Wednesday 30 September 2015

Teachers day prog

یوم ِاساتذہ کی تقاریب

 ہر سال کی طرح امسال بھی ۵؍ ستمبر کویوم اساتذہ کی تقریب پورے ملک میں نہایت زور و شور سے منائی گئی۔ اس سلسلے میں اردو اسکولیں بھی پیچھے نہیں تھیں بلکہ اگر یہ کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اردو اسکولیں پیش پیش تھیں۔  اس دن کو مختلف اسکولوں میں مختلف طریقوں سے  منایا گیا۔ کہیں اساتذہ کی شان میں تقریریں ہوئیں تو کہیں طلبہ کو ایک دن کیلئےٹیچرس کے کردار میں پیش کرکے انہیں ذمہ دار بنانے کی کوشش کی گئی۔ کہیں طلبہ میں مسابقتی پرواگرم منعقد ہوئے تو کہیں اساتذہ کے مابین  مقابلہ ہوا۔ کہیں اساتذہ کرام کو انعام و اعزاز سے نوازا گیا تو کہیں  انہیں احتساب کی بھی دعوت  دی گئی۔
     بھیونڈی اردو والوں کی بستی ہے۔ ممبئی اوردیگر شہروں کے مقابلے یہاں اردو اسکولیں زیادہ فعال ہیں۔ ایک جانب جہاں دوسروں شہروں میں اردو اسکولیں بند ہورہے ہیں یا اردو کے ڈویژن ختم ہو رہے ہیں، وہیں دوسری جانب بھیونڈی میں نہ صرف اردو اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ حکومت سے نئے  ڈویژن کی بھی مانگ کی جارہی ہے۔ یہاں کئی جونیئر کالج بھی اردو میڈیم میں بڑی شان سے چل رہے ہیں۔ ۵؍ ستمبر کو یہاں تقریباً ہرا سکول اور کالج میں پروگرام منعقد ہوئے۔صبح ۱۰؍ بجے سے دوپہر ایک بجے تک میں تین پروگرام میں  شریک ہوا جن میں سے ۲؍ پروگرام کی نوعیت کافی بڑی تھی۔ ایک اسکول جو نسبتاً  چھوٹا ہے، پسماندہ علاقے میںواقع ہے اور محدود وسائل رکھتا ہے،  میں وہاں زیادہ دیر تک رکا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کچھ خاص ہوگا لیکن میری سوچ غلط ثابت ہوئی، پروگرام بہت اچھا رہا۔ 
    نیونیشنل اردو ہائی اسکول، شانتی نگر میں اس دن تمام پروگرام اساتذہ کرام نے پیش کئے۔ حمد، نعت اور استقبالیہ گیت سے لے کر تقریر تک۔ سب کچھ  ٹیچرس  نے پیش کئے۔ عام طور پر اساتذہ صرف تقریریں  کرتے ہیں ، حمد ، نعت اور استقبالیہ گیت کی ذمہ داریاں طلبہ کے سر پر ہی ڈالی جاتی ہیں۔  ایک اچھی بات یہ بھی رہی کہ ٹیچرس کا پرفارمنس دیکھنے کیلئے طلبہ اور ان کے والدین موجود تھے۔ اس کے باوجود اساتذہ کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ وہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کررہے تھے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مرتضیٰ سر نے کہا کہ’’ اساتذہ کرام  میں بے پناہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں لیکن انہیں اپنے فن کے مظاہرے  کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یہ پورے سال صرف طلبہ کو تیار کراتے رہتے ہیں اور انعامات سے اسکول کے ریک سجاتے رہتے ہیں۔   اسلئے ہم نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ یوم اساتذہ کو پوری طرح سے اساتذہ ہی کے نام کردیا جائے اور ماشاءاللہ یہ کوشش بہت کامیاب رہی۔‘‘ میں محسوس کررہا تھا کہ جب کوئی  ٹیچر اسٹیج پر آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا تو تمام ساتھی اساتذہ کے چہروں پر مسرت کی لہریں دوڑتی تھیں اور طلبہ بھی نہال ہورہے تھے۔ وہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ اس طرح دیگر اسکولوں میں بھی اساتذہ کو اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملنا چاہئے       ۔

No comments:

Post a Comment