Wednesday 30 September 2015

Power loom agitation

پاور لوم کا خاموش احتجاج

گاندھیائی اصول پر عمل کرتے ہوئے بھیونڈی کےپاورلوم مالکوں  نےحکومت اور استحصالی قوتوں کے خلاف اپنے کاروبارکو  بطور احتجاج  ۱۵؍دنوںتک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے.... اور اعلان کے مطابق  بندکا آغاز بھی ہوچکا ہے  جسےجزوی طور پرکامیاب کہا جا سکتا ہے۔   یہ ’بند‘ پوری طرح  سےکامیاب کیوں نہیں ہے، اس کی وجہ ’بند‘ کااہتمام کرنےوالوں کی ناقص منصوبہ بندی اور کچھ حد تک ان کی ’نیتوں‘ میں فتور کا بھی مسئلہ ہے لیکن ابھی اس پر گفتگو کا وقت نہیں ہے کیونکہ ابھی ضرورت اس بات کی ہےکہ جس مقصد کیلئے بند کیا گیا ہے، وہ حاصل کیا  جائے۔
    دن رات شور مچاکر زندگی کا ثبوت پیش کرنے والی اور مزدوروں کے ساتھ ۲۴؍ گھنٹوں تک مسلسل محنت و مشقت کرنے والی ان پاورلوم مشینوں نے پوری طرح سے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ صبح ان خاموش کارخانوں کو دیکھا تو ایک عجیب سی کیفیت ہوئی۔ ہر طرف سناٹے کا عالم تھا لیکن  یہ سناٹا ایسا نہیں تھا جس سے خوف آئے بلکہ یہ خاموشی ایسی تھی جس پر ترس آئے۔  ایسا لگ رہاتھا جیسے کوئی معصوم بچہ اس امید پر روٹھ گیا ہے کہ ابھی کوئی آئے گا، اسے منانے کی کوشش کرے گا، اس کے مطالبات سنے گا ، ا نہیں پورا کرنے کی یقین دہانی کرائے گا اور اس طرح اس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن ایساکچھ نہیں ہو رہا ہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے،  ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔کیا ہوگا؟ کیا کوئی منانے آئے گا یا اس روٹھے ہوئے بچے کو خود ہی مراجعت  اختیار کرنی پڑے گی؟ حکومت کے موجودہ اورسابقہ رویے کو دیکھتے ہوئے اس بات کی امید تو نہیں ہے کہ ان کی اشک شوئی کیلئے کوئی آئےگا؟
       بھیونڈی میں تقریباً ۷؍ لاکھ رجسٹرڈ پاور لوم ہیں جن پر یومیہ۴؍ کروڑ میٹر سے زائد کپڑے تیار ہوتے ہیں جن کی مالیت ۷۰؍ کروڑ روپوں سے زائد ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو صرف ویٹ کی صورت میں حکومت کو بھیونڈی  سے یومیہ تقریباً ۳؍ کروڑ روپے ملتے ہیں۔  پاور لوم کے اس خاموش احتجاج سے حکومت کو بھی ۵۰؍ کروڑ روپوں کا چونا لگنے والا ہے ..... لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
          ورنہ کیا بات ہے کہ ریلوے کے بعد سب  سے زیادہ روزگار فراہم کرنےوالی اس صنعت کے تعلق سے حکومت یوں غیر سنجیدہ  ہے؟ ۷؍ لاکھ پاور لومس کو جاری وساری رکھنے کیلئے تقریباً ۵؍ لاکھ کی افرادی قوت درکار ہوتی ہے اور ہر شخص اوسطاً ۱۰؍ افراد کی کفالت کرتا ہے۔  ڈائمنڈ مارکیٹ ایک دن کیلئے بندہوتو ریاست سے مرکز تک ہنگامہ برپا ہوجاتا  ہے اور یہاں ۵۰؍ لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں لیکن سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔  دراصل یہ ہماری سیاسی بے وقعتی ہے۔ ہم نے خود کو اس قابل رکھا ہی نہیں ہے کہ کوئی ہماری بات سنے۔  ہماری بات اس وقت سنی جائے گی جب سرکار کو یہ احساس ہو کہ  نہ سننے پر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

No comments:

Post a Comment