر کویوم اساتذہ کی تقریب پورے ملک میں نہایت زور و شور سے منائی گئی۔ اس سلسلے میں اردو اسکولیں بھی پیچھے نہیں تھیں بلکہ اگر یہ کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اردو اسکولیں پیش پیش تھیں۔  اس دن کو مختلف اسکولوں میں مختلف طریقوں سے  منایا گیا۔ کہیں اساتذہ کی شان میں تقریریں ہوئیں تو کہیں طلبہ کو ایک دن کیلئےٹیچرس کے کردار میں پیش کرکے انہیں ذمہ دار بنانے کی کوشش کی گئی۔ کہیں طلبہ میں مسابقتی پرواگرم منعقد ہوئے تو کہیں اساتذہ کے مابین  مقابلہ ہوا۔ کہیں اساتذہ کرام کو انعام و اعزاز سے نوازا گیا تو کہیں  انہیں احتساب کی بھی دعوت  دی گئی۔
     بھیونڈی اردو والوں کی بستی ہے۔ ممبئی اوردیگر شہروں کے مقابلے یہاں اردو اسکولیں زیادہ فعال ہیں۔ ایک جانب جہاں دوسروں شہروں میں اردو اسکولیں بند ہورہے ہیں یا اردو کے ڈویژن ختم ہو رہے ہیں، وہیں دوسری جانب بھیونڈی میں نہ صرف اردو اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ حکومت سے نئے  ڈویژن کی بھی مانگ کی جارہی ہے۔ یہاں کئی جونیئر کالج بھی اردو میڈیم میں بڑی شان سے چل رہے ہیں۔ ۵؍ ستمبر کو یہاں تقریباً ہرا سکول اور کالج میں پروگرام منعقد ہوئے۔صبح ۱۰؍ بجے سے دوپہر ایک بجے تک میں تین پروگرام میں  شریک ہوا جن میں سے ۲؍ پروگرام کی نوعیت کافی بڑی تھی۔ ایک اسکول جو نسبتاً  چھوٹا ہے، پسماندہ علاقے میںواقع ہے اور محدود وسائل رکھتا ہے،  میں وہاں زیادہ دیر تک رکا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کچھ خاص ہوگا لیکن میری سوچ غلط ثابت ہوئی، پروگرام بہت اچھا رہا۔ 
    نیونیشنل اردو ہائی اسکول، شانتی نگر میں اس دن تمام پروگرام اساتذہ کرام نے پیش کئے۔ حمد، نعت اور استقبالیہ گیت سے لے کر تقریر تک۔ سب کچھ  ٹیچرس  نے پیش کئے۔ عام طور پر اساتذہ صرف تقریریں  کرتے ہیں ، حمد ، نعت اور استقبالیہ گیت کی ذمہ داریاں طلبہ کے سر پر ہی ڈالی جاتی ہیں۔  ایک اچھی بات یہ بھی رہی کہ ٹیچرس کا پرفارمنس دیکھنے کیلئے طلبہ اور ان کے والدین موجود تھے۔ اس کے باوجود اساتذہ کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ وہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کررہے تھے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مرتضیٰ سر نے کہا کہ’’ اساتذہ کرام  میں بے پناہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں لیکن انہیں اپنے فن کے مظاہرے  کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یہ پورے سال صرف طلبہ کو تیار کراتے رہتے ہیں اور انعامات سے اسکول کے ریک سجاتے رہتے ہیں۔   اسلئے ہم نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ یوم اساتذہ کو پوری طرح سے اساتذہ ہی کے نام کردیا جائے اور ماشاءاللہ یہ کوشش بہت کامیاب رہی۔‘‘ میں محسوس کررہا تھا کہ جب کوئی  ٹیچر اسٹیج پر آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا تو تمام ساتھی اساتذہ کے چہروں پر مسرت کی لہریں دوڑتی تھیں اور طلبہ بھی نہال ہورہے تھے۔ وہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ اس طرح دیگر اسکولوں میں بھی اساتذہ کو اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملنا چاہئے       ۔

Teachers day and gift

یوم ِاساتذہ اور تحائف

 دو دن قبل وہاٹس ایپ کے ایک گروپ میں ہمیں ایک میسیج موصول ہوا جس میں ٹیچرس ڈے کے موقع پر اساتذہ کے ذریعہ طلبہ سے تحائف قبول کرنے پر اعتراض ظاہر کیا گیا ہے۔ مضمون فکر انگیز ہے اور طرز تحریر بھی بہت عمدہ اور پُر اثر ہے۔ میسیج کےاختتام پر مضمون نگار کا نام لکھا ہے۔ ایک دن بعد وہی مضمون وہاٹس ایپ کے ایک دوسرے گروپ میں نظر آیا۔ مضمون ہو بہو اور لفظ بہ لفظ وہی تھا لیکن مضمون نگار کا نام تبدیل تھا۔ پتہ نہیں ان دونوں میں سے اصل مضمون نگار کون ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ مضمون نگار کوئی تیسرا شخص ہو۔  یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ دوسروں کو نصیحت کرنےوالے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔  اساتذہ پر تنقید کرکے ایک گروپ میں تھوڑی واہ واہی تو ہوگئی لیکن جب یہ پتہ چلے گا کہ وہ مضمون چوری کا ہے، تو اسی گروپ میں ان کی کیا عزت رہے گی؟
     بہرحال اس گروپ میں اس میسیج پر تبصرے بھی ہوئے جن میں سےبیشتر نے ’مضمون نگار‘کی تائید کی۔ اس بات پر سبھی نے اتفاق کیا کہ ٹیچرس کے ذریعہ طلبہ سے گفٹ وصول نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسی گروپ میں بھیونڈی کے ایک معزز ٹیچر جوہمارے دوست بھی ہیں، نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ بھیونڈی کے کسی اسکول میں ایسا نہیں ہوتا۔لیکن جب ہم نے اس تعلق سے تھوڑی سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس بدعت سے بھیونڈی کے اسکول اور کالج بھی پاک نہیں ہیں،  بالخصوص ان اسکولوں اور کالجوں میں جہاں لڑکیاں پڑھاتی ہیں اور لڑکیاں ہی پڑھتی ہیں۔  یہ تمام اسکولوں میں رائج نہیں ہے لیکن کئی اسکول اور کالج اس مرض میں مبتلا ہیں۔
    بلاشبہ کسی اسکول میں طلبہ پر گفٹ دینے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا جاتا لیکن یہ بات ان اساتذہ کرام کوخود ہی سوچنی چاہئے کہ کیا ان طلبہ سے گفٹ وصول کرنا اچھی بات ہے جنہیں جیب خرچ کے نام پر محض پانچ، دس اور بیس روپے ملتے ہوں۔اسکول اور کالج میں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی رہتی ہے کہ بچے زرق برق اور مہنگے لباس میں اسکول نہ آئیں جس کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوں ، ایسے میں  ٹیچرس ڈے کے موقع پر اگر چند طلبہ قیمتی تحفہ دے کر اپنے استاد کے منظور نظر بننے کی کوشش کرتے ہیں تو دیگر طلبہ پراخلاقی  دباؤ پڑتا ہے کہ وہ بھی اپنے استاد کو ’خوش‘ کرنے کی کوشش کرے۔استاد اور طالب علم کا رشتہ بہت مقدس ہوتا ہے، لہٰذا کوئی طالب علم اپنے کسی استاد کو کتنا بھی کچھ دے دے، وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتا لیکن یہ استاد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تحائف خریدکردینے والے طلبہ کی حوصلہ شکنی کریں۔  طلبہ کو بھی چاہئے کہ اس موقع پر وہ استاد کو کوئی مادّی تحفہ دینے کے بجائے خلوص کا نذرانہ پیش کریں ۔ وہ انہیں  اپنے ہاتھ سے لکھ کر سپاس نامہ جیساکچھ دیں... لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیمتی تحائف کے درمیان کیا اس طرح کے تحائف قبول کئے جائیں گے     ۔

Taleemi bedaari

تعلیمی بیداری

حالیہ کچھ برسوں میں مسلمانوں میں کئی اچھی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔  اب یہ صرف مسائل کا رونا نہیں روتے بلکہ وسائل کی بھی بات کرتے ہیں، صرف کمزوریوں کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ صلاحیتوں کی بھی شناخت کرتے ہیں، صرف تعداد کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ استعداد پر بھی نظر رکھتے ہیں اور تعصب سے گھبرا کر میدان نہیں چھوڑتے بلکہ ڈٹ کرمقابلہ کرتے ہیں اور دستیاب مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
    اس کا بہت اچھا احساس گزشتہ دنوں ایک تعلیمی جلسے میں شریک ہونے کے بعد ہوا۔ یہ جلسہ ایک بہت ہی چھوٹی کمیونٹی کا تھا لیکن اس کے عزائم اتنے بلند نظر آئے کہ دل سے یہ آواز نکلی کہ کاش! یہی عزم و حوصلہ ہم سب کا ہوجائے تو کوئی سچر کمیٹی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کو دلتوں سے بدتر بتاکر ہمیں ہماری حیثیت نہیں جتائے گی۔ جلگاؤں سے تعلق رکھنےوالی یہ ایک بہت ہی چھوٹی سی کمیونٹی ہے جوخود کو کاغذی کہلواتے ہیں۔ نصف صدی قبل ان کے اجداد جو معاشی طور پر نہایت پسماندہ تھے، اپنی بستی میں کاغذ سازی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس کام میں پورا گھر مصروف رہتا تھا لیکن ملوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کی آمد کے بعد جب ان کا کاروبار متاثر ہونے لگا تو انہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا۔ ان میں سے جو پڑھے لکھے تھے، زیادہ تر درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تو کچھ نے ریلوے میں ملازمت اختیار کرلی اور بعض نے تجارت کی راہ اختیار کی۔اس طرح بیشترکو جلگاؤں سے ہجرت کرکے ممبئی، کلیان، بھیونڈی،  مالیگاؤں اور دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑا۔کچھ ہی دنوں میں اس طبقے کے بیشتر افراد پسماندگی کے دلدل سے باہر آئے اور خود کفیل ہوگئے۔ 
    ۵؍ سال قبل ان میں سے کچھ ذہین اور اچھی سوچ رکھنے والے افراد نےایک میٹنگ کی اوراس بات پر غور و خوض کیا کہ اپنی کمیونٹی کے باقی ماندہ افراد کو پسماندگی کے دلدل سے کس طرح باہر نکالا جائے؟ یہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کمیونٹی میں تعلیمی بیداری بہت ضروری ہے۔  یہ صرف ملے، بیٹھے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچے بلکہ اس کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل آوری بھی کی۔ گزشتہ دنوں بھیونڈی میں منعقدہ اجلاس ، ان کا پانچواں سالانہ جلسہ تھا۔  اس تقریب میں نہ صرف کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلبہ کو انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ معاشی طور پر کمزور طلبہ کی مالی اعانت بھی کرتے ہیں۔ ذمہ داران کے مطابق اس کی وجہ سے بہت سارے ایسے طلبہ کا تعلیمی سلسلہ چل پڑا ہے جو تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔
     یہ سالانہ جلسے کا مقام ہر سال تبدیل کرتے ہیں تاکہ اس میں  ہر شہر میں رہنےوالے کاغذی خاندان شریک ہوسکیں۔یہ صرف تعلیمی تقریب نہیں ہوتی بلکہ ان کیلئے مل بیٹھنے کا ایک  بہانہ بھی ہوتا ہے۔حرارت باقی رکھنے کیلئے اس طرح کی کوششیں ہوتی رہنی چاہئیں ۔

Power loom agitation

پاور لوم کا خاموش احتجاج

گاندھیائی اصول پر عمل کرتے ہوئے بھیونڈی کےپاورلوم مالکوں  نےحکومت اور استحصالی قوتوں کے خلاف اپنے کاروبارکو  بطور احتجاج  ۱۵؍دنوںتک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے.... اور اعلان کے مطابق  بندکا آغاز بھی ہوچکا ہے  جسےجزوی طور پرکامیاب کہا جا سکتا ہے۔   یہ ’بند‘ پوری طرح  سےکامیاب کیوں نہیں ہے، اس کی وجہ ’بند‘ کااہتمام کرنےوالوں کی ناقص منصوبہ بندی اور کچھ حد تک ان کی ’نیتوں‘ میں فتور کا بھی مسئلہ ہے لیکن ابھی اس پر گفتگو کا وقت نہیں ہے کیونکہ ابھی ضرورت اس بات کی ہےکہ جس مقصد کیلئے بند کیا گیا ہے، وہ حاصل کیا  جائے۔
    دن رات شور مچاکر زندگی کا ثبوت پیش کرنے والی اور مزدوروں کے ساتھ ۲۴؍ گھنٹوں تک مسلسل محنت و مشقت کرنے والی ان پاورلوم مشینوں نے پوری طرح سے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ صبح ان خاموش کارخانوں کو دیکھا تو ایک عجیب سی کیفیت ہوئی۔ ہر طرف سناٹے کا عالم تھا لیکن  یہ سناٹا ایسا نہیں تھا جس سے خوف آئے بلکہ یہ خاموشی ایسی تھی جس پر ترس آئے۔  ایسا لگ رہاتھا جیسے کوئی معصوم بچہ اس امید پر روٹھ گیا ہے کہ ابھی کوئی آئے گا، اسے منانے کی کوشش کرے گا، اس کے مطالبات سنے گا ، ا نہیں پورا کرنے کی یقین دہانی کرائے گا اور اس طرح اس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن ایساکچھ نہیں ہو رہا ہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے،  ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔کیا ہوگا؟ کیا کوئی منانے آئے گا یا اس روٹھے ہوئے بچے کو خود ہی مراجعت  اختیار کرنی پڑے گی؟ حکومت کے موجودہ اورسابقہ رویے کو دیکھتے ہوئے اس بات کی امید تو نہیں ہے کہ ان کی اشک شوئی کیلئے کوئی آئےگا؟
       بھیونڈی میں تقریباً ۷؍ لاکھ رجسٹرڈ پاور لوم ہیں جن پر یومیہ۴؍ کروڑ میٹر سے زائد کپڑے تیار ہوتے ہیں جن کی مالیت ۷۰؍ کروڑ روپوں سے زائد ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو صرف ویٹ کی صورت میں حکومت کو بھیونڈی  سے یومیہ تقریباً ۳؍ کروڑ روپے ملتے ہیں۔  پاور لوم کے اس خاموش احتجاج سے حکومت کو بھی ۵۰؍ کروڑ روپوں کا چونا لگنے والا ہے ..... لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
          ورنہ کیا بات ہے کہ ریلوے کے بعد سب  سے زیادہ روزگار فراہم کرنےوالی اس صنعت کے تعلق سے حکومت یوں غیر سنجیدہ  ہے؟ ۷؍ لاکھ پاور لومس کو جاری وساری رکھنے کیلئے تقریباً ۵؍ لاکھ کی افرادی قوت درکار ہوتی ہے اور ہر شخص اوسطاً ۱۰؍ افراد کی کفالت کرتا ہے۔  ڈائمنڈ مارکیٹ ایک دن کیلئے بندہوتو ریاست سے مرکز تک ہنگامہ برپا ہوجاتا  ہے اور یہاں ۵۰؍ لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں لیکن سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔  دراصل یہ ہماری سیاسی بے وقعتی ہے۔ ہم نے خود کو اس قابل رکھا ہی نہیں ہے کہ کوئی ہماری بات سنے۔  ہماری بات اس وقت سنی جائے گی جب سرکار کو یہ احساس ہو کہ  نہ سننے پر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

Hamare mamlaat

ہم اور ہمارے معاملات

ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق کے زور پر پھیلا ہے اوراپنی بساط بھر اس دعوے کی تشہیر بھی کرتےہیں لیکن کبھی اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس درمیان پل کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا۔  بلاشبہ ہمارا دعویٰ درست ہے لیکن آج ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اس دعوے پر کوئی بھلا کیوں کر یقین کرے گا؟
    ان دنوںفیس بک اور وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات ایک دوسرے کو خوب فارورڈ  کئے جارہے ہیں کہ اسلام صرف اور صرف اپنے اخلاق کی بدولت تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر چھا گیا تھا اور آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بڑی تیز سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔اس کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ ان پیغامات میں اس بات کا رونا بھی رویا جاتا ہے کہ اسلام کی ان اعلیٰ درجے کی تعلیمات کے باوجود اسلام کی غلط شبیہ پیش کی جارہی ہے۔ اس کیلئے ہم صہیونی اور برہمنی نظام کو ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔
    بلاشبہ کچھ حد تک یہ بات بھی درست ہے لیکن یہاںہمیں تھوڑی دیر ٹھہر کرسوچنا چاہئے کہ کیا ہم مسلمانوں کے تعلق سے جو باتیں آج کہی  جارہی ہیں، وہ پوری کی پوری غلط اورمسترد کردیئے جانے کے لائق ہیں یا یہ کہ اس میں کچھ ہماری اپنی غلطی بھی ہے۔
    ہمارا کوئی غیرمسلم پڑوسی جو ہمیں روزانہ مسجد آتے جاتے دیکھتا ہے اور ساتھ ہی دھڑلے سے کھڑکی کے ذریعہ سڑک پر کچرا پھینکتے ہوئے بھی روزانہ مشاہدہ کرتا ہے، وہ کیوں کر سمجھے گا کہ اسلام میں صاف صفائی کو نصف ایمان  کا درجہ حاصل ہے ۔
    ڈاڑھی ٹوپی اور کرتے پاجامے میں دیکھ کر کوئی غیر مسلم ہمارے اخلاق سے کیوں کر متاثر ہوگا ، اگروہ ہمیں کسی کو گالیاں دیتے ہوئے اور بات بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھے گا۔
    کاروباری اور لین دین کے معاملے میں ہماری بے ایمانی اور بد عہدی کو دیکھنے کے بعد کسی کو اس بات پر کیوں کر یقین آئے گا کہ اسلام میں ایمانداری اور ایفائے عہد کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
    مسلکی ، نسلی اور علاقائی  مسائل پر ہمیں آپس میں دست و گریباں دیکھنے اور ایک دوسرے کے تئیں بلا تکلف نفرت کے اظہار کے بعد کوئی یہ کیسے محسوس کرے گا کہ اسلام میں اتحاد کی بڑی اہمیت ہے  اور برادران وطن کے پاس  یہ پیغام کیسے پہنچے گا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے کسی بھی ایک اعضا کو تکلیف پہنچے تو اس شدت کو پورا جسم محسوس کرے۔
    صورتحال یہ ہے ہم معاملات میں بہت ناقص  ہیں بلکہ اس کی اہمیت ہی نہیں سمجھتے ۔ ظاہری عبادات کے تو قائل ہیں لیکن معاملات میں شفافیت کے نہیں۔ ایسے میں ہماری شبیہ کیوں کر بہتر ہوسکے گی؟

Raushan jahan

روشن جہاں نے ذہنوں کوروشن کردیا

تھوڑی سی خامی اور بہت ساری خوبیوں کےساتھ گزشتہ دنوں انجمن فروغ تعلیم بھیونڈی کا سالانہ جلسہ ٔ  تقسیم انعامات کا انعقاد عمل میں آیا۔ شہر بھیونڈی کی یہ ایک ایسی روایتی تعلیمی تقریب  ہوتی ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔امسال یہ ۲۶؍ واں سالانہ جلسہ تھا۔
    اس جلسے کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ جہاں طلبہ میں مسابقت کا رجحان پیدا کرتا ہے، وہیں بھیونڈی کے تمام ۳۴؍ اردو میڈیم ہائی اسکولوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بھی کام کرتا ہے۔ انعامات سے جہاں طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہیں اسٹیج پر موجود ’مثالی طلبہ‘ کو دیکھ کر کچھ کرگزرنے کاجذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔
    امسال کے جلسے نے ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی جب بالترتیب تنویر منیار( مہاراشٹر کے ایس ایس سی ٹاپر) اور الماس ناظم سید(ریاستی سطح پر ایچ ایس سی کی سیکنڈ ٹاپر) نے اس تقریب میں شریک ہوکر طلبہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس بار یہ کارنامہ ایم بی بی ایس کی فائنل ایئر کی طالبہ روشن جہاں نے انجام دیا۔  روشن   نے طلبہ کے ذہنوں کو روشن کردیا اور اپنی  روداد سنا کر یہ پیغام دیا کہ ’معذوری جسمانی نہیں، حوصلے کی ہوتی ہے‘۔ انہوں نے  ثابت کیا کہ جسمانی معذوری کوئی معنی نہیں رکھتی، حوصلوں سے معذور افراد ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔  روشن جہاں کا بھیونڈی آنا، اس تقریب کا حاصل رہا۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ بھیونڈی آکر انہوں نے یہاں کے طلبہ پر ایک بڑا احسان کیا ہے۔
     روشن کی کہانی بہت طویل ہے۔ مختصراً  یہ کہ یہ حوصلہ مند بچی جب ۱۱؍ ویں میں زیر تعلیم تھی تو ایک دن گھر سےکالج جاتے ہوئے ٹرین سے گر پڑی اور اس کے دونوں پیر گھٹنے کے اوپر سے کٹ کر جسم سے الگ ہوگئے۔ تین ماہ تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد روشن جہاں دونوں پیروں سے معذور ہوکر اپنے گھر واپس آئی۔ تب تک گیارہویں کے سالانہ امتحان کا وقت قریب آگیا تھا۔ والدین ، دوست و احباب اور اساتذہ کے ہمت دلانے پر اس نے دن رات محنت کرکے امتحان دیا اورکامیابی حاصل کی۔اس میں اس کی والدہ کا  بہت اہم رول رہا۔ وہ روزانہ اسے وہیل چیئر پر بٹھاکر کالج لے جاتیں اور پھرواپس گھر لاتیں۔ اس طرح روشن نے ۷۵؍ فیصد مارکس سے ایچ ایس سی کامیاب کیا اور سی ای ٹی کے امتحان میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممبئی کے معروف میڈیکل کالج ’کے ای ایم ‘ میں داخلہ لیا۔ آج وہ فائنل ایئر میں ہے۔
    روشن نے اپنی مثال دیتے ہوئے طلبہ سے کہا کہ مسائل اور پریشانیوں کا حوالہ دے کر زندگی کی گاڑی کو بریک مت دینا بلکہ میری طرح  ان پریشانیوں کوشکست دے کر آگے بڑھنا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ روشن جہاں کا ایک ایک لفظ وہاں طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہورہا تھا۔ جب وہ اپنی روداد سنا رہی تھی تو ہال کا سناٹا اور سامعین کی بھیگی آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں  ۔

bsu travel

بس کا سفر، پریشانی ہی پریشانی

سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
        ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے  پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ تر مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ اے سی اور سیمی لکژری بسیںقدرے غنیمت ہیں۔ 
          ایسا لگتا ہے کہ بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافربھٹکتے رہتےہیںلیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے  وہ یہی ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔ ریاست کے کئی بس ڈپو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوںکے سبب خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین  روزانہ ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے  ہوکر جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو ..... پولیس اسٹیشن تو ہر ڈپو میں ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی آنکھیں ہمیشہ بند ہی رہتی ہیں۔
          ایسا دراصل اسلئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے لہٰذا سرکار ان سے  زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری  اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے سرکار پر دباؤ ڈالے جبکہ جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔  بیسٹ بسیں اس کی واضح مثال ہیں۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

Genration gap

جنریشن گیپ

عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوںمیںبڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن  جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر باہر نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئے جانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوںکا احترام کرنا چھوڑ دیں گے، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔ آج ہماراموضوع یہی ہے کہ بزرگوں اور بچوںکے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟
    یہ شکایت عام ہے کہ بچے، بڑوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہیں۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیںاور چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں لیکن....
         یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟یہ جنریشن گیپ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں  ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اسلئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کردینے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتے ہوئے  انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوں گے۔   بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں کو اپنے بڑوں سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔

Bihar ke musalman aur election

بہار کے مسلمان فرقہ پرستوں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

  بہار میں الیکشن کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی کا خیمہ پوری طرح سے سرگرم ہوچکا ہے ۔ آر ایس ایس کے ساتھ اس کے اراکین بہار کے چپے چپے پر پھیل گئے ہیں اور دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔  بی جے پی کے سامنے دو باتیں نہایت واضح ہیں۔ اس الیکشن سے ایک جانب جہاں اسے دہلی کی ہزیمت کا داغ مٹانا ہے وہیں بہار اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھا کر راجیہ سبھا میں بھی اپنی پوزیشن بہترکرنی ہے تاکہ وہ من مانی کرنے کے قابل ہوسکے۔ ایسے میں بہار کے مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ   اس وقت  وہ فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

قطب الدین شاہد

 بہار کاانتخابی منظر نامہ ابھی پوری طرح صاف نہیں ہوا ہے۔ وہاں کے سیاسی حالات پل پل بدل رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ قطعی نہیں نکالا جاسکتا کہ آنےوالے اسمبلی الیکشن میں بھی وہ تمام ووٹ انہی جماعتوں یا اتحادوں کو ملیں گے۔آرجے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس اور این سی پی کے اتحاد سے  سیکولر حلقوں میں ایک آس بندھی تھی کہ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی سے پٹخنی کھانے کے بعد  ایک بار پھر رعونت کا مظاہرہ کرنےوالی بی جے پی کو بہار میں بھی دھوبی پچھاڑ کا سامنا ہوگا۔ اعداد وشمار ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ اس اتحاد کیلئے   این ڈی اے کو روند کر آگے بڑھنا کچھ مشکل نہیں ہوگا لیکن چھٹی حس کہتی ہے کہ معاملہ اتناآسان نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کے ساتھ ،کچھ غیرمرئی قوتیں بھی زعفرانی محاذ کی کامیابی کیلئے پورا زور لگا رہی ہیں۔ کچھ بی جے پی کی حمایت کرکے اسے فائدہ پہنچا رہی ہیںتو کچھ مخالفت کا ڈراما رچ کر اسے اقتدار تک پہنچانے کا سامان پیدا کررہی ہیں۔
     دراصل بی جے پی اوراس حکومت سے فائدہ اٹھانے والے قومی اور  بین الاقوامی صنعت کاروں کی نظریں بہار پر اس لئے مرکوز ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف ریاستی اسمبلی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر راجیہ سبھا میں نشستوں کی تعداد پر بھی پڑے گا۔ متازع تحویل اراضی بل، جی ایس ٹی بل اور انشورنس بل کو قانونی شکل اختیار کرنے میں راجیہ سبھا ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی  اور اس کے حامی جی جان لگارہے ہیں کہ نہ صرف بہاراسمبلی پر قبضہ ہو جائے بلکہ راجیہ سبھا میں اس کی نشستوں کی تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہوجائے۔
    اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ۲۴۵؍ رکنی ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس  ۴۸؍ سیٹیں ہیں  جبکہ ۷؍ پارٹیوں پر مشتمل این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد بھی صرف ۶۴؍ تک ہی پہنچتی ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے پاس ۶۸؍ اور جنتاپریوار کے پاس راجیہ سبھا کی ۳۰؍ سیٹیں ہیں۔  بی جے پی چاہتی ہے کہ  اپنی سرکار (مودی حکومت) کی میقات کے دوران ہی کسی طرح اس کی اور اس کی حامی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد ۱۰۰؍  پار کرجائے تاکہ جے للتا ، ممتا بنرجی اور ملائم سنگھ کو کسی بہانے راضی کر کے وہ کچھ اہم بلوں کو اپنی مرضی کے مطابق پاس کرواسکے۔  اس کیلئے بی جے پی کے تھنک ٹینک صرف بہار پر ہی نہیں بلکہ آئندہ ہونے والے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں اوراس طرح وہ راجیہ سبھا میںمضبوطی کیلئےابھی سے کوشاں ہیں۔ ان کا منصوبہ قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہے۔۲۰۱۸ءتک اترپردیش، مغربی بنگال، گجرات، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی چھوٹی بڑی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔اس درمیان مختلف ریاستوں میں کم و بیش راجیہ سبھا کی۱۵۳؍ نشستیں خالی ہوںگی ، جن پر بی  جے پی کے تھنک ٹینک  کی نظریں مرکوز ہیں۔  آئندہ سال بہار میں راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں جن کاانتخاب مجوزہ اسمبلی الیکشن  میں کامیاب۲۴۳؍ اراکین کریںگے۔ ۲۰۱۶ء میںسبکدوش ہونے والے  ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ خیال رہے کہ بہار  سے منتخب ہونے والے  راجیہ سبھا اراکین کی کل تعداد ۱۶؍ ہےجبکہ اترپردیش  سے ۳۱؍ اراکین منتخب ہوتے ہیں۔ یوپی میں اسمبلی انتخابات  ۲۰۱۷ء میں ہوںگے۔  
     بہار اور اس کے بعد ہونےوالے مختلف ریاستوں کے انتخابات کیلئے بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں بہت سنجیدہ  ہیں۔ بہار کے تئیں بی جے پی کے حوصلے اس لئے بھی بہت زیادہ بلند ہیں کہ لوک انتخابات میں اسے وہاں توقع سے زیادہ نشستیں مل گئی تھیں۔ لوک سبھا کی کل۴۰؍ نشستوں میں این ڈی اے نے ۳۱؍ سیٹیں حاصل کرلی تھیں جن میں سے ۲۲؍ سیٹیں تنہا بی جے پی کی تھیں۔  بی جے پی کو سب سے زیادہ یعنی ۲۹ء۸۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن تب اور اب کے حالات میں کافی فرق آچکا ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن سے ، حالیہ لوک سبھا الیکشن تک اور لوک سبھا الیکشن سے ابھی تک، بہار کے سیاسی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا  ہے، ان میں مزید تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن میں جہاں  بی جے پی اور جے ڈی یو کااتحاد تھا، وہیں  آر جے ڈی کے ساتھ ایل جے پی تھی لیکن لوک سبھا الیکشن میں مساوات یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ایل جے پی نے بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا تو آر جے ڈی اور جے ڈی یو تنہا انتخابی دنگل میں اُتری تھیں۔
     اب یہ بات بھی پرانی ہوچکی ہے۔  بہار کے رائے دہندگان کے سامنے اب نیا اتحاد اور نئی مساوات ہے۔ ایک جانب جہاں کانگریس، آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا عظیم اتحاد سامنے آیا ہے، وہیں اس اتحاد سے جیتن رام مانجھی اور پپو یادو جیسے  ذات برادری پر اثر و رسوخ رکھنےوالے کچھ لیڈروں کااخراج بھی عمل میں آیا ہے۔این سی پی اور سماجوادی پارٹی  کے مؤقف ہنوز واضح نہیں ہیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے ان دونوں جماعتوں کا بہار کی سیاست میں کچھ زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو وہاں کےعوام اس کی اوقات بتا چکے ہیں جب اس کے ۱۴۶؍ امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی اور تمام کے تمام کی ضمانت ضبط ہوئی تھی۔ البتہ مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) کے انتخابی میدان میں اتر جانے کے اشاروں سے سیکولر حلقوں میں تھوڑی تشویش ضرور پائی جارہی  ہے۔   ویسے اس بات کا امکان  ذراکم ہی ہے کہ بہار میں اسدالدین اویسی کی پارٹی کی دال گل سکے گی۔  یوپی اور بہار  معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن وہاں کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا مانتی ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں   سیکولر پارٹیوں کی انا پرستی کی وجہ سے بھلے ہی این ڈی اے کو زیادہ سیٹیں مل گئی ہوں لیکن اُس ناسازگار ماحول میں بھی کشن گنج کے مسلم رائے دہندگان  سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی اور جے ڈی یو کے امیدوار اخترالایمان کے درمیان مفاہمت کرانے میں کامیاب رہے تھے۔     چونکہ اس بار مقابلہ بہت سخت ہوگا لہٰذا اس بات کے خدشات پائے جارہے ہیں کہ ووٹوں کے تھوڑاسا اِدھر اُدھر ہونے سے کئی سیٹیں دوسرے خیمےمیں جا گریں گی۔ بی جے پی کی نظریں اسی پر ہیں کہ وہ کچھ جماعتوں کو اس بڑے اتحاد سے الگ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس کیلئے آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی کسی کو سا تھ رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کانگریس کا ساتھ مل جانے سے ان میں بھی کانگریسیت آگئی ہے۔ 
       بی جے پی کا  رام ولاس پاسوان کی  لوک جن شکتی پارٹی، اوپندر کشواہا کی  راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام پارٹی سے ابھی تک انتخابی سمجھوتہ نہیں ہوسکا ہے لیکن  بی جے پی اور آر ایس ایس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے  یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تاخیر سے ہی سہی، یہ تمام جماعتیں مل کر ہی انتخاب لڑیں گی اور بی جے پی کی شرطوں پر ہی لڑیںگی۔  بی جے پی انہیں زیادہ سیٹیں نہیں دے گی کیونکہ بی جے پی  کا مقصد صرف بہار اسمبلی پر بھگوا لہرانا نہیں ہے بلکہ اپنے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا ہے تاکہ وہ راجیہ سبھا میں اپنی تعداد بڑھا سکے۔ اس کے بدلے بی جے پی انہیں ’کچھ اور‘ دے سکتی ہے۔ اس ’کچھ‘ میں مرکزاور ریاست میں حکومت سازی کی صورت میں وزیروں کی اضافی تعداد بھی ہوسکتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس نے ریاست کو مختلف خطوں میں تقسیم کرکے ان علاقوں کے انچارج نامزد کردیئے ہیں اورایک ایک بوتھ پر ذمہ دار ان تعینات کردیئے گئے ہیں جو دن رات ایک کئے ہوئےہیں۔ اسی طرح  وزیراعظم مودی بھی  دبئی سے سیدھا بہار پہنچ کر یہی ثابت کرتے ہیں۔ 
     ان حالات میں بہار کے ۱۷؍ فیصد مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ حسب سابق سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ ان کی جانب پورے ملک کی نظریں ہیں کیونکہ بہار کے مسلمان اس وقت  فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کے غرور کو خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں۔  یہ بات درست ہے کہ سیکولر پارٹیوں کی کامیابی کیلئے جتنے کوشاں مسلمان ہوتے ہیں، اتنے دوسرے نہیں ہوتے اور یہ شکایت بھی بجا ہے کہ اس کا صلہ انہیں اتنا نہیں ملتا، جتنا کہ ملنا چاہئے لیکن  اسی کے ساتھ یہ  بات بھی ہمیں تسلیم کرکے چلنا چاہئے کہ جمہوری ملک میں ہم بذات خود اپنی طاقت پر کچھ نہیں کرسکتے لہٰذا سیکولر ازم کو نعمت یا مجبوری سمجھ کر  اسے  طاقت بخشنے کی کوشش بہرحال کرنی چاہئے۔ ایم آئی ایم کی نیت پر ہم شک نہیں کرسکتے اور اس کے انتخابی عمل میں حصہ لینے  کی کوشش کو ناحق بھی نہیں کہہ سکتے لیکن وقت کا تقاضا تو یہی کہ اسدالدین اویسی بہار اور یوپی  میں فی الحال انتخابی قسمت آزمائی سے قبل اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں  اور جب انتخابی میدان میں اتریں تو دیگر سیکولر پارٹیوں سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اتریں تاکہ اسمبلی میں وہ اُن افراد کی نمائندگی کرسکیں جنہوں نے انہیں اپنا قیمتی ووٹ دیا ہے اور ان کی حمایت کی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی اپنی پارٹی کے حق میں اچھا ہوگا بلکہ مسلم رائے دہندگان کیلئے بھی اچھا ہوگا اور  بی جے پی کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بننے پر سیکولر حلقوں سے مبارکباد کے مستحق بھی قرار پائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ انتخابی عمل میں کود نے سےمتعلق تذبذب کا شکار ہوں تو یوپی کی ۲؍ مسلم جماعتیں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی اور مولانا عامر رشادی کی مسلم کونسل کا حشر دیکھ لیں۔
    بہار کاانتخاب اگر دو طرفہ ہوتا ہے یعنی آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس  اتحاد کا مقابلہ  بی جے پی ، ایل جے پی ، آر ایل ایس پی اور ہندوستانی عوام کے اتحاد سے ہوتا ہے تو بلاشبہ سیکولر محاذ کا پلڑا بھاری رہے گا لیکن مقابلہ پھر بھی سخت ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں ان دونوں محاذ کو بالترتیب ۴۲؍ اور ۴۰؍ فیصد کے آس پاس ووٹ ملے تھے۔ بلاشبہ اس دوران  بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے لیکن اس کے طویل مدتی منصوبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیکولر طبقے بالخصوص مسلمانوں کو ہمہ وقت  بیدار،ہوشیار اور خبر دار رہناہوگا کیونکہ مقابلہ خرگوش اور کچھوے کا نہیں بلکہ تقریباً برابری کا ہے۔

بی جے پی کی طویل مدتی منصوبہ بندی

      زعفرانی محاذ کی خواہش  راجیہ سبھا میں اپنی سیٹوں کی تعداد بڑھانی ہے، اس لئے اس کا ریاستوں پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ آئندہ تین برسوں میںاترپردیش، مغربی بنگال، گجرات،تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔ ان تمام ریاستوں کے انتخابات پر بی جے پی  اوراس کے حامیوں کی نظریں مرکوز ہیں۔
کب  اورکہاں اسمبلی انتخابات ہوںگے؟
۲۰۱۵ء
بہار
۲۰۱۶ء
آسام، کیرالا، پانڈیچری، تمل ناڈو اور مغربی بنگال
۲۰۱۷ء
 گوا، گجرات، ہماچل پردیش، منی پور، پنجاب، اترپردیش اور اتر اکھنڈ
۲۰۱۸ء
چھتیس گڑھ، کرناٹک، ایم پی، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، راجستھان اور تریپورہ

     آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۷۵؍ نشستیں خالی ہورہی ہیں، جن میں بہار بھی شامل ہے۔  ۲۰۱۷ء میں صرف ۱۰؍ نشستیں خالی ہوںگی لیکن اس کے بعد یعنی ۲۰۱۸ء میں ایک بار پھر ۶۸؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں، کہاں کتنی سیٹیں خالی ہورہی ہیں۔
بہار
    بہار میں آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں اورسبکدوش ہونےوالے ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ بی جے پی کی کوشش کم از کم تین سیٹوں  پر قبضہ کرنے کی ہے۔
 اترپردیش
     یہاں  ۲۰۱۶ء میں راجیہ سبھا کی ۱۱؍ سیٹیں خالی ہوںگی لیکن یہاں بی جے پی کا خواب پورا نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ اسمبلی میں اس کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ وہ کوئی تیر مار سکے۔اس میں بہت مشکل سے بی جے پی ایک سیٹ لے سکے گی جبکہ باقی ماندہ سیٹوں پر ایس پی اور  بی ایس پی ہی قابض ہوںگی۔
مہاراشٹر
    آئندہ سال یہاں  ۶؍ سیٹوں پرالیکشن ہوگا۔ فی الحال ان میں سے کانگریس اوراین سی پی کی ۲۔۲؍ سیٹیں ہیں جبکہ بی جے پی اور شیوسینا کی ایک ایک۔  بی جے پی کا یہاں فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ اسے مزید ۳؍سیٹیں مل سکتی ہیں۔
مدھیہ پردیش
    یہاں ۳؍ سیٹیں خالی ہوں گی۔ ان میں سے ایک پرکانگریس اور ۲؍ پر بی جے پی قابض ہے۔ آئندہ بھی صورتحال کم و بیش ویسی  رہنے کی امید ہے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی تینوںسیٹیں جیت لے۔
    راجستھان
    آئندہ سال یہاں ۴؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا جن میں سے چاروں بی جے پی جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ فی الحال ان میں سے ایک پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ تین سیٹیں کانگریس کی ہیں۔
      علاوہ ازیں ان تین برسوں میں، تمل ناڈو ، پنجاب، مغربی بنگال، آسام اور آندھرا پردیش میں بھی راجیہ سبھاکی سیٹیں خالی ہوںگی لیکن تنہا بی جے پی کیلئے اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے۔ یوپی، بہار اور بنگال میں اس کی کارکردگی  بہت اچھی رہی تو بھی وہ ۷۰؍ نشستوں  سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ویسے بی جے پی کو اتنی سیٹیں مل گئیں تو بھی اس کی من مانی کافی بڑھ جائے گی